متعدد ادبی سمتوں کا مسافر: ضیا فاروقی

متعدد ادبی سمتوں کا مسافر: ضیا فاروقی

جمال عباس فہمی
رابطہ: 9392522121

ضیا فاروقی کی پیدائش سندیلہ میں ہوئی، تعلیم اور روزگار کی غرض سے کان پور میں زندگی کا بیشتر حصہ گزارا اور اب گزشتہ پندرہ برسوں سے بھوپال کی ادبی فضا کو منور کر رہے ہیں۔
ضیا فاروقی بڑے فن کار قلم کار ہیں۔ ان کے نقوش قدم اردو ادب کی مختلف سمتوں میں نمایاں طور سے نظر آتے ہیں۔ ان کا تعارف کسی ایک ادبی جہت کے حوالے سے کرایا جائے تو وہ نا مکمل بھی ہوگا اور ان کی ادبی حیثیت کے ساتھ سراسر نا انصافی بھی۔ ضیا فاروقی شاعر بھی ہیں، افسانہ نگار بھی. ترجمہ نگار بھی ہیں اور تنقید نگار بھی۔ وہ محقق بھی ہیں اور ترتیب کار بھی۔ وہ مضمون نگار بھی ہیں اور تبصرہ نگار بھی. ان کی اب تک 9 کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں شعری اور افسانوی مجموعے بھی ہیں اور تنقیدی و تحقیقی مواد بھی۔ انھوں نے جہاں کان پور کی ڈھائی سو سالہ منظوم تاریخ لکھی وہیں مطالب الغالب والے سہا مجددی کا مونوگراف بھی لکھا۔ در حقیقت ان کی ادبی خدمات کا احاطہ کرنے کے لیے چودہ پندرہ سو الفاظ پر مشتمل ایک مضمون ناکافی ہوگا۔ یہاں دریا کو کوزے میں سمونے والا محاورہ دم توڑتا نظر آتا ہے۔ وہ ایک ادبی خانوادہ کی وراثت سنبھالے ہوئے ہیں. ضیا فاروقی کی ادبی کاوشوں پر کچھ لکھنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
ضیا فاروقی 12 ستمبر 1947 کو اتر پردیش کے ضلع ہردوئی کے شہر سندیلہ میں ایک زمین دار اور ادب دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے کان پور یونی ورسٹی سے گریجویشن کیا اور یونی ورسٹی میں ہی چالیس سال تک ملازمت کی۔ ان کا خانوادہ اہل قلم کا خانوادہ ہے۔ ان کے والد چودھری عالم رضا خود بہت اچھے شاعر تھے۔ ان کے بڑے بھائی چودھری عاصم رضا بھی شاعر تھے اور انور سندیلوی کے زیر تخلص شاعری کرتے تھے، انھوں نےشالیمار فلمز پونا میں اخترالایمان کے ساتھ کئی فلموں کے لیے نغمے لکھے۔ چچا خان بہادر چودھری نبی احمد انگریزی دور حکومت میں اعلا پولس آفیسر تھے۔ وہ بھی صاحب قلم تھے۔ انھوں نے متعدد کتابیں تصنیف کیں، ‘تذکرۂ مورخین`، ‘مشاہیر سندیلہ` اور ‘مرقع بنارس` جیسی مشہور کتابیں ان کی ہی قلمی کاوش کا نتیجہ ہیں۔ ضیا فاروقی کو ننیہال بھی صاحبان علم و ادب سے مرصع نصیب ہوئی۔ ان کے نانا مولانا ابرار حسین فاروقی عثمانیہ کالج حیدر آباد کے پرنسپل رہے۔ وہ بھی متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ علم و ادب کے علاوہ ضیا فاروقی کو روحانی سلسلہ سے تعلق رکھنے کی بھی سعادت نصیب ہے۔ ان کے جد اعلا قاضی مبارک اولیا گوپاموی حضرت نظام الدین اولیا کے مرید اور خلیفہ تھے۔ ضیا فاروقی کے خاندان میں جید علما گزرے ہیں، جن کے تذکرے "نزہت الخواطر" اور "ماثرالکلام"وغیرہ میں صراحت کے ساتھ موجود ہیں۔
ضیا فاروقی کی پیدائش سندیلہ میں ہوئی، تعلیم اور روزگار کی غرض سے کان پور میں زندگی کا بیشتر حصہ گزارا اور اب گزشتہ پندرہ برسوں سے بھوپال کی ادبی فضا کو منور کر رہے ہیں۔ ان تین شہروں سے اپنی وابستگی کو انھوں نے اپنے ایک شعر میں یوں بیان کیا ہے۔
میں کبھی تھا کانپوری، تھا کبھی سندیلوی
اب تو مـدت سے پتہ میرا ضیــا بھوپال ہے
صاحبان علم و قلم کے خانوادے کا فرد اگر خود صاحب ادب و قلم ہو تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔ ضیا فاروقی نے شاعری میں بھی اپنی شناخت قائم کی ہے اور فکشن نگاری میں بھی جودت طبع کے جوہر دکھائے ہیں۔ انھوں نے تنقید اور تحقیق کے بحر بے کراں میں بھی شناوری کی ہے اور ترجمہ نگاری میں بھی اپنی انفرادیت کے نقوش چھوڑے ہیں۔ اردو ادب کے قاری کو یہ فیصلہ کرنے میں بڑی دقت پیش آتی ہے [کہ] ضیا فاروقی فطری طور پر شاعر ہیں یا فکشن نگار، ناقد ہیں کہ محقق۔ جہاں تک ضیا فاروقی کی شاعری کا تعلق ہے تو انھوں نے غزلیں بھی خوب کہی ہیں اور نظمیں بھی لکھی ہیں۔ لیکن شاعری کے حوالے سے اگر مثنوی ‘کانپور نامہ` کا ذکر نہ کیا جائے تو ان کی شعری خدمات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ مثنوی ‘کانپور نامہ` انھوں نے ایک ایسے دور میں نظم کی  جب اردو شاعری کی یہ صنف معدوم ہو چلی تھی۔ ‘کانپور نامہ` در حقیقت کانپور کا کثیر جہتی منظر نامہ ہے۔
یہ مثنوی کان پور کی ڈھائی سو سال کی ایسی منظوم ادبی تاریخ ہے جس سے کان پور کی لسانی قدامت کا بھی پتا چلتا ہے۔ مثنوی میں ان تمام ادیبوں، شاعروں اور علماے کرام کے ناموں کا ذکر ہے جن کا تعلق کان پور سے رہا ہے۔ لطف یہ ہے کہ شاعروں اور ادیبوں کے صرف نام ہی نہیں ہیں بلکہ ان کی تصنیفات کا ذکر بھی موجود ہے۔ ضیا فاروقی کی مثنوی کی بدولت ان ہستیوں کے نام جو تاریخ کے نہاں خانوں میں گم ہو گئے تھے وہ لوگوں کے حافظے میں دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں۔ مثنوی کچھ اس طرح سے شروع ہوتی ہے:
ہے گنگا کے تٹ پر بسا کانپور
اودھ سے ہے نزدیک دلی سے دور
صدی دو صدی سے زیادہ نہیں
کہ منظر بہت یہ پرانا نہیں
وہ بستی جو صدیوں سے گمنام تھی
وہ چمکی جو گوروں کی پلٹن رکی
جہاں تک غزل کا تعلق ہے تو ضیا فاروقی کے یہاں کلاسیکی روایات کی پاس داری بھی ہے اور حسیت کی تلخی بھی۔ ان کے یہاں احتجاج کے وہ تمام رنگ ہیں جن سے بیسویں صدی کا نصف آخر عبارت ہے۔ ضیا فاروقی کے یہاں فردا کی قوی امید نظر آتی ہے۔
غم حیات کو یوں خوشگوار کرلیا ہے
کہ ہم نے حال کو ماضی شمار کرلیا ہے

یہ سفر یہ ڈوبتے سورج کا منظر اور میں
جانے کب ہو پائیں گے باہم میرا گھر اور میں

کون جانے آج بھی کرتے ہیں کس کا انتظار
یہ شکستہ بام و در، روزن، کبوتر اور میں

مت پوچھیے کیا جیتنے نکلا تھا میں گھر سے
یہ دیکھیے کیا ہار کے لوٹا ہوں سفر سے

ابھی تلک تو چلے ہمرہی میں غیروں کی
اب اپنے ساتھ بھی کچھ دور چل کے دیکھا جائے

اس تجسس میں تھک گئے کچھ اور
دشت امکاں سے ہے پرے کچھ اور
ایک حساس شاعر کی طرح ضیا فاروقی کے یہاں بھی کربلا اپنی تمام تر حسیت کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔
شعور تشنگی ایک روز میں پختہ نہیں ہوتا
مرے ہونٹوں نے صدیوں کربلا کی خاک چومی ہے

وہ جانتا ہے مجھے کہ کیا ہوں
میں تشنہ ہونٹوں کی اک دعا ہوں

تڑپ کے نکلوں تو آبِ زم زم
نکل کے تڑپوں تو کربلا ہوں
شعر و سخن کی طرح ضیا فاروقی فکشن نگاری میں بھی اپنا منفرد طرز رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا تانا بانا آج کے دور کی معاشرتی نا ہمواریوں اور زندگی کے کیف و کم سے عبارت ہے۔ بیانیہ اور سلاست پر ان کی مضبوط گرفت ہے۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ‘داستان رنگ` کے عنوان سے منظر عام پر آیا تو فکشن کے شائقین نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ افسانے ‘نیا رشتہ دار` کے ایک کردار بابو شرافت علی کے تعارف کی زبان کی سلاست ملاحظہ کیجیے:
”بڑی باغ و بہار طبیعت پائی تھی۔ خصوصاً صنف نازک کے معاملے میں تو احباب کو بھی ان پر رشک آتا تھا۔ بقول خود ان کے نوجوانی سے بڑھاپے کی سرحد تک آتے آتے چالیس معاشقے وہ اپنی زندگی کی رنگین کتاب میں درج کرچکے تھے… مگر وہ جو کہتے ہیں کہ بہتا پانی بھی کہیں نہ کہیں مرتا ہے سو یہ آخری عشق بھی ان کے لیے سوہانِ روح ہوگیا۔“
ضیا فاروقی ترجمہ نگاری کے بھی ماہر ہیں۔ انھوں نے بہار کی مشہور ہندی مصنفہ پدم شری ڈاکٹر اوشا کرن خان کے دو ناولوں ‘حسینہ منزل` اور ‘ اگنی ہنڈولہ` کا ہندی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ترجمہ کیا کیا ہے ضیا فاروقی نے ناولوں کو طبع زاد بنا لیا ہے۔ ‘حسینہ منزل` ناول کا ایک اقتباس زبان و بیان پر ضیا فاروقی کی گرفت کا آئینہ دار ہے:
”لاکھ کی چوڑی میں ستارے چپکاتی سکینہ ہونٹوں ہی ہونٹوں میں بدبدائی۔ اف پلکیں چپک رہی ہیں۔ پسینہ آنکھوں میں گھسا جارہا ہے۔ اسے لگا کہ کوئی آگے آکر کھڑا ہو گیا ہے۔ اس نے منھ اوپر اٹھایا… وہی بوڑھا ہے۔ ہر روز لاٹھی ٹیکتا چلا آتا ہے۔ نہ کوئی کام نہ کاج" تھوڑی دیر سکینہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی بغیر کسی اپنائیت اور لگاؤ کے۔ اور وہ بوڑھا جیسے سکینہ کی چکمتی ہوئی آنکھوں میں کھو گیا ہو، دیر تک نہارتا رہا۔ یہ بوڑھا اسی طرح آتا اور چپ چاپ تھوڑی دیر کھڑا رہتا پھر خاموشی سے اسی طرح چلا جاتا۔ کبھی کبھی سکینہ پوچھ لیتی کیا لوگے بوڑھاؤ؟ کسی کو ڈھنونڈ رہے ہو کیا؟ انکار میں اپنا سر ہلاتا بوڑھا اپنی لاٹھی ٹھک ٹھک کرتا چلا جاتا۔ آج پھر سکینہ کچھ دیر تک اسے دیکھتی رہی پھر نہ جانے کیا سوجھی کہ پوچھ بیٹھی۔ بابا پانی پیوگے۔ روز آنے والے اس بوڑھے سے سکینہ کا گویا پہلا تعارف تھا۔ اس کے سوکھے ہونٹوں کو دیکھ کر سکینہ کا دل بھر آیا۔ بوڑھا بھی احسان مندی کے انداز میں دہلیز پر بیٹھ گیا۔"
ضیا فاروقی نے مومن خاں مومن کی رباعیات کو مرتب کرکے تاریخی ادبی کارنامہ انجام دیا ہے۔ ‘رقص غبار` کے عنوان سے انھوں نے اپنی یادوں کو منظوم پیرایہ عطا کیا جسے یوپی اردو اکادمی نے اعزاز سے نوازا۔ ان کے شعری مجموعے ‘دشت شب` کو بھی یو پی اردو اکادمی کی جانب سے اعزاز بخشا گیا۔ 76 برس کی عمر میں بھی ضیا فاروقی کا قلم جوان ہے۔ ان کا دل ادب کی جولاں گاہ بنا ہوا ہے۔ اردو ادب کی مختلف اصناف ان کی قلمی نگارشات سے ضیا بار ہیں۔
*** بہ شکریہ قومی آواز 
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش : منفرد طرز کا انشائیہ نگار ساجد جلال پوری
***

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے