سرہانے میر کے آہستہ بولیں یا نہ بولیں!

سرہانے میر کے آہستہ بولیں یا نہ بولیں!

خان حسنین عاقبؔ

ایک مدت سے میر تقی میر کے مشہور زمانہ شعر کو سنتے بھی آئے ہیں اور سر دھنتے بھی آئے ہیں۔ شعر یوں ہے:
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹُک روتے روتے سوگیا ہے
اس شعر کا کمال یہ ہے کہ دونوں مصرعے ایسے سیدھے سبھاؤ دل میں جاکر کھُب جاتے ہیں کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ تیر کب جگر کے پار ہوگیا۔ پہلا مصرع ہی دیکھ لیجئے۔
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ایک قسم کی تلقین ہے، تاکید ہے، تنبیہ یا انتباہ ہے، دھمکی ہے یا کچھ اور ہے، ان گنت پہلو نکل آتے ہیں۔ لیکن دوسرا مصرع فوراً شعر کے مزاج کا تعین کردیتا ہے، جب میرکہتے ہیں کہ ‘ابھی ٹُک روتے روتے سوگیا ہے’۔ اس مصرعے میں ‘ٹُک’ کا اپنا ایک حسن ہے جو معنوی سے زیادہ لفظی نوعیت کا ہے۔ یہ ساختیاتی جمالیات کے محاکات سے مملو ہے۔ میر کے اس شعر میں انتہائی اعلا قسم کی امیجری، منظر کشی اور پینٹنگ نظر آتی ہے جس پر باربار نظریں ٹھہر جاتی ہیں۔ لیکن ہمیں سردست پورے شعر پر گفتگو نہیں کرنی ہے بلکہ صرف مصرع اولیٰ ہی ہماری گفتگو کا محور ہے۔
مصرع اولیٰ میں میر کہتے ہیں: ‘سرہانے میر کے آہستہ بولو`
اس مصرعے پر کئی برسوں سے اہل علم و زبان اور اہل ادب بحث کرتے آئے ہیں۔ بحث مصرعے کی صحت لفظی اور صحت معنوی پر نہیں ہے بلکہ مصرعے میں استعمال کیے گئے الفاظ کے محل پر ہوتی آئی ہے۔ اس لحاظ سے اہل علم کی رائے دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک گروہ یہ مانتا ہے کہ اصل مصرع
‘سرہانے میر کے کوئی نہ بولو`
جب کہ دوسرا گروہ مانتا ہے کہ مصرع اسی شکل میں ہے جس شکل پر جمیع اصحاب کا اتفاق ہے۔ یعنی
سرہانے میر کے آہستہ بولو
اب سوال یہ ہے کہ دونوں مصرعوں میں واقعی اور درست مصرع کون سا ہے۔ آیا ‘کوئی نہ بولو` صحیح ہے یا پھر ‘آہستہ بولو` درست ہے۔ درست شکل کون سی ہے؟ جو گروہ ‘کوئی نہ بولو` کو درست مانتا ہے، اس کے دلائل بھی کچھ کم مضبوط نہیں۔ اس گروہ کا ماننا ہے کہ چونکہ میر کے دیوان کے مختلف نسخوں میں یہ مصرع ‘امرنفی` یعنی ‘کوئی نہ بولو` ہی لکھا ملتا ہے، اس لیے یہی درست شکل ہے۔ یہ گروہ مثال کے لیے میر کے دیوان اور گلشن خار وغیرہ کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مثلا دیوانِ میر کی غزل نمبر 432 یعنی اسی محولہ بالا شعر والی غزل میں یہ مصرع امر نہی یعنی نفی کی حالت میں درج ملتا ہے۔
سرہانے میر کے کوئی نہ بولو
اس کے برخلاف ‘سخن شعراء` میں یہ مصرع ‘سرہانے میر کے آہستہ بولو` کی صورت میں ملتا ہے۔ اس مصرعے کا حسن دراصل ‘آہستہ بولو` میں ہی ہے۔ لیکن اگر ہم اس مصرعے کو امر نفی کے ساتھ قبول کرتے ہیں تو شعر اپنے حسن سے محروم ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں، واقعاتی طور پر ‘آہستہ بولو` اور ‘کوئی نہ بولو`، دونوں ہی درست معلوم ہوتے ہیں لیکن شعر کا وحدت تاثر اور اس کی جمالیات ہمیں ‘آہستہ بولو` کی طرف ہی منعطف کرتی ہے۔ ‘کوئی نہ بولو` میں ایک قسم کا تکلف معلوم ہوتا ہے جو بلاوجہ فطری بے ساختگی کو زبان کے در و بست میں الجھادیتا ہے۔ ہم تو آخرکار یہی کہیں گے کہ ‘آہستہ بولو` ہی زیادہ فصیح اور دل کش ہے، پھر چاہے ‘کوئی نہ بولو` کے لیے ہزار تاویلات پیش کی جائیں۔
دوسرے مصرعے کے حوالے سے اگر بات کریں تو میر کے یہاں ‘ ٹک` کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔
بلکہ ‘گلشن سخن` میں تو اسی شعر کا مصرع ثانی بھی تحریف شدہ شکل میں ملتا ہے، یعنی ‘ابھی وہ روتے روتے سوگیا ہے`۔ اگر ہم مصرع ثانی میں ‘ٹک` کے بجائے ‘وہ` پڑھتے ہیں تو شعر کا سارا مزہ ختم ہوجاتا ہے اور مکمل شعر بے کیف ہوجاتا ہے۔
میرکے بہت سے اشعار ایسے ہیں جن میں ‘ٹک` کا استعمال نہایت خوب صورتی سے کیا گیا ہے۔ میر اپنے ایک مرثیۂ کربلا میں شعر کہتے ہیں:
لازم ہے خوں چکاں روشِ گفتگو سے شرم
کر اس نمود کرنے کی ٹک آرزو سے شرم
یہاں ‘ٹک آرزو` سے مراد ‘ذرا سی یا تھوڑی سی آرزو` ہے۔ میر نے اپنی غزلوں میں تو بہت سے اشعار کہے ہیں، جن میں لفظ ‘ٹک` کا استعمال کیا گیا ہے۔ مثلا یہ اشعار دیکھئے۔
‘ٹک` میرِ جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسہ ہے چراغِ سحری کا
کس طرح سے مانئے یارو کہ یہ عاشق نہیں
رنگ اڑا جاتا ہے، ‘ ٹک` چہرہ تو دیکھو میر کا
ایسے تمام اشعار میں جہاں جہاں لفظ’ ٹک` استعمال ہوا ہے، ‘ذرا یا تھوڑے` کے معنی میں ہی ہوا ہے۔ لہٰذا یہ ماننے میں ہمیں کوئی تامل نہیں ہے کہ میر کے محولہ بالا مصرعے میں ‘ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے` یعنی ابھی ذرا روتے روتے سوگیا ہے کا ہی محل ہے، ‘وہ` کا محل بالکل نہیں ہے۔ برسبیل تذکرہ یہاں یہ ذکر بھی کرتے چلیں کہ اسی مفہوم کا شعر مرزا محمد رفیع سودا کے یہاں بھی ملتا ہے۔
اگرچہ کہ میر اور سودا کے دونوں اشعار کے بارے میں مولانا محمد حسین آزاد نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ‘آب حیات` میں ایک لطیفہ بھی بیان کیا ہے، لیکن ہم لطیفے سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے موضوع پر ہی بات کو مرکوز رکھتے ہیں۔ سودا کا شعر ہے:
سودا کے جو بالیں پہ اٹھا شورِ قیامت
خدامِ ادب بولے، ابھی آنکھ لگی ہے
ہوبہو وہی مفہوم جو میر تقی میر کے شعر کا ہے، سودا کا بھی یہی مفہوم ہے۔ مزہ یہ ہے کہ مرزا سودا نے بھی اسی مفہوم کو محاوراتی زبان میں بیان کیا ہے۔ ‘آنکھ لگنا` محاورہ ہے جب کہ ‘روتے روتے سوجانا` بھی محاوراتی زبان کی مثال ہے۔ بلکہ کئی باتیں میر اور سودا کے دونوں اشعار میں مشترک ملتی ہیں۔ مثلا دونوں اشعار کا مفہوم تقریباً یکساں ہے۔ دونوں اشعار میں جو تصویر بن رہی ہے، وہ یکساں منظر پیش کرتی ہے۔ دونوں اشعار مقطع کے ہیں۔ دونوں اشعار میں تلقین ملتی ہے۔ بلکہ سودا کا یہ شعر بھی دو شکلوں میں ملتا ہے۔ ایک شکل یوں بھی ہے:
سودا کے جو بالیں پہ ‘گیا` شورِ قیامت
یعنی ‘اٹھا` کے بجائے ‘گیا` بھی ملتا ہے۔ ‘ضرب المثل اشعار تحقیق کی روشنی میں` کے مصنف شمس الحق صفحہ 23 پر اس شعر کو اس شکل میں رقم کرتے ہیں. اردو کی مشہور ویب سائٹ ریختہ پر آبِ حیات کے حوالے سے جو لطیفہ بیان کیا گیا ہے، اس میں اس شعر میں’ اٹھا` اور ‘گیا` کے بجائے ‘ ہوا` ملتا ہے۔ یعنی شعر اس شکل میں ملتا ہے.
سودا کے جو بالیں پہ ہوا شور قیامت
اس بات کے امکان کو بھی ہم نظر انداز نہیں کرسکتے کہ کسی جگہ ہمیں سودا کے اس مصرعے میں ‘ہوا، گیا اور اٹھا` کے علاوہ ‘مچا` بھی پڑھنے کو مل جائے۔ خیر، بات ہورہی ہے میر کے اس مصرعے کی تو اسی پر بات کرتے ہیں۔ میر نے اگر یہ مصرع یوں ہی کہا ہوگا تو پھر زبان کی ساختیات کے لحاظ سے تو کچھ غلط نہیں ہے لیکن اصل حسن تو اسی شکل میں ہے جس میں ہم اسے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں، یعنی ‘سرہانے میر کے آہستہ بولو`۔ ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ میر کے اس مصرعے میں لفظوں کی جو درو بست اور اہتمام ہے، اس کی وجہ سے شعر کا حسن دوبالا ہورہا ہے۔ ہمارا ذہن اس مصرعے کو اسی شکل میں قبول کرتا ہے۔ پھر لسانیات کے اصول  اور تنقید کے قوانین کچھ بھی کہیں۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :میرؔ اقلیم سخن کے تھے حقیقی تاج دار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے