مثنوی شعر و ادب

مثنوی شعر و ادب

مسعود بیگ تشنہ

مثنوی شعر و ادب (مختصر )
ہو فکر گر ادب میں، ادب کا مقام ہے
جذبے سے شاعری کو میسّر دوام ہے
نارنگیت نہیں، کہیں فاروقیت نہیں
(گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمٰن فاروقی کی تنقید)
تخلیقیت ہی شعر و ادب کی قِوام ہے
ناقد کئی علوم پہ رکھتا ہے دسترس
نارنگ و فاروقی کا تبھی اتنا نام ہے
ناقد سوار سر پہ ہے، قاری ہے اک طرف
شاعر تو اپنی دُھن میں ہی مستِ خِرام ہے
وجدان چیز اور ہے، ہے فکر اور چیز
اپنی بلا سے شاعری دونوں کا نام ہے
تشبیہ، استعارہ، کنایہ، علامتیں
فکرِ سخن کے سامنے ہر شے غلام ہے
تلمیح ایسی شے ہے کہ تاریخ ہے گواہ
فرعون اور یزید کی تلمیح عام ہے
شعری جمالیات یا فکری جمالیات
شاعر کے جذب و فکر پہ کس کو کلام ہے
علمِ عَروض جس کو کہَیں ناپ تول بھی
شاعر کا کام یہ نہیں، بیوپاری کام ہے
یہ باتیں حسن و عشق کی کم بخت کم نہیں
یوں چارا کھا کے کرنا جگالی تو عام ہے
کچھ شعر جنسیات کی تسکین کے لیے
کچھ سستی شاعری کا بھی اپنا مقام ہے
اِبہام اور رمز و علامت خدا پناہ!
بوجھل ہے جس سے شعر، فسانہ بھی خام ہے
اِیہام ہے صنعت مگر اِبہام بھی ہے خوب
جس کو جو ہے پسند وہ اُس کا غلام ہے
جو موزوں طبع خود کو سمجھتا بزعمِ خود
پابند شاعری کا وہی طفلِ خام ہے
جعلی لکھاری اور متشاعر بھی خوب ہیں
اُن کے قبیلے والوں کا کیا تام جھام ہے
ہے وقت کم تو صنف کی سائز بھی اور کم
افسانچہ، تِری وے نی مقبولِ عام ہے
لکھنا شعوری رو میں ہے تکنیک لاجواب
‘عینی` کا ‘دریا آگ` کا مثلِ خِرام ہے
(قرۃالعین حیدر کا ناول آگ کا دریا)
جو نظم بن سکے نہ اُسے توڑ موڑ دو
ہاں نثری نظم جیسا کوئی اُس کا نام ہے
آزاد نظم بھی ہے اور آزاد ہے غزل
آہنگِ اندرون مگر اِن میں عام ہے
اب مثنوی تمام کرو حضرتِ مسعود
کوشش کرو ہزار مگر ناتمام ہے
تخئیل و فکر و خواب کا "تشنہ" الگ ہجوم
کارِ حیات کا بھی بڑا اژدہام ہے
(6 ستمبر 2020 ،اِندور ،انڈیا) 
***
مثنوی شعر و ادب (طویل) 
ہو فکر گر ادب میں، ادب کا مقام ہے
جذبے سے شاعری کو میسّر دوام ہے
نارنگیت نہیں، کہیں فاروقیت نہیں
(گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمٰن فاروقی کی تنقید)
تخلیقیت ہی شعر و ادب کی قِوام ہے
ناقد کئی علوم پہ رکھتا ہے دسترس
نارنگ و فاروقی کا تبھی اتنا نام ہے
ناقد سوار سر پہ ہے، قاری ہے اک طرف
شاعر تو اپنی دُھن میں ہی مستِ خِرام ہے
وجدان چیز اور ہے، ہے فکر اور چیز
اپنی بلا سے شاعری دونوں کا نام ہے
تشبیہ، استعارہ، کنایہ، علامتیں
فکرِ سخن کے سامنے ہر شے غلام ہے
تلمیح ایسی شے ہے کہ تاریخ ہے گواہ
فرعون اور یزید کی تلمیح عام ہے
شعری جمالیات یا فکری جمالیات
شاعر کے جذب و فکر پہ کس کو کلام ہے
علمِ عروض جس کو کہَیں ناپ تول بھی
شاعر کا کام یہ نہیں، بیوپاری کام ہے
یہ باتیں حسن و عشق کی کم بخت کم نہیں
یوں چارا کھا کے کرنا جگالی تو عام ہے
کچھ شعر جنسیات کی تسکین کے لیے
کچھ سستی شاعری کا بھی اپنا مقام ہے
اِبہام اور رمز و علامت خدا پناہ!
بوجھل ہے جس سے شعر، فسانہ بھی خام ہے
اِیہام ہے صنعت مگر اِبہام بھی ہے خوب
جس کو جو ہے پسند وہ اُس کا غلام ہے
جو موزوں طبع خود کو سمجھتا بزعمِ خود
پابند شاعری کا وہی طفلِ خام ہے
شہدائے کربلا کے لیے مرثیے کی صنف
نذرِ امام حسین سلام ہی سلام ہے
نوحہ گری بہ یادِ شہیدانِ کربلا
نوحہ جو شہر کا شہر آشوب نام ہے
ذکرِ رسول، اسوۂ حسنہ، مدحِ نبی
وہ نعت پاک ہے، وہ صلات و سلام ہے
رکھتے سخن کے پہلے ہیں جو حمدیہ کلام
حمدِ خدا میں کس کو بھلا کچھ کلام ہے
بعدِ خدا ضرورتِ مدح سرائی ہے
تو پھر قصیدہ لکھنے کا اپنا مقام ہے
گر ریختہ سے اوب گئے ہیں تو کیا ہوا
نسوانیت میں ریختی بندی غلام ہے
قطعہ، رباعی، نظم کہو یا غزل کہو
اردو ہے جس کا نام اسی کا کلام ہے
جعلی لکھاری اور متشاعر بھی خوب ہیں
اُن کے قبیلے والوں کا کیا تام جھام ہے
ہے وقت کم تو صنف کی سائز بھی اور کم
افسانچہ، تِری وے نی مقبولِ عام ہے
لکھنا شعوری رو میں ہے تکنیک لاجواب
‘عینی` کا ‘دریا آگ` کا مثلِ خِرام ہے
(قرۃالعین حیدر کا ناول آگ کا دریا)
فکشن، فسانہ اور کہانی تو ایک ہیں
ناول بڑا ضرور ہے، مقبولِ عام ہے
انشائیہ مزاح کا پہلو لیے ہوئے
ادبِ لطیف میں بھلا کس کو کلام ہے
خاکہ نگاری میں جو ابھرتی ہے شخصیت
یہ اچھے خاصے اہلِ قلم کا ہی کام ہے
طنز و مزاح کا نثر میں بھی ہے بڑا دخل
گر نظم کر رہے ہیں ہزل اس کا نام ہے
ہے منچ تو ڈرامہ ہو یا ہو مشاعرہ
واہ واہ اور تالی بہت بے لگام ہے
قوالی، چار بیت بھی ہیں منچ کے لیے
موسیقی اور رقص کا بھی انضمام ہے
مضمون لکھیے اور مقالہ پڑھا کریں
بس دیکھیے کیا موقع ہے، کیا انتظام ہے
جو نظم بن سکے نہ اُسے توڑ موڑ دو
ہاں نثری نظم جیسا کوئی اُس کا نام ہے
آزاد نظم بھی ہے اور آزاد ہے غزل
آہنگِ اندرون مگر اِن میں عام ہے
وہ مثنوی ہے جس طرح ‘سحر البیان` ہے
ہے نظم مثنوی جو مسلسل کلام ہے
اب مثنوی تمام کرو حضرتِ مسعود
کوشش کرو ہزار مگر ناتمام ہے
تخئیل و فکر خواب کا تشنہ الگ ہجوم
کارِ حیات کا بھی بڑا اژدہام ہے
(6 ستمبر 2020 ،اِندور ،انڈیا) 
****
مسعود بیگ تشنہ کی گذشتہ تخلیق :امجد اسلام امجد اور ابن کنول کے نام

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے