مسئلہ روزگار اور اردو

مسئلہ روزگار اور اردو

( چند تلخ حقائق )

ایس معشوق احمد
کولگام، کشمیر، ہند

یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں کہ اب اردو کا شمار دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوتا ہے لیکن یہ بھی صداقت ہے کہ اس کے باوجود یہ روزگار فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ اس زبان میں لکھنے والے ادبا اور شعرا فقط "واہ" پر خوش ہوتے ہیں اور ان میں کثیر تعداد ان حضرات کی ہے جو برسر روزگار ہیں اور اس زبان میں اپنے ذوق کی تسکین کے لیے شوقیہ لکھتے ہیں۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جھنوں نے اردو میں اعلا ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں اور اب وہ ناامیدی کی حد تک مایوس ہو کر تنہائی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس کوئی مناسب کام نہیں، بس وہ ڈپریشن کے شکار ہوکر صبح سے شام تک ایک کمرے میں بند چھت اور دیواروں کو تک رہے ہیں، لیکن ان کے متعلق کوئی بات نہیں کرتا. ان کے مسائل کے حل کے لیے کوئی آگے نہیں آتا۔ اردو سے جن پروفیسروں، لیکچراروں، اخبارات سے وابستہ ارکان کے گھر چلتے ہیں وہ اس کی ابتر صورت حال پر خاموش ہیں۔ اردو کی میت جو دفنانی باقی ہے پر وہ سوگ تک نہیں مناتے۔ بس وہ اس پر خوش ہیں کہ ان کا کام بن رہا ہے، نام ہو رہا ہے اور انھیں تنخواہ بھی مل رہی ہے۔ کچھ گناہ ہمارے پیش رو ادبا شعرا نے ایسے کیے جن کے لیے نئی نسل ان کو کبھی معاف نہیں کرسکتی۔ ان میں سے بڑا گناہ یہ کیا کہ اپنی محنت سے لکھی تحریر کا محنتانہ انھوں نے کبھی وصول نہ کیا اور یہ روایت ہم تک آتے آتے ایسی مضبوط دیوار بن گئی جس کو گرانا ناممکن ہوگیا ہے۔ یہ ان کی طرف سے اردو کی تنزلی اور اس زبان کو قبر کی طرف لینے جانے کی غیر ارادی لیکن مضبوط تر کوشش تھی۔ اس سے نہ صرف نئے لکھنے والے بیکار ہوئے بلکہ ان کی اردو سے محبت نفرت میں بدل گئی کہ جس زبان سے گھر کے اخراجات تو درکنار بچوں کا جیب خرچ بھی پورا نہ ہو اس سے محبت کرنے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ اس پختہ روایت کا اثر یہ ہوا کہ آج بھی شہرت کے بھوکے لکھاری اخبارات میں آنے کے لیے اپنی جیب سے پیسے دیتے ہیں تاکہ ان کا لکھا اخبارات اور رسائل میں آئے۔ ایسا ادب اور ایسی تحریرات ادب عالیہ کا حصہ نہیں بن سکتیں جو مروت، سفارش اور پیسے دے کر چھاپی جائیں۔
اس حقیقت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے کہ تابوت میں زندہ شخص کو نہیں رکھا جاتا بلکہ مردہ شخص ہی اس آخری سواری کا سوار بنتا ہے۔ اردو زبان کو پچھلی تین دہائیوں سے تابوت میں رکھا گیا ہے اور اس میت کو دفنانے کے لیے خدا جانے اب کس کا انتظار کیا جارہا ہے۔اس مردہ زبان میں روزگار حاصل کرنا مشکل ہی نہیں اب ناممکن بن گیا ہے۔ اس کا اندازہ اس المیے سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ زبان پڑھ کر پروفسیر، لیکچرار بننا تو عام طالب علم کے لیے اکیلے وہ قلعہ فتح کرنے کے مترادف ہے جس کی نگرانی ہزاروں کی تعداد میں سپاہی کر رہے ہوں۔ البتہ یہ مہم سفارش اور رشوت کے سپاہیوں کی مدد سے انجام دی جاسکتی ہے اور نہ صرف اس قلعے کو فتح کیا جاسکتا ہے بلکہ ان سپاہیوں کی معاونت سے اس پر حکمرانی بھی کی جاسکتی ہے۔ اب رہے پرائیوٹ ادارے اور اسکول؛ ان کا حال بھی اس سے مختلف نہیں کہ کسی پرائیوٹ اسکول میں ڈرائیور کی پوسٹ پر کرنی مطلوب ہو تو اس کی تنخواہ بارہ ہزار مقرر کی جاتی ہے اور اسی اسکول میں اگر اردو پڑھانے کے لیے استاد کا انتخاب کرنا ہوا تو تنخواہ چار ہزار مقرر کرکے اس پر احسان جتایا جا رہا ہے اور یہ ثبوت فراہم کیا جا رہا ہے کہ اردو کی اب کوئی وقعت نہیں رہی۔ جو زبان روزگار سے نہ جڑی ہو وہ زندہ تو ہو سکتی ہے لیکن اس ضعیف شخص کی مانند جو بستر مرگ پر پڑا آخری ہچکیاں لے رہا ہو۔
اس زبان کے نام پر سینکڑوں انجمنیں اور ادارے بنے ہوئے ہیں۔ اس سے وابستہ ارکان اردو کو روزگار سے جوڑنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ ان اداروں کا سوائے چند پروگراموں کے کوئی قابل قدر کام نظر نہیں آتا۔ ان کے اکثر پروگرام تعریف سے شروع ہوکر چائے پر ختم ہوتے ہیں۔ ان کے تعاون سے اب نہ کوئی نئی کتاب منظر عام پر آتی ہے اور نہ ہی کسی نئے لکھاری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ لکھاری کتابیں اپنی محنت کی کمائی سے چھاپ رہے ہیں۔ جن نئے لکھاریوں کی مالی حالت ٹھیک نہیں، کتاب چھاپنے کے لیے ان کی مالی معاونت نہیں ہوتی۔ اس طرف توجہ دی جاتی تو نئے لکھاریوں کے حوصلے بلند ہوتے اور وہ اس زبان کی طرف کھینچے چلے آتے۔ اردو کے قتل میں یہ انجمنیں اور ادارے بھی ملوث ہیں اور ان کے ہاتھوں پر صاف خون کے دھبے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان انجمنوں اور اداروں میں اردو کی حالت ایک کونے میں پڑی مردہ لاش کی مانند ہے۔ اب اس مردہ لاش پر کوئی بات نہیں کرتا۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ان انجمنوں اور اداروں کا واحد مقصد ایوارڈ کی تقریبات منعقد کرنا رہ گیا ہے جو وہ اپنے ہی کسی رکن یا صدر کے نام کرتے ہیں۔ ان کی طرف سے بڑے بڑے دعوے ہورہے ہیں لیکن زمینی سطح پر کوئی قابل قدر کام نہیں ہورہا۔ اردو کے حوالے سے یہ حقائق اتنے واضح ہیں کہ اندھا اھیں دیکھ سکتا ہے اور یہ مسائل اس قدر سنجیدہ کہ کسی بھی ذی حس فرد کی نگاہ ان کی طرف اٹھتی ہے لیکن اردو کے لکھاری اور اس زبان کے مقروض جن کا آب و دانہ اس زبان کی بدولت ہے کی آنکھوں میں نقص ہے یا ان پر پٹی باندھ دی گئی ہے جس سے ان کو کم دکھائی دیتا ہے۔ سب اپنے حال میں مست ہیں اور سب نے سستی شہرت کی شراب پی رکھی ہے جس سے وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں بے حس و حرکت پڑے ہیں۔
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش :امّاں نامہ _ نشاط کی نشاط انگیزی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے