شاملی کا سفر

شاملی کا سفر

شاہ عمران حسن
نئی دہلی

القرآن اکیڈمی کے ڈائریکٹر مفتی محمد اطہر شمسی (38سال) کی دعوت پر ریاست اتر پردیش کے تاریخی ضلع شاملی کا سفر ہوا۔ نئی دہلی سے 11 ستمبر 2022 کو روانگی ہوئی اور اسی دن رات کو دیر گئے واپسی ہوئی۔ اس سفر میں مختلف قسم کے تجربات و مشاہدات پیش آئے، جس کی مختصر روداد یہاں درج کی جاتی ہے۔
گذشتہ چھ ماہ سے شاملی کے سفر کی بات چل رہی تھی، مگر مصروفیات کے سبب اس سفر میں تاخیر ہوتی رہی، تاہم میں اپنے مصروف ترین اوقات میں سے ایک دن کا وقت نکال کر شاملی کے سفر پر روانہ ہو گیا، بہ قول صابر ظفر:
اک آدھ بار تو جاں وارنی ہی پڑتی ہے
محبتیں ہوں تو بنتا نہیں بہانہ کوئی
میں نے شاملی کا نام پہلی مرتبہ سنہ 2009ء میں سنا تھا، جب کہ ہندستان کے معروف عالم دین اور تخلیقی مفکر مولانا وحیدالدین خاں کے ہمراہ نئی دہلی سے بذریعہ کار ڈاکٹر محمد اسلم خان کی دعوت پر سہارن پور جارہا تھا۔ اس وقت میں راستے میں شاملی نامی علاقے کا ایک بورڈ نظر آیا تھا۔ اسی راستے سے ہماری کار گزری تھی۔ یہ پہلے شمالی  اتر پردیش کے ضلع مظفرنگر کا ہی ایک حصہ تھا۔ سنہ2011ء میں مایاوتی اتر پردیش کی وزیراعلا تھیں۔ انھوں نے شاملی کو مظفر نگر سے الگ کر ایک الگ ضلع بنا دیا۔ اس کا نام انھوں نے پر بھودھ نگر رکھا تاہم 2013ءمیں جب اکھلیش یادو اتر پردیش کے وزیراعلا بنے تو انھوں نے پربھودھ نگر کا نام دوبارہ شاملی رکھ دیا۔
شاملی سے براہ راست کئی قومی شاہ راہیں جڑی ہوئی ہیں؛ دہلی سہارن پور، میرٹھ کر نال اور پانی پت خاتیمہ قومی شاہ راہیں۔ اس کی وجہ سے شہر سے کہیں بھی آنا جانا بہت آسان ہے۔ سنہ 2017ء میں شاملی کو قومی دارالحکومت علاقہ (National Capital Region-NCR) کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس کے بعد اس شہر کی اہمیت اتر پردیش کے دیگر شہروں کے مقابلہ میں مزید بڑھ گئی۔ شاملی ضلع ہندستان کی جنگ آزادی کی تاریخ کے اعتبار سے بھی اہم ہے۔ سنہ1857ء میں علماے کرام نے شاملی کے میدان میں انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی تھی، جسے مسلمانوں کی تاریخ میں شاملی جہاد کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ نئی دہلی سے شاملی کا فاصلہ بذریعہ سڑک 107 کلومیٹر ہے۔ یہ دوری عام طور پر تین گھنٹے کے اندر پوری ہو جاتی ہے۔ میں نئی دہلی کے سب سے قدیم بس اڈے مہارانا پرتاپ انٹراسٹیٹ بس ٹرمنل (Maharana Pratap Inter State Bus Terminus ) پہنچا۔ وہاں سے ایک بس میں سوار ہو کر شاملی کے لیے نکل پڑا۔
نئی دہلی کا یہ بس ٹرمنل کشمیری گیٹ کے علاقے میں واقع ہے، اس لیے بس ٹرمنل کو کشمیری گیٹ آئی ایس بی ٹی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کا قیام سنہ 1976ء میں عمل آیا۔ سنہ2013ء میں اس کی جدید کاری کی گئی۔ سواریوں کی سہولت کے لیے دسمبر 2002ء میں یہاں سے میٹرو سروس شروع کی گئی۔ یہاں ایک ساتھ 166 بسیں کھڑی ہوسکتی ہیں اور یومیہ یہاں سے1800 بسیں مسافروں کو لے کر ان کے منزل تک جاتی ہیں۔ آئی ایس بی ٹی سے براہِ راست جموں و کشمیر، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، اتر پردیش، پنجاب، ہریانہ اور راجستھان کے لیے بسیں روانہ ہوتی ہیں۔ اس سے قومی دارالحکومت نئی دہلی کی قریبی ریاستوں میں رہنے والے لوگوں کو بہت سہولت ہوتی ہے۔
میں گھر سے فجر کی نماز کے بعد 5 بج کر 35 منٹ پر نکلا تھا۔ تاہم جب کشمیری گیٹ بس ٹرمنل پہنچا تو پتا چلا کہ شاملی کے لیے براہِ راست بسیں آج تاخیر سے جائیں گی کیوں کہ اتوار کی وجہ سے بسوں کے ڈرائیور چھٹی پر ہیں، اس لیے مجھے  کنکٹنگ بس (connecting bus) لینی پڑی۔ میں ہریانہ روڈویز کی بس میں سوار ہوا۔ بس کا کرایہ 95 روپے تھا۔ پانی پت ہماری پہلی منزل تھی۔ پانی پت ریاست ہریانہ کا ایک تاریخی ضلع ہے، جہاں بڑی بڑی عمارتیں اور فیکٹریاں قائم ہیں۔ دہلی سے پانی  پت کی دوری محض دو گھنٹے میں پوری ہوگئی۔ میں دہلی سے  7 بج کر 49 منٹ پر بس میں سوار ہوا اور صبح کے 9 بج کر 40 منٹ پر بس پانی پت کے مرکزی بس اسٹینڈ پہنچ چکی تھی۔ راستے میں ہر طرف فطرت کا نظارہ تھا اور بس تارکول کی چکنی سڑک پر 100 اور 120 کلو میٹر کی رفتار سے دوڑ رہی تھی۔ جگہ جگہ ڈھابے نظر آرہے تھے مگر ان میں کوئی مسلمانوں کا ڈھابہ نظر نہیں آیا، یعنی معاشی اعتبار سے آج بھی مسلمان بہت ہی پس ماندہ ہیں۔ مجھ کو کم ہوتے ہوئے کھیت اور بڑھتی ہوئی عمارتوں کا جنگل بھی نظر آیا۔ جگہ جگہ فلک بوس عمارتیں نظر آ رہی تھیں اور کچھ زیر تعمیر تھیں۔ پہلے جب میں سفر کرتا تھا تو کھیتوں کے درمیان اور سڑک کے کنارے عمارتیں اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھیں، مگر اب آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ لوگ کھیتوں میں عمارتیں بنانے لگے، کیوں کہ شہروں کی آبادی بھر چکی ہے۔ نئی دہلی میں کثافت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ یہاں سانس لینا بھی مشکل ہے، جب میں راستے سے گزر ہا تھا تو ہر طرف گاوں کی کثافت سے پاک ہوا سرور بخش رہی تھی۔
مجھے یاد آیا، بچپن اور لڑکپن کے دنوں میں، جب میں سفر کرتا تھا تو راستے میں میل کا پتھر (mile stone) نظر آیا کرتا تھا۔ اب اس میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اب میل کے پتھر کے ساتھ ساتھ کھمبے پر علاقے کے بورڈ نظر آتے ہیں، جس پر مقامات اور فاصلے کلو میٹر درج ہوتے ہیں، ڈرائیور کو دائیں اور بائیں جانب میل کے پتھر کو دیکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ اُوپر دیکھ کر وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس نے کتنے فاصلے اور طے کرنے ہیں۔
جب میں پانی پت پہنچا تو پانی پت کی جنگوں کی کہانی میرے نظروں میں گھومنے لگی، جو کہ میں نے بچپن کے دنوں میں اپنی درسی کتابوں میں پڑھی تھی۔ پانی پت میں پے در پے تین جنگیں ہوئیں جنھوں نے ہندستان کی سیاسی تاریخ کو بہت زیادہ متاثر کیا تھا۔پانی پت کی پہلی جنگ مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر اور دہلی کے سلطان ابراہیم لودھی کے درمیان سنہ 1526ء میں ہوئی۔ ابراہیم لودھی کے پاس ایک لاکھ سے زائد فوجی جوان تھے، وہیں بابر کے پاس محض بارہ ہزار۔ تا ہم بابر کی حکمت عملی سے ابراہیم لودھی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلی جنگ کے محض 30 برسوں کے بعد پانی پت کے میدان میں دوسری جنگ سنہ 1556ء بیرم خان اور ہیموں بقال کے درمیان ہوئی، اس جنگ میں بیرم خان کو فتح ملی اور ہیموں بقال زخمی ہوگیا اور اسے بیرم خان کے سپاہیوں نے گرفتار کر لیا۔ پانی پت کی تیسری جنگ سنہ1761ء میں ہوئی۔ یہ جنگ احمد شاہ ابدالی اور مراٹھوں کے سر براہ سدا شیو راؤ بھاؤ کے درمیان ہوئی۔ اس جنگ میں احمد شاہ ابدالی کو فتح ہوئی۔ پانی پت کی تیسری جنگ تاریخ میں سب سے زیادہ مشہور ہوئی۔ پانی پت شعر و ادب کی بھی سرزمین رہی ہے۔ ہندستان کے مشہور ادیب اور سوانح نگار مولانا الطاف حسین حالی پانی پت میں 1837ء میں پیدا ہوئے اور اسی مقام پر سنہ 1914ء میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کی تحریر کردہ کتابوں میں حیاتِ سعدی، یادگارِ غالب، حیاتِ جاوید اور مقدمہ شعر و شاعری اور مسدس حالی وغیرہ خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی عمدہ شاعری کی ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان ایک تعلیم یافتہ قوم بنیں، شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس وقت کہا تھا:
بس اب وقت کا حکم ناطق نہیں ہے
کہ جو کچھ ہے دنیا میں تعلیم ہی ہے
راستے میں جگہ جگہ ترنگے، نصف سرنگوں لہراتے ہوئے دکھائی دیے، تو مجھے یاد آیا کہ ہندستان نے برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم کے احترام کے طور پر آج سرکاری سوگ کا اعلان کیا ہے۔ اسی لیے پورے ملک میں ترنگا نصف سرنگوں لہرایا گیا۔ الزبتھ تین بار ہندستان کے سفر پر آئیں تھیں، جب ان کی شادی ہوئی تو مہا تھا گاندھی نے انھیں رومال تحفہ میں بھیجا تھا۔
برطانیہ کی ملکہ الزبتھ کا نام میں بچپن سے سنتا آ رہا ہوں، ان کی زندگی کی کہانی واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ ان کا انتقال 96 سال کی عمر میں گذشتہ 8 ستمبر 2022ء کو اسکاٹ لینڈ کے بالمورل کیسل میں ہوا، جہاں وہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے گئی ہوئی تھیں۔ ان کا پورا نام الزبتھ الیگزینڈرا میری (Elizabeth Alexandra Mary) تھا۔ وہ 21 اپریل 1926ء کو پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی سرکاری تدفین 19 ستمبر 2022ء کو ہندستانی وقت کے لحاظ سے سہ پہر ساڑھے تین بجے لندن کے علاقے ویسٹ منسٹر ایبی میں ادا کی گئی۔ جس میں ساری دنیا سے 500 اہم شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا. جب کہ ہندستان سے صدر دروپدی مرمو نے شرکت کی تھی۔ ان کی موت پر عام طور پر ساری دنیا میں لوگ غم گین دکھائی دیے تاہم ارجنٹائنا کے ایک ٹی وی اینکر سین یا کوکینیو (Santiago Cineo) نے ان کی موت پر جشن مناتے ہوئے اعلان کیا کہ اچھا ہوا بڑھیا جہنم رسید ہوئی، مجھے اس کی موت کا بہت دنوں سے انتظار تھا۔
اس میں شک نہیں کہ ملکہ الزبتھ نے ایک بھر پور زندگی گزاری۔ ان کے شوہر فلپ (Prince Philip) کا انتقال گذشتہ برس 9 اپریل2021ء کو ہوا تھا۔ دونوں نے شادی کی 70 ویں سالگرہ ساتھ منائی تھی۔ جب کہ اس سال انھوں نے اپنی 96ویں یوم پیدائش جون میں منائی تھی۔ انھوں نے 100 سے زائد ممالک کے اسفار کیے۔ فرانس اور کینیڈا وہ بار بار جاتی رہیں۔ سنہ 1996ء میں الز بتھ نے چین کا سرکاری دورہ کیا تھا۔ یہ کسی بھی برطانوی شاہی حکمران کا چین کا پہلا دورہ تھا۔ سنہ 2015ء میں انھوں نے بیرون ملک کے سفر پر جانا بند کردیا۔ ہر انسان کو بین الاقوامی سفر کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے تاہم ان کے لیے ایسا نہیں تھا۔ وہ دنیا بھر میں سفر کے لیے پاسپورٹ کی محتاج نہیں تھیں۔ انھوں نے اپنی زندگی میں 12 ہزار تقریبات میں حصہ لیا اور چار ہزار قوانین کی شاہی منظوری دی۔ ان کی زندگی میں 14 وزیر اعظم تبدیل ہوئے۔ آخری وزیر اعظم محترمہ لیز ٹرس (Liz Truss) ہیں، جنھوں نے ان کی وفات سے محض دو دن قبل حلف لیا تھا۔ ملکہ برطانیہ کے کردار کو تقریباً 100 بار مختلف فلموں اور ڈراموں میں پیش کیا جا چکا ہے۔ ملکہ الزبتھ کی کہانی بتاتی ہے کہ خواہ آپ دنیا میں کوئی بھی مقام حاصل کر لیں ، آپ کو ایک دن اس دنیا کو چھوڑ کر جانا ہی پڑے گا، موت سے آپ مقابلہ نہیں کر سکتے، بڑا آدمی بھی مر جاتا ہے اور چھوٹا آدمی بھی مر جاتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ بڑے کی موت خبر بن جاتی ہے اور چھوٹے انسان کی مو کوئی سرخی نہیں بنا پاتی۔ امیر مینائی نے درست کہا ہے:
ہوئے نام ور بے نشاں کیسے کیسے
زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے
پانی پت کے بعد ہماری دوسری منزل کیرانہ تھی۔ اصلاً میں کیرانہ ہی آیا تھا۔ کیرانہ شاملی سے محض 10 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ پانی پت بس اسٹینڈ قدرے صاف نظر آیا۔ کیرانہ کے لیے 9 بج کر 54 منٹ پر بس میں سوار ہوا۔ پانی پت سے کیرانہ کی دوری 22 کلو میٹر ہے۔ بس والے نے صرف 30 روپے کرایہ لیا۔ کیرانہ پہنچنے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا۔
10 بج کر 51 منٹ پر میں نے کیرانہ کی سر زمین پر قدم رکھا۔ مسلمانوں کی اکثریت والا یہ قصبہ بھی دیگر مسلم اکثریتی علاقے جیسا ہی لگا۔ کوئی الگ سی جاذبیت مجھے یہاں نظر نہیں آئی۔
راستے میں سوشل میڈیا کے ذریعہ پتہ چلا کہ آج مفتی محمد اطہر شمسی کا ایک مضمون ’دینی مدارس: قرآن کاری یا جدید کاری‘ معروف اردو روزنامہ انقلاب میں شائع ہوا ہے۔ اس میں انھوں نے دینی مدارس کے مروجہ تعلیمی نصاب پر گفتگو کی تھی۔ اس تعلق سے انھوں نے لکھا تھا۔ مدارس کا موجودہ نصاب مروجہ فقہی محور کے ارد گرد گردش کرتا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مدارس کے نصاب کا محور قرآن کو بنا دیا جائے۔ قرآن اور مروجہ فقہ کا ایک بڑا فرق یہ ہے کہ مروجہ فقہ انسانی اجتہادات و استنباطات کا ایک وقت مجموعہ ہے جو کہ آج سے سینکڑوں برس قبل کیے گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ صدیوں قبل کیے گئے اجتہاد ابدی طور پر زمانہ کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ اس کے برعکس قرآن ایک ابدی کتاب ہے جس کے اصول لازوال ہیں۔ اس میں پیش کیے گئے زندگی کے ضابطے بھی فرسودہ نہیں ہوتے۔ وہ بدلتے زمانے کا ساتھ دینے کے لیے ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں۔ ایسے میں مدارس اسلامیہ کے نصاب کا محور اگر قرآن کے افکار، نظریات، مضامین اور اصولِ حیات قرار پا جائیں تو مدارس کے نصاب کی جدید کاری کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ قرآنی افکار اور مضامین ہر زمانہ میں جدید رہتے ہیں۔ اس لیے اصل ضرورت اس بات کی ہے مدارس اسلامیہ کے نصاب کی’ قرآن کاری‘ کر دی جائے۔ ان کی جدید کاری کا مطالبہ خود ہی دم توڑ دے گا۔
جب میری ملاقات مفتی محمد اطہر شمسی سے ہوئی تو میں نے کہا کہ آپ نے لکھنے کا سلسلہ بہت اچھا شروع کیا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس قسم کی تحریریں منظر عام پر آئیں، فی الوقت اچھا لکھنے والوں کی اردو میں بہت زیادہ کمی ہے۔ مولانا وحیدالدین خاں کی وفات کے بعد اس قسم کے مضامین لکھنے والے اور بھی کم ہوگئے ہیں۔ اس خلا کو آپ پورا کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ سب بار بار آپ کی توجہ دینے کے سب ممکن ہوسکا ہے۔ ورنہ میں، تو مضامین لکھنے کا سلسلہ بہت پہلے ہی ترک کر چکا تھا۔
میں نے کیرانہ کی سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد سب سے پہلے مفتی محمد اطہر شمسی کو فون کیا۔ میں ان کے محلہ بساتیان کی طرف روانہ ہو گیا۔ انھوں نے مجھے  دیکھتے ہوئے میرا والہانہ استقبال کیا۔ ایسا لگا کہ جسے کوئی بچھڑا یار ملا ہو۔ وہ بار بار میرا شکریہ ادا کرنے لگے کہ سفر کی صعوبتوں کو برداشت کر کے میں صرف ان سے ملنے اتنی دور آیا ہوں۔ جب میری مفتی محمد اطہر شمسی سے ملاقات ہوئی تو مجھ کو ان کے تعلق سے بہت سی باتیں یاد آ گئیں۔ جب میں نے پہلی ملاقات میں ان سے پوچھا تھا کہ آپ کہاں سے ہیں تو انھوں انگریزی میں جواب دیا تھا: آئی ایم فروم کیرانہ (I am from Kairana.) اور میں نے سمجھا تھا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم فروم کیرالہ (I am from Kerala.)۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ براہِ راست گفتگو کے دوران بھی کان سننے میں غلطی کر جاتے ہیں۔ اس لیے دین اسلام میں تعلیم دی گئی ہے کہ سنی سنائی باتوں کی تحقیق کی جائے۔ مفتی محمد اطہر شمسی سے میری ملاقات سنہ 2007ء کے نصف آخر کی ایک صبح ہوئی، جب کہ میں اور وہ دونوں مولانا وحیدالدین خاں کے ہفتہ وار لیکچر میں شریک ہوئے تھے۔ اس وقت مفتی محمد اطہر شمسی کی مظاہر العلوم (سہارن پور) سے تعلیم جاری تھی اور ان دنوں میں بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ کا طالب علم تھا۔ اس وقت انھوں نے میری ڈائری میں کچھ لکھا تھا۔ صد افسوس کہ وہ ڈائری گم ہوگئی اور میرا بہت سا علمی اثاثہ بھی ضائع ہوگیا۔ اس کے بعد برادرم مفتی محمد اطہر شمسی سے برابر ملاقاتیں اور باتیں ہوتی رہیں، یہاں تک کہ انھوں نے ’القرآن اکیڈمی‘ قائم کر لیا۔ میں ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدر آباد چلا گیا، وہاں تقریباً تین سالوں تک مقیم رہا۔ جنوبی ہندستان میں رہنے کے سبب، دفتری مشغولیت اس قدر زیادہ تھیں کہ مشرقی ہندستان والوں سے روابط بہت کم ہو گئے، مجھے جنوبی ہندستان کی سرزمین راس نہ آئی، اس لیے میں دوبارہ اپنے وطن ثانی یعنی نئی دہلی لوٹ آیا۔
نئی دہلی واپس آنے کے بعد بھی لوگوں سے رابطے از سر نو بحال ہوئے، ان میں مفتی محمد اطہر شمسی بھی ایک ہیں۔ مفتی محمد اطہر شمسی ایک با صلاحیت عالم دین ہیں، ان سے ملاقات یا بات ہمیشہ خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ اس سفر کے دوران انھوں نے تفصیل سے اپنے تعلیمی سفر کی روداد سنائی۔ وہ جامعہ مظاہرالعلوم سہارن پور سے فارغ ہیں۔ وہاں سے انھوں نے افتاء تک تعلیم حاصل کی ہے۔ زمانہ طالب علمی سے ہی وہ غیر نصابی کتابوں میں دل چسپی لینے لگے تھے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دیگر طالب علموں کے مقابلے میں  کسی چیز کو دیکھنے اور سمجھنے کا ان کا اپنا ایک الگ نظریہ بنا، کیوں کہ وہ ایک نئی دنیا سے متعارف ہو چکے تھے۔
میں جب کیرانہ پہنچا تو ایک ساتھ میرے ذہن میں بہت ساری باتیں گھومنے لگیں۔ یہی وہ بستی ہے جہاں عالمی شہرت یافتہ شاعر مظفر رزمی پیدا ہوئے تھے۔ ان کا ایک شعری مجموعہ’ لمحوں کی خطا‘ منظر عام پر آچکا ہے۔ اسی مقام پر وہ سنہ 1936ء میں پیدا ہوئے اور یہیں سنہ 2012ء میں ان کا انتقال ہوا۔
کسی کسی شاعر کے بے شمار اشعار زبان زد عام ہوتے ہیں تو کسی شاعر کا صرف ایک شعر مشہور ہو جاتا ہے۔ مظفر رزمی بھی ایسے ایک شاعر تھے جن کا ایک شعر بے پناہ مقبول ہوا، وہ شعر ہے:
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
کیرانہ سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور عالم دین گزرے ہیں؛ ان کا نام مولانا وحید الزماں کیرانوی تھا۔ انھوں نے بہت سارے علمی کام کیے۔ ان میں سے ایک علمی کام عربی اردو لغت کی تالیف ہے۔ اس کا نام ہے القاموس الوحید۔ یہ کتاب طلبہ مدارس کے ساتھ ساتھ دیگر عربی حلقوں میں بھی مقبول ہے۔ مجھے یہاں پر ایک اور بات یاد آ رہی، جب کہ میں مولانا منت اللہ رحمانی سیمینار 2005ء میں شرکت کے لیے نئی دہلی آیا تھا؛ یہ سفر در اصل مولانا وحید الزماں کیرانوی کے چھوٹے بھائی مولانا عمید الزماں کیرانوی کی خصوصی دعوت کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا تھا۔ ان سے میری صرف ایک ملاقات سیمینار کے وقت ہو سکی، یہاں تک کہ سنہ 2010ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اس سیمینار میں پڑھا گیا میرا مقالہ ’مولانا منت اللہ رحمانی اور عالم ِاسلام‘ میری کتاب حیاتِ رحمانی (شائع شدہ:2012ء) میں شامل ہے۔
شاملی ضلع کے جس علاقے سے آپ گزریں وہاں کی ایک الگ تاریخ آپ کو نظر آئے گی۔ یہ علمائے دین کی سر زمین رہی ہے، یہاں کے مختلف علاقوں کی اپنی ایک الگ تاریخ ہے. ان علاقوں سے وابستہ بزرگان دین نے ہندستان کے اندر اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے۔ شاملی کا ایک علاقہ تھانہ بھون کہلاتا ہے، جہاں ہندستان کے معروف ترین بزرگ مولانا اشرف علی تھانوی پیدا ہوئے۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے تقریباً ایک ہزار کتابیں لکھیں۔ انھوں نے قرآن کریم کی تفسیر لکھی، جس کا نام ’بیان القرآن‘ ہے. تفسیر کے علاوہ ان کی ایک معروف کتاب ’بہشتی زیور‘ بھی ہے۔ کسی زمانے میں ہندستان کے بیشتر گھرانوں میں شادی کے موقع پر  یہ کتاب دلہن کو دی جاتی تھی۔ اس کتاب میں زندگی گزارنے کے بڑے ہی مفید اصول بتائے گئے ہیں۔ اس میں اتنی ساری کام کی چیزیں ہیں کہ اگر میں اس کے ہر باب پر تبصرہ کرنے لگ جاؤں تو پورا سفر نامہ اس کی نذر ہو جائے گا۔
شاملی کا ایک اہم علاقہ کاندھلہ ہے۔ جہاں تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس کاندھلوی پیدا ہوئے. انھوں نے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے ایک بے نظیر تحریک 1926ء میں شروع کی جسے’ تبلیغی جماعت‘ کہا جاتا ہے۔ ان پڑھ اور کم پڑھے لکھے مسلمانوں کے لیے یہ ایک اہم تحریک ہے۔ تبلیغی جماعت سے میں بھی وابستہ رہا ہوں، میرے دل میں اس کے لیے بڑی قدر ہے۔ مفتی محمد اطہر شمسی نے بتایا کہ کیرانہ کے تمام مسلمان حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور بیشتر افراد تبلیغی جماعت سے جڑے ہوئے ہیں۔
ہندستان کی دینی جماعتوں میں، میں سب سے پہلے تبلیغی جماعت سے وابستہ ہوا۔ پھر اس سے علاحدگی اختیار کر لی کیوں کہ اس میں میری روح کی غذا نہ  مل سکی۔ 1998ء کے وسط سے جون 2003ء تک میں اس سے جڑا رہا. تبلیغی جماعت کی ہر ذمہ داری میں نے ادا کی۔ 23 دسمبر 2001ء کو مجھے فیصل بنایا گیا۔ 20 جنوری 2002ء کو میں نے مغرب کی نماز کے بعد فضائل گشت بیان کیا۔ 17 فروری 2002ء کو مجھے جماعت والوں نے ’متکلم‘ بنایا۔ 24 فروری 2002ء کو مجھ کو امیر بنایا گیا اور 26 مئی 2002ء کو مجھ کو رہ بر بنایا گیا۔ یکم جون 2003ء کو میں نے اعلان کیا۔ اس طرح میں نے تبلغی جماعت کے ہر رکن کو ادا کیا۔
اسی زمانے میں، میں نے تبلیغی جماعت کی کتاب ’فضائلِ اعمال‘ خریدی اور اس کا مطالعہ کیا۔ اس کے آغاز میں مولانا محمد زکریا نے لکھا تھا کہ جب ڈاکٹر نے مجھ کو دینی کام کرنے سے روک دیا تب میں نے یہ کتاب لکھی۔ ان کے الفاظ ملاحظہ کریں: صفر 1357 ہجری میں ایک مرض کی وجہ سے چند روز کے لیے دماغی کام سے روک دیا گیا تو مجھے خیال ہوا کہ ان خالی ایام کو اس بابرکت مشغلہ میں گزار دوں۔ ( تمہید، فضائل اعمال، جلد اول، مولانا محمد ذکریا، صفحہ:17)
میری یہ بات آج تک سمجھ میں نہ آسکی کہ کیا کتاب لکھنا ذہنی کام نہیں ہے، میرے خیال میں اسی میں تو سب سے زیادہ ذہنی ورزش ہوتی ہے، اس کے باوجود مولانا محمد ذکریا نے ایسا لکھا ہے، حیرت ہے۔ مونگیر کے زمانہ قیام میں اکثر  میں تبلیغی جماعت کے اجتماعات میں شرکت کرتا رہا اور اگر وہاں کوئی اہلِ علم بیان کر رہا ہوتا تو ان سے ضرور استفادہ کیا کرتا تھا۔
ایک صاحب پٹنہ سے آئے تھے۔ ان کا نام انجینئر ثیث تھا۔ وہ کافی معمر شخص تھے۔ ان کے بیانات اور تجربات سے میں نے کافی استفادہ کیا تھا۔ ان کی ایک بات ہمیشہ یاد آتی ہے، وہ کہا کرتے تھے کوئی بھی کام مستقل مزاجی سے کرنا چاہیے۔
مونگیر کے علاقہ میدنی چوکی سے تبلیغی جماعت سے وابستہ ایک شخص تھے۔ ان کا نام غالباً ظفر تھا۔ وہ جب بھی مونگیر شہر آتے نوجوانوں کو اکھٹا کر کے ان سے گفتگو کرتے۔ ان کی گفتگو بہت ہی متاثر کن ہوا کرتی تھی۔ ان کی گفتگو کی خاص بات یہ تھی کہ وہ دوران گفتگو مزاحیہ باتیں بھی کرتے تھے اور مجلس میں بیٹھے ہوئے نوجوانوں سے مخاطب بھی ہوا کرتے تھے۔ ایک بار انھوں نے کہا کہ خود کو مسجد سے جوڑ کر رکھو، مسجد سے رابطہ بنائے رکھو۔ اس موقع پر ایک شعر انھوں نے سنایا تھا، جو مجھ کو آج بھی یاد ہے:
باہر کے ہر خانے میں ہمیں توڑ دیتے ہیں
مسجد وہ گھر ہے جو ہمیں جوڑ دیتے ہیں
راقم السطور زندگی میں ایک دفعہ تبلیغی جماعت میں ایک دن کے لیے گیا۔ یہ 2 جون 2002ء کی بات ہے۔ یہ دراصل طلبہ پر مشتمل یک روزہ جماعت تھی۔ جماعت سے واپسی پر میں نے ایک مختصر سا مضمون ’دین کی تبلیغ‘ لکھا تھا جو اس زمانہ میں روز نامہ قومی تنظیم (پٹنہ) میں 2 اگست 2002ء کو شائع ہوا، یہاں اسے نقل کیا جارہا ہے:
2 جون 2002ء کو میں پہلی بار تبلیغی جماعت میں ایک دن کے لیے گیا۔ طلبہ پر مشتمل یہ جماعت سرور جاوید کی قیادت میں شاہ مسیح اللہ مجد (دلاور پور، مونگیر، بہار) سے تقریبا دو کلومیٹر دور چور مبا نامی ایک گاؤں گئی۔ جماعت میں 12 طلبہ تھے اور ایک ٹیچر۔ اکثر طالب ِعلم پہلی بار گرمی کی چھٹی میں نکلے تھے اور کچھ امتحان دے کر۔ ان میں سے کچھ کو میں جانتا تھا اور کچھ سے کچھ دیر میں تعارف حاصل ہو گیا۔ جماعت میں جانے والوں میں پہلی بار جانے والوں کی اکثریت تھی، جیسے ہی ہم لوگ مسجد پہنچے دو رکعت ’تحیتہ المسجد‘ پڑھی۔ اس کے بعد مشورہ ہوا۔ مشورہ کے بعد تعلیم شروع ہوئی، کبھی تبلیغی نصاب پڑھا جاتا تو کبھی زبانی بیان دیا جاتا۔ یہ ایک ایسا ماحول تھا جس کو میں نے سنِ شعور میں پہنچنے کے بعد پہلی بار دیکھا تھا۔ صبح کے ساڑھے نو بجے ناشتہ کیا گیا۔ دس بجے دوبارہ تعلیم شروع ہوئی۔ سبھی طلبا بہت غور سے امیر جماعت کی باتوں کو سن رہے تھے اور امیر جماعت ہر بات کو سمجھا سمجھا کر بیان کر رہے تھے۔ اس کے بعد قرآن کی سورتوں کا دورہ چلا۔
ساڑھے گیارہ بجے قیصر اقبال ( سابق استاد اپندر ٹریننگ اکیڈمی، مونگیر ) تشریف لائے۔ وہ تھوڑی دیر خاموش رہے، اس کے بعد انھوں نے اپنی گفتگو شروع کی۔ عجب قسم کا ماحول تھا۔ انھوں نے کہا بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تو کیا ہوا، ہم کوئی غلط کام تو نہیں کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر لوگ دوسروں کی مثالیں دینے لگتے ہیں۔ مگر اصل حقیقت دیکھیے تو اس کے برعکس نظر آئے گی۔ آپ کہتے ہیں ہم نماز نہیں پڑھتے تو کیا ہوا؟ آپ کی وجہ سے آپ کے دوست، آپ کے بچے، آپ کی بیوی نماز سے دور ہیں۔ ذرا سوچیے! آپ کی باتیں کیا معنی رکھتی ہیں؟
پورا دن طرح طرح کی اسلامی باتوں کو جاننے اور سمجھنے میں گزرا۔ جب 12 گھنٹے ہو گئے تو سبھی افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے۔ میں گھر لوٹ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کاش یہ چند روزہ جماعت ہوتی۔ تبلیغی جماعت کی کوششوں کا واحد مقصد یہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں کس طرح اللہ کا دین آجائے۔ میرے خیال میں تمام مسلمان خواہ جاہل ہوں یا پڑھے لکھے امیر ہوں با غریب، ملازمت میں ہو یا تجارت میں۔ انھیں کم از کم زندگی میں ایک بار تبلیغی جماعت میں جا کر اس کا مشاہدہ ضرور کرنا چاہیے۔
تبلیغی جماعت کے اس سفر میں مقامی افراد سے بھی مل کر ان سے نماز کے لیے درخواست کی گئی تھی۔ دن کے کسی حصے میں اچانک مسجد کی بجلی چلی گئی تھی، ہوا بھی نہیں چل رہی تھی اور بہت زیادہ گرمی لگ رہی تھی۔ وہاں تاڑ کے درخت سے بنے پتوں کا پنکھا رکھا ہوا تھا۔ ایک پنکھا میں نے بھی اٹھا لیا اور اس ہینڈ فین (hand fan) سے گرمی کم کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ پنکھے پر ایک شعر درج تھا:
گرمی میں ہوا دار پنکھا
سردی میں بے کار پنکھا
شاملی پہنچا تو کاندھلہ کے بزرگ مولانا محمد الیاس اور تبلیغی جماعت کی تاریخ یاد آگئی جس کا میں نے اوپر تذکرہ کیا۔ موجودہ دور میں کیرانہ میں علمی و دینی کام مسلسل ہو رہے ہیں مگر طوالت کے خوف سے ان سب کی تفصیلات درج نہیں کی جاسکتی ہے۔ تاہم مفتی محمد اطہر شمسی نے بتایا کہ پہلے تعلیم کا رواج یہاں بہت کم تھا۔ مثلاً انھوں نے کہا کہ وہ شمسی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس میں500 سے زائد افراد ہیں۔ مگر اس میں صرف چھے لوگوں نے گریجویشن تک کی تعلیم حاصل کی ہے۔ میں اور میری اہلیہ گریجویٹ ہیں، اس طرح باہر کے لوگوں میں صرف چار افراد نے گریجویشن مکمل کیا ہے۔
کیرانہ میں جو تعلیمی ادارے ہیں، ان میں سے ایک اہم ادارہ ’القرآن اکیڈمی‘ ہے، القرآن اکیڈمی خالص دینی ادارہ ہے، جس کو مفتی محمد اطہر شمسی نے 6 جولائی 2018ء کو قائم کیا۔ اس ادارہ کا واحد مقصد عام لوگوں کو براہِ راست قرآن کی تفہیم کرانا ہے۔ یہاں غیر عربی داں افراد کو اس طرح عربی کی تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ قرآن کامطلب خود سمجھ سکیں۔
اس بارے میں خود مفتی محمد ظہر شمسی نے بتایا کہ القرآن اکیڈمی کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو اس بات کی تعلیم دینا کہ وہ قرآن کے ذریعہ قائم کی ہوئی حدود میں رہ کر اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی کے ہر میدان میں زیادہ سے زیادہ ترقی کریں۔ نیز اس بات کی بھی تربیت دینا کہ ذاتی اور اجتماعی زندگی کے ان میدانوں میں ترقی کے لیے دور جدید کے تقاضے کیا ہیں۔ خواہ زندگی کا یہ میدان اقتصادیات ہو یا تعلیم یا کلچر، نیز لوگوں کو دائرہ قرآن میں رہتے ہوئے انسانیت کی خدمت پر آمادہ کرنا، نسل نو میں اخلاقی بیداری لانا۔ اس کے علاوہ نسل نو کو اس بات کی تعلیم دینا کہ وہ اپنے ملک کو سائنسی، اقتصادی اور اخلاقی لحاظ سے سپر پاور (super power ) بنانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔
انھوں نے سفر کے دوران وہ مسجد بھی دکھائی جہاں القرآن اکیڈمی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا تھا۔ یہ مسجد کیرانہ کی اہم شاہ راہ پر واقع ہے۔
مفتی محمد اطہر شمسی نے جوٹیم تیار کی ہے۔ وہ نو جوانوں پرمشتمل ہے۔ میں نے ایک موقع پر کہا کہ نوجوان ہی مستقبل بدل سکتے ہیں، آپ نے بہت اچھی ٹیم تیار کی ہے۔ جب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی تحریک شروع کی تو اس وقت ان کی عمر محض 24 سال تھی۔
کیرانہ کے سفر کے دوران قیام مفتی محمد اطہر شمسی نے کئی نو جوانوں سے ملوایا۔ پرویز عالم، معاذ طاہر، خاور اور حماد شمسی کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنی ہمشیرہ کی صاحب زادی حبیبہ شمسی سے بھی ملوایا۔ حبیبہ شمسی بارہویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ انھوں نے حال میں نئی دہلی کے نیوز پورٹل آواز دی وائس کے ایک تحریری انعامی مقابلے میں تیسرا مقام حاصل کیا ہے۔ یہ ان کی پہلی بڑی کامیابی ہے۔
مجھے مفتی محمد اطہر شمسی کی یہ بات پسند آئی کہ انھوں نے اپنے ادارے میں لڑکیوں کا داخلہ ممنوع نہیں کیا ہے۔ بلکہ مخلوط تعلیم کا رواج رکھا ہے، جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دنیا کا زاویہ بدل چکا ہے، اس لیے اب یہ نا گزیرہے کہ مخلوط تعلیم کو اختیار کر لیا جائے۔ مگر یہ بڑا عجیب اتفاق ہے کہ شاملی کی بیشتر خواتین افغانی طرز کا نقاب استعمال کرتی ہیں۔
یہاں کئی سارے نوجوانوں سے میری ملاقات ہوئی۔ کم عمر بچوں کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ وہ مستقبل کی تعمیر کرنے والے ہیں۔ میں زیادہ سے زیادہ  مفتی محمد اطہر شمسی کے ساتھ وقت بتانا چاہ رہا تھا تا کہ ان سے استفادہ کیا جاسکے، علمی باتوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، جہاں علمی باتیں ہوتی ہیں وہاں انسان بھی اکتا ہٹ کا شکار نہیں ہوتا۔ کیوں کہ خالص علمی باتیں انسان کے ذہن کی غذا ہوتی ہیں۔
القرآن اکیڈمی کے سربراہ نے مجھ کو شہر کا ایک بڑا حصہ دکھایا۔ ان کے ہمراہ میں پرویز عالم کی قیام گاہ پر گیا۔ پرویز عالم القرآن اکیڈمی میں پڑھاتے ہیں۔ تاہم فی الوقت وہ ایم اے کر رہے ہیں۔ ان کا ارادہ یو جی سی نیٹ کرنے کا ہے۔ پرویز عالم مجھ سے بہت ہی خوش اخلاقی سے ملے، انھوں نے اپنے بھائیوں اور والد سے ملاقات کروائی۔
دن کا کھانا مفتی اطہر شمسی کی قیام گاہ پر کھایا گیا۔ کھانے سے قبل خاور بھائی سے ملاقات ہوئی۔ وہ ایک پرائمری اسکول میں ٹیچر ہیں۔ انھوں نے مجھ کو دیکھ کر کہا کہ میں سمجھ رہا تھا کہ شاہ عمران حسن کوئی سینئر آدمی ہوں گے مگر یہ تو ہماری طرح ایک نوجوان ہیں۔
یہاں میں نے کوئی رسمی گفتگو نہیں کی، بس غیر رسمی انداز میں باتیں ہوتی رہیں، غیر رسمی باتوں کا زیادہ اثر ہوتا ہے، اس سے لوگوں کو ایک دوسرے سے استفادہ کرنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔
میں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ انسان کو خدا نے کچھ کرنے کے لیے بھیجا ہے، تاہم اسے اس دنیا میں کیا کرنا یہ بات انھیں خود دریافت کرنی ہوگی۔ یہ کوئی کپسول (capsule) نہیں ہے جسے بازار سے خرید کر لے آئیں تو آپ کا مسئلہ حل جائے یا آپ کی تکلیف دور ہوجائے. یہ تو آپ کو خود طے کرنا ہے کہ آپ کس میدان میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
میں نے کہا کہ گزرے ہوئے حالات و واقعات سے سبق اس لیے حاصل کرنا چاہیے تا کہ دوبارہ اس طرح کی مصیبتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے، جس کا مقابلہ ماضی کے بزرگوں نے کیا۔ تاہم اس انسان کو وہی بننا ہے اور وہی کام کرناہے، جس خاص کام کے لیے اس دنیا میں خدا نے اسے بھیجا ہے۔ وہ خاص کام کچھ بھی ہو سکتا ہے، مثلاً وہ ایک اچھا شوہر بن سکتا ہے، وہ ایک اچھا باپ بن سکتا ہے، وہ ایک اچھاتبھائی ہو سکتا ہے، وہ ایک ذمہ دار شہری ہو سکتا ہے، وہ ایک بہترین معلم ہو سکتا ہے، وہ ایک بہترین متعلم ہو سکتا ہے، وہ ایک بہترین بڑھئی ہوسکتا ہے، وہ ایک بہترین انجینئر ہوسکتا ہے۔ وہ ایک بہترین پائلٹ ہوسکتا ہے، وہ ایک بہترین عالم ہوسکتا ہے، وہ ایک بہترین قاضی ہو سکتا ہے، وہ ایک بہترین سیاست داں ہو سکتا ہے، وہ ایک بہترین مذہبی رہ نما ہو سکتا ہے، وہ ایک بہترین محرر ہوسکتا ہے، وہ ایک بہترین مقرر ہو سکتا ہے، غرض کہ اس دنیا میں منشائے خداوندی کے مطابق اس کو ایک خاص کر دار ادا کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنی ہے۔
انسان کو ایک رول (role) یا ایک کردار ادا کرنے کے لیے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ جیسے ہی انسان کا کردار دنیا میں پورا ہو جاتا ہے خدا دوبارہ انسان کو اپنے پاس بلا لیتا ہے، اس کے ساتھ میں یہاں یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے جس کردار کو ادا کرنے کا ذکر کیا ہے، یہ ذکر ان انسانوں کے لیے ہے جو پہلے خود کو دریافت کرتے ہیں کہ وہ کون سا کام خدا کی بنائی ہوئی اس دنیا میں ادا کر سکتے ہیں اور پھر وہ اسی راہ میں لگ جاتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں۔ مگر یہ خوش نصیبی لاکھوں لاکھ انسانوں میں سے چند لوگوں کو میسر آتی ہے. ورنہ یہاں بیشتر لوگ بغیر کسی مقصد کے زندگی گزار دیتے ہیں۔ وہ بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز سے گزر کر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں اور انھیں اس بات کی خبر بھی نہیں ہوتی کہ میں کیوں اس دُنیا میں آیا ہوں، مجھے کون سا کردار یہاں ادا کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے استاد شاعر داغ دہلوی کے ایک شاگرد محمود علی خاں رام پوری نے بالکل سادہ انداز میں بہت دل گداز شعر کہا تھا جو آج بھی ہر ایک کی زبان پر ہے:
موت اس کی ہے کرے زمانہ جس کا افسوس
ورنہ دنیا میں آئے ہیں سبھی مرنے کے لیے
سفر کے دوران مفتی محمد اطہر شمسی نے مجھ سے بارہا کہا کہ آپ آرام کر لیں مگر میں اس کے لیے تیار نہ ہوا۔ چند گھنٹے کی ملاقات ہے اور اس کو آرام کرنے میں گزار دوں تو میرے سفر کے کوئی معنی نہیں رہ جاتے۔ دن کا کھانا کھانے کے بعد سبھی لوگ جامع مسجد گئے۔ مسجد میں صفائی کا اعلا انتظام تھا۔ جماعت ہو چکی تھی، اس لیے میں نے ظہر کی دورکعت قصر پڑھی۔
مسجد کے نکلتے وقت مفتی محمد اطہر شمسی نے اپنا ایک واقعہ بتایا۔ انھوں نے بتایا کہ ایک بار میں جامع مسجد دہلی گیا۔ وہاں میں نماز کے لیے وضو کر رہا تھا۔ مگر نل میں پانی نہیں آرہا تھا۔ اسی وقت میں نے مولانا سید احمد بخاری کو فون کیا کہ وضوخانہ میں پانی نہیں آرہا ہے۔ مولانا سید احمد بخاری نے فون پر کہا کہ جی میں فوراً اس کا انتظام کرواتا ہوں۔
بہ ظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات ہے، تاہم اگر دیکھیے تو یہ بہت بڑی بات ہے کہ کیوں کہ آپ براہِ راست ایک ’شاہی امام‘ سے مخاطب ہو کر اپنی ضرورت کے لیے کہہ رہے ہیں۔ یہی جرات انسان کو حوصلہ مند بناتی ہے اور وہی انسان کامیاب و کامران بھی ہوتا ہے۔ اگر مفتی محمد اطہر شمسی یہ سوچ لیتے کہ اتنا بڑا آدمی ہے، ان کو کس طرح فون کروں تو کبھی ان میں ہمت پیدا نہ ہو پاتی۔ یہ ہمت اور جواں مردی کی عمدہ مثال ہے، جو انھوں نے انجام دی۔ اسی بات کو مولوی اسماعیل میرٹھی نے اپنے سادہ سے قطعہ ’ہمت‘ میں پیش کیا تھا:
گھوڑ دوڑ میں کودائی کی بازی تھی ایک دن
تازی پہ، کوئی ترکی پہ اپنے سوار تھا
جو ہچکچا کے رہ گیا سو رہ گیا ادھر
جس نے لگائی ایڑ وہ خندق کے یار تھا
شام کے ساڑھے چار بجے کیرانہ سے روانگی ہوئی۔ میں مختلف یادوں کو لیے ہوئے نئی دہلی واپس لوٹ آیا۔ جب دہلی پہنچا تو  رات کے گیارہ بج چکے تھے، گھر کے بیشتر افراد شب خوابی کا لباس زیب تن کر چکے تھے، میں نے سفر کی تھکان دور کرنے کے لیے غسل کیا اور بستر پر دراز ہو گیا۔
ابھی میں دہلی سے دور ہی تھا کہ راستے میں خبر ملی کہ دارالعلوم دیوبند کے معروف استاد اور مصنف مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کا انتقال ہو گیا۔ ان کی پیدائش 25 اگست 1960ء کو ہوئی۔ ان کے والد کا نام مولانا ازہر شاہ قیصر تھا۔ وہ مولانا انور شاہ کشمیری کے پوتے تھے۔ میں نے ان کا نام بہ طور مصنف بہت سنا، تاہم مجھے کو ان کی کسی کتاب سے استفادہ کرنے کا کبھی موقع نہیں ملا۔
زندگی اور موت کا رشتہ بڑا ہی عجب ہے۔ ذرا سوچئے! میں ابھی زندہ ہوں، چل پھر رہا ہوں، باتیں کر رہا ہوں لکھ رہا ہوں، پڑھ رہا ہوں، فون پر بات کر رہا ہوں، اپنی کامیابی و کامرانی کا گن گارہا ہوں، چائے پی رہا ہوں، کھانا کھا رہا ہوں، میں اچانک مر جاؤں گا، میرا جسم مردہ ہو جائے گا، میری ساری حرکات و سکنات رک جائیں گی، یہی اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے جسے انسان کو جاننا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ وہ ہمیشہ دنیا میں رہنے کے لیے نہیں آیا ہے، اس کا وجود فانی ہے، اس کو کسی بھی وقت اس دنیا کو چھوڑ کر لازما جانا ہی پڑے گا۔
کاش لوگ اس حقیقت کو جان پاتے، کاش ایسا ہو پاتا تو دنیا میں اتنی خرافات بر پا نہ ہوتی۔ میر انیس نے اس حقیقت کو اپنی ایک رباعی میں یوں بیان کیا تھا:
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آکے نہ جائے بڑھاپا دیکھا
جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
سفر سے واپسی کے بعد میرا یہ احساس ہے کہ شاملی کا سفر میرے لیے ایک تجربہ سے کم نہیں تھا۔ میں نے ایک نئے انداز کا ہندستان دیکھا جو کہ کورونا وائرس کی وبا کے بعد پھر سے زندگی جینے کی کوشش کر رہا ہے۔
Shah Imran Hasan
Plot No-22, Shah House, A-Block, Khasra No.824,Opposite : Tamanna Hotel ,Makki
***
شاہ عمران حسن کی گذشتہ نگارش :سلمی صنم کے افسانے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے