مسلمانوں نے یونی ورسٹیاں بنائیں، مگر معیاری اسکول نہیں بنائے: ڈاکٹر فریدہ خانم

مسلمانوں نے یونی ورسٹیاں بنائیں، مگر معیاری اسکول نہیں بنائے: ڈاکٹر فریدہ خانم

ڈاکٹر فریدہ خانم، چیرپرسن سی پی ایس انٹرنیشنل، نئی دہلی سے  خصوصی ملاقات

انٹرویو نگار: علیزے نجف

ایک کامیاب زندگی مسلسل محنت اور انتھک جدوجہد سے عبارت ہے، اس سفر میں کبھی نہ ختم ہونے والی جستجو اور جذبہ جزو لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے، اس دنیا میں بےشمار لوگ گذرے ہیں جن کے عزم کی داستان اور مشکلات سے نمٹنے کا جذبہ لوگوں کے لیے ایک مثال رہا ہے، ایسی ہی ایک شخصیت ڈاکٹر فریدہ خانم ہیں جن کی پوری زندگی عمل پیہم کی تفسیر ہے، انھوں نے نامساعد حالات میں بھی اپنی آرزوؤں کے چراغ کو روشن کیے رکھا، علم کی پیاس ان کی رگ و پے میں شامل رہی، اس کی تسکین کے لیے انھوں نے ہر ممکن کوششیں کیں، اس علم کے متلاشی دل نے اعظم گڑھ کے ایک دور افتادہ گاؤں سے ہو کر رام پور جیسے تاریخی شہر سے گزر کر علم کے مرکز دہلی کو اپنا مسکن و منبع بنایا، انھوں نے وسائل کی کمی کو اپنی محنت سے پورا کیا، انھوں نے علی گڑھ یونی ورسٹی سے پری یونی ورسٹی کا امتحان پاس کیا. پھر دہلی کالج سے بی.اے کی ڈگری حاصل کی. اس کے بعد دہلی یونی ورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم.اے کی ڈگری حاصل کی. پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے شعبہ اسلامک اسٹڈیذ میں An Analysis of Religio-Political Thought of Syed Abul Ala Moudodi” کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی.ایچ.ڈی کی ڈگری حاصل کی، جامعہ ملیہ اسلامیہ یونی ورسٹی دہلی جیسے اعلا علمی ادارے میں بہ حیثیت پروفیسر  اپنی خدمات انجام دیں، ڈاکٹر فریدہ خانم ایک معروف مصنفہ، معلمہ اور مترجمہ ہیں، یہ معروف نابغہ روزگار شخصیت اور مذہبی اسکالر مولانا وحیدالدین خاں کی صاحب زادی ہیں، یہ مولانا کے مشن میں شب و روز ان کے ساتھ رہیں، اپنے والد کا دست راست بن کر ہر مشن کو آگے بڑھانے میں ان کا ایک کلیدی کردار رہا، مولانا کے زیرسایہ ہونے والی تربیت نے ان کی شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا، ڈاکٹر فریدہ خانم کی پوری زندگی عورتوں کے لیے اس بات کی مثال ہے کہ عورتیں کس طرح اپنے پوٹینشیل کو ایکچولائز کر کے علمی و فکری بلندی کو سر کر سکتی ہیں، مولانا صاحب کی تحریک احیاء اسلام سے فریدہ خانم شروع سے وابستہ رہیں، آج جب کہ مولانا صاحب ہمارے درمیان نہیں رہے تو ان کے بعد فریدہ خانم Centre for peace and Spirituality ادارے کی روح رواں یعنی چیر پرسن ہیں، ان کی زندگی ہمہ جہت پہلوؤں سے آراستہ ہے. اس وقت میں ان کے سامنے بہ طور انٹرویو نگار موجود ہوں، میرے ذہن میں بےشمار سوالات ہیں، میں ان میں سے اہم سوالات پہ بات چیت کرنے کی تگ و دو میں ہوں، جو ہماری سوچ و فکر کی نشوونما میں معاون ثابت ہو، میں سوالات کی طرف بڑھتی ہوں. 

علیزےنجف: سب سے پہلے ہم آپ کا تعارف چاہتے ہیں اور یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کی پیدائش ہندستان کے کس خطے میں ہوئی۔ اس خطے کی تاریخی حیثیت کیا ہے۔ اس ماحول نے آپ کی شخصیت سازی پر کس طرح کے اثرات مرتب کیے؟
ڈاکٹر فریدہ: میں اعظم گڑھ کے ایک گاؤں بڈھریا میں 2 مئی 1952ء میں پیدا ہوئی۔ اپنے بھائی بہنوں میں صرف میری ہی پیدائش بڈھریا کی ہے۔ ہمارا خاندان ایک پٹھان خاندان تھا۔ ہمارے مورث اعلا (ancestor) حسن خاں سوات سے ہجرت کر کے ہندستان آئے تھے۔ وہ جون پور کے ایک قصبہ کرت پور میں بس گئے۔ سفر میں ان کا سامنا ایک مردم خور شیر سے ہوا، جس کو انھوں نے اکیلے صرف تلوار سے مار دیا۔ جون پور سلطنت پر شرقی خاندان کی حکومت تھی۔ اس بات کا چرچا ہوا اور یہ بات وہاں کے شرقی بادشاہ کو معلوم ہوئی تو اس نے ایک بڑا علاقہ اور اِرنی کا پورا جنگل (جہاں سے شیر آتا تھا) ان کو جاگیر کے طور پر دے دیا۔ بعد میں غالباً دوسری یا تیسری جنریشن میں ساس بہو کے ایک جھگڑے کے بعد بہو اپنے میکے (بڈھریا) آ گئیں۔ لہٰذا اس خاندان کی ایک شاخ بڈھریا میں بس گئی۔ ان کے شوہر ضیاءالدین خان اعظم گڑھ کورٹ میں سروس کرنے لگے۔ انھوں نے دھیرے دھیرے 4 گاؤں خرید لیے، جو ابھی بھی ہمارے خاندان کے پاس ہیں۔ لیکن اب وہ گاؤں (چھاؤنی) اور تمام لوگوں کے گھروں کو ضیاء الدین میموریل انگلش میڈیم اسکول کو وقف کر دیا گیا ہے۔
علیزے نجف: آپ نے جب شعور کی آنکھ کھولی اس وقت آپ کے گھر کے ماحول میں کس طرح کی تہذیب کا غلبہ تھا۔ آپ کے والدین نے اپنے بچوں کی ذہن سازی کرتے ہوئے کن اصولوں کو ہمیشہ مقدم رکھا؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: گھر کا ماحول: جب میں نے شعور کی آنکھ کھولی تو یہ دیکھا کہ گاؤں میں خاندان کے تقریباً تمام لوگ شہروں میں منتقل ہو چکے تھے۔ ایک ہمارا خاندان ہی تھا جو گاؤں میں رہتا تھا۔ والد صاحب اعظم گڑھ شہر اپنے بڑے بھائی کے پاس چلے جاتے۔ وہاں وہ سارا دن دار المصنفین کی لائبریری میں کتابوں کے مطالعہ میں مشغول رہتے۔ کبھی اماں کی طبیعت خراب ہوتی تو چند دنوں کے لیے گاؤں آتے، پھر واپس شہر چلے جاتے۔
والدہ اشراق، چاشت، تہجد ساری نمازیں پڑھتی تھیں۔ اس طرح ہم لوگ اپنی والدہ کے اثر میں عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ جب والد صاحب ندوہ (لکھنؤ) گئے، تب بھی ہم لوگ گاؤں ہی میں رہتے تھے۔ صرف چند مہینوں کے لیے لکھنؤ گئے تھے، اماں کو ڈاکٹر سے دکھانے کے لیے۔ البتہ ثانی اثنین (چھوٹے بھائی) کو ابا اپنے ساتھ لکھنؤ لے گئے تھے۔ وہ غالباً اس وقت چار سال کے تھے۔بعد میں جب 1967ء میں والد صاحب الجمعیۃ (جمعہ ایڈیشن) کے ایڈیٹر بنائے گئے تو وہ ثانی اثنین کے ساتھ دہلی منتقل ہو گئے۔
والد صاحب کی تربیت: جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے والد صاحب نے ساری توجہ صرف بڑے بھائی پر کی۔ بڑے بھائی کی صلاحیت اور پرسنالٹی کی وجہ سے والد صاحب سمجھتے تھے کہ وہ دین کا بڑا کام کریں گے۔ ثانی اثنین کی پڑھائی پر بھی وہ توجہ نہیں تھی۔ دلی میں ایک عام اسکول مظہرالاسلام میں داخلہ کرا دیا تھا۔بعد میں 8ویں کلاس میں انھوں نے ایک انگلش میڈم اسکول Ludlow Castle میں داخلہ لیا۔
لیکن جہاں تک دینی، اخلاقی تربیت کا معاملہ تھا وہ تمام بچوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے، میں غالباً 8-7 سال کی رہی ہوں گی تو میں نے ایک جھوٹ بول دیا تھا۔ تو مجھے بہت مارا تھا۔ ابھی تک مجھے یاد ہے۔ یہ سزا میرے لیے ایک چک (check) بن گئی۔ ہم نے پھر کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ والد صاحب کی سزائیں بھی creative قسم کی ہوتی تھیں۔ جب کوئی غلط بات دیکھتے تو ہمیں کبھی 50 رکعت، اور کبھی100 رکعت نماز پڑھنے کی سزا دی جاتی۔ میری بڑی بہن ام السلام کو بیٹھا دیا جاتا کہ تم رکعتوں کو گنو۔ ہم لوگ والد صاحب سے بہت ڈرتے تھے۔رو رو کر پوری نماز پڑھتے۔ ایک دن ہماری پڑوسی راشدہ آپا، جو کہ جامعۃ الصالحات میں عربی پڑھاتی تھیں، آگئیں۔ ہماری حالت دیکھ کر بولیں کہ چچا میاں تو زبردستی کا خشوع و خضوع طاری کرا دیتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم لوگوں کو باہر گھومنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس وجہ سے ہم لوگوں نے باہر کی سوسائٹی سے غلط اثرات قبول نہیں کیے۔ والدہ کو باتیں بنانا، باتوں کا گھما پھرا کر پیش کرنا، یہ سب نہیں آتا تھا۔ جو بات ہوتی وہ صاف صاف (as it is) بیان کر دیتی تھیں۔ ایک بار ہماری چچی جان نے والدہ کے بارے میں کہا کہ ’’بھاوج بڑی plained ہیں‘‘۔ اسی لیے ہم لوگ کوئی غلطی کرتے تو وہ والد صاحب سے صاف صاف کہہ دیتیں۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو سزا کے طور پر نماز پڑھوائی جاتی۔ اس وجہ سے ہم لوگوں نے نہ گھر کے اندر کوئی غلط اثر قبول کیا نہ باہر۔
جب ہم لوگ دلی آئے تب پڑھائی کے سلسلہ میں باہر جانے لگے۔ لیکن اس وقت ہم لوگ mature ہو گئے تھے۔لہٰذا غلط اثرات قبول نہ کر سکے۔ دوسرے یہ کہ پڑھائی پر اتنا زیادہ وقت لگتا کہ کسی اور بات کی فرصت ہی نہیں تھی۔ ہم نے کبھی پکچر نہیں دیکھی تھی۔ جب ہم نے کالج میں داخلہ لیا تو ایک بار کلاس کے سب لوگ ’’ایک پھول دو مالی‘‘ پکچر دیکھنے کے لیے گئے اور اصرار کر کے مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ لیکن مجھے کوئی دل چسپی نہیں ہوئی۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ میں سنیما ہال میں بیٹھے بیٹھے سوتی رہی۔
تعلیم: جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ پٹھان خاندانوں میں عورتوں کو بالکل گھر کی چہار دیواری میں رکھا جاتا تھا۔ عورتوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہ تھا۔ گاؤں میں لڑکیوں کے لیے کوئی اسکول نہ تھا۔ آج بھی افغانستان میں عورتوں کو بالکل آزادی نہیں ہے۔
میرے نانا حامد حسن علوی (1872-1959ء) کا وطن کوہنڈہ تھا۔ میری والدہ سابعہ خاتون کو وہ بہت مانتے تھے۔ نانا ایک صوفی تھے۔ لہٰذا ان کے یہاں کافی مریدوں کی آمد و رفت رہتی تھی۔ والدہ پورے گھر کی ذمہ داری کو سنبھال لیتی تھیں۔ اس لیے سسرال میں وہ بہت کم رہتی تھیں۔ شادی کے تقریباً 15 سال تک وہ زیادہ تر میکہ ہی میں رہیں۔ لیکن وہاں بھی عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کوئی خاص انتظام نہ تھا۔ گاؤں میں ایک پرائمری اسکول یا مدرسہ تھا، یہ نانا نے کھولا تھا، وہاں صرف ابتدائی تعلیم دی جاتی تھی۔
ایک واقعہ سے آپ اندازہ کر سکتی ہیں کہ والدہ کو پڑھنے کا کتنا شوق تھا۔ گاؤں میں جو پرائمری اسکول تھا، اس میں وہ پڑھنے جاتی تھیں۔ گاؤں میں تو چاروں طرف کھیت ہوتا ہے۔ وہ مدرسہ کھلنے سے ایک گھنٹہ پہلے پہنچ جاتی تھیں۔ تو ٹیچر نے گھر یہ خبر بھیجی کہ یہ بچی سویرے آ جاتی ہے۔ یہاں کوئی نہیں رہتا۔ کسی دن اس کو بھیڑیا اٹھا لے جائے گا۔
گاؤں کے مدرسہ میں انھوں نے اردو لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ ان کا شوق دیکھ کر نانا نے یہ انتظام کیا تھا کہ انھوں نے ابتدائی عربی، فارسی اپنے مریدوں سے ان کو پڑھوا دی تھی۔ والدہ کی ہینڈرائٹنگ بہت خوش خط تھی۔
لیکن اس زمانہ میں ہمارے خاندان ہی کی بات نہیں تھی، بلکہ عام طور پر عورتوں کی تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ نانیہال کے ماحول کے اثر سے ہم لوگ فرض نمازوں کے ساتھ نفل نمازیں بھی ادا کرتے۔ قرآن پڑھتے اور میں نے قرآن کی کئی سورہ حفظ بھی کر لی تھی۔ بہت سی دعائیں یاد کر لی تھیں۔ بہت بعد میں مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہم لوگوں کا بچپن میں گاؤں میں رہنا، والدہ کی تربیت میں، بہت اہم تھا۔ وہاں بگڑنے کے لیے کوئی ماحول نہ تھا۔ ہم تینوں بہنیں یا تو گھر ہی میں کھیلتے یا عبادت کرتے۔ اس spiritual ماحول کی وجہ سے ایسا ہوا کہ بعد میں جب ہم نے والد صاحب کی کتابیں پڑھیں تو فوراً اس سے متاثر ہو گئے۔ وہ جذبہ کہ دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنا ہے ایڈریس ہو گیا۔ اس کے بعد there was no looking back۔ جب کہ بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو کہ وقتی طور پر کسی مشن میں لگتے ہیں، پھر اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔ والدہ کی تربیت نے فطرت کی روحانیت کو جگا دیا تھا۔ اس وجہ سے ہمیں مشن کے راستہ پر چلنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔
نانا کے یہاں بھی صرف بھائی صاحب (ظفر الاسلام خاں) کی اہمیت تھی۔ نانا کے پاس ان کی pampering کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر وہ مدرسہ کے کسی ٹیچر کی شکایت نانا سے لگا دیتے تو ٹیچر گھر میں بلا کر ڈانٹا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے بھائی صاحب کی درست انداز میں تعلیم نہ ہو سکی۔ ان کو گاؤں میں ڈنڈا مار خلیفہ کہا جاتا تھا۔ اصل یہ ہے کہ نانا بھائی صاحب کو اپنا خلیفہ (succesor) بنانا چاہتے تھے۔ اسی لیے ان کو سفر میں بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے۔بنڈِل(ویسٹ بنگال) میں نانا کے مرشد باقی باللہ کی خانقاہ تھی۔ وہاں بھی بھائی صاحب کو ساتھ لے جاتے۔ باقاعدہ اپنا خلیفہ بنانے کے لیے ان کی grooming کر رہے تھے۔
ناناکو اگر تعلیم کی اہمیت معلوم ہوتی تو وہ بھائی صاحب کی تعلیم بہت بہتر طور پر کر سکتے تھے، وہ ان کو کسی اچھے شہر میں پڑھنے کے لیے بھیج سکتے تھے۔ نانا کے مرید ہر جگہ تھے۔ خود ان کے ایک رشتہ دار سرجن تھے اور الہ آباد میں رہتے تھے۔ شاید ان کا نام حبیب اللہ تھا۔ نانا کے ایک مرید کے پاس برما کا پورا شہر اکیاب (Akyab)تھا۔ اعظم گڑھ کے ایک بڑے وکیل فیضان صاحب تھے، وہ بھی نانا کے رشتہ دا ر تھے، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح ہر جگہ ان کے لوگ تھے۔ لیکن تصوف میں کسی کا جانشین بننے کے لیے تعلیم ضروری نہیں تھی، صرف پرسنالٹی کافی تھی۔ اس لیے نانا نے ان کی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دی۔
جب نانا کاانتقال ہوا، اس وقت غالباً بھائی صاحب 10 سال کے تھے، تو والد صاحب نے ہم لوگوں کو رام پور بلایا۔ اس وقت والد صاحب جماعت اسلامی میں کام کر رہے تھے۔
والد صاحب کا طریقہ نانا کے برخلاف تھا، انھوں نے اپنے کسی بچہ کی pampering نہیں کی۔ وہ pampering کے سخت خلاف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ pampering کرنے سے بچوں کا potential بیدار نہیں ہوتا۔ وہ لائف میں چیلنجز کو face کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ چونکہ بھائی صاحب کی تعلیم بالکل نہیں ہو سکی تھی اور عمر بھی کافی ہو چکی تھی اور نانا کے بے جا لاڈ پیار کی وجہ سے ان کا دھیان پڑھائی کی طرف سے بالکل ہٹ چکا تھا۔ لہٰذا غیر لاڈ پیار کے ماحول میں ان کو adjust کرنے میں کافی وقت لگا۔ یہاں صرف پڑھائی کا ماحول تھا۔ کسی قسم کا کوئی انٹرٹینمنٹ موجود نہیں تھا۔ صرف پڑھنا لکھنا۔ والد صاحب کی بھی یہی زندگی تھی۔ ان کا ایک ایک لمحہ پڑھنے، لکھنے اور سوچنے میں گزرتا تھا۔ اس کو ہم puritan way of life کہہ سکتے ہیں. اس وقت نانا کا انتقال نہ ہوتا تو بھائی صاحب کی تعلیم نہیں ہو سکتی تھی۔ نانا صرف اس میں interested تھے کہ ان کو اپنا خلیفہ بنائیں۔
اپنے تعلق سے میں یہ بتانا چاہوں کہ میں بھی مذہبی گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے ابتدا میں دوسرے لوگوں کی طرح اتنا ہی جانتی تھی کہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ بس یہی ہماری ڈیوٹی ہے۔ اس کے علاوہ تمام وقت دنیا کو حاصل کرنےمیں لگانا ہے۔ اچھی ڈگری لے کر اچھی جاب حاصل کرنا۔ یہی زندگی کا مشن تھا۔
والد صاحب کی کتابیں پڑھنے، ان کا ترجمہ انگریزی میں کرنے اور ان سے گفتگو کرنے کا موقع ملا تو ہمیں خدا کی معرفت حاصل ہوئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ صرف نماز، روزہ کافی نہیں ہے۔ بلکہ اسلام ایک مشن ہے، یعنی تزکیۂ نفس اور دعوت کا مشن۔ اس کو اپنی زندگی کا پرائمری کنسرن بنانا ہے۔ والد صاحب کے ذریعہ ہمیں معلوم ہوا کہ نماز، روزہ تو بنیادی اعمال ہیں۔ ہمیں اپنی پوری زندگی، پورا اثاثہ، پوری طاقت اپنا تزکیہ کرنے اور خدا کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے لگا دینا ہے۔
خدا کا پیغام ساری دنیا کے لیے آیا ہے۔ رسول اللہ کو خاتم النبیین تو سارے مسلمان مانتے ہیں۔ لیکن ان کو یہ نہیں معلوم کہ خاتم النبیین کی امت ہونے کا مطلب کیا ہے۔ یہ ہمیں والد صاحب کی رائٹنگ سے معلوم ہوا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ پیغمبر اسلام کے بعد کوئی دوسرا پیغمبر نہیں آنے والا ہے، اس لیے امت مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پیغمبر اسلام کے پرامن پیغامِ رحمت کو ساری دنیا تک پہنچا دیں۔ اسی کو دعوت الی اللہ کہتے ہیں ۔اس نقطۂ نظر سے مسلمان داعی ہیں اور غیرمسلم مدعو ہیں۔ آج مسلمانوں نے تمام غیرمسلموں کو مدعو کے بجائے اپنا rival سمجھ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے ہر جگہ مسلمانوں نے تعلقات خراب کر رکھے ہیں۔ جب کہ دعوت کا کام کرنے کے لیے اچھے تعلقات ضروری ہیں۔
علیزے نجف: آپ کے بارے میں پڑھتے ہوئے یہ بھی معلوم ہوا کہ حصول تعلیم کا شوق آپ کو بچپن سے ہی تھا۔ ابتدائی عمر میں جب کہ بڈھریا میں ہونے کی وجہ سے آپ کا تعلیمی سلسلہ معطل تھا، ایسے میں آپ اپنی علمی تشنگی کی تسکین کے لیے کیا کرتی تھیں۔ کس طرح کی کتابیں پڑھتی تھیں۔ کیا اس کی فراہمی آسان تھی؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: اعظم گڑھ ایک علمی شہر ہے۔ لیکن میرے اوپر اس ماحول کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ کیوں کہ اس زمانہ میں لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی رواج نہیں تھا۔والد صاحب نے بھی صرف بڑے بھائی کی تعلیم پر پوری توجہ دی۔ جب مدرسۃ الاصلاح میں پڑھتے تھے تو چھٹیوں میں ان کو بڑے ابا (عبد العزیز خاں) کے یہاں شہر میں بھیج دیا جاتا. وہاں ان کو انگریزی پڑھانے کے لیے ٹیوٹر رکھا گیا۔ اس طرح ان کو شروع ہی سے اردو، عربی اور انگریزی تینوں زبانیں سکھائی گئیں. لیکن ہم تینوں بہنیں گاؤں میں رہتے تھے. وہاں لڑکیوں کی پڑھائی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔
جب والد صاحب رام پور گئے تو وہاں جامعۃ الصالحات میں ہم دونوں بہنوں کا داخلہ دلوایا۔ لیکن جماعت اسلامی کے اثر سے پانچویں کلاس کے بعد ہمیں نکال لیا۔(اُس وقت کی) جماعت اسلامی کی آئیڈیالوجی میں لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی خانہ نہیں تھا۔ اب تو practically جماعت اسلامی نے اپنے اندر بہت تبدیلیاں کر لی ہیں۔ والدہ کو بہت شوق تھا کہ ہم لوگ بھی تعلیم حاصل کریں۔ لیکن والدہ کے اصرار کے باوجود ہم لوگوں کو پانچویں کلاس کے بعد نکال لیا گیا۔
نانا کے یہاں جو مذہبی ماحول تھا، اس کا اثر والدہ پر سب سے زیادہ تھا۔ نانیہال میں جب ہم لوگ رہتے تھے تو غالباً اس وقت میری عمر 6-5 سال کی رہی ہوگی۔ لیکن ہم تینوں بہنیں والدہ سے بہت متاثر تھے۔ ہم سب لوگ نماز، روزہ اور قرآن میں کافی وقت لگاتے۔ مذہبی کتابیں بھی پڑھتے۔ دعائیں یاد کرتے۔ تسبیح پڑھتے۔ قرآن کی کئی سورہ میں نے یاد کرلی تھی۔ بعد میں جب ہم لوگ دہلی چلے گئے اور وہاں باقاعدہ پڑھائی شروع ہوئی تو پڑھائی کی طرف زیادہ دھیان ہو گیا۔
گھر میں کتابیں وغیرہ نہیں تھیں۔ ابھی تک مجھے یاد ہے کہ بتول کے دو شمارے رکھے ہوئے تھے، اسی کو ہم پڑھتے رہتے تھے۔
ہمارے خاندان میں تقریباً سبھی بچے اچھے اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ لیکن وہ صرف پکنک کے طور پر گاؤں ایک دو دن کے لیے آتے۔ ہمیں ان کو دیکھ کر بہت عجیب لگتا کہ یہ لوگ انگلش اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
علیزے نجف: آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے۔ آپ نے اس تعلیمی سفر کو کس اصول کے تحت طے کیا اور کس جذبے نے آپ کو اس مشکل راستے پر استقامت کے ساتھ ثابت قدم رکھا اور اس سفر میں سب سے زیادہ آپ کو کس کا تعاون حاصل رہا؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: میں نے جامعۃ الصالحات (رام پور) سے 5ویں کلاس تک تعلیم حاصل کی تھی۔ جب والد صاحب نے جماعت اسلامی کو چھوڑا تو پھر ہم لوگ گاؤں چلے گئے۔
وہاں پڑھائی لکھائی کا کوئی ماحول نہ تھا۔ ہمارے سارے رشتہ دار گاؤں چھوڑ کر شہر جا چکے تھے۔ جب والد صاحب دہلی گئے تب میری تعلیم شروع ہوئی۔ اصل میں والدہ کو بہت زیادہ شوق تھا کہ ہم لوگ تعلیم حاصل کریں۔
دہلی میں ایک صاحب تھے، جن کا نام ڈاکٹر محمود قادری تھا۔ وہ جمعیۃ علماء سے وابستہ تھے۔ ان سے والد صاحب کی ملاقات ہوتی تھی۔ ان سے کسی موقع پر والد نے بتایا کہ میری لڑکی کو پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ دراصل ان کے گھر میں لڑکیاں دسویں اور گیارہویں کے لیے ٹیوشن پڑھنے آتی تھیں۔ ان کی بیٹی جویریہ بھی دسویں کی تیاری کر رہی تھیں. ڈاکٹر صاحب نے والد سے کہا کہ میں کچھ سوالات دیتا ہوں، اس کو اپنی لڑکی کو بھیجیے۔ اس کا جواب لکھ کر وہ مجھے بھیجیں. میں نے تو صرف مدرسہ میں 5 ویں کلاس تک کی پڑھائی کی تھی۔ وہاں صرف الیمنٹری انگریزی پڑھائی گئی تھی۔ لیکن بعد میں والد صاحب کے پاس اردو میں لکھی ہوئی انگریزی گرامر کی ایک کتاب ریویو کے لیے آئی تھی۔ وہ کتاب انھوں نے مجھے بھیج دی تھی۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ اس کتاب کو میں ہر وقت رٹتی رہتی تھی۔ کیوں کہ کوئی اور کتاب میرے پاس پڑھنے کے لیے نہیں تھی۔
بہرحال جب میں نے جواب لکھ کر ڈاکٹر قادری کو بھیجا تو انھوں نے مجھے بلوالیا۔ والدہ خود تو اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکیں۔ لہٰذا انھوں نے چاہا کہ بچے تعلیم حاصل کریں۔ میرے خیال میں کوئی ماں ایسا نہ کرے گی کہ 16 سال کی لڑکی جو گاؤں میں رہتی تھی، کوئی تجربہ نہیں تھا اس کو وہ اکیلے دلی بھیج دے۔ یہ صرف تعلیم کا شوق تھا، جس کی بنا پر والدہ نے ایسا کرنے کی ہمت کی۔ چنانچہ میں ٹرین میں سوار ہوکر اکیلے دلی آگئی۔ یہاں والد صاحب ریلوے اسٹیشن پر آئے اور مجھے لے گئے۔ اس وقت ٹیلیفون تو تھا نہیں۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ والد صاحب کو اطلاع کیسے دی گئی۔ غالباً خط کے ذریعہ دی گئی ہوگی۔ اس وقت والد صاحب کو صرف ایک کمرہ آفس کے طور پر دیا گیا تھا۔ اس لیے میں وہاں نہیں ٹھہر سکتی تھی۔ اس وقت اللہ کی مدد اس طرح آئی کہ ڈاکٹر قادری نے مجھے 6 مہینہ کے لیے اپنے گھر رکھا۔ مجھے امتحان کی تیاری کروائی اور دسویں کا امتحان علی گڑھ سے دلوایا۔ اس طرح میں نے 5ویں کلاس کے بعد ڈائرکٹ دسویں کا امتحان دیا۔ اور سکنڈ ڈویژن سے میں پاس ہو گئی۔ اس کے بعد والد صاحب کو ایک اور بڑا کمرہ جس میں بالکنی بھی تھی مل گیا۔ پھر والدہ اور میری بہن مسلمہ خانم بھی دلی آگئیں۔
دسویں کے بعد پری یونی ورسٹی کے لیے میری تیاری بہت اچھی ہو ئی تھی۔ پروفیسر ماجدہ اسد جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہندی ڈپارٹمنٹ سے وابستہ تھیں۔ انھوں نے اپنے گھر میں ایک ٹیوشن بیورو کھول رکھا تھا۔ اس میں ہر سبجکٹ کے قابل ٹیچرس رکھے تھے۔ یہاں میں نے بہت محنت سے پڑھا۔ انگلش کے ٹیچر 25-20 صفحات کا ہوم ورک دیا کرتے تھے۔ صرف میں ہی ہوم ورک کو مکمل کر کے لے جاتی تھی۔ 1970ء میں علی گڑھ سے میں نے پری یونی ورسٹی کا امتحان دیا۔ 59 فی صد نمبر آئے، لیکن پرشین میں ڈسٹنکشن آئی۔ لڑکیوں کے درمیان میں نے ٹاپ کیا تھا تو مجھے سیفی[؟] میڈل ملا۔
اس کے بعد کی تعلیم کے لیے والدہ کے بہت زیادہ اصرار پر ہمیں دلی کالج (دلی یونی ورسٹی) میں داخلہ کی اجازت ملی۔ بہت خوشی خوشی ہم پرشین آنرز میں داخلہ لے کر گھر واپس آئے، گرمی کا دن تھا۔ جب والد صاحب کو بتایا کہ پرشین آنرز میں داخلہ لیا ہے تو انھوں نے کہا کہ فوراً واپس جاؤ اور انگلش آنرز میں داخلہ لو۔ پرشین پڑھ کر کیا کروگی۔ یہ کہاوت مشہور تھی ’’پڑھو فارسی بیچو تیل‘‘۔ اسی وقت انھوں نے مجھے دلی کالج واپس بھیج کر میرا سبجکٹ تبدیل کروایا۔ یہ بروقت گائڈنس اگر نہ ملی ہوتی تو میں اس عالمی دعوۃ مشن میں حصہ نہ لے سکتی۔
والد صاحب زمانے سے باخبر تھے، اس لیے عین وقت پر انھوں نے زبردست گائڈنس دی۔ اس وقت ہمیں انگریزی کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا۔ ہم یہ بھی نہیں سمجھتے تھے کہ انگریزی ایک انٹرنیشنل لینگویج ہے۔ انگلش میں جب کوئی تحریر آتی ہے تو وہ ساری دنیا میں پڑھی جاتی ہے۔ اگر اس وقت ہمیں یہ گائڈنس نہ ملی ہوتی تو ہم آج عالمی سطح پر دعوۃ ورک نہیں کرسکتے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ خدا کی طرف سے انٹرونشن تھا کہ مجھے انگریزی زبان میں کام کرنے کے لیے تیار کیا گیا۔بعد میں میں نے والد صاحب کی بہت سی کتابیں، قرآن کا انگریزی ترجمہ اور تفسیر تذکیر القرآن کا انگریزی ترجمہ کیا۔ وہ آج ساری دنیا میں پڑھی جاتی ہیں. اس کے علاوہ الرسالہ کا انگلش ایڈیشن برابر شائع ہوا۔ اس کے لیے مضامین بھی اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرتی تھی۔ اب الرسالہ انگریزی Spirit of Islam کے نام سے بنگلور سے شائع ہو رہا ہے۔
انگریزی ڈپارٹمنٹ میں ہم نے داخلہ تو لے لیا لیکن انگریزی ہمیں اتنی بھی نہیں آتی تھی کہ ہم لکچرس کو سمجھ سکیں۔ دہلی یونی ورسٹی کا اسٹینڈرڈ بہت ہائی تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں کلاس میں پریشان پیچھے بیٹھی رہتی۔ تقریباً 6 مہینے اسی طرح گزر گئے۔ اس دوران جن students کو انگلش آنرز مشکل لگا وہ اس کو چھوڑ کر دوسرے subjects میں چلے گئے۔ مگر تمام مشکلات کے باوجود میں نے اس سبجکٹ کو نہیں چھوڑا۔ معلوم نہیں کیوں مجھے انگریزی سے بہت زیادہ دل چسپی تھی۔ یا ایسا تھا کہ میں ہار ماننے کے لیے تیار نہیں تھی۔ فرسٹ ایئر میں چار پیپرس تھے۔ اس میں سے دو پیپر آخرکار میں نے کلیر کر لیا جس کی وجہ سے سکنڈ ایر میں میرا پروموشن ہو گیا۔
جامعہ میں انگلش کے ایک پروفیسر سوز تھے۔ ان کے پاس والد صاحب ملنے جاتے تھے۔ میں بھی مدد کے لیے اکثر ان کے پاس چلی جاتی تھی ۔اسی طرح ہمارے ایک cousin تھے، حسین اجمل۔ انھوں نے بھی انگلش میں ایم اے کیا تھا۔ جب وہ آتے تو میں اپنی کتاب لے کر ان کے پاس بیٹھ جاتی۔ میری مشکلات دیکھ کر انھوں نے ایک بار والدہ سے دیہاتی زبان میں کہا تھا ’’بیسیا تو ہے ہی نہیں ‘‘۔ یعنی انگریزی زبان کے لیے base تو ہے ہی نہیں۔ غالباً ان کو نہیں معلوم تھا کہ محنت ہر کمی کو پوری کر دیتی ہے۔ میں دن رات بس پڑھتی رہتی تھی۔میرا پورا یقین ہے کہ محنت اور دعا سےتمام مسئلے حل ہو جاتے ہیں. 1973ء میں، میں نے انگلش آنرز مکمل کرلیا۔ اس کے بعد انگلش میں ایم اے بھی دہلی یونی ورسٹی سے 1976ء میں پاس کیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ اپنی batch میں سے صرف میں نے انگلش میں ایم اے مکمل کیا۔ جب کہ میں سب سے کم زور اسٹوڈنٹ تھی۔
اس کے بعد پی ایچ ڈی کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ لیکن انگریزی میں پی ایچ ڈی کرنا بہت مشکل معلوم ہوا۔ لہٰذا میں والد صاحب کے ساتھ جامعہ گئی۔ وہاں پروفیسر مشیرالحق صاحب سے ملاقات کی۔ والد صاحب کی ان سے ملاقاتیں ندوہ کے قیام کے زمانہ سے تھیں۔ اس وقت وہ ڈپارٹمنٹ آف اسلامک اسٹڈیز میں ہیڈ اور ڈین تھے۔انھوں نے بتایاکہ اسلامک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے اسلامک اسٹڈیز میں ایم اے کرنا پڑے گا۔ لہٰذا میں نے 1979ء میں اسلامک اسٹڈیز میں داخلہ لیا اور 1982ء میں میں نے کلاس میں فرسٹ کلاس فرسٹ حاصل کی۔ اس کے بعد پروفیسر مشیرالحق کی نگرانی میں، میں نے پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلہ لیا۔ میرا عنوان تھا:
An analysis of Religio-Political thoughts of Syed Abul Ala Maududi
پی ایچ ڈی کی ڈگری مجھے 1990ء میں ایوارڈ ہوئی۔ اس کے بعد میں نے عربی میں بھی ایک ڈپلوما کورس کیا اور ادیب اور ادیب ماہر کا بھی امتحان دیا۔ میری عادت تھی کہ میں کبھی اپنا وقت ضائع نہیں کرتی تھی۔ ایک امتحان ختم ہوتا تھا تو دوسرے امتحان کی تیاری شروع کر دیتی۔
ایم اے کرنے کےبعد ہی میں نے والد صاحب کے مضامین کا انگریزی ترجمہ شروع کر دیا تھا۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمیں ایک انگریز ٹیچر اینا کھنہ (Anna Khanna) مل گئیں۔ وہ اسکاٹش تھیں، لیکن ان کے والدین لندن میں رہتے تھے۔ ان کی پیدائش لندن ہی میں ہوئی تھی۔ انھوں نے ایک انڈین مسٹرپریم کھنہ سے شادی کی تھی جو IAS آفیسر تھے۔ خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے Linguistics میں ایم اے کیا تھا۔ ان کے مضامین Times of India میں شائع ہوتے تھے۔ ثانی اثنین کے ذریعہ میں ان تک پہنچی اور ان سے ہم کافی عرصہ تک انگریزی پڑھتے رہے۔ اس طرح میں معیاری ترجمہ کرنے کے قابل ہوئی۔
علیزے نجف: آپ نے ابتدائی زندگی کا کچھ حصہ علمی شہر رام پور میں بھی گزارا۔ وہاں پر جامعۃ الصالحات میں آپ نے تعلیم حاصل کی۔ اس وقت وہاں کا ماحول کیسا تھا۔ اس کی کس خوبی نے آپ کو کس طرح متاثر کیا۔ کیا اس ادارے سے جڑی ہوئی کوئی یادگار بات آپ کو یاد ہے؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: رام پور میں جب ہم تھے تو غالباً 11-10 سال کے رہے ہوں گے۔ جامعۃ الصالحات کا قیام غالباً اسی وقت عمل میں آیا تھا۔ میں اور میری بہن ام السلام پہلے batch میں تھے۔ اس زمانہ میں ٹیچرس طالبہ کے ساتھ بہت سختی کرتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ایک ٹیچر نے اسکیل سے ایک لڑکی کی انگلی پر اتنی زور سے مارا تھا کہ انگلی ٹوٹ کر لٹک گئی تھی۔ لیکن ہم لوگوں کو کبھی سزا نہیں ملی۔ کیوں کہ ہم لوگ پڑھائی میں بہت اچھے تھے۔ میری بڑی بہن کلاس میں فرسٹ آتی تھیں اور میں سکنڈ۔
باقی اس زمانہ میں ٹیچرس اور طلبہ کے ساتھ کوئی انٹرایکشن نہیں ہوتا تھا۔
ہمارے پڑوس میں عبد الحئی صاحب، ایڈیٹر الحسنات (رام پور) کا گھر تھا۔ ہم لوگوں نے انھیں کے یہاں قرآن پڑھا۔ ان کا گھر بہت بڑا تھا۔ اور بہت شریف لوگ تھے۔محلہ میں کسی کو کسی چیز کی ضرورت ہو جاتی تو وہ اس کو پورا کرتے۔ ہمارا گھر محلہ کھنڈسار کہنہ میں تھا۔ اسکول بھی قریب تھا۔ ہم لوگ پیدل ہی جاتے تھے۔ والدہ کو پڑھائی کا اتنا زیادہ شوق تھا کہ وہ انٹرول میں راشدہ آپا سے عربی پڑھنے جاتی تھیں۔ راشدہ آپا اسکول میں عربی کی ٹیچر تھیں۔ ان کا گھر ہمارے گھر سے ملا ہوا تھا۔
جب والد صاحب نے پانچویں کلاس کے بعد ہم لوگوں کو اسکول سے نکال لیا تو مجھے ابھی تک یاد ہے کہ تمام ٹیچرس ہمارے گھر آئیں کہ اصرار کر کے دوبارہ ہم لوگوں کا داخلہ کروائیں۔ کیوں کہ ہم لوگ ان کے اسکول کے best students تھے۔ اماں نے بہت اصرار کیا کہ اسکول میں دوبارہ داخل کرا دیں، لیکن والد صاحب نے نہیں اجازت دی۔ جماعت اسلامی کی آئیڈیالوجی کے مطابق عورتیں یا تو گھر کے اندر رہیں یا گھر سے باہر نکلیں تو برقع پہن کر۔ اگر والد صاحب جماعت اسلامی میں رہتے تو ہم لوگوں کی پڑھائی نہیں ہو سکتی تھی۔ جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دور اول میں عورتیں، صحابیات سب باہر نکلتی تھیں۔ مسجد میں نماز پڑھنے جاتی تھیں، پیغمبر کا خطبہ سننے جاتی تھیں، سفر میں جاتی تھیں. اس زمانہ کی جو بھی activity تھی اس میں عورتیں شامل رہتی تھیں۔ گھروں پر بچوں کو تعلیم دیتی تھیں۔ لیکن لوگ دور اول کو نہیں دیکھتے، بلکہ بعد میں مسلمانوں میں جو کلچر develop ہوا دوسری اقوام کے اثر سے آج اسی پر مسلمان قائم ہیں۔ اسی کو اسلام سمجھتے ہیں۔ شادی بیاہ کی رسموں سے آپ اس بات کو بہ خوبی سمجھ سکتے ہیں۔
علیزے نجف: موجودہ وقت کے تعلیمی نظام کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گی۔ اس نظام تعلیم میں ذہن سازی کی ضرورت کا کس حد تک خیال رکھا جاتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ لوگوں کا تناسب بڑھنے کے باوجود ماحول میں بے شعوری، افراتفری اور انتشارکو غلبہ حاصل ہے۔ آپ اس کو کس طرح دیکھتی ہیں؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: مسلمانوں نے اسٹینڈرڈ اسکول قائم نہیں کیے۔ ہمارے زمانہ میں تو مسلمانوں کے اچھے اسکول تقریباً نہ ہونے کے برابر تھے۔ مسلمانوں نے یونی ورسٹیاں بنائیں۔ مگرمعیاری اسکول نہیں بنائے۔ اس وجہ سے مسلمان بچوں کی تعلیم کی بنیاد زیادہ مضبوط نہیں ہوتی ہے، اور وہ اچھے کالج اور یونی ورسٹی میں نہیں پہنچ پاتے۔ مسلمان بچوں کو Non Muslim مینجمنٹ کے تحت چلنے والے اسکولوں میں جانا پڑتا ہے۔کیوں کہ مسلم مینجمنٹ کے تحت چلنے والے اسکول Sub Standard ہیں. اس لیے آج خود مسلمان پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان کے بچوں کا داخلہ کرسچین اسکول اور نان مسلم مینجمنٹ کے تحت چلنے والے پبلک اسکول میں ہو۔ کیوں کہ وہاں competition کے ماحول میں بچہ ترقی کرے گا۔
مسلم اسکول کا اسٹینڈرڈ معیاری نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ جو میری نظر میں ہے وہ یہ کہ ٹیچرس اور اسٹاف کا سلیکشن میرٹ پر نہیں ہوتا۔ سفارش پر، رشتے داری کی بنیاد پر، دوستی کی بنیاد پر selection ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر مسلم ادارہ کا پرفارمنس سب اسٹینڈرڈ (substandard) ہوتا ہے۔
والد صاحب نے مسلمانوں کو ہمیشہ یہ مشورہ دیا کہ اسکول مسلم اسکول، ہندو اسکول نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ اسٹینڈرڈ اسکول قائم کیے جائیں اور تمام مذہب و ملت کے بچے وہاں آکر پڑھیں جیسا کہ کرسچین اسکول میں ہوتا ہے۔ اس طرح وہاں competition اور چیلنج کا ماحول ہوگا اور ایسے اسکول کا پرفارمنس بہترین ہوگا۔ریزرویشن، سفارش، کوٹا وغیرہ صرف تعلیم کے معیار کو گرانے کا ذریعہ ہیں۔
ہمارے کالج اور یونی ورسٹی کا حال بھی زیادہ اچھا نہیں ہے۔ والد صاحب کا یہی خیال تھا کہ اسکول اور کالج میں پروفیشنل تعلیم ہونی چاہیے۔ ذہن سازی کے لیے الگ تربیت دینی چاہیے۔ جیسے یورپ اور امریکا میں عیسائی حضرات نے الگ انتظام کیا ہے۔ ان کی ذہن سازی اور مذہبی تربیت کے لیے بہترین میگزین ہوں، اعلا معیار کی کتابیں ہوں، تاکہ بچے اپنے خالی اوقات میں ان کو پڑھیں۔ گھر کا ماحول ایسا ہو کہ بچے وہاں سے مذہبی اور اخلاقی تربیت حاصل کریں۔ خود ہم لوگ گھر میں الرسالہ اور والد صاحب کی کتابیں پڑھتے تھے۔ اس سے ہم لوگوں کا ذہن بنا کہ اسلام صرف عبادت کا موضوع نہیں، بلکہ اسلام ایک ربانی مشن ہے۔ اس کی تعلیمات کو نہ صرف اپنے اوپر apply کرنا ہے، بلکہ دوسروں تک بھی پہنچانا ہے۔ رسول اللہ رحمۃ للعالمین تھے۔ اس کے معنی ہیں کہ آپ کا پیغام ہمیں ساری دنیا تک پہنچانا ہے اور ہم لوگ خدا کے فضل سے اسی مشن میں مصروف ہیں۔
علیزے نجف: ایک وقت تھا جب ہندستانی معاشرے میں مذہبی تعلیمات کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی اور آج عصری تعلیم کی طرف لوگوں کا رجحان زیادہ ہے۔ اس کی وجہ سے انسانی زندگی توازن سے محروم ہو رہی ہے۔پھر کیا وجہ ہے کہ مدارس کے منتظمین عصری علوم کی طرف حسب ضرورت توجہ دینے کو تیار نہیں۔ عصری و مذہبی تعلیم کو الگ الگ رکھنے کے پیچھے کس طرح کی ذہنیت کارفرما ہے۔ ان لوگوں کے درمیان ربط کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: اگر ہم مذہبی تعلیم اور سیکولر تعلیم کو خلَط ملَط کریں گے تو بچے کسی بھی فیلڈ میں مہارت حاصل نہیں کر سکیں گے۔ لہٰذا یہی ہونا چاہیے کہ بچے کے انٹرسٹ کے مطابق اس کو سبجیکٹ چوز کرنے کا موقع دینا چاہیے۔ کیوں کہ جس فیلڈ میں بچے کا انٹرسٹ ہوگا اسی میں وہ ترقی کرے گا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی سیکولر تعلیم حاصل کر رہا ہو تو اس کو الگ سے عربی زبان، اردو زبان سکھا دی جائے تو وہ بہ آسانی مذہبی لٹریچر کو عربی میں، اردو میں پڑھ سکتا ہے۔ جگہ جگہ پروگرام ہوتے ہیں، اسکو اٹینڈ کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک ڈگری والی تعلیم کا تعلق ہے اس کو اس میں پورا focus کرنا چاہیے، ورنہ وہ اعلا تعلیم حاصل نہیں کر سکے گا۔
البتہ الگ سے خاص طور پر زبان کی تعلیم یعنی اردو، انگریزی، عربی کا انتظام کرنا چاہیے۔ کیوں کہ آج ہر زبان میں مذہبی لٹریچر دستیاب ہے۔ زبان اگر آپ بچہ کو سکھا دیں گے تو وہ خود ہی جب اس کے پاس وقت ہوگا تو وہ مذہبی لٹریچر کو پڑھے گا۔ اس طریقہ سے دونوں مقصد پورا ہوگا۔ ہمارے بڑے بھائی کے لیے بھی والد صاحب نے چھٹیوں میں الگ سےانگریزی ٹیوٹر کاانتظام کیا تھا۔ اس طرح ہر ماں باپ اپنے بچوں کے لیے الگ سے ٹیوٹر کا انتظام کر سکتے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں جو نصاب ہے اس پر پوری توجہ ہونی چاہیے، کیوں کہ آج کل اگر اچھے نمبر نہ آئیں تو job oriented کورسز میں داخلہ نہیں ملتا۔ لہٰذا تعلیم کے دوران پورا فوکس سیکولر تعلیم پر ہی ہونا چاہیے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسٹینڈرڈ لٹریچر تیار کیا جائے جس کو بچے انٹرسٹ کے ساتھ پڑھیں۔ مثال کے طور پر ہمارے بھائی ثانی اثنین نے بچوں کے لیے وقت کے لحاظ سے اعلا اسٹینڈرڈ کی کتابیں تیار کی ہیں۔ یہ سب کتابیں قرآن و حدیث، پیغمبر، صحابہ وغیرہ کے اصول و اقدار پر مبنی ہیں۔ ان کتابوں کو بچے بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔ یہ کتابیں گلوبل لیول پر بہت popular ہیں۔
علیزے نجف: آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کی پروفیسر رہی ہیں۔ وہاں کے طلبہ میں مذہب کی طرف پایا جانے والا رجحان تقلیدی نوعیت کا ماحول تھا یا ان میں آپ نے تحقیقی نفسیات بھی پائی۔ کیا وجہ ہے کہ لوگ مذہب کو جذبات سے جوڑ کر محض تقلیدی فکر کے تحت چند روایتوں پر عمل آوری کو مذہب خیال کر بیٹھے ہیں۔ اس کی وجہ سے لوگوں کی عملی زندگی میں مذہب کی روح مسخ ہوتی جا رہی ہے۔ آپ اس پورے منظرنامے کو کس طرح دیکھتی ہیں ؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میرا تقرر 1994ء میں ہوا۔ اور 2017ء میں بہ طور پروفیسر اسلامک اسٹڈیز ریٹائر ہوئی۔ نہ صرف جامعہ بلکہ تقریباً تمام مسلم دنیا میں آج روایتی مذہب کی دھوم ہے۔ پانچ وقت کی نماز، رمضان کے روزے اور حج کے فارم کو دہرا لینا۔ یہی آج مسلمانوں کا مذہب ہے۔ مسجد سے باہر نکلتے ہی دنیا داری کی باتوں، موبائل، بزنس اور entertainment میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ سنجیدگی، خداترسی، لوگوں کی well-wishing بالکل ندارد ہے۔ میں نے تقریباً 37 سال جامعہ میں گزارے ہیں۔ میں نے ایک بار بھی نہیں دیکھا کہ لوگ خدا کی، جنت، جہنم کی باتیں کر رہے ہوں۔ خالی وقت میں ہنسی مذاق، دنیا داری کی باتیں ہوتی ہیں۔ promotion کی باتیں، بچوں کے داخلے اچھے اسکول میں کیسے ہوں گے، مزید آمدنی کیسے کریں، وغیرہ۔
مسلمان سمجھتے ہیں کہ 5 وقت کی باجماعت نماز کافی ہے۔ مسلمانوں کو اس بات کا بالکل شعور نہیں ہے کہ وہ پیغمبر آخر الزماں کے امتی ہیں، اور اس حیثیت سے ان کا فرض ہے کہ وہ پیغمبر آخر الزماں کا پیغام دوسری قوموں تک پہنچائیں۔ ورنہ خدا کے یہاں ان کا اس بات پر مواخذہ ہوگا۔ دعوۃ ورک تبھی ہو سکتا ہے جب مدعو سے اچھے تعلقات ہوں۔ میں نے ایک بار ایک پروفیسر سے کہا کہ ہم آپ کو انگریزی ترجمۂ قرآن دیں گے۔ آپ اپنے کمرہ میں رکھ لیں۔ جب آپ سے کوئی ملنے آئے تو اس کو ایک کاپی دے دیں۔ وہ اس کے لیے راضی نہیں ہوئے۔
ان کے درمیان نہ خدا کا کوئی چرچا ہوتا ہے، نہ اسلام کی اسپرٹ (تزکیہ اور ربانیت) پر کوئی بات ہوتی ہے۔ ساری سوچ Muslim oriented ہوتی ہے یا family oriented، نہ کہ God oriented۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کی دینی تربیت نہیں ہو پاتی۔ لوگ گھروں میں دینی باتیں نہیں کرتے۔ صرف پڑھائی، جاب، پرموشن یہی سب موضوع ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں والد صاحب صرف اسلام کی، خدا کی، مشن کی باتیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ سب کے سب دین کے کام میں مصروف ہو سکے۔
علیزے نجف: آپ کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان تھا ’’مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی شخصیت اور تحریک کا ایک معروضی جائزہ‘‘۔ آپ نے پی ایچ ڈی کے لیے انھی کی شخصیت اور خدمات کا انتخاب کیوں کیا۔ یہ آپ کا اپنا انتخاب تھا یا آپ کے والد صاحب کا مشورہ تھا۔ انھوں نے ’’تعبیر کی غلطی‘‘ نامی کتاب کی تصنیف کے بعد ان کی شخصیت پر پی ایچ ڈی کرنے کے خیال پر کس طرح کا ردعمل ظاہر کیا؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: پی ایچ ڈی کا عنوان میں نے اس لیے منتخب کیا تھا کہ والد صاحب کی گائڈنس میں، میں بہ آسانی کام کر سکوں گی۔ والد صاحب نے کبھی کسی کو جماعت اسلامی سے نکلنے کی ترغیب نہیں دی۔ میری والدہ جماعت اسلامی کی ممبر تھیں. وہ نکلنا چاہتی تھیں، لیکن والد صاحب نے ان کو منع کیا۔ والد صاحب نے جو تنقید کی تھی وہ مولانا مودودی کی فکر پر تھی، نہ کہ ان کی شخصیت پر۔
والد صاحب تنقید اور تعییب میں فرق کرتے تھے۔ تنقید کو وہ ضروری سمجھتے تھے۔ اور تعییب کو بالکل غلط اور غیراسلامی فعل سمجھتے تھے۔ لوگوں نے والد صاحب پر بہت زیادہ تعییب کا طریقہ اختیار کیا، لیکن والد صاحب نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ علمی تنقید کو وہ فکری ارتقا کے لیے ضروری خیال کرتے تھے۔
علیزے نجف: آپ معروف اسلامک اسکالر اور نابغۂ روزگار ہستی مولانا وحید الدین خاں کی صاحب زادی ہیں۔ آپ ان سے سب سے زیادہ قریب رہیں۔ آپ نے بہ حیثیت والد کے مولانا صاحب کو کیسا پایا اور انھوں نے آپ کی تربیت کن اصولوں کے تحت کی۔ اس تربیت سازی میں آپ کی والدہ کا کردار کیسا رہا؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: بچپن میں تو والد صاحب سے ہم زیادہ touch میں نہیں رہے، کیوں کہ والد صاحب کا زیادہ تر وقت لائبریریوں میں گزرتا تھا۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنا کام خود کرنا پسند کرتے تھے۔ لیکن کبھی کبھی کوئی خاص واقعہ کتابوں میں پڑھتے یاکوئی دینی بات ہوتی تو وہ ہم لوگوں کو بتاتے تھے۔ جب الرسالہ نکلا 1976ء میں تب میں الرسالہ مشن میں actively involve ہوئی۔ ایڈمنسٹریشن کا سارا کام کافی عرصہ تک میں ہی دیکھتی تھی۔ اس زمانہ میں الرسالہ کے مضامین کاتب لکھتے تھے۔ کبھی تو والد صاحب خود ہی پروف ریڈنگ کرتے، اور کبھی مجھ سے مضمون پڑھواتے تھے۔ کبھی مجھ سے املا بھی کرواتے۔ اس طرح دھیرے دھیرے مجھے والد صاحب کی تحریروں سے دل چسپی بڑھتی گئی۔
جب میں نے انگلش میں ایم اے کر لیا تو میں نے والد صاحب کے مضامین کا انگریزی ترجمہ کرنا شروع کیا۔ اس وقت ترجمہ کرنا بہت مشکل لگتا تھا۔ ایک ایک صفحہ میں کئی کئی گھنٹے لگ جاتے۔ لیکن میرے اندر عزم کی کمی نہیں تھی۔ میں نے ہمت نہیں ہاری۔ اس زمانہ میں ہمیں ایک انگریز خاتون (مسزاینا کھنہ) مل گئیں۔ پھر ہم ان مضامین کو ان سے چیک کرواتے۔ اور ان کے کرکشن کو یاد کرتے۔ اس طرح ہم برسوں کرتے رہے۔ یہاں تک کہ finally ترجمہ کرنا آسان معلوم ہونے لگا۔1984ء میں الرسالہ کا انگریزی ایڈیشن نکالا گیا۔ اس کے بعد میں پوری طرح اس مشن میں involve ہو گئی۔الرسالہ کے لیے مضامین تیار کرتی رہی اور کتابوں کے ترجمہ کی بھی کوشش کرتی رہی۔ سب سے پہلےمیں نے تبلیغی تحریک اور مذہب اور جدید چیلنج کا ترجمہ کیا، جو God Arises کے نام سے شائع ہوئی۔
انگریزی ٹرانسلیشن کے تعلق سے والد صاحب نے دو واقعہ اپنی کتاب عورت معمار انسانیت میں لکھا ہے، اس کا خلاصہ یہاں درج کیا جاتا ہے:
"میری کتاب مذہب اور جدید چیلنج پہلی بارعلم جدید کا چیلنج کے نام سے 1964 میں لکھنؤ سے چھپی۔ یہ کتاب کافی مقبول ہوئی اور کئی زبانوں میں اس کے ترجمے ہو ئے۔ عربی زبان میں یہ کتاب الاسلام يتحدی کے نام سے شائع ہوئی۔ عربی ترجمہ میرے بڑے بیٹے ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں نے کیا تھا۔ لوگوں کا مسلسل اصرار تھا کہ اس کتاب کا ترجمہ انگریزی میں شائع کیا جائے۔ کئی لوگوں نے بہ طور خود اس کا انگریزی ترجمہ کرنے کی کوشش بھی کی، مگر وہ ناکام رہے۔ یہاں تک کہ ذاتی طور پر میں نے سمجھ لیا تھا کہ میری اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی نہ ہو سکے گا۔ فریدہ خانم نے میری فرمائش کے بغیر خود ہی خاموشی کے ساتھ یہ کام شروع کیا۔ آخر کار انھوں نے تمام انگریزی اقتباسات حاصل کر لیے (یہ اقتباسات میں نے دہلی یونی ورسٹی کی لائبریری سے حاصل کیے تھے) اور پھر ان اقتباسات کو شامل کرتے ہوئے پوری کتاب کا ترجمہ تیار کر لیا۔ یہ ترجمہ کئی مراحل سے گز را، یہاں تک کہ وہ مکمل ہو کر پہلی بار 1985 میں دہلی سے چھپا۔ اس کتاب کا نام گاڈ ارائزز (God Arises) ہے اور وہ 288 صفحات پر مشتمل ہے۔
دوسرا واقعہ جس کا میں یہاں ذکر کر نا چاہتا ہوں، وہ سوئزرلینڈ کے ایک سفر کے دوران جولائی 2002 میں ایک کانفرنس کے موقع پر پیش آیا۔ 29 جولائی کی صبح کو صدر کا نفرنس آندرے بیکوف نے اعلان کیا کہ ہم کو انٹر نیشنل پیس کے موضوع پر ایک ڈاکومنٹ (document) کی ضرورت ہے۔ اس کو ہم مختلف زبانوں میں شائع کر کے پوری دنیا میں پہنچائیں گے۔ مگر آندرے بیکوف کے مطابق دوسرے لوگوں نے جو ڈاکومنٹ تیار کیا، وہ ان کا مطلوب ڈاکومنٹ نہیں تھا، چنانچہ انھوں نے مجھے ڈاکومنٹ تیار کر نےکو کہا۔ انھوں نے کہا کہ میں صبح کو دوبارہ آپ سے ملوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ اس وقت تک آپ یہ ڈاکومنٹ تیار کر چکے ہوں گے۔ میں حیرانی کے عالم میں تھا اور ان کا کوئی جواب بھی نہیں دے پایا تھا۔ وہ مجھے اسی حال میں چھوڑ کر میرے کمرہ کے باہر چلے گئے۔
میری لڑکی فریدہ خانم بھی میرے ساتھ اس سفر میں گئی تھیں۔ وہ اسی ہوٹل کے دوسرے کمرہ میں ٹھہری ہوئی تھیں ۔ میں نے ٹیلی فون کر کے انھیں بلایا۔ وہ آئیں تو میں نے ان سے آندرے بیکوف کا قصہ بیان کیا۔ میں نے کہا کہ بڑے بڑے عالمی پروفیسر اور انگریزی کے ماہرین جس کام کو نہ کر سکے، اس کو میں کس طرح کر سکتا ہوں۔ میں اس معاملہ میں اپنے آپ کو بالکل عاجز محسوس کرتا ہوں۔ مگر فریدہ خانم کارد عمل بالکل مختلف تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس پوری ایک رات ہے۔ ہم خدا سے دعا کریں گے اور رات بھر جاگ کر اس کو تیار کریں گے۔ ان کے ایک گھنٹہ کے اصرار کے بعد آخر کار میں راضی ہو گیا۔
اس کے بعد میں فریدہ خانم کے ساتھ بیٹھ گیا۔ پہلے میں نے ڈاکومنٹ کے بارے میں ان سے ڈسکشن کیا۔ آخر کار اس کا ایک واضح خاکہ بن گیا۔ اب فریدہ خانم نے اس کو لکھنا شروع کیا۔ میں اپنے خیالات کچھ انگریزی میں اور کچھ اردو میں بولتا تھا اور فریدہ خانم اس کو انگریزی زبان میں لکھتی جا رہی تھیں۔ اس عمل میں کئی گھنٹے لگ گئے۔ آخر کار چند صفحہ پر مشتمل اس کا مضمون تیار ہو گیا۔ اگرچہ جب وہ تیار ہوا تو فجر کا وقت شروع ہو چکا تھا۔
اس کے بعد ہم دونوں نے فجر کی نماز پڑھی۔ صبح کی چائے کے بعد فریدہ خانم نے یہ کیا کہ انھوں نے کانفرنس کے آفس میں جا کر تین صفحے کے ڈاکومنٹ کو کمپیوٹر پرٹائپ کیا۔ اور پھر پرنٹ آؤٹ کے ذر یعہ اس کی چند کاپیاں نکالیں اور اسی وقت اس کو آندرے بیکوف کے حوالہ کر دیا۔
ڈاکومنٹ کو پڑھنے کے بعد آندرے بیکوف دو بارہ میرے کمرہ میں آئے۔ کل کے برعکس، آج وہ بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں ڈاکومنٹ کی ایک کاپی تھی۔ انھوں نے کہا کہ میں ایساہی ڈاکومنٹ چاہتا تھا۔ اب میں اس ڈاکومنٹ کو آج کے اجلاس میں پیش کروں گا اور اس کو منظور کروا کر ساری دنیا میں اس کو پھیلاؤں گا۔ انھوں نے کہا کہ پیس کے موضوع پر اب تک میں نے اس سے واضح کوئی ڈاکومنٹ نہیں دیکھا۔
یہ ڈاکومنٹ میری 136 صفحہ کی کتاب آئیڈیالوجی آف پیس (شائع شدہ 2003) میں شامل ہے۔ (الگ سے یہ مضمون Manifesto of Peace کے نام سے شائع ہوا ہے۔) یہی وہ ڈاکومنٹ تھا جو ابتدائی طور پر اس کا ذریعہ بنا کہ امن عالم کے بارے میں میرے نظریات اور میری کوششیں انٹرنیشنل سطح پر نمایاں ہوں۔"
علیزے نجف: مولانا وحیدالدین خاں تحقیقی و تنقیدی سوالات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ خود انھوں نے ساری زندگی تحقیق و تصنیف میں گزار دی۔ کبھی ایسا ہوا کہ کسی معاملے میں آپ نے ان سے اختلاف کیا ہو اور وہ آپ کو اپنے دلائل سے مطمئن نہیں کر سکے ہوں۔ پھر انھوں نے کیا کہا اور آپ کا رد عمل کیسا رہا؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: والد صاحب ایک سچے محقق اور ناقد تھے۔ وہ دوسروں کے خیالات پر مدلل تنقید کرتے تھے۔ انھوں نے کبھی کسی کی شخصیت پر تنقید نہیں کی، وہ صرف کسی کے علمی یا عملی کاموں پر دلیل کی بنیاد پر تنقید کرتے تھے۔ خواہ وہ مولانا مودودی ہوں، مولانا ابو الحسن ندوی ہوں یا کوئی اور۔ نہ وہ خود ایسا کرتے اور نہ کوئی دوسرا ایسا کرتا تو اس کو پسند فرماتے۔
وہ کہتے تھے کہ میں اپنے اوپر تنقید سننے کا حریص ہوں۔ ایسا کہنے میں وہ بالکل sincere تھے۔ اسی وجہ سے ہمارے گھر کا یہ ماحول تھا کہ ہم لوگ والد صاحب کی قابلیت کے باوجود تنقید سے گھبراتے نہیں تھے۔ خاص طور پر میں سب سے زیادہ تنقید کرتی تھی۔ اکثر وہ مجھے اپنا آرٹیکل دکھاتے تبصرہ کرنے کے لیے۔ اگر مجھے اس کا کوئی point ٹھیک نہیں لگتا تو میں صاف بول دیتی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ انھوں نے وہ آرٹیکل پورا کا پورا کینسل کر دیا۔ وہ تنقید کو برا ماننے کے بجائے اس کو ویلکم کرتے تھے۔
1980’s میں والد صاحب کے ایک اسسٹنٹ تھے، جن کا نام انیس لقمان ندوی تھا۔ انھوں نے تذکیر القرآن کا عربی ترجمہ کیا ہے۔ اب وہ UAE میں رہتے ہیں۔ وہاں انٹرویو میں ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ انڈیا میں کیا کام کرتے تھے۔ تو انھوں نے جواب دیا:
اَنا ناقد اکبر ناقدٍ فی الہند۔ یعنی، میں ہندستان کے سب سے بڑے ناقد کے اوپر نقد کرتا تھا۔
جب میں والد صاحب پر تنقید کرتی تو فوراً کہتے I am wrong۔ وہ یہ بھی نہیں دیکھتے تھے کہ میری دلیل صحیح ہے یا غلط۔ بلکہ وہ کہتے کہ میں اس لیے فوراً I am wrong کہتا ہوں تاکہ فرشتوں کے ریکارڈ میں یہ بات نوٹ ہو جائے کہ ایسے موقع پر میں نے انانیت کا طریقہ (egoist approach) اختیار کرنے کے بجائے modesty کا رویہ اختیار کیا۔
والد صاحب کے خلاف مضامین اور پوری پوری کتابیں غیر علمی اور out of context اقتباسات لے کر تیار کی گئیں۔ لوگ ان کو والد صاحب کے پاس بھیجتے وہ کبھی بھی غصہ نہیں ہوتے تھے۔ وہ صرف یہ دیکھتے کہ اس میں کوئی علمی بات کہی گئی ہے۔ اور ان کتابوں کو باقاعدہ اپنی لائبریری میں لگا دیتے۔ انھوں نے اپنے ego کو اتنا ختم کر دیا تھا کہ ان کے اپنے اوپر کی گئی تنقید سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔
علیزے نجف: پچھلی کئی دہائیوں سے مسلمانوں میں دعوتی مشن سے زیادہ تبلیغی سرگرمیوں کو فروغ ملا ہے۔ مولانا وحید الدین خاں کا مشن دعوتی مشن تھا، جس میں بلاتفریق مذہب و مسلک ہر انسان تک اللہ کا پیغام پہنچانا شامل ہے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اس مشن میں صرف کر دی۔ غیر مسلم طبقات پر اس مشن کی وجہ سے کیا اثرات مرتب ہوئے اور مسلم دانشور طبقے نے اس مشن کے تئیں کس طرح کا رد عمل ظاہر کیا اور عام عوام کی رغبت کا تناسب کیسا رہا؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: والد صاحب کہا کرتے تھے کہ دعوت کا کام تمام انسانوں تک بلا کم و کاست خدا کے پیغام کو ان کی قابل فہم زبان میں پہنچا دینا ہے۔ دعوت الی اللہ کے لیے ضروری ہےکہ داعی اور مدعو کے درمیان معتدل فضا قائم ہو۔ اس کے لیے یک طرفہ طور پر داعی کے اندر مدعو کے لیے خیر خواہی کا جذبہ موجود ہونا ضروری ہے۔ نفرت اور دعوت متضاد رویے ہیں. صبر دراصل دعوت کی قیمت ہے۔ صبر دوسرے لفظوں میں وہی چیز ہے جس کو تجارت کی اصطلاح میں کسٹمر فرینڈلی بی ہیویر (customer friendly behaviour) کہا جاتا ہے۔ تاجر اپنے کسٹمر کے ساتھ یک طرفہ طور پر تحمل کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ اسی طرح داعی اپنے مدعو کے معاملے میں یک طرفہ طور پر تحمل کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ اسی مدعو فرینڈلی سلوک کا نام صبر ہے۔
اسی طرح ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات کی اصولی بنیاد کیا ہے۔مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلق کی فطری بنیاد یہ ہے کہ دونوں یکساں طور پر انسان ہیں۔ دونوں کے درمیان انسانیت کا ابدی رشتہ قائم ہے۔ انسانیت کا تعلق دونوں کے درمیان وہ فطری تعلق ہے جو کبھی اور کسی حال میں ٹوٹنے والا نہیں۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان دوسرا رشتہ وہ ہے جو عقیدے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اسلامی عقیدے کے مطابق، مسلمان ایک صاحب مشن گروہ ہیں۔ یہ مشن وہی ہے جو پیغمبر کا مشن تھا۔ یعنی خدا کے پیغام کو پُر امن طور پر دوسرے لوگوں تک پہنچانا۔ اس اعتبار سے زیادہ صحیح طور پر، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلق کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے— داعی اور مدعو، شاہد اور مشہود، ناصح اور منصوح۔
انسان کی نسبت سے مسلمانوں کے اوپر دوسرے لوگوں کے لیے وہ تمام فرائض عائد ہوتے ہیں جو اخلاق کے عنوان سے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ داعی کی حیثیت سے مسلمانوں کی اخلاقی ذمے داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ اب ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ یک طرفہ طور پر حسن اخلاق کا ثبوت دیں، تاکہ داعی اور مدعو کے درمیان معتدل تعلقات قائم رہیں جو کہ مؤثر دعوتی عمل کے لیے لازمی طور پر ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ نارمل تعلق قائم ہو، جس میں دعوت کا کام کیا جاسکے۔
والد صاحب نے اپنی پوری زندگی ان دونوں پہلوؤں کی مکمل رعایت کی، اور اسی بنیاد پر اپنے مشن کو جاری کیا۔ چنانچہ والد صاحب کاجاری کردہ مشن آج ایک کامیاب مشن ہے۔ اس مشن کو داعی کی حیثیت سے آگے بڑھانے والے سارے افراد مسلم ہیں، اور جب وہ اس مشن کو لے کر نان مسلمس کے درمیان جاتے ہیں تو وہ کھلے دل سے اس کو ویلکم کرتے ہیں۔ اس طرح آج ہمارا مشن آگے بڑھ رہا ہے۔
علیزے نجف: عورت ہر معاشرے کا ایک مستند کردار ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض روایتی توہمات، بے بنیاد خیالات کی وجہ سے اس کی حیثیت کو مغلوب کیا جاتا رہا ہے۔ بدلتے ہوئے وقت کے تناظر میں عورتوں کی اہمیت کو تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ لیکن اب عورتیں شدت پسند ہونے لگی ہیں۔ فیمینزم کے نام پر تحریکیں چلا کر وہ اپنی آزادی کو اصولوں کی قید سے بھی آزاد کرنے کی کوشش میں ہیں۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے۔ ایک عورت کا صحیح کردار کیا ہے۔ فیمینزم کے نام پر چلائی جانے والی تحریکیں کس طرح کے نتائج پیدا کر سکتی ہیں؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: والد صاحب نے عورت کے موضوع پر دو کتابیں لکھی ہیں — خاتونِ اسلام اور عورت معمارِ انسانیت۔ خاتونِ اسلام کا انگریزی ترجمہ میں نے کیا ہے اور وہ شائع ہو چکی ہے۔ عورت معمارِ انسانیت کا ترجمہ کیا جا رہا ہے۔
اسلام میں عورت کا مقام مردوں سے کم نہیں ہے۔ پیغمبرِ اسلام اور صحابہ کے زمانہ میں عورتیں ہر کام کرتی تھیں۔ تعلیم حاصل کر تی تھیں، مسجد میں نماز پڑھنے جاتی تھیں، پیغمبر کے خطبوں میں شریک ہوا کرتی تھیں. میدانِ جنگ میں جاتی تھیں۔ وہ تجارت کرتی تھیں۔ حضرت عمر نے اپنے زمانۂ خلافت میں ایک صحابیہ شفا بنت عبد اللہ عدویہ کو بازار کا عامل بنایا تھا، وغیرہ وغیرہ۔
لیکن بعد میں جب بہت بڑی تعداد میں کنورٹس اسلام میں آئے تو ان کا کلچر prevail کرنے لگا۔ اب عورتوں کے اوپر مسلم سوسائٹی نے اسلام کے نام پر جو پابندیاں لگائی ہیں، وہ حقیقت میں ہندو کلچر، عیسائی، یہودی کلچر اور زوراشٹرین کلچر کے زیر اثر ہے، نہ کہ خالص اسلامی کلچر۔ چونکہ ہزار سال سے زیادہ عرصہ سے مسلمان اسی کلچر کو اسلام سمجھ رہے ہیں، یعنی انھوں نے کنورٹس کلچر کو Islamize کر دیا ہے۔ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ یہی حقیقی اسلام ہے۔
اسلام نے عورتوں کو جو آزادی دی ہے اس کو فیمنزم کے حوالہ سے cancell نہیں کیا جا سکتا۔ اس دنیا میں اللہ نے تمام انسانوں کو test کے لیے بھیجا ہے۔ اسی لیے اللہ نے انسانوں کو آزادی دی ہے۔ آزادی نہ ہو تو عورت ہو یا مرد test نہیں دے سکتے۔
اللہ نے انسان کو جو آزادی دی ہے، اس میں عورت بھی شامل ہے۔ اس آزادی کو کسی excuse کی بنیاد پر عورت سے چھینا نہیں جا سکتا۔ بلکہ عصری اسلوب میں کتابیں لکھی جائیں گی، مضامین لکھے جائیں گے، جن سے عورتوں کا مائنڈ ایڈریس ہو، تاکہ وہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق دنیا میں زندگی گزاریں، نہ یہ کہ دین کے نام پر بہ جبر ان کی آزادی کو ختم کر دیا جائے۔ کیوں کہ مرد کی طرح عورت کو بھی اس دنیا میں test دینے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اس test میں وہ پاس ہوتی ہے یا فیل ہوتی ہے، اسی پر آخرت میں اس کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔
لہٰذا اس کی آزادی کو ختم کرنا خدا کے کریشن پلان (creation plan) میں مداخلت کے ہم معنیٰ ہے۔ اگر فیمنزم کی وجہ سے سوسائٹی میں برائی پیدا ہو رہی ہے تو ہم اس کے بارے میں لکھ کر، بول کر عورت کو بتائیں گے کہ اِس راستہ پر چلنے سے ہماری دنیا اور آخرت دونوں کا نقصان ہے۔ یعنی فیمینزم کے نام پر عورتوں پر قید و بند لگانا درست طریقہ نہیں ہے، بلکہ پر حکمت انداز میں ان کی شعوری بیداری کا کام کرنا اصل کام ہے۔
علیزے نجف: کسی بھی انسان کی ذہن سازی میں خاندانی ادارہ ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بالخصوص ماں باپ بچوں کو سوچ کا زاویہ فراہم کرتے ہیں۔ صحت مند پیرنٹنگ کے لیے ماں باپ کو ہمیشہ کن اصولوں کی پابندی کرنی چاہیے۔ بچوں کو زمانے کے ساتھ ساتھ مذہبی اقدار سے روشناس کرانے کےلیے کس طرح سے منصوبہ بندی کرنی چاہیے؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: بچوں کی صحیح تربیت کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ لیکن یہ ذمہ داری صرف نصیحت کرنے سے ادا نہیں ہوتی، بلکہ خود والدین اور دوسرے فیملی ممبرز کو ان values پر عمل کرنا ہوگا۔ بچہ اپنے بڑوں کو جو عمل کرتے ہوئے دیکھتا ہے، وہ اسی کی نقل (imitate) کرتا ہے۔ مثال کے طور پر والد صاحب اور والدہ دونوں سادہ زندگی گزارتے تھے۔ والد صاحب نے اپنے لیے کبھی کوئی کپڑا نہیں خریدا۔ پہلے ان کے بڑے بھائی ان کے لیے کپڑے سلواتے، بعد میں میرے بڑے بھائی اور ثانی اثنین کرنے لگے۔ لیکن ہمیشہ وہ منع کرتے کہ میرے لیے کوئی کپڑا نہ خریدا جائے۔
ایک بار عینک کی دکان میں گئے تو کہنے لگے کہ آپ کے پاس جو سب سے بھدا عینک ہو وہ دکھائیے۔ دکان دار کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ایک بار میں نے سردی کے زمانہ میں ان کے کپڑے پر پریس کر دی تو بہت ناراض ہوئے اور اپنے ہاتھ سے اس کی پریس خراب کر دی۔ سبزی صرف ایک بنائی جاتی۔ دو، تین سالن پر بہت غصہ ہوتے۔ اس طرح کی بے شمار باتیں ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ آج ہم لوگ ان کے اس اصول کو اپنائے ہوئے ہیں — سادہ زندگی اونچی سوچ:
simple living, high thinking
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی تمام چیزیں جو غیر ضروری ہیں وہ ڈسٹریکشن (distraction) ہیں، اور ڈسٹریکشن سے ہمیں دور رہنا ہے۔ تبھی ہم اپنے دماغ کو کسی بامعنی کام (worthwhile) کام پر فوکس کر پائیں گے۔سب سے بڑی چیز ان کے نزدیک خدا کی معرفت تھی۔ اس کے لیے انتہائی focussed thinking کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر وقت سوچ میں غرق رہتے۔ خدا کی معرفت کو آپ والد صاحب کی تصنیف ’’کتاب معرفت‘‘ پڑھ کر سمجھ سکتے ہیں۔
والد صاحب بچوں کی Pampering یعنی لاڈ پیار کو بہت غلط سمجھتے تھے۔ کہتے تھے کہ یہ دنیا challenge کی دنیا ہے۔ اگر بچہ کا لاڈ پیار کیا جائے گا تو وہ دنیا کے چیلنجز کا مقابلہ نہیں کر پائے گا۔ اور وہ دنیا میں کوئی بڑا کام نہیں کر سکے گا۔ ایک مرتبہ انھوں نے بچوں کی تربیت کے تعلق سے یہ چند اصول بتائے تھے، وہ یہ ہیں:
اگر کوئی شخص اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں سنجیدہ ہو تو اس کے لیے میں چند عملی مشورے یہاں درج کروں گا۔
1- محبت کے نام پر لاڈ پیار (pampering) کو وہ اِس طرح چھوڑ دیں جیسے وہ کسی حرام چیز کو چھوڑتے ہیں۔ محبت کے نام پر جو لاڈ پیار کیا جاتا ہے، اُس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ بچے کو زندگی کے حقائق (realities) سے بالکل بے خبر کردیتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ بچے کے اندر حقیقت پسندانہ طرز فکر (realistic approach) کا نشو و نما نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ اِس کے نتیجے میں بچے کے اندر ایک خود پسند شخصیت (self-centered personality) تشکیل پاتی ہے، جو کسی آدمی کے لیے کامیاب زندگی کی تعمیر میں بلا شبہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
2. اِس سلسلے میں یہ بات بہت زیادہ قابلِ لحاظ ہے کہ بچے کی عمر کا ابتدائی تشکیلی دور ماں باپ کے ساتھ گزرتا ہے۔ اِس دور میں بچے کے اندر جو شخصیت بنتی ہے، وہ ہمیشہ بدستور اس کے اندر باقی رہتی ہے۔ والدین کو جاننا چاہیے کہ اِس ابتدائی تشکیلی دور میں اگر انھوں نے بچے کی تربیت میں غلطی کی تو بعد کے زمانے میں اس کی تلافی کبھی نہ ہوسکے گی۔ بعد کے زمانے میں ایسے کسی شخص کی اصلاح کی صرف ایک ممکن صورت ہوتی ہے، اور وہ یہ کہ اس کو شدید نوعیت کا کوئی ہلادینے والا تجربہ (shocking experience) پیش آئے جو اس کے لیے ایک نقطہ انقلاب (turning point) بن جائے، مگر بہت کم لوگوں کو اِس قسم کا ہلادینے والا تجربہ پیش آتا ہے، مزید یہ کہ ایسا ہلادینے والا تجربہ اور بھی نادر (rare) ہے، جب کہ وہ آدمی کے لیے مثبت انقلاب کا سبب بن جائے۔
3- اپنے تجربے کی روشنی میں ایسے والدین کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ہمارے یہاں کا مطبوعہ لٹریچر اہتمام کے ساتھ پڑھوائیں، صرف ایک بار نہیں، بلکہ بار بار۔ اِسی کے ساتھ وہ کوشش کریں کہ اُن کے بچے ہمارے یہاں کے تیار شدہ آڈیو اور ویڈیو دیکھیں اور سنیں۔ یہ تمام آڈیو اور ویڈیو ہماری ویب سائٹ (www.cpsglobal.org) اور یوٹیوب چینل (https://rb.gy/31kh) پردستیاب ہیں۔
4- یہ لازمی نوعیت کا ابتدائی پروگرام ہے۔ جو والدین اپنے بچوں کی اصلاح و تربیت کے خواہش مند ہوں، اُن کو اِسے اختیار کرنا چاہیے۔ اگر وہ اِس کو اختیار نہ کریں تو کوئی بھی جادوئی تدبیر بچوں کی اصلاح کے لیے کار آمد نہیں ہوسکتی۔
علیزے نجف: مولانا وحید الدین خاں کی تحریکِ احیاءِ اسلام سے آپ کا رشتہ شروع سے رہا جو کہ آج تک قائم ہے۔ تحریکِ احیاءِ اسلام کا بنیادی منشا کیا رہا ہے۔ اس تحریک کے نتائج کیسے رہے۔ آپ کے خیال میں احیاءِ اسلام کے لیے ایک عام مسلمان کو کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: احیائے اسلام کی تحریک ہر زمانے کے اعتبار سے الگ الگ ہوسکتی ہے۔ موجودہ دور ایک سائنسی دور ہے تو احیاء کا کام زمانے کے اعتبار سے ہوگا۔ والد صاحب کے نزدیک دور جدید کے اعتبار سے احیائے اسلام کا کام، ان کے الفاظ میں، یہ ہے۔ یعنی اسلام کو قدیم روایتی زمین کے مقابلے میں جدید سائنسی زمین پر کھڑا کیا جائے، تاکہ اسلام آج کے ذہن کے لیے قابلِ فہم ہوسکے، وہ لوگوں کو عصر حاضر سے ریلیونٹ (relevant) نظر آئے۔ موجودہ زمانے میں اسلام کے احیاء کے لیے جو کام مطلوب ہے، اُس کام کو بنیادی طور پر حسب ذیل تین عنوانات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے:
1۔ مبنی بر ذہن روحانیت (mind-based spirituality)
2 ۔ مبنی بر عقل استدلال (reason-based method of argument)
3۔ مبنی بر امن عمل (peace-based activism)
مبنی بر ذہن روحانیت سے مراد یہ ہے کہ روحانیت یا تزکیہ کو مراقبہ (meditation) کے بجائے فکر و تدبر پر قائم کرنا۔ مراقبہ قلب کو مرکز بنا کر کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، تدبر عقلی غور و فکر کی سطح پر انجام دیا جاتا ہے۔ اس لیے قرآن میں تفکر اور تدبر پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’مبنی برعقل استدلال سے مراد وہی چیز ہے جس کو سائنسی استدلال کہا جاتا ہے، یعنی قیاسات و تمثیلات کے بجائے معلوم حقائق کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر ثابت کرنا۔ یہی موجودہ زمانے میں استدلال کا علمی طور پر مسلّم طریقہ ہے۔ مبنی بر امن عمل کا مطلب ہے تشدد سے مکمل طور پر بچتے ہوئے صرف پر امن ذرائع (peaceful means) سے اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کرنا۔ یہی موجودہ زمانے میں مقصد کے حصول کا زیادہ موثر طریقہ ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلّح طریقہ تخریب کے لیے کارگر ہوسکتا ہے، مگر تعمیر کے لیے وہ کارگر نہیں‘‘۔
اِس معاملے کی تفصیل کے لیے والد صاحب کی مطبوعہ کتابوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے— اظہارِ دین، اللہ اکبر، کتابِ معرفت، انسان کی منزل، مذہب اور سائنس، امنِ عالم، وغیرہ۔
علیزے نجف: ملکی سطح پر مسلمانوں کے بنیادی مسائل پر بھی آپ کی گہری نظر ہے۔ آزادی کے بعد مسلمانوں کے حالات میں کس طرح کی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ ایک طرف مولانا وحید الدین خاں کہتے ہیں کہ مسلمان پہلے سے بہتر حال میں ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کی مظلومیت و مغلوبیت کا چار سو چرچا ہے۔ کیا مسلمانوں کو اس مظلومانہ نفسیات سے نکالا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: یہ درست ہے کہ مسلمان قومی سطح پر مظلومی کی نفسیات میں جیتے ہیں۔ مگر اسی ملت میں ایسے افراد بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، جنھوں نے ہماری کتابیں پڑھ کر اپنے آپ کو اس نفسیات سے نکالا ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
والد صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میرے مشن کا ایک حصہ وہ ہے جو مسلمانوں کی ملی تعمیر سے متعلق ہے۔ اِس معاملے میں لکھنے اور بولنے والوں کا طریقہ عام طور پر یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی مظلومی کو بیان کرتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان، امتیاز (discrimination) کا شکار ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں۔ مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ میں اِس نظریے کو صد فی صد غلط سمجھتا ہوں۔ اِس نظریے کے خلاف لکھنے کا کام میں نے لکھنؤ کے زمانہ قیام (1963-1966) میں شروع کیا تھا۔ اُس زمانے میں، میں لکھنؤ کے ہفت روزہ ’’ندائے ملت‘‘ میں اِس قسم کے تعمیری مضامین شائع کرتا تھا۔ اس کے بعد 1967ء میں مجھے ’’الجمعیۃ ویکلی‘‘ (دہلی) کا ایڈیٹر بنایا گیا۔ اب الجمعیۃ ویکلی میں میرے اِس قسم کے تعمیری مضامین چھپنے لگے۔ اِس کے بعد 1976 میں میں نے ماہ نامہ ’’الرسالہ‘‘ نئی دہلی سے جاری کیا۔ اُس وقت سے اب تک الرسالہ میں میرے اس قسم کے تعمیری مضامین چھپ رہے ہیں۔
میں اپنے اسلوب کے مطابق، اِس موضوع کو واقعات کی زبان میں لکھتا رہا ہوں۔ اِس سلسلے میں قدیم و جدید تاریخ کے سبق آموز واقعات، میں نے بڑی تعداد میں شائع کیے ہیں۔ اِس واقعاتی اسلوب نے کثیر تعداد میں لوگوں کو زندگی کا نیا حوصلہ دیا ہے۔
علیزے نجف: آپ نے مولانا صاحب کی کتنی کتابوں کا ترجمہ کیا اور آپ کی کتنی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ مولانا وحید الدین خاں کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے آپ نے ان کے بعد خود کو کن سرگرمیوں میں مصروف کر رکھا ہے۔ کیا اس کے لیے آپ مستقل لکھتے رہنے کی کوشش کریں گی، جیسا کہ خود مولانا صاحب نے ساری زندگی کیا؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: تقریباً 49 کتابوں کے ترجمے ہو چکے ہیں. چند کتابیں دوسرے لوگوں نے بھی ترجمہ کی ہیں، لیکن ان کو بھی میں نے revise کیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کتابیں شائع ہو چکی ہیں. باقی کتابوں کے ترجمہ کا کام مسلسل جاری ہے۔ فی الحال میں ’’عورت معمارِ انسانیت‘‘ کتاب کا ترجمہ کر رہی ہوں۔ باقی مشن کا کام CPS ممبران مل کر کر رہے ہیں۔ CPS کی بہت بڑی ٹیم ہے۔ جس میں volunteers بہت زیادہ ہیں۔ چونکہ دعوۃ ورک کو، قرآن (3:52) میں، خدا کی مدد کرنا کہا گیا ہے، تمام لوگ اس کام کو بے پناہ جذبہ کے ساتھ صرف خدا کی رضا حاصل کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ لہٰذا مشن کے لیے جتنا بھی کام کریں وہ کم لگتا ہے۔ CPS کے تمام لوگوں کو یہی احساس رہتا ہے کہ ہم کام کا حق ادا نہیں کر پا رہے ہیں۔ مولانا کے انتقال کے بعد بھی سنڈے کلاس برابر جاری ہے۔ میں اور میرے بھائی ثانی اثنین مل کر اس کلاس کو باقاعدہ چلا رہے ہیں۔
ہماری آرگنائزیشن کا نام CPS (سنٹر فار پیس اینڈ اسپریچولٹی) انٹرنیشنل ہے۔ تمام لوگ جو اس سے جڑے ہوئے ہیں وہ اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق دعوۃ ورک کر رہےہیں۔ ہمارے یہاں سے انگریزی ترجمۂ قرآن شائع ہوا ہے۔ یہ پوری دنیا میں مقبول ہے۔ انگریزی کے علاوہ 55 سے زیادہ نیشنل اور انٹرنیشنل زبانوں میں ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔
میں اور میرے تمام ساتھی اس مشن میں لگے ہوئے ہیں۔ کسی نے کہا تھا کہ سی پی ایس والوں کو ٹینشن نہیں ہوتا۔ حالانکہ سی پی ایس والے انتھک محنت کر کے ساری دنیا میں خدا کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ ان کو ٹینشن اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ خدا کا مشن ہے اور اس کا ریوارڈ جنت ہے۔ لہٰذا اس مشن میں جتنا بھی کام ہم کرتے ہیں، ہمیں لگتا ہے کہ کم ہے۔
علیزے نجف: اس وقت آپ زندگی کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں۔ اس وقت اگر آپ پیچھے مڑ کر اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو آپ اپنی زندگی کو کن اصولوں پر کاربند پاتی ہیں اور ان اصولوں کی تشکیل کن حالات میں ہوئی۔ اصولوں کے بغیر گزاری جانے والی زندگی کو آپ کس طرح دیکھتی ہیں؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمیں گھر میں ایک سازگار ماحول ملا۔ لیکن یہ ایک دوطرفہ معاملہ ہے۔ عورت کی طرف سے بھی strong will power ہونی چاہیے۔ ایک مشہور انگریزی مقولہ ہے:
Where there is a will there is a way
کوئی بھی کسی کو بہت زیادہ push نہیں کر سکتا۔جہاں لوگ دیکھتے ہیں کہ اس کام میں مشکلیں درپیش ہیں تو وہ چھوڑ دیتے ہیں۔ میں نے کبھی بھی مشکلات کو دیکھ کر کوئی کام نہیں چھوڑا۔ جب میں نے انگلش آنرز لیا تو مجھے اتنی انگریزی بھی نہیں آتی تھی کہ میں کلاس میں پروفیسرز کے لکچرس کو سمجھ سکوں۔ لیکن میں محنت کرتی رہتی۔ سالوں کی محنت کے بعد میں نے والد صاحب کی کتابوں اور مضامین کے ترجمے شروع کر دیے۔
راستہ میں بہت سے roadblock آئے، لیکن میں نے اپنے راستے کو کھوٹا نہیں ہونے دیا۔ جب جامعہ میں میرا اپوائنٹمنٹ ہوا تو مجھے بہت پرابلم ہوئی۔ بڑی بڑی کلاسز میں پڑھانے کی میں عادی نہیں تھی۔ کبھی کبھی گھبرا کر والد صاحب سے کہتی کہ میں resign کرنا چاہتی ہوں۔ لیکن انھوں نے استعفیٰ نہیں دینے دیا۔ آخرکار محنت کرتے کرتے میں اس قابل ہو گئی کہ چھوٹی کلاس ہو یا بڑی، میں آسانی سے کلاس لینے لگی۔ پہلے میں صرف اردو میں لکچر دے سکتی تھی۔ مگر جامعہ میں کئی students انگلش میڈیم کے ہوتے اور کیرالا کے بھی اسٹوڈنٹس ہوتے، کبھی کبھی انڈیا سے باہر کے بھی اسٹوڈنٹس ہوتے تو پھر محنت کر کے میں نے انگریزی میں لکچر دینا شروع کر دیا۔ میں یہی سمجھتی ہوں کہ لگاتار محنت سے ہر مشکل آسان ہو سکتی ہے۔
ہمارے مشن میں بہت سی ایسی خواتین ہیں جن کے گھر میں کوئی ان کو دینی کام کے لیے support کرنے والا نہیں ہے۔ پھر بھی ان کا شوق، ان کا جذبہ کافی ہو جاتا ہے کہ ان کے لیے راستے کھل جائیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنے گھر والوں پر اثر ڈالتی ہیں۔ ایسے لوگوں کے شوہر اگر actively سپورٹ نہ کریں تو کم سے کم وہ مشن کے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتے۔ یہ بھی خدا کی بڑی مدد ہے۔ میں یہی مانتی ہوں کہ مسلسل عمل اور دعا ہر بند دروازے کو کھول دیتا ہے۔
علیزے نجف: آپ کی زندگی میں آپ کے والد نے نمایاں کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے آپ نے اپنی اب تک کی زندگی کو بدرجہا بہتر طرز پر گزارا۔ ایک عام لڑکی جس کو اپنے ارد گرد ایسا مربی کردار نہ مل سکے اور وہ آپ جیسا بننا چاہتی ہو تو اسے کیا کرنا چاہیے۔ اور کس طرح اپنے پوٹنشل کو صحیح جگہ پر لگائے۔ اپنے تجربات کی روشنی میں بتائیں ؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: موجودہ دور knowledge explosion کا دور ہے۔ ہر عورت اپنے آپ کو، اگر اس کے اندر گہرا جذبہ اور strong will power ہے تو وہ کامیاب ہو سکتی ہے۔ ہر جگہ لٹریچر دستیاب ہے۔ net پر، audio, video ہر چیز سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن focussed thinking کی ضرورت ہے۔ آج ہمارے مشن میں بے شمار خواتین جڑی ہوئی ہیں۔ دوسرے دوسرے ملک سے بھی۔ جن کی والد صاحب سے ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ وہ لٹریچر کے ذریعہ زبردست مشن کا کام کر رہی ہیں۔ آج کے دور میں کوئی رکاوٹ رکاوٹ نہیں۔
علیزے نجف: زندگی ہرکسی کے لیے ایک بڑی نعمت ہوتی ہے۔ لیکن ہر کسی کے تئیں اس کے گزارنے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے یہ اختلاف کیسے پیدا ہوتا ہے۔ زندگی کو صحیح طرح سے گزارنا کس طرح ممکن ہے۔ کیا اس کو باقاعدہ سیکھنا پڑتا ہے۔ ایک عام انسان اس کو کس طرح سیکھ سکتا ہے؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: دیکھیے! ہم لوگ بہت زیادہ خوش قسمت ہیں، ہمارے پاس قرآن، حدیث، پیغمبر اسلام کی زندگی، تعلیمات اور صحابۂ کرام کی زندگیاں اور تعلیمات محفوظ ہیں۔ یہاں ہمیں ہر موقع کے لیے ہر مسئلہ کے لیے رہ نما اصول مل جاتے ہیں. انھی اصولوں کو لے کر والد صاحب نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔ مثلا اسلامی زندگی، اسباق تاریخ، کتاب معرفت اور راز حیات، وغیرہ۔
ان کو پڑھ کر اور ان پر عمل کر کے بے شمار لوگوں نے اپنی زندگی کے مسائل کو حل کیا ہے۔
والد صاحب اختلاف کے تعلق سے یہ کہا کرتے تھے کہ اختلاف کا حل اختلاف کو ختم کرنا نہیں ہے، بلکہ اختلاف کو نفرت اور شکایت کی حد تک نہیں لے جانا ہے۔ یعنی اگر آپ کو کسی سے اختلاف ہو گیا ہے تو اس کو ڈفرنس آف اوپینین کا معاملہ سمجھیے، اس کو اپنی انا کا مسئلہ مت بنائیے۔ ان کو کسی سے اختلاف ہوتا تھا تو وہ یا تو خاموش ہوجاتے تھے یا یہ کہہ کر معاملہ کو ختم کردیتےکہ میں غلطی پر ہوں (I am wrong)۔ اس سے معاملہ بڑھنے کے بجائے اسی وقت ختم ہوجایا کرتا تھا۔
علیزے نجف: مسلم معاشرے میں صالحیت و مثبت تربیت کے فقدان نے خاندانی نظام کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس کی وجہ سے بچوں کی ذہن سازی میں ایک خلا رہ جاتا ہے۔ ایسے بچوں کو زندگی کے مثبت اقدار سے کیسے روشناس کرایا جا سکتا ہے۔ ایسے ماحول میں پروردہ انسانوں کی  ازسر نو ذہن سازی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟
ڈاکٹر فریدہ خانم : اس سلسلے میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ تربیت کا سرا کیا ہو، جس کی بنیاد پر بچوں کی تربیت کا کام نتیجہ خیز انداز میں کیا جاسکے۔ آسان زبان میں وہ سرا ہے— آدمی خود اپنے اندر درست طرز فکر پیدا کرے پھر اپنی اولاد کے اندر اس کو منتقل کرے۔
مولانا وحید الدین صاحب اس تعلق سے لکھتے ہیں کہ "یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی انسان کے اندر پہلے اچھی سوچ آتی ہے، اس کے بعد اس کے اندر اچھا اخلاق آتا ہے۔ اچھی سوچ حسن اخلاق کی بنیاد ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی اولاد کے اندر درست طرز فکر (right thinking) پیدا کرے۔ جس آدمی کے اندر درست طرزِ فکر ہو، اس کا ہر رویہ درست ہوجائے گا۔
ایسے آدمی کی سوچ درست سوچ ہوگی۔ ایسے آدمی کا سلوک، درست سلوک ہوگا۔ ایسے آدمی کا معاملہ (dealing)، درست معاملہ ہوگا۔ ایسے آدمی کی منصوبہ بندی، درست منصوبہ بندی ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ آدمی مکمل طور پر مثبت سوچ (positive thinking) کا حامل ہوگا، وہ منفی سوچ (negative thinking) سے مکمل طور پر خالی ہوگا۔
جس آدمی کے اندر یہ حسنِ ادب موجود ہو، وہ اپنے ہر معاملہ میں ایک بہتر انسان ہوگا۔ ایسا آدمی خواہ اپنے گھر کے اندر ہو یا وہ گھر کے باہر ہو، وہ اپنوں سے معاملہ کرے یا غیروں سے معاملہ۔ ہر حال میں وہ درست رویہ پر قائم رہے گا۔ اس کی درست سوچ ایک ایسا عامل (factor) بن جائے گی، جو اس کو ہر موقع پر بے راہ روی سے بچائے گی۔ ایسا آدمی ایک سنجیدہ انسان ہوگا۔ایسا آدمی ذمہ دارانہ اخلاق کا حامل ہوگا۔ ایسے آدمی کے اندر وہ کردار ہوگا، جس کو قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کہا جاتا ہے۔ بلاشبہ کسی انسان کے لیے اپنے سرپرستوں کی طرف سے یہ سب سے زیادہ قابل قدر عطیہ ہے۔"
جہاں تک نوجوانوں کے اندر اسلام میں دل چسپی کی کمی کا معاملہ ہے تو جب تک اسلام کو آج کی دنیا میں ریشنل لیول پر Present نہیں کیا جائے گا تب تک لوگ اس میں دل چسپی نہیں لیں گے۔ جب والد صاحب نے ’’مذہب اور جدید چیلنج‘‘ لکھی، تو اس میں اسلام کو جدید ریشنل معیار پر اور عصری زبان میں پیش کیا گیا۔ اس وجہ سے یہ کتاب اور اسی طرح دوسری کتابیں بہت زیادہ مقبول ہوئیں. والد صاحب کی کتابیں خدا کی معرفت تک لے جاتی ہیں۔ اور جب کسی کا connection خدا سے قائم ہو جائے تب ہی اس کو اسلام سے گہری دل چسپی پیدا ہوتی ہے۔ ورنہ تو صرف رسمی عبادات تک ہی اسلام محدود رہتا ہے۔ ظاہری فارم کی خوب دھوم ہوتی ہے، لیکن اسپرٹ ندارد ہوتی ہے۔
تربیت کے موضوع پر والد صاحب کے بے شمار مضامین ہیں۔ ان کا مطالعہ کریں۔ مثلا ان کی ایک کتاب کا نام ہے، تربیت اولاد۔
علیزے نجف: کہا جاتا ہے کہ خود شناسی سے خدا شناسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے۔ ایک بچے کی تربیت میں کن اصولوں کا لحاظ رکھ کر اسے خدا سے قریب کیا جا سکتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ لوگ نماز و روزہ کا اہتمام کرتے ہوئے تقویٰ کے احساس سے عاری ہوتے ہیں۔ ان کے پیچھے کیا عوامل پنہاں ہیں؟
ڈاکٹر فریدہ خانم: خدا شناسی یا خدا کی معرفت کا حصول انسان کی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ معرفت کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے، جب کہ وہ اس بات کو جان لے کہ وہ اس کائنات میں بے کچھ ہے، اور خدا سب کچھ ہے۔ خدا یک طرفہ طور پر سب کچھ دینے والا ہے، اور وہ یک طرفہ طور پر خدا کے عطیے پر جینے والا۔ اگر خدا اس سے اپنی نعمت چھین لے تو اس کے پاس کوئی طاقت نہیں، اور نہ ہی کائنات میں کسی کو طاقت ہے کہ چھینی ہوئی نعمت کو واپس دلادے، جب تک خدا خود نہ چاہے۔ وہ اللہ کے اکبر ہونے کو جان لے اور اپنے اصغر ہونے کو۔
والد صاحب نے آج کل کے ماحول پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ "آج کل یہ رواج ہے کہ ایک شخص پیسہ کمائے گا اوراس کے بعد وہ ایک کار خرید کر اپنے بیٹے کو دے گا۔ کار کے شیشہ پر لکھا ہوا ہوگا— باپ کی طرف سے تحفہ (Dad’s Gift)۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ناشکری کا کلمہ ہے۔ ایک نعمت جو حقیقۃً خدا کی طرف سے ملی ہے، اس کو خداکی طرف منسوب نہ کرنا، بلکہ اس کو خود اپنے کمالات کے خانے میں ڈال دینا، یہ خدا کے ساتھ بے اعترافی کا معاملہ کرنا ہے، اور خدا کے ساتھ بے اعترافی بلا شبہ خدا کی اِس دنیا میں سب سے بڑے جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔
قرآن کی سورہ النمل میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبر سلیمان بن داؤد کو ایک مادّی نعمت ملی تو انھوں نے فوراً کہا: ہَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّی (27:40) ۔یعنی یہ میرے رب کے فضل میں سے ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ پیغمبر نے اس کو خدا کا عطیہ (God’s gift) قرار دیا۔ یہی صحیح ایمانی طریقہ ہے۔ صاحبِ ایمان وہ ہے جو ہر چیز کو خدا کی چیز سمجھے، جو ہر ملی ہوئی چیز کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہوئے خدا کا اعتراف کرے۔
دنیا میں انسان کو جوچیزیں ملتی ہیں، وہ بہ ظاہر خود اپنی کوشش کے ذریعے ملتی ہیں، لیکن یہ صرف اس کا ظاہری پہلو ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز مکمل طور پر خدا کا عطیہ ہوتی ہے۔ انسان کا امتحان یہ ہے کہ وہ ظاہری پردے کو پھاڑے، وہ اصل حقیقت کو دریافت کرتے ہوئے ہر ملی ہوئی چیز پر یہ کہہ دے کہ یہ میرے رب کا عطیہ ہے جو براہِ راست طور پر خدا کی طرف سے مجھ کو دیا گیا۔"
اگر ان صولوں کا خیال کیا جائے تو مناسب انداز میں بچوں کی تربیت کی جاسکتی ہے۔
***
علیزے نجف کی گذشتہ گفتگو: انسان کو ہمہ وقت خوش مزاج ہی رہنا چاہیے: خلیل الدین تماندار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے