فضائے سر سید کے تخلیقی و تحقیقی رنگ و آہنگ

فضائے سر سید کے تخلیقی و تحقیقی رنگ و آہنگ

غضفر

ہر شب، شبِ شیراز اور ہر شام، شامِ مصر والی سر زمین اس دور اندیش، مخلص اور خرد مند انسان کے خوابوں کی زمین ہے جس کی تعبیروں کے اَبر ایسے اُٹھے اور اس طرح برسے کہ ساری دنیا سیراب ہوگئی، ریگ زاروں میں پھول کھل اُٹھے، بنجر زمینوں کے دہانے نرم پڑگئے۔ ویرانے سر سبز و شاداب ہوگئے۔ سنسان اور خاموش خطّے چہک مہک اُٹھے۔
جس بندۂ بے لوث کے خوابوں کے یہ تعبیری رنگ و آہنگ ہم چاروں طرف دیکھ اور سن رہے ہیں، یہ خواب اس نے اپنے لیے نہیں دیکھے۔ اس کے لیے تو حکمرانِ وقت خواب دیکھ رہے تھے اور ان کے اس خوابِ خوش نما خوش باش میں اس کے لیے انگلستان جیسے خطۂ خوش رنگ میں کوئی خواب پرور عمارت تعمیر کی جارہی تھی تاکہ وہ اپنے خواب اور اپنے مشن سے غافل ہوجائے۔
یہ خواب تو اس نے ان کے لیے دیکھے جن کی آنکھیں بند تھیں۔ جن کے دل علم و آگہی سے کوسوں دور تھے۔ جن کے ذہن جہالت اور دقیانوسیت کی آہنی زنجیر وں میں جکڑے ہوئے تھے۔ جو افلاس و تنگ دستی کی اذیت ناک زندگی گزار رہے تھے۔ اس نے اپنے عیش و عشرت کو تج کر خواب اس لیے دیکھے کہ اس کی قوم مصائب و آلام کے کرب ناک ماحول سے نکل کر عیش و آرام کی زندگی بسر کرسکے۔ خوش باش بن سکے۔
نیک نیّت، بے ریا دل، پُر خلوص دل و دماغ اور نم ناک آنکھوں سے دیکھا گیا خواب تعبیروں سے ایسا ہمکنار ہوا کہ بڑے بڑے ملکوں اور بادشاہوں کے خواب بھی شرما گئے۔ سرسیدی زمین کی پُرتاثیر مٹّی نے ایسا کرشمہ دکھایا کہ یہاں کے دل اور دماغ دونوں اپنی زرخیزیوں کے خزانے کھولنے لگے۔ قلب و نظر کی ایسی تربیت ہوئی کہ ذہن سے شعور و ادراک اور دل سے احساسات و جذبات کے حیران کن مناظر رو نما ہونے لگے۔ اختراعات و ایجادات، ادبیات و شعریات، اخلاقیات و عمرانیات اور طبیعات و ما بعدالطبیعات، کے فرحت بخش، روح پرور اور ذہن ساز مناظر سامنے آنے لگے۔ امن و امان، صبر و سکون اور لطف و انبساط کی جاں فزا ہوائیں چلنے لگیں۔ رگ و ریشے میں کیف و نشاط کی خوشبوئیں بسنے لگیں۔
سرسید کے خواب کا یہ رنگ کڑی دھوپ میں بھی دمکتا رہا۔ زمانے کی گرم آندھیاں بھی اسے جھلسا نہ سکیں۔ وقت کی مار اور موسم کے تھپیڑوں سے بھی یہ مدھم نہ ہوسکا۔ اس لیے کہ اس رنگ میں خواب دیکھنے والے کا خونِ جگر بھی شامل تھا۔ اسی لیے انقلابِ زمانہ کے ساتھ یہ تو سنا گیا کہ ہمارے دور کا اے ایم یو بہت اچھا تھا مگر یہ کبھی سننے میں نہیں آیا کہ فلاں زمانے کا علی گڑھ بُرا تھا۔ اس زمین کی فضاؤں میں کچھ ایسی فرحت بخش ہوائیں ہر عہد میں گھلی ملی رہیں کہ ہر دور میں اس کا امیج صاف ستھرا اور پُرکشش بنا رہا۔ بگاڑ کے باوجود کچھ نہ کچھ بناؤ اس میں باقی رہا۔ دراصل سر سید کی دور اندیشیوں نے اس زمین کے دامن میں ایسی فضا بنائی اور درس گاہ سے اقامت گاہ تک کے در و دیوار میں ایسا سُر پھونکا کہ ملازم سے مسجّل اور متعلّم سے معلّم تک سبھی ایسے تربیت یافتہ ہوئے کہ کتاب علم کا سنا ہوا ایک ایک سبق باب علم کے چپّے چپّے میں دکھائی بھی دینے لگا۔ ہاسٹل کے بیرے اور شعبوں کے چپراسی اپنے مخصوص کرداروں کے علاوہ ایک شفیق باپ، ایک خلیق بھائی اور ایک سچّے رفیقِ کا ر کا بھی رول ادا کرنے لگے۔ والدین کے منی آڈروں کے گیپ کو وہ اپنی تنخواہوں سے بھرنے لگے۔ بیماری کے دنوں میں علیل طلبہ کے لیے پرہیزی کھانوں کے ناشتے دان وہ اپنے گھروں سے لانے لگے۔ ضرورت پڑنے پر طالب علموں کو اپنا خون بھی دینے لگے۔
اساتذہ کے کردار بھی دوہرے ہوگئے۔ تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ وہ طلبہ کی خبر گیری اور دست گیری بھی فرمانے لگے۔ وہ طلبہ کی ناگفتہ بہ حالات کو تاڑ کر نہایت خوش اُسلوبی سے ان کی حاجت روائی کرنے لگے۔ مثلاً کسی کو کوئی وظیفہ نہیں ملا تو صدرِ شعبہ نے اس کی کفالت کے لیے اسے کوئی کتاب سونپ دی کہ وہ اس کی فرہنگ تیار کردے اور دوچارسو روپے ماہانہ معاوضہ طے کردیا اور بنا پروگریس دیکھے ہر ماہ مقررہ وقت پر لفافہ پکڑاتے رہے۔ کسی پرووسٹ نے کسی طالب علم کو کسی ڈائنگ ہال میں منشی کا معاون بنادیا۔ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے کبھی کسی کو مریضوں کا پرچہ بنانے پر مامور کردیا تو کبھی ایگزامینیشن کنٹرولر نے کچھ طلبہ کو داخلہ فارموں کی جانچ پڑتال کے کام پر لگادیے، کبھی یونی ورسٹی پراکٹر نے کسی کو سائیکل اسٹینڈ الاٹ کردیا تو کسی کو ہال کینٹین کے کنٹریکٹر کے ساتھ لگادیا۔ بعض اساتذہ تو ضرورت مند طلبہ کی ضرورتیں اس طرح پوری کرتے جیسے قصّے کہانیوں میں جن یا پری زاد کیا کرتے تھے کہ طلبہ نے کمرے [میں] پہنچ کر جیب میں ہاتھ ڈالا تو روپوں کا کوئی لفافہ موجود یا کسی کتاب یا کاپی کے اوراق اُلٹے تو کسی صفحے سے کوئی نوٹ برآمد۔
انتظامی عہدوں کو قبول کرنے کا واحد مقصد یہ ہوتا کہ تعلیمی راستے میں طلبہ کو کوئی دشواری پیش نہ آسکے۔ وہ کھانے پینے اور رہن سہن کے مسائل و معاملات کی طرف سے بے فکر ہوکر سکون و اطمینان کے ساتھ اپنی توجہ لکھنے پڑھنے پر مرکوز کرسکیں۔پرووسٹ اور وارڈن کی صبح و شام یہ کوشش ہوتی کہ طلبہ کو اچھی رہائش اور اچھی غذا مل سکے اور پراکٹر کی اور اس کی پراکٹوریل ٹیم کی یہ سعی ہوتی کہ وہ ہر طرح اور ہر طرف سے محفوظ اور پُرسکون رہ سکیں۔
ذہنِ سید نے اس فضا میں ادراک و آگہی کے ایسے ایسے رنگ گھول دیے کہ ذہانت و فطانت اور تخلیقیت کی دھنک چاروں طرف تنتی چلی گئی۔ ان رنگوں میں ایک انٹروڈکشن کا رنگ بھی تھا۔ اس رنگ میں ایسا جادو تھا کہ سرچڑھ کر جب بولتا تھا تو دل و دماغ پر سوار تکبر اور احساسِ برتری کے بڑے بڑے بھوت بھی بھاگ کھڑے ہوتے تھے اور احساسِ کم تری کے پنجرے میں بند سہما ہوا طوطا بھی بولنے لگتا تھا۔ اس رنگ نے وہ رنگ دکھایا کہ دلوں سے دبّو پن دور ہوگیا اور دماغوں سے اکڑفوں نکل گئی۔ اس نے وہ بین بجائی کہ کینچلی میں کسا سانپ بھی لہرا اُٹھا اور پھن پھیلا کر پھنکار مارنے والا ناگ بھی اس کی دھن پر لہرانے لگا۔ انٹروڈکشن ایک ایسا آرٹ ہوتا تھا کہ جس سے بند دماغ، تنگ دل، بندھے ہوئے ہاتھ، پابند پاؤں، خاموش لب سب کھل جاتے تھے اور ضرورت سے زیادہ کھلے ہوئے اعضا کس کسا کر متوازن ہوجاتے تھے۔ چند ہفتوں تک چلنے والے انٹروڈکشن کا سلسلہ جونیئر کو سینئر سے اور سینئر کو جونیئر سے اتنا قریب کردیتا کہ سینئر کا احترام جونیئر کا فرض بن جاتا اور جونیئر کی خبر گیری سینئر کی ذمہ داری ہوجاتی۔ یہ وہ آئینہ تھا جس میں نو واردوں کے سیاہ اور سفید دونوں عکس اُبھر آتے۔ یہ آئینہ سیاہ اور سفید رنگوں کو صرف دکھاتا ہی نہیں تھا بلکہ ایک کی سیاہی کو مٹا اور دوسرے کی سفیدی کو چمکا بھی دیا کرتا تھا مگر افسوس کہ اس رنگ میں کہیں سے کچھ کر کری پڑگئی اور یہ بھی ریگنگ جیسا ہوگیا۔
ایک تاب دار رنگ اسٹوڈینٹ یونین کی سرگرمیوں میں بھی نظر آتا تھا۔ سرسید کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ طلبہ کلاس روم میں اچھی طرح نہیں کھل پاتے۔ استاد کی برتری کا دباؤ ، اخلاقی ضابطوں کی پاس داری اور کلاس روم میں پنپنے والی طلبہ کی نفسیات اور اس نفسیات سے پیدا ہونے والی انکساری طلبہ کے دل و دماغ میں بیڑیاں بھی ڈال دیتی ہیں۔ اسی لیے اس مردِ مدبر نے اپنے تدبّر سے ایک ایسی تدبیر نکال لی تھی جس سے بیڑیاں کھل جاتی تھیں اور دل و دماغ اسپِ بے لگام کی طرح بے روک ٹوک دوڑنے لگتے تھے۔ اس کی دور اندیش نظروں نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ ایوانوں میں گونجنے اور کاخِ درودیوار کو ہلادینے والی آوازوں کی مشق کہاں اور کب ہوتی ہے؟ اسی لیے اس سرزمین نے یونین کے نام سے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کردیا جہاں طلبہ بغیر کسی دباؤ کے اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کر سکیں۔ آزادی اور خود مختاری کے احساس کے ساتھ بے باکانہ انداز سے اپنی بات کہہ سکیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پہنچ کر ہکلاہٹ دور ہوجاتی ہے۔ زبان سے لکنت جھڑ جاتی ہے اور منہ سے پھول جھڑ نے لگتے ہیں۔ لبوں سے پتھر برسنے لگتے ہیں۔ یہ خطابت کا وہ گُربخشتی ہے جس سے سیاست کی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں اور جس کی ضرب سے ایوانوں کے آہنی دروازے بھی وا ہوجاتے ہیں۔ یہ وہی پلیٹ فارم ہے جہاں سے کالی شیروانیاں جب نکلتی ہیں تو دَلوں کے دِل دہل جاتے ہیں اور جب یہ اپنے سرخ ہونٹ کھولتی ہیں تو بادل گرجنے لگتے ہیں اور اس لسانی گھن گرج کا اثر یہ ہوتا ہے کہ کتنے ہی دَلوں اور دِلوں پر بجلیاں گر پڑتی ہیں۔ درس گاہِ سرسید کے ایک گوشے میں واقع یہ مقام وہ مقام ہے جہاں قدم رکھتے ہی طلبہ ان بلند مقاموں تک پہنچ جاتے ہیں جہاں کامرانیاں قدم چومنے لگتی ہیں اورطالب علمانہ ہاتھوں سے حکمرانیاں ہونے لگتی ہیں۔
اس سر سیدی فضا کا ایک رنگ ان ہال فنکشنوں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے جو سال کے آخر میں منعقد کیے جاتے ہیں۔ یہ رنگ، صورت، سُر، لفظ، معنی، اسٹیج، کینوس ہر روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس رنگ سے کلاس روم، ڈائننگ ہال، محفل، مجلس ہر جگہ دَھنک تننے لگتی ہے۔ یہ رنگ طلبہ کو ایسا شرابور کرتا ہے کہ ان کی شخصیت سے ادب و فن کی شعاعیں پھوٹنے لگتی ہیں۔ یہ اسی رنگ کا کمال ہے کہ اس خاک کے ذرّے چاند، سورج اور ستارے بن کر آسمانِ ادب و فن پر چھاگئے. یہی وہ رنگ ہے جس نے جاں نثار اختر سے گرلز کالج کی لاری لکھوائی اور کالج کی لڑکیوں کو سوار کرانے والی وہ شعری لاری ایک ایک کے ذہن و دل پر سوار ہوگئی اور ہر زبان پر یہ بول مچلنے لگے۔
لچکتی ہوئی سی چھلکتی ہوئی سی
بہکتی ہوئی سی مہکتی ہوئی سی
وہ سڑکوں پہ پھولوں کی دھاری سی بنتی
اِدھر سے اُدھر وہ حسینوں کو چنتی
جھلکتے وہ شیشوں میں شاداب چہرے
وہ کلیاں سی کھلتی ہوئی منہ اندھیرے
وہ ماتھے پہ ساری کے رنگیں کنارے
سحر سے نکلتے شفق کے اشارے
کسی کی ادا سے عیاں خوش مذاقی
کسی کی نگاہوں میں کچھ نیند باقی
کسی کی نظر میں محبت کے دوہے
سکھی رے یہ جیون پیا بن نہ سوہے
یہ کھڑکی کا رنگین شیشہ گرانے
وہ شیشے سے رنگین چہرہ ملانے
یہ چلتی زمیں یہ نگاہیں جماتی
وہ ہونٹوں میں اپنے قلم کو دباتی
یہ کھڑکی سے اک ہاتھ باہر نکالے
وہ زانوں پہ گرتی کتابیں سنبھالے
کسی کی وہ ہر بار تیوری چڑھتی
دوکانوں کے تختے ادھورے سے پڑھتی
وہ لاری میں گونجے ہوئے زمزمے سے
وہی مسکراہٹ سبک قہقہے سے
اور مجاز لکھنوی سے ”آوارہ“ تخلیق کرائی جسے سن کر ایک ایک دل سے یہ آواز نکلنے لگی:
رات ہنس ہنس کر یہ کہتی ہے کہ میخانے میں چل
یا کسی شہنازِ لالہ رخ کے شانے میں چل
یہ نہیں ممکن تو پھر اے دوست ویرانے میں چل
اے غمِ ’دل کیا کروں‘ اے وحشتِ دل کیا کروں
جس نے جذبی سے یہ کہلوایا:
اے موجِ بلا کچھ ان کو بھی دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کانظارہ کرتے ہیں
اور خلیل الرحمن اعظمی کے لبوں سے خودی والا یہ آہنگ اچھالا:
لوگ ہم جیسے تھے اور ہم سے خدا بن کے ملے
ہم وہ کافر ہیں کہ جن سے کوئی سجدہ نہ ہوا
جس نے شہر یار کے سینے سے یہ آواز نکالی:
سینے میں جلن، آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
اور بشیر بدر کی زبان سے یہ بیان کرایا:
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے
اس رنگ نے جہاں ایک طرف شعر و سخن کی شعائیں بکھیریں وہیں دوسری جانب افسانوی قمقمے بھی روشن کیے۔ خواجہ احمد عباس کی کہانی ”ابابیلیں“، عصمت چغتائی کی ”چوتھی کا جوڑا“، مجنوں گورکھ پوری کی”سمن پوش“ اور قاضی عبدالستار کی ”پیتل کا گھنٹہ“ وہ ادبی قمقمے ہیں جن کی لو پہلے بھی روشن تھی، آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔
یہ رنگ ادیبوں کی منظم تحریروں میں ہی نظر نہیں آتا بلکہ جابجا بے ربط شکلوں میں بھی جھانکا کرتا ہے، مثلاً ٹوپی شکلا اور آدھا گاؤں والے راہی معصوم رضا جو لنگڑا کر چلتے تھے۔ ایک محفل میں اپنی ایک مشہور نظم سنارہے تھے، جب وہ اس شعر پر پہنچے:
جن سے ہم چھوٹ گئے اب وہ جہاں کیسے ہیں
شہرِ دل میں مرے پیروں کے نشاں کیسے ہیں
تو ایک لڑکی جھٹ سے بول پڑی:
”سر! ٹیڑھے میڑھے۔“
لڑکی کے اس برجستہ جواب نے راہیِ لنگ کو بھی دوڑا دیا۔ اسٹیج سے اُتر کر تیزی سے وہ لڑکی کے پاس پہنچے اور اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بولے۔
”بیٹی! تم نے میرا دل جیت لیا، بخدا تمہارا یہ ایک جملہ میری پوری نظم پر بھاری ہے۔ اس شہر کی یہی تو وہ ادا ہے جس پر بمبئی کی رفتار کو بھی قربان کرنے کو جی چاہتا ہے۔“
اس طرح کے تخلیقی جملے یہاں ہمیشہ سننے کو ملتے رہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ ایسے جملے ادب و آرٹ کے طلبہ کے منہ سے ہی نکلتے ہیں بلکہ سائنس، کامرس اور دیگر علوم کے طلبہ کے لبوں سے بھی اس طرح فقرے اچھلتے رہتے ہیں۔ یہ سرسیدی مٹّی کی اس ادبی زرخیزی کا کمال ہے جو سخت اور بے رس علوم کے طلبہ کے اندر بھی ذوقِ جمال بھردیتی ہے اور سائنس و کامرس کی شاخوں پر بھی ادب و فن کے شگوفے کھلادیتی ہے۔
یہ رنگ ان ناموں میں بھی نظر آتا ہے جنھیں طلبہ اپنے اساتذہ کو مختلف اوقات میں عطا کرتے رہے ہیں، مثلاً مختار گھوڑا، نفیس بکرا، شارق مرغا، کمال انڈا، اقبال برولا، بسیرگٹّا، افضال تھیلا، مشتاق کھِلّو، افسر بھالو، آصف چرّی، شمیم سبزی، وسیم بھنڈی، قیصر بنڈی، وغیرہ۔ طلبہ کی جانب سے دیے گئے یہ ایسے نام ہیں جو طلبہ کی ذہانت اور ان کی تخلیقیت کا پتا تو دیتے ہی ہیں اساتذہ کی شخصیتوں کو بھی آئینہ کردیتے ہیں۔ ناموں کے یہ وہ آئینے ہیں جن میں اساتذہ اپنے آپ کو اچھّی طرح دیکھ پاتے ہیں۔ یہ نام ان کے اصل ناموں سے اس طرح ہم آہنگ ہوجاتے ہیں کہ ان کے بغیر ان کا وجود ادھورا سا ہوکر رہ جاتا ہے۔ان ناموں کو ان سے الگ کردیجیے تو شاید ان کی پہچان بھی مٹ جائے اور وہ اس طرح نظر نہ آئیں جیسا کہ دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لیے وہ ایسے ناموں پر کبھی غصے کا اظہار نہیں کرتے اور نہ ہی کبھی اعتراض درج کراتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اقبال برولا صاحب دودھ پور میں بنے اپنی مارکیٹ کا نام برولا مارکیٹ سن کر مسکراتے نہیں۔ یہ ایسا آرٹ ہے جو صرف اے ایم یو والوں کے حصّے میں آیا ہے۔
ایک ممتاز اور منفرد رنگ اےایم یو کا یہ بھی ہے کہ یہ اپنے طلبہ کی تربیت اس طرح کرتا ہے کہ وہ اپنے کردار، گفتار اور رفتار سے پہچان لیے جاتے ہیں۔ یہاں کی فضا اپنے طلبہ کے ذہن و دل میں اتحاد و اتفاق کا ایسا جذبہ بھردیتی ہے کہ دور جاکر بھی جس کا جوش سرد نہیں پڑتا۔ (خدا کرے یہ جذبہ یوں ہی سدا جوش مارتا رہے اور کسی بھی حالت میں کبھی سرد نہ پڑنے پائے۔آمین)
یہاں کے تہذیبی رنگ کی کچھ جھلکیاں کیمپس اور یونی ورسٹی کیمپس سے متصل مارکیٹ کے چائے خانوں اور ریستوراں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مثلاً
ہم تو سمجھے تھے کی برسات میں برسے گی شراب
آئی برسات تو برسات نے دل توڑ دیا
عشق میر ایک بھاری پتھر ہے
بوجھ کب ناتواں سے اُٹھتا ہے
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
اس انجمن میں آپ کو آنا ہے بار بار
دیوار و در کو غور سے پہچان لیجیے
یہ اور اس طرح کے نغمے ریکارڈ پلیئر پر صبح سے شام تک بجتے رہتے ہیں۔
یہ فلمی اور ادبی نغمے یونی ورسٹی طلبہ کی فرمائش پر بجتے ہیں جو ان کے ادبی ذوق اور حسِ لطیف کی ترجمانی تو کرتے ہی ہیں، اُن کی ذہنی بالیدگی اور شعور کی پختگی کی بھی غمّازی کرتے ہیں۔
ریسرچ اور میڈیکل سائنس کی پڑھائی کا کام تو تقریباً ہر بڑی یونی ورسٹی اور تعلیمی ادارے میں ہوتا ہے مگر جو تحقیقی فضا اے ایم یو میں بنی کہیں نہ بن سکی اور اس ادارے میں تحقیق کا ایسا بول بالا ہوا کہ اس ادارے سے وابستہ یہاں قرب و جوانب کے افراد بھی ڈاکٹر کہلانے لگے۔ ڈاکٹر کہلانے کے لیے کسی کو نہ تو میڈیکل کے کسی امتحان میں بیٹھنا پڑتا ہے اور نہ ہی اسے کسی تحقیقی لائبریری میں سر کھپانا ہوتا ہے۔ نہ ہی کسی لیب میں مینڈکوں کی چیڑ پھاڑ کرنی پڑتی اور نہ ہی کسی مردہ جسم یا سڑی گلی گھناؤنی لاش سے الجھنا پڑتا ہے۔ یہاں ڈاکٹر کہلانے کے لیے تو بس کسی قصائی کی دکان سے پاؤ بھر گوشت، کسی نان بائی کے بھٹیار خانے سے دو چار عدد نان، فٹ پاتھ کے کسی ٹھیلے سے آدھا کلو سبزی، کسی پنساری سے گرم مصالحے کی دو تین پڑیا، کسی بزاز سے کوئی رومال، کسی پنواڑی سے ایک بیڑا پان یا ایک عدد سگریٹ خریدنا ہی کافی ہے۔ ڈاکٹر کی ڈگری تو اس خطے میں اس قدر عام ہے کہ اگر گوشت بیچنے والا سبزی کی دکان پر چلا جائے تو ڈاکٹر ہو جائے اور سبزی فروش کسی نائی کے سیلون میں پہنچ جائے تو ڈاکٹر بن جائے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی رکشا والا ذرا صاف ستھرا کپڑا پہن کر کسی اور کے رکشے میں بیٹھ جائے تو وہ بھی ڈاکٹر کا خطاب پا جائے۔ بظاہر یہ صورتِ حال کسی کو مضحکہ خیز لگ سکتی ہے مگر اس صورتِ حال کی نفسیات پر غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ادارے کو قائم کرنے والوں نے یہاں کی علمی فضاؤں میں سائنس و منطق کی کیسی روح پھونک دی ہے کہ ایک ایک آدمی تحقیق و تفتیش کی قدر و قیمت سے اچھی طرح واقف ہو گیا ہے۔
ہمارے لیے سنہرا خواب دیکھنے اور اس خواب کی تعبیر تلاش کرنے والے اور اس تعبیر کے رنگ و آہنگ کا جلوہ دکھانے والے کے مزار پر جب بھی میں جاتا ہوں تو میرے کانوں میں یہ آواز سنائی دیتی ہے:
میں تو سو گیا ہوں
مگر میرا کام جاگتا ہے
میں فکر مند ہوں کہ میرے اس کام کو کہیں اونگھ نہ لگ جائے۔
کہ اس کے ارد گرد ایسی بہت ساری لوریاں جاگ رہی ہیں
جن کے جاگنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ
میرا کام سوجائے
مجھے ڈرلگتا ہے کہ کہیں ایسا ہوا
تو بہت کچھ ہوجائے گا
جن آنکھوں میں بیداری انگڑائی لے رہی ہے، وہ رُک جائے گی۔
اسی لیے ہر آنے والے سے میری روح یہی کہتی ہے کہ وہ میرے کام کو جگائے رکھے اسے سونے نہ دے۔
اور میں آواز سن کر سوچتا ہوں کہ وہ انسان کتنا عظیم ہے کہ جو زندگی بھر ہمارے لیے بے چین رہا اور جس کی روح ہمارے لیے آج بھی مضطرب ہے۔ ٭٭٭
غضنفر کی یہ نگارش بھی پڑھیں :انہونی

شیئر کیجیے

2 thoughts on “فضائے سر سید کے تخلیقی و تحقیقی رنگ و آہنگ

  1. جناب غضنفر کا یہ خاکہ نما مضمون نہایت دلچسپ اور معلوماتی ہے خصوصاً غیر علیگ کے لئے ۔۔۔۔۔ وہ شخص جس نے کبھی اے ایم یو کیمپس نہیں دیکھا موصوف کی منظر نگاری نے ایسا سماں باندھا ہے کہ منظر اور پس منظر دونوں عیاں ہو جاتے ہیں۔
    غضنفر صاحب کی یہ تحریر بلا شبہ اس شخصیت کو ایک خوبصورت خراج عقیدت ہے جسے ایک شخصیت نہ کہ کر ایک ادارہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ سر سید ایک ایسا نام جس کے ہر حرف سے روشنی کی شعائیں نکلتی ہیں اور نہ صرف اے ایم یو کیمپس بلکہ اس خطے سے ہوکر پورے عالم جہل کو منور کرتی ہیں۔ ایک ایسی سوچ کانام سر سید ہے جس کا متبادل آج تک پیدا نہیں ہو سکا ۔اسی سوچ کی دور نگاہی نے کردار سازی، ماحول سازی اوراحساس خودی کی ایسی فضا ہموار کی کہ قوم وملت کے لئے کامیابی کے ہزاروں در وا ہو گئے۔
    اس خوبصورت تحریر کے لئے صاحب مضمون اور اشتراک کو بہت بہت مبارکباد۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے