کتاب : سدا بہار چہرے

کتاب : سدا بہار چہرے

رباب عائشہ کی “سدا بہار چہرے” ،اردو ادب میں نادر اضافہ /تبصرہ نگار :قانتہ رابعہ


مصنفہ: رباب عائشہ
تبصرہ نگار :قانتہ رابعہ

افسانہ اور کہانی سے کہیں زیادہ چہروں کا مطالعہ دل چسپ ہے، خواہ دنیا کی بھیڑ میں ملیں یا کتابوں کے صفحات پر!
ہر چہرہ ایک کہانی تو اب پرانی کہاوت ہوگئی، اب یوں کہنا چاہئے ہر چہرہ، کہانی در کہانی۔
پہلے کہتے تھے اک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ! اب کہنا چاہیے ہر چہرے پر ہے دکھ اور سکھ کا سنجوگ!
لوگ اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی، جن سے معاملہ اچھائی کا ہو انھیں اچھائی کی سند دے دی جاتی ہے اور وہی لوگ جن کے ساتھ برائی سے پیش آتے ہیں تو انہی لوگوں کو برا کہہ دیا جاتا ہے لیکن اللہ نے کچھ لوگوں کے اندر خیر اور بھلائی کا مادہ اتنا زیادہ رکھا ہوتا ہے کہ وہ خلق خدا سے صرف بھلائی کا ہی تعلق رکھتے ہیں، ان کے اندر موجود بھلائیوں کا پلڑا اتنا غیر معمولی ہوتا ہے کہ وہ اپنے جانی دشمن سے بھی برا کر ہی نہیں سکتے. ان کی بھلائیاں ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی جاری و ساری رہتی ہیں اور ان کی انہی اچھائیوں کی خوشبو اپنے پرائے سب ان کی زندگی میں تو دیتےہی ہیں، ان کی وفات کے بعد اسے کاغذ کے صفحات پر گواہ بنا کر رہتی دنیا تک صدقہ جاریہ بناتے ہیں. ایسے ہی پیارے لوگوں کی یاد میں لفظوں کا خزانہ سموئے محترمہ رباب عائشہ کی کتاب، ”سدا بہار چہرے“، ہے جس کے مطالعہ سے ایک نئی تازگی اور فرحت محسوس ہوتی ہے. صحافت کی دنیا میں رباب عائشہ کا نام بہت پرانا اور تجربہ کار کے نام سے مشہور ہے. موصوفہ جنگ اور نوائے وقت سے وابستہ رہی ہیں اور ان کے قلم میں واضح رکھ رکھاو اور نفاست ہے۔ کتاب سدا بہار چہرے میں محترمہ رباب عائشہ نے اپنے گھریلو، صحافتی اور ادبی میدان میں ان متعلقین پر خاکے لکھے ہیں جن کے اندر خیر ہی خیر تھی اور انسانوں کے لیے وہ مشعل راہ رہے۔ ان میں سے کچھ نام کسی نہ کسی حوالے سے معروف ہیں اور کچھ کا تعلق صرف ان کی ذات سے رہا. کتاب کا پیش لفظ وفاقی اردو یونی ورسٹی اسلام آباد کی صدر شعبہ اردو محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ تبسم اور بین الاقوامی اسلامک یونی ورسٹی اسلام آباد کے صدر شعبہ اردو محترم ڈاکٹر مظہر علی طلعت نے لکھا ہے۔
رباب عائشہ کا تعلق بچپن سے ہی قلم اور کتاب سے جڑ چکا تھا. مطالعہ کی چاٹ نے نامی گرامی ادیبوں کی کتابیں اوائل عمری سے ہی پڑھوانے کا بندوبست کیا۔صحافت سے وابستہ ہوکر سونے پر سہاگا ثابت ہوا اور کتھارسس کے لیے خوب سلسلہ بنا۔
سارے خاکے اور کالم کمال کے تحریر کردہ ہیں. کتاب کا پہلا خاکہ  مشہور مصور منصور راہی صاحب اور ان کی اہلیہ ہاجرہ منصور کا ہے۔۔36 سالہ دوستی اگر شروع سے تادم تحریر پہلے والی شان آن بان سے قائم رہتی ہے تو لازمی طور پر دونوں جانب غیر معمولی محبت ہوگی، لیکن رباب عائشہ اس کا سہرا ہاجرہ منصور کے سر باندھتی ہیں. ہاجرہ اور منصور دونوں مصوری کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں،  دونوں بہترین انسان ہیں. ذرا یہ دیکھیے:
"منصور راہی اپنے بعض اصولوں کے بہت پکے ہیں. وہ اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے جب تک گھر کے ملازمین اور ڈرائیور تک کھانا نہ کھالے۔"
ڈاکٹر سلمیٰ، بصارت سے محروم لیکن بصیرت سے مالا مال ڈاکٹر تھیں۔ انھوں نے اپنی بینائی کھو جانے کو معزوری نہیں سمجھا اور دوسروں کا محتاج ہونے کی بجائے اپنی تعلیم اور ہنر کو سہارا بنانے کا فیصلہ کیا. انٹرنیشنل فیڈریشن فار بلائنڈز میگزین کے ویمن سیکشن کی ایڈیٹر ڈاکٹر سلمی کے خاکے کو پڑھنے کے بعد یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ آنکھوں جیسی نعمت رکھنے والے افراد بےکار اور نکمے کیسے ہو سکتے ہیں۔ الغرض رباب عائشہ کے تحریر کردہ تمام خاکوں اور کالموں میں ایسے ہیروں کا تذکرہ ہے جن کی چمک انسانیت کے لیے تھی۔ مثال کے طور پر انھوں نے اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر وسیم کا ذکر کرتے ہوئے وہ خوبیاں بیان کی ہیں کہ انھیں وقت کا ولی کہا جا سکتا ہے۔
کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں اگر مشہور ترین شخصیات پر کالم اور خاکے لکھے گئے ہیں تو اسی معاشرے میں وہ لوگ بھی ہیں، جنھیں نچلا طبقہ کہا جاتا ہے، ان کی خوبیوں کی بنا پر انھیں بھی بہت تکریم دی گئی ہے، بالخصوص اپنی ملازمہ فیروزاں پر لکھا خاکہ اس کی حد درجہ ایمان داری اور ناقابل یقین ایثار، محبت اور قربانی کی صفات جو کہ اب ہمارے معاشرے میں عنقا ہیں، کو اجاگر کرتا ہے. 
ویسے تو سبھی خاکے بہت تحریک دینے والے ہیں لیکن اپنے والدین پر لکھے خاکے بہت منفرد ہیں. ماں باپ سب کے ہی اچھے ہوتے ہیں لیکن وہ والدین جو شعور کی دولت سے مالامال ہوں، اصول پرست بھی ہوں، اپنی شفقت اور محبت دوسروں کی اولاد پر بھی ایسے ہی نچھاور کریں، جیسے اپنی سگی اولاد پر، تو وہ جگ کے لیے مثال بن جاتے ہیں. رباب عائشہ کی خوش قسمتی ہے کہ انھیں علم و ادب سے محبت رکھنے والے اور باعمل والدین ملے جن کی شخصیت کا اثر رباب کی تحریر میں تو نظر آتا ہی ہے یقیناً ان کی شخصیت پر بھی گہری چھاپ ہوگی۔
رباب عائشہ نے اپنے مرحوم شوہر، ان کے بہترین فوٹو گرافر ہونے، اس کے لیے زندگی وقف کرنے اور ایک حادثہ میں ٹانگ سے معذوری، دنیا والوں کی بے رخی پر بھی خاکہ لکھا۔ مرحوم شوہر کی گو بہت سی خوبیاں بیان کی گئی ہیں تاہم خاکہ میں حددرجہ اختصار ہے اور قاری کو تشنگی محسوس ہوتی ہے. رشتہ آنے، طے ہونے، شادی کے کچھ واقعات یا ان کی جھلکیاں خاکے کو مزید جان دار بنا سکتے تھے۔
مصنفہ کا وسیع مطالعہ اور وسیع حلقۂ احباب ان کی تحریر میں کمال کی تاثیر پیدا کرتا ہے، انداز تحریر ہلکا پھلکا لیکن زبان بہت شستہ ہے۔ اپنے عزیز و اقارب کے خاکوں کے ساتھ انھوں نے اپنے دفتری ساتھیوں اور ملازمین پر بھی مضمون تحریر کیے ہیں. ہر فرد ایک الگ طرز زندگی رکھتا ہے اور ہر ایک کی بابت رباب عائشہ نے منفرد لکھا۔ ان کی تحریر مختصر مگر موثر ہے. وہ لفظوں کو بہترین پیرایے میں پیش کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ ان سب لوگوں میں جن کے خاکے موجود ہیں، الطاف فاطمہ، خدیجہ مستور، ادا جعفری، زہراء نگاہ، پروین فنا سید، نثار عزیز بٹ جیسی معروف مصنفات اور شاعرات ہیں تو گل جی اور غلام رسول جیسے بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور بھی شامل ہیں. ہر ایک کی زندگی میں سیکھنے والوں کے لیے سبق ہے. یہ پیدائشی ادیب یا نامور نہیں تھے. مشقت کی کتنی ہی گھاٹیوں میں سے گزر کر منزل تک پہنچے لیکن سبھی عاجزی اور شرافت و نجابت کے پیکر تھے. سبھی کے خاکے پڑھ کر اپنی کمیوں کوتاہیوں پر نظر پڑتی ہے. سبھی کے نیک دل ہونے پر ان کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے. 
بے شک نیک اولاد بہترین صدقہ جاریہ ہوتی ہے۔ میں پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے تحت شائع ہونے والی اس کتاب پر مصنفہ محترمہ رباب عائشہ اور فاؤنڈیشن کی پوری ٹیم کو مبارک باد پیش کرتی ہوں. اپنے پسندیدہ ادیبوں کے بارے میں پڑھنا بہت دل چسپ کام ہے۔ کتاب کا سرورق بہت عمدہ اور طباعت شان دار ہے. کتاب کا انتساب موصوفہ نے اپنے تینوں بھائیوں کے نام کیا ہے. اللہ انھیں سلامت رکھے، بے شک بھائی بہنوں کا مان ہوتے ہیں.
***
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش: کتاب: حاشیہ خیال

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے