زندگی کے طوفان  میں پرواز کناں: ڈاکٹر محمد علی حسین شائق

زندگی کے طوفان میں پرواز کناں: ڈاکٹر محمد علی حسین شائق

نسیم اشک

ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
فون۔9339966398

زندگی بہت کم ہی موقع دیتی ہے کہ آدمی وہ کام کر سکے جو کبھی کبھی ایک عمر میں نہیں ہو پاتا ہے. پھر شاید کئی عمروں میں بھی نہیں ہو پاتا ہو. ہاں! یہ توفیق خداوندی ہے، وہ خدا جو دلوں کی دھڑکنیں سنتا ہے اور اس دل میں بسے لوگوں کے چہرے بھی دیکھتا ہے، وہ چہرے جو آنکھوں سے اوجھل ہونے کے باوجود دلوں میں اک تمنا کی مانند بسے رہتے ہیں۔ مجھے ایک ایسے ہی دل کی بات کرنی مقصود ہے۔ ایک دل جس میں والد کے ارمان، ماں کی چمکتی آنکھوں کا خواب، بھائیوں کے لرزتے ہاتھ، بیوی کا مشکل حالات میں مسکراتا چہرہ اور خود کی خالی خالی آنکھوں میں ہزار رتجگوں کی کہانی کے ساتھ اس خالق ازل سے امیدیں جن کی بر ہونے کا یقین بسا تھا۔ وہ دل اتنا مضبوط تو نہیں تھا کہ جتنے سخت امتحانات تھے مگر ٹھہریے! یہ ان لوگوں کا نظریہ ہے جن کی بینائی صرف ظاہر دیکھ سکتی ہے، وہ جو باطن دیکھتا ہے وہ تو جانتا تھا کہ یہ دل کتنا مضبوط ہے۔ زندگی کا حسن مشکلات کا حد سے تجاوز ہونے پر نکھرتا ہے، یہ میرا ماننا ہے. ممکن ہے آپ اتفاق نہ رکھیں، لیکن اس بات سے ضرور اتفاق رکھیں گے کہ اس نے جی ہاں! اسی دل کی بات کر رہا ہوں جس نے ہر مشکل سفر پر لبیک کہا اور جب مصور کائنات نے مقدس سفر کا پروانہ دیا تو اس دل نے بڑھ کر تھام لیا اور شکر خدا میں اپنے سر بے توقیر کو شہنشاہوں کے شہنشاہ کے دربار میں جھکانے کی سعادت حاصل کی۔ وہ دل جس سینے میں دھڑکتا ہے وہ ڈاکٹر محمد علی حسین شائق کا سینہ ہے۔
تعلیمی میدان میں اپنی مستحکم شناخت رکھنے والے محمد علی حسین شائق نے اپنی ماں سے ملی محبت کی وراثت کو سنبھالے رکھا اور اپنے عزیز و اقارب، رشتے دار، خاندان والوں کو کبھی علمیت اور دولت کے چشمے سے نہیں دیکھا. حالانکہ اپنے چشمے سے وہ صفحوں پر چھپے الفاظ کی تہوں کو جھانک لیتے ہیں، دوستوں کے دلوں کو بھی اور کرچیوں میں بنٹے انسان کی زندگی کو بھی، آنکھوں میں دوربین ہے معلوم نہیں کہاں سے حاصل کی، لیکن ایسا گماں ہوتا ہے مشاہدوں اور تجربات کے بازار سے لیے ہوں گے۔ لمبے قد اور لحن کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سامع انھیں غور سے سنتا ہے اور نحیف ہو تو اور بھی غور سے، بھائی جس نے دکھوں کے طوفان میں مضبوط ہاتھوں سے زندگی کی کشتی کو تھامے رکھا. کہیں گریباں تھام لے تو ایک ساتھ سارے کل پرزے کھل جائیں۔ محفل میں یا مجلس میں بالکل قائد دکھتے ہیں اور دور سے ہی اپنی موجودگی درج کرا دیتے ہیں. تحریر کی روانی کے ساتھ تقریر کی جادو بیانی ناظرین اور سامعین کا منھ ایسا گول کھول جاتی ہے جیسے رس گلہ کھاتے وقت کھولا جاتا ہے. شائق صاحب مٹھائیوں میں رس گلے کو اسی لیے اہمیت دیتے ہیں۔
محمد علی حسین شائق کی شخصیت مختلف جہتوں میں بنٹی ہے۔ وہ مدرس، محقق، افسانہ نگار اور مضمون نگار اور شاعر بھی ہیں۔
تعلیمی پیشے سے منسلک ہیں اور تعلیم عام کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ مختلف تعلیمی درس گاہوں سے وابستگی ہے۔ مکتب کے علاوہ کالج کے طالب علموں کو بھی فیض پہنچاتے ہیں، نیز ذاتی سطح پر علم و ادب کی محفلیں منعقد کرتے ہیں۔ اپنے طالب علموں میں مقبول ہیں اور دوستوں میں پسندیدہ۔ مطالعہ سےگہرا شغف ہے، اس لیے ہمیشہ کتابوں و رسائل کی ورق گردانی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی لگن کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اپنی تحقیق کا موضوع افسانوں میں علامت کو چنا اور بہ حسن و خوبی انجام تک پہنچایا۔
سنجیدہ طبیعت کے مالک علی حسین شائق کے اندر ظرافت کا مادہ بھی بہت خوب ہے. اکثر ایسے فقرے بول جاتے ہیں کہ آپ چاہے جتنا بھی سنجیدہ مزاج کیوں نہ ہوں، بغیر ہنسے نہیں رہ سکتے۔ مجھے یقین ہے کہ موصوف افسانہ نگاری کا معتبر نام تو ہیں ہی مزاح میں بھی اعتبار حاصل کرلیں گے، مگر وہ مزاح نہیں لکھتے بلکہ محفل کو زعفران زار بنا دیتے ہیں۔ سماجی کاموں میں دل چسپی لینے کے باعث انھیں ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اور یہیں سے وہ اپنے افسانے کا کچا مال حاصل کرتے ہیں۔ بے تکلف گفتگو کے دوران مسکراتے ہوئے ان کے اندر کا آدمی باہر کو جھانکتا ہے، جو ایک اعلا خوبی ہے۔ اپنے زعم میں رہنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ بیشتر اوقات پنجابی زیب تن کرتے ہیں اور قد کاٹھی بھی پنجابیوں سی ہی ہے۔ سفر کے دوران وہ دل چسپ ہم سفر بھی ہیں۔ ان کے ہمراہ راستے کی دوری کا تھکان بالکل نہیں ہوتا. ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ابھی سفر کو نکلے اور منہ چڑاتی ہوئی منزل آگئی۔ کبھی کبھی منزلوں کے جلد آ جانے سے بھی ذہن و دل میں ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے اور کبھی تمام عمر نگاہیں منزلوں کی منتظر رہتی ہیں۔ سفر میں وہ نہ ڈاکٹر رہتے ہیں نہ مدرس، بس ہم سفر، اور ایسا ہونا ان کے بڑپن کی علامت ہے۔ خوش مزاج ہونے کے ساتھ خوش لباس اور خوش خوراک بھی ہیں۔ مجھے ان کے ساتھ وقت گزارنے اور سفر کرنے کے کئی مواقع ملے اور میں نے یہی محسوس کیا کہ وہ باہر سے سخت دکھنے والے ایک نرم دل انسان ہیں۔ ہم اکثر و بیشتر فیصلہ کرتے وقت جلد بازی سے کام لیتے ہیں، ضروری ہے کہ فیصلے سے پہلے دل میں جھانک کر دیکھ لیا جائے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ ہر انسان کا اپنا مذاق ہے اور ہر آنکھ کی ترازو پہ کھرا اترنا ممکن نہیں اور وہ ایسی کوشش بھی نہیں کرتے ۔ ان کا اخلاق ان کو مکمل کرتا ہے. میں یہ نہیں کہتا کہ وہ فرشتہ صفت ہیں بلکہ وہ انسان صفت ہیں اور انسان صفت ہونا بڑا مشکل ہے۔ انسان کے امتحانات بڑے سخت ہوتے ہیں۔ ایک تو جیتا جاگتا دھڑکتا دل، اس پر آزمائشیں، کبھی کبھی اتنے سخت کہ آدمی اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں آدمیت کے میزان پر جو دنیا اپنے ہاتھوں میں تھامے رہتی ہے کھرا اترنا ناممکن نہیں تو نہایت مشکل امر ہے۔
ابتدائی دنوں سے کسی بھی سماجی، علمی و ادبی پروگرام کی کامیابی کا انحصار ان کی موجودگی پر ہوتا تھا اور یہ سلسلہ آج بھی بدستور قائم ہے۔ نقابت کے فن سے خوب واقف ہیں اور محفلوں کو اپنے دم پر چلانے کا دم رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر شائق وقت کے نباض ہیں اور وقت بھی ان کے نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے اور کامیابیاں بہ طور انعام دیتا رہا ہے۔ ان کامیابیوں نے انھیں اور محنت کش اور سادہ بنا دیا، ورنہ اکثر ایسی کامیابیوں پر جیسی کے انھوں نے حاصل کی ہیں لوگ اپنے وزن سے الگ پانچ دس کیلو گرام کا وزن دن بھر ڈھوتے نہیں تھکتے اور تو اور وزن بتانے میں ذرا بھی خیانت نہیں کرتے دس بیس گرام ذیادہ ہی بول دیتے ہیں۔
موسیقیت سے لگاؤ رکھتے ہیں، بلاشبہ موسیقی روح کو شادابی و شادمانی مہیا کرتی ہے۔ موصوف کو جب ایک محفل میں پہلی بار گاتے دیکھا تو حیران رہ گیا. مجھے یاد ہے وہ گیت "چٹھی آئی ہے" تھا۔ ماہر گلوکار کی طرح انھوں نے وہ گیت پیش کیا. اب آپ سوچیے موسیقی سے رغبت رکھنے والا شعر و شاعری سے کیسے دور رہ سکتا ہے. لہٰذا شائق صاحب نے غزلوں اور نظموں میں اپنا شعری جوہر بھی دکھایا. ہر چند اس کی عمر بہت مختصر تھی مگر میں سمجھتا ہوں تخلص "شائق" انھوں نے اسی وقت رکھا ہوگا۔ شائق صاحب گرچہ خود کو شاعری سے نا آشنا بتاتے ہیں، مگر شعری شعور ان کا اتنا پختہ ہے کہ ان کے مضامین کو پڑھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔ اکثر و بیشتر شاعری کی کتابیں مطالعے میں رکھتے ہیں۔ شائق کی انفرادیت یہی ہے کہ وہ منفرد کاج ڈھونڈتے ہیں. ان کی نظریں ادب کے ان گوشوں پر بھی پڑتی ہیں، جہاں دید تو دید کبھی کبھار خیال بھی نہیں پہنچتا، میر کی آہ کی شاعری کا تذکرہ ایوان ادب میں گونجتا ہے مگر انھوں نے میر کی شاعری میں آہ کی جگہ لفظیات ڈھونڈ نکالا۔ بیشتر شعری اصناف پر ان کے مضامین اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ شاعری کا ستھرا ذوق رکھتے ہیں۔ یہاں میں نے ان باتوں کا تذکرہ صرف اس لیے کیا کہ آپ کو یہ بتا سکوں کہ شاعری سے ان کے روابط پرانے ہیں۔ آج بھی گفتگو کے دوران ناصر کاظمی کا شعر پوری صحت کے ساتھ پیش کر دیتے ہیں۔ اپنے افسانے کے آنگن میں انھوں نے کئی کھڑکیاں بنا رکھی ہیں، جن سے چھپ چھپا کر وہ شاعری کی حسین دیوی کو تاڑتے رہتے ہیں۔ ان کے دو اشعار دیکھیں:
حوصلہ باکمال رکھا ہے
دشمنوں کا زوال رکھا ہے
کیسے کہہ دوں یقین ہے اس کو
جو شکارِ گمان ہے بھائی
ڈاکٹر شائق اپنی قسمت پر رشک کریں تو ان کو زیب دیتا ہے. اللہ نے انھیں وہ نعمتیں بخشیں جو وہ اپنے نیک بندوں کو دیتا ہے۔ ڈاکٹر شائق جو ہیں وہ سچ مچ کے ہیں۔ اپنی لگن و محنت سے انھوں نے اپنا مقام بنایا ہے اور بہت مستحکم بنا یا ہے. کیا یہ کسی اعزاز سے کم ہے کہ ٢٠٢٣ء رمضان المبارک کے پہلے روزے کو نماز جمعہ کے قبل الحاج ڈاکٹر شائق نے ایک ایمان افروز خطبہ دینے کی سعادت حاصل کی؟ میں ذاتی طور پر یہ رائے قائم کرتا ہوں کہ یہ دنیاوی اعزاز سے بہت بڑا اعزاز ہے۔ ڈاکٹر شائق کو دیکھ کر یہ احساس جاگتا ہے کہ اگر کسی کامیاب شخص کی مثال پیش کرنی ہو تو ان کی شخصیت پیش کی جاسکتی ہے۔ روز بروز طبیعت میں بڑھتی سادگی اور معاملات روز مرہ میں فرش نشینی انھیں کسی سے بہتر یا برتر نہیں بناتی بلکہ انھیں بہ طور الحاج ڈاکٹر محمد علی حسین شائق مکمل کرتی ہے اور یہ وجود کا مکمل ہونا بہت بہت بہت مشکل ہے۔
ڈاکٹر شائق کی تیز گامی یہ اشارہ دیتی ہے کہ ان کی نگاہوں کی رڈار پر ابھی بھی کئی منزلیں ہیں، جو اپنے اس مسافر کی منتظر ہیں۔ ان منزلوں کے ہمراہ ہم بھی منتظر ہیں، شائق صاحب کے اگلے پڑاؤ کے، ان کا حوصلہ جوان رہے رابرٹ فروسٹ کے اس حوصلے کی طرح
"And miles to go before I sleep۔"
***
نسیم اشک کی گذشتہ نگارش :ڈاکٹر دیبا ہاشمی کی منٹو شناسی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے