مرگ انبوہ : ایک جائزہ

مرگ انبوہ : ایک جائزہ

کولاژ کے بادشاہ مشرف عالم ذوقی کے ناولوں میں بدلتے ہوئے موضوعات کا احا طہ ’مرگ انبوہ‘ کے حوالے سے

صوفیہ پروین
ری سرچ اسکالر دہلی یونی ورسٹی، دہلی
موبائل نمبر 9116246950
ای میل parveensufiya97@gmail.com

اردو ناول انیسویں صدی کی پیداوار ہے، اس عہد میں  ڈپٹی نذیر احمد، رتن ناتھ سرشار، مرزا محمد ہادی رسوا، عبدالحلیم شرر وغیرہ نے اردو ناول لکھے۔  نذیر احمد نے اصلاحی ناول تو  رتن ناتھ سرشار نے لکھنؤ کی مٹتی ہوئی تہذیب کو اپنا موضوع بنایا، اسی زمانے میں مرزا محمد ہادی رسوا نے امراؤ جان ادا لکھ کر سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی، اس کے برعکس عبدالحلیم شرر کے یہاں اسلامی تاریخ کے ناول زیادہ ملتے ہیں۔
ترقی پسند تحریک کے آغاز کے بعد اردو ناول کے موضوعات اور اسالیب بدلے، جس میں لکھنے والوں کی ایک جم غفیر تھی، منشی پریم چند اپنی حقیقت پسندانہ انداز میں ناول تخلیق کررہے تھے۔ تو وہیں کرشن چندر رومانوی انداز میں اپنے ناول کا اسلوب تیار کررہے تھے۔ اسی طرح پنجاب کی دیہاتوں کے مسائل اور رسم و رواج کا بیان راجندر سنگھ بیدی اپنے ناول ایک چادر میلی سی میں کررہے تھے۔ عورتوں کے مسائل  اور ان کے موضوعات کے بیان کا بیڑا عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر نے اٹھایا، اور اپنی اپنی نگارشات سے اردو ناول کے دامن کو بھر دیا۔
ہندوپاک بٹوارہ کے بعد انسانوں کے کرب اور ان کے مسائل اور ان گنت موضوعات کا بیان اردو ناول میں دیکھا جاسکتا ہے۔
زمانہ ہر دور میں اپنے ادب کو اور انسانوں کو متاثر کرتا رہا ہے، چاہے وہ فرانس کا انقلاب ہو، یا لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ہاتھوں کھینچی ہوئی لکیر ہو،1947 کے بعد ناول نگاروں کے یہاں موضوعات کی کوئی کمی نہیں رہی، جس میں لکھنے والوں میں شوکت صدیقی، انتظار حسین، عبد اللہ حسین بہت اہم ہیں۔ جدیدیت کا عروج اور ترقی پسندی کے زوال کے بعد اردو ناول کے موضوعات اور اسالیب بھی تبدیل ہوگئے، اب بات اصلاحی، تاریخی، رومانوی، حقیقت پسندانہ، تاریخی نہ ہوکر تمثیلی، استعاراتی، علامتی انداز میں ناول تخلیق ہونے لگے،
1980 کے بعد لکھنے والوں میں شموئل احمد، حسین الحق، غضنفر، پیغام آفاقی، اور مشرف عالم ذوقی نے اپنے زرخیز قلم سے اردو ناول کو عروج بخشا، جس کو آج ہم فکشن کی صدی سے جانتے ہیں۔ ناول نگاری کی جو روایت انیسویں صدی میں شروع ہوئی تھی اس روایت نے اکیسویں صدی کی دہلیز تک اپنی پوری تابناکی کے ساتھ قدم بڑھایا۔ ترقی پسند تحریک اور تقسیم ہند کے زیر اثر لکھنے والوں نے اردو ناول نگاری کو موضوع اور اظہار دونوں سطحوں پر نئے موڑ اور نئی جہتوں سے آشنا کیا۔ ناول کی سمت تقسیم کے موضوع تک آکر رک گئی تھی۔ لیکن 1980 کے بعد کے لکھنے والوں نے ناول میں نئی کہانی کو پیش کیا، اس کو کہنے کا نیا فن، انسانی زندگی میں عمل دخل، سماجی نفسیاتی اور طبقاتی الجھنیں سب کچھ نئے طریقے سے پیش کیا گیا۔
اکیسویں صدی کے ناول کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کی آج کا ناول بالکل آزاد ہے۔ آزاد اس وجہ سے کی قاری کے مطالبوں، ناقدوں کے بنائے ہوئے اصولوں اور کسی بھی آئیڈیالوجی کی پابندی کے بغیر بالکل آزاد ہو کر اور فطری پن کے ساتھ اپنا اظہار کر رہا ہے۔ انھی آزاد خیال لکھنے والوں میں ایک بڑا نام مشرف عالم ذوقی کا بھی ہے۔ ذوقی کا شمار اردو کے اہم ترین ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ جنھوں نے اپنی تخلیقات کی بدولت اردو فکشن میں اپنا لوہا منوایا۔ انھوں نے ناول کے بنے بنائے اصول پر چلنے کے بجائے اپنا راستہ خود بنایا اور اسے اس فریم میں فٹ کیا۔
مشرف عالم ذوقی کو لکھنے پڑھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ اُنھوں نے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔ ان کو باہرجانے کی اجازت نہیں تھی، اس لیے ان کی دوستی کتابوں سے ہو گئی اور محض گیارہ سال کی عمر میں انھوں نے ایک کہانی ”جلتے بجھتے دیپ” ریڈیو کے لیے لکھا اور محض سترہ سال کی عمر میں انھوں نے اپنا پہلا ناول ”عقاب کی آنکھیں ” تحریر کیا۔ ذوقی نے تعلیم کے بعد اپنی قلم کا ہی سہارا لیا اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
مشرف عالم ذوقی نے اپنے پہلے ہی ناول میں بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ جسے سماج بچہ سمجھ رہا ہے وہ اپنی عمر سے بہت آگے نکل چکا ہے وہ اپنی معصوم آنکھوں سے سماج میں ہونے والے ظلم و جبر کا جائزہ لے رہا ہے۔ مشرف عالم ذوقی اُن تخلیق کاروں میں سے تھے جنھوں نے ظلم و جبر اور استحصال کے خلاف بڑی بے باکی اور جرات مندی کے ساتھ احتجاج کیا ہے۔ وہ ادب میں مزدوری کرنے کے قائل تھے۔ اُن کی زندگی کا کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرا جس دن انھوں نے کچھ لکھا نہیں ہو. اُن کا کہنا تھا کہ مزدور مزدوری نہیں کرے گا تو کھائے گا کہاں سے؟ اسی لیے اپنا ہر ایک دن ادب کے نام کیا اور اسی مزدوری اور محنت کی بدولت وہ ادب میں خاص اور نمایاں مقام بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ذوقی مشرق و مغرب کے اثر اور روسی ادب سے بہت زیادہ متاثر تھے اور دوستوں فسکی کو اپنا آئیڈیل مانتے تھے اور ساتھ ہی الیکذنڈر پشکن، گوگول، چیخوف وغیرہ سے بھی متاثر ہوئے۔ اسی وجہ سے اُن کی تحریروں میں روسی ادب کا اثر صاف طور پر دکھائی دیتا ہے۔
انھوں نے اپنے ناولوں میں سماجی و سیاسی مسائل، انسانی زندگی، زندگی کی مصروفیات، فسادات، سیاسی چالبازیاں، تقسیم، عورت کے مسائل، جنریشن گیپ، گلوبلائزیشن  جیسے مختلف موضوعات کو پیش کیا۔ ذوقی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے خود کو کبھی دہرایا نہیں ہے۔ بلکہ ہر بار ایک نئے موضوع کے ساتھ ہمارے سامنے  آئے ہیں اور اپنی تحریروں کے ذریعے قاری کو سوچنے پر مجبور کیا ہے۔
کچھ ایسا ہی سلگتا ہوا موضوع اُن کے ناول ”مرگ انبوہ” کا ہے جس نے اردو ادب میں ایک ہلچل سی مچا دی، جس کے مطالعے نے قاری کے ذہن میں ایک گہرا اثر قائم کردیا اور وہ سوچنے کے لیے مجبور ہو گیا۔ اس ناول کو جاننے سے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ ”مرگ انبوہ” کیا ہے؟ مرگ انبوہ جسے انگریزی میں ”ہولوکاسٹ” کہا جاتا ہے، ہولوکاسٹ یونانی لفظ سے بنا ہے جستکے معنی ”مکمل جلا دینے کے ہیں” جو یہودیوں کی نسل کشی سے منسوب ہے۔ جسے بیدردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
 ”مرگ ” فارسی کا لفظ ہے جس کے معنی”موت ” کے ہیں اور ”انبوہ ”بھی فارسی  لفظ سے بنا ہے جس کے معنی ”بھیڑ” کے ہیں۔ اس نظر سے دیکھا جائے تو معنی یہ نکتا ہے کہ بھیڑ کی موت۔ دراصل مشرف عالم ذوقی کے دل میں اپنی قوم کا درد بہت ہے، انھیں کہیں نہ کہیں یہ لگتا ہے کہ ہندستان کے مسلمانوں نے سوچنا ترک کردیا، ملک میں کیا کچھ ہو رہا ہے انھیں اُس کی کچھ خاص خبر نہیں، وہ اس پر غور و فکر نہیں کر رہیں ہیں کہ ہندستان میں اُن کی شناخت چھینی جانے کی کوشش کی جارہی ہے اور ہندستان کی سرزمین ان کے لیے دن بہ دن تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ وہ اس خوش فہمی میں ہیں کہ اب حالات اس سے زیادہ خراب نہیں ہوں گے۔ مسلمان نیم نیند میں چل رہے ہیں اور یہ بھیڑ نیم نیند میں چلتے چلتے موت کا شکار ہوتی جا رہی ہے اور اگر ایسا ہوتا رہا تو بہت جلد یہ ہولوکاسٹ کی طرف دھکیل دیے جائیں گے۔
اس ناول کے کور پیج میں ایک خوفناک منظر نظر آتا ہے۔جہاں تک میں اندازہ لگا پا رہی ہوں بادل کے رنگ سیاہ ہو گئے ہیں، زمین پر سب کچھ نیست و نابوت ہو گیا، سب کچھ جل کر راکھ، روشنی نے اندھیرے کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اور اس منظر میں نظر آتی ہوئی خوفناک روحیں جس نے ایسا لباس اختیار کیا ہے جو مکمل طور پر فنا ہونے کی علامت ہے۔ یہ انبوہ لائن میں ایک دوسرے کے پیچھے چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور آہستہ آہستہ کسی پہاڑ کی کھائی میں گم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
دراصل مشرف عالم ذوقی کو تبدیل ہوتے ہوئے ہندستان میں ایک ایسا منظر دکھائی دیا جس میں مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے اور آہستہ آہستہ اُنھیں ہولوکاسٹ کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اسی منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے انھوں نے اس ناول کا نام مرگ انبوہ رکھا ورنہ اس ناول کا نام اور بھی کچھ رکھا جا سکتا تھا. مثلاً تبدیل ہوتا ہوا ہندستان، فساد، بلیو وہیل گیم، جنریشن گیپ، عصرِ حاضر میں بدلتے ہوئے رشتے، وغیرہ۔ایک مخصوص ٹائٹل ”مرگ انبوہ” ہی کیوں؟
ذوقی کا ناول ”مرگ انبوہ” اپنے اندر ایک نئے موضوع اور سلگتے ہوئے مسائل سموئے ہوئے ہے اور انھوں نے اس ناول کو اپنے خوب صورت بیانیہ انداز میں پیش کیا ہے جسے پڑھ کر قاری اس تاریخ پر غور کرنے کے لیے مجبور ہوتا ہے جسے وہ دیکھتا تو تھا لیکن سمجھ نہیں پاتا تھا۔یہ ناول ٤٤٠ صفحات پر مشتمل ہے جس کا شمار فکشن کے اہم ترین سیاسی ناولوں میں ہوتا ہے۔ اس ناول میں ذوقی نے مارک زکبرگ، اسٹیو جابس کے اقوال کو سمیٹا ہے جس میں ایک بڑا فلسفہ، احتجاج کرنے کی ہمت اور آنے والے کل کی راہ جسے پڑھ کر قاری جوش میں آجاتا اور وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر ہماری پہچان کیا ہے؟ ہم زندہ ہیں تو کیوں ہیں؟ اور اگر زندہ ہیں تو اس کا جائزہ لیں کہ ہم مُردوں جیسی زندگی تو نہیں گزار رہیں؟ یا پھر ہم دوسروں کے غلام تو نہیں؟
مرگ انبوہ ناول پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ جس کے پہلے باب میں موت سے مکالمہ، دوسرے باب میں جہانگیر مرزا کی ڈائری، باب سوم میں موت سے سامنا، باب چہارم میں مرگ انبوہ، باب پنچم میں نیند میں چلنے والے۔
اس ناول کی شروعات ریمنڈ کے واٹس اپ میسیج سے ہوتی ہے جو اس نے پاشا مرزا کو سینڈکی تھی۔ اس کھیل میں موت ہے، موت سے زیادہ خوب صورت کوئی فنتاسی نہیں
کیا ہم میں سے کسی کو پتہ ہے کہ موت کے بعد کی زندگی کیسی ہے؟
سب کچھ ختم یا ایک رقص خلا میں؟
یا ایک نئی دنیا کو ڈسکور کرنا؟
یا کسی بلیک ہول میں پھینک دیا جانا؟
انجوائے،
مجھے موت کے بعد انجوائے کرنا ہے
اور اس لیے مجھے زندگی کا سنّاٹا اچھا لگتا ہے. 
اس پیغام کے ذریعے ذوقی نے نوجوان نسل کی نفسیات کا جائزہ پیش کیا ہے. یہ نسل بے باک ہے. وہ موت سے نہیں ڈرتی. وہ موت کے بعد کی زندگی کو بھی جاننا چاہتی ہے، وہ اپنے نئے سوالات کی تلاش میں نکل جاتی ہے۔
اس ناول کا مرکزی کردار پاشا مرزا ہے جو اپنے والد جہانگیر مرزا سے شدید نفرت کرتا ہے۔ اسے اپنے والد کی کتابیں کباڑ خانہ لگتی ہیں۔ اسے لگتا ہے کی اگر کتابیں کما کر دے سکتی ہیں تو انھیں چیتن بھگت بننا چاہیے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کی اس کے والد اس کی خواہش کو پورا کرنے میں قاصر ہیں۔ کچھ ایسا ہی ریمنڈ کے ساتھ ہے جو کہ پاشا مرزا کا دوست ہے۔ ریمنڈ اپنے گھر کے ماحول سے بہت پریشان ہے، اس کے گھر میں روز لڑائی ہوتی ہے. رگھوبیر سہائے جو کہ ریمنڈ کا باپ ہے اپنی بیوی کو روز مارتا ہے اور ریمنڈ کو گالیاں دیتا ہے۔ ریمنڈ کے جذبات کو دونوں میں سے کوئی نہیں سجھتا۔
اس لیے اس نے یہ فیصلہ کیا کی وہ بلیو وہیل گیم جو کہ ایک موت کا گیم ہے، اسے کھیلے گا۔ اس کھیل میں پلیئر کو پچاس دن میں پچاس ٹاسک پورے کرنے ہوتے ہیں اور ہر ایک ٹاسک آپ کو موت کے قریب، بہت قریب لے جاتا ہے۔ اس گیم کی شروعات ریمنڈ نے کر دی تھی۔اس کا انجام کیا ہونے والا ہے یہ ابھی باقی تھا۔ یہ نئی نسل حقیقت سے خود کو دور نہیں رکھتی بلکہ انھیں قبول کرتی ہے۔ اُنھیں معلوم ہے کہ تہذیبیں مٹ جاتی ہیں، جس طرح سے سندھ کی تہذیب مٹ گئی. میسو پوٹامیا کی تہذیب مٹ گئی، ایرانی تہذیب مٹ گئی۔ آج اُن کے وجود تک کا پتا نہیں۔ ذوقی کا ماننا ہے کہ آج کی نئی نسل بہت دانشور ہے۔ ہمیں اس نئی نسل کے فلسفے پر غور و فکر کرنی چاہیے. وہ معاشرے میں ہو رہی تبدیلیوں کو قبول کرتے ہیں. وہ جانتے ہیں کہ زمانے میں بہت سے تہذیبیں آئیں اور ان کی جگہ نئی تہذیب نے لے لی اور ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ وہ قدرت کے فلسفے کو سمجھتے ہیں اور بہت حد تک یہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ اُن کے والدین کو بھی یہ بات سمجھ میں آجائے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ جنریشن گیپ اُن کو تو سمجھ آتا ہے لیکن ان کے والدین کو سمجھ نہیں آتا۔ یا پھر یوں کہا جائے کی وہ سمجھنا نہیں چاہتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کی ان دوریوں کا ذمّہ دار کون ہے؟ آج کی نئی نسل؟ یا والدین؟ ذوقی نے اس کی وجہ صرف نئی نسل کو ہی نہیں مانا ہے بلکہ والدین بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ بچوں کو یہ لگتا ہے کہ اُن کے والدین اُنھیں نہیں سمجھتے اور والدین کو یہ لگتا ہے کہ بچے اُنھیں نہیں سمجھتے. وہ اپنی دنیا میں بہت خوش ہیں. جب کہ ایسا نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کی ان کے والدین اُن کے خیالات کو سمجھیں، اُنھیں سمجھنے کی کوشش کریں۔ پاشا مرزا کو اس کی خلش بہت ستاتی تھی۔
میں خاموش ہو گیا تھا اس لیے کہ ڈیڈ اس وقت بھی مجھے نہیں سمجھ سکتے تھے۔ یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ میرے جیسے بچوں کو سمجھنے کے لیے صرف تجربہ اور عمر کافی نہیں ہے۔ بہت سارے لوگوں کی طرح میرے ڈیڈ بھی آج کے بچوں اور ان کی نفسیات کو سمجھنے میں قاصر ہیں۔ جب ہم اس ناول کا مطالعہ شروع کرتے ہیں اور پڑھتے جاتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ناول نئی نسل اور جنریشن گیپ تک ہی محدود ہے لیکن ہم جیسے ہی ڈیڑھ سو سے زائد صفحات کے آگے بڑھتے ہیں تو یہ سامنے آتا ہے کہ یہ ناول اپنی محدودیت کو توڑ کر بہت آگے نکل چکا ہے اور تبدیل ہوتے ہوئے ہندستان کی تصویر ہمارے سامنے  آجاتی ہے۔ جہاں اب مسلمانوں کو دہشت گرد کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے، بٹوارے کی وجہ مسلمانوں کو بتایا جا رہا ہے، این آر سی اور سی اے اے جیسے قانون مسلمانوں پر نافذ کیے جا رہے ہیں، جہاں حکومت مسلمانوں کو اس ملک سے باہر نکالنے کی سازش کر رہی ہے۔ اس آزاد ہندستان میں مسلمانوں کو آزادی منانے کا بھی حق میسر نہیں ہے۔ آزادی کا جشن منانے کی سزا سبحان علی کو اپنی زندگی دے کر چکانی پڑتی ہے، یہاں تک کہ اس کے معصوم بچی کا ریپ کیا گیا مگر یہ حکومت خاموشی رہی۔
یہ پروگرام پہلے سے ہی طے تھا کہ پارک میں ترنگا لہرایا جائے گا، اچانک اسکوٹر اور موٹر سائکل کی آواز گونج اٹھیں، پندرہ سے بیس موٹر سائکل سوار تھے، اُن کے ہاتھوں میں زعفرانی پرچم ہاکی اسٹک تھی۔ بھارت ماتا کی جے کے نعروں کے ساتھ اُن تمام لوگوں نے پارک کو گھیر لیا، وحشی ہجوم بچہ چور کہتے ہوئے سبحان علی پر ٹوٹ پڑا۔
مشرف عالم ذوقی نے سیاست دانوں کا چہرہ بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں حکومت کے بدلنے سے سب کچھ بدل گیا۔ صحیح غلط ہو گیا اور غلط صحیح۔ملک میں ہندو مسلم کا ایک ایسا ماحول بنایا گیا کہ یہ ایک دوسرے سے مذاہب کے نام پر لڑنے لگے اور چھوٹی چھوٹی جھڑپوں نے بڑی نفرت کی شکل اختیار کر لی۔
مشرف عالم ذوقی کے ناول مرگ انبوہ کا پلاٹ بہت مربوط اور موتی جیسا گتھا ہوا ہے. انھوں نے کہانی کے تمام واقعات کو بڑی ہی خوب صورتی کے ساتھ بیان کیا ہے، جس میں منطقی تسلسل برقرار ہے۔ جہاں جنریشن گیپ، مسلمانوں کی زندگی کے تمام تجربات، بلیو وہیل گیم میں ریمنڈ کا گرفتار ہونا، جہانگیر مرزا کی ڈائری اور سیاست دانوں کا بے نقاب ہوتا چہرہ۔ ذوقی نے سیاست جیسے موضوع کو بہت ہی آسانی و روانی کے ساتھ بیان کیا ہے، جس سے قاری کی دل چسپی اوّل سے آخر تک بنی رہتی ہے۔ ذوقی بلاخوف و تردد اپنا قومی فریضہ ادا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
اگر اس ناول کے کرداروں کی بات کی جائے تو مرگ انبوہ کے تمام کردار اپنے فطری بہاؤ کے ساتھ چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی بھی کردار غیر ضروری نظر نہیں آتا. اگر کسی ایک کردار کو بھی نکال دیا جائے تو پورا ناول متاثر ہو جائے گا۔ اس ناول میں مرکزی و ضمنی دونوں طرح کے کردار نظر آتے ہیں۔ جن کی اپنی اہمیت برقرار ہے۔ مرگ انبوہ میں دو مرکزی کردار ہیں پہلا  ’جہانگیر مرزا‘ اور دوسرا ’پاشا مرزا‘ جہانگیر ایک آزاد خیال صحافی ہے، وہ اوروں کی طرح ظلم و جبر دیکھ کر آنکھیں بند کرنے والا کردار نہیں ہے بلکہ ہندستان میں مسلمانوں کے خلاف کیا کچھ ہو رہا ہے اس کا نوحہ بیان کرتا ہے۔ اس کو بیان کرنے میں اس کی جان تک کو خطرہ ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ خوف نہیں کھاتا اور مسلسل لڑتا رہتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کردار خود مشرف عالم ذوقی ہیں، جو جہانگیر مرزا کے الفاظ میں اپنے درد کو بیان کررہے ہیں۔ ادیب اور صحافی کا فرض نبھانا آسان نہیں ہوتا۔ ہمارے سامنے کئی رکاوٹیں آئیں جن سے گزرنا آسان نہیں تھا۔ جنھیں پار کرنا دنیا کے ساتوں سمندر کو پار کرنے سے زیادہ مشکل تھا. 
اس کردار کو نئی نسل سے بہت امیدیں ہیں اور یہ کردار نئی نسل کی بے باکی اور بے خوفی کو دیکھ کر بہت متاثر ہوتا ہے۔ جہانگیر مرزا جانتا ہے کہ جو کام ہم نہیں کر پائے وہ کام یہ نسل بہت جرات مندی سے اپنے حق کے لیے کر سکتی ہے۔ اس کا ذکر ذوقی کچھ یوں کرتے ہیں۔
”سنو جب تم الٹی بیس بال ٹوپی پہنتے ہو تو زمانے کو بھی الٹ دیتے ہو، جیسے یہ خیال کہ تم کچھ بھی کر سکتے ہو اور بس مجھے تمھاری نسل کی یہی ادا بہت پسند ہے اور میں اس ادا پر قربان جاتا ہوں ” 
جہانگیر مرزا وقت کے ساتھ بدلتے رہنے کے ہنر سے بھی واقف ہے، وہ اپنی زندگی کو روکنے والا نہیں ہے بلکہ اس نئی نسل سے قدم سے قدم ملا کر چلنے والا کردار ہے اور جب یہ اپنے بیٹے کے جیسا جوان بننے کی کوشش میں رہتا ہے تب پاشا مرزا اپنے باپ سے کہتا ہے آپ ہماری عمر سے بہت آگے نکل چکے ہیں تو اس کے جواب میں جہانگیر مرزا کہتا ہے۔
”بالکل نہیں، سامنے ہی آئینہ تھا۔ میں آئینے کے سامنے جا کر کھڑا ہوا بالوں کو کل رات ہی ڈائی کیا تھا، سر پر بیس بال ٹوپی، بلو جینس، شرٹ کنواس کے شو میں بیٹے کا بڑا بھائی لگ رہا تھا۔۔اور میں نے پوچھا کہاں ہے عمر بتاؤ؟
جہانگیر مرزا کے کردار کے ذریعے ذوقی نے ہندستان کے ہر فرد کی کہانی بیان کی ہے جو اس حکومت کے ظلم و ستم میں گرفتار ہے۔ یہ کردار تمام مصیبتیں اور پریشانی سہتا رہا لیکن اپنے بیٹے کو اُن حالات سے دور رکھا۔ وہ حکومت کے ظلم و ستم، ملک میں ہو رہی افرا تفریح، مسلمانوں پر ہو رہے مظالم؛ ان تمام چیزوں کو اپنی ڈائری میں قلم بند کرتا رہا اور یہ ڈائری سارا کے حوالے کردی، یہ کہہ کر کہ جب پاشا بیس سال کا ہو جائے گا تب یہ ڈائری اسے دینا۔
اس ناول کا دوسرا مرکزی کردار پاشا مرزا ہے۔ یہ کردار ابتدا سے اختتام تک موجود ہوتا ہے، کیوں کہ اس ناول کا داستان گو پاشا مرزا ہوتا ہے، جو اپنے والد کی ڈائری کے ذریعے کہانی کو آگے بڑھاتا ہے۔ پاشا جہانگیر کا اکلوتا بیٹا  ہے، یہ اس ریگستان کا نمائندہ ہے جہاں تمام اقدار، روایت اور تہذیب پامال ہو چکی ہے۔
مشرف عالم ذوقی نے پاشا مرزا کے ذریعے نوجوان نسل کے خیالات اور اس کی نفسیات کی عکاسی کی ہے. یہ نسل فاسٹ فوڈ کھاتی اور فاسٹ فوڈ کی ہی طرح فاسٹ ہے، اُنھیں دوسرے کی زندگی سے کوئی مطلب نہیں، یہ مارک زکر برگ اور اسٹیو جابس کی طرح راتوں رات اس دنیا پر چھا جانا چاہتی ہے۔ یہ نسل بے خوف ہے، چاہے اس کے سامنے بی مشن کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں، اُن سب کا مقابلہ بہت ہمت اور اپنی پوری طاقت سے کرتی ہے، جب راکیش وید مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہا تھا اور مسلمانوں اور ہندوؤں میں امتیاز کررہا تھا اور مسلمانوں کو گھس پیٹھیا کہہ رہا تھا تو پاشا  بہت ہی اطمینان سے اور بلا خوف اس کا جواب دیتا ہے۔
نہیں سر میں نے مسکرا کر کہا، ہم میں آپ میں کوئی فرق نہیں، ہم دونوں اسی سرزمین کا حصہ ہیں۔ ہم باہر سے آئے ہیں تو آپ بھی باہر سے آئے ہیں، مغلوں نے جزیہ لگایا تو تحفظ بھی دیا، اکبر نے دو بار جزیہ ختم کیا۔کسی بھی مسلمان ملک میں غیر مسلمان پر کوئی زیادتی نہیں ہوتی۔ مجھے معاف کیجئے سر یہ سب آپ نے کہیں اور سے سیکھا”
پاشا مرزا کا کردار ایک ہندستانی نوجوان کا کردار ہے جو تمام عمر اپنی خواہشوں کو مارتا رہا اور اپنے باپ سے اف تک نہ کیا۔ اس کے دل میں اپنے والد کے لیے نفرت بڑھتی گئی لیکن جب اس نے اپنے والد کی ڈائری پڑھی جس میں جہانگیر مرزا نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا تھا، تو اُن حقیقتوں کو جاننے کے بعد پاشا کی نفرت محبت میں تبدیل ہو گئی، جس کا اظہار اُس نے کچھ یوں کیا ہے ”مجھے آج ڈیڈ پر بہت پیار آرہا ہے۔"
سارا جہانگیر: مشرف عالم ذوقی نے سارا کے کردار کے ذریعے ہندستان کی اُن ماؤں کی عکاسی کی ہے جو باپ اور بیٹے کے نازک رشتے کو جوڑ کر رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہہیں۔ ’سارا‘ نے اپنی زندگی کے تمام لمحات اپنے بیٹے اور شوہر کے درمیان دوریاں مٹانے اور اُن سے محبت میں وقف کر دی۔ ’ریمنڈ‘ کا کردار ایک ایسا کردار ہے جس کے ذریعے پورے ناول میں تجسس برقرار رکھا گیاہے جو بلیو وہیل گیم کے ذریعے موت کے اس خوف کو قریب سے دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کردار کے ذریعے مشرف عالم ذوقی نے نوجوان نسل کی عکاسی کی ہے جو موت سے بھی خوف نہیں کھاتا۔
’سبحان علی جہانگیر مرزا‘ کے ایک اچھے دوست جن کا خیال ترقی پسند ہے، وہ اپنا وقت نکال کر دوسروں کی مدد کیا کرتے تھے، مشرف عالم ذوقی نے سبحان کے ذریعے مسلمان کردار کی عکاسی کی ہے جو اپنے ہی ملک میں بے بس اور ڈرا ہوا ہے، اسے یہ خوف ہے کہ ہم کبھی بھی بی مشن کے شکار ہو جائیں گے، کبھی بھی ہم سے ہماری شناخت چھینی جا سکتی ہے۔ ہمیں غائب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ اپنے خوف کا اظہار کرتا ہے۔ ‘‘کچھ گم ہو رہا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کی ہم اس ملک میں ۳۵ کروڑ ہیں۔ حکومت نے سترہ کروڑ پر لا کھڑا کیا پھر ایک دن آئے گا جب ہمیں گیس بنا کر اُڑا دیا جائے گا”
ان کرداروں کے علاوہ ذوقی نے ناول میں چھوٹے بڑے تمام کردار شامل کیے ہیں. اُن کرداروں میں سب سے فعال کردار جہانگیر مرزا اور پاشا مرزا کا ہے جو شروع سے ناول میں دکھائی دیتے ہیں۔ ذوقی نے تمام کرداروں کو اُن واقعات سے جوڑ کر پیش کیا ہے کہ یہ تمام کردار حقیقت سے جڑے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
مکالمہ نگاری کسی بھی ناول کا ایک اہم جز ہے۔ مکالمے کی بدولت ہم کردار کی نفسیات اور خصوصیات کو سمجھ پاتے ہیں. ذوقی نے اپنے ناول کے کردار سے ایسے مکالمے ادا کروائے ہیں کہ قاری اُن حقیقت سے دو چار ہوتا ہے جسے وہ دیکھتا ہے لیکن بہت جلد محسوس نہیں کر پاتا۔ انھوں نے مکالمہ کی ادائیگی  وقت اور ماحول کو دیکھتے ہوئے کرائی ہے، جس سے ناول میں مزید روانی پیدا ہوتی نظر آرہی ہے۔
ایک پولیس والے نے کہا۔ یہ کہتا ہے، اس قطار میں گائیں اس کی بھی تھی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے، ہیڈ کانسٹیبل نے داڑھی والے کاجائزہ لیا۔ میری ہیں سرکار، میں ان مکاریوں کو پہچانتا ہوں۔ ان کو چارا کھلاتے تھے؟
ہاں
پھر دودھ بھی نکالتے ہوں گے؟
ہاں میرا یہی پیشہ ہے اس سے میرا گھر چلتا ہے. 
ہیڈ کانسٹیبل نے غور سے داڑھی والے کو دیکھا پھر تو گایوں کو ماتا جی بھی کہتے ہوگے؟
نہیں سرکار
پوجا تو ضرور کرتے ہوگے؟
نہیں سرکار
ماتا بھی نہیں کہتے، پوجا بھی نہیں کرتے، پھر تو ضرور ہماری پوتر گایوں کو مار دیتے ہوگے۔
فیصلہ سنا دیا گیا اس کو جیل لے جاؤ، یہ آدمی گایوں کا قاتل ہے۔
ذوقی کا مکالمہ عصر حاضر کی سیاست کو بے نقاب کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ذوقی نے اس ناول میں ایسا مکالمہ شامل کیا ہے جو تین نسلوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس میں ایسا کیا ہے جو میرے پاس نہیں ہے۔ بار بار اٹھنے والے اسی سوال نے دادا کو پاشا مرزا کے بہت قریب کر دیا اور پاشا بھی دادا سے کچھ پوچھنے یا بتانے میں گھبراتا نہیں تھا۔
”تم اپنے وقت میں کیا تھے
کچھ نہیں
پھر تم کرتے کیا تھے؟
ہم چپ رہتے تھے بڑوں کے سامنے بولنا منع تھا۔
اور لڑکی؟
پاشا ہنسا
دادا آنکھیں تیرتا ہے ہمیں چھت پر بھی جانا منع تھا۔تمہارا باپ بھی چھت پر نہیں جا سکتا تھا لڑکی کا نام لینا تو بہت دور کی چیز ہے۔
تم لوگ گھامڑ تھے۔اس بار پاشا کو غصہ آتا ہے دادا جوابی کاروائی کے طور پر، گفتگو کے ہر نئے موڑ پر مجھ سے شیئر کرتے ہیں۔
وہ اُڑ رہا ہے
یہ عمر اس کے اڑنے کی ہی ہے
وہ ہنس رہا ہے
وہ ہنس سکتا ہے……..
ناول کی زبان و بیان دل کش، سادہ اور اندازِ بیان رواں ہے۔ جس کے باعث عام قاری اسے آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے۔ جہاں ناول کے کامیاب ہونے میں اہم کردار موضوع ادا کرتا ہے وہیں اس کا اندازِ بیان بھی اہم ہے۔ذوقی نے کرداروں کے ذریعے اتنی عام فہم زبان ادا کروائی ہے کہ قاری کہیں بھی اُلجھتا ہوا نظر نہیں آتا اور اس کی دل چسپی برقرار رہتی ہے۔
منظر نگاری: ناول کی تصویر اس طرح سے کھینچی گئی ہے کہ اسے بہ آسانی دیکھ سکتا ہے۔ ایک کامیاب ناول نگار کی خوبی ہے کہ وہ منظر کو پوری مہارت کے ساتھ بیان کرے اور ذوقی اس فن پر کھرے اترتے ہیں۔
کھڑکی کے باہر اب بھی سیاہ بادلوں کا کارواں موجود تھا۔
دن کی روشنی غائب ہو گئی اب آنکھوں کے سامنے دنیا کا سب سے بڑا اذیت کیپ تھا بیمار جسموں کی ایک لمبی قطار سامنے تھی۔”
اس کے علاوہ مصنف نے علامتی تحریر بھی استعمال کی ہے۔ جس سے یہ ناول حقیقت کی مثال بن کر قاری کے سامنے پیش کیا گیا ہے، علامت کے طور پر اس ناول میں سرخ چونٹیوں، اس سے مراد ہندستان میں حکومت کررہے اُن لوگوں سے ہے جو اقتدار میں آکر راتوں رات مسلمان کے گھر غائب کر دیتے ہیں۔
جادوگر کو بھی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو نہیں ہو کر بھی ہر جگہ موجود ہے، جو ہر جگہ دہشت پھیلاتا ہوا نظر آتا۔
گھاٹ پر ایک قطار سے کئی انسانی جسم جل رہے تھے۔ انسانی لاشوں کی بُو فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔ بُو سے بچنے کے لیے میں نے چہرے کو رومال سے محفوظ کر لیا۔ اچانک میری نظر اس پر پڑی، مجھے تعجب ہوا کہ وہ یہاں کیا کررہا ہے ”
مشرف عالم ذوقی نے جادوگر کی علامت کے ذریعے یہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ ملک کس طرح برباد ہو رہا ہے، مسلمانوں کو کس قدر پریشان کیا جا رہاہے۔ راتوں رات نوٹ بندی، شہریت ترمیمی بل، جی ایس ٹی اور اس سے برباد ہو رہے ہزاروں ہندستانیوں کا احوال بیاں کیا ہے۔
اس کے علاوہ مصنف نے اس میں ڈائری کی تکنیک، ہلوسینیشن کی تکنیک، یہ بیماری جہانگیر مرزا کو ہوگئی جس کی وجہ سے جو کچھ بھی وہ محسوس کررہا تھا وہ اُسے حقیقت سمجھنے لگتا ہے۔ اس تکنیک میں اُنھیں بہت کامیابی نصیب ہوئی۔ ذوقی نے مرگ انبوہ میں مختلف تکنیک کا استعمال کیا ہے جو اس ناول کی خوب صورتی میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ ذوقی نے علامت کے طور پر جو کچھ بھی بیان کیا ہے وہ تاریخی اہمیت رکھتا ہے اور یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ سرخ چیونٹیوں سے گھبرانا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا سامنا پوری ہمت اور طاقت سے کرنا ہے۔
مشرف عالم ذوقی نے ایسا ناول لکھ کر اردو ادب میں ایک لا زوال اضافہ کیا ہے۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :ہم عصر اردو ناول: شناخت کا مقدّمہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے