وہ جس کا سایہ گھنا گھنا ہے

وہ جس کا سایہ گھنا گھنا ہے

رپورتاژ : طیب فرقانی 

"سچی بات تو یہ ہے کہ میں نہ کوئی افسانہ نگار ہوں اور نہ ناول نگار، تخلیق کار کے منصب پر خود کو براجمان دیکھنا محض میرا وہم ادراک ہے اور کچھ نہیں. ممکن ہے کہ ایک ایسی زبان میں‌لکھنے کی کوشش کرنا جو سیاسی اور سماجی اعتبار سے بھی اپنا روشن مستقبل اندھیرے کے سپرد کرچکی ہے، میرے اندر ایک احساس کمتری کا سبب بن گیا ہو، جس کی بنا پر میں خود کو ناول نگار کہہ رہا ہوں."
"یہ میرا خود اپنے بارے میں بیان ہے کہ میں‌ خود کو کوئی ناول نگار وغیرہ نہیں‌سمجھتا. حالانکہ میری منافقت تودیکھئے کہ میں اپنی ناکام تحریر کو کبھی ناول کا نام دیتا ہوں‌تو کبھی کہانی کا. اس سے تو بہتر ہے کہ میں‌اپنی ہر تحریر کو موت کی کتاب کا نام دوں‌. ایک نئی صنف، ایک نئی genre. کیا خیال ہے؟‌ مگر ٹھہرئیے! میرے پاس اس منافقت کا بھی جواز ہے. (ہر منافقت کا جواز ضرور ہوتا ہے. اصل مسئلہ تو یہی ہے)
میں‌ ہی نہیں‌. دنیا کا ہر شخص ایک فکشن نگار ہوسکتا ہے .اگر اسے لکھنا آتا ہو. ہر شخص کے ذہن میں ہمہ وقت ایک ناول، ایک افسانہ یا ایک کہانی چلتی رہتی ہے. ہر شخص کے ذہن کی قواعد کی تعمیر فکشن کے ذریعے ہی ہوتی ہے. فکشن بے ہیئت صداقت اور اشیا کو شکل عطا کرتا ہے. جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ لفظ fiction لیٹں لفظ fingo سے بنا ہے اور اس کے معنی تشکیل کرنا اور تزئین کرنا ہے."
"ہمیں‌یہ بھی قبول کرنے میں‌کوئی عار نہیں ہونا چاہئیے کہ فکشن ذہن انسانی کی ایک بے حد عمومی اور فطری خصوصیت ہے. اس لیے ہر شخص یہ دعوی کرسکتا ہے کہ اس کے پاس، ایک کہانی ہے. ایک ناول ہے یا ہزاروں کہانیاں ہیں‌. ہزاروں‌ناول ہیں‌. تو بس یہی ایک جواز ہے میرے پاس کہ میں اپنی ان الٹی سیدھی تحریروں کو ناول یا کہانی وغیرہ کا نام دیتا رہتا ہوں‌. مگر فکشن کو بطور ایک ادبی صنف لکھنے میں‌، میں‌ بہر حال ناکام ہی ثابت ہوا ہوں‌. میرا فکشن ایک جیتے جاگتے انسان کے شعور کے ذریعے لکھا گیا ہے "ادیب" نام کی کسی پیشہ ور مگر عمومی ہستی کے ذریعے نہیں‌."
"میرے شعور کی مٹی دکھ سے گندھی ہوئی ہے (ایسا مجھے لگتا ہے) اس لیے میں‌جو بھی لکھتا ہوں اسے فکشن ایسی دستکوں‌ میں‌بدل دیتا ہے جو ضمیر کے دھول بھرے  صدر دروازے پر دی جاتی ہیں‌. میرا انفرادی شعور (اجتماعی شعور کی طرف نہ میں‌ کان دھرتا ہوں اور نہ میرا ناول یا افسانہ) مروجہ ادبی اخلاقیات اور جمالیات بلکہ شعری جمالیات کو تواتر سے صدمہ پہنچانا چاہتا ہے. جمالیاتی انبساط کو مد نظر رکھ کر، گذشتہ پچیس سال سے نہ میں‌نے کوئی سطر پڑھی اور نہ لکھی. "
"میں اب کو ایک ضمیر کے اوپر دائر ایک مقدمے کی صورت میں‌دیکھتا اور پہچانتا ہوں‌. اور سوسن سونتانگ کے اس قول پر یقین رکھتا ہوں کہ ادب ہمیں‌ یہ تربیت دیتا ہے کہ کس طرح ہم ان کے لیے رو سکیں جو”ہم" نہیں‌ ہیں‌یا "ہم" میں سے نہیں ہیں‌. میں‌ وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ میری تحریریں اس نوعیت کی ہیں‌یا نہیں."
"لکھنا اچانک اکیلے ہوجانے کا دوسرا نام ہے. اور میں محض اپنے دماغ کے دائیں‌طرف کے منطقی حصے سے نہیں لکھتا. میرا شعور اکیلے ہونے کے اس تکلیف دہ عمل میں میرے سارے جسم کو شامل کرتا ہے. یہاں‌تک کہ میرے ناخن جو مردہ خلیوں کے سوا کچھ نہیں، وہ پتھر پر خراشیں ڈالنے کے لیے خود بخود لپکنے لگتے ہیں."
میں‌سنسکرت کی ऋ دھاتو کی طرح‌ لکھنا چاہتا ہوں جو اآگ کے جلنے کی آواز ہے. ایسی آگ جس میں‌تحریر اور اسے لکھنے والا دونوں جل کر راکھ ہوجائیں اور دونوں‌ میں‌ کوئی تفریق باقی نہیں رہے. مگر اس کے لیے وجودی سطح پر زندہ انسان کا ہونا ضروری ہے. باکمال اور پیشہ ور ادیب یہ اذیت نہیں اٹھا سکتا."
مندرجہ بالا اقتباسات اس ناول کے پیش لفظ سے ماخوذ ہیں جسے 19 نومبر 2022 کو جے سی بی پرائز فار لٹریچر کا ونر قرار دیا گیا ہے. یہ ایوارڈ جے سی بی لٹریچر فاؤنڈیشن نے دیا ہے. یہ فاؤنڈیشن جے سی بی مشین بنانے والی کمپنی کے زیر اہتمام ہے. یہ ایوارڈ ہندستانی فکشن نگار کو 25 لاکھ روپے کی شکل میں‌ دیا جاتا ہے. اس کا مقصد ہے کہ ہندستان کی بہترین عصری تخلیقات سے دنیا کو روشناس کرایا جائے. یہ ایوارڈ صرف ایسے نالوں کو دیا جاتا ہے جو یا تو انگریزی میں‌لکھے گئے ہوں‌ یا انگریزی میں ترجمہ شدہ ہوں. اور ترجمہ نگار کو بھی دس لاکھ روپے دیے جاتے ہیں. اس کے ساتھ ایک ٹرافی بھی دی جاتی ہے. ٹرافی کو مرر میلٹنگ کا عنوان دیا گیا ہے. یہ بارہ انچ لمی المونیم اور نکل کا آمیزہ ہوتا ہے. اس کا ڈیزائن ٹھکرال اور ٹاگرا نے 2018 میں‌ تب کیا تھا جب اس پرائز کا آغاز ہوا. اس میں پہلے دس ناولوں کو لانگ لسٹ کیا گیا. پھر پانچ ناولوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا. 2022 کی لانگ لسٹ‌ میں اردو میں لکھے گئے دو ناولوں کے ترجموں کو شامل کیا گیا اور اردو دنیا میں‌اس باوقار ایوارڈ کے لیے خاصا جوش و خروش دیکھا گیا. شارٹ لست میں اردو کا ایک ناول برقرار رہا. پوری اردو دنیا میں‌اس خبر نے دھوم مچادی. لیکن لوگوں کا سر فخر سے تب اونچا ہوگیا جب یہ ناول ونر قرار دیا گیا. ناول کا اردو میں نام ہے نعمت خانہ اور اس کے خالق کوئی اور نہیں بلکہ مشہور فکشن نگار خالد جاوید ہیں‌. خالد جاوید کی فکشن اور غیر فکشن کی تقریبا پندرہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں. اور ان کے کارناموں کے لیے اب تک کتھا ایوارد، اپندر ناتھ اشک ایوارڈ، اور یوپی اردو اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے. خالد جاوید جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے شعبۂ اردو میں پروفیسر ہیں‌ اور شعبے کا فخر ہیں‌.
نعمت خانہ ناول کا انگریزی ترجمہ باراں فاروقی نے کیا ہے. وہ بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں انگریزی کی پروفیسر ہیں اور اس سے قبل فیض احمد فیض کی منتخب شاعری کا انگریزی میں‌ترجمہ کرچکی ہیں‌. اس کے علاوہ ان کی ایک پہچان شمس الرحمن فاروقی کی نسبت سے بھی ہے کہ یہ ان کی دختر ہیں.
یہ پہلا موقع تھا کہ کسی اردو ناول نے 25 لاکھ روپے کا انعام اپنے نام کیا. ہوٹل اوبراے کے ہال میں منعقد اس پر وقار تقریب  میں بڑے سے اسکرین پر جب ناول کو ایوارڈ کے لیے منتخب کیے جانے کا اعلان ہوا تو باراں فاروقی نے خالد جاوید کو گلے لگا کر مبارک باد دی. دونوں نے مشترکہ طور پر ٹرافی کو ہاتھوں میں لیتے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار کیا. اس موقعے پر خالد جاوید نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم روز خوشیاں ڈھونڈتے ہیں. بہت سے کارنر ہوتے ہیں، جہاں‌ہم خوشیاں ڈھونڈتے ہیں. لیکن اصل  خوشی کا موقع جو ہوتا ہے وہ آج میں‌پہلی بار محسوس کر رہا ہوں‌. انھوں نے جے سی بی کی ٹیم اور جیوری کا شکریہ ادا کیا. انھوں نے کہا کہ مجھے اس کی امید نہیں تھی کہ 2014 میں‌ اردو میں‌لکھے گئے میرے اس ناول کا ستارہ اس طرح چمکے گا. انھوں نے باراں فاروقی  کا بھی شکریہ ادا کہ انھوں نے اس کا ترجمہ کیا اور دنیا کو اس سے روشناس کرایا. انھوں نے کہا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ مجھے اس ایوارڈ کا حق دار قرار دیا جائے گا تو میں کچھ لکھ کر لاتا کیوں کہ میں بنیادی طور سے قلم کار ہوں‌. اور خراب مقرر. (محفل سے ہنسی کی آواز اٹھتی ہے).
دوسری طرف باراں فاروقی نے اس موقعے پر اپنے والد شمس الرحمن فاروقی کو یاد کرتے ہوئے کہا ان کی وجہ سے وہ اردو زبان سے واقف ہوئیں‌. اس خبر کو انگریزی میڈیا (دکن ہیرالڈ ، دی پرنٹ، دی انڈٰین ایکسپریس، اسکرول ڈاٹ کام)  جیسے بڑے اخبارات کی برقی نشریات میں‌خوب خوب جگہ ملی ہے. مباربا دیوں کا سلسلہ جاری ہے . ذیل میں‌ملاحظہ فرمائیں پانچ ممبروں پر مشتمل جیوری کا بیان، سراج اجملی کا قطعہ تاریخ اور طیب فرقانی کی ایک تحریر جو ناول کے شارٹ لسٹ ہونے کے بعد لکھی گئی تھی.

قطعہ تاریخ
بجناب خالد جاوید

سراج اجملی
شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ

اے خالد جاوید مبارک
برکت خانہ عزت خانہ
اس انعام پہ میں کہتا ہوں
اے اہل و ابنائے زمانہ
جلن نہ کر اور دل سے کہہ دے
خالد باراں نعمت خانہ
_______________________
2105-83=2022

جلن =83

خالد=635
باراں=254
نعمت=560
خانہ = 656
_______________________
جمع =2105
2105-83= 2022

وہ جس کا سایہ گھنا گھنا ہے

بہت کڑی دھوپ جھیلتا ہے (ابن صفی) 


خالد جاوید : ایک ایسا استاد جس کی شاگردی باعث فخر ہے
(اس تحریر میں پیش کردہ خیالات بالکل ذاتی نوعیت کے ہیں)
اس برس درگا پوجا کی چھٹیاں ستمبر کے اواخر سے شروع ہوگئی تھیں. میں 30 ستمبر کو اپنے گاؤں پہنچا. اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ایک دن امی حادثے کا شکار ہوگئیں. میں سرسوں بونے کے لیے کھیت تیار کرنے گیا تھا. (ادھر کچھ برسوں سے جب بھی گاؤں جاتا ہوں پھاؤڑا کھرپی سے دوستی نبھاتا ہوں.) صبح کا وقت تھا، پڑوسی نے گھبرائی ہوئی آواز میں دور سے ہی پکار کر کہا کہ جلد پہنچیے امی کی سانسیں نہیں چل رہی ہیں. میں بھاگا ہوا آیا تو گھر میں آس پڑوس کے لوگوں کا مجمع لگا ہوا تھا. کچھ خواتین امی کو سنبھال رہی تھیں، اور وہ ہوش میں تھیں. کپڑوں اور بالوں میں بے ترتیبی بکھری ہوئی تھی. معلوم ہوا کہ پختہ آنگن میں کھڑی وہ اپنی بہو سے کچھ کہہ رہی تھیں کہ اچانک غش کھا کر سر کے بل گرپڑیں اور کچھ لمحے کے لیے ان کی سانسیں تھم گئیں تھیں. یہ منظر دیکھ کر ان کی بہو اور پوتی زور سے رونے لگیں. آواز سن کر آس پڑوس کے لوگ دوڑے. انھیں اٹھا کر چوکی پر رکھا.
بلڈ پریشر چیک کیا گیا، 170 سے اوپر تھا. فوری انجیکشن دیا گیا. کہنے لگیں کہ سر کے پچھلے حصے میں تکلیف محسوس ہورہی ہے. دیکھا گیا تو سر بری طرح پھٹ گیا تھا. خون بہہ کر شانوں تک آگیا ہے. خون نہ بہے اس کے لیے پٹی کر دی گئی.
پھر ہم انھیں مظفر پور شہر لے گئے. کہا جاتا ہے کہ مظفر پور میں ایک ہی نیورو سرجن ہے. اسے دکھایا. اس نے ایڈمٹ کرلیا. مختلف قسم کے دسیوں ٹیسٹ کروائے. چار روز اسپتال میں رہیں. پھر ہم انھیں گھر لے آئے. مجھے "باہر" جانا تھا. میں چلا گیا. خبر ملی کہ ایک دن پھر کرسی پر بیٹھی ہوئی اچانک غش کھا کر گر پڑیں. میں نے واپس آکر انھیں دل کے ڈاکٹر کو دکھایا. اب سلامت ہیں لیکن بے چین رہتی ہیں.
اکتوبر کا پورا مہینہ اشتراک کا کام، میرا واٹس ایب اور فیس بک بند رہا. نوٹی فی کیشن آتے رہے. خالد جاوید…. خالد جاوید… خالد جاوید… احساس ہوتا رہا کہ ان کے بارے میں کوئی بڑی خبر آئی ہے اور اس پر رد عمل کا اظہار ہو رہا ہے.
ڈیوٹی پر واپس لوٹ کر آیا تو واٹس ایپ پر پرانے پیغامات دیکھنے کا سلسلہ شروع ہوا. احمد نعیم کے دو پیغامات سے معلوم ہوا کہ رحمان عباس ادب کے سایے میں آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے پائے گئے ہیں.
آج فیس بک پر خالد جاوید سرچ کیا تو مبارک باد، نیک خواہشات اور تاثرات پیش کرتی بیسیوں تحاریر نے استقبال کیا. خالد جاوید کے ناول نعمت خانہ کو جے سی بی لٹریری ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا ہے. ناول کا انگریزی ترجمہ باراں فاروقی نے کیا ہے. شارٹ لسٹ ہونے کی خبر مجھے آج ہوئی. اس سلسلے میں گوگل اور ٹوئٹر پر تحریریں تلاش کر پڑھیں. انھیں مبارک باد و نیک خواہشات پیش کرتا ہوں.
ہمارے ملک میں جے سی بی مشین بے لگام طاقت کا استعارہ بن گئی ہے. Joseph Cyril Bamford نے اس مشین کو تعمیراتی کاموں میں سہولت کے لیے ایجاد کیا تھا. اس مشین نے تعمیراتی دنیا میں انقلاب پیدا کر دیا. خدا کرے جن ادبی کتابوں کو اس ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا وہ ملک و ملت کی تعمیر و ترقی کا باعث بنیں اور دانش ورانہ ڈسکورس قائم کریں.
خالد جاوید صرف میرے ہی استاد نہیں، ہر سال بیسیوں طالب علم ان سے اپنی علمی پیاس بجھاکر زندگی کے مختلف شعبوں میں پھیل جاتے ہیں. ان میں سے شاید ہی کوئی ہوگا جس کے دل میں ان کی عزت و توقیر نہ ہو.
ان کی علمی گہرائی کو سمندر کی گہرائی سے تشبیہ دینا غیر مناسب نہیں. ان کی تخلیقی ہنرمندی اربابِ نقد کے یہاں مسلم ہے. میں یہاں ایک شاگرد کی حیثیت سے کچھ باتیں کہہ رہا ہوں. ان کے تخلیقی شہ پاروں پر کسی بھی قسم کا تبصرہ فی الحال میرے لیے مشکل ہے.
ان کا پہلا ناول "موت کی کتاب" (2011) جب منظر عام پر آیا تو میں ایم اے کا طالب علم تھا. ادب کے ہر حلقے میں اس کا چرچا تھا. انھی دنوں ہندی میں اس کا ترجمہ بھی میری نظر سے گذرا تھا. اس ناول کی تخلیق کے تعلق سے زمرد مغل نے ریختہ کے لیے ایک انٹرویو بھی کیا تھا. اس میں خالد جاوید بتاتے ہیں کہ ہر روز وہ چار گھنٹے مسلسل لکھتے تھے. ناول میں شامل عرض مصنف میں وہ سنسکرت کے دھاتو ऋ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ لکھنا اور خراشیں ڈالنا ایک جیسے عمل ہیں. لکھنا اپنے آپ میں ایک کرب ناک عمل ہے.
میں آج تک کسی ایسے شخص سے نہیں ملا جس کے پاس اتنا فلسفیانہ ادبی، علمی اور تخلیقی ذخیرہ موجود ہو جتنا خالد جاوید کے پاس موجود ہے. ایک کلاس میں انھوں نے اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہا تھا کہ سڑک پر چلتے ہوئے کسی پاگل کے پاس سے بھی گذرتے ہوئے وہ اپنے مشاہدے کی ساری آنکھوں کا استعمال کرتے ہیں.
خالد جاوید انتہائی کم گو واقع ہوئے ہیں. لیکن جب وہ بولتے ہیں تو بس سنا ہی کیجیے. یہاں بولتی بند ہوجانے والا محاورہ بھی درست ہے. بسا اوقات گفتگو کے دوران ان کی زبان لکنت زدہ ہوجاتی ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے سینے میں موج زن علم کا دریا جب اپنی روانی سے بہتا ہے تو زبان لہرانے لگتی ہے اور اس روانی کو سنبھال نہیں پاتی.
اچھے سے تراشی ہوئی گھنی مونچھیں ان پر جچتی ہیں. پھل دار شاخوں کی طرح جھکے شانے میں چمڑے کا بیگ پھنسائے انھیں ڈیپارٹمنٹ میں آتے جاتے دیکھنا اور کبھی کبھی ان کے ساتھ یا تھوڑا پیچھے چلنے کا احساس آج بھی تازہ ہے. ان کے ایک شاگرد ریحان نے لکھا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس میں انھیں چلتا پھرتا دیکھ کر انھیں لگتا ہے کہ فرانسیسی مصنف البرٹ کامیو ٹہل رہا ہے. وسیم احمد علیمی کہتے ہیں کہ انھیں خالد جاوید میں مستقبل کا نوبل انعام یافتہ قلم کار نظر آتا ہے.
ان جذبات و احساسات کی بنیاد کیا ہے؟ ان کی علمی شخصیت. ان کی علمی و تخلیقی شخصیت مرعوب کرنے کی حد تک بڑی اور اہم ہے. میں تو ایسا شاگرد ہوں جو اپنے اساتذہ کو دیکھ کر چھپ جاتا ہو. اور اس چھپ جانے کی وجہ ڈر نہیں بلکہ وہ عزت و تکریم ہے جو اس کے دل میں نہاں ہے. خالد جاوید کی پیشانی پر پڑی عینک کی تاب لانا بھی مشکل ہوجائے. اس کے بر خلاف وہ بے حد نرم خو شخصیت کے مالک ہیں. دھیمی آواز میں گفتگو کرتے ہیں. ایوارڈ کے اعلان کے وقت کا ویڈیو دیکھیے. لگتا ہے کسی سادہ سمپل سے آدمی کو زبردستی فوٹو شوٹ کے لیے فریم میں رکھا گیا ہے. اثبات والے اشعر نجمی کہتے ہیں خالد جاوید کے بارے میں جاننے کے لیے انھیں بہت کریدنا پڑتا ہے. اس سے زیادہ شخصیت کا بڑپن اور کیا ہوسکتا ہے؟
خالد جاوید کی زبان سے کہے جملے ہم میں سے بہت سوں کو کلیے کی طرح یاد ہوں گے. ایک بار مجھے حکم دیا کہ کینٹین سے پیٹیز لا کر دوں. میں لے آیا. انھوں نے پیسے دینا چاہے تو عرض کیا کہ رہنے دیں، میں نے ادا کردیا ہے. انھوں نے زور دے کر پیسے تھماتے ہوتے ہوئے کہا کہ تم کماتے تھوڑی ہو. ان دنوں یہ جملہ میں اپنے شاگردوں کے لیے استعمال کرتا ہوں جب وہ اپنے پیسے سے میرے لیے کچھ لے آتے ہیں اور انھیں زور دے کر پیسے دے دیتا ہوں. جب بھی اس طرح کا موقع ہوتا ہے مجھے بہت یاد آتے ہیں. ایم فل ی تھیسس جمع کرنا تھا، میں ان سے ملنے چیمبر میں گیا تو دیکھا کچھ سینئر طلبہ کے ساتھ محو گفتگو ہیں. میں باہر کھڑا رہا. کئ لوگ باہر نکلتے، پھر اندر جاتے. ڈیڑھ گھنٹے بعد محفل ختم ہوئی تو میں اندر گیا. انھیں بتایا گیا کہ میں بہت دیر سے باہر کھڑا ہوں. بہت تعجب کیا اور میرے صبر کو سراہتے ہوئے کہا کہ تم گوتم بدھ ہو. آج میرے شاگرد میرے دروازے تک آتے ہیں تو کئی دفعہ خالد جاوید کا چہرہ ابھر آتا ہے. ایم فل کے وائیوا کے بعد سے میں نے ان سے کبھی رابطہ نہیں کیا لیکن وہ میرے ساتھ رہتے ہیں. میری تحریر میں، تقریر میں، اپنے شاگردوں کے ساتھ برتاؤ میں ان کا چہرہ ابھر آتا ہے.
کالج میں اردو والے انگریزی والوں سے عموماً مرعوب رہتے ہیں مگر خالد جاوید کو انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں بہ طور خاص اپنے شہ پاروں کی قرات کے لیے بلایا جاتا تھا. ایسے موقعوں پر ان کے شاگردوں میں فخر کا جذبہ سر ابھارتا تھا. وہ یورپ کی یونی ورسٹیوں میں بھی بلائے جاتے ہیں. خالد مبشر کی اطلاع کے مطابق ان کے کئ شہ پارے یورپ کی یونی ورسٹیوں میں نصاب میں شامل ہیں.
مجھے ایک بار بتایا تھا کہ یورپ کی کسی یونی ورسٹی نے انھیں ایشیائی زبانوں کے ڈیپارٹمنٹ کی سربراہی کے لیے اونچی تنخواہ آفر کی ہے. لیکن وہ نہیں گئے. اس کی وجہ مجھے نہیں معلوم.
ہند و پاک کے کچھ لوگوں کی ایسی تحریریں میری نظر سے گزری ہیں جن میں ان کے خلاف لکھا گیا ہے. لیکن ان تحریروں میں دانش ورانہ رویے کی بجائے تعصب کی بدبو بھری ہوئی ملی. علمی و ادبی اختلافات مواد کی بنیاد پر ہونا چاہیے. شخصیت کی بنیاد پر نہیں. خالد جاوید نے اپنے عمل سے ہمیں سکھایا کہ اپنی لکیر بڑی کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ دوسرے کی لکیر چھوٹی کی جائے. نجی محفلوں میں وہ اپنی پسند ناپسند کا اظہار ضرور کرتے تھے. لیکن پیشہ ورانہ زندگی اور ادبی دنیا میں انھیں گروپ بازی کا مرتکب ہوتے کبھی نہیں دیکھا. وہ وجودی فلسفے کے قایل ہیں اور ان کی تخلیقات کا محور وجودیت ہے لیکن وہ ترقی پسندی یا ما بعد جدیدیت کو کم تر یا بے معنی نہیں مانتے.
نئے لکھنے والوں کی کھل کر حوصلہ افزائی کرنا اور بے باکی سے اپنی رائے ظاہر کرنا ان کی خاص ادا ہے. احمد نعیم کی نظموں کے لیے کہے گئے الفاظ احمد نعیم کا تمغہ بن گئے ہیں. سفیر صدیقی کے شعری مجموعے کا مقدمہ جس کھلے دل سے انھوں نے لکھا یہ ان کی ہی خاصیت ہے. ڈیپارٹمنٹ سے ریٹائرمنٹ یا انتقال عہدہ کے وقت جو تقریبات ہوتی ہیں ان میں بھی وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے وقت کسی قسم کے تحفظات کا شکار نہیں ہوتے. میرے انشائیوں پر جس تفصیل سے وہ بات کرتے تھے اور سراہتے تھے اس کی تفصیل قلم بند کرنا میرے لیے مشکل ہے.
مجھے نہیں معلوم کہ ان دنوں انھوں نے اپنے لیے کوئی سواری خریدی ہے یا نہیں، میں نے انھیں دوسرے اسٹوڈنٹ ہی کی طرح بٹلہ ہاؤس کی گلیوں میں پیدل چلتے دیکھا ہے.
ان کی تحریر و تقریر میں صرف تحریری ادب کے حوالے ہی نہیں آتے بلکہ متعدد فنون لطیفہ مثلاً، رقص، موسیقی، منظری آرٹ، تجریدی آرٹ. دنیا بھر کی بڑی فلموں کے کردار انھیں ازبر ہیں. پاپولر لٹریچر پر بھی ان کی گہری نگاہ ہے. ہند و پاک میں ابن صفی کو مرکز گفتگو میں لانے میں ان کی کوششوں کا بڑا دخل ہے. پاپولر لٹریچر سے متعلق اردو اکادمی نئی دہلی کے زیر اہتمام ابن صفی کے فن پر پڑھا گیا ان کا مقالہ بنیادی حوالے کی حیثیت رکھتا ہے. ان کے نزدیک منٹو، بیدی اور ابن صفی ایک صف کے تخلیق کار ہیں.
میں نے ڈیپارٹمنٹ کے اساتذہ کو ان سے علمی استفادہ کرتے ہوئے دیکھا. وہ اپنے آپ میں انجمن ہیں. ان کی صحت و سلامتی، خوش حالی ،ترقی کے لیے دعائیں اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں.
(5 نومبر 2022) 
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : کتاب : نقوش و افکار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے