ناشاد اورنگ آبادی اور ان کا مجموعہ کلام ”رخت سفر“

ناشاد اورنگ آبادی اور ان کا مجموعہ کلام ”رخت سفر“

✍️مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ، ہند

جناب عین الحق خان متخلص ناشاد اورنگ آبادی (ولادت 15 جنوری 1935ء۔ وفات 18جون 2023ء) بن محمد ہدایت اللہ خان مرحوم کی جائے پیدائش شمشیر نگر ضلع اورنگ آباد ہے، وہ ریلوے کے سبک دوش افسر تھے، ان کی شاعری کے کئی مجموعے پرواز سخن (1990) میل کا سفر (ہندی1991)، لمحے لمحے کا سفر (2009)،ہم سفر غزلیں (ہندی 2009) اور رخت سفر کے نام سے شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں، ”غزل کیسے لکھیں“ کی ترتیب کا کام بھی انھوں نے کیا تھا، جس میں غزل کے حوالے سے قیمتی مضامین اور ہندی کے سیکڑوں شعرا کی غزلوں کو جمع کیا گیا ہے، اردو ادب اور شعر گوئی میں امتیاز کی وجہ سے انجمن محمدیہ پٹنہ سٹی، ساہتیہ کار سنسد سمستی پور، ابھویکتی دلسنگ سرائے، بہار اردو اکیڈمی پٹنہ، اردو سرکل حیدر آباد، پریاس فرید آباد ہریانہ، عالمی ہندی کانفرنس دہلی، سولبھ انٹرنیشنل ساہتیہ اکیڈمی دہلی، کُسم پانڈے سنستھان سمستی پور، جیمنی اکیڈمی پانی پت ہریانہ، نہرو یوا کیندر بھونیشور، شاد اسٹڈی سرکل پٹنہ، اردو دوست فرید آباد ہریانہ، مدرٹریسا سوسائٹی پٹنہ، ماہنامہ خاتون مشرق، ساہتیہ کار سنسد سمستی پور، اکبر رضا جمشید اکیڈمی پٹنہ، اعتماد نیشنل فاؤنڈیشن نئی دہلی کے ذریعہ مختلف انعامات، اعزازات اور ایوارڈ سے نوازے گئے تھے۔
ناشاد اورنگ آبادی نے پہلا شعر تیرہ سال کی عمر میں کہا اور 1965سے باضابطہ شعر گوئی کے ساتھ مشاعروں میں شریک ہونے لگے، اور ان کی عمر اٹھاسی (88) سال کی ہو گئی تھی؛ لیکن ان کے تخلیقی سوتے خشک نہیں ہوئے تھے، ادب و شاعری کے حوالہ سے پٹنہ اور اس کے نواح میں کوئی مجلس ایسی نہیں ہوتی تھی، جہاں ان کی با وقار حاضری نہیں ہوتی رہی ہو، کبھی خالی ہاتھ شریک نہیں ہوتے تھے، تازہ کلام اور قطعات سے سامعین کی ضیافت ضرورت کرتے تھے، عمر کی اس منزل میں بھی وہ چاق و چوبند نظر آتے تھے، ان کے ہونٹوں پر تبسم کی زیریں لہریں، دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا تھا کہ اس شخص نے اپنا تخلص ”ناشاد“ کیوں رکھ لیا، ہو سکتا ہے جوانی میں کسی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوگئے ہوں اور فریق ثانی کی طرف سے انھیں بے وفائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ جد و جہد آزادی میں وہ انگریزوں کے ظلم وستم سے متاثر ہو کر ناشاد ہو گئے ہوں، ہو سکتا ہے کہ بدلتے اقدار اور احوال نے انھیں ناشاد ی کے مرحلہ تک پہنچا دیا ہو، کہنے کو تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شاد عظیم آبادی کے وطن میں ایک اورنگ آبادی ”ناشاد“ ہو کر ہی اپنی شناخت بنا سکتا تھا، ان کا یہ شعر دیکھیے:
اب تو نا شاد بھی اے شاد عظیم آبادی* آپ کے شہر میں اشعار سنا دیتا ہے
یہ سب قیاسیات اور امکانات کی باتیں ہیں، یقین کے ساتھ کچھ کہنا بہت مشکل ہے۔
”رخت سفر“ ناشاد اورنگ آبادی کا مجموعۂ کلام ہے۔ 128صفحات کی قیمت 200 روپے اردو کے قارئین کے لیے قابل قبول نہیں ہے، حالاں کہ مجھے یقینی طور پر علم ہے کہ یہ قیمتیں صرف درج کی جاتی ہیں، کتابیں اہل علم و ادب تک مفت ہی پہنچانی پڑتی ہیں، کچھ نسخے بک گئے تو کتب خانہ والا نصف سے زیادہ کمیشن کاٹ لیتا ہے، بے چارہ شاعر اور ادیب قیمت لکھنے میں ”نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز “ پر عمل کرتے ہوئے کچھ زیادہ ہی لکھ دیتا ہے، کتاب کی کمپوزنگ فرید اختر نے کی ہے، ملنے کے پتے پانچ درج ہیں، لینا ہو تو ادھر اُدھر چکر لگانے کے بجائے بک امپوریم سبزی باغ چلے جائیے، اور اپنی ادب نوازی کا ثبوت دیجیے، دو سو روپے نکالیے اور خرید لیجیے۔
کتاب کا انتساب طویل ہے، جس میں والدہ کے ساتھ احباب و رشتہ دار، اہل علم و فن، قارئین، نیک خواہشات اور دعاؤں سے نوازنے والوں کے ساتھ مخلص دوست صوفی شرف الدین اور مرحومہ اہلیہ شہناز آرا کے نام ہیں، جتنے لوگوں کے نام یہ انتساب ہے، مجموعہ کا ایک ایک صفحہ بھی ان کو دیا جائے تو کم پڑجائے گا، اور صفحہ پھاڑ کر بانٹنے کی تجویز تو کوئی نہیں دے سکتا۔
حرفِ آغاز مشہور شاعر فرد الحسن فرد کا ہے، جو ارم پبلشنگ ہاؤس دریا پور پٹنہ کے مالک ہیں، کتاب ان کے یہاں ہی چھپی ہے، انھوں نے حرف آغاز میں طول بیانی سے کم کام لیا ہے، لیکن منتخب اشعار کی کثرت سے صفحات بڑھانے کا کام کیا ہے، اپنا تعارف خود ناشاد اورنگ آبادی نے کرایا ہے جو بڑا نازک کام ہے، کچھ لکھیے تو احباب ”در مدح خود می گویم“ کی بھپتی کسنے لگتے ہیں اور نہ لکھیے تو کتِمان کا شکوہ ہوتا ہے، ناشاد اورنگ آبادی نے اس تعارف میں دراز نفسی سے کام نہیں لیا ہے، اور جو ضروری تھا وہ لکھ دیا ہے، ایوارڈ دینے والے اداروں کی جو تفصیل میں نے اوپر درج کی ہے وہ ان کے تعارف سے ہی اصلا ماخوذ ہے، اس کتاب کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ فہرست کتاب میں موجود نہیں ہے، اس سے قاری کا تجسس بنا رہتا ہے کہ آگے کیا ہے اس طرح قاری آخری صفحہ تک پڑھنے اور ورق گردانی کرنے کے لیے وقت نکال لیتا ہے۔
رخت سفر میں ایک حمدیہ دوہے، ایک نعتیہ دوہے، دو نعت شریف، انٹھاون غزلیں، اور متفرقات کے ذیل میں کئی نظم اور قطعات ہیں، غزلوں میں دو تاریخی ہیں، اس میں غزل کی آن بان شان تو نہیں ہے، لیکن ادبا و شعرا کے ناموں کے اندراج نے اسے خاصا دل چسپ بنادیا ہے، ناموں کی کھتونی میں غزل کی چاشنی کی تلاش تو فضول ہے، لیکن ناشاد نے اسے تاریخی غزل کا نام دیا ہے، اور بڑی حد تک کوشش کی ہے کہ غزل کا لب و لہجہ باقی رہے، ناموں کی کھتونی کے باوجود کم ہی سہی ان میں تغزل ہے، سلاست ہے، روانی ہے، اس لیے مطالعہ شاق نہیں گذرتا۔ وفیات عطا کاکوی اور شریک حیات مرحومہ شہناز آرا کے نام ہیں، متفرقات میں ”نذر“ کچھ زیادہ ہی ہے، مہاتما گاندھی ، مظہر امام، اہل گورکھپور، منشی پریم چند، سجاد ظہیر، شاد عظیم آبادی، سہیل عظیم آبادی، حفیظ جالندھری، شاداں فاروقی، رام دھاری سنگھ دنکر میں سے ہر ایک کے نام چار چار مصرعے نذر کیے گیے، بعض شعرا کے سانحہِ ارتحال پر بھی چار مصرعے رخت سفر میں شامل ہیں، علامہ جمیل مظہری، جوش ملیح آبادی، فراق گورکھپوری، ہیرا نند سوز ان افراد میں ہیں جن کی وفات پر قطعات کہے گئے ہیں، البتہ جوش ملیح آبادی اور فراق گورکھپوری کو دو دو مصرعے دے کر نمٹا دیا گیا ہے، حالاں کہ دونوں اس سے زیادہ کے مستحق تھے، خصوصا اس لیے بھی کہ دونوں کا رنگ و آہنگ الگ الگ ہے، اشعار، قومی گیت، قومی یک جہتی، قومی ترانہ، قومی دوہے، کرفیو، دیوالی کے دیپ اور اردو پر دوہے، گیت اور نظم کی شکل میں موجود ہیں، کہنا چاہیے کہ ”رخت سفر“ ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں ڈھونڈھنے سے ہر قاری کو اپنے اپنے ذوق کی چیز مل جائے گی۔
جہاں تک ناشاد اورنگ آبادی کی شاعری کا تعلق ہے، ان کے یہاں شعری روایات کی پاس داری بدرجۂ اتم موجود ہے، قافیہ، ردیف اور بحور پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ خود انھوں نے بیان کیا ہے۔
فعلن فعلن خوب پڑھا ہے تب جا کر لکھ پایا ہوں * ورنہ کچھ آسان نہیں تھا کہہ لینا دشوار غزل
ناشاد اورنگ آبادی کی غزلوں میں ان کا ” میں“ بولتا ہے، یہ میں کبر و غرور اور تعلی کا نہیں، بلکہ جو دل پر گذرتی ہے، رقم کرنے سے عبارت ہے، علیم اللہ حالی کے لفظوں میں اسے ”حدیث ذات“ بھی کہہ سکتے ہیں، اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ وہ شاعری میں آپ بیتی کو جگ بیتی بنانے کے قائل نہیں ہیں اور ان کی غزلوں میں ”حدیث دیگراں“ کا تصور نہیں پایا جاتا، اسی لیے ان کی غزلوں میں ”عصری حسیت“ سے بھرپور اشعار کی کمی محسوس ہوتی ہے، انھوں نے اپنے اشعار کو ترقی پسندوں کی طرح غم روزگار اور غم کائنات تک نہیں پھیلایا ہے، اور نہ جدیدیوں کی طرح رمز و علامات کے سہارے بات کہی ہے، ان کی شاعری ان حدود میں قید نہیں ہے، غزلیہ روایات کی پاس داری ان کے فن کا امتیاز ہے، ہمارے بہت سارے شعرا، نثری شاعری پر اتر آتے ہیں، اور اس میں طبع آزمائی کو اپنی شان سمجھتے ہیں، ناشاد اورنگ آبادی کے اس مجموعہ میں ہمیں نثری شاعری کا نمونہ نہیں ملتا، یہ ایک اچھی بات ہے۔
ناشاد اورنگ آبادی نے بھر پور زندگی گذاری تھی، وہ گرمی کی تمازت اور لوُ کی چپیٹ میں آگئے اور رختِ سفر کے خالق نے جلد ہی رختِ سفر باندھ لیا، بیش تر زندگی سمستی پور اور پٹنہ میں گذارنے والے نے اپنی آخری آرام گاہ کے لیے اپنے وطن کا انتخاب کیا اور وہیں مدفون ہوئے، انھوں نے کہا تھا کہ:
ناشاد ڈھلنے والی ہے اب زندگی کی شام * اب تو سمیٹ لیجیے خاشاکِ آرزو
خاشاکِ آرزو اس قدر وہ جلد سمیٹ لیں گے اس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش :کتاب: محب اردو حمید انور اور بک امپوریم

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے