ہم سنتے ہیں

ہم سنتے ہیں

انشائچہ نگار: ایس معشوق احمد

چند سال سے ہمیں سننے کی عادت پڑ چکی ہے. کبھی سالے سناتے ہیں، کبھی بیوی کی سننا پڑتی ہے، کبھی بڑے بزرگوں کی نصیحت آمیز باتیں سنتے ہیں اور کبھی کبھار تو حد ہوتی ہے اور کوئی نیا فیس بکی شاعر ہمیں اغوا کر لیتا ہے اور اپنی بے وزن غزلیں سناتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ کسی نثر نگار نے ہمیں گھیرا اور اپنی شوریدہ سری بیان کرنے لگا اور ہمہ تن گوش ہم سنتے ہیں۔ مرزا کہتے ہیں کہ انسان جب بولنا ترک کردے اور سننا شروع تو سمجھ لینا چاہیے کہ گیانی ہوگیا ہے۔ صاحبو! گیانی کہلانے کے چکر میں ہم نے اپنی سماعت ہی خراب نہ کی بلکہ غلط سلط سن کر بدذوق بھی ہوگئے ہیں۔ اب تو حال یہ ہے کہ کوئی اچھی بات سنانا شروع کردے تو ہم اپنے خیالوں میں مگن کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔
ہم متشاعروں کی غزلوں سے تنگ ہیں نہ ان افسانہ نگاروں سے جو بیس سال سے لکھ رہے ہیں لیکن ابھی تک جنہیں لکھنا نہ آیا، نہ سیاسی لیڈروں کے وہ وعدے سن کر ہم عاجز آئے ہیں جو کبھی پورے نہیں ہوتے اور نہ تنقید نگاروں کی حاشیہ آرائی نے ہمارے حوصلے پست کیے ہیں، نہ مطلب پرستوں کی باتوں سے ہمیں تکلیف ہے اور نہ خود غرضوں کے جھوٹ نے ہمیں ستایا ہے۔ ہم تو خوشامد کرنے والوں کی جھوٹی تعریفیں سن کر اتنے ہشاش بشاش ہوتے ہیں جتنا اکیس سالہ جوان پسند کی شادی کی خوش خبری سن کر شادماں ہوتا ہے۔ صاحبو! جن کی باتیں سن کر ہماری طبیعت اچاٹ ہوگئی ہے وہ ہماری ہی گلی میں رہتا ہے۔ خدا جانے حکومت وقت نے ان میں ایسا کون سا ہنر دریافت کیا کہ انھیں ملک کی حفاظت کا فریضہ سونپا اور وہ ہر فرد کو کبھی اپنی بہادری کے قصے سناتے ہیں، کبھی ان جنگوں کی داستان جو انھوں نے خواب میں لڑی ہیں اور جنھیں وہ حقیقت سمجھ رہے ہیں۔ بعض مجبوریوں کے سبب ہم بھی سنتے ہیں کہ ایک تو ہمارے پڑوسی ہیں اور خدا نے انھیں ایسا گلا بخشا ہے کہ ہماری آواز میک کے باوجود اتنی دور نہیں جاتی جتنے فاصلے سے صاف اس کی ہر بے تکی بات سنی جاسکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ ہمیں خدا نے کانوں کی نعمت سے نوازا ہے اور یہی سبب ہے کہ ہم سنتے ہیں۔ مرزا کہتے ہیں کہ صاحب کا فرمان، واعظ کی نصیحت، بیوی کی فرمائش اور سرکاری ملازم کی ڈینگیں سننا ہی پڑتی ہیں۔
صاحبو! آج تک ہمیں کچھ کہنا نہ آیا بلکہ ہم فقط سنتے ہیں۔ ایک صاحب جو اتفاق سے ہمارے دوست اور ہماری اچھی عادتوں کے دشمن ہیں، کی باتیں ہم روز سنتے ہیں۔ جب بھی کال کرتے ہیں سلام دعا کے بعد اپنی ادبی فتوحات، دوستوں کی غداریاں اور ان کی دشمنوں سے یاریاں، حسینوں کے قصے اور ان پر خرچ کی گئی رقم کا حساب نامہ، نئی محبوباؤں کی وعدہ خلافیاں اور بیوی سے جھگڑوں کی روداد ہمیں روز ہی سناتے ہیں۔ مرزا کہتے ہیں کہ سننے سے انسان کی قوت برداشت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ قناعت پسند بن جاتا ہے۔ اسی لیے ہم اپنی سوچوں میں گم فقط سنتے ہیں۔
***
ایس معشوق احمد کی گذشتہ نگارش :مسئلہ روزگار اور اردو

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے