محمد منظر حسین کی فکری نہج اور طرز اظہار

محمد منظر حسین کی فکری نہج اور طرز اظہار

(نقوش و افکار کی روشنی میں)

نسیم اشک

سمندر میں غوطہ لگانے والا ہر شخص سیپ سے موتی لےکر ہی نکلے یہ ضروری نہیں ہے. یہ تو مستحکم ارادے پر منحصر ہے کہ غوطہ خور کو کس چیز کی طلب ہے۔ محمد منظر حسین نے ادب کے سمندر میں غوطہ لگانے سے قبل ہی اپنا ارادہ مستحکم کرلیا تھا کہ انھیں سمندر سے موتی ہی نکالنا ہے۔ منظر حسین کی حالیہ تصنیف اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ ادب کا پختہ شعور رکھتے ہیں اور ساحل سے سمندر کا دیدار کرنے والے نہیں ہیں بلکہ انھیں سمندر کی امڈتی موجوں کا سامنا کرنا ہے۔منظر حسین سنجیدہ ادیب ہیں، خاموشی سے ادب کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ "نقوش و افکار" ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان کے اس مجموعے کے تعلق سے گفتگو سے قبل ان کے مضامین کی فہرست قابل توجہ اور لائق تحسین ہے۔ مشاہیر ادب کے فن پر بےشمار کام ہوئے ہیں لہذا موضوعات کی یکسانیت ہوجاتی ہے مگر منظر حسین نے اس بات کا خیال رکھا ہے اور موضوعات کی یکسانیت سے بچنے اور اپنی انفرادیت قائم کرنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ مجموعے میں 18 مضامین ہیں جن میں تحقیقی اور تنقیدی دونوں طرز کے مضامین شامل ہیں. کچھ موضوعات تو دل چسپ ہونے کے ساتھ ساتھ انفرادی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔
"اپنی بات" میں موصوف رقم طراز ہیں:
"کتاب "نقوش و افکار" میری پہلی کوشش ہے. اس میں شامل اکثر و بیشتر مضامین سیمیناروں، رسالوں اور کتابوں کے لیے لکھے گئے تھے، جسے یک جا کر کے کتابی شکل دی گئی ہے۔ سیمیناروں، رسالوں اور کتابوں کے اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں. انہیں اصول و ضوابط کے مطابق یہ مضامین لکھے گئے ہیں."
گرچہ یہ مجموعہ ان کا پہلا مجموعہ ہے مگر اس کے مطالعے کے بعد اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں نکلتی کہ منظر حسین نے جس نظر سے مشاہیر ادب کے ادب پاروں کو دیکھا ہے اس کی شدید ضرورت تھی۔ ان کا طرز اظہار ان مضامین میں محققانہ ہے. تنقیدی بصیرتوں کے کمالات بھی جابجا واضح نظر آتے ہیں اور یہ بالکل عمیق مطالعے کا ہی ثمرہ ہے۔جس مضمون کو بھی چھوا ہے اس کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا ہے۔ تحقیق و تنقید کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ اس کے فن کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا جائے۔ میری ذاتی رائے ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ آج کی تخلیق پر آنے والا کل فیصلہ کرتا ہے۔ ایسے پر آشوب دور میں جہاں زندگی کو ہزارہا مسائل کا سامنا کرنا ہے وہاں ایسی صورت حال میں بھی قابل تحسین ہیں وہ قلم کار جو ادب کی نئی راہیں تلاشنے میں سرگرداں ہیں۔ عہد رواں اس لحاظ سے بھی قابل قدر ہے کہ آج کے دیدہ ور لکھاری ماضی کے سرد خانوں سے نکال کر فن کار ادب کی شخصیتوں اور فنون کو اپنے نظریے سے پیش کرنے کا مادہ رکھتے ہیں۔ عصر حاضر کی یہ بھی خوبی ہے کہ ادب کے فن پاروں کی چھان پھٹک میں تنقید نگاروں کا رویہ مثبت اور تعمیری ہے۔ ان گوشوں کو پردہ خفا سے باہر لانا جن کے ہونے کا نشان تک مٹ چکا تھا بڑا کام ہے۔ میں بلا تامل اس بات کا اظہار کرتا ہوں کہ ادب کے کینوس کو بڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ مروجہ موضوعات اور بندھے ٹکے اصولوں سے ادب میں کچھ نئے کا اندیشہ تو ختم ہوگا ہی اور جو موجود ہیں وہ بھی سمٹ کر دم توڑ دیں گے۔ استقبال ہے ایسے قلم کاروں کا جو کسی مخصوص چشمے سے فن کو دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔
اردو کا پہلا عوامی شاعر نظیر اکبرآبادی جنھیں پوچ شاعر تک کہا گیا اور کبھی تو انھیں دائرۂ شعر و سخن سے ہی خارج کردیا گیا، ان کی آرا کے درمیان آج نظیر کا مقام کیسا منہ چڑھاتا ہے۔ بلاشبہ نظیر بے نظیر ہیں۔ گنگا جمنی تہذیب کی جو خوب صورت مثال نظیر کی نظموں میں ملتی ہے وہ اور کہیں کم ہی ملتی ہے۔ موصوف نے نظیر کی ابتدائی زندگی، ان کی شخصیت کے مخصوص گوشوں کو اجاگر کرتے ہوئے ان کی اردو ادب کی خدمات کا بحسن و خوبی جائزہ پیش کیا ہے۔نظیر کو بطور شاعر اردو کا ہر قاری جانتا ہے مگر نظیر نے نثر نگاری بھی کی ہے اس سے واقفیت کم ہی تھی۔نظیر عوام کی زندگی جیتے تھے ان کے درمیان رہ کر ان کی خوشیوں اور غموں میں شریک رہتے تھے، بلا تفریق مذہب و ملت ہر تہوار اور رسومات پر ان کی گہری نظر ہوتی تھی۔ بے شک نظیر عوامی شاعر تھے۔ فطرت کی آغوش میں زندگی گزارنے والے اس شاعر پر مصنف نے بہترین مضمون قلم بند کیا ہے۔
میر کی عظمت کا اعتراف کس کو نہیں ہے۔ میر غزلوں کی آبرو ہیں۔ ایک جہاں میر کی غزلوں کا اسیر ہے. عرصہ گزرنے کے بعد بھی میر کی شاعری کی تابندگی میں ذرا بھی کمی نہیں آئی ہے اور اس کی وجہ میر کی شاعری میں موجود ان خصوصیات کا ہونا ہے جو دوسرے کسی کے حصے میں نہیں آئیں۔ میر کا تصور عشق ان کی شاعری کو زندگی عطا کرتا ہے. چونکہ میر کا تعلق ایسے گھرانے سے تھا جہاں عشق کی حکومت تھی، تصوف کے رمز کھلتے تھے اور ایک انسان کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ، اس کی عشق میں پختگی کرتی تھی۔ میر نے موضوع عشق کو جس پر وقار طریقے سے اپنی شاعری میں پیش کیا ہے اس کی مثال ویسی نہیں ملتی. گرچہ غالب اور اقبال کے ہاں بھی عشق کے مضمون ملتے ہیں مگر لہجہ مختلف ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے کیونکہ نئی بات کا ہونا بہت مشکل ہے مگر نئے انداز و اظہار کا ہونا اپنی منفرد شناخت کو کافی ہے۔ عشق کے دھاگے تصوف کے چہار جانب لپٹے ہوئے ہیں. لہذا عشق کی گہرائی و گیرائی تصوف کی مرہون منت ہے۔ میر کے عشق کو منظر حسین نے یوں پیش کیا ہے۔
"میر کے عشق میں دو دائرے ہیں: ایک بڑا دائرہ اور دوسرا چھوٹا دائرہ۔ تمام چھوٹے چھوٹے دائرے بڑے دائرے پر محیط ہیں، یعنی جز کل پر محیط ہے۔ ان کے یہاں عشق کا جذبہ پوری کائنات پر حاوی ہے۔ جس طرح انسانوں کو ہر چیز میں خدا نظر آتا ہے، اسی طرح میر کو ہر چیز میں عشق ہی عشق نظر آتا ہے." (ص:38)
میر کا ایک شعر دیکھیں:
عشق معشوق عشق عاشق ہے
یعنی اپنا ہی مبتلائے عشق ہے
معمار قوم سرسید احمد خان نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا قیام کرکے جو اپنی قوم پر احسان عظیم کیا ہے اس کج معترف پوری قوم ہے۔1857ء کے بعد انگریزوں کا جو عتاب مسلمانان ہند کو سہنا پڑا تھا اس عتاب کی شدت کو کم کرنے، نیز اس کا تدراک ڈھونڈنے میں جو اہم کام سرسید نے انجام دیا اس کی دوسری مثال کہیں نہیں ملتی۔ سرسید کو معلوم تھا کہ مغربی علوم کی جان کاری کے بغیر اس قوم کی حالت بدلنی نا ممکن ہے۔ انھوں نے قوم کی ڈوبتی نیا کی پتوار اس وقت اپنے ہاتھوں میں لی جب کہ ایسا کرنا بھاری جوکھم کا کام تھا۔ مغربی تعلیم، جدید علوم، سائنس اور ٹکنالوجی سے قوم کو متعارف کرانے میں اور تعلیم نسواں کے لیے سرسید کی خدمات نمایاں ہیں۔ "سرسید کا تصور تعلیم" میں مصنف نے سرسید کی انھی تعلیمی سرگرمیوں کا ذکر کیا ہے۔ اس مضمون کے ساتھ مصنف نے بڑا انصاف کیا ہے۔
” اب اور زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی" یہ اس فن کار کا فقرہ ہے جس نے اپنے افسانوں میں دلتوں کو بہ طور ہیرو پیش کیا اور پہلی بار سطح زمین میں دھنسے لوگوں کے دلوں کی دھڑکنیں سنی اور ان دھڑکنوں کو اپنے افسانوں میں ایک للکار کی طرح پیش کیا۔ منشی پریم چند وہ افسانہ نگار ہیں جن کے ہاں ہمیں سماج کے ان طبقوں کی کہانی ملتی ہے جنھیں ہم کوئی کردار سمجھتے ہی نہیں۔ منشی پریم چند نے افسانوں میں ان برہنہ حقیقتوں کو پیش کرنے کی جسارت کی جن کو کہنا بالکل آسان نہیں تھا۔ موصوف اپنے مضمون میں پریم چند کے متعلق یوں رقم طراز ہیں:
"پریم چند ایک ایسے فکشن نگار ہیں، جنھوں نے فکشن کو رومانی دنیا سے حقیقی دنیا میں لا کھڑا کیا۔ اپنی کہانیوں میں ایسے موضوعات کا انتخاب کیا، جن کا تعلق ان کے قرب و جوار کے لوگوں اور سماج سے تھا۔انھوں نے سماج کے پس ماندہ لوگوں کو جینے کا ہنر سکھایا۔ انھیں اپنے حقوق سے واقف کرایا اور یہ نعرہ بھی دیا کہ ہمیں اب حسن کا معیار بدلنا ہوگا۔ انھوں نے صرف نعرہ نہیں دیا بلکہ اپنی کہانیوں کے ذریعہ اسے سچ بھی ثابت کیا۔"
مولانا ابوالکلام آزاد صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ نے انھیں بے شمار علوم و فنون سے نوازا تھا۔ ایک شخصیت میں کئی شخصیتیں جلوہ افروز تھیں، وہ بھی بیک وقت۔ موصوف نے مولانا آزاد کی سائنسی بصیرت کے زیر عنوان مولانا کی تصانیف مثلاً  تذکرہ، غبار خاطر اور دوسرے تصانیف کے حوالے سے بہت جامع گفتگو کی ہے اور یہ باور کرایا ہے کہ مولانا جدید تعلیم کے حامیوں میں سے تھے اور سائنسی تعلیم کے فروغ میں ہمیشہ کوشاں رہنے والی شخصیت تھے۔
اردو شاعری میں جتنے اصناف رائج ہیں، میں سب کی اہمیت کا قائل ہوں۔ سب کی اپنی شناخت ہے اور بے جا تنقیدات سے حاصل کچھ نہیں بلکہ ادب کے خسارے کا اندیشہ ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ مستحکم ہے کہ غزل کو جو مقبولیت نصیب ہوئی وہ کسی دوسری صنف کو نہیں ملی اور اس کا دبدبہ آج بھی ادب پر قائم ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے. اردو شاعری میں غزل کے بعد جن اصناف نے ادب کو زیادہ متاثر کیا وہ نظم نگاری اور رباعی گوئی ہیں۔ عموما رباعی کہنا ایک مستند شاعر کے ہی بس کی بات ہے۔ ترقی پسند شاعروں کی صف میں تن من سے شامل ہونے والوں میں پرویز شاہدی کا نام محتاج تعارف نہیں ہے۔ پرویز شاہدی کا جو تیور ہمیں ان کی غزلوں میں دکھتا ہے کم و بیش وہی کیفیت ان کی رباعیات میں بھی ملتی ہے۔ رباعی جیسی مشکل ترین صنف پر پرویز شاہدی نے اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ان کی رباعیوں کا لہجہ ان کی شاعری میں پختگی کا بین ثبوت ہے۔
غزلوں اور نظموں کے مشہور ترقی پسند شاعر پرویز شاہدی نے رباعی میں بھی اپنے فن کا جوہر دکھایا ہے۔رباعیات میں ان کا مخصوص لہجہ ملتا ہے۔ پرویز شاہدی نے شجرۂ اخرب اور شجرۂ اخرم کے مختلف اوزان میں رباعیات کہی ہیں اور لاجواب کہی ہیں۔ ان کی رباعیات میں رجائیت ملتی ہے۔ پرویز شاہدی کی نظموں کا بلند آہنگ ان کی رباعیات میں بھی ملتا ہے۔ روایتی مضامین کے ساتھ نئے فکری چشمے بھی رواں ملتے ہیں۔ ایک رباعی پیش خدمت ہے:
زنجیر کا لوہا بھی پگھل جائے گا
شمشیر ہی کے سانچے میں ڈھل جائے گا
شعلے دل باغی کے بڑے سرکش ہیں
جو سامنے آئے گا وہ جل جائے گا
پرویز شاہدی کی رباعی گوئی کے حوالے سے مضمون معلوماتی اور قیمتی ہے۔
مرثیہ نگاری اردو ادب کی مقبول اصناف میں سے ایک ہے، جس کے معترضین کے جواب میں میر انیس اور مرزا دبیر نے اس صنف کو کمال عروج پر پہنچا دیا اور اس صنف کو اعتبار بخشا۔ اردو ادب کی تاریخ میں رثائی کلام وافر مقدار میں ملتے ہیں۔ بے شمار شاعروں نے اہل بیت سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار اپنے مخصوص انداز میں کیا ہے۔ موصوف نے علامہ جمیل مظہری کی مرثیہ نگاری کے فنی محاسن بیان کیے ہیں۔ علامہ جمیل مظہری کے مراثی میں ایک منفرد طرز اظہار ملتا ہے۔جمیل مظہری نے کربلائی مرثیوں کے ساتھ شخصی مرثیے بھی لکھے ہیں۔ جس میں علمی و ادبی شخصیتوں کے علاوہ سیاسی شخصیتیں بھی شامل ہیں۔ مضمون کا بیانیہ لہجہ بہت متاثر کرتا ہے۔
حلقۂ اربابِ ذوق کا ذکر آتے ہی میرا جی نمودار ہوجاتے ہیں۔ "ادب برائے ادب" کے نظریے سے متاثر میراجی کی ادبی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ بہ حیثیت شاعر اور نقاد میراں جی نے ادب کی داخلیت پر زور دیا۔ روایت کا انحراف بھی کیا۔ نظم نگاری کو مروجہ ہئیت سے آزاد کیا، نئے موضوعات اور نئے تجربے کیے۔ منظر حسین نے میراں جی کی شاعری کے مختلف پہلؤوں پر مدلل اور مفصل روشنی ڈالی ہے اور میراجی کی شاعری کا احاطہ بہت عرق ریزی سے کیا ہے۔ میرا جی کی شاعری میں جنسیات، علامت، ذہنی کشمکش، روزمرہ کی پریشانیوں کا مکمل تذکرہ کیا ہے۔
شمس الرحمٰن فاروقی کی تنقیدی بصیرتوں کا بھر پور جائزہ لیا ہے۔ بلاشبہ شمس الرحمن فاروقی اردو ادب کی تنقید کا ایک مضبوط ستون ہے اور ان کی خدمات سے انکار کی گنجائش نہیں نکلتی۔ تنقید کو جس بلندی پہ فاروقی صاحب لے گئے ان سے پہلے شاید ہی کسی نے یہ کارنامہ انجام دیا ہو مگر ایک شخص ہر نگاہ کا جوہر نہیں ہوسکتا لہذا شمس الرحمٰن فاروقی کے معترضین بھی ہیں جن کے حوالے مصنف نے اس مضمون میں پیش کیا ہے۔ ایک شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار اور ناقد شمس الرحمٰن کی ناقابل فراموش ادبی خدمات کا احاطہ کرتا ہوا یہ مضمون لائق تحسین ہے۔
اس مجموعے میں نئے موضوعات کے مضامین بھی شامل ہیں اور ایسے مضامین کی شمولیت پر میں منظر حسین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں. بہت ضروری ہے کہ ادب میں ان موضوعات پر کام ہو۔ "اکیسویں صدی میں ادب اطفال: مسائل اور تدراک"، "کورونا وائرس اور اردو ادب"، اکیسویں صدی میں اردو زبان: فروغ و امکانات" کچھ اسی طرز کے مضامین ہیں جو قاری کی توجہ کا حامل ہیں۔ اردو ناولوں کا دور پوری طرح ختم تو نہیں ہوا پر انتہائی کمی آئی ہے۔ روزمرہ کی مصروفیت نے انسان کو ان ناولوں سے دور کر دیا ہے۔ مختصر مدت میں پڑھے جانے والی تحریریں بھی اپنے قاری کی منتظر رہنے لگی ہیں۔ "اکیسویں صدی میں اردو زبان: فروغ و امکانات"
میں مصنف کی ان سطور سے  کلی طور پر اتفاق رکھتا ہوں:
"اکیسویں صدی اردو زبان کے لیے ان معنوں میں بہتر ہے کہ دوسری زبان والوں کی طرح اردو والے بھی اپنی زبان کو بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کو پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہیں لیکن ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ اردو میں شعر و ادب کے ساتھ دوسرے علوم و فنون پر بھی خاص توجہ دی جائے."
کورونا وائرس انسانی زندگی کے نظام میں غیر متوقع تبدیلیاں لایا. روز مرہ کی زندگی کا نقشہ بالکل الٹ کر رکھ دیا۔ اس آفت نے مختصر مدت میں پوری انسانی برادری کو ایک ساتھ اپنی چپیٹ میں لے لیا۔ ادب زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ ہے لہذا اس میں بھی تبدیلیاں آئیں۔نئی طرز حیات کے نئے موضوعات ابھر کر سامنے آئے اور اس تناظر میں ادبی تخلیقات کا ظہور بھی ہوتا رہا۔
اردو شاعری کا ایک اہم نام منور رانا ہیں جن کی موجودگی مشاعرے کی کامیابی کا ضامن ہوا کرتی ہے، انھوں نے غزلوں کے ساتھ نثر کو بھی مالا مال کیا ہے۔موصوف نے اس مجموعے میں ان کی خاکہ نگاری پر خامہ فرسائی کی ہے اور قاری کو ان کے اندر کے بہترین نثر نگار سے متعارف کرایا ہے۔ خاکہ نگاری کی روایت پر مختصر مدلل جائزہ بہت خوب ہے۔ منور رانا کے تین نثری مجموعوں کے تناظر میں مصنف نے ان کی خاکہ نگاری کا جائزہ پیش کیا ہے. جس کے مطالعے سے معتبر شاعر کی عمدہ نثرنگاری سے واقفیت کا موقع ملتا ہے۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر منور رانا کا اسلوب دل چھو لینے والا ہوتا ہے۔ بلا شبہ ان کی شعری و نثری صلاحیتوں کا اعتراف کرنا فخر کی بات ہے۔
منظر حسین کا اسلوب بہت متاثر کرتا ہے۔ مضامین میں ان کا وضاحتی لہجہ بہت خوب ہے۔ سادہ اور آسان الفاظ کا استعمال مذید تابناکی عطا کرتا ہے۔ جملوں کی برجستگی اور روانی مضمون کا لطف بڑھا دیتی ہیں۔
"نقوش و افکار" کی اشاعت پر میں منظر حسین صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ کتاب ظاہری و باطنی دونوں اعتبار سے خوب صورت ہے۔ اس خالق سے جس نے ایک کن سے جہاں کو پیدا کیا دعا گو ہوں کہ منظر حسین کا قلمی سفر یوں ہی برق رفتاری سے چلے اور وہ یوں ہی اپنے رشحات قلم سے اردو ادب کو مالا مال کرتے رہیں۔ آمین۔
نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
فون۔9339966398
e-mail : nasimashk78@gmail.com
***
نسیم اشک کی گذشتہ نگارش :زندگی کے طوفان میں پرواز کناں: ڈاکٹر محمد علی حسین شائق

شیئر کیجیے

One thought on “محمد منظر حسین کی فکری نہج اور طرز اظہار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے