مقالہ مارکیٹ

مقالہ مارکیٹ

ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں
غوث منزل،تالاب ملا ارم
رام پور 244901 پو پی
موبائل:9719316703

دنیا میں جس طرح ہر چیز کا ایک سیزن یا موسم ہوتا ہے اسی طرح مقالہ بازی یا مقالہ نگاری کا بھی ایک سیزن ہوتا ہے۔ اس کو مانگ میں تیزی یا سہالک کا آنا بھی کہا جاتا ہے، یعنی وہ وقت جب اشیا کی مانگ حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ویسے تو یہ مقالے سمیناروں کے مرہون منت ہوتے ہیں یا ان کے ذریعہ پیدائش کا سبب بنتے ہیں اور ’ایمرجنسی ولادت‘ کی طرح یہ کبھی بھی معرض وجود میں آجاتے یا آسکتے ہیں، لیکن مقالوں اور سمیناروں کا موسم بہار عام طور سے اکتوبر سے مارچ تک، چھ ماہ کے عرصے پر محیط ہوتا ہے کیونکہ اسی عرصے میں سرکاری روپیہ بہت سی جائز اور بیشتر فضول، فاضل یا فرضی مدوں میں خرچ کرکے مارچ کے آخر تک بیلنس شیٹ کو مکمل کرنا ہوتا ہے۔
پہلے زمانے میں لفظ ’مقالہ‘ بڑا بھاری بھرکم، قابل اعزاز، لائق احترام اور بڑا مشکل سمجھا جاتا تھا کیونکہ مقالے کو لکھنا ہر کس و ناکس کی بات نہیں ہوتی تھی۔ لوگ مقالے کے نام سے خوف کھاتے تھے۔ مقالہ لکھنے کے لیے اتنی تیاریاں ہوتی تھیں جتنی شاید کسی غریب کے ولیمے کے لیے بھی نہ ہوتی ہوں۔ لائبریریوں کی خاک چھاننی پڑتی تھی۔ کتابوں کے انبار سامنے رکھ کر اور خم ٹھونک کر بیٹھا جاتا تھا۔ تب ایک قابل قدر اور بھاری بھرکم مقالہ تیار ہوتا تھا۔ مقالہ نگار کو آستینیں چڑھانے اور کالر اونچا کرنے نیز بغلیں بجانے کا موقع ملتا تھا۔ شہر میں مقالہ نگار کا چرچا ہوتا تھا۔ لوگ قابل رشک نگاہوں سے اسے دیکھا کرتے تھے اور انگلی اٹھا کر دوسروں کو دکھاتے تھے کہ: ’یہ ہیں وہ صاحب جنھوں نے شہر میں مقالہ لکھا ہے‘۔ ان کی آؤ بھگت ہوتی تھی۔ ان کی عزت و توقیر کی جاتی تھی۔ ان کو تعریف و توصیف سے نوازا جاتا تھا کیونکہ انھوں نے مقالہ لکھ کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہوتا تھا۔
آج چلتے پھرتے مقالے لکھے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے بیشتر کا معیار بھی چلتا پھرتا یا کام چلاؤ ہی ہوتا ہے۔ آج کل اس کے لیے کوئی خاص محنت نہیں کی جاتی۔ دوچار کتابیں اٹھائیں، چار چھ رسالوں کو دیکھا، بڑے بڑے اقتباسات بغیر کسی حوالے کے دوسروں کے مضامین سے نقل کیے، چند سطریں آگے پیچھے بڑھائیں، کچھ کوٹیشن ’بڑے لوگوں‘ کے نام سے نوٹ کیں اور مقالہ تیار! اب حوالے کے صفحات، مآخذ کی تفصیل، تحقیق کی کتابیات اور تلاش و جستجو کی سچائی میں کون جا رہا ہے؟ کس کے پاس وقت ہے اور کس کو دل چسپی ہے!
مقالے کی بہت سی قسمیں ہوتی ہیں۔ سب سے اچھے مقالے وہ سمجھے جاتے ہیں جو اردو کے سیمنار میں، انگلش میں پڑھے جائیں۔ یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں بلکہ ایسے مقالوں کو ہم بگوش خود ’برداشت‘ بھی کر چکے ہیں۔ وہ مقالہ بھی اچھا سمجھا جاتا ہے جو کسی سامع کی سمجھ میں نہ آئے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ سمینار میں مقالہ پڑھتے وقت، مقالہ نگار کو اس کی داد برابر ملتی رہتی ہے، کیونکہ سامعین داد نہ دیں گے تو یہ سمجھا جائے گا کہ مقالہ ان کے سر سے گزر گیا اور ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ وہ مقالہ بھی یقینا اچھے مقالوں کے زمرے میں شامل ہوتا ہے جو خود مقالہ نگار کی سمجھ میں نہ آئے، کیونکہ دوسرے سے لکھوائے ہوئے مقالے کو خود سمجھنا ضروری نہیں ہوتا۔ دوسرے ایسے مقالوں کا مقصد کسی کی اصلاح کرنا، معاشرہ کو کوئی پیغام دینا یا پھر ادب کی خدمت کرنا نہیں ہوتا بلکہ ان کا خاص مقصد حصول زر ہوتا ہے۔ جس کا تقاضا مقالہ نگار سمینار میں مقالہ پڑھنے کے فوراً بعد ہی شروع کر دیتے ہیں بلکہ بہت سے لوگ تو مقالہ لکھنے کا محنتانہ پہلے ہی طے کر لیتے ہیں۔ آدھے آدھے کی شرط پر بہت سے مقالہ نگار، خود لکھنے کے بجائے دوسروں سے بھی مقالہ لکھوالیتے ہیں۔ جس طرح کئی شاعر یا متشاعر مشاعروں میں اردو کی غزل ہندی میں لکھ کر لاتے ہیں اسی طرح اب اردو سمیناروں میں بہت سے مقالے ہندی میں بھی لکھ کر لائے جانے لگے ہیں۔
جس طرح اچھے مقالے کی بہت سی خصوصیات ہوتی ہیں اسی طرح اچھے مقالہ نگاروں کی بھی یہ خصوصیات ہیں کہ ان کے پاس ہر وقت ہر طرح کے مضامین موجود ہوتے ہیں اور یہی چھوٹے چھوٹے مضامین سمینار میں پہنچتے پہنچتے مقالے کے نام سے پکارے جانے لگتے ہیں۔ عنوانات میں تھوڑی سی تبدیلی یا ترمیم کرکے ایک ایک مقالہ کئی کئی سمیناروں کو کور کرتا یعنی ان میں پڑھا جاتا ہے۔ جو لوگ کالج یا کسی یونی ورسٹی سے، کسی بھی حیثیت سے وابستہ ہوتے ہیں ان کے مضامین بھی مقالوں کے زمرے میں شامل ہوتے ہیں، کیونکہ اکثر ’کرسی‘ کی وجہ سے ان کے مضمون کو مقالہ ہی کہا جاتا ہے۔ سمیناروں میں سوال تو وہ کرے جس کی سمجھ میں خاک کچھ نہ آیا ہو۔ اس لیے ’وقفہ سوالات‘ اب سمیناروں سے مفقود اور عنقا ہو گیا ہے۔ بڑے قلم کاروں کا چھوٹے سے چھوٹا یا عامیانہ مضمون بھی مقالے کے زمرے میں شامل ہوتا ہے اور وہ عزت مآب لوگ جن کا، بہ قول شاد عارفی ’جھک مارنا‘ بھی ’فرمانے‘ کے مثل سمجھا جاتا ہے ان کی ڈیڑھ دو صفحات کی رف تحریریں بھی مقالے کا درجۂ استناد رکھتی ہیں۔
مقالہ باز یا سیمینار پرست مقالہ نگاروں کے سفری بیگ اکثر و بیشتر بالکل تیار رہتے ہیں اور نہایت کم وقفہ یا قلیل وقت کے نوٹس پر بھی وہ مقالہ پیش کرنے کے لیے پوری طرح مستعد، چوکس اور چاق و چوبند نظر آتے ہیں۔ ہماری rapid action force کی بٹالین بھی شاید اتنی جلدی موقعۂ واردات پر نہیں پہنچتی جتنی جلد ہمارے مقالہ نگار سمینار ہال میں پہنچ جاتے ہیں۔ ہاں پیشہ ور قسم کے مقالہ نگار بہ ظاہر وقت کی تنگی، مصروفیت، بیماری آزاری اور دیگر قسم کے فرضی عذر ضرور پیش کرتے ہیں تاکہ ان کی اہمیت سمینار منعقد کرانے والوں کی نظر میں کچھ اور بڑھ جائے۔ بہرحال ان کے بیگ میں ہر طرح کا مسالہ تیار ہوتا ہے۔ مقالے کا موضوع کچھ بھی ہو ایک ہی مقالہ یا مضمون معمولی سی رد و بدل کے بعد متعدد سمیناروں میں پڑھا جا سکتا بلکہ پڑھا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اردو لغات میں مقالے کی جو تعریف دی گئی ہے یا اس کے معنی اور مفاہیم بتائے گئے ہیں، بیشتر مقالے اس معیار پر پورے نہیں اترتے۔
سیمینار اور لنچ کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ اس کا اہتمام و انتظام بھی اگرچہ مقالہ نگاروں کے نام پر ہی ہوتا ہے کیونکہ اس اجتماعی تقریب کے وہی دولہا ہوتے ہیں لیکن اس بہتی گنگا میں منتظمین اور سامعین بھی برابر سے ہاتھ دھوتے اور بھری ہوئی پلیٹیں صاف کرتے ہیں۔ کچھ لوگ مقالہ نہ بھی پڑھیں تب بھی لنچ کے حق دار ہوتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے کسی سرکاری یا غیر سرکاری افطار پارٹی میں روزہ کشائی کرنے اور کرانے والے سبھی روزہ دار نہیں ہوتے۔ سمینار کرانے والے ناتجربہ کار منتظمین شروع شروع میں تو کافی لٹتے ہیں یعنی جتنا روپیہ ’اوپر‘ سے بجٹ کے طور پر ملتا ہے اس کی اچھی خاصی لاگت وہ لنچ پر لگا دیتے ہیں لیکن چونکہ تجربہ اچھے اچھوں کو سدھار دیتا، راہ راست پر لے آتا اور سکھا کر کسی قابل بنا دیتا ہے اس لیے جیسے جیسے سمینار کرانے کا تجربہ وسیع اور دراز ہوتا جاتا ہے اسی طرح لنچ کا مینو بھی کم خرچ، قلیل اور تنگ ہوتا جاتا ہے۔
آخر یہ دل چسپ صورت حال یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ خرچ کرنے سے زیادہ خرچ بچانے کے نسخے ہاتھ آجاتے اور ترکیبیں سمجھ میں آجاتی ہیں اور ایسا ہو بھی کیوں نہیں کیونکہ سمینار کرانے کا سنہری موقع سال میں صرف ایک ہی بار ہاتھ لگتا ہے وہ بھی کچھ ’لے دے‘ کر۔ البتہ پیشہ ور قسم کے سمینار باز سال میں کئی سمیناروں کی منظوری بھی اپنے نام کرالیتے ہیں۔ اس موقع پر اللہ بخشے نظیر اکبر آبادی خوب یاد آتے ہیں جو کہہ گئے ہیں: ’کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہاتھ دے اور اس ہاتھ لے‘۔ اس کے علاوہ مہمان خصوصی اور سمینار کے صدر سے بھی عوض بطور اور تقریب کے نام پر چندہ وصول کر لیا جاتا ہے۔ جتنی موٹی رقم چندے میں ملتی ہے اتنی ہی اونچی کرسی کا حق دار، چندہ دینے والے کو مانا جاتا ہے۔
یہ ضروری نہیں آپ کسی سیمینار میں جائیں اور آپ کو مقالہ پڑھنے کا موقع مل ہی جائے۔ ہمارے ساتھ بھی ایک بار ایسا ہی ہو چکا ہے۔ مقامی لوگوں کو ایک ایک کرکے پڑھوانے کے بعد جب باہر کے اسکالروں یا مقالہ نگاروں کا، پڑھنے کا وقت آیا تو شام ہو چکی تھی اور ظاہر ہے گھنٹوں سے بیٹھے ہوئے لوگ اب قوت برداشت کھو چکے تھے۔ پہلا سیشن چونکہ افتتاحی تھا اس لیے تعارف اور تقاریر کا سلسہ دور اور دیر تک چلا گیا۔ پھر یہ سیشن کسی قدر تاخیر سے بھی شروع ہوا تھا اس لیے اب براہ راست لنچ پر حملہ ہونے والا تھا۔ لنچ کے بعد کیا ہوا یا کیا ہوتا ہے؟ یہ بتانے کی شاید ضرورت نہیں کیونکہ اکثر سمیناروں میں سامعین کی کثرت، رونق اور گہما گہمی لنچ تک ہی برقرار رہتی ہے اور لنچ کے بعد صرف دو ہی طرح کے لوگ بچتے ہیں یعنی منتظمین اور مقالہ نگار حضرات اور اگر دس بارہ سامعین مروت میں رک بھی جائیں تو بھرے پیٹ اونگھتے ہوئے ایسے سامعین کیسے دس دس صفحات کے مقالات برداشت کر پائیں گے۔
مقالہ نگار کی تو بہرحال مجبوری ہے اور وہ سمجھ میں بھی آتی ہے کیونکہ اسے کیش لینا ہے اور کیش لینے کے لیے مقالہ تو پڑھنا ہی پڑے گا۔ لہٰذا ایسی صورت حال میں کہ شام ہو چکی تھی اور جونیر سینئر کے چکر میں ہمارا نمبر سب سے آخر کے ایک دو مقالہ نگاروں سے کچھ ہی پہلے آیا، اس لیے ہم نے مقالے کی صرف دو سطریں ہی پڑھیں یعنی ایک بالکل شروع کی اور ایک بالکل آخر کی اور مزید کچھ پڑھنے سے معذرت کرتے ہوئے اپنی بات ختم کر دی۔
اس روز ہمارے ذہن میں ایک خیال ضرور آیا کہ آخر مقالہ پڑھنے کا ایک معیار اور طریقۂ کار ضرور ہونا چاہیے اور کسی طرح بھی ہو مقالہ نگار کو اپنا مقالہ پڑھنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اس کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں جیسے مقالہ نگاروں کے ناموں کو حروف تہجی کی ترتیب سے لگایا جائے۔ اس میں چھوٹے بڑے مقالہ نگار یا جونیر اور سینئر کی تخصیص ختم کی جائے۔ جس کا نام ترتیب سے آتا جائے وہ مقالہ پڑھ لے۔ دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ کون سا مقالہ نگار کتنے کلو میٹر دور سے آیا ہے، جو جتنی زیادہ دور سے آیا ہو اسی کو پہلے پڑھوایا جائے۔ ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس کی ڈگریاں زیادہ ہوں پہلے اس کو مقالہ پڑھنے کا موقع دیا جائے لیکن اس میں بڑی قباحت ہے، کیونکہ کچھ تو ایم.اے، پی ایچ.ڈی وہ ہیں جو باقاعدہ ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ کرکے بڑی ڈگریوں تک پہنچتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ ایم.اے، پی ایچ.ڈی ایک دوسرے طریقے والے بھی ہیں یعنی انھوں نے ایم.اے کرنے کے بجائے صرف وہ امتحان دیا ہے جو ایم.اے کے مساوی مان لیا گیا ہے اور وہ امتحان بھی صرف اس معیار کے ہیں جن کو صرف نقل کرکے پاس کیا جاتا ہے اور اس کی بھی صلاحیت نہ ہو تو لکھنے کے لیے دوسرا بندہ لے جایا جا سکتا ہے۔ یہ بھی نہ ہو تو آخری حربہ یہ ہے کہ امتحان کی کاپی گھر لا کر نقل کر لی جائے۔ ظاہر ہے ان ’ڈگری دھاریوں‘ کا کتنا وزن ہوگا بہ مقابلہ ان کے، جنھوں نے بیس پچیس سال محنت کرکے ایم.اے اور پی ایچ.ڈی جیسی ڈگریاں حاصل کی ہوں۔ بہرحال ایسی صورت حال میں مقالہ نگاروں کے مقالہ پڑھنے کے انتخاب میں کافی دشواری ہو سکتی ہے۔
ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جن کی عمر زیادہ ہو ان کو پہلے مقالہ پڑھنے کا موقع ملنا چاہیے، یعنی ان کی تاریخ پیدائش کے لحاظ سے مقالہ نگاروں کی فہرست ترتیب دی جائے لیکن یہ طریقہ بھی زیادہ کارگر نہیں ہو سکتا کیونکہ خواتین مقالہ نگار اپنی صحیح عمر یا تاریخ پیدائش نہیں بتا سکتیں. دوسرے: علم کا تعلق صلاحیتوں سے ہوتا ہے نہ کہ عمر کے زیادہ ہونے سے۔ یہ قطعی ضروری نہیں کہ جس کی عمر زیادہ ہو اس کے اندر علم بھی زیادہ ہو۔ اس کے علاوہ ایک ترکیب اور بھی ہمارے ذہن میں آئی تھی کہ جس قلم کار کا ادبی قد اونچا ہو اور اس کی کتابوں کی تعداد زیادہ ہو اسے مقالہ پڑھنے کا موقع دیا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کتابوں کی زیادہ تعداد بھی ادب میں کسی کے مرتبے کی ضامن نہیں ہو سکتی۔ ہمارے پاس اکثر ایک صاحب اپنی کتاب یا اس کا مسودہ مقدمہ یا پیش لفظ لکھنے کے لیے ارسال کرتے ہیں۔ ان کی کتابوں کی تعداد پچاس تک پہنچ چکی ہے لیکن ان کی ہر کتاب پچاس صفحات سے زیادہ کی نہیں ہوتی۔ اس لیے کتابوں کی زیادہ تعداد کسی کے ادبی مرتبے کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ بہرحال کتابوں کی تعداد کے قطع نظر ایک اور بھی ترکیب ہمارے ذہن میں ہے اور وہ یہ کہ ادبی وزن کے بجائے خود مقالہ نگاروں کا ہی وزن کرا لیا جائے یعنی جس کا وزن زیادہ ہو وہی پہلے مقالہ پڑھنے کا حق دار ہو۔
ابتدا میں مقالہ پڑھنے کے بہت سے دیگر فائدے بھی ہیں۔اس کو واضح کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ سب جانتے ہیں کہ آداب محفل سمجھنے والے، پڑھے لکھے، سمجھ دار اور بالغ نظر سامعین یا شرکا تقریب میں ہمیشہ دیر سے آیا کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں جو جتنا بڑا اور سمجھ دار سامع ہوگا وہ اتنی ہی دیر سے آئے گا۔ ایک حمام میں یا ایک معاشرہ میں جب سبھی ایک سے ہوں تو دیر سے آنے کا مطلب ہے کہ وہ صحیح وقت پر آیا ہے۔ ویسے دیر سے آنے میں ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ استقبال کے لیے کھڑے ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے۔ ہاں تو بات رہ گئی، اول مقالہ پڑھنے میں یہ بھی فائدہ ہے کہ مقالہ نگار گاڑی کے لیٹ ہونے کا بہانہ کرکے چیک یا کیش جلدی سے جلدی حاصل کرکے وہاں سے روانہ ہو سکتا ہے. دوسرے لفظوں میں اپنا مقالہ پڑھ کر کھسک سکتا ہے۔ اب چیک کا ذکر نکلا ہے تو یہ بھی بتا دیں کہ سمینار میں چیک نہیں بلکہ زیادہ تر کیش ہی دیا جاتا ہے۔ بہ ظاہر تو یہ اچھا بھی لگتا ہے کہ مقالہ نگار کا، چیک جمع کرنے کا وقت اور جھمیلا بچ جاتا ہے لیکن دراصل حقیقت یہ ہے کہ چیک دینے میں سمینار کرانے والوں کی پکڑ کے چانس زیادہ ہیں، کیونکہ چیک کی کاؤنٹر سلپ بھرنی ضروری ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود کاؤنٹر سلپ میں وہ رقم نہیں بھری جا سکتی جو مقالہ نگار کو دی جاتی ہے۔
یوں تو دنیا میں بے وقوفی کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن مقالہ نگار سے بڑا بے وقوف کون ہوگا جو خالی بل پر دستخط کرتا ہے۔ عام طور سے خالی بل یا رقم سے مبرا کاغذ پر دستخط کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا لیکن مقالہ نگار یہ خطرہ خندہ پیشانی سے قبول کرتا ہے۔ ایک مقالے کا بھتہ یا محنتانہ اسے ہزار پانچ سو سے زیادہ نہیں دیا جاتا جب کہ تقریب سے اس کے چلے جانے کے بعد، بل پر اس کے نام کے آگے وہ بھاری رقم درج کی جاتی ہے جو اسے کبھی دی ہی نہیں جاتی۔جو پرانے اور تجربہ کار بلکہ پیشہ ور سیمینار باز یعنی سیمینار منعقد کرانے والے ہیں وہ نئے مقالہ نگاروں سے ان کی محنت کے صلے میں، انھیں کچھ دینے کے بجائے سیمینار میں رجسٹریشن کے بہانے اور سرٹیفکٹ کا لالچ دے کر الٹے ان ہی سے روپے پکڑ لیتے ہیں۔ سیمینار میں شالوں، دوشالوں، ہارگجروں، تحفے تحائف، مومنٹو وغیرہ کے مصارف بھی ’ادھر ادھر‘ سے پورے کر لیے جاتے ہیں۔
سیمیناروں کی بدحالی، مفلوک الحالی، ان کے پست معیار، ارزاں، گھٹیا، گھسے پٹے اور عامیانہ موضوعات، سامعین اور حاضرین کی قلت اور عدم دل چسپی، سیمیناروں میں دیر سے آنے کی روایت، پروگرام کو وقت پر شروع نہ کرنے کی عادت، سیمیناروں کی کثرت اور بہتات کو دیکھ کر اب یہ بھی محسوس ہوتا ہے مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت بھی سیمینار منعقد کرائے جائیں جیسے سمینار کی اہمیت و افادیت، اکیسویں صدی میں سیمیناروں کی ضرورت، سیمیناروں کا پست ہوتا اور گرتا معیار، سیمیناروں کے ذریعے آمدنی کے طریقوں کی تلاش، سیمینار میں شریک سامعین کے حقوق، سیمینار میں مقالہ نگاروں کو دیے جانے والے بھتے یا محنتانے میں کمی کرنے کے طریقوں کی تحقیق، سیمینار میں لنچ کی اہمیت اور ضرورت، سمیناروں میں عارضی صدور اور مہمانان خصوصی کی بڑھتی تعداد کا تدارک، سیمینار کی ناکامی پر سامعین کو دیا جانے والا تاوان وغیرہ۔
عام طور سے سیمیناروں میں مقالہ نگاروں کو یہ لالچ بھی دیا جاتا ہے کہ ’بعد میں‘ ان کا مقالہ کتابی شکل میں شائع بھی کر دیا جائے گا۔ اس لیے وہ مقالے کی، کمپیوٹر سے ٹائپ شدہ کاپی لے کر آئیں۔ ہندستان میں اردو کے نام پر ہر سال سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں سیمینار ہوتے ہیں لیکن ان کے مقالات کو کتابی شکل میں دیکھنے کا ہمیں ایک دو بار ہی موقع ملا ہے۔ باقی سب ردو کی ٹوکری میں جاتے ہیں، پرچون کی دکان پر بکتے یا پھر فائلوں کے پیٹ میں پڑے سڑتے ہیں۔
لغت میں مقالہ کے معنی قول، مقولہ، آرٹیکل، کہی ہوئی بات، کلام، کتاب کا حصہ، باب، کسی خاص موضوع پر لکھا ہوا مضمون اور تحریر کے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی درج ہے. ’اقلیدس کا ہر حصہ جس میں اقلیدس کے دعوے، ان کے ثبوت اور شکلیں درج ہوں‘ لیکن مروجہ مفہوم میں مقالہ کا مطلب اس تحریر سے لیا جاتا ہے جو کسی موضوع کی تفصیلات کا احاطہ کرتے ہوئے، بہت چھان بین کرکے لکھا جائے۔ صنفی اعتبار سے یہ لفظ عربی کا ہے، اسم ہے اور مذکر بھی۔ ہم نے آج تک اس لفظ کو میم کے زبر کے ساتھ مَقالہ ہی بولا اور لکھا دیکھا ہے لیکن بہت سے پڑھے لکھے لوگ جو اپنے آپ کو پڑھا لکھا بھی سمجھتے ہیں اور عالم بھی، وہ میم کے زیرکے ساتھ اسے مِقالہ پڑھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ اپنی خود کی رائج کردہ اصطلاح کی وجہ سے ٹھیک بھی ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ مدمقابل پر اپنا کچھ اثر ڈالنے کے لیے ایسا بولتے ہوں لیکن ہم نے اردو کی کئی لغات جیسے ’مختصر اردو لغت‘ ترقی اردو بیورو دہلی، فیروز اللغات وغیرہ کے ساتھ ’ہندی-اردو شبد کوش‘ کو بھی کھنگالا لیکن اس میں بھی یہ لفظ مَقالہ ہی لکھا پایا۔
ماہرین معاشیات و اقتصادیات جانتے ہیں کہ جب مارکیٹ میں اچھال آتا ہے تو اس کا اثر پیداوار یا پروڈکشن پر بھی پڑتا ہے یعنی جس چیز کی مانگ بڑھ جاتی ہے اس کی پیداوار میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ چونکہ آج کل مقالوں کی پیداوار اور افزائش نسل میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے اس لیے ہمارا خیال ہے کہ مختلف موضوعات کے تحت مقالے لکھوائے جانے کے لیے فلم انڈسٹری کی طرح ایک مقالہ انڈسٹری بھی کھولی جائے۔ مقالے کی مارکیٹ بڑھے گی اور مانگ زیادہ ہوگی تو یقینا اس کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا۔ ہماری رائے ہے کہ اس کے لیے ایک پوری مارکیٹ تیار کی جائے جس میں مختلف دکانوں پر، مختلف طرح کے، الگ الگ موضوعات کے، چھوٹے بڑے، اعلا و ادنیٰ، ناقص اور گھٹیا، بڑے اور چھوٹے مقالہ نگاروں کے لیے، معروف و غیر معروف قلم کاروں کے لیے ’مقالہ جات‘ تیار کرنے کا بہترین انتظام ہو۔ کم لاگت اور کم خرچ کے ’مقالہ جات‘ بھی آسانی سے دستیا ب ہو سکیں۔ جہاں یہ بھی سہولت ہو کہ جو مقالہ کسی سمینار میں پڑھ لیا گیا ہو، وہ آدھی قیمت میں فروخت ہو سکے اور جسے کوئی نااہل یا نیا مقالہ نگار سیکنڈ ہینڈ قیمت پر آسانی سے خرید سکے۔ اس طرح جب اس مارکیٹ میں اضافہ ہوگا تو تھوک بھاؤ میں بھی ’مقالہ جات‘ مل جایا کریں گے۔تھوک بھاؤ کے بیوپاری الگ ہوں گے اور خوردہ بیچنے والے لوگ الگ۔ اس سے تھوک کے بیوپاریوں کو یہ بھی فائدہ ہوگا کہ وہ پھیری والوں کے ذریعے بھی مقالے ٹوکری میں رکھوا کر گلی گلی اور محلے محلے فروخت کرایا کریں گے۔ اس سے بے روز گاری کا مسئلہ بھی کسی حد تک حل ہوگا۔ اس طرح مقالہ نگاری اور اس کی وسعت میں فروغ و اضافہ ہوگا تو ان موضوعات پر بھی سمینار منعقد ہونے لگیں گے جن کو اب تک کوئی منھ نہیں لگاتا۔
پھر امید ہے کہ مقالہ نگاروں، مقالہ بیچنے والوں، مقالہ خریدنے والوں، کرایے پر مقالہ لکھنے کی خدمات پیش کرنے والوں، مقالہ کی اپنی مرضی سے پروف ریڈنگ کرنے اور کاٹ چھانٹ کرنے والوں، ان میں حذف و اضافہ کرنے والوں، غرض مقالے سے متعلق کسی بھی طرح کے کاروبار میں ’ملوث‘ہونے والوں کو کسی نہ کسی صورت میں ضرور فائدہ ہوگا اور وہ چھوٹے شہر جن میں سامعین بہ آسانی ہاتھ نہیں لگتے اور انھیں پکڑ پکڑ کر لانا پڑتا ہے وہ کثیر تعداد میں بلا معاوضہ یا بہت کم کرایے پر آسانی سے مل جایا کریں گے۔ بے شبہ سیمیناروں میں جو اعزاز سننے والوں کو حاصل ہوتا ہے وہ اعزاز اور رتبہ تو مشاعرہ کے سامعین کو بھی حاصل نہیں کیونکہ بڑے شہروں میں سامعین کی خدمات کرایے پر حاصل کرنا ایک عام سی بات ہے، یعنی ان کو مقالہ نگار کے روبرو گوش بر آواز ہونے اور مقالہ سننے نیز تالیاں بجانے کے روپے دیے جاتے ہیں۔
اس کے صلے یا معاوضہ میں ان کو دونوں طرف کا کرایہ بھتہ، نذرانہ، سرٹیفکٹ وغیرہ سب کچھ دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حسب توفیق بلکہ حسب بجٹ ان کو لنچ یا ڈنر بھی دیا جاتا ہے۔ موسم کے لحاظ سے ان کے لیے ٹھنڈے یا گرم مشروب کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ غرضیکہ مقالہ سننے والوں کی بڑی ناز برداریاں کی جاتی ہیں۔ ان سامعین کو دی جانے والی رقم کبھی کبھی مقالہ پڑھنے والے کے ریٹ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ کرایے کے سامعین کے نام سے سیمینار بازوں کو بھڑکنا نہیں چاہیے کیونکہ ہم نے جو کچھ لکھا ہے، وہ بہ قید ہوش و حواس اور سو فی صد درست لکھا ہے۔ ویسے بھی جب خواتین کی کوکھ تک کرایے پر حاصل کی جاسکتی ہے تو سیمینار میں کرایے کے سامعین اور توصیفی تالیاں بجانے والوں کی خدمات کیوں نہیں حاصل کی جا سکتیں!
جس طرح آج کل ہر موضوع پر سیمینار کرائے جاتے ہیں اسی طرح اب چھوٹے چھوٹے اسکول اور مدرسے بھی سیمینار منعقد کرانے لگے ہیں بھلے ہی وہ اس کے معنی و مفہوم اور مقاصد سے نابلد و ناواقف ہوں۔ مدرسوں میں سمینار سے منتظمین کو بہت فائدہ ہے کیونکہ اس میں شرکت کے لیے مقالہ نگاروں کو ان کی خدمات کے صلے میں کچھ معاوضہ نہیں دینا پڑتا اور ان کی شرکت محض ’اللہ واسطے‘ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں اور بھی کئی فائدے ہیں۔ تزکیہ نفس حاصل ہوتا ہے، قلب میں صفائی پیدا ہوتی ہے، اسٹیج بنانے کا جھنجھٹ نہیں رہتا، سامعین کے لیے کرسیوں کی ضرورت نہیں ہوتی اور سب سے بڑا فائدہ یہ کہ ہر ایرا غیرا کو لنچ دینے سے بچت ہوتی ہے، مرغ مسلم یا چکن بریانی کی گرما گرم پلیٹوں کو صرف ’اپنوں‘ تک محدود رکھنے میں سہولت رہتی ہے وغیرہ۔ آج کل زیادہ پڑھے لکھے لوگوں اور اعلا ڈگریوں والوں نیز اونچی کرسیوں پر براجمان لوگوں کو سیمینار میں یہ سہولت بھی دی جاتی ہے کہ وہ سیمیناروں کی کثرت، ان میں شرکت یا مارا ماری کی وجہ سے مقالہ نہ لکھ سکے ہوں تو محض تقریر کی شکل میں اپنے ’ملفوظات‘ سے سامعین کو ضرور نوازیں تاکہ وہ جائز طور پر کیش کے حق دار ہو سکیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی یہ ملفوظات اتنے طویل ہو جاتے ہیں کہ اس قدر وقت میں کئی مقالہ نگاروں کو نمٹایا جا سکتا ہے۔
کنوینر مقالہ کے لیے بھی یہ چھوٹ ہے کہ وہ اپنا مقالہ (اگر واقعی قلم کار ہے تب) نہایت ردی کاغذ پر اور کانٹ چھانٹ کیے ہوئے رف مقالہ کی شکل میں بھی لکھ کر لائے تب بھی چلے گا بلکہ اس کے مقالہ کو تو ردی کاغذ پر ہی نہیں، خود مواد و متن کے ردی ہونے کی شکل میں بھی قبول کیا جائے گا کیونکہ وہی مقالہ نگاروں کی فوج ظفر موج کا کمانڈر ان چیف یا سپہ سالار اعظم ہے!
کسی نثر پارہ کی تخلیق کرنا یا کسی خیال کو معرض وجود میں لانا قلم کار کا ایک فطری عمل ہے اور مقالہ نگاری بھی اس ضمن میں شامل کی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے ہمارے نزدیک شرط یہ ہے کہ آپ اپنے خیالات اور فہم و فکر کو خود پیش کریں۔ خواہ مخواہ سامعین پر رعب و اثر ڈالنا اور اپنی قابلیت کا سکہ جمانا اور اس کے لیے دوسروں کی لکھی کتابوں یا مضامین سے حوالے اور کوٹیشن دینا تو چبائے ہوئے نوالوں کو دوبارہ چبانا اور اپنی صلاحیت کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ مقالہ بغیر کسی کے خیالوں کو کوٹ کیے لکھا جائے تو زیادہ اچھا ہوتا ہے بلکہ ہمارے نزدیک تو وہی مقالہ زیادہ قابل قدر ہے جس میں خود اپنا تخلیقی عمل زیادہ ہو، اپنے خیالات ہوں، اپنا نظریہ ہو، اپنی سوچ و فکر ہو۔ دوسروں کے لکھے ہوئے کو اس ضمن میں شامل کرنا کہ’لڈن خاں یہ کہتے ہیں، چھٹن خاں نے یہ فرمایا ہے، بدھن خاں کا اس بارے میں یہ خیال ہے اور چھمن خاں کے اس ذیل میں یہ ملفوظات ہیں‘۔ اس طرح کے جملوں سے گریز اور احتراز کرنا چاہیے۔
غالب کے ایک کم معروف شاگرد حکیم معشوق علی خاں جوہر تھے جو بڑے زود گو اور باکمال شاعر تھے۔شاگردوں کا ایک جم غفیر ان کے پیچھے لگا رہتا۔ کسی طرحی مشاعرے کی اطلاع ملتے ہی وہ ایک ہی زمین اور ردیف و قافیہ میں ستر اسی اشعار کہہ کر کاغذ ایک طاق میں رکھ دیا کرتے تھے۔ ایک ایک کرکے ان کے شاگرد آتے اور استاد کی اجازت سے اپنی پسند کے سات آٹھ اشعار نقل کرکے لے جاتے اور اس کاغذ پر ان شعروں کے آگے نشان لگا دیتے۔ رفتہ رفتہ کم ہوکر چند اشعار ہی نشان زد ہونے سے بچ جاتے اور وہی بچے کھچے اشعار استاد اس مشاعرے میں پڑھ ڈالتے۔ مقالہ نگاری کی ارزانی اور معیار کی پستی کا یہی حال رہا تو شاید عن قریب وہ دور آجائے گا کہ ہر طرح کے مقالے، کرایے پر مقالہ لکھنے والوں کے پاس دستیاب ہوں گے۔ آپ موضوع بتائیے اور اپنی پسند کا مقالہ چھانٹ کر لے جائیے لیکن اب چونکہ کمپیوٹر کا دور ہے اس لیے ممکن ہے آج نہیں تو کل آپ کو یہ سہولت بھی حاصل ہو جائے کہ آپ ’کی بورڈ‘ پر اپنا موضوع ٹائپ کریں اور چند منٹ میں ہی مطلوبہ ٹائپ شدہ مقالہ ڈاؤن لوڈ کرکے اس کا پرنٹ نکال لیں۔
سمینار پرستی اور مقالہ بازی کے دور میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئندہ ملک کی کئی یونی ورسٹیاں ایم.فل اور پی ایچ.ڈی کے لیے کچھ اچھوتے موضوعات پر بھی مقالے لکھوائیں گی جن کے عنوانات کچھ اس طرح ہوں گے. سیمینار کرانے کے مقاصد، ان کی اہمیت و افادیت، سیمینار کے موضوعات، سیمیناروں سے آمدنی کے طریقے، مقالہ نگاروں کی درجہ بندی، سامعین کو راغب اور مرعوب و مرغوب کرنے کے طریقے، مقالوں کی فراہمی کے ذرائع، کرایے پر مقالہ لکھنے والوں کے ریٹ، سرکاری اور غیر سرکاری مقالوں میں فرق، سیمینار کرانے کا سب اچھا وقت یا سیزن، کرایے کے سامعین کی اہمیت اور ان کے حقوق، مقالہ کو مختصر کرنے کا فن، اچھے اور برے مقالے میں امتیاز کرنے کے طریقے، مقالہ لکھنے کے لیے اکسانے کی تراکیب، دوسروں کے لکھے مقالوں کو سرقہ کرنے کے طریقے، نقالوں اور مقالہ نگاروں میں فرق، مقالہ لکھے بغیر پی.ایچ.ڈی حاصل کرنے کے طریقے، مقالہ کا سرقہ پکڑے جانے کی صورت میں بچاؤ کی تراکیب وغیرہ۔
سیمینار کرانے والوں کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ اردو بھی جانتے ہوں کیونکہ آج کل بہت سے لوگ جو اردو سے نابلد اور ناواقف ہیں وہ اردو کی کرسیوں بلکہ اردو اکادمیوں کے اعلا عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ آکاش وانی کے بہت سے سینٹر جو اردو کے پروگرام نشر کرتے ہیں ان کے انچارج، اردو نہیں جانتے۔ اسی طرح سیمینار کے مہمان خصوصی یا صدر کے لیے بھی یہ ضروری نہیں کہ وہ اردو سے واقف ہو۔ جہاں اردو کی خدمت کے بہت سے طریقے رائج ہیں، وہاں یہ بھی سہی!
سیمینار کے منتظمین چونکہ اپنی پسند کے یا اپنے گروپ کے مقالہ نگاروں کو ہی مدعو کرتے ہیں، اس لیے ادیبوں کے استحصال کی ایک یہ نئی روش بھی قائم ہوتی جا رہی ہے. حالانکہ ادب میں استحصال کی روایت نئی نہیں بلکہ بہت پرانی ہے۔ البتہ استحصال کی مروجہ نئی رسم سیمینار کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ چونکہ سیمیناروں میں مقالہ نگاروں کی تعداد کبھی کبھی تو سامعین سے بھی زیادہ ہونے لگی ہے، اس لیے اب اس کا حل بھی تلاش کر لیا گیا ہے۔ مقالہ نگاروں سے کہا جاتا ہے کہ وہ مقالوں کے بجائے اس کا خلاصہ پیش کر دیں۔اس لیے اس بد اخلاقی کی وجہ سے اب کئی مقالہ نگار، مقالہ کی جگہ اس کا خلاصہ ہی لکھ کر لانے لگے ہیں لیکن مضحکہ خیز صورت حال تب سامنے آتی ہے جب کئی مقالہ نگار سیمینار کے موضوع سے ہٹ کر اپنی کارکردگیوں، اپنی ادبی خدمات، اپنی کتابوں کی تعریف اور ادھر ادھر کی باتوں میں کئی مقالوں کے پڑھے جانے کا وقت لے لیتے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ کچھ سینئر مقالہ نگار اپنے ساتھ، اپنے کسی شاگرد کو بھی لے کر آتے ہیں، جو اسٹیج پر آکر ان کی مدح سرائی کرتا ہے اور سامعین کو اپنے استاد گرامی سے مرعوب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مقالہ نگاروں میں سبھی دودھ کے دھلے نہیں ہوتے۔ اس لیے کچھ لوگ محنت، ذوق و شوق اور بڑی کدوکاوش کے بعد کئی کئی راتوں کو جاگ کر مقالہ تیار کرتے ہیں۔ اگر میر و غالب کے زمانے میں بھی سیمیناروں کا یہی حال اور مقالہ نگاروں کی یہی درگت ہوتی تو شاید ہماری شاعری کا مزاج بھی کچھ ضرور تبدیل ہوتا۔
ہندستان کے کچھ صوبوں میں یہ روایت ہے کہ شادی کے موقعے پر دولہا کے ساتھ کسی ایک بچے کو بھی ختنہ، بسم اللہ، عقیقہ یا اسی طرح کی کسی رسم کی ادائیگی کے لیے دولہا بنایا جاتا ہے۔ اس لیے ایک کے ساتھ ایک دولہا فری نظر آتا ہے۔ اسی طرح سیمیناروں میں اب یہ روایت بھی پنپ رہی ہے کہ کسی نہ کسی ادیب یا شاعر کی یا خود منتظم کی کسی کتاب کا اجرا بھی لگے ہاتھوں کرا لیا جاتا ہے۔ اس کے فائدے آپ بہ خوبی جانتے ہیں، اس لیے اس کی تفصیل بتانے کی شاید ضرورت نہیں۔ ویسے خوش آیند بات یہ ہے کہ کتابوں کا اجرا بھی اب ایک نئی صنعت بن کر ابھر رہا ہے۔ کسی محفل اجرا میں تو اتنی کتابیں فروخت ہو جاتی ہیں جتنا کتاب کو شائع کرانے کا خرچ بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے بہت سے غریب ادیب و شاعر ایسے سنہری مواقع پر آہیں بھرتے، گریہ و زاری کرتے اور حسرت آیات پڑھتے نظر آتے ہیں کہ کاش ہم بھی کوئی کتاب شائع کرا لیتے!
ایسی صورت حال میں بہت سے لوگ صرف اجرا کے لیے ہی کتابیں شائع کرانے لگے ہیں۔ ان کا مقصد ادب میں اپنی کوئی پہچان بنانا یا اپنی تحریروں سے دوسروں کو مستفید کرنا نہیں ہوتا۔ رسم اجرا کی کئی تقاریب میں تو ہم نے کتابوں کی باقاعدہ بولی بھی لگتے دیکھی ہے۔سب سے بڑی بولی کئی ہزار روپے سے شروع ہوتی ہے۔پانچ ہزار کی کتاب خریدنے والوں کو قلم کار کے دست مبارک یا دست حنائی سے کتاب عنایت کی جاتی ہے۔ اس پر دستخط کیے جاتے ہیں اور باقاعدہ اعلان ہوتا ہے کہ فلاں صاحب نے یہ کتاب اتنے روپے کی خریدی۔ اس کے بعد اس سے کم یعنی تین ہزار، دو ہزار، ایک ہزار یا اس سے کم قیمت والوں کے نام بھی پکارے جاتے ہیں۔ ایسے موقعے پر تقریب میں بڑی بد نظمی اور افراتفری کا عالم ہو جاتا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ کچھ قلم کار اپنے کچھ دلال بھی ایسی تقاریب میں بٹھا دیتے ہیں جو ایک بھاری رقم سے کتاب کی بولی کا آغاز کرتے ہیں تاکہ ان کی دیکھا دیکھی لوگ اچھے داموں پر کتاب خرید سکیں۔ دلالوں کا کمیشن تقریب کے فوراً بعد ہی ایڈوانس میں دی گئی رقم کو منہا کرکے ادا کر دیا جاتا ہے۔
بہرحال ادب کی ایسی بے ادبی، ادبی اقدار کی ایسی پامالی، ادب کی شان دار روایات کی ایسی بد حالی اور بے حسی پر اگر ہمیں احساس بھی نہ ہو تو تف ہے ہمارے ادیب ہونے اور ادیب کہلائے جانے پر! سماجی رویوں اور قدروں کی ڈور تو قلم کاروں کے ہی ہاتھ میں ہوتی ہے اس لیے اس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
مختصر یہ کہ آج کے دور میں مقالہ نگاری یا ادب کے گرتے معیار کا شکوہ کرنا بے جا اور فضول سی بات ہے کیونکہ ہم اور کس چیز میں معیار برقرار رکھ رہے ہیں؟علم و ادب اور تعلیم کا معیار، بڑوں کی قدر اور چھوٹوں کے لحاظ کا معیار، کھانے پینے اور چال چلن میں اعتدال کا معیار، شادی بیاہ اور رسم و رواج کا معیار، تہذیب و ثقافت اور اقدار کا معیار، اخلاق و عادات اور اچھے افکار کا معیار، عصمت و عفت اور پردے کے اہتمام کا معیار، دین و مذہب اور اسلامی شعار کو اپنانے کا معیار!
ہم نے ان سب میں کس چیز کا معیار برقرار رکھا ہے!

Dr. Mohd. Athar Masood Khan
Ghaus Manzil, Talab Mulla Iram
Rampur 244901 U.P.
Mob:9719316703
***
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش : تعلیم نسواں کے ایک سچے حامی: علامہ راشدالخیری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے