یہ ہماری بستی ہے

یہ ہماری بستی ہے

سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی
ہلال ہاؤس
مکان نمبر ١١٤ /۴
نگلہ ملاح سول لائن
علی گڑھ یوپی
موبائل:9219782014

پوس کی ٹھنڈی راتوں میں اس کو یہ اجازت مل گئی تھی کہ وہ جتنا زور و شور سے چاہے بستی پر چل سکتی ہے۔ تاکہ بستی والوں کے حوصلوں کو پرکھا جا سکے یا پھر ان کو سردی کا احساس دلا کر ہمیشہ کے لیے سرد کیا جا سکے۔ جس کے نتیجے میں مکانات مسمار کرکے وہاں لوہا بچھایا جاسکے جس پر لوگ سفر کر سکیں۔ لیکن ایسا لوہا جس میں جذبات نہ ہوں احساسات نہ ہوں۔ اس میں بس ایک گونج صرف گونج ہو، جو دور تک جائے اور پھر کسی اگلی بستی کے خیمے اجڑنے کا اعلان ہو سکے۔
ابھی اس نے مند مند رفتار ہی سے کام لینے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ وہ پہلے ماحول کا جائزہ لے سکے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں سے آئی ہے. وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ اس کا وجود کب سے ہے اور کہاں سے ہے اور کب تک اسے سفر کے پنکھوں پر سوار رہنا ہے۔ وہ تو بس کبھی جنگل کبھی صحرا کبھی پہاڑوں کے دامن میں مسلسل سرگرداں رہتی تھی۔ ٹھہرنا اس کے مقدر میں نہیں تھا۔ اس کے دامن میں کبھی خاک اور کبھی سوکھے ہوئے پتے اور کبھی کسی شور کی صدا ہوتی تھی۔ اس کی زندگی ہی چلنا اور صرف چلتے رہنا ہی تھی۔ اس کے زور کے سامنے کوئی چیز ٹکتی نہیں تھی. اگر کوئی درخت سامنے آیا تو اس کی خیر نہیں. اگر کوئی صحرا سامنے آیا تو وہ بگولہ بن جاتی، سمندر کی طرف جاتی تو بھنور کا لباس پہن لیتی۔ لیکن یہ صرف اس موقع پر ہوتا جب اس کا مزاج برہم ہوتا یا اس کو تیز چلنے کا اذن ملتا۔ عموماً وہ تیزی کے ساتھ چلنے سے گریز کرتی کیوں کہ وہ بھی جانتی تھی کہ اس کی تیزی کہاں کہاں کیا کیا اثر دکھا سکتی تھی۔
آج اس کے جی میں تھا کہ وہ اس بستی پر قہر بن کے ٹوٹے گی، اس کی آنکھیں سرخ تھیں اور اس نے آستینیں چڑھا رکھی تھیں۔ وہ اپنے سامنے آنے والی ہر رکاوٹ کو آسانی سے نیست و نابود کرنے کا ہنر جانتی تھی۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ بستی میں رہنے والے کب تک ”زمینی جہاد“ کرتے ہیں۔ اس کے کان میں صور پھونکا گیا تھا کہ بستی کے لوگ ایک نیا ”شاہین باغ“ بنائے ہوئے ہیں اور ”زمینی جہاد“ کر رہے ہیں۔ اس کو تعجب تھا کہ یہ”زمینی جہاد“ کس چڑیا کا نام ہے؟؟؟۔ اس نے آج تک ”لو جہاد“ اور اس کے علاوہ جہاد کی کئی قسموں کے بارے میں سنا تھا لیکن آج اس کے کانوں میں ”زمینی جہاد“ کا لفظ پہلی بار پڑا تھا۔ اس نے سوال کیا کہ ”زمینی جہاد“ کیا ہے؟؟؟ لیکن نہ اسے پہاڑوں نے بتایا نہ صحرا نے اور نہ جوار بھاٹا ہی نے کہ ”زمینی جہاد“ کس بلا کا نام ہے؟؟؟۔ اس کو زیادہ نہ بتا کر بستی کی طرف فوراً روانہ ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔
وہ حکم کی تابع بستی کی طرف دھیرے دھیرے چلی جا رہی تھی اس کا خیال تھا کہ آج بستی میں بڑا مزہ آنے والا ہے کیوں کہ وہ کسی اجڑتی بستی پر افسوس نہیں کرتی، کسی لاش پر گریا نہیں کرتی اور کسی ڈوبتی کشتی کو کنارے کی طرف حسرت سے دیکھنے پر کوئی رنج نہیں کرتی۔ اس نے ارادہ کیا کہ وہ پہلے آہستہ آہستہ بستی میں چلے گی اور پھر اس کے بعد تیزی اختیار کرتے ہوئے خلقت کی تباہی کا تماشا دیکھے گی اور اس بار بھی کسی سوکھے درخت، بوسیدہ دیوار، ٹوٹے مکان، کسی چھپر کو اپنا نشانہ بنائے گی۔ اس کا یہ بھی خیال تھا کہ وہ کسی کھنڈر میں پوری طاقت سے داخل ہوگی اور وہاں کی چمگادڑوں، سانپوں، بروں کے چھتوں اور کیڑے مکوڑوں کو بستی پر حملہ کرنے پر آمادہ کرے گی لیکن اسے معلوم تھا کہ سرد راتوں میں چھپکلیاں کہیں کسی کونے میں چھپی ہوئی بے سدھ پڑی ہوں گی، اس سے انھیں تکلیف ہو سکتی ہے۔ ایک لمحہ اس نے اپنی رفتار مدھم کرتے ہوئے سوچا کہ اسے مخلوق سے کیا غرض وہ تو بستی میں داخل ہوگی اور اب جو بھی اس کے سامنے ہوگا وہ اس کا نتیجہ دیکھے گا۔
اس نے آسمان سے بستی کی طرف دیکھا۔ پہلے تو اسے لگا وہاں سیاہ رات کے بطن سے جگنوؤں کا ہجوم نکل رہا ہے لیکن اسے معلوم تھا اور اس کا تجربہ بھی تھا کہ جگنو پرواز کرتے رہتے ہیں وہ ایک جگہ آسن جما کر نہیں بیٹھتے۔ وہ سوچنے لگی تو پھر یہ روشنی کیسی ہے؟؟؟پھر اس نے خود ہی اپنے آپ کو جواب دیا۔”شاید یہ ستارے ہیں جو آسمان سے اتر آئے ہیں۔ مگر نہیں ستارے توآسمان ہی میں رہتے ہیں وہ ”زمینی جہاد“ کرنے کیسے آسکتے ہیں؟؟؟ تو پھر یہ کیا ہے؟؟؟“ سوال اب بھی اس کے ذہن میں قائم تھا۔ وہ بستی کی طرف ذرا تیزی سے بڑھنے لگی. اس کو اس سلسلے سے شدت کے ساتھ طلب تھی کہ وہ جلد از جلد ”زمینی جہاد“ کے بارے میں جان سکے۔ اس نے سوچا کہ روشنیاں اس کے قریب آرہی ہیں یا وہ روشنیوں کے قریب جا رہی ہے؟؟؟ پھر خیال آیا جو بھی ہو، کچھ دیر میں راز کھل جائے گا کہ ماجرا کیا ہے؟؟؟ ”زمینی جہاد“ کسے کہتے ہیں؟؟؟ اس نے سوچا یہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے؟؟؟ وہ تو روشنیوں کی دشمن ہے. اس کے رہتے کہیں روشنی کیسے ممکن ہے اور اگر روشنی ممکن نہیں تو وہ ”زمینی جہاد“ کو کس طرح دیکھے گی؟؟؟ اور دیکھے گی نہیں تو پھر کیسے سمجھے گی کہ یہ کیا بلا ہے؟؟؟ اس نے بستی میں جیسے ہی آہستہ سے پہلا قدم رکھا تو دیکھا کہ کچھ لوگ اپنے انگنت ہاتھوں میں انگنت کیمرے اور مائک لیے ہوئے اپنی انگنت کالی زبانوں سے چلا چلا کر کہہ رہے تھے کہ ”یہ بستی غیر قانونی ہے۔۔۔اس میں زمینی جہاد ہو رہا ہے“۔اس نے یہ بھی دیکھا کہ ایک نوجوان کو کچھ مائک اپنے قفس میں مقید کیے ہوئے تھے۔ ہر مائک میں سے طرح طرح کی ہیبت ناک آوازیں نکل رہی تھیں۔ ان آوازوں میں ہر ایک کا اپنا اپنا ایک بھیانک وجود تھا۔ ان میں کوئی ناگ تھا کوئی کیڑا کوئی مکوڑا کوئی کاکروج کوئی چمگادڑ تو کوئی چھپکلی تھا۔ وہ سب ایک شخص کے اوپر رہ رہ کر زبان نکالے ہوئے حملہ آور ہورہے تھے۔ اسے لگا کہ اس کا کام آسان ہوگیا. اب اسے کھنڈر میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اس نے دیکھا کہ اس شخص کا سارا بدن الفاظ کے نشتروں سے زخمی ہوچکا تھا، جس میں دل صاف طور سے پارہ پارہ نظر آرہا تھا۔ آوازوں کے زہر سے اس کا جسم سر سے لے کر پاؤں تک سبز ہوچکا تھا، جو رات کی سیاہی میں بھی بہ خوبی نظر آرہا تھا، لیکن وہ شخص مرنے کو تیار نہیں تھا۔ وہ اپنی اکھڑتی ہوئی سانسوں کو اپنی ڈھال بنائے ہوئے تھا اور ڈٹ کرمقابلہ کر رہا تھا۔ اس کی زبان سے بار بار ایک ہی فقرہ نکل رہا تھا۔ ”یہ ہماری بستی ہے۔۔۔یہ ہماری بستی ہے“ کبھی کبھی وہ صرف اتنا کہتا ”ہم یہاں ستر سال سے رہ رہے ہیں۔۔۔ہمارے پرکھے یہاں کی مٹی میں سو رہے ہیں“۔ اس نے تھوڑی تیزی اختیار کی تو بولنے والے شخص نے اپنے کانوں میں مفلر باندھتے ہوئے اور کھانستے ہوئے پھر اسی فقرے کی گردان شروع کردی ”یہ ہماری بستی ہے۔۔۔یہ ہماری بستی ہے“۔ اس نے اسی اثنا میں دیکھا کہ وہاں کچھ کالے سایے بھی موجود تھے۔ یہ وہی کالے سایے تھے جن کے لیے یہ احتجاج کیا گیا تھا کہ یہ سایے کسی تعلیمی درس گاہ اور کسی کالج میں نہیں جا سکتے ورنہ ان کے مقابل میں سارے ماحول کو ایسے رنگ میں رنگ دیا جائے گا جس کا شہرہ آریوں کے زمانے سے اس پرتھوی پر ہے۔
اس نے چلتے چلتے سرسری طور پر ہی کالے سایوں کے پیچھے سفید موتیوں کی قطاریں بھی دیکھیں جن کی روشنی مشعلوں اور نعروں کی گونج میں شیر و شکر ہونے کے باوجود بھی اپنی پہچان آپ رکھتی تھی۔ اس نے دیکھا ان موتیوں کو قوتِ گویائی مل چکی ہے اور وہ بھی وہی فقرہ بار بار بہ آوازِ بلند کہہ رہے ہیں ”یہ ہماری بستی ہے۔۔۔یہ ہماری بستی ہے“۔ اسی دوران اس نے کچھ ٹوپیوں اور کچھ ننھے ننھے ہاتھوں کو فضا میں بلند دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ ٹوپیوں اور ننھے ننھے ہاتھوں کے درمیان سے ایک روشنی آسمان کی طرف جارہی ہے ایسا لگتا تھا جیسے ایک تجلی کا عالم ہے۔ مگر یہ کیا ماجرا تھا؟ ان کی تجلی میں بھی ایک ہی فقرہ لکھا ہوا تھا۔ یہ وہی فقرہ تھا جس پر ناگ پھنکار رہے تھے، چمگادڑیں خوف پیدا کر رہی تھیں اور چھپکلیاں اسے اپنی غزا سمجھ رہی تھیں یعنی”یہ ہماری بستی ہے۔۔۔یہ ہماری بستی ہے“۔ اس نے چاہا کہ وہ آہستہ آہستہ چلے کیوں کہ شدید جاڑے کی رات ہے اور پارہ کافی گر چکا ہے جو اس کی تسکین کے لیے کافی ہے۔
وہ دھیرے دھیرے آگے شاہ راہوں پر بڑھنے لگی لیکن اس کا خیال تھا کہ یہاں تل رکھنے کی بھی جگہ نہیں تو وہ کیسے ان کے بیچ ”زمینی جہاد“ سمجھنے کے لیے گردش کر سکتی ہے۔ اس نے آگے قدم بڑھایا تو سامنے ہی داہنے ہاتھ کی طرف اسے ایک سرکاری اسکول نظر آیا جس کے بڑے سے گیٹ کی پیشانی پر لکھا تھا ”پراتھمک ودیالیہ پھول پورا بلاک خوشبو نگر ضلع خوش حال گڑھی“ اس کو یہ عبارت اتنی دل کش معلوم ہوئی کہ وہ خود کو نہ روک سکی اور اسکول میں داخل ہوگئی۔ اسکول دو منزلہ عمارت پر مشتمل تھا. جگہ جگہ نیم اور سرس کے پیڑ لگے ہوئے تھے۔ ایک بڑا سا میدان بھی تھا جس کے بیچوں بیچ ترنگا لہرا رہا تھا۔ وہ خود کو نہ روک سکی اور تقریباً ہر کلاس کا معائنہ کرتی ہوئی آفس کے خوب صورت کمرے میں پہنچ گئی۔ اس نے ہیڈ ماسٹر کی میز پر رکھے ہوئے کچھ کاغذات اور رجسٹر بھی الٹ پلٹ کر دیکھے جن میں پڑھنے والے بچوں کے نام لکھے ہوئے تھے۔مثلاً سید اقبال حسین زیدی، معصوم فاطمہ، سلیم الدین انصاری، تابش خان، پنکج شریواستو، سپنا چودھری، امن سارسوت، موہن کمار پانڈے، دلجیت سنگھ، پیٹر مسیح وغیرہ وغیرہ لیکن اسے ان ناموں سے کیا غرض. اسے یاد آیا وہ تو یہاں ”زمینی جہاد“ کو سمجھنے آئی ہے۔ اس نے سوچا اب یہاں سے باہر کا راستہ دیکھا جائے۔ اس نے پرواز بھری ہی تھی کہ اچانک اس کی نظر آفس کی ایک دیوارپر چسپاں ہوگئی جو سی ایف ایل کی روشنی میں اور مزید سفید لگ رہی تھی۔ اس نے دیکھا نوٹس بورڈ کے نیچے ہرے رنگ کے مربع نما خانے پر طرح طرح کے نعرے اور فقرے لکھے ہوئے تھے۔ مثلاً:
”ایک دو تین چار،شکشا ہے سب کا ادھیکار“
”ہندو مسلم سکھ عیسائی، مل کر سب کریں پڑھائی“
ان پڑھ ہونا ہے ابھی شاپ، اب نہ ہوں گے انگوٹھا چھاپ“
پڑھیں گے پڑھائیں گے، انت دیش بنائیں گے“
”بہت ہوا اب چولہا چوکا، لڑکیوں کو دو پڑھنے کا موقع“
”بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ“
”سب کی چاہ روٹی، کپڑا اور مکان، پر شکشا سے ہی بنتا انسان“
اس آخری سطر کو پڑھ کر اس نے سوچا ”کہیں روٹی کپڑا اور مکان کی جستجو ہی تو ”زمینی جہاد“ نہیں؟؟؟پھر اس نے اپنا خیال ذہن سے جھٹکتے ہوئے خود سے ہی کہا ”ایسا کیسے ہوسکتا ہے یہ تو اسکول ہے۔۔۔ مدرسہ نہیں ہے“۔ لیکن اسے یاد تھا کہ اس نے ایک بار پوری طاقت کے ساتھ مدرسے کا دورہ کیا تھا، اس کے ذہن میں تھا کہ وہ مدرسے سے کوئی ایسی چیز تلاش لائے جس کو جہاد بتا سکے لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکی۔
اس نے باہر نکلتے ہوئے اپنی جستجو جاری رکھی۔ اس کی نگاہ کے طائر نے ابھی ٹھیک سے پر نہ تولے تھے کہ اس نے دیکھا کہ ایک سرکاری ہسپتال سامنے ہے۔ جس کے دروازے پر سرد رات میں درختوں کے نیچے چادر اوڑھے ہوئے کچھ لوگ کراہ رہے تھے تو کچھ لوگ اوکڑوں اپنے سروں کو گھٹنوں میں چھپائے ہوئے بیٹھے تھے. ان میں سے اس نے ایک کے کان میں سرگوشی کی تو اچانک اس آدمی نے سر اٹھایا اور ایک ہی فقرہ دوہرایا ”یہ ہماری بستی ہے۔۔۔یہ ہماری بستی ہے“۔ اس نے سوچا کہ اس فقرے کو کب تک سنا جائے؟ ہر بات کی ایک انتہا ہوتی ہے. کیوں نہ آگے بڑھا جائے۔ ابھی وہ آگے بڑھنا ہی چاہتی تھی کہ مورچری سے نکلتے ہوئے اسٹریچر چلاتے ہوئے ایک شخص نے گریہ کناں آواز میں کہا ”پتا جی!!!پتا جی!!!! یہ کیا ہوا تم تو کہتے تھے”یہ ہماری بستی ہے“ اب اسی بستی کو چھوڑ کر جارہے ہو“۔
اس نے سوچا اسے کسی کی موت سے کیا لینا دینا؟؟؟ وہ آگے بڑھی ہی تھی کہ اس کو سیاہ رات میں ایسا محسوس ہوا کہ سامنے دو مینار روشن ہیں. ان میں جگہ جگہ روشنی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس نے اپنی پرواز ذرا بلند کی لیکن کسی محراب یا مینار پر اسے اسپیکر نظر نہ آیا۔ اس کو یاد آیا کہ پہلے مسجدوں کی پیشانی پر اسپیکر مزین رہتے تھے جن کے لبوں سے نکلی ہوئی اذان کو وہ اپنے دامن میں سمیٹ کر دور دور تک بکھیر دیتی تھی۔ کسی کو اذان سے اور نہ ہی نماز سے شکایت تھی۔صبح کا عالم نہایت خوب صورت ہوتا تھا، ایک طرف مسجد سے اذان کی صدا بلند ہوتی تھی تو دوسری طرف چڑیوں کا شور انسانوں کا ہی کیا اس کا بھی دل موہ لیتا تھا۔ لیکن آج یہاں اسپیکر نہیں لگا تھا۔ اس نے سوچا کہ ”کیا اذان کہنا بند کردی گئی؟؟؟ نہیں ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟؟؟ اذان تو قدرت کی طرف سے ایک مخصوص موسیقی کی متحمل ہوتی ہے جس کی آواز کانوں میں رس گھولنے کا کام کرتی ہے“۔ وہ مسجد کے صحن میں اتری، اس نے دیکھا کہ مسجد کا صحن بلا کی ٹھنڈ میں بھی لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ امام صاحب دعا میں مصروف تھے، ان کے پیچھے نمازی صف بستہ بیٹھے ہوئے تھے۔ امام صاحب اٹھے اور نمازیوں کی جانب رخ کرکے کہنے لگے۔
”اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ان اللہ مع الصابرین میرے پیارے بھائیو!!! قرآن میں صاف لکھا ہوا ہے۔۔۔”اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“۔۔۔آپ گھبرائیے نہیں۔۔۔ ان شاء اللہ کل کی صبح ہمارے لیے خوشی کا پیغام لے کر آئے گی۔۔۔ آپ کی دعائیں رائگاں نہیں جائیں گی۔۔۔۔ اللہ کریم ہے۔۔۔۔ یہ ہمارے لیے امتحان کی گھڑی ہے۔۔۔ یہ ”ہماری بستی ہے۔۔۔“۔ اس نے امام صاحب کی زبان پر بھی یہی فقرہ سنا ”یہ ہماری بستی ہے“۔ اسے تعجب تھا کہ جب یہ ان لوگوں کی بستی ہے تو پھر اس سرد رات میں جب ہر شخص لحاف میں منہ چھپائے رہتا ہے یہ زیرِ آسمان کیا کر رہے ہیں؟؟؟ وہ فوراً باہر نکلی کیوں کہ اس وقت اسے نعرہ تکبیر کی صدا نہایت دل خراش معلوم دے رہی تھی۔ وہ تیزی سے چلی تو اچانک ایک کلس سے ٹکڑا گئی یہ ”شری شری رادھا مادھو مندر“ کا کلس تھا۔ اسے تھوڑی حیرت ہوئی مسجد کے بالکل سامنے یہ مندر کیسے بنا ہے؟؟؟ یہاں تو جہادی لوگ زیادہ رہتے ہیں۔ کیا یہاں کوئی وواد یا فساد نہیں ہوتا؟؟؟ اس نے نمن کرنے کے لیے جیسے ہی مندر کے پریسر میں قدم رکھا تو دیکھا کہ یہاں بھی کافی تعداد میں لوگ بیٹھے ہوئے پرارتھنا کر رہے تھے۔ پنڈت جی بار بار مندر کا گھنٹا بجاتے اور بہ آوازِ بلند کہتے۔
”ہے کرشن گردھاری۔۔۔ ہے واسو دیو۔۔۔ ہے دیوکی نندن۔۔۔ ہے گوند گوپال۔۔۔ بھگوان ہم پر کرپا کرو۔۔۔ کرپا کرو۔۔۔ ہے مرلی والے۔۔۔ کرپا کرو۔۔۔ ہم سب تمھارے شرن میں آئے ہیں۔۔۔ ہم پر کرپا کرو۔۔۔ ہمیں بچا لو۔۔۔ ہماری بستی کو بچا لو بھگوان۔۔۔ ”یہ ہماری بستی ہے“۔
اس نے یہاں بھی یہی فقرہ سنا کہ ”یہ ہماری بستی ہے“ تو وہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ”یہ کیا معاملہ ہے؟مسجد میں بھی یہی فقرہ گونج رہا تھا اور مندر میں بھی، تو کیا ہندو مسلمان دونوں ایک ہوگئے؟؟؟ کیا گنگا جمنی تہذیب اب بھی باقی ہے؟؟؟“۔اسے اس فقرے سے وحشت سی محسوس ہونے لگی۔ اس نے یہاں سے بھی نکلنا مناسب سمجھا۔ وہ دو رویہ سڑکوں کے بیچ سے ہوکر گزر رہی تھی کہ اس نے دیکھا آس پاس کے مکانوں میں کہیں سے گریہ کی صدائیں آتی ہیں کہیں سے دعاؤں کی اور کہیں سے تلاوتِ قرآنِ مجید کی۔ اس نے سڑکوں سے رخ پھیرا اور بستی میں آہستہ رفتار کے ساتھ اور آگے بڑھنے لگی. اس کا خیال تھا شاید آگے چل کر کسی طرح اسے پتا لگ جائے کہ”زمینی جہاد“ کسے کہتے ہیں۔ وہ کھڑنجوں اور چھوٹی چھوٹی گلیوں کے چہروں سے دھول صاف کرتی ہوئی آگے بڑھ ہی رہی تھی کہ اس کے کانوں میں ”یاحسین ؑ۔۔۔یا حسینؑ۔۔۔یاحسینؑ۔۔۔کی صدائیں دستک دینے لگیں۔ اس نے پیشانی اٹھا کر دیکھا تو اس کے سر کے اوپر ایک بڑا سا پھریرا لہرا رہا تھا۔ جس پر سنہرے ستاروں اور مقیش کے تاروں سے ”یاعباسؑ“ لکھا ہوا تھا۔ اس کے اوپر بڑا سا ایک چاندی کا پنجہ چمک رہا تھا جس کے ایک جانب چمڑے کی ایک مشک بندھی ہوئی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اس قسم کا جھنڈا علم کہلاتا ہے اور یہ جہاں نصب ہوتا ہے اس عمارت کو ”امام باڑہ“ کہتے ہیں۔ وہاں محرم کے مہینے میں عزاداری ہوتی ہے۔ لوگ مجلس کرتے ہیں اور کربلا کے واقعات پر آنسو بہاتے ہیں۔ اسے تعجب تھا کہ ”یہ پرچم یہاں کیوں ہے؟؟؟ کیا علم کے ماننے والے لوگ بھی جہادی ہوتے ہیں؟؟؟۔۔۔ کیا پتا ہوتے ہوں۔۔۔کیوں کہ آج کل کی میڈیا تو کسی کو چھوڑتی ہی نہیں“۔ اس نے دیکھا کہ امام باڑے کے دروازے کے بالکل اوپر لکھا تھا ”حسینی بارگاہ“ پھر اس کے نیچے ایک شعر رقم تھا:
ہر موج ناخدا نظر آئے گی دیکھنا
کشتی بھنور میں چھوڑ دے لے کر علیؑ کا نام
امام باڑے کی حالت سے لگ رہا تھا کہ وہ کافی پرانا ہے، اس کی ککیا اینٹیں جگہ جگہ سے ٹوٹ رہی تھیں۔ اس نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک ہجوم امام باڑے کے بڑے سے آنگن میں کپکپاتی ہوئی سردی میں صفیں باندھے ہوئے نمدیدہ نگاہوں کے ساتھ ساتھ سینے پر ہاتھ مار مار کر یا حسینؑ۔۔۔ یاحسینؑ۔۔۔۔ یاحسینؑ کے نعرے بلند کر رہا تھا اور اس انداز میں کہ اگر سامنے ہمالہ پہاڑ بھی ہو تو ان دل سوز آوازوں سے ریزہ ریزہ ہوجائے۔ یکایک نوحہ خواں نے نوحہ شروع کیا:
”خالقِ ارض و سما سب کے اوپر رحم کر
دور ہو رنج و بلا سب کے اوپر رحم کر
میرا نبی لاکلام اس پہ درود و سلام
اس کی قسم یا خدا اس کا تجھے واسطہ
دور ہو رنج و بلا سب کے اوپر رحم کر
خالقِ ارض و سما سب کے اوپر رحم کر“
سب لوگ جواباً ایک ساتھ اس مصرعے کی گردان کرنے لگے ”خالقِ ارض و سما سب کے اوپر رحم کر“۔ وہ دیر تک اس مصرعے کے سوز میں ڈوبی رہی اور سوچتی رہی کہ ”یہاں تو سب کے اوپر رحم کی دعا کی جا رہی ہے تو اس بستی میں ”زمینی جہاد“ کہاں ہے؟؟؟“ جب نوحہ ختم ہوا تو ایک عمامہ بردار ذاکر نے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اس کے چہرے سے اس تاریک رات میں بھی نور ساطع ہو رہا تھا۔ اس کا اشارہ پاتے ہی سب خاموش ہو گئے۔ اس نے خطبہ شروع کیا اور کہا:
”نعرۂ صلوٰۃ“۔
سارے مجمع نے ایک ساتھ آواز بلند کی:
”اللہم صل علی محمد و آلِ محمد“
مجمع میں کسی شخص نے بلند آواز میں کہا:
”نعرۂ حیدری“
سب نے جواباً ایک ساتھ بلند آوازمیں کہا:
”یا علیؑ“
اس کے بعد عمامہ بردار ذاکر نے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے کہا:
”آپ لوگ حسینی ہیں۔۔۔ آپ نے کربلا اور امام حسینؑ سے درسِ زندگی حاصل کیا ہے۔۔۔ اور کربلا کا واضح پیغام ہے کہ باطل سے نہ ڈرو۔۔۔ اس کی بیعت نہ کرو اور ظالم کا ڈٹ کر مقابلہ کرو۔۔۔ کل کی صبح کے بارے میں آپ کا جو بھی خیال ہو میں اس بارے میں کچھ نہیں کہو ں گا۔۔۔کہوں گا تو صرف اتنا کہ ہم حسینی کل ایک ساتھ مل کر حضرت عباسؑ کے پرچم کو ہاتھ میں لے کر آگے بڑھیں گے اور دیکھیں گے کہ کون ہماری بستی کی طرف نگاہ کرتا ہے۔۔۔”یہ ہماری بستی ہے“۔ اس نے یہاں بھی اسی فقرے کی گونج سنی، وہ خاموشی کے ساتھ امام باڑے سے باہر نکلی۔ اس نے سوچا کیسی عجیب بات ہے جہاں جاتی ہوں ایک ہی فقرہ سنتی ہوں۔
وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھ ہی رہی تھی کہ اس نے سوچا کہ اب کسی گھر، مکان، کوٹھی یا حویلی کا رخ کیا جائے، وہیں سے شاید کچھ سراغ مل سکے کہ ”زمینی جہاد“ کیا ہے؟ راستے میں اس نے دیکھا کہ کہیں ”خان مارکیٹ“ کہیں ”سنکٹ موچن کلینک“۔کہیں ”حسینی سبیل“کہیں” ایس ایم بی کنیا انٹر کالج“ کہیں ”سینٹ فیدلس چرچ“ کہیں ”شاہ عبدالغفور“ کا مزار کہیں ”گرو صاحب گرودوارہ“۔ کہیں ”رام داس لاہور والوں کے کپڑوں کی دکان“ کہیں ”سنتوشی ڈیری“ تو کہیں ”گیان بک سینٹر“ ہے۔ اس نے دو جگہ الگ الگ مقامات پر دو پانی کی بڑی بڑی ٹنکیاں بھی دیکھیں جن سے بستی والوں کو سرکار کی جانب سے پانی سپلائی ہوتا تھا لیکن اسے پیاس لگتی ہی نہ تھی چاہے وہ کتنا ہی چلے، تیز چلے یا دھیرے دھیرے چلے، اس کے حلق میں کبھی کانٹے نہ لگتے تھے۔ اسی طرح وہ بہت سے مقامات کا مشاہدہ کرتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی. اسے لگ رہا تھا جیسے آج رات ہوئی ہی نہیں ہے. ساری بستی باہر نکلی ہوئی تھی۔ جگہ جگہ الاو کا انتظام بھی تھا لیکن الاؤ پر بیٹھے لوگ ایک ہی فقرہ کہتے تھے”یہ ہماری بستی ہے۔۔۔یہ ہماری بستی ہے“۔ اس نے اس فقرے سے بچنے کے لیے مناسب سمجھا کہ کسی مکان میں داخل ہوجائے۔
وہ جس مکان میں داخل ہوئی اس کی دیواریں اپنے حال پر خود ہی مرثیہ پڑھ رہی تھیں۔ دروازے پر کواڑ کی جگہ ایک ٹاٹ کا پردہ لگا ہوا تھا. اس نے اندر قدم رکھا تو دیکھا کہ چھت کی کڑیاں جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں اور ان سے برادہ جھڑ رہا تھا۔ بیچ میں چڑیا کا چھوٹا سا گھونسلہ تھا جس میں سے مسلسل ”چیں چیں“ کی آوازیں آرہی تھیں. ایسا لگتا تھا کہ آج ننھی چڑیا کے یہاں بھی رتجگا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک چھوٹے سے کمرے میں ایک بوڑھی عورت لحاف اوڑھے ہوئے چارپائی پر میلا سا گاؤ تکیہ لگائے ہوئے بیٹھی تھی اور نادِ علیؑ کا ورد کر رہی تھی۔ جس کے عین سر کے اوپر طاق میں ایک زیرو واٹ کا بلب روشن تھا۔ اس کی دائیں جانب ایک ٹوٹے ہوئے لنگڑے اسٹول پر گلاس اور جگ رکھا ہوا تھا۔ اس نے پانی پینے کے لیے جیسے ہی گلاس اٹھایا وہ ہاتھ سے گر گیا، اس کے ٹوٹنے کی آواز نے برابر میں سوئے ہوئے نوجوان شخص کو جگا دیا۔
”اماں کیاہوا؟؟؟“
”کچھ نہیں بیٹا“
کیوں پریشان ہو؟؟؟“
”نہیں۔۔۔بیٹا میں کہاں پریشان ہوں؟؟؟“
”تو پھر کس خیال میں ہو پانی بکھر گیا ہے۔۔۔ٹھنڈ بہت ہے“
”بیٹا میں یہ پوچھ رہی تھی کہ کل کیا ہوگا؟؟؟۔۔۔کیا تمھارے ابا کی قبر توڑ دی جائے گی؟؟؟ وہاں جمعرات کو بھی جانا نہیں ہوگا؟؟؟“
”اماں سب کچھ اللہ پر چھوڑ دو۔۔۔مشکل کشا کے وسیلے سے ہماری مدد ہوگی۔۔۔ میں نے نذر بھی مانی ہے۔۔۔ کچھ نہیں ہوگا“
میں۔۔۔ میں نے بھی جنابِ سیدہ کی کہانی مانی ہے۔۔۔بلکہ۔۔۔ اس بار محرم میں حضرت قاسمؑ کے تابوت پر چاندی کا سہراچڑھاؤں گی“۔
”اماں اب سو جاؤ۔۔۔ فجر میں اٹھنا۔۔۔ ”یہ ہماری بستی ہے“۔
اس نے یہاں بھی یہی فقرہ سنا توپھر باہر کا رخ اختیار کیا۔ اب وہ ایک حویلی میں خود کو دیکھ رہی تھی۔ جس کے بڑے سے پھاٹک میں ایک چھوٹا سا دروازہ تھا، شاید وہ اسی سے اندر داخل ہوئی تھی، اس نے دیکھا حویلی کی بائیں جانب ایک بڑا سا گھیر تھا، جس میں کچھ بھینس اور گائے بندھی ہوئی تھیں۔ وہ گھیر میں داخل ہوئی تو دیکھا ناند میں چارہ جیوں کا تیوں ہی پڑا ہوا تھا۔ پانی بالٹیوں میں لبالب موجود تھا. البتہ ایک گائے کچھ چبا رہی تھی، اسے اپنے بچھڑے کی فکر تھی۔اس نے دیکھا کہ بھینس نے زور سے”ماااااااااااااں“ کی آواز نکالی۔ اسے لگا بھینس بھی اپنی زبان میں جیسے کہہ رہی ہو ”یہ ہماری بستی ہے۔۔۔یہ ہماری بستی ہے“۔ وہ فوراً گھیر سے باہر نکلی تو دیکھا کہ حویلی اپنی شان و شوکت کے ساتھ جاگ رہی تھی۔ مگر اس رات میں نہ جانے کیوں اس کے چہرے پر اداسی کے نقوش صاف صاف نظر آتے تھے۔ اچانک بڑے کمرے کی دیوار پر بڑے سے گھنٹے نے بارہ ٹکورے بجائے، اسے لگا کہ گھنٹے کی سوئیوں نے ایک دوسرے کو بوسہ دینے کے دوران ایک فقرہ ایک دوسرے کے کان میں کہا ہے ”یہ ہماری بستی ہے۔۔۔یہ ہماری زمین ہے“۔
وہ حویلی سے باہر نکلی اور ایک کوٹھی میں داخل ہوئی۔ وہ ڈارئنگ روم میں قدم ہی رکھ پائی تھی کہ اس نے دیکھا کہ گھر کے افراد دیوار پر لگے ہوئے ٹی وی کو دیکھ رہے تھے، جس میں ایک اینکر چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی۔”یہاں زمینی جہاد ہورہا ہے۔۔۔زمینی جہاد“۔ اس نے دیکھا کہ اینکر کی بات سن کر ایک کم سن بچی زور زور سے رونے لگی۔ پاس ہی بیٹھی اس کی ماں نے اسے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔
”کیا بات ہے؟؟؟ کیوں روتی ہو؟؟؟ کچھ نہیں ہوگا؟؟؟شازیہ۔۔۔۔ کچھ نہیں ہوگا“۔
”نہیں ممی۔۔۔ کل کچھ نہ کچھ ہوگا۔۔۔ پاپا۔۔۔ پاپا۔۔۔ پاپا نے بتایا تھا کل ہم سب لوگ۔۔۔ میری گڑیا کا کیا ہوگا؟؟؟۔۔۔ انجلی کے گڈے کی بارات بھی تو آنی ہے۔۔۔ میں نیا شرارہ اور غرارہ کہاں پہنوں گی؟؟؟۔
بچی کی بات ادھوری رہ گئی. ماں کی آنکھوں میں بھی آنسو چھلکنے لگے۔ ”نہیں بیٹا۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ یہ ہماری بستی ہے“۔
وہ یہاں کی فضا کو بھی الوداع کہہ کر باہر نکلی اور پھر کئی نشیب و فراز اور کئی اونچی اونچی عمارتوں اور فلیٹس کو چھیڑتی اور چھوڑتی ہوئی آگے بڑھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ عجیب بستی ہے ہر شخص کی زبان پر ایک ہی فقرہ ہے ”یہ ہماری بستی ہے۔۔۔ یہ ہماری بستی ہے۔۔۔ کون منع کرتا ہے؟؟؟ مجھے بھی کیا لینا دینا میں تو ”زمینی جہاد“ سمجھنے کے لیے بستی میں آئی ہوں۔
وہ تیزی سے آگے بڑھی تو اس کے راستے میں ایک جھونپڑی نما گھر تھا، وہ باہر سے کسی سادھو کی کٹیا معلوم ہوتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک چھوٹی سی اندھیری کوٹھری میں دو سایے ایک پرانی سی مسہری پر سرگوشی میں مصروف تھے۔ ان میں سے ایک سایے نے کہا:
”اب کچھ جی نہیں چاہتا۔۔۔چھوڑو“
”کیا ہوا ابھی تو صبح میں سمے ہے۔۔۔ مندر کا گھنٹا ابھی کہاں بجا ہے؟؟؟“
”نہیں کچھ نہیں۔۔۔ سونو جاگ جائے گا“
”تو کیا ہوا؟؟؟ اس سے پہلے بھی جاگا ہے اس کی پروا تمھیں کب سے ہوگئی؟؟؟ تم پاروتی تو نہیں ہو“
”پاروتی کا نام نہ لیا کرو میرے سامنے“
”کیوں؟؟؟ تم نے تو اس کو دیکھا بھی نہیں ہے“
”اس کے بارے میں سنا تو ہے۔۔۔ آپ بات بے بات اس کی تعریف کرتے ہو۔ جب کہ اس نے آپ کو اپنی زمین سے بے دخل کر دیا“
”چھوڑو۔۔۔ رہنے دو۔۔۔ زمین کا نام نہ لو۔۔۔ کل کی چنتا کرو۔۔۔. کل ضرور۔۔۔ پاروتی آگے آگے ہوگی۔۔۔ نیتانی جو ٹھہری“
”نیتانی ہے تو کیا ہوا؟؟؟ کیا ہماری زمین چھین لے گی؟؟؟یہ ہماری بستی ہے“
یہاں بھی اس کو دونوں سایوں کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ ”زمینی جہاد“ سمجھنا آسان نہیں ہے اور جب اسے سمجھنا آسان نہیں تو پھر وہ اس کو کیسے مٹا سکتی ہے؟ ابھی وہ آگے بڑھنا ہی چاہتی تھی کہ دو قدم پر ہی اس کی پیشانی ایک دیوار سے ٹکرا گئی، دیوار کا سمنٹ جگہ جگہ سے نکل رہا تھا. ایسا لگتا تھا کسی جاتی ہوئی گاڑی نے اس پر کیچڑ اور مٹی پھینکی ہے۔ اس نے دیکھا کہ دیوار کے ایک سرے پر لال رنگ سے جلی حروف میں لکھا ہوا تھا ”سب کا ساتھ سب کا وکاس“ اس فقرے کے بالکل برابر ایک پھول بنا ہوا تھا، وہ کون سا پھول تھا؟ یہ غور کیے بغیر وہ ایک پل کو سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ وکاس کے بارے میں سوچنا ہی ”زمینی جہاد“ ہو؟؟؟ نہیں نہیں ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟؟؟ کیوں کہ وکاس تو دفتروں میں دھول چاٹ رہا ہے۔
اس نے آگے کا سفر طے کیا تو دیکھا کہ بلند قامت عمارتیں ہاتھ پھیلائے ہوئے اس کو اپنی جانب بلا رہی تھیں۔ اس نے چپکے سے ایک بلڈنگ کے ایک کمرے کے روشن دان سے جھانکا تو دیکھا کہ ایک بوڑھی اور ضعیف عورت سر پر دوپٹہ باندھے ہوئے سجدے میں گڑگڑاتی جاتی تھی اور کہتی جاتی ہے کہ ”یہ ہماری بستی ہے۔۔۔ یہ ہماری بستی ہے“۔ وہ جس مصلے پر بیٹھی تھی اس پر خانۂ کعبہ کی بڑی سی تصویر بنی ہوئی تھی۔ برابر میں طاق میں وارث علی شاہ کی بڑی سی تصویر الماری میں رکھی ہوئی تھی۔ جس کے عین اوپر ایک کتبے پر ایک شعر لکھا ہوا تھا:
بیدمؔ یہی تو پانچ ہیں مقصودِ کائنات
خیرالنساء حسینؑ و حسنؑ مصطفیٰؐ علیؑ
خانۂ کعبہ کو دیکھ کر اسے یاد آیا کہ ایک خاص طبقے کے لوگوں کا ماننا ہے کہ یہاں ”شو“ سے متعلق کوئی پتھر موجود ہے۔ لیکن اسے معلوم تھا کہ اس کی تاریخ کیا ہے. آدم سے لے کر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے واقعات کے ساتھ ساتھ اس کی نگاہ میں وہ واقعہ بھی گردش کرنے لگا جب حجرِ اسود کو کعبے میں نسب کرنے کا معاملہ ابھرا تھا، تو تمام قبیلے والے ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے تھے، لیکن حضرت محمدؐ نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اتحاد کا پیغام عام کیا تھا۔
اس نے سوچا کہ اب کسی میدان کی راہ لی جائے جہاں یہ فقرہ سنائی نہ دے کہ ”یہ ہماری بستی ہے۔۔۔یہ ہماری بستی ہے“ اور وہ آسانی سے ٹھنڈے دماغ سے سوچ سکے کہ ”زمینی جہاد“ کس کو کہتے ہیں اور اسے ختم کرنے کے لیے کیا اقدام کیے جا سکتے ہیں۔ وہ خراماں خراماں میدان کی تلاش میں آگے بڑھی لیکن میدان کے بجائے اس کی آنکھوں کے سامنے ایک خوب صورت پارک تھا۔پارک لوہے کے خار نما تاروں سے گھرا ہوا تھا. اس کی چھوٹی چھوٹی چار دیواری پر ٹوٹے ہوئے کانچ جڑے ہوئے تھے، لیکن اسے روکنے والا کون تھا؟ نہ وہ کوئی چور تھی نہ جواری اور نہ نشے سے اس کا کوئی تعلق تھا. اس نے دیکھا کہ دروازے پر تعینات گارڈ جاگ رہا تھا. وہ دروازے کی بڑی سی سیڑھی پر لحاف اوڑھے ہوئے بیٹھا ہوا تھا۔ برابر میں اس کے ایک فقیر ٹھٹھر رہا تھا، جس کے سیدھے ہاتھ کی ایک انگلی اور انگوٹھے میں بیڑی سلگی ہوئی تھی۔ جسے وہ نئے نئے طریقوں سے پی رہا تھا۔ اس کی صحت دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ بیڑی نہیں پیتا تھا بلکہ بیڑی اسے پی رہی تھی۔ وہ کھانستے کھانستے جب کش بھر کے دھواں فضا میں چھوڑتا تو اس سے مرغولے بن بن کر ایک تحریر سی لکھتے۔ کیوں کہ وہ اس دھوئیں سے خوب واقف تھی. اسے معلوم تھا یہ دھواں فضا میں اتنی آلودگی نہیں پھیلاتا جتنے لوگوں کے لفظ دلوں کو زخمی کرتے ہیں اور ماحول خراب کرتے ہیں۔ اس نے دیکھا کہ مرغولے اس کا لباس بن چکے تھے، لیکن اس لباس پر کچھ لکھا ہوا تھا۔اس نے ایک بار اپنے لباس کو اس انداز سے دیکھا کہ ”نرگسیت“ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ اس پر لکھا ہوا تھا ”یہ ہماری بستی ہے“۔ وہ پارک میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ وہاں ایک بڑا سا گھاس کا میدان تھا جس پر جگہ جگہ چادر بچھائے ہوئے کچھ لوگ ہاتھوں میں کتابیں لیے ہوئے بیٹھے تھے اور بار بار آسمان کی طرف دیکھتے جاتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک جانب قرآن کی آیات بلند ہیں تو ایک جانب اشلوک اور منتروں کا جاپ کیا جا رہا ہے۔ وہ آگے بڑھی تو اس نے دیکھا کہ سرخ گلابوں کی کیاریاں مسکرا مسکرا کر لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتی ہیں، لیکن کوئی ان کی طرف دیکھنے والا نہیں تھا۔ اس کے علاوہ قسم قسم کے پھول رات کی رانی کے ساتھ اپنا اپنا پیغام دینا چاہتے تھے۔ اس وقت ان کا پیغام کیا تھا؟ لوگ کیا جانیں وہ تو بس کتاب پڑھتے پڑھتے بار بار آسمان کی طرف دیکھنے میں مصروف تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ رات میں پیڑوں کے سایے بھی ڈستے ہیں۔ انھیں کسی زہر کا خوف نہ تھا، وہ تو بس آنے والی صبح کے منتظر تھے۔ اس نے دیکھا کہ پارک میں ایک جانب جھولے لٹکے ہوئے تھے، جن پر چھوٹے چھوٹے بچے جھولا جھول رہے تھے۔اس نے سوچا کہ بچوں کی باتیں بھی سنی جائیں. اسے اتنا تو معلوم تھا کہ بچے معصوم ہوتے ہیں. انھیں ”زمینی جہاد“ کا علم نہ ہوگا، لیکن گھر میں کبھی نہ کبھی انھوں نے اس کے بارے میں سنا ہوگا، تو شاید ان سے ہی اندازہ ہوسکے کہ ”زمینی جہاد“ کیا ہے؟ اس نے دیکھا کہ اندھیرے کے خوف کے بغیر دو بچے آپس میں کشتی لڑ رہے ہیں۔ دونوں ہی بہ یک زبان چیخ چیخ کر کہتے تھے”یہ ہماری بستی ہے۔۔۔یہ ہماری بستی ہے“۔ اس نے یہاں سے بھی باہر کی راہ لی۔
وہ چند قدم ہی آگے بڑھی تھی کہ سامنے ایک بڑا سا میدان تھا۔ جو چاروں طرف سے گھروں اور عمارتوں کی عقبی دیواروں سے گھرا ہوا تھا۔ یہاں کی دیواریں بھی طرح طرح کے رنگوں سے رنگی ہوئی تھیں جن پر طرح طرح کے اشتہار لکھے ہوئے تھے۔ مثلاً:
”باب العلم کوچنگ سینٹر، نرسری ٹو ہائی اسکول، نزد حسینی چوک،مومن آباد“
”جوالہ چائے، بار بار پئیں اور سردی دور کریں، سمپرک کریں، ٹھاکر وجے داس جگدیش نگر“
”کومل بلڈرس، سبھاش روڈ کیلا نگر“
”ایڈمیشن اوپن، ڈمانڈ مونٹیسری اسکول بائی پاس جی ٹی روڈ ہاشم نگر“
”سونا صابن، آپ کی تیوچا کا رکھے خیال“
”سندیپ سریا کمپنی دوارکا روڈ گھنشیام نگر“
”جاوید دواخانہ، شاہد نگر، جہاں ہر مرض کا علاج موجود ہے، ڈاکٹر دانش منصور بی یو ایم ایس علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، ملنے کا وقت، صبح ١٠ بجے سے دوپہر ۲ بجے تک“۔
اسے اندازہ تھا کہ یہاں لڑکے گلی ڈنڈا، کرکٹ اور فٹ بال وغیرہ کھیلتے ہوں گے لیکن اسے یہ خبر نہ تھی کہ وہاں ہاکی بھی کھیلی جاتی تھی یا نہیں۔ اس نے دیکھا کہ میدان میں انتہائی سردی ہونے کے باوجود بستی کے نوجوان لڑکے آپس میں گروپ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے۔لیکن ان میں سے کسی کو کسی کی خبر نہ تھی. سب اپنے اپنے ہاتھوں میں موبائل لیے ہوئے تھے۔ اچانک ایک لڑکے نے موبائل پٹکتے ہوئے کہا۔
”یہ گودی میڈیا چاہتی کیا ہے؟؟؟۔۔۔ کیا ہم اسی طرح قدم قدم پر اس احساس میں مبتلا رہیں گے کہ ہمارے کچھ اسلاف نے اپنی دنیا بسا لی تھی۔۔۔ اس میں ہمارا کیا قصور۔۔۔ اگر کسی نے کسی سیاست، نفرت، یا کسی بھی جذبے کے تحت کوئی ایسا عمل انجام دیا جو تاریخ کے ماتھے کا کلنک بن کر رہ گیا۔۔۔ اس میں ہمارا کیا قصور۔۔۔ کیا قصور؟؟؟۔۔۔ یہ بھی تو دیکھنا ہوگا کہ وہ وقت کیسا تھا؟۔۔۔ کون کتنا قصور وار تھا، ہم کیسے کہہ سکتے ہیں؟؟؟۔۔۔ ہم تو کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں کہ ایسا ہوا ویسا ہوا؟؟؟ ہم تو اس وقت تھے نہیں۔۔۔ ہم کیا جانیں ہم بے قصور ہیں۔۔۔ ہمارے بچے معصوم ہیں۔۔۔ ہمیں اس زمین سے محبت ہے۔۔۔ کیا دنیا اشفاق اللہ کو بھول گئی؟؟؟ اسے بیگم حضرت محل یاد نہیں؟؟؟ ریشمی رومال کی تحریک کیا تھی؟؟؟۔۔۔ کچھ بھی ہو۔۔۔ کوئی کچھ بھی کہے۔۔۔ یہ ہماری بستی ہے“۔
ایک لڑکا یوٹیوب پر یہ دیکھنے میں مصروف تھا کہ کون کون اور کس کس طرح کے لوگ ان کی بستی پر کیا کیا کہہ رہے ہیں۔ ایک لڑکا اپنے واٹس ایپ چیٹ میں نہ جانے کس سے چیٹنگ میں مصروف تھا۔ لیکن اس کی نظر نے اڑتے اڑتے دیکھا کہ وہ ہر بار کسی کے جواب میں یہی لکھتا ہے کہ ”یہ ہماری بستی ہے۔۔۔یہ ہماری بستی ہے“۔ اس نے دیکھا کہ یہاں بھی اسے ”زمینی جہاد“ کے بارے میں کچھ پتا نہیں لگتا تو وہ کچھ اور آگے بڑھی، اس بار اس نے دیکھا کہ بستی تمام ہو چکی ہے لیکن قریب ہی ایک قبرستان موجود ہے۔ اس نے اس سے پہلے بہت سے قبرستانوں اور شمشانوں کی سیر کی تھی، لیکن اتنی وحشت اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ قبرستان میں کہیں کچی قبریں تھیں تو کہیں پکی قبریں، کوئی بڑی قبر تھی کوئی چھوٹی قبر، کوئی دیکھنے میں پرانی معلوم ہوتی تھی تو کسی  کا نشان تازہ تھا۔ زیادہ تر قبروں کے سراہنے کتبے لگے ہوئے تھے۔ اس نے دو ایک کتبے پڑھے لیکن پھر خیال آیا کہ قبروں کے کتبے پڑھنے سے نسیان کی بیماری ہوتی ہے، وہ لہراتی ہوئی آگے ہی بڑھی تھی کہ یکایک تمام کتبوں نے ایک ساتھ شور مچانا شروع کردیا ”یہ ہماری بستی ہے۔۔۔یہ ہماری بستی ہے“۔ اس نے وہاں سے تیزی سے نکلنا ہی مناسب سمجھا اور بستی میں جہاں سے داخل ہوئی تھی وہیں لوٹنے کا ارادہ کیا تاکہ یہ جان سکے کہ اس شخص کا کیا حال ہوا جو مائکوں کے قفس میں مقید اور زہر زدہ تھا۔ وہ اس جانب بڑھ ہی رہی تھی کہ اس کی نگاہ ایک پنڈال پر پڑی۔ اس نے دیکھا کہ شادی کی تقریب میں طرح طرح کے گانے بجائے جا رہے تھے۔ ابھی بارات چڑھی نہیں تھی۔ کچھ لوگ کرسیوں پر بیٹھے تھے اور ڈی جے سے نکلتے ہوئے طرح طرح کے گانے سن رہے تھے۔ اس نے سوچا کہ ان نغموں سے لطف اٹھا کر آگے بڑھا جائے لیکن یہاں بھی ایک قیامت کا منظر تھا، بہ ظاہر خوشی کا ماحول تھا، لیکن لوگ مسکراتے مسکراتے آنسوؤں سے زار و قطار رو رہے تھے۔ اس نے غور سے نغمہ سنا تو نغمے کے بول تھے۔
”یہ ہماری بستی ہے۔۔۔یہ ہماری بستی ہے
ہم نہ جائیں گے ہرگز چھوڑ کر یہ جنت ہے
خون بھی جو مانگو گے اس پہ ہم چڑھا دیں گے
سر بھی کوئی مانگے گا شوق سے کٹا دیں گے
جسم کے کرو ٹکڑے یا چلاؤ بلڈوزر
ہم یہاں سے ہرگز بھی جا ئیں گے نہ جائیں گے
یہ ہماری بستی ہے۔۔۔یہ ہماری بستی ہے“۔
وہ یکایک وہاں سے بھی روانہ ہوئی. اسے نغمے کی صدائیں اندر سے زخمی کر رہی تھیں. اس کا یہ ارادہ ہوا ہوچکا تھا کہ وہ ”زمینی جہاد“ کے بارے میں جانے اور پھر اس کو ختم کرنے کے لیے کوئی عمل انجام دے۔
وہ سفر کرتے کرتے اٹھتر ایکڑ زمین کا طواف کر چکی تھی لیکن اسے اب بھی یہ علم نہ ہوسکا تھا کہ”زمینی جہاد“ کسے کہتے ہیں۔ اس نے سوچا کیوں نہ وہ آسمانوں میں واپس لوٹ جائے اور وہاں کے ساکنان کو یہ بتائے کہ یہ بستی کتنی دل کش اور کتنی خوب صورت ہے. اس کے دامن میں حسن و عشق بھی ہے، جذبات بھی ہیں، نمازیں بھی ہیں پوجائیں بھی ہیں، عزاداری بھی ہے، حق شناسی بھی ہے، جوش بھی ہے، ولولہ بھی ہے اور یہ جذبہ بھی ہے کہ اس بستی کو کس طرح زیادہ سے زیادہ ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے۔ اچانک وہ تیزی کے ساتھ آسمانوں کی طرف بڑھنے لگی، لیکن اس کے لبوں کی سرسراہٹ پر بھی ایک ہی فقرہ گردش کر رہا تھا ”یہ ہماری بستی ہے۔۔۔یہ ہماری بستی ہے“۔
***
Syed Baseerul Hasan Wafa Naqvi
Hilal House
H.No.4/114
Nagla Mallah Civil lines Aligarh
202002
UP India
Mob:9219782014
***
صاحب افسانہ کی گذشتہ نگارش: پروین شاکر کے آئینۂ غزل میں اسلامی عکس کے نقوش

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے