غزل میں سائنسی تخیل کا رنگ بھرنے والا شاعر: حسنین عاقب

غزل میں سائنسی تخیل کا رنگ بھرنے والا شاعر: حسنین عاقب

انجینئر محمد عادل فراز، علی گڑھ 

حسنین عاقب کی ولادت 8 جولائی 1971ء کو مہاراشٹر کے شہر آکولہ میں ایک علمی و ادبی گھرانے میں ہوئی۔ان کا نام قدم حسنین خان ہے جب کہ تخلص عاقب اختیار کرتے ہیں۔ عصر حاضر میں حسنین عاقب نے برصغیر میں اردو ادب کے حوالے سے منفرد شناخت قائم کر لی ہے۔ وہ نہ صرف بہترین شاعر ہیں بلکہ محقق، ادیب اور مترجم کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔وہ اب تک پانچ مضامین میں ماسٹرس ڈگری اور ایل ایل بی بھی کر چکے ہیں۔ جس سے ان کے علم حاصل کرنے کی لگن اور محنت کا پتا چلتا ہے۔ ادب کے علاوہ درسیات اور شعبۂ تعلیم میں بھی ان کی خدمات قابل ستائش ہیں۔ ان کی مطبوعہ کتابوں میں ‘رمِ آہو (غزلیں)، خامہ سجدہ ریز (حمد و نعت)، کم و بیش (تحقیقی مقالات)، ت سے تنقید (تنقیدی مقالات)، اقبال بہ چشم دل (اقبالیات)، آسماں کم ہے (بچوں کی کہانیاں) شامل ہیں۔اس کے علاوہ ترجمہ نگاری کے میدان میں بھی انھوں نے اہم گل کھلائے ہیں۔ موصوف نے مادری زبان سے دیگر زبانوں میں ترجمہ کرنے کے لیے "معکوس ترجمہ نگاری" کی اصطلاح وضع کی اور خود اپنی مادری زبان اردو سے انگریزی، ہندی اور مراٹھی زبانوں میں منظوم و منثور ترجمہ کیے۔ انھوں نے نعتیہ شاعری کے لیے انگریزی اصطلاح prophiem وضاحت کرکے اہل فن کو نعتیہ شاعری کے رموز سے واقف کرایا۔
مختلف علوم و فنون پر عبور رکھنے کی وجہ سے حسنین عاقب کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے، جس میں منفرد رنگ کی قوس قزح اپنا رنگ بکھیرتی نظر آتی ہے۔ ان رنگوں میں ایک سائنسی فکر کا رنگ بھی نمودار ہوتا ہے۔ آئیے اس مختصر سے مضمون میں حسنین عاقبؔ کی شاعری کے اسی رنگ سے آشنائی حاصل کرتے ہیں۔
عاقبؔ بہ خوبی جانتے ہیں کہ عصر حاضر میں سائنسی فکر کو اردو شاعری میں شامل کر کے اسے نئی سمت و رفتار عطا کی جاسکتی ہے۔ تبھی وہ کہتے ہیں:
بہت آگے غزل پہنچی ہے عاقبؔ
تخیل کو میں وسعت دے رہا ہوں
1859ء میں چارلس ڈارون نے نظریہ ارتقا پیش کرکے انسانی نسل کے ارتقا کے بارے میں ایک نئی بحث چھیڑدی تھی۔ ڈارون کے مطابق اس دنیا میں موجود حیاتی اجسام اپنی بقا کے لیے خود کو ماحول کے مطابق
تبدیل کر لیتے ہیں۔ ڈارون نے اپنے نظریے میں انسانی ارتقا سے متعلق کوئی مزید تفصیل نہیں دی تھی لیکن پھر بھی اُس کا نظریہ ہر جان دار شے پہ لاگو کیا گیا۔جس میں انسان کو بھی شامل کر لیا گیا۔ جیسا کہ اس نظریہ کے مطابق تمام جان دار اپنے آپ کو ماحول میں زندہ رکھنے کے لیے اس کے مطابق خود کو ڈھال لیتے ہیں۔
اس کی مثال پیش کرتے ہوئے سائنس دانوں نے کہا کہ بعض پانی کے جانور کروڑوں سال پہلے چرند تھے مگر جب زمین پر ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ان کو طویل مدت پانی میں گزارنی پڑی تو ان کی جسامت میں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ طویل عرصے تک پانی میں رہنے کے سبب ان کے پاؤں غائب ہو گئے۔ اور اس طرح وہ مچھلی کی شکل و صورت میں تبدیل ہوگئے۔ اسی طرح انسانی نسل کے بارے میں نظریۂ ارتقا کے حامی کہتے ہیں کہ انسان بن مانس کی نسل سے تھا، جس نے اپنے ماحول کی وجہ سے تبدیل ہو کر ایسی شکل و صورت اختیار کی ہے جیسا وہ آج نظر آتا ہے۔ ان کے مطابق چمپینزی جیسے چوپائے سے دو پیروں پر انسان کے کھڑے ہونے تک نسل انسانی بہت سی ارتقائی منازل سے گزری ہے۔
حسنین عاقب کی غزل کا ایک شعر دیکھیں جو ڈارون کے نظریہ ارتقا کی ترجمانی میں پیش کیا جاسکتا ہے:
فطرت میں آدمی کے تغیر نہیں مگر
انسان کو بدلتے ہیں حالات زندگی
گویا عاقب کہہ رہے ہیں کہ انسانی فطرت میں جو چیزیں انسان کو جبلت یعنی قدرت کی طرف سے ملی ہوئی ہیں وہ کبھی تغیر پذیر نہیں ہوتیں۔ کیوں کہ یہ چیزیں قدرت نے اس کے ڈی۔این۔اے (DNA) میں ودیعت کر دی ہیں۔ یعنی ایک پوری نسل میں وہی عادتیں اور خصلتیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو ان کے آبا و اجداد میں تھیں۔ یعنی وہی طور طریقے جو ہمارے اسلاف میں تھے وہ ہمیں اپنے ڈی۔این۔اے (DNA) میں ہوبہو ملی ہوں گی۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو انسان اپنے ماحول اور حالات زندگی سے سیکھتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی محنت و مشقت سے اپنے جسم کی بناوٹ میں تبدیلی کر سکتا ہے، جس طرح انسان نے اپنے ماضی میں ارتقائی مراحل طے کر کے کیا ہے۔ یعنی حالات زندگی بھی انسان کو بدلنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
قدرت نے انسان کو ایک حساس ذہن عطا کیا ہے، جو ہر چھوٹی بڑی بات پر رد عمل، غور و فکر اور تدبر کرتا ہے۔ذہن کے سوچنے کے سبب ہی تجسس پیدا ہوتا ہے، سوالات جنم لیتے ہیں۔ سوالات کے ذریعے ہی انسان علم حاصل کرتا ہے، تحقیق و تجربہ کرتا ہے اور کسی چیز کی حقیقت سے آشنا ہوتا ہے۔ علمِ منطق اور فلسفہ میں سوالات کی بہت اہمیت ہے۔ مشہور فلسفی فرانسس بیکن جو جدید استقرائی طریقہ کار اور سائنسی طریقہ کار کی منطقی تنظیم کا بانی تھا، وہ سوالات پوچھنے کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ”جو زیادہ پوچھتا ہے وہ بہت سیکھتا ہے“ بیکن کے جملے سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کے نزدیک سوالات کی کافی اہمیت تھی۔ گویا وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ سیکھنے کے لیے سوالات کا پوچھنا ایک اہم مرحلہ ہے۔ اور سوالات تدریسی عمل کا لازمی اور کلیدی جزو ہیں، جس کے بغیر موثر، بہتر اور جدید تعلیمی تدریس ممکن نہیں ہے۔ جدید اور معیاری تعلیم کی بنیاد سوالات کے سبب ہی پڑی۔ اس کی وجہ سے تنقید اور تحقیق کی راہیں ہموار ہوئیں۔
یکم دسمبر 2002ء کو میزائل مین ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام سابق صدر جمہوریہ ہند نے کوسٹ گارڈ پبلک اسکول کے طلبا کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا تھا کہ سائنس سوالات ہی کے ذریعہ سیکھی اور سمجھی جاسکتی ہے۔ وہ جب خود طالب علم تھے تو نئی نئی چیزوں سے متعلق جاننے کے بارے میں انھیں بہت دل چسپی تھی۔ وہ اساتذہ سے بہت سوالات کیا کرتے تھے۔
پروفیسر وہاب قیصر اپنی سائنسی مضامین پر مشتمل کتاب ”سوالوں میں رنگ بھرے" میں رقم کرتے ہیں:
”جب تک ہمارے ذہن میں سوالات اٹھتے رہیں گے اس وقت تک جاننے کا تجسس برقرار رہے گا اور یہی تجسس ہمارے علم میں اضافے کا باعث ہوگا۔ ویسے ہمارے خیال میں سارے علوم کسی نہ کسی سوال کے جواب ہیں۔سوال کیا ہے؟ تو اس کا جواب علم‘ ہے۔ سوال کب ہے؟ تو اس کا جواب’تاریخ‘ ہے۔ سوال کہاں ہے؟ تو اس کا جواب’جغرافیہ ہے۔ سوال کیوں ہے؟ تو اس کا جواب سائنس‘ ہے۔ سوال کیسے یا کس طرح ہے؟ تو اس کا جواب’ٹکنالوجی‘ ہے۔ چنانچہ اگر ہم سائنس اور ٹکنالوجی کو علامت کے طور پر ظاہر کرنا چا ہیں تو ہمیں صرف کیوں کیسے اور کس طرح پر اکتفا کرنا پڑے گا۔"
اس اقتباس کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سائنس ایک ایسا علم ہے جو انسانی تجسس اور تجربے سے جڑا ہوا ہے۔ انسان کے تدبر اور غور و فکر کرنے کے عمل نے اس علم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جب انسان کے ذہن میں کسی سوال نے جنم لیا اور اس نے اس کے بارے میں غور و فکر اور تدبر کیا تو وہ اس کی حقیقت سے آشنا ہوا۔ یعنی یہ سوال ہی تھا جس نے اس علم کی بنیاد رکھی۔ مثال کے طور پر جب انسان نے آسمان میں نکلنے والے سورج اور دن رات کے عمل پر غور و فکر کیا تو علمِ فلکیات کی بنیاد پڑی۔ وہ ایک کے بعد ایک سوال کے جواب تلاش کرنے میں لگا۔ اس طرح ہمارے جدید سائنسی علوم وغیرہ کے اصول و ضوابط وجود میں آئے۔ حسنین عاقبؔ کی غزل کا ایک شعر دیکھیں جس میں وہ سوالات کی اہمیت کو بڑے منفرد انداز میں پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
دانائیاں اٹک گئیں لفظوں کے جال میں
اتنے جواب گم ہیں مرے اک سوال میں
حسنین عاقبؔ کہہ رہے ہیں کہ تمام دانائیاں لفظوں کے جال سے ظاہر ہوتی ہیں۔ یعنی جو جتنا تجسس رکھتا ہے، اس کے ذہن میں اتنے ہی سوال جنم لیتے ہیں۔ جس کا اظہار وہ لفظوں کے تسلسل سے کرتا ہے۔ اس کا ذہن و دل بے قرار رہتا ہے اور وہ کبھی خود سے تو کبھی دوسروں سے طرح طرح کے سوالات کرتا ہے۔ گویا اس کی دانائیاں ہر وقت لفظوں کے جال میں رہتی ہیں۔ ایک سوال کا جواب ملنے کے بعد دوسرا سوال پیدا ہو جاتا ہے۔ اس طرح ایک سوال میں متعدد جواب گم رہتے ہیں۔در اصل حسنین عاقب اس شعر کے ذریعے قاری کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ کتنا حساس دل رکھتے ہیں۔ ٹھیک کسی سائنس داں کی طرح ہر وقت ان کے ذہن میں سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔
سائنس دانوں کے مطابق ہماری زمین کا بڑا حصہ پانی سے گھرا ہوا ہے۔ سمندر زمین کے کُل رقبے کے تقریباً 70 سے 75 فی صد حصّے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ دنیا کے بڑے سمندروں میں بحرالکاہل، بحرِاوقیانوس، بحرِہند اور بحرِ منجمد جنوبی، بحرِ منجمد شمالی وغیرہ کو شامل کیا جاتا ہے۔ اوشین گرافی (Oceanography) ارضیات (Geology) کی ایک شاخ ہے جو سمندروں کا مطالعہ کرتی ہے۔ اس کے تحت سمندر، ساحلی علاقہ، دریاؤں [کے] دہانے، ساحلی پانیوں، سمندر کی تہوں، سمندری مخلوقات، سمندری دھاروں، لہروں، جیو فزیکل، ہائیڈرو ڈائنامکس اور دیگر بہت سے مضامین کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے حیاتیات، کیمسٹری، ارضیات، طبیعیات وغیرہ کی ضرورت ہے۔ اوشیانوگرافی کبھی نہ ختم ہونے والے تجسس کا ایک سمندر ہے۔ اس شعبے میں کام کرنے والوں کو ”اوشین گرافرس“ Oceanographers کہا جاتا ہے۔ اوشین گرافر سمندروں کے تمام پہلوؤں کا سائنسی مطالعہ کرتے ہیں۔ جس میں سمندر کی گہرائی، اس کے ساحل، سمندری شاخوں سے ساحلی پانیوں اور سمندری چٹانوں کا جائزہ لینا بھی شامل ہے۔ سمندر میں معلومات کے بہت سے خزانے چھپے ہوئے ہیں جن کے راز سے پردہ اٹھانا ابھی باقی ہے۔ اس کام میں سمندر کے نیچے گھنٹوں گزارنے کے لیے نمونے جمع کرنا، سروے کرنا، ڈیٹا کا تجزیہ کرنا ہے۔ یہ ایکسپلوریشن پر مبنی فیلڈ ہے، اس لیے اس میں کام کرنے والوں کو سمندر کے آس پاس کے علاقوں میں زیادہ وقت گزارنا پڑتا ہے۔ ایک اوشین گرافر سمندروں اور ساحلی پانیوں کے رازوں کی باریک بینی سے چھان بین کرتا ہے۔ وہ سمندری پانی کی نقل و حرکت، پانی کی تقسیم اور اس کی طبعی اور کیمیائی خصوصیات کا مطالعہ کرتا ہے۔ اوشین گرافی کے موضوع پر حسنین عاقب کی غزل کے اشعار ملاحظہ کریں:
دریا بس اک قدم کبھی ساحل کی سمت آ
دیکھوں گا زور کتنا ہے تیرے ابال میں
سطح کے نیچے کچھ بھی نہیں
کہنے کو میں دریا ہوں
خود کو کبھی میں پا نہ سکا
جانے کتنا گہرا ہوں
ساحل ساحل تیر چکے ہو
آؤ دریا سیر کراؤں
یہ اشعار سمندر کے بارے میں تحقیق کرنے، اس کی گہرائی کو ناپنے اور سمندر کے اندر پائی جانے والی معدنیات اور دریائی جانوروں کے بارے میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ جن کا مطالعہ اوشین گرافی کے اندر کیا جاتا ہے۔ پہلے شعر میں عاقبؔ ”دیکھوں گا زور کتنا ہے تیرے ابال میں“ یعنی ٹھیک کسی اوشین گرافر کی طرح سمندر کے لہروں اور اور اس کے ابال کی پیمائش کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ آخری شعر میں عاقبؔ قاری سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں ”آؤ دریا سیر کراؤں“ یعنی اوشین گرافی کے علم کے بارے میں معلومات فراہم کرانے کی بات کر رہے ہیں۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ چیزوں اور معلومات کو ایک مدت تک یاد رکھتا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے وقت گزرنے کے ساتھ وہ ان کو بھولنے لگ جاتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے اگر ہم چیزوں کو کسی تصویر سے منسلک کر کے یاد کرتے ہیں تو اس سے متعلق ہر چھوٹی بڑی چیز ہمارے ذہن میں محفوظ ہو جاتی ہے۔ جب ہم اس تصویر کو یاد کرتے ہیں تو اس سے متعلق تمام معلومات یاد آنے لگتی ہیں۔ اس کو فوٹوگرافک میموری (Photographic memory) کہتے ہیں۔ یہ ایسی میموری ہوتی [ہے] جس کے ذریعے ہم اپنے ماضی سے متعلق ہر چھوٹی بڑی معلومات کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ درسی کتابوں میں موجود تصاویر طالب علم کی فوٹوگرافک میموری کو بڑھانے میں مدد کرتی ہے۔ حسنین عاقب اپنے اشعار کے ذریعے بڑے منفرد انداز میں فوٹوگرافک میموری کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
غموں کے بیچ جو دل نام کا جزیرہ ہے
ہم اس جزیرے کا جغرافیہ سمجھتے ہیں
وہ اپنے اس شعر میں دل کو جزیرہ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ ساتھ ہی جزیرہ اور علم جغرافیہ جاننے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ در اصل حسنین عاقب کا یہ شعر قاری کو مختلف علوم حاصل کرنے کی طرف مائل کر رہا ہے۔ دل کو جزیرہ کے مثل قرار دے کے موصوف فوٹوگرافک میموری کی تکنیک پر زور دے رہے ہیں۔ اگر ہم دل کو جزیرے کی طرح سمجھ کر ذہن میں محفوظ کر لیں تو اس سے متعلق بہت سی معلومات بہ آسانی ذہن نشین ہو جاتی ہیں۔ مثلا جزیرہ سمندر کی سطح پر بلند خشکی کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے۔ جزیرے پر پہاڑوں سے جھرنے بہتے ہوئے سمندر میں گرتے ہیں۔ اسی طرح ہمارا دل بدن میں ایک جزیرہ نما گوشت کا ٹکڑا ہے جس سے نکلنے والے جھرنے رگوں اور شریانوں کی صورت میں پورے جسم میں خون پہنچاتے ہیں۔ اس تکنیک کے ذریعے ہم علم جغرافیہ اور انوٹمی سے متعلق معلومات کو بہ آسانی ذہن نشین کر سکتے ہیں۔ چیزوں کو سمجھنے اور یاد رکھنے کے لیے فوٹوگرافک میموری کا بہ خوبی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس شعر کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ حسنین عاقب کی شاعری قاری کی ذہنی صلاحیتوں کو فروغ دینے کا کام کرتی ہے۔ اسی غزل کے مقطع کا شعر دیکھیں جو بات میں پوشیدہ نظریہ یعنی سائنسی حقیقت کو سمجھنے کی دعوت دے رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے موصوف اپنے اس شعر میں ایسے لوگوں سے شکوہ کر رہے ہیں جو سائنسی نظریہ سے واقفیت نہیں رکھتے۔
اب اپنے بیچ کہاں ایسے لوگ ہیں عاقبؔ
جو صرف بات نہیں نظریہ سمجھتے ہیں
قدرت نے ہمیں بہت سے بیش قیمتی تحائف سے نوازا ہے۔جو ہمارے نظامِ حیات اور ماحولیاتی نظام کو بر قرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک بیش قیمتی تحفہ ہمارے پہاڑ بھی ہیں۔
ماہرین کے مطابق پہاڑ دنیا میں زمین پر موجود خشکی کا پانچواں حصہ ہیں۔ یہ تقریباً دنیا کی 1/10 آبادی کو رہنے کے لیے گھر مہیا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا میں 80% تازہ پانی انھی پہاڑوں سے جاری ہوتا ہے جس سے میدان، کھیت کھلیان سیراب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوہ ہمالیہ جس سے بہت سے دریا جاری ہوتے ہیں اس کے دامن میں دنیا کی ایک بڑی آبادی زندگی گزارتی ہے۔ پینے کے صاف پانی کے چشمے بھی انھی پہاڑوں سے نکلتے ہیں۔ اس کے علاوہ پہاڑ معدنیات کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ دنیا میں کئی قسم کی معدنیات پہاڑوں ہی سے حاصل کی جاتی ہیں۔ پہاڑوں پر ان کے ماحول کے مطابق مختلف قسم کی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جو مختلف بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور بارشوں کی وجہ سے بھی پہاڑ بنتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مانسون کی بارشیں اسی پہاڑی سلسلے کی وجہ سے ہیں۔
جدید سائنسی تحقیق کے بعد یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ پہاڑ زمین کو نہ صرف قرار بخشتے ہیں بلکہ یہ زلزلوں کو روکنے میں بھی معاون ہوتے ہیں۔ زمین کا توازن قائم رکھنے میں بھی ان کا اہم رول ہے۔ یہ سطحی نہیں بنا بلکہ زمین کے اندر میخوں کی طرح پیوست ہوتے ہیں۔جس کی وضاحت آج کی جدید سائنس بھی کر رہی ہے۔سائنس کے ان انکشافات کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر پہاڑوں کا وجود اس زمین پر نہ ہوتا تو ہماری زمین کا ماحولیاتی نظام بھی برقرار نہیں رہتا۔ ہماری زمین کا قدرتی نظام اور توازن برقرار رکھنے میں ان کی بہت اہمیت ہے۔ حسنین عاقبؔ کا ایک شعر دیکھیں جس میں وہ پہاڑوں کی اہمیت و افادیت کو منفرد انداز میں پیش کر رہے ہیں:
زمینوں کا توازن رکھو قائم
پہاڑوں کو ہدایت دے رہا ہوں
فلسفہ یونانی لفظ ”فلوسوفی“ سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے ”حکمت سے محبت“ کرنا۔ فلسفہ کو تعریف کے کوزے میں بند کرنا ممکن نہیں ہے۔ مختلف فلسفیوں نے اس کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں۔ فلسفہ علم و آگہی کا علم ہے، یہ ایک ہمہ گیر علم ہے جو وجود کے اغراض اور مقاصد دریافت کرنے کی سعی کرتا ہے۔افلاطونؔ کے مطابق فلسفہ اشیا کی ماہیت کے لازمی اور ابدی علم کا نام ہے۔ جب کہ ارسطو کے نزدیک فلسفہ کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ وجود بذات خود اپنی فطرت میں کیا ہے۔ کانٹؔ اسے ادراک و تعقل کے انتقاد کا علم قرار دیتا ہے۔ فلسفہ کو ان معنوں میں ”ام العلوم“ کہہ سکتے ہیں کہ یہ موجودہ دور کے تقریباً تمام علوم کا منبع و ماخذ ہے۔ ریاضی، علم طبیعیات، علم کیمیا، علم منطق، علم نفسیات، معاشرتی علوم سب اسی فلسفہ کے عطایا ہیں۔ حسنین عاقبؔ کی غزل کا ایک شعر دیکھیں جس میں وہ فلسفہ کا ذکر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
جو بات ہم کسی محفل میں یوں ہی بول آئے
بہت سے لوگ اسے فلسفہ سمجھتے ہیں
حسنین عاقب خود بھی اپنی قدر و منزلت سے بہ خوبی آشنا ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ عصر حاضر میں منفرد انداز کا کلام پیش کر رہے ہیں۔ جو سائنسی شعور رکھنے والے طالب علموں کو بھی اپنی کشش اور وسعت معنی کی وجہ سے اپنا گرویدہ بنا رہے ہیں۔ تبھی وہ فلسفہ کی بات کر رہے ہیں۔ یعنی وہ کہنا چاہتا ہے کہ ہماری باتوں کو فضول مت سمجھو کیوں کہ جو بات ہم کسی محفل میں بول رہے ہیں وہ فلسفہ اور منطق سے لبریز ہے۔ جس کو عام سطحی ذہن فضول اور بکواس سمجھ رہے ہیں، جب کہ یہ فلسفیانہ باتیں سائنسی فکر کی ترجمان ہیں۔ان باتوں کو صرف سائنسی فہم رکھنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔
پرندے انسان کے پرانے ساتھی ہیں، تاریخ شاہد ہے انسان نے جب اس کرۂ ارض پر قدم رکھا تب سے پرندوں کا مشاہدہ کرتا ہوا آ رہا ہے۔ پرندوں کی دنیا بھی بڑی حیرت انگیز ہے۔ انسان نے بہت کچھ پرندوں کی کارکردگی سے سیکھا ہے۔ سائنس کی وہ شاخ جس میں پرندوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اس کو آرنتھالوجی (Ornithology) کہتے ہیں۔ جس میں پرندوں کے جسم کی ساخت، ان کے عادات و خصائل، ان کی جبلت، ان کے طرز زندگی کے مختلف پہلو، ان کی غذا اور اس کے حصول کے طریقے، آشیانوں کی تعمیر، ان کے انڈوں اور بچوں کی نگہہ داشت وغیرہ وغیرہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہے۔ عصر حاضر میں سائنس دانوں نے پرندوں پر تحقیق کر کے ان سے متعلق بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ پرندوں کی پرواز کرنے کی صلاحیت نے انھیں کافی متاثر کیا ہے۔ موسم سرما کی آمد پر پرندے غذا اور خوش گوار موسم کے لیے ہجرت کرتے ہیں اور ایک مقام سے اڑ کر لاکھوں میل دور کے مقام پر جاتے ہیں. ہجرت کا یہ سلسلہ عہد قدیم سے چلا آرہا ہے۔ ماہرین نے جب اس عمل پر غور و فکر کیا تو پایا کہ ایک خطے سے دوسرے خطے کی طرف پرندوں کا سفر ہزاروں برسوں سے جاری و ساری ہے۔ پرندوں کی راستہ معلوم کرنے کی صلاحیت انسان کے لیے ابھی تک معما بنی ہوئی ہے۔ وہ کس طرح اپنی منزل کا تعین کرتے ہیں اور پھر کس طرح اس منزل تک پہنچنے کے لیے راستہ طے کرکے اس پر قائم رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو آج تک صحیح معنوں میں حل نہیں ہوسکا۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ پرانے اور بوڑھے پرندے نوعمر پرندوں کو اپنے ساتھ سفر پر لے جاتے ہیں اور انھیں راستہ دکھاتے ہیں۔ پشت در پشت یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اس طرح پرانی نسل ہر نئی آنے والی نسل کی رہنما ثابت ہوتی ہے لیکن یہ بات بھی پایہ تصدیق کو نہیں پہنچ سکی بلکہ ایسی مثالیں بھی سامنے آئیں کہ جس میں نئی نسل پرانی نسل کی مدد کے بغیر نقل مکانی کرتی ہوئی دیکھی گئی۔ اسی طرح پرندوں کی بلندی پرواز اور رفتار کے بارے میں بھی مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ قدیم نظریات کے تحت پرندے پندرہ ہزار، تیس ہزار اور چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے تھے لیکن جدید تحقیق سے یہ بات غلط ثابت ہوئی ہے۔ دراصل مختلف پرندے نقل مکانی کے دوران مختلف بلندیوں پر پرواز کرتے ہیں۔ عام طور پر پرندوں کا غول تین ہزار فٹ کی بلندی سے زیادہ اوپر نہیں جاتا بلکہ بعض اوقات تو اس کے نصف سے بھی کم بلندی پر پرواز کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ میدانی علاقوں کے کچھ پرندے پانچ ہزار فٹ کی بلندی تک پہنچ جاتے ہیں۔
گینر، پیلیکون اور مرغابی کو بعض اوقات آٹھ نو ہزار فٹ کی بلندی پر بھی پرواز کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ سارس کو بیس ہزار فٹ کی بلندی تک پرواز کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ غالباً داڑھی والا گدھ ایسا پرندہ ہے جو سب سے زیادہ بلندی پر پرواز کرتا ہے۔ 1921ء میں ڈاکٹر وولاس ٹن نے ایسے ہی ایک گدھ کو چوبیس ہزار فٹ کی بلندی پر ماؤنٹ ایورسٹ پر اڑتے ہوئے دیکھا۔ میجر چیمین نے سائمن نامی دس ہزار فٹ کی پہاڑی پر پرندوں کے غول دیکھے. پرندے عام طور پر بیس اور چالیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے تجاوز نہیں کرتے۔ لیکن بعض پرندے مثلاً مرغابی، شاہین، شکرہ اور عقاب ایسے پرندے ہیں جن کی رفتار نقل مکانی کے دوران سو میل فی گھنٹہ تک ہوجاتی ہے۔ پہاڑی ابابیل کو سب سے تیز رفتار پرندہ شمار کیا گیا ہے. اس کی رفتار دو سو میل فی گھنٹہ تک ہوتی ہے۔ حسنین عاقب کی غزل کا ایک شعر دیکھیں جو پرندوں کی عادت و اطوار اور ان کے پرواز بھرنے کے عمل کا ترجمان نظر آتا ہے:
یہ سوچتے ہی پرندوں نے راستہ بدلا
بلندیوں کے سفر میں تھکان زیادہ ہے
یہاں اس شعر میں عاقب پرندوں کی اس عادت پر روشنی ڈال رہے ہیں، جس میں پرندے اپنے دوران سفر کوئی رکاوٹ آنے پر کس طرح اپنا راستہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی قدرت نے انھیں صلاحت بھی دی ہے کہ وہ آنے والی موسمی تبدیلی یا ہواؤں کے رخ کو پہلے ہی بھانپ لیتے ہیں۔ کب کس لمحہ کتنی رفتار سے اڑنا ہے، کتنی بلندی پر اڑنا ہے، کس سمت میں جانا ہے۔ تاکہ بغیر تھکان کے وہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔ یہ تمام چیزیں پرندے پرواز کرتے ہوئے تعین کر لیتے ہیں۔
سائنس اس بات پر بھی تحقیق کر رہی ہے کہ انسان کی اس کائنات میں کیا اہمیت ہے۔ اگر انسان کا وجود نہ ہوتا تو اس کائنات کی کیا شکل و صورت ہوتی۔ کیا اس کائنات کا بھی وجود ہوتا۔ ہمارے زمین، سورج اور نظام شمسی، اور دیگر اجرام فلکی اسی طرح موجود ہوتے۔ ان تمام سوالات کا جواب آج کی سائنس تلاش کر رہی ہے۔اس بات کی ترجمانی میں حسنین عاقب کا ایک شعر دیکھیں:
اے خدا میں تو بس یہی سمجھا
میں نہیں تو یہ کائنات نہیں
در اصل حسنین عاقب کے ذہن میں بھی کہیں نہ کہیں یہ ہی سوالات گردش کر رہے ہیں۔ جس کی تلاش جدید سائنس کر رہی ہے۔ وہ خدا سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے میرے مالک میں تو بس یہ ہی سمجھا ہوں کہ یہ تمام کائنات انسان کے لیے خلق کی گئی ہے۔ اور کہیں نہ کہیں کائنات کے ہر چھوٹے بڑے ذرے سے انسان کا وجود جڑا ہوا ہے۔ یہاں یہ شعر گایا تھیوری (Gaia Theory) سے بھی جڑ جاتا ہے۔ یہ مفروضہ سب سے پہلے برطانوی سائنس داں جیمز لیولاک نے 1972 میں اپنے مقالے ‘Gaia As Seen Through the Atmosphere’ میں پیش کیا تھا۔ اس مفروضے کا نام یونانی دیوی ‘گایا’ کے نام پر رکھا گیا ہے جو زمین کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ تھیوری بتاتی ہے کہ وہ زندگی ہی تھی جس نے اپنی محنت سے اس زمین کو رہنے لائق بنایا۔ یعنی آج ہم جو زمین پر جینے کے مناسب حالات دیکھتے ہیں یہ سب ہماری کوشش کا ہی نتیجہ ہے۔ اگر انسان کا وجود اس کائنات میں نہ ہوتا تو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کائنات اس شکل و صورت میں نہ ہوتی۔ یعنی کائنات کے وجود کے لیے انسان  بھی ایک الگ اہمیت رکھتا ہے۔
عاقبؔ کے کلام کی یہ انفرادیت ہے کہ وہ نہ صرف سائنسی فکر پر مبنی اشعارقلم بند کرتے ہیں بلکہ اس بات کی طرف بھی متوجہ کرتے ہیں کہ کس طرح سائنسی فکر پر مبنی اشعار پیش کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً ان کے یہ اشعار دیکھیں: لفظوں کے ہیر پھیر سے بنتی نہیں غزل
شعروں میں تھوڑی گرمی جذبات بھی تو ہو
ایسا معلوم ہورہا ہے گویا وہ شاعروں سے مخاطب ہیں اور انھیں پیغام دے رہے ہیں کہ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق کس طرح اشعار کو ڈھال کر پیش کیا جائے۔یعنی وہ کہہ رہے ہیں کہ غزلیں صرف لفظوں کے ہیر پھیر سے آراستہ نہیں ہونی چاہئے بلکہ ان میں حقیقی جذبات و احساسات کی ترجمانی ہونی چاہئے اور جو انسانی نفسیات کی غماز بھی ہوں۔ تاکہ عصر حاضر کا قاری اس سے جڑ سکے۔
ایک دوسری جگہ کہتے ہیں:
اپنے شعروں میں رکھ شرارے کچھ
کچھ کنایے بھی اور اشارے کچھ
عاقبؔ شاعری کو اشارے اور کنایے سے اشعار کو سجانے کی بات کر رہے ہیں۔ اور کیسے اشارے اور کنائے جس میں شرارے موجود ہوں، یعنی انسانی ذہن کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہوں۔ اس کے ساتھ ہی وہ اردو ادب کے قاری سے کچھ امیدیں بھی وابستہ رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ قاری کا علم وسیع ہو اور وہ ایک تحقیقی ذہن رکھتا ہو تاکہ وہ اپنے قدیمی سرمایے کو بھی از سر نو مختلف موضوعات خاص طور سے سائنس کی روشنی میں جانچ پرکھ کر نئے نئے تنقیدی اور تحقیقی انکشافات کر سکے:
کتنے پہلو غزل میں تلاشے گئے
سلسلہ جاری ہے انکشافات کا
وہ اپنے کلام کے ذریعے قاری کو ہر لمحہ متحرک رکھنا چاہتے ہیں. اس لیے وہ ایسے لوگوں کو طنز کا نشانہ بھی بناتے ہیں جو عصر حاضر میں سائنسی موضوعات سے آگہی نہیں رکھتے ہیں:
اب اپنے بیچ کہاں ایسے لوگ ہیں عاقبؔ
جو صرف بات نہیں نظریہ سمجھتے ہیں
موصوف اس شعر میں شکوہ کر رہے ہیں کہ ہمارے بیچ ابھی تک ایسے لوگوں کی کمی ہے جو سائنسی فکر اور نظریات سے آشنائی نہیں رکھتے۔ پھر ان کے پیچ ایسا کلام کس طرح پیش کیا جائے، جو سائنسی فکر سے مزین ہو۔
ایک دوسری جگہ دشت نوردی کا شوق رکھنے والے لوگوں کو طنز کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں:
اب کیا اصولِ دشت نوردی کی بات ہو
الجھے پڑے ہیں پاؤں شکاری کے جال میں
عاقبؔ اس شعر کے توسل سے اس بات کی دعوت دے رہے ہیں کہ ہمیں دشت نوردی کے اصول و ضوابط سے بھی آشنا ہونا چاہئے۔ صرف دشت نوردی ہی کافی نہیں ہے۔انسان کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ کس طرح ہم ان جنگلات اور اس میں زندگی گزارنے والی مخلوق کا تحفوظ کر سکتے ہیں۔ اور ہماری زندگی اور ماحول کا توازن برقرار رکھنے میں ان کی کیا اہمیت ہے۔ اگر ہم ان اصولوں سے متعلق آگہی حاصل کر سکے تبھی دشت نوردی کا اصل مزہ آئے گا۔ عاقبؔ اس شعر میں ایسے افراد پر طنز کیا ہے جو لوگ دشت نوردی سیر و تفریح اور شکار کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ انھیں چاہئے کہ دشت نوردی کے اصل مقاصد کو سمجھیں۔
وہ ایسے لوگوں کو بھی طنز کا نشانہ بناتے ہیں جو صرف زندگی کو آب و دانے کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ایسے لوگوں کے فکر کا دائرہ بھی مختصر ہوتا ہے اور وہ کائنات کے رازوں سے آشنائی نہیں رکھ پاتے تبھی عاقبؔ ایسے لوگوں پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں:
وہ آسماں کی بلندی تک آتے بھی کیسے
رسائی فکر کی جن کی تھی آب و دانے تک
عاقبؔ اپنے کلام میں بغیر کسی وجہ کے لوگوں کو طنز کا نشانہ نہیں بناتے بلکہ اس کے پیچھے ایک مقصد ہوتا ہے کہ وہ سائنسی فکر اور غور و فکر کو عوام میں عام کرنا چاہتے ہیں۔ ایک جگہ جیوتش سے مخاطب ہو کر اس کو ستاروں کی اصل حقیقت کو سمجھنے یعنی علم فلکیات کو سمجھنے کی دعوت دے رہے ہیں:
پیش بینی تری بجا جیوتش
کہہ رہے ہیں مگر ستارے کچھ
عاقبؔ کی شاعری کے منفرد پہلو ہیں۔ جن کو سائنسی نقطہ نظر [سے] پرکھنے پر قاری پر ان کے کلام کے نئے نئے مفاہیم واضح ہوتے ہیں۔ یہ عاقبؔ کی وسیع النظری اور ان کے مطالعہ کا کمال ہے جس کے سبب ان کے اشعار میں مختلف سائنسی مضامین سمٹ کر آگئے ہیں۔ ایسے ہی کچھ منفرد اشعار ملاحظہ کریں جو اپنے دامن میں مختلف مضامین سمیٹے ہوئے ہیں:
ہوا کے شور سے چہرے کئی اترنے لگے
یہ کیسے لوگ ہیں جو زندگی سے ڈرنے لگے
عاقبؔ کا یہ شعر ہوا کے شور یعنی فونو فوبیا (Phonophobia) کا ترجمان ہے۔ جس میں انسان مختلف آوازوں سے خوف کھا کر رد عمل کرتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کے چہرے کے ہاؤ بھاؤ تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے جس میں مبتلا افراد تنہائی میں زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایک شعر میں وہ جینیاتی سائنس (Genetic Science) کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
تم نے چہرہ تو پڑھ لیا میرا
رہ گیا کیا ہے اب چھپانے کو
اس شعر میں عاقبؔ کہہ رہے ہیں کہ عصر حاضر میں سائنس دانوں نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ انسان کے چہرے یعنی اندرون کو بھی پڑھ لیا ہے۔ جینیاتی سائنس کی بدولت ماہرین نے انسانی ڈی این اے کو بھی ڈی کوڈ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اب انسان کی ذات میں چھپانے کو کچھ نہیں بچا ہے۔
ایک اور شعر ملاحظہ کریں جس میں وہ سورج کے اندر ہونے والے Nuclear Fusion کی ترجمانی کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں جس کے سبب سورج روشنی، حرارت اور گرمی خارج کرتا ہے:
روشنی کا کوئی حساب نہیں
یار سورج ترا جواب نہیں
الغرض یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے وقت میں اگر اردو ادب میں سائنسی فکر کی ترجمانی سے متعلق تحقیق کی جائے گی یا اس پر کوئی کام کیا جائے گا تو حسنین عاقبؔ کا نام سر فہرست ہوگا۔ اور حسنین عاقبؔ کا حوالہ دے کر شعرا کے کلام پر تبصرہ کیا جائے گے۔ آخر میں حسنین عاقب کے ہی ایک شعر پر میں اپنی بات مکمل کرتا ہوں:
تم کو بھلا نہ پائے گی تاریخ اب کبھی
عاقبؔ تم اب حوالۂ بنیاد ہو گئے
حوالہ جات:
(۱)۔رم آہو، مجموعۂ غزلیات حسنین عاقبؔ
(۲)۔ہمہ آفتاب بینم (حسنین عاقبؔ:تقدیر و تفسیر) مرتب محسن ساحلؔ
(۳)۔سوالوں میں رنگ بھرے، (سائنسی مضامین) وہاب قیصر،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،جامعہ نگر،نئی دہلی
(۴)۔پہاڑلوگوں کے لیے کیا فوائد فراہم کرتے ہیں؟ (https://ur.myubi.tv)
(۵)۔پہاڑوں کا عالمی دن (Jasarat Blog) (www.jasarat.com)
(۶)۔باب: فلسفہ۔(http://ur.m.wikipedia.org)
(۷)۔پرندوں کا راستہ معلوم کرنا انسانیت کے لیے معمہ، ماہنامہ عبقری (http://ubqari.org/article/ur/details/2939)
(۸)۔علوم سمندر (Oceanography) (http://ur.m.wikipedia.org)
***
انجینئر محمد عادل
ہلال ہاؤس
مکان نمبر 4/114
نگلہ ملّاح سول لائن علی گڑھ
یو پی انڈیا
mob:9358856606
***
صاحب مقالہ کی گذشتہ نگارش :اردو غزل میں فوبیا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے