کتاب: مونتاژ (افسانوی مجموعہ)

کتاب: مونتاژ (افسانوی مجموعہ)

رفیع حیدر انجم
ارریہ، بہار ، ہند

فارحہ ارشد کے افسانوں کا مجموعہ "مونتاژ" کا تعارف پیش کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ یہ افسانے قاری کو اپنے اختتام پر ڈنک مارتے ہیں اور یہ کہ افسانوں کی قرات راکھ میں دبی چنگاریوں کا عرفان ہیں. اس وقت میرے ذہن میں مصنفہ کے چار چھ افسانوں کی بازگشت تھی جو مجھ تک سوشل میڈیا کے توسط سے پہنچے تھے. (سوشل میڈیا بھلے ہی کوئلے کی کان ہو مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہیرے بھی اسی جگہ ملتے ہیں.)
” مونتاژ" کے تمام افسانے پڑھ لینے کے بعد میں اب بھی اپنے سابقہ اسٹیٹمنٹ پر قائم ہوں. لیکن یہاں جواز کے طور پر چند افسانوں کے حوالے سے قدرے تفصیل سے گفتگو کرنا چاہوں گا. بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ افسانے بذات خود مجھ سے محو گفتگو ہوں گے کہ جب سرد خانے میں رکھی ہوئی لاوارث لاشیں (افسانہ: آدھی خود کشی) بول سکتی ہیں تو یہ افسانے کیوں نہیں بول سکتے؟
مجھے نہیں معلوم کہ فارحہ ارشد نے پہلا افسانہ کب لکھا یا یہ کہ انھوں نے بہ طور فکشن نگار کتنے عرصے کا سفر طے کر لیا ہے. میری یہ لاعلمی اس لحاظ سے بہتر ہے کہ ان کے افسانوں کو کسی دہائی (Decade) یا رجحان (Trend) کے تناظر میں دیکھے بغیر صرف افسانوں کی باتیں ہوں گی.
اس مجموعہ کے پہلے افسانے "بی فور دی ایور آفٹر" نے انگلش رائٹر جیکلین وڈسن کےناول کی طرف دھیان دلایا تھا مگر وہاں کہانی دوسری ہے. عنوان کسی بھی افسانے کا نچوڑ ہوتا ہے. برجستہ عنوان رکھنا بھی ایک فن کاری ہے. کرشن چندر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عنوان رکھنے کے معاملے میں کچے تھے. بسیار نویسی بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے. اس فن میں منٹو کا ہاتھ کوئی پکڑ نہیں سکتا. فارحہ ارشد کے تمام افسانوں کے عنوان بیانیہ کا جز لاینفک معلوم پڑتے ہیں. متعلقہ افسانہ پر توجہ مرکوز کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ فن کارانہ مہارت کا دائرہ وسیع تر معنوں میں ہوتا ہے جس میں آرٹس اور کرافٹ کے تحت فن تعمیر کی بھی اپنی اہمیت رہی ہے. زمانہ قدیم سے فن تعمیر نے انسانوں کے نہ صرف یہ کہ مادی بلکہ روحانی تقاضوں کو بھی پورا کیا ہے. عمارت کی تعمیر میں فن نقاشی کی الگ ایک روایت رہی ہے. ” پچی کاری، شیشہ گری اور مینا کاری" اس فن کے لازمی عنصر ہیں. اس فن سے منسلک معمار اپنی بےمثل کاریگری کے لیے بڑی شہرت رکھتے تھے. لیکن یہ فن امتداد زمانہ کے ہاتھوں ناقدری کا شکار ہوتا گیا. اس افسانہ میں لال حسین ایسا ہی ایک فن کار ہے جو اب عمر دراز ہو چکا ہے اور ایک حد تک ذہنی توازن بھی کھو چکا ہے. ان کے بیٹے آبا و اجداد کے پیشے کو ترک کرکے بدیس جا بسے ہیں کہ اس پیشے میں اب نہ عزت تھی اور نہ دولت. لال حسین کی بیٹی زہرا اپنے اجداد کے کھوئے ہوئے یا ناقدری کی مار جھیلتے ہوئے فن کو اپنے باپ سے سیکھ کر اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا عزم لیتی ہے. لال حسین اب تک اس مغالطے میں تھا کہ بیٹے ہی یہ کام کر سکتے تھے. مگر یہاں زہرا نے نہ صرف اس مفروضے کو توڑا ہے بلکہ صارفی سماج کے ایک تاریک گوشے کو منور کرنے کا کام بھی کیا ہے. یہاں زہرا کی نسائی حسیت (feminine sensibility) کا بیان اس افسانے کو ارفع مقام تک لے جاتا ہے. نسائی حسیت کا کوئی نہ کوئی زاویہ "مونتاژ" کے بیشتر افسانوں میں موجود ہے. اسے آپ مرد تفوق سماج میں ایک متبادل طاقت (alternate power) کے طور پر دیکھ سکتے ہیں. نسائی حسیت کو اگر مثبت مواقع مل جائیں تو کردار کی شخصیت شفافیت کی مثال بن جاتی ہے اور اگر سپورٹ سسٹم ساتھ نہ دے تو بعض اوقات نہ صرف یہ کہ نفسیاتی گرہیں پڑ جاتی ہیں بلکہ یہ ٹراما کی حد تک بھی جا سکتی ہے. افسانہ "بی بانہ اور زوئ ڈارلنگ" اور "گرہن گاتھا" میں ان سچویشنز کو محسوس کیا جا سکتا ہے. اول الذکر افسانہ میں زوئ الیکٹرا کمپلیکس میں مبتلا ہوتی ہے اور "گرہن گاتھا" میں پھپھو کے کردار کی لڑکی غیر فطری جنسی اختلاط (Sodomy) کی شکار ہو جاتی ہے. ظاہر ہے کہ اس میں ان نسائی کرداروں کا نہیں قصور کہ یہ صدیوں سے سماج کی مٹی میں اپنی جڑیں جما چکی صنفی امتیاز، فرسودہ روایات اور کہنہ عقائد کے خلاف مزاحمت کا اعلان ہیں. موضوع کی مناسبت سے ان کرداروں کے نام، مقام اور افعال و اعمال بدلتے رہتے ہیں.
احتجاج، انحراف اور مزاحمت کے پرتو ان کے بیشتر افسانوں کے بین السطور میں موجود رہتے ہیں. مثال کے طور پر ایک تصویر خدا کے بغیر، حویلی مہر داد کی ملکہ، ننگے ہاتھ، شب جائے کہ من بودم جیسے افسانے خود کلامی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں. لیکن یہ تعرض نعرے کی شکل اختیار نہیں کرتے کہ نعرے بازی تخلیقی تموج کا حصہ نہیں ہو سکتے. یہ افسانوں کے inner surface میں چنگاریوں کی مانند موجود ہوتے ہیں اور جو سماجی شعور کی پھونک کے منتظر ہوتے ہیں.
میرا مقصد "مونتاژ" کے افسانوں کا summary یا تجزیہ پیش کرنا نہیں ہے بلکہ میں ان افسانوں میں تکنیک` اسلوب اور پیش کش کی ندرت و انفرادیت کو اپنی سمجھ، فہم اور ادراک کا حصہ بنانا چاہتا ہوں. میں جب راکھ کی بات کرتا ہوں تو میری مراد افسانوں کے outer surface سے ہے اور یہ راکھ گھاس پھوس کے جل جانے کے بعد کا پس انداز کیا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ کتھا چندن کی وہ خوشبو ہے جو اگر قاری کی قوت شامہ محسوس کر لے تو اس پر کتھا کائنات کے اسرار و رموز کھل جائیں. چند اقتباسات وضاحت میں معاون ہو سکتے ہیں.
” اور جب دنیا میں ٹرانس ہیومنزم کے تجربات کر کے عقاب سی تیز نظر، کتے جیسی قوت شامہ،شیر جیسے دل،چیتے کی سی چستی، بلی جیسی لچک، ہاتھی کی سی حساسیت پیدا کرنے کے لیے انسان کے ڈی این اے اور ان جانداروں کی خصوصیات والے ڈی این اے ملاکر سپر ہیومن تشکیل دیے جا رہے تھے، عبادتوں کی لمبائیاں ناپی جا رہی تھیں، ادق فلسفہ اور منطق مزید گاڑھے کیے جا رہے تھے، نئی جگہوں کے لیے نئی تدابیر سوچی جا رہی تھیں اور اس کی عمر کے لڑکے اپنے غسل خانوں میں صابن کی چکیاں گھسا کر بڑھے ہوئے ہارمونز کو پانیوں میں بہا رہے تھے. وہ کچے گھر کا سادہ معصوم سا لڑکا زمینی حقائق سے جڑے جبر کے سیاہ ماتھے پر انکار کا روشن کلمہ لکھ رہا تھا." (افسانہ: زمین زادہ)
"ایک رقص وہ تھا جو اس کا بدن مانگتا تھا اور وہ خوب ناچتی تھی اور ایک رقص جو اس کا اپنا جسم مانگتا تھا ……… آدمی کا جسم، آدم کا جسم…… ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں سفر کرتا. ایک مقام تو ساکت کرتا ہے. تحیر مر جاتا ہے اور بنا تحیر تو یہ دنیا کچھ بھی نہیں، یہ جسم کچھ بھی نہیں، بس بےحس مردے کی سی قبر." (افسانہ: شب جائے کہ من بودم)
ان اقتباسات میں الفاظ کے کلاسیکی رچاؤ، زبان کے تخلیقی برتاؤ اور معنی سے زیادہ معنی خیزی کی اہمیت قابل تحسین ہیں. "مونتاژ" کے افسانوں میں عورت کے حسن و جمال، کروفر، بےنیازی (بعض جگہوں پر جذبۂ انتقام / افسانہ : حویلی مہرداد کی ملکہ) کے لیے سانپ، ناگ اور ناگن کی تمثیل کا ذکر بار بار ملتا ہے.
"ناگ پھن پھیلاتا رسوئی خانے کی طرف لپکا."
"مہتاب بی بی عرف متو عرف ناگن عرف بلا حویلی آئی تو اس کا حسن و شباب دیکھ کر اسے کونوں کھدروں میں چھپانے لگیں."(افسانہ :ان سکرپٹڈ)
ناگ، ناگن منقش کہانی پٹاروں سے برآمد ہوتے ہیں. لوگ باگ انھیں بےضرر سمجھتے ہیں کہ ان کے زہریلے دانت برسوں قبل توڑ دیے گئے تھے اور انھیں پٹاروں میں قید کر دیا گیا تھا. مگر یہ مغالطہ جلد ہی دور ہو جاتا ہے. یہ ناگ پٹاروں میں رہ کر اپنی داخلی قوت زرخیزی کے سبب پھر سے زہریلے ہوگئے ہیں. یہ فیوڈل سوسائٹی کے پلے بڑھے بگڑیل نوجوان اور عیاشی میں گلے تک ڈوبے ادھیڑ عمر کے مردانوں کو ایسے ڈستے ہیں کہ ان کا کاٹا پانی نہ مانگے.
آج کل ادبی فضا میں ولیم ایمس کا یہ قول خوب گردش کر رہا ہے کہ ‘اگر آپ کسی کو ناراض نہیں کر سکتے تو لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے.’ دوسری طرف ایک ٹرینڈ یہ بھی ہے کہ ہر کوئی خدا سے ناراض ہے. ناراض ہونا بھی چاہئے کہ کائنات کا سب سے بڑا قلم کار / خالق تو وہی ہے………….. ہمارا اور آپ کا خدا. اس ناراضی کا روح فرسا منظر تو یہ ہے کہ گاؤں سے بھاگے ہوئے ایک نابالغ لڑکے کو لاہور کی فٹ پاتھ پر سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے ایک کمبل والے خدا نے ایسے ناراض کر دیا کہ خدا کی خوش نودی پر سے اس کا ایقان ہی اٹھ گیا. (افسانہ : ڈھائی گز کمبل کا خدا)
افسانہ "امیر صادقین! تم کہاں ہو؟" نظریاتی محبت کے انسلاکات کا بیانیہ ہے جس کے تار و پود بیوروکریسی کے کرپشن سے جڑے ہوئے ہیں اور جس کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا وجود گم کر دیا جاتا ہے. یہ معصوم عوام پر سسٹم کا جبر ہے. "مونتاژ" میں ایسے کئی افسانے انسانی ہمدردی، رواداری، غم گساری، احتجاج و انحراف کتھا محبت کی سوندھی مٹی میں گندھے ہوئے ہیں مگر یہ تمام مثبت جبلتیں فرسودہ روش سے نہ صرف مبرا ہیں بلکہ جذبۂ محبت کا ایک نیا ڈکشن سامنے لاتے ہیں.
فارحہ ارشد کے یہاں روایتی بیانیہ جس میں واقعہ در واقعہ کا مربوط سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے، کا عمل نہیں ملتا. حتی کہ افسانہ "تلووں سے چپکا آخری قدم" میں بھی نہیں جس کا مرکزی کردار لمحہ لمحہ اپنی بینائی کھوتا جا رہا ہے اور جو ہر لمحہ ایک نئے سانحہ سے گزرتا رہتا ہے. کیا اس زائل ہوتی ہوئی بصارت کا اس کی بصیرت سے کوئی علاقہ بھی ہے؟
اس کا جواب افسانے میں موجود ہے.
"تاریکی ظالم ہے، جابر ہے……. سب کچھ ہڑپ کر جاتی ہے. آس بھی، امید بھی، حتی کہ زندگی بھی مگر پھر بھی سرد لاش جیسی ہے. زندگی ہڑپ کر بھی اس میں زندگی کی کوئی رمق نہیں." وہ آنکھیں بند کیے بڑبڑائے جا رہا تھا. "مجھے دروازے تک پہنچنا ہے. بس اس تک پہنچ جاؤں." (افسانہ: تلووں سے چپکا آخری قدم)
ظاہر ہے کہ فارحہ ارشد جیسی ذہین افسانہ نگار ایک فرد کی بینائی زائل ہوتے چلے جانے کی روداد محض کا افسانہ نہیں لکھ سکتیں.
ایک افسانہ "نطاشا پریرا! آئی لویو" کا ڈسکورس گرچہ دانشورانہ جنسی کشش (Sapio sexuality ) کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے مگر افسانہ آخری پیراگراف میں یہ احساس شدت سے کراتا ہے کہ ایسے افراد جذبۂ نرگسیت سے مغلوب ہوا کرتے ہیں. نطاشا کا موت کو قریب سے محسوس کرنا اور اسی کے ساتھ اپنی ذہانت کی بے بضاعتی کا احساس افسانے کو فکری و فنی نفسیات تک لے جاتا ہے.
تمام افسانوں میں الفاظ کا انتخاب، اختصار، جامعیت اور کفایت لفظی دوسری اہم خوبیاں ہیں مگر ان تمام قرینوں میں شعوری کوشش کا عمل دخل نہیں ملتا. ان افسانوں میں استعاراتی نظام کا فطری برتاؤ قاری کو دوران قرات ٹھہر کر لطف اندوزی کے مرحلے سے گزارتا ہے. کچھ افسانے مکرر قرات پر مائل کرتے ہیں. مگر یہ افسانے تجرید و ابہام کے لبادے میں لپٹے ہوئے ہرگز نہیں ہیں. آخر میں، میں فکشن کے ایک بےباک و بےلاگ ناقد مقصود دانش کے اس خیال کی تائید کرنا چاہوں گا کہ "کوئی بھی کتاب یا کہانی مکمل سمجھ میں آ جائے تو اس میں دل چسپی باقی نہیں رہتی." سو فارحہ ارشد کے افسانوں کا مجموعہ "مونتاژ" ایک بار مکمل پڑھ لینے کے بعد ہمیشہ کے لیے بک شلف میں رکھ دینے کے لیے نہیں ہے. یہ کتاب ایک وقت گزر جانے کے بعد پھر سے آپ کے ذہن پر دستک ضرور دے گی. میرا خیال ہے کہ ایک بہترین فن پارے کی شناخت بھی یہی ہے. ***
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش:کتاب: دیواروں کے راز (افسانوی مجموعہ)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے