بچوں میں ذہانت کا فروغ کیوں اور کیسے؟

بچوں میں ذہانت کا فروغ کیوں اور کیسے؟

فاروق طاہر، حیدرآباد، انڈیا farooqaims@gmail.com,9700122826

اکثر لوگوں نے یہ غلط فہمی پال رکھی ہے کہ آدمی کے اندر دانش و بینش (عقل وذہانت) ایک محدود وقت یا عمر تک ہی فروغ پاتی ہے۔ اس رواجی فکر کا میں خود بھی ایک عرصے تک اسیر رہا۔ اگر ایک واقعہ میرے ساتھ نہ پیش آتا تو میں بھی شاید عمر بھر اسی رواجی فکر سے چمٹا رہتا۔
چند سال قبل مجھے ایک ورکشاپ کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا پڑا۔ وہاں تین دنوں تک میرا قیام رہا۔پہلے دن کے تھکا دینے والے افتتاحی شیشن کے بعد جب مجھے کچھ فرصت ملی تو کالج میں زیر تعلیم ایک لڑکا مجھ سے ملاقات کے لیے آپہنچا۔ ورکشاپ کے اختتام بلکہ میری روانگی تک یہ میرے ساتھ ہی رہا۔ دوران قیام یہ لڑکا میرے تمام کاموں میں معاون و مددگار بھی رہا۔میرے سامان اور دیگر اشیا کی دیکھ بھال کرتا۔ میرے کئی چھوٹے موٹے کام بھی اس نے سر انجام دیے۔ میرے ساتھیوں کے خیال کے مطابق یہ ایک معمولی لڑکا تھا۔کسی خاص قسم کی عقل و دانش، قابلیت و ذہانت اس کے اقوال و افعال سے ظاہر نہیں ہوتی تھی۔ میرا خیال بھی اپنے دیگر ساتھیوں سے کچھ مختلف نہ تھا۔
ورکشاپ سے واپسی کے بعد بھی چند دنوں بلکہ مہینوں تک یہ لڑکا میرے رابطے میں تھا۔ ایک سافٹ وئیر کمپنی میں اسے ملازمت مل گئی اور ہمارے روابط انحطاط کا شکار ہوگئے۔ دوسال بعد ایک دن اچانک ہماری ملاقات ہوئی۔ اس میں کئی حیران کن تبدیلیوں کو میں نے محسوس کیا۔ اس کے چہرے، باڈی لینگویج، اقوال و افعال سے بالیدگی اور ذہانت و متانت ٹپک رہی تھی۔
خاص موقعوں پر کیسے پیش آتے ہیں، کس طرح سے بات کی جائے، اپنا ردعمل کیسے رکھیں اس کے لیے خاص بالیدگی اور ذہانت کی ضرورت درپیش ہوتی ہے۔ لڑکے کے برتاؤ، اس کے طرزعمل سے میں نے اس کی ذہانت اور بالیدگی کے فروغ و ارتقا کو نمایاں محسوس کیا۔
ذہانت کیا ہے؟
عموماً ذہن نشینی کی قوت یا قوت انجذاب (Grasping Power) کو ذہانت سے باور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ذہانت کے کئی اور معنی و مفاہیم پائے جاتے ہیں۔ذہانت کے بارے میں بات کرنے سے پہلے ہم ذہن نشینی کی قوت (قوت انجذاب، قوت یاداشت) کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہمیں اپنے موضوع (ذہانت) کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
جب ہم اپنی کسی بات یا نکتے کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو جنھیں ہم سمجھاتے ہیں ان میں سے چند افراد فوری طور پر بات کو سمجھ جاتے ہیں اور بعض اسے جلد نہیں سمجھ پاتے۔ اس حقیقت کا کئی بار میں نے اپنے ورکشاپس میں بھی مشاہدہ کیا ہے۔ اگر کوئی لطیفہ سنایا جائے تو بعض فوری ہنسنے، مسکرانے لگتے ہیں جب کہ چند افراد ہنسنے، مسکرانے والوں کے چہروں کو دیکھتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ صورت حال وقتی طور پر عامل قوت انجذاب (Grasping Power) کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
قوت انجذاب/ذہن نشینی کی صلاحیت(Grasping Power)
ورکشاپ کے دوران ملاقات کرنے والے اور چند سال بعد ملاقات کرنے والے لڑکے کی قوت انجذاب میں، میں نے نمایاں فرق محسوس کیا۔ گفتگو کے دوران جو بھی اس سے کہا گیا اسے وہ فوری طور پر اپنی ذہنی دسترس میں لیتے ہوئے بڑے سلیقے و قرینے سے جواب دے رہا تھا۔ چند سال پہلے میری جس لڑکے سے ملاقات ہوئی تھی اب یہ وہ لڑکا نہیں تھا۔ اس ملاقات نے میرے خیالات و نظریات (جن پر میں ایک طویل عرصے سے تحقیق میں لگا تھا) کو بدل کر رکھ دیا۔ اس ملاقات کی وجہ سے چند سوال میرے ذہن کے نہاں خانے سے باہر نکل آئے۔
(1)بچے کی ذہانت ترقی کرتی ہے تو تب حقیقت میں کیا ہوتا ہے؟
(2)ذہانت کس عمر میں نشوونما پاتی ہے؟ ذہانت کس عمر تک ترقی پاتی رہتی ہے؟
ان سوالات پر جب میں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ذہانت کی نشوونما میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک اداکار چالیس پینتالیس سال کی عمر میں اپنے رگ پٹھوں (عضلات، Muscles) کو مزید بہتر بناتا ہے۔ جسم کے رگ پٹھوں و عضلات (Muscles) کو جس طرح اپنی محنت سے ایک آدمی بہتر بناسکتا ہے بالکل اسی طرح آدمی اپنی محنت سے ذہانت، بالیدگی اور پختگی میں مزید اضافہ کرسکتا ہے۔والدین، اساتذہ، تعلیم و تربیت اور شخصیت سازی کے کاز سے وابستہ افراد اگر اس اہم نکتے کو بہتر طریقے سے سمجھ لیں تو انھیں کسی بھی بچے کی ذہانت کو فروغ دینے میں دشواری پیش نہیں آئے گی۔
ذہانت کا غلط جگہ پر استعمال:
اکثر والدین سے میں نے یہ شکایت سنی ہے کہ ان کا بچہ ذہین تو ہے لیکن جہاں ذہن کو استعمال نہیں کرنا چاہیے اسے وہاں استعمال کرتا ہے۔ جہاں دماغ کو کام میں لانا چاہیے وہاں اسے کام میں نہیں لاتا۔ اس طرح کی شکایات عام ہیں۔ ہمیں اس شکایت کی تہہ تک پہنچنے اور اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ شکایت بالکل درست ہے اور جس بچے سے یہ شکایت ہے اس کا بھی اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔ اکثر و بیشتر حالات میں مسئلہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔
شکایت کرنے والے والدین سے میں نے پوچھا ”بچہ ذہین ہے“ اس کا دماغ بھی اچھا ہے تو پھر بتائیے کہ اپنے دماغ کو یہ کہاں استعمال کرتا ہے؟
انھوں نے فرمایا ”آپ اسے اگر کوئی اشتہار پڑھ کر سنانے کو کہیں تو یہ اسے فوراً یاد کرلیتا ہے۔ ویڈیو گیمز کھیلنے میں اسے کوئی مات نہیں دے سکتا۔ ہماری گلی کے بچوں میں کسی کے پاس بھی ویڈیو گیمز کھیلنے کی ایسی مہارت و صلاحیت نہیں ہے۔
ایک اور ماں نے مجھے بتایا ”میں روزانہ پریشان رہتی ہوں کیونکہ میرا بچہ اسکول میں آئے دن نت نئے مذاق (Pranks) کرتا رہتا ہے۔ ہر دن مجھے ڈر لگا رہتا ہے کہ اسکول سے آج کوئی شکایت نہ آجائے۔ مزید کہتی ہیں ”مذاق و شرارت کے وقت بچہ اپنے دماغ کو کیسے استعمال کرے گا اس کی پیش قیاسی ممکن نہیں ہے۔ وہ مذاق اور شرارت کے وقت ایسے تخلیقی طریقے (Innovative Techdniques) استعمال کرتا ہے کہ سبھی دنگ رہ جاتے ہیں۔ ٹیچرس بھی اپنی نجی گفتگو میں اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہتے۔ جب اسی تخلیقت کو اسے پڑھائی میں بروئے کار لانے کو کہا جاتا ہے وہ اسے استعمال نہیں کرپاتا۔ اس کی تخلیقی صلاحیتیں کہیں اور استعمال میں آئیں گی لیکن پڑھائی میں ہرگز نہیں۔
اس طرح کے سوالات کرنے والے والدین ہر گھر میں مل جائیں گے۔ آئیے اس شکایت کی اصل وجہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
1۔ہر بچے کے پاس ذہانت پائی جاتی ہے لیکن وہ ظاہر نہیں ہو پاتی۔
2۔کن حالات میں بچہ ذہانت کو استعمال میں لاتا ہے، اسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔
پہلاطریقہ
عقل و دانائی کا راست تعلق اعتماد سے ہے. 
بچوں میں ذہانت کو فروغ دینے یا پھر اسے درست راہ پر متعین کرنے سے پہلے ہمیں علم ہونا چاہیے کہ بچوں میں ذہانت کے فروغ کا عمل کب انجام پاتا ہے اور کب نہیں۔ ایک اچھا مالی پودوں کی بہتر نشوونما کے لیے نہ صرف زمین کو زرخیز بنانے کے جتن کرتا ہے بلکہ اس کی مناسب نگہداشت پر بھی توجہ دیتا ہے۔ وہ کاشت کے دوران زمین کو ہر طرح کی کثافتوں اور دباؤ سے محفوظ رکھتا ہے۔”زمین کو مناسب مقدار میں پانی اور ہوا مل رہی ہے یا نہیں، اس بات پر اس کی گہری نظر رہتی ہے۔ بچوں کے بارے میں بھی ہمارا بالکل یہ ہی معاملہ ہوناچاہیے۔
ہر بچے میں ذہانت ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ فطری طور پر ہر بچہ ذہانت لے کر اس دنیا میں آتا ہے۔ یعنی زمین پہلے ہی سے زرخیز ہے۔ بس ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ بچے کی ذہانت میں کب اضافہ ہورہا ہے اور کب نہیں۔
ہر بچے میں آنکھ، کان ناک، زبان ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ تمام بچے اپنے ہاتھ اور پاؤں ایک ہی طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح تمام بچوں کے دماغ بھی ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ جب دماغ ترقی پاتا ہے تو ذہانت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ بچوں کے ذہن ترقی پاتے ہیں تو ان میں اعتماد پروان چڑھتا ہے۔ اعتماد بچوں میں ذہانت کو تیزی سے پروان چڑھاتا ہے۔ پہل نہ کرنے والے، خوف زدہ، کم اعتماد والے بچے اپنی ذہانت کو استعمال کرنے سے کتراتے ہیں۔ بچوں کا شرمیلاپن بھی انھیں اپنی ذہانت کے استعمال سے باز رکھتا ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں ”جو چیز استعمال میں نہیں آتی وہ شے ترقی بھی نہیں کرتی“۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کی ذہانت میں اضافہ و فروغ کے لیے ان کے اعتماد کو پروان چڑھایا جائے۔ ان کی ذہانت کو فروغ دینے کے وافر سامان مہیا کیے جائیں۔
ہمارے برتاؤ اور طرزعمل سے بچوں کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہم ان سے جیسا برتاؤ کریں گے اور جو افکار و خیالات ان کے ذہنوں میں منتقل کریں گے ان میں اسی قسم کا اعتماد اور فکر پیدا ہوگی۔ اعتماد باہر سے حاصل کرنے والی شے نہیں ہے بلکہ یہ اعتماد ہمارے اندر ہوتا ہے۔ اسے پیدا کرنے اور پروان چڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
حیدرآباد (دکن) میں اساتذہ (لکچررس اور پروفیسرس) کے ایک ورکشاپ کے دوران ایک خاتون پروفیسر نے مجھ سے پوچھا ”میری ایک چارسالہ لڑکی ہے۔ ڈرپوک ہے اور اس میں اعتماد بھی کم ہے“۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ ورکشاپ میں موجود ہر شخص کا سوا ل تھا۔
میں نے خاتون پروفیسر سے پوچھا ”کیا میں کل صبح آپ کے گھر ناشتے کے لیے آسکتا ہوں“۔ محترمہ نے کہا ”ہاں، ہاں، کیوں نہیں آپ بالکل آسکتے ہیں“۔ ”کل آپ میرے لیے کیا پکائیں گی؟“
”آپ بتائیے کیا پکاؤں؟ لذیذ حیدرآبادی بریانی یا پھر چاول، کھٹی دال اور تلا ہوا گوشت؟“میں نے کہا ”کیا آپ بریانی مجھے ایک عام سی پلیٹ میں پیش کریں گی یا پھر کسی خاص پلیٹ میں سرو(Serve) کریں گی؟“۔خاتون پروفیسر مسکرائی اور کہا ”مہمان کو کھانا تو خاص پلیٹس(برتن) میں ہی سرو (پیش) کیاجاتا ہے۔خاص پلیٹس میں کھانا پیش کروں گی“۔ میں فوراً پروفیسر صاحبہ سے پوچھ بیٹھا کہ اگر اس وقت آپ کی چار سالہ بیٹی خاص پلیٹ میں مجھے بریانی سرو (پیش) کرنا چاہے تو کیا آپ اسے ایسا کرنے کی اجازت دیں گی؟“۔ خاتون کے چہرے کے تاثرات بدل گئے، انھوں نے کہا ”میں بھلا کانچ کی پلیٹس کس طرح اسے دوں گی۔ وہ اسے توڑ دے گی اور خود کو بھی زخمی کرلے گی“۔ میں نے کہا ”اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی بیٹی سے کہہ رہی ہیں کہ تم کانچ کے برتن سنبھالنے کے لائق نہیں ہو“۔ پروفیسر صاحبہ کے ماتھے پر کئی سوال نمودار ہوئے۔
اکثر والدین اپنے بچوں کو محسوس یا غیر محسوس، دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کہتے ہیں کہ تم یہ کام کرنے کے قابل نہیں ہو۔ والدین بچوں سے جو بھی کہتے ہیں ان کے لیے وہ الفاظ پتھر کی لکیر بن جاتے ہیں اور ان کے ذہنوں میں گھر کرجاتے ہیں۔
کانچ کی پلیٹ کی قیمت کیا ہوگی؟ پچیس روپے، پچاس یا پھر سو روپے۔ اگر اس موقع پر بچی میں اعتماد پیدا ہوجاتا ہے تو بتائیے کہ اس کی قیمت کیا ہوگی؟ اگر کانچ کی پلیٹ ٹوٹتی ہے تو پچیس، پچاس یا سوروپے کا نقصان ہوگا۔ اگر لڑکی کا اعتماد مجروح ہوگیا اور اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ وہ یہ کام نہیں کرسکتی ہے تو بتائیے کہ اس کا کتنا نقصان ہوگا؟ اس نقصان کی پابجائی آپ کریں گی یا پھر عمر بھر آپ کی بیٹی کرے گی؟
ہال میں موجود سبھی تعلیم یافتہ بلکہ تعلیم دینے والوں نے برملا اعتراف کیا کہ ایسے کئی واقعات ان سے سرزد ہوئے ہیں اور انھوں نے غیر دانستہ طور پر بچوں کو اعتماد سے دور کر دیا ہے۔ پھر بتائیے کہ کیا کیا جائے، کانچ کی پلیٹ بھی نہ ٹوٹے اور کام (اعتماد بھی فروغ پائے) بھی ہوجائے۔
ہمیں کیاکرنا چاہیے
بچوں کو بتایا جائے کہ شیشے کیوں ٹوٹ جاتے ہیں۔ پلاسٹک کی اشیا کیوں نہیں ٹوٹتی۔ کانچ کی پلیٹوں کو کیسے سنبھالا (ہینڈل کیاجائے) جائے کہ وہ ٹوٹنے سے بچے۔ آپ بچوں کو جب یہ معلومات فراہم کریں گے تو نہ صرف ان کی معلومات میں اضافہ ہوگا بلکہ دو وجہ سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔
1۔ درست معلومات کی فراہمی سے اعتماد بڑھے گا۔
2۔دوسرا کام کی تکمیل سے حاصل ہونے والی خوشی جو ان کے چہروں پر دیکھی جاسکتی ہے اس سے بھی اعتماد میں اضافہ ہوگا۔
گھر میں آئے ہوئے مہمانوں کو ایک چھوٹی بچی کشتی (ٹرے) میں بڑے سلیقے سے انھیں جب کھانا پیش کرے گی۔ یہ دیکھ کر تو سبھی مہمان اور گھر کے افراد خوش ہوجائیں گے اور اس کی تعریف کریں گے۔ تمام لوگ برملا کہیں گے ایک چھوٹی سے لڑکی نے کس خوبی سے ٹرے کو سنبھالا اور کتنے سلیقے سے کام کو انجام دیا ہے۔مہمانوں کا بے ساختہ ردعمل اور تعریف بچی کے ذہن پر نقش ہوجائے گی اور اس میں کبھی نہ تھکنے اور مرنے والا اعتماد پیدا ہوجائے گا۔
بچوں کی منفی ذہنیت اور ناچاری کی وجہ والدین کا بے جا خوف و فکر مندی غیر دانستہ طور پر بچوں کے اعتماد کو کچل دینے اور پسپا کرنے والی مثالیں اکثر گھروں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایک واقعہ جو میں نے گرمیوں کی چھٹیوں میں دیکھا اس کایہاں ذکربے محل نہ ہوگا۔ اپنے بیٹے کو پیراکی سکھانے کی خاطر میں سوئمنگ پول لے گیا۔ وہاں کوئی پیراکی کررہا تھا تو کوئی پیراکی کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک دس سال کے بچے کو اس کے والدین پیراکی (سوئمنگ) سکھانے لائے ہیں۔ خوش گوار ماحول تھا لیکن بچے کی ماں کافی پریشان اور متفکر دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے کم از کم سو مرتبہ اپنے بچے سے کہا کہ اکیلے پانی میں مت جاؤ، گہرائی میں مت جاؤ۔یقینا وہ اپنے بچے کی حفاظت کے لیے فکرمند تھی۔ اس کے چہرے، الفاظ اور باڈی لینگویج (جسمانی حرکات) سے اس کی پریشانی کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ بچے کو سوئمنگ کاسٹیوم پہنا کر جب اس کا باپ سوئمنگ پول کے قریب پہنچا۔ بچہ پانی میں (سوئمنگ پول) میں اترنے کو تیار نہیں تھا۔ وہ زاروقطار رو رہا تھا۔ باپ کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی وہ پانی میں نہیں اترا۔
اعتماد پیدا کرنے کا مثبت طریقہ:
اسی وقت میرا بیٹا بھی چینج چنگ روم سے مسکراتا ہوا نکلا۔ سوئمنگ کاسٹیوم پہن کر خوشی اور جذبہ کے ساتھ پیراکی کے لیے مکمل تیار تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا، کیا میں پانی میں چھلانگ لگا سکتا ہوں۔
میں مسکرایا اور اس کی کمر کے گرد سوئمنگ ٹیوب ڈالی، ہاتھوں میں ائیر بلونس پہنائے اور کہا بھاگو اور پانی میں کود جاؤ۔ بغیر کسی تاخیر کہ وہ بھاگتے ہوئے آیا اور پانی میں چھلانگ لگادی۔ اگلے ہی لمحے وہ پانی کی سطح پر تیر رہاتھا۔ میں اس کے بالکل قریب موجود رہا۔ میرے قریب موجود لوگ مجھ سے پوچھنے لگے آپ کا بچہ کتنے دنوں سے پیراکی (سوئمنگ) کررہا ہے۔ میں نے کہا ”یہ اس کا پہلا دن ہے“۔ لوگ حیران تھے کہ بچے نے کس طرح سے اتنی ہمت دکھائی اور پانی میں چھلانگ لگادی؟ وہ پانی سے کیوں نہیں ڈرا؟
میرے بیٹے کے پانی میں چھلانگ لگانے کی واحد وجہ جو تھی کہ میں نے یا میرے گھر میں کسی نے بھی اسے پانی میں کودنے سے منع نہیں کیا۔ مجھے یقین تھا کہ حفاظتی اقدامات کے بعد وہ سب کچھ آسانی سے کرلے گا۔ میں حفظ ماتقدم کے تحت بالکل چوکنا تھا۔ بچے پر اپنی فکر مندی اور تشویش کو میں نے بالکل بھی ظاہر نہیں ہونے دیا۔
اس کے برخلاف وہ بچہ والدین کے بارہا اصرار پر بھی پانی میں اترنے کو ہرگز تیار نہیں تھا۔ آخر کار کوچ نے اسے اپنے کندھوں پر بٹھا لیا اور سیڑھیوں کے کنارے سے پانی میں داخل ہوا۔ بچہ مسلسل روئے جارہا تھا اور چیخ رہا تھا۔ وہ سوئمنگ ٹیوب پہن کر بھی پانی میں داخل ہونے کو تیار نہیں تھا۔ جہاں سوئمنگ پول کے کنارے وہ لڑکا پائپ پکڑے مسلسل روئے جارہا تھا وہیں میرا بیٹا اپنے ہاتھوں پر ہوا سے بھرے غبارے (Air Baloon) لگائے پانی میں ہاتھ پیر مارے ادھر ادھر حرکت کررہا تھا اور پیراکی کا مکمل لطف لے رہا تھا۔ میری طرح اس لڑکے  کے والدین بھی چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ نہ روئے۔ میرے بیٹے کی طرح ان کا بچہ بھی سوئمنگ کا مزہ لے۔لیکن یہ سب ہماری روزمرہ کی گھریلو گفتگو، رویے، ہمارے الفاظ اور ہمارے خیالات کا نتیجہ ہے۔ بچوں میں منفی رجحان پیدا ہوگا اگر ہم انھیں کہیں گے کہ یہ مت کرو، وہ نہ کرو۔ ان میں مثبت سوچ فروغ پائے گی اگر ہم کہیں گے کہ آپ یہ، اور وہ کرسکتے ہیں۔ اس طرح بچوں میں اعتماد پیدا ہو گا۔ ایک مہینے تک لگاتار میں اپنے بیٹے کو سوئمنگ پول لے جاتا رہا۔ میں نے دیکھا وہ بچہ ایک مہینے کے آخر تک بھی پیراکی نہیں سیکھ پایا۔ میرا لڑکا جہاں چار پانچ دن میں بغیر کسی حفاظتی سامان کے تیررہاتھا وہیں ایک مہینے کے بعد بھی وہ لڑکا کم گہرائی والے پانی میں تیرنے کے بجائے اپنے پیروں پر چل رہا تھا۔
میں نے یہاں صرف ایک مثال پیش کی ہے، ایسے واقعات ہمارے گھروں میں روزانہ ہوتے رہتے ہیں اور والدین بچوں کے ذہنوں میں غیر دانستہ طور پر منفی رجحانات انڈیلتے رہتے ہیں۔ باشعور والدین ہر وقت اپنے بچوں میں اعتماد پیدا کرنے کے جتن کرتے ہیں۔ والدین بچوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے وہ سب کچھ کریں جو کچھ وہ کرسکتے ہیں۔ ذہانت پھر خود بخود ترقی کرے گی۔ اعتماد پروان چڑھے گا تو ذہانت اپنے آپ فروغ پائے گی۔
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:”بہترین وقت“ کے لیے ”وقت“ کو بہتر استعمال کریں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے