ڈاکٹر گوپی چند نارنگ

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ

محمد ہاشم القاسمی
(خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال)
فون نمبر: 9933598528

اردو دنیا کے ممتاز دانشور، نامور نقاد، مصنف، پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ 15/جون 2022 کو امریکا میں وفات پا گئے۔ جہاں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ قیام پذیر تھے، ان کی عمر 91 برس تھی اور وہ شمالی کیرولائنا میں مقیم تھے.
وہ قیامِ پاکستان سے قبل پاکستان کے صوبے بلوچستان کے شہر دُکی میں پیدا ہوئے۔ پروفیسر نارنگ کو اردو ادب سے محبت اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے بچپن کوئٹہ میں گزارا۔ انھوں نے سنہ 1954ء میں یونی ورسٹی آف دہلی سے اردو میں ایم اے اور اسی جامعہ سے سنہ 1958ء میں لسانیات میں پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ گوپی چند نارنگ نے سنہ 1957ء میں سینٹ اسٹیفینس کالج، دہلی میں لیکچرر کے طور پہ پڑھانا شروع کیا اور 1995ء تک دہلی یونی ورسٹی میں پروفیسر کے طور پہ تدریس سے وابستہ رہے۔
پروفیسر نارنگ نے دہلی یونی ورسٹی، یونی ورسٹی آف وسکونسن، یونی ورسٹی آف مینیسوٹا اور اوسلو یونی ورسٹی میں پڑھایا.
پروفیسر گوپی چند نارنگ کو عہد حاضر کا صف اول کا اردو نقاد، محقق اور ادیب مانا جاتا تھا۔
ڈاکٹرگوپی چند نارنگ نے ادب، شاعری، تنقید اور ثقافتی علوم پر 60 سے زائد کتب تصنیف کیں۔
ان کی تصنیفات کی دیگر زبانوں میں بھی ترجمے کیے گئے۔
ان کی سلیقہ شعاری، بیدار مغزی اور سخت محنت اور ریاضت نے اردو زبان کو اور اردو کے وسیلے سے خود ان کی ذات کو بہت فائدہ پہنچایا۔ جس کا انھیں بھی ادراک و احساس تھا اور وہ کھلے دل سے اس حقیقت کا واشگاف انداز میں اعتراف بھی کرتے تھے۔ اردو نارنگ صاحب کا عشق تھا. یہ عشق انھیں کسی وراثت کے تحت یا ترکے میں نہیں ملا تھا بلکہ اردو کی زلفِ گرہ گیر نے انھیں خود اسیر کیا تھا۔ ان کی تقریر و تحریر کے ایک ایک جملے اور ایک ایک سطر سے ان کی اردو سے عشق کا اظہار ہوتا ہے اور اسی عشق کی وجہ سے آج وہ اردو دنیا کی مقبول ترین ہستیوں میں شامل ہیں۔
پروفیسر نارنگ کی اردو، ہندی اور انگلش میں ثقافتی مطالعات،ادب اور زبان پر 60 سے زیادہ تحقیقی اور تنقیدی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ وہ دلی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونی ورسٹی میں پروفیسر ایمیریٹس تھے۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ چونسٹھ کتابوں کے مصنف رہے ہیں۔ ان کتابوں میں پینتالیس اردو میں، بارہ انگریزی میں اور سات ہندی میں لکھی گئی ہیں۔
انھوں نے ادب میں مابعد جدید رجحانات کے ساتھ لسانیات اور اسلوبیات کی ہنرمندی کو خاص طور سے اپنی ادبی تنقید میں برت کر دِکھایا ہے۔ ان کے تنقیدی تصورات کے بنیادی حوالے میں زبان، اسلوب اور تہذیب و ثقافت بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ جدید لسانیات نے ادب کے مطالعے میں جو نئی وسعت پیدا کرکے اس میں کئی راہیں نکالی ہیں ساختیاتی تنقید اور اسلوبیاتی تنقید کا رشتہ بھی اسی سے قائم ہوتا ہے۔ چناں چہ اردو ادب میں ساختیاتی تنقید کو صحیح طور پر روشناس کرانے کا سہرا نارنگ جی کے ہی سر جاتا ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ اردو میں اسلوبیاتی تنقید کو اعتبار و وقار بھی انھی کی نگارشات سے حاصل ہوا۔ چوں کہ پروفیسر نارنگ نے لسانیات کی باضابطہ گہرائی سے مطالعہ کی تھی، اور اس کے تمام شعبوں سے اچھی طرح واقف تھے چنانچہ انھوں نے خود بھی اس کا ذکر کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ:
”میں اسلوبیات کو ادبی مطالعے کے لیے ایک مدت سے برتتا اور پرکھتا رہا ہوں ۔“
انھوں نے اردو تنقید میں ساختیات اور اُسلوبیات کی بحثوں کی ابتدا کی۔ اردو کے چاروں بڑے شاعروں میر تقی میر، اسد اللہ غالب، انیس اور علامہ اقبال پر بےمثل کتابیں لکھیں۔
گوپی چند نارنگ کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اردو ادب کے تقریباً تمام گوشوں پر لکھا۔ فکشن ہو یا شاعری، مشرقی ادب ہو یا مغربی، تحقیق ہو یا تنقید، زبان کا مسئلہ ہو یا تعلیم و تدریس؛ ان تمام بحثوں میں انھوں نے حصہ لیا اور ان کے زور قلم کے معترف سب رہے۔ ان کی تحریر بھی بہت شگفتہ نکھری ہوئی، سنجیدہ اور متانت سے بھرپور ہوتی تھی۔ اس میں خشکی نہیں تھی۔ زبان کی ادا شناسی اور اسلوبیات کی مہارت ان کی تحریر اور تقریر دونوں سے نمایاں تھی۔ گل افشانی گفتار میں تو ان کو خاص ملکہ تھا، وہ اپنی جادو بیانی سے محفل کو جیت لیتے تھے۔
بعض اردو ادیبوں کا کہنا ہے کہ علمی و ادبی دنیا میں ان کی قدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں جتنے ایوارڈز ملے اتنے آج تک کسی بھی زبان و ادب میں کسی بھی شخصیت کے حصے میں نہیں آئے۔
حکومت ہند نے انھیں اعلا سول ایوارڈ پدم شری اور پدم بھوشن سے نوازا۔ پاکستان میں بھی انھیں اعلا سول ایوارڈ ستارہ امتیاز دیا گیا۔ وہ جتنے بھارت میں مقبول تھے اتنے ہی پاکستان میں بھی مقبول تھے۔
اس کے علاوہ انھیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ، غالب ایوارڈ، بہادر شاہ ظفر ایوارڈ، میر ایوارڈ، صدر پاکستان کی جانب سے اقبال صدی طلائی تمغہ اعزاز اور مختلف اردو اکیڈمیوں اور قومی و بین الاقومی اداروں کے ایوارڈ شامل ہیں، جن کی تعداد 50 سے زائد ہے۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اپنی تصنیف ’جدیدت کے بعد‘ میں اپنے بارے میں لکھا ہے کہ” میں اردو کا خادم ہوں۔ اردو میری ضرورت ہے، میں اردو کی ضرورت نہیں۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو کسی بھی کام کو شہرت کے لیے نہیں کرتے۔ اگر لوگ میری باتوں پر دھیان دیتے ہیں یا جو کچھ میں کہتا ہوں اس کا کچھ نہ کچھ اثر ہوتا ہے تو یہ میرے قارئین کی محبت ہے۔"
ان کے مطابق "اردو سے میرا معاملہ عشق کا ہے اور عشق میں سود و زیاں نہیں ہوتا۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بہت سے امور میں میری مخالفت بھی ہوتی ہے اور کئی بار بغض و عناد کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے".
گوپی چند نارنگ کے انتقال پر اردو دنیا سوگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ادیبوں، ناقدوں، محققوں اور شاعروں کی جانب سے خراج عقیدت کی لمبی فہرست ہے.
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے