تعلیمی بیداری اور سرسید احمد خان

تعلیمی بیداری اور سرسید احمد خان

 ابوالکلام انصاری
اسسٹنٹ ٹیچر، فیض احمد فیض اردو ہائی اسکول
ہگلی، مغربی بنگال

سرسید احمد خان کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 کو دہلی میں مغل بادشاہ اکبر شاہ ثانی کے دورِ حکومت میں ہوئی تھی۔ ان کے والد محمد متقی اور والدہ عزیز النساء تھی۔ ان کے آبا و اجداد مغل حکمرانی میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے تھے۔
ان کی ابتدائی تعلیم کا آغاز ان کے والد کے روحانی صلاح کار غلام علی کے یہاں سے شروع ہوئی۔ انھیں عربی اور فارسی پر عبور حاصل تھا۔ انھوں نے قرآن کی تعلیم میں مہارت حاصل کی۔ اس کے علاوہ علم الحساب، الجبرا، علم نجوم، علم طب میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ وہ تیراکی، نشانے بازی اور دیگر کھیل کود میں بھی دل چسپی رکھتے تھے اور مغل دربار کے ثقافتی پروگرام میں حصّہ بھی لیا کرتے تھے۔
وہ پیشے سے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ایک سرکاری ملازم تھے۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز دہلی میں مقیم صدر امین کے دفتر کے Criminal Department میں Serestadar یعنی کلرک کے حیثیت سے کیا اور دھیرے دھیرے ترقی کرتے ہوئے جج کے عہدے تک پہنچ گئے اور ہندستان کے کئی شہروں میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ وہ 1876 میں اپنی ملازمت سے سبک دوش ہو کر علی گڑھ میں مقیم ہو گئے۔
ان کی ابتدائی زندگی کا زمانہ مغل عہد کے زوال اور انگریزی حکومت کے عروج کا زمانہ تھا۔ چونکہ مغل حکومت مسلمانوں کی حکومت تھی اور انگریزی حکومت، عیسائیوں کی حکومت تو اس طرح اس دور میں مسلمان ہر لحاظ سے پس ماندگی کا شکار ہوتے چلے جا رہے تھے اور ہر محاذ پر ان کو جانی و مالی نقصان اور عزت و آبرو پر خطرات کا سامنا تھا۔ 1857 کی جد و جہد آزادی کے بعد مکمل طور پہ مغل حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور انگریزی حکومت کا مکمل طور پر ہندستان کی سیاست پر غلبہ حاصل ہوگیا۔ یہ واقعہ سر سید احمد خان کی زندگی کا Turning Point تھا۔ انگریز بغاوت کے اصل ذمے دار مسلمانوں کو سمجھ کر ان کو ہر طرح سے ستا رہے تھے۔ ہزاروں مسلمان عالموں کا قتل عام کرتے جا رہے تھے۔ ایسے پر خطر دور میں سرسید احمد خان مسلمانوں کی عزّت و آبرو، جان و مال اور وقار کی سلامتی و تحفظ کے لیے پر عزم ہوئے اور اپنے عزم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے بہت سارے اقدامات کیے۔ انھی وجہوں سے ان کو Father of Muslim Modernization in India اور Father of Indian Muslim Nationalism جیسے القاب سے یاد کیا جا تا ہے۔
سرسید احمد خان کی خدمات پر نظر ڈالنے سے پہلے ان کے چند اقوال کو ملاحظہ فرمائیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ:
۱) ہمارے دائیں ہاتھ میں قرآن اور بائیں ہاتھ میں سائنس ہوگا اور سر پر کلمہ لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ کا تاج ہوگا۔
۲) چاند کے بغیر رات بےکار ہے اور علم کے بغیر ذہن۔
۳) Ignorance is the mother of poverty
مندرجہ بالا ان اقوال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم ان کی خدمات کا اندازہ بہ خوبی لگا سکتے ہیں۔ ان کی نوعمری کے دور میں ہی 1835 میں لارڈ ولیم بینٹک (Father of Modern Education in India) نے ہندستان میں انگریزی و مغربی تعلیم کا آغاز کیا تھا اور فارسی کی جگہ انگریزی کو دفتری زبان کا درجہ دیا تھا۔ 1835 میں لارڈ ولیم بینٹک نے کلکتہ میڈیکل کالج کا قیام کیا تھا۔ 1854 میں لارڈ ڈلہوزی کے عہد میں انگریزی و مغربی تعلیم کے فروغ کے لیے Wood’s Despatch (Magna Carta of Indian Education) نامی سفارشات پیش کی گئیں۔ انھی سفارشات کی بنیاد پر لارڈ کینیگ کے عہد میں ہندستان کے تین بڑے شہروں کلکتہ، بمبئی اور مدراس میں 1857 میں یونی ورسٹیاں (ہندستان کی اول ترین یونی ورسٹیاں) قائم کی گئیں اور اس کے ذریعہ انگریزی اور مغربی تعلیم کے تحقیقاتی کام کو مزید تقویت بخشی گئی تھی۔
ان حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سر سید احمد خان نے مسلمانوں کی فلاح و بہبودی کے لیے اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی و مغربی تعلیم پر یکساں توجہ دینے کے لیے لوگوں کے اندر تعلیمی بیداری لانے کا کام شروع کیا۔ وہ اپنی تحریر اور تحریک دونوں کے ذریعہ مسلم قوم کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے پوری زندگی کوشش کرتے رہے۔
٭ انھوں نے مسلم حکمرانوں کے اثاثہ و خدمات کے تحفظ کو مدِنظر رکھتے ہوئے تاریخ کے موضوع پر ”آثار الصنادید“ نامی کتاب لکھی جو اتنی مقبول ہوئی کہ اسے Royal Asiatic Society of Great Britain and Ireland میں عزّت بخشی گئی۔
٭ انھوں نے ”تہذیب الاخلاق“ اور علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ“ نامی میگزین کے ذریعہ مسلمانوں کے اندر تعلیمی بیداری لانے کی کوششیں کیں۔
٭ جدید طرز پر انھوں نے ”تفسیرالقرآن“ اور سیرت النبی ﷺ“ پر بھی کتابیں لکھیں۔ ان تصنیفات کی وجہ سے ان کو کفر کے فتوے کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اکبر الہ آبادی اور چند Orthodox Muslim Organisations کے ذریعہ ان کو زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ وہیں ان کو خواجہ الطاف حسین حالی جیسی شخصیات کی حمایت بھی ملی۔ مخالفت کی پرواہ کیے بغیر وہ اپنے مشن پر ہمت اور استقلال  سے جمے رہے اور آگے کی طرف قدم بڑھاتے چلے گئے۔ ان کی ثابت قدمی کو دیکھتے ہوئے اکبر الہ آبادی جیسے ناقدین کو کہنا پڑا کہ ہم تو صرف باتیں کرتے تھے اور سید کام کرتا تھا۔
٭ 1863 میں انھوں نے سائنسی علوم کی پذیرائی کے لیے علی گڑھ میں Scientic Society کا قیام کیا۔
٭ 1867 میں انھوں نے انگریزی حکومت کے ذریعہ United Provinces and Bihar کے لیے Perso-Arabic کی جگہ Devanagri-Hindi کو دوسری دفتری زبان بنانے کے فرمان پر زبردست مخالفت کی۔
٭ 1875 میں علی گڑھ تحریک کے ذریعہ علی گڑھ میں Mohammadan Anglo Oriental College کوقائم کیا جس کو 1920 میں Aligarh Muslim University کا درجہ دیا گیا۔ یہاں انھوں نے اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی و مغربی تعلیم کی حصولیابی کا باضابطہ انتظام کیا تھا۔
٭ 1878 میں ان کو انگریزی حکومت کا حمایتی ہونے کی وجہ سے Imperial Legislative Council کا ممبر منتخب کیا گیا۔
٭ 1885 میں Indian National Congress کے قیام سے قبل تک وہ ہندو مسلم اتحاد کے علم بردار تھے اور انھوں نے کہا تھا کہ۔
"Hindu and Muslim form one nation in India. They are two eyes of India, injure one and injure other”
اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں دو طرح کے شعبوں کا انتظام کیے تھے۔ سنسکرت اور ہندو قوانین کے ساتھ انگریزی زبان اور مغربی تعلیم کا ایک شعبہ اور عربی و فارسی زبان اور اسلامی قوانین کے ساتھ انگریزی زبان اور مغربی تعلیم کا دوسرا شعبہ۔
لیکن وہ کانگریس کے اغراض و مقاصد اور حرکات و سکنات سے متفق نہیں تھے اور اس کو مسلمانوں کے مفادات میں نقصان دہ گردانتے ہوئے انھوں نے Two Nation Theory پیش کیا اور یکسو ہوکر مسلمانوں کے مفادات کے لیے کام کرنے کی ٹھانی۔ اس طرح ان کو Father of Two Nation Theory بھی کہا جانے لگا۔ وہ کانگریس کے ساتھ ساتھ دادا بھا ئی نوروجی کے Economic Drain Theory کے بھی مخالف تھے۔
٭ 1888 میں انھوں نے کانگریس کی مخالفت اور اینگلو۔مسلم رشتے کو تقویت بخشنے کی غرض سے United India Patriotic Association نامی تنظیم قائم کی۔
٭ 1888 میں ہی ان کو انگریزی حکومت کی جانب سے ”سر“ (Knighthood) کا خطاب ملا۔
٭ 1893 میں انھوں نے Mohammadan Anglo Oriental Defenence Association of Upper India کا قیام کیا جس کی رکنیت صرف مسلمانوں اور انگریزوں کو ہی ملتی تھی۔
٭ 1895 میں انھوں نے Mohammadan Educational Congress/ Mohammadan Anglo Oriental Educational Conference قائم کیا تھا۔
بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس عظیم ہستی کا انتقال 1898 میں ہوا اور وہ اس دار فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔ ان کی موت ہندستانیوں کے لیے ایک بہت بڑا خسارہ تھا۔ ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے علامہ اقبال لکھتے ہیں کہ:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
٭ 2020 میں ہمارے ملک کے موجودہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی صاحب نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے صد سالہ تقریب کے موقع پر ہندستانی حکومت کی جانب سے ایک Postage Stamp جاری کیا اور سرسید احمد خان کو خراج عقیدت پیش کیا۔
سرسید احمد خاں کی پوری زندگی کا اگر ہم جائزہ لیں تو ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ انھوں نے تعلیم کے حصول پر پوری توجہ دی تھی۔ حصول علم کو اسلام میں بہت خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ قرآن کی پہلی وحی کا نزول بھی لفظ اقراء سے ہوا ہے جس کا معنی ہوتا ہے  ”پڑھو“۔ علم کو مومن کی  گم شدہ میراث بتایا گیا ہے۔ علم نافع کے حصول اور علم میں اضافہ کی دعا قرآن و حدیث کے ذریعہ مسلمانوں کو سکھائی گئی ہے۔ جہاں علم ہوتا ہے وہاں دولت اور شہرت بھی ہوتی ہے۔ اس ضمن میں حضرت سلیمان  کا واقعہ مشہور ہے کہ اللہ کی طرف سے ان کو دولت، شہرت اور علم میں سے کسی ایک کو چننے کا اختیار دیا گیا تو انھوں نے علم کو چن کر علم، دولت اور شہرت کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا تھا۔ انھی وجوہات کی بنا پر سر سید احمد خان مسلمانوں کے اندر تعلیمی بیداری لانا چاہتے تھے۔
آج کے دور میں بھی سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلم قوم Education and Employment کے میدان میں دوسری قوموں سے بہت پیچھے ہے۔ اگر اپنی حالات میں بہتری لانی ہے، پس ماندگی سے باہر نکلنا ہے تو تعلیم کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھام کر ملک و ملت کی خدمت انجام دینی ہوگی۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :فضائے سر سید کے تخلیقی و تحقیقی رنگ و آہنگ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے