منفرد طرز کا انشائیہ نگار ساجد جلال پوری

منفرد طرز کا انشائیہ نگار ساجد جلال پوری

جمال عباس فہمی

طنز و مزاح تحریر کرنے کے پیچھے ساجد جلال پوری کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ انسان کے ذہن پریشاں کو قدرے آسودگی کا احساس کرانا چاہتے ہیں۔

اردو ادب میں سنجیدہ نثر تخلیق کرنے والوں کی تعداد ہمیشہ زیادہ رہی ہے۔ اردو نثری ادب کا دامن افسانہ نویسوں، ناول نگاروں، تنقید نگاروں اور دیگر سنجیدہ اصناف میں ادب تخلیق کرنے والوں کی قلمی نگارشات سے بھرا پڑا ہے، لیکن طنز و مزاح کے میدان میں قلم کے جوہر دکھانے والوں کی تعداد ہر دور میں کم رہی ہے۔ رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری، شوکت تھانوی، شفیق الرحمان، کنہیا لال کپور، احمد جمال پاشا، نریندر لوتھر، فکر تونسوی، غیور نقوی، منظور عثمانی، نصرت ظہیر، مجتبیٰ حسین اور مشتاق احمد یوسفی کے بعد کوئی بڑا طنز و مزاح نگار اردو ادب کی دنیا میں نظر نہیں آتا۔
طنز و مزاح نگاری پر ایک قسم کا جمود سا طاری ہے۔ لیکن اس جمود کو اپنے قلم کی جنبش سے ساجد جلال پوری نے توڑنے کی کوشش کی ہے۔ انور جلال پوری اور ڈاکٹر عباس رضا نیر جلال پوری کے بعد ساجد جلال پوری ایسے قلم کار ہیں جو جلال پور کے تعارف کا وسیلہ بن رہے ہیں۔ ان کے تخلیق کردہ انشائیے موجودہ دور کی تلخ کامیوں سے دو چار شخص کو مسکرانے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ ان کے انشائیوں کا مجموعہ "رنگ رنگ کے شاعر"` ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ لوگوں کو ان کا طرز نگارش پسند آرہا ہے۔ ان کی اس تخلیق کی ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہو رہی ہے۔ اتر پردیش اردو اکیڈمی” رنگ رنگ کے شاعر" کو انعام سے نواز چکی ہے۔ اس سے پہلے کہ ساجد جلال پوری کی تخلیقی صلاحیتوں اور طرز نگارش پر بات کریں پہلے ان کے خاندانی پس منظر، تعلیم و تربیت اور مشغولیات کے بارے میں جان لینا مناسب ہوتا ہے۔
مغربی اتر پردیش کے ضلع امبیڈکر نگر میں ایک قدیم تاریخی بستی ہے جسے جلال پور کہتے ہیں۔ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے اسے بسایا تھا۔ تجارت پیشہ تنویر حسن کربلائی علاقے کے مشہور مرثیہ خواں اور حدیث خوان تھے۔ ان کے یہاں 14جون 1979 کو ایک فرزند کی ولادت ہوئی جس کا نام رکھا گیا عزادار حسین۔ عزادار حسین ابھی محض پانچ برس کے ہی تھے کہ وہ والد کے شفیق سایہ سے محرو م ہو گئے۔ والدہ گو کہ گھریلو خاتون تھیں لیکن تعلیم کی اہمیت سے واقف تھیں۔ انھوں نے مالی مسائل کے باوجود عزادار حسین اور چھوٹے بیٹے سردار مہدی کو اچھی سے اچھی تعلیم دلائی۔ والد عربی فارسی کے عالم تھے اور ادبی ذوق رکھتے تھے اس لیے گھر میں کتابوں کا ذخیرہ تھا۔ عزادار حسین کے خاندان میں علم و ادب کا دور دورہ تھا۔ خاندان میں کئی شعرا گزرے جن میں منشی اکبر علی اکبر اور ان کے فرزند انصر جلال پوری نے کافی شہرت پائی۔ منشی اکبر علی قصیدہ گو شاعر تھے۔ ان کے نظم کردہ قصائد کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ شعرا کے علاوہ عزادار حسین کے خاندان میں کئی علما بھی رہے جو لکھنؤ اور قم المقدس کے دینی مدارس سے فارغ التحصیل تھے۔ عزادار حسین کی ابتدائی تعلیم مکتبہ جعفریہ میں ہوئی۔ ایم اے اودھ یونی ورسٹی فیض آباد سے کیا۔ 2020 میں نیٹ بھی کلیئر کرلیا۔ اس وقت گورنمنٹ جونئر ہائی اسکول میں درس و تدریس میں مصروف ہیں۔
عزادار حسین کا قلمی سفر اٹھارہ برس کی عمر میں شاعر کی حیثیت سے شروع ہوا تھا۔ انھوں نے غزلیں اور نظمیں بھی کہی ہیں، لیکن ان کا رجحان مدحیہ اور مذہبی شاعری کی طرف زیادہ ہے۔ جب انھوں نے شاعری شروع کی تو ساجد تخلص اختیار کیا اور اس طرح وہ عزادار حسین ساجد جلال پوری کے طور پر معروف ہوئے۔ ساجد جلال پوری حمد، نعت سلام، منقبت اور نوحے نظم کرتے ہیں۔ شاعری کے ساتھ ساتھ انھوں نے نثر میں ہاتھ آزمانے کا جب فیصلہ کیا تو ایک بار اردو ادب کے منظر نامہ کا جائزہ لیا اور یہ محسوس کیا کہ سنجیدہ نثر کے میدان میں تو بہت شور و غوغا ہے لیکن طنز و مزاح کے میدان میں سناٹا پسرا ہوا ہے۔ طبیعت کے اعتبار سے ساجد جلال پوری مشکل پسند واقع ہوئے ہیں۔ شاعری میں بھی مشکل قوافی اور زمینوں میں طبع آزمائی کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ وہ بے نقط کلام موزوں کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی مشکل پسند طبیعت کے سبب انھوں نے طنز و مزاح کی راہ پر خار پر قدم بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ طنز و مزاح ہنسی کھیل نہیں ہے۔ اگر اس سفر کی راہ آسان ہوتی تو اردو کے طنز و مزاح کے قلم کاروں کا جم غفیر نظر آتا۔ کسی کے لبوں پر تبسم بکھیرنا آسان کام نہیں ہے۔ ایک ایسے دور میں کہ جب انسان گونا گوں مسائل و آلام میں گھرا ہوا ہے۔ سخت حالات کی تپش اس کے ہونٹوں کو خشک کیے دے رہی ہے ان ہی خشک ہونٹوں پر اگر تبسم کی ٹھنڈی ٹھنڈی پھوار پڑ جائے تو اسے وقتی طور سے ہی سہی غم جاناں اور غم روزگار سے نجات مل جاتی ہے۔ طنز و مزاح تحریر کرنے کے پیچھے ساجد جلال پوری کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ انسان کے ذہن پریشاں کو قدرے آسودگی کا احساس کرانا چاہتے ہیں۔
"طنز و مزاح کیا ہے؟ اس کی علماے ادب نے مختلف تعریفیں بیان کی ہیں۔ المختصر یہ کہ طنز اور مزاح کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ طنز میں مزاح کی آمیزش اس کی تلخی کو ناگوار خاطر نہیں ہونے دیتی۔ طنز کی نشتریت تحریر کو غیر دل چسپ اور گراں بار خاطر بنا سکتی ہے۔" طنز و مزاح کی اس تعریف کی کسوٹی پر ساجد جلال پوری کے انشائیے کھرے اترتے ہیں۔ ‘رنگ رنگ کے شاعر` ساجد جلال پوری کی طنزیہ اور مزاحیہ تحریروں کا مجموعہ ہے جو کتابی شکل میں آنے سے قبل ملک کے مختلف اخبارات اور رسائل میں چھپ کر مقبولیت حاصل کر چکی ہیں۔ اس مجموعے میں 26 طنزیہ اور مزاحیہ مضامین ہیں۔ کتاب کا عنوان ہی یہ بتا رہا ہے کہ ساجد جلال پوری کے قلم کی زد پر کس قبیلے کے باسی ہیں۔ ان کے مضامین کے عنوان بھی اسی قبیلے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یعنی استاد الشعرا، شاعر غزل، اشتہاری شاعر، درباری شاعر، خیالی شاعر، خاندانی شاعر، تجارتی شاعر، سیاسی شاعر، شاعر شباب، شاعر کباب، شاعر نصاب، خوش خوراک شاعر، خوش پوشاک شاعر، شاعر ترنم، شاعر اکھاڑہ، مقتول شاعر اور ماہرین غالب وغیرہ وغیرہ۔ اس کتاب کا ہر مضمون اس بات کا ثبوت ہے کہ ساجد جلال پوری آج کل کے مشاعروں شاعروں اور متشاعروں کو کتنے نزدیک سے جانتے ہیں۔ ان کی باریک بیں نظروں سے شعرا کی حرکتیں بچ کر نہی گزر سکیں۔ ساجد جلال پوری کے یہاں طنز بھی غضب کا ہے اور مزاح بھی۔ ساجد جلال پوری کی تحریریں پھکڑ پن سے پاک ہیں۔ طنز بھی نپے تلے انداز میں کرتے ہیں اور مزاح بھی ایسا کہ پڑھنے والے کی طبیعت پھڑک اٹھتی ہے۔
‘خاندانی شاعر` مضمون کے یہ جملے” خاندانی شاعروں کا مستقبل روشن ہے یا تاریک۔ ان کی عقل موٹی ہے یا باریک اس کا فیصلہ ہم نہیں کرسکتے۔ یہ عوام کے شعری ذائقے اور ٹیسٹ پر منحصر ہے کہ کب زبان کا ذائقہ بدل جائے۔ کون سا سکہ چل جائے۔ کون نیا سکہ ٹکسال میں ڈھل جائے۔ کب نوٹ بندی ہو جائے۔ کب نس بندی لاگو ہو جائے`۔
‘شاعر کباب` کے یہ جملے پوری قوم کا حال بیان کر دیتے ہیں۔” کوئی بھی مسلمان شاید کلمہ طیبہ سے ناواقف ہو لیکن کباب سے بہر حال واقف ہے۔’"
ماہرین غالب نامی مضمون میں لکھتے ہیں۔ ”کلام غالب میں فلسفہ کہاں سے نکلا۔ اگر بادہ گلفام کے بعد نکلا تو اس کا مطلب ہے کہ شراب کے جام میں فلسفہ پوشیدہ ہے لہٰذا زاہد واعظ و متقی شاعروں کو چاہیے کہ وہ پرانی روش ترک کرکے جام پر جام لنڈھائیں تاکہ ان کے اشعار میں بھی شراب کے وسیلے سے فلسفہ اور گہرائی پیدا ہو جائے۔"
‘خیالی شاعر` مضمون کے یہ جملے ”ایک مشاعرہ پڑھنے کے بعد مہینوں اسی میں سرشار رہتے ہیں۔ خراج تحسین کا نشہ برسوں نہیں اترتا۔ جب تک نشہ اترے گا نہیں کوئی کام دھندہ کیسے کریں۔ لہٰذا فاقہ کشی نہیں خود کشی کی نوبت آجاتی ہے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر لوگ شاعروں کو اپنی بیٹیاں دینے سے گھبراتے ہی نہیں راستہ دیکھ کر کتراتے بھی ہیں۔
‘شاعر شراب` میں شعرا کی بلا خوری پر کاری ضرب لگاتے ہوئے ساجد لکھتے ہیں۔ ‘جو چنندہ مے خوار شعرا ہیں انھی کے اشعار پر بحث کرسکتے ہیں تاکہ اسی بہانے ان کو مرنے کے بعد ایصال ثواب ہوتا رہے"۔ ‘شاعر ترنم` میں ترنم کے بل پر شاعری کرنے والوں کا حال یوں بیان کرتے ہیں۔ "ترنم بھی ایسا کہ پھوٹی ڈھول۔ انسان کے اوپر شیطان کا خول۔ زنگ آلود شہنائی۔ کاغذ پر اڑی ہوئی روشنائی۔ شب فراق کی تنہائی۔ بن بجائے ہوئے بجنے والا باجا۔ شکست کھایا ہوا راجا۔ ٹوٹی بانسری۔ بوڑھی مادھوری"۔ ‘شاعر احساس برتری` میں ایک ایسے شاعر کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں جو خود کو طرم خاں سمجھتا ہے۔ ‘اگر خدا نخواستہ مشاعرے میں ایک دو شعر جعلی نوٹوں کی طرح رات کے اندھیرے میں چل بھی جائیں تو کیا پوچھنا پاؤں زمین پر نہیں پڑیں گے۔ اب وہ ہر کسی کو چھٹ بھیا شاعر تسلیم کرنے لگیں گے`۔ شاعروں کو تختہ مشق بنانے والے مزاح نگاروں میں شوکت تھانوی کے بعد ساجد جلال پوری نظر آتے ہیں۔ جنھوں نے طنز و مزاح کے ذریعے ان بد ذوق، و بد مزاج و بد تمیز شعرا کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے جوشعر و ادب کے تقدس پر دھبہ ہیں۔ ساجد جلال پوری کی جرأت و بے باکی قابل داد ہے کہ خود شاعر ہوتے ہوئے انھوں نے شعرا کو نشانہ بنایا۔
( بہ شکریہ قومی آواز) 
جمال عباس فہمی کی یہ تحریر بھی پڑھیں :تنقید کو تخلیق بنانے والا قلم کار : حقانی القاسمی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے