کاش ہستی سے مرا بھی کوئی پیماں ہوتا

کاش ہستی سے مرا بھی کوئی پیماں ہوتا

رہبرؔ پرتاپ گڑھی

کاش ہستی سے مرا بھی کوئی پیماں ہوتا
حق کا پرچار مری زیست کا ساماں ہوتا

دل میں انسان کے ہوتی جو محبت ان کی
دورِ آشوب سے ہرگز نہ پریشاں ہوتا

خرمنِ زیست نہ بچ پاتا کبھی آتش سے
سوزِ محبوب اگر اس کا نہ نگراں ہوتا

جذبۂ انس و محبت اگر ہوتا دل میں
کوئی انسان نہ ہرگز تہی داماں ہوتا

دیکھنے میں تو میاں! بھیڑ ہے انسانوں کی
لطف تو جب تھا کوئی واقعی انساں ہوتا

دل کے کاشانے میں دے دیتا اگر اس کو جگہ
اس قدر تو نہ کبھی بے سروساماں ہوتا

بنسیاں بجتیں سدا چین کی رہبر صاحب!
صاحبِ دل جو ہر اک ہندو مسلماں ہوتا
***
رہبرؔ پرتاپ گڑھی کی گذشتہ غزل:لے کے دنیا کے لیے نورِ سحر آیا ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے