الپنچ اور خیر رحمانی دربھنگوی

الپنچ اور خیر رحمانی دربھنگوی

ڈاکٹر محمد ذاکر حسین
خدا بخش لائبریری، پٹنہ
Email: zakirkbl@gmail.com
Mobile: 09199702756

بہار کی صحافت اس معنی میں بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ ہندستان کی دیگر ریاستوں میں اس کا آغاز انگریزی صحافت سے ہوا لیکن بہار کو اس معاملے میں اولیت کا درجہ حاصل ہے کہ یہاں اردو صحافت ہی اس کی بنیاد بنی اور یہ اس لیے بھی ممکن ہوسکا کہ شاہ کبیر الدین احمد نے ١٨٥٠ء میں سہسرام میں پریس قائم کر لیا تھا۔ اِس کے تین سال کے بعد جولائی ١٨٥٣ء میں بہار کا پہلا اخبار ’نور الانوار‘ کے نام سے نکلا۔ بعدہ ’پٹنہ ہرکارا‘ (٢١/اپریل ١٨٥٥ء)، ’اخبار بہار‘ (یکم ستمبر ١٨٥٦ء)، ’عظیم الاخبار‘ (جولائی ١٨٥٩ء)، ’اخبار الاخیار‘ (١٥/ ستمبر ١٨٦٨ء)، ’انڈین کرانیکل‘ (۱۸۸۱ء) اور دیگر اخبار وقفہ وقفہ سے اپنی موجودگی درج کراتے رہے۔ اِسی بیچ منشی سجاد حسین نے ١٨٧٧ء میں لکھنؤ سے ’اودھ پنچ‘ جاری کیا۔ اِس کی ظریفانہ اور مزاحیہ صحافت نے صحافتی دنیا میں ہلچل پیدا کردی۔’اودھ پنچ‘ کی شہرت و مقبولیت سے پنچ نام کے اخبار کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا؛ جیسے ’بہار پنچ‘ پٹنہ (١٨٧٦ء)،’انڈین پنچ: دہلی (١٨٨٠ء)، الپنچ بانکی پور (١٨٨٥ء)، ’بنگال پنچ‘ (١٨٨٥ء)، ’دہلی پنچ‘ دہلی (١٨٩٦ء)، ’گیا پنچ‘ گیا (١٩٠٩ء)، ’سرپنچ‘ لکھنؤ (١٩٣١ء)، ’مگدھ پنچ‘ پٹنہ (١٩٨٠ء) وغیرہ۔ اِس سلسلے کو بجا طور پر ’پنچ سیریز‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔
’اودھ پنچ‘ کے بعد ’پنچ سیریز‘ میں جس اخبار کو عام مقبولیت اور شہرت ملی، وہ بانکی پور پٹنہ سے نکلنے والا ہفت روزہ اخبار ’الپنچ‘ ہے۔ اِس اخبار کی جدت اُس کے نام سے ہی جھلکتی ہے۔ بہ قول سید حسن پنچ انگریزی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی بُونا مسخرا کے ہیں۔ اُس زمانے میں لندن سے ایک ہفتہ وار ظریف اخبار اسی نام سے شائع ہوتا تھا۔ لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ جس زمانے میں ’پنچ‘ نام سے اخبار نکلنے لگے، اُس وقت ہندستانی معاشرہ میں ’پنچ‘ عمومیت کا درجہ حاصل کر چکا تھا۔ اسی سے پنچایت، سر پنچ، پنچ نامہ جیسے اصطلاحات رائج ہو چکے تھے۔ اِس لیے اس نام کو انگریزی کے بجائے ہندستانی لفظ تسلیم کیا جائے تو برمحل اور زیادہ مناسب ہوگا۔ اس کی تصدیق خیر رحمانی دربھنگوی کے ’الپنچ‘ میں شائع اس جملے سے ہوتی ہے: ’پنچوں کے سرپنچ مہا پنچ مولانا الپنچ دامت پنچایتکم!‘ سے ہوتی ہے۔ اِس جملے میں پنچ، سرپنچ، مہاپنچ اور پنچایت اُسی معنی میں استعمال ہوا ہے جو عام طور پر ہندستانی معاشرہ میں رائج ہے۔ پنچ کی ابتدا میں الف لام کا اضافہ کر عربی اور ہندستانی کا مرکب لفظ بنا[یا] گیا ہے۔ عربی میں کسی چیز کو مخصوص کرنے کے لیے شروع میں الف لام لگا دیا جاتا ہے۔ یعنی جس معنی میں انگریزی میں The کا استعمال ہوتا ہے، وہی معنی عربی میں الف لام کے اضافے سے لیا جاتا ہے۔ یہاں الف لام کا اضافہ ظریفانہ اور مزاحیہ انداز پیدا کرنے کے لئیے کیا گیا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظریفانہ جدت طرازی کے حامل چند نوجوانوں نے ’اودھ پنچ‘ کی شہرت و مقبولیت سے متأثر ہوکر ہی ’الپنچ‘ اخبار نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ مگر ایک روایت یہ بھی ہے کہ شاد عظیم آبادی کی مخالفت کے پیش نظر اِسے جاری کیا گیا لیکن یہ روایت کم زور معلوم ہوتی ہے، مخالفت ضرور تھی لیکن اسی مخالفت کی وجہ سے ’الپنچ‘ کا اجرا ہوا ہو، ایسا نہیں تھا۔ عبد الغنی استھانوی کی زیرِ ادارت نکلنے والے ’اردو انڈین کرانیکل‘ کے ۲/ فروری ١٨٨٥ء کے شمارے میں الپنچ کے جاری ہونے کی اطلاع دی گئی تھی:
”اِس ہفتے میں ایک اور ظریف اخبار ’الپنچ‘ کی آمد آمد ہے۔ اشتہار سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی بہ طور آزمائش چار مہینے کے لیے جاری ہوا ہے۔ مہتمم منشی محمد اعظم ہیں“۔ (چند اہم اخبارات و رسائل/ قاضی عبد الودود، ص١٩٩) جاری ہوتے ہی’الپنچ‘ کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور دن بہ دن اِس کا گراف بڑھتا ہی چلا گیا۔ لوگوں کی خاص توجہ اِسے حاصل ہوتی چلی گئی۔ اِس کی مقبولیت کا اندازہ ’اردو انڈین کرانیکل‘ کے۹/ مارچ ١٨٨٥ء کے شمارے میں شائع اِس خبر سے لگایا جاسکتا ہے:
”اِس وقت تک اس کے چار پرچے شائع ہو چکے ہیں۔ چند تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ہفتہ وار پنج شنبہ کو چار ورقوں پر شائع ہوتا ہے۔ نہایت معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ تیسرے ہی پرچہ سے اشاعت ٧٥٠ تک پہنچ چکی ہے“۔ (چند اہم اخبارات و رسائل/ قاضی عبد الودود، ص ١٩٩)
’چند تعلیم یافتہ نوجوانوں‘ میں مولوی سید شرف الدین (سرپرست)، منشی محمد اعظم (مہتمم)، مولوی سید رحیم الدین استھانوی (ایڈیٹر) اور فضل حق آزاد اِس اخبار کے اصل روح رواں تھے۔ ١٨٩٠ء کے آس پاس مولانا سید ابوالخیر مظہر عالم خیر رحمانی دربھنگوی کی اِس جماعت میں شمولیت ہوتی ہے اور جنوری ١٩٠٦ء تک وہ اس اخبار سے منسلک رہتے ہیں۔ ’پنچ سیریز‘ میں ’اودھ پنچ‘ کے بعد ’الپنچ‘ ہی وہ اخبار ہے جو ظریفانہ صحافت میں اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔ اِس اخبار کو بامِ عروج تک پہنچانے میں دیگر اصحاب کے علاوہ مولوی سید رحیم الدین استھانوی اور مولانا خیر رحمانی دربھنگوی کا بھی نمایاں کردار رہا ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اِن دونوں کی خدمات کی پذیرائی اس پیمانے پر نہیں کی گئی، جس کے یہ مستحق ہیں۔جب کہ اُس زمانے میں سب سے لمبی مدّت تک شائع ہونے والا یہی اخبار تھا۔ قاضی عبد الودود نے اِس ضمن میں لکھا ہے: ”آج کل جو اردو کے اخبار بہار میں جاری ہیں، اُن کی عمر کیا ہوگی، اِس کے بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں۔ مگر یہ مسلّم ہے کہ جو اخبارات اب زندہ نہیں ہیں، اُن میں سب سے طویل عمر ’الپنچ‘ نے پائی“ (چند اہم اخبارات و رسائل۔ ص ۹۹۱)۔
مولانا ابوالخیر خیر رحمانی دربھنگوی کا تذکرہ ’خم خانہ جاوید‘۔جلد سوم/ لالہ سری رام، ’تذکرہ مسلم شعرائے بہار‘۔جلد دوم/ سید احمد اللہ ندوی، ’تذکرہ بزم شمال‘ / شاداں فاروقی، ’تذکرہ علمائے بہار‘۔جلد اول/ مولانا ابوالکلام قاسمی، ’بہار کی اردو شاعری میں علماء کا حصہ‘/ مولانا ابوالکلام قاسمی اور ’اردو صحافی بہار کے‘/ سید احمد قادری میں شامل ہے۔ لیکن مذکورہ کسی کتاب میں خیر رحمانی دربھنگوی کی صحافتی خدمات کو اس انداز میں نہیں پیش کیا گیا ہے جس سے اردو صحافت بالخصوص ظریفانہ صحافت میں اُن کا مقام و مرتبہ متعین کیا جاسکے۔ آخر الذکر کتاب ’اردو صحافی بہار کے‘ کے علاوہ دیگر مصنفین کا دائرہ کار اُن کی شاعری اور علمی خدمات سے متعلق ہے، اس لیے اُن سے یہ مطالبہ کیا بھی نہیں جاسکتا۔ مگر سید احمد قادری کی کتاب ’اردو صحافی بہارکے‘ کا براہ راست تعلق صحافت اور صحافی سے ہے۔ اس کے باوجود اگر تشنگی پائی جاتی ہے تو یہ بہار کی اردو صحافت اور صحافی سے سراسر ناانصافی ہے۔
مولانا خیر رحمانی (١٨٦٩ء۔١٩٤٨ء) کا آبائی وطن قاضی بہیرہ، ضلع دربھنگہ ہے۔ اصل نام سید ابوالخیر ہے۔ تاریخی نام مظہر عالم ہے جس سے ١٢٨٦ نکلتا ہے۔ گویا ١٢٨٦ء/ ١٨٦٩ء میں اِن کی پیدائش ہوئی۔ بعض تذکروں میں اُن کا سنہ ولادت ١٢٧٤ھ درج ہے۔ لیکن تاریخی نام مظہر عالم کی بنیاد پر ١٢٨٦ھ ہی مصدقہ ہے۔ خیرتخلص فرماتے تھے اور خانقاہ رحمانی مونگیر سے نسبت کے سبب نام کے آگے رحمانی لگایا کرتے تھے۔ اُن کے والد حکیم محمد شفیع الدین ماہر طبیب تھے۔ بچپن ہی میں والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ والدہ نے اِن کی بہترین پرورش و پرداخت کی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ اعلا تعلیم کے لیے دیوبند تشریف لے گئے اور ١٨٨٦ء میں سندِ فراغت حاصل کر وطن لوٹ آئے۔ اُس وقت آپ کی عمر ١٧/ برس ہو چکی تھی۔ دار العلوم دیوبند میں اگر مولانا خیر رحمانی کی آمد کی عمر ۸/ سال مانی جائے تو یہ ١٨٧٧ء قرار پاتا ہے۔ یہ دارالعلوم کا ابتدائی دور تھا جس کے قیام کا یہ گیارہواں سال تھا۔ ١٨٧٨ء میں حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ دارالعلوم تشریف لائے اور ١٨٨٤ء میں انھوں نے سندِ فراغت حاصل کی۔ گویا مولانا اشرف علی تھانویؒ اُن سے دو سال سنیر تھے۔ خیر رحمانی نے دار العلوم میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ (وفات: ١٩٠٥ء)، حضرت مولانا یعقوب نانوتویؒ (وفات: ١٨٨٤ء)، حضرت مولانا ذوالفقار علی دیوبندیؒ (وفات: ١٩٠٤ء)، حضرت مولانا احسن نانوتویؒ (وفات: ١٨٩٤ء)، حضرت مولانا فضل الرحمن دیوبندیؒ (وفات: ١٩٠٧ء) جیسے برگزیدہ اور لائق و فائق اساتذہ کرام کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ اِن اساتذہ کرام کی صحبت میں اُن کی صلاحیتوں میں نکھار آیا اور آگے کی عملی زندگی میں انھیں اِس کا بڑا فائدہ ملا، شعور و فکر میں بالیدگی آئی اور قوم و ملت کے درد سے آشنائی ہوئی۔
اُس وقت ہندستان تحریک آزادی کے دور سے گزر رہا تھا۔ دار العلوم دیوبند کے اساتذہ اِسی رنگ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اِس کے اثرات لازمی طور پر خیر رحمانی کی زندگی پر پڑے۔ چنانچہ فراغت کے بعد درس و تدریس کے بجائے صحافت کے میدان میں قدم رکھا اور ١٨٨٩ء میں مونگیر سے ایک ماہنامہ ’شوخ‘ کے نام سے نکالا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ خیر رحمانی نے مونگیر کا انتخاب کیوں کیا۔ وہ چاہتے تو دربھنگہ سے یہ ماہنامہ نکال سکتے تھے۔ اِس پر کہیں سے کوئی روشنی نہیں ملتی ہے۔ البتہ یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ مولانا خیر رحمانی خانقاہ رحمانی سے نسبت کی بنیاد پر رحمانی لکھا کرتے تھے۔ حالانکہ خانقاہ رحمانی کا قیام ١٩٠١ء میں ہوا اور ١٩٠٣ء سے حضرت مولانا محمد علی مونگیری ؒ مستقل طور پر مونگیر میں رہنے لگے۔ پھر ١٨٨٩ء میں مولانا خیر رحمانی کی مونگیر میں موجودگی کا سبب کیا تھا۔ کسی مدرسہ سے منسلک ہوں، اِس کے بھی کوئی شواہد دستیاب نہیں ہیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ جب مونگیر اور اس کے مضافات میں قادیانیت اپنا پاؤں مضبوطی سے پسارنے لگی تو حضرت فضل رحمان گنج مرادابادیؒ نے حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ کومونگیر جانے کا حکم دیا۔ اُس زمانے میں ندوۃ العلماء کی نظامت کی وجہ سے مولانا مونگیریؒ کی مشغولیت کافی بڑھی ہوئی تھی۔ اس کے باوجود وہ موقع نکال کر مونگیر آتے جاتے رہے اور ردِّ قادیانیت پر کام کرتے رہے۔ ہوسکتا ہے کہ مولانا مونگیریؒ نے مولانا خیر رحمانی کو اِس کام پر مامور کیا ہو۔ اِس کے علاوہ اور کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ یہ صرف مفروضہ ہے، کوئی مصدقہ بات نہیں ہے۔ اگر ماہنامہ ’شوخ‘ کے شمارے دستیاب ہوتے تو اُس کی نوعیت سے اس حقیقت کا پتا لگایا جا سکتا تھا۔ خیر رحمانی کا ماہنامہ ’شوخ‘ دیر پا ثابت نہیں ہوا۔ اِس میں اُن کو کامیابی نہیں ملی، اِس لیے اس کی اشاعت بند کر دی گئی۔ اِس زمانے میں ’الپنچ‘ ظریفانہ صحافت میں اپنا سکّہ جمائے ہوا تھا۔ خیر رحمانی پٹنہ آئے اور ١٨٩٠ء کے آس پاس ’الپنچ‘ کی ادارت میں شامل ہو گئے اور جنوری ١٩٠٦ء تک اِس اخبار سے مختلف حیثیتوں سے جڑے رہے۔ مولانا ابوالکلام قاسمی نے اپنی کتاب ’تذکرہ علمائے بہار۔جلد اول‘ میں ١٥/جنوری ١٩٠٢ء اور ’بہار کی اردو شاعری میں علماء کا حصہ‘ میں ١٠/جنوری ١٩٠٢ء کو خیر رحمانی کے ’الپنچ‘ چھوڑنے کی تاریخ درج کی ہے، جو صحیح نہیں ہے۔
خیر رحمانی دربھنگوی کے تعلق سے پروفیسر صفدر امام قادری نے دوران گفتگو ایک اہم معلومات فراہم کی کہ پروفیسر ناز قادری کی نگرانی میں خیر رحمانی پر پی ایچ ڈی تھیسس لکھی جاچکی ہے جس میں ٢٠٠/ صفحات میں اُن کے اشعار ہیں اور معتبر شواہد کی روشنی میں یہ بتایا گیا ہے کہ خیر رحمانی ١٩٠٢، ١٩٠٣ء میں ڈی جے کالج مونگیر میں درس و تدریس سے بھی منسلک تھے۔ واضح ہو کہ یہ کالج ١٩٠١ء میں قائم ہوا تھا۔
’الپنچ‘ کے ایڈیٹر مولانا سید رحیم الدین مہجور استھانوی سے اِن کے گہرے تعلقات تھے اور دونوں ایک دوسرے کے ہم مزاج کے ساتھ متحدالفکر اور متحدالخیال بھی تھے۔ ١٨٩٠ء سے دونوں کا ساتھ تھا۔ سید رحیم الدین استھانوی ضیق النفس (دمّے) کے پرانے مریض تھے اور دن بہ دن اِس میں شدت آتی چلی گئی۔ جب زیادہ پریشانی بڑھی تو مجلس ادارت میں شامل افراد میں خیر رحمانی کو سب سے لائق اور ذی استعداد جان کر اُن کو نائب ایڈیٹر کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اِس کے بارے میں خود خیر رحمانی نے سید رحیم الدین استھانوی کی وفات پر جو مضمون لکھا تھا اور ’الپنچ‘ کے ١٩/جولائی ١٩٠٢ء کے شمارے میں شائع ہواتھا، اُس میں اِس کا ذکر کیا ہے:
”(سید رحیم الدین)جب ضیق النفس سے پریشان ہوئے تو اس(ناچیزکو) جو پہلے ’ابوالظرفا‘ اور ’قہرنگار ہنٹر پھٹکار‘ کے نام سے نامہ نگاری کرتا تھا بُلایا۔۔۔اور نائب ایڈیٹر مقرر کیا، آپ صرف پروف دیکھ لیا کرتے تھے“۔
١٩٠٣ء کے شمارے میں ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
”یہ ہیچمداں آٹھ برس سے اخبار چلا رہا تھا صرف وہ مضامین کو دیکھ لیا کرتے تھے۔ اخبار جس طرح سے نکل رہا تھا، ان شاء اللہ نکلتا رہے گا۔ آٹھ برس سے جس کی ایڈیٹری میں اخبار تھا اُسی کے ہاتھ میں اب بھی رہے گا، جیسا رنگ تھا وہی رہے گا، وہی ظرافت ہوگی وہی متانت“ (چند اہم اخبارات و رسائل/ قاضی عبد الودود، ص٢٠٠)۔
مذکورہ عبارت سے اِس کی وضاحت نہیں ہوتی کہ خیر رحمانی کس سنہ میں نائب ایڈیٹر مقرر کئے گئے۔ قاضی عبد الودود کی اِس تحریر سیاس پر روشنی پڑتی ہے: ”سید رحیم الدین مالک و منیجر و ایڈیٹر ’الپنچ‘ دس بارہ برس سے عارضۂ ضیق النفس میں مبتلا تھے اور خیر اسسٹنٹ ایڈیٹر آٹھ برس سے اخبار چلا رہے تھے۔ یہ پہلے ابوالظرفا اور قہر نگار ہنٹر پھٹکار کے نام سے نامہ نگاری کرتے تھے“ (چند اہم اخبارات و رسائل، ص ١٩٠)۔قاضی صاحب کی یہ تحریر ’الپنچ‘ ١٩٠٢ء کے شمارہ کی توضیح ہے۔ گویا ١٩٠٢ء سے آٹھ برس قبل یعنی ١٨٩٤ء میں خیر رحمانی نائب ایڈیٹر مقرر کیے گئے۔ ٢١/فروری ١٩٠٢ء کے شمارے میں آخری صفحہ پر یہ تحریر ملتی ہے:
”الپنچ پریس واقع پٹنہ محلہ صدر گلی میں بہ حکم جناب مولوی سید رحیم الدین صاحب مالک مطبع و ایڈیٹر، مولوی ابوالخیر نائب ایڈیٹر نے چھاپ کر شائع کیا“۔
اِن آٹھ برسوں میں ایڈیٹر کی حیثیت سے سید رحیم الدین اور نائب ایڈیٹر کے طور پر خیر رحمانی کا ضرور نام شائع ہوتا رہا لیکن ایڈیٹر کے سارے کام خیر رحمانی ہی دیکھا کرتے تھے، سید رحیم الدین صرف پروف دیکھ لیا کرتے تھے۔ اِس طرح خیر رحمانی ١٨٩٤ء سے ١٩/ جولائی ١٩٠٢ء تک غیر اعلانیہ طور پر ایڈیٹر کے فرائض انجام دیتے رہے اور سید رحیم الدین کی وفات کے بعد باضابطہ طور پر اُن کو ’الپنچ‘ کا ایڈیٹر منتخب کیا گیا اور بہ طور ایڈیٹر اُن کا نام بھی شائع ہونے لگا۔ ۸/نومبر ١٩٠٢ء کے شمارے میں آخری صفحہ پر یہ تحریر ملتی ہے:
”در مطبع الپنچ بانکی پور واقع محلہ چوہٹہ ڈاکخانہ مرادپور (پٹنہ) جناب مولوی سید صفیر الحق صاحب رضوی مالک اخبار و مطبع ہمشیرہ زادہ جناب مولوی سید رحیم الدین خلد آشیاں کے حکم سے جناب مولوی سید ابوالخیر مظہر عالم خیر دربھنگوی ایڈیٹر و کار پردازان مطبع نے چھپواکر شائع کیا“۔
خیر رحمانی نے جنوری ١٩٠٦ء تک بڑی ذمہ داری اور بہت خوبی کے ساتھ ’الپنچ‘ کی ادارت کے فرائض انجام دیے اور اپنی خدا داد صلاحیت اور بہترین سوجھ بوجھ سے اِس ظریفانہ اخبار کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ ’اودھ پنچ‘ کے بعد ’پنچ سیریز‘ میں ’الپنچ‘ ہی ایک ایسا اخبار ہے جو اپنی ساکھ قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے میں کامیاب ہوا۔ اِس سلسلے میں خیر رحمانی کی کارکردگی کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ نامہ نگار سے ہوتے ہوئے نائب ایڈیٹر اور ایڈیٹر تک کا سفر انھوں نے بڑی خوبی سے نبھایا۔ ویسے دیکھا جائے تو انھوں نے آٹھ برس غیر اعلانیہ ایڈیٹر اور چار برس باضابطہ ایڈیٹر کے طور پر کام کیا۔ یہ مدت بارہ۔تیرہ برس کی ہوجاتی ہے۔ مولوی سید شاہ محمد جعفر حسین صادق اس پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
”آپ(خیر رحمانی) کی ذات اِس کی محتاج نہیں کہ یہ ہیچمداں آپ کو پبلک سے روشناس کرائے۔ آپ نے تقریباً بارہ تیرہ برس تک اس صوبہ بہار کے مشہور ظریف اخبار ’الپنچ‘ بانکی پور پٹنہ کی ایڈیٹری کی خدمت انجام دی اور اپنی پُرزور ظرافت اور شوخ نگاری سے ادارت کو چار چاند لگادیے تھے۔ پولیٹکل مضامین کو ظریفانہ اور شوخ رنگ میں لکھنا آپ کا خاص حصہ تھا“ (جوش آزادی/ خیر رحمانی، ص۱)۔
’الپنچ‘ چھوڑنے کے بعد کچھ دنوں تک وہ پٹنہ میں مقیم رہے، پھر وطن واپس لوٹ گئے اور نواب سعادت علی خاں سعادت، پیغمبر پور اسٹیٹ دربھنگہ سے منسلک ہوگئے۔ سعادت علی خاں کا شعر گوئی سے گہرا تعلق تھا اور سعادت تخلص فرماتے تھے۔ دیوان سعادت کی طباعت و اشاعت میں خیر رحمانی بھی برابر کے شریک رہے۔ ’الپنچ‘ اور ماہنامہ ’بَہار‘ کے زمانے سے ہی دونوں کے گہرے تعلقات تھے۔ چنانچہ جب خیر رحمانی نے ’بَہار‘ نکالا تو نواب سعادت علی خاں سخاوت نے اس رسالہ کی سرپرستی قبول کرتے ہوئے پچاس روپے کی اعانت فرمائی تھی جس کا ذکر خیر رحمانی نے ’بہار‘ کے شمارہ نمبر۲ جلد ۱ میں بڑی محبت سے کیا ہے:
”بَہار کی خوش نصیبی ہے کہ فیاض اور دریا دل رؤسا اس کی سرپرستی کرنے کو آمادہ ہوتے جاتے ہیں۔ ہم کو سب سے بڑھ کرخوشی تو اس کی ہے کہ ہمارے رئیسوں میں علم کی قدردانی اور علمی مذاق ترقی کررہا ہے۔ ابھی بَہار کی عمر کُل دو مہینے کی ہے اور یہ دوسرا ہی نمبر شائع ہو رہا ہے کہ ایک دوسرے دریا دل رئیس نے اس کی سرپرستی قبول فرماکر ناچیز مہتمم کی ہمت بڑھائی ہے۔ ہمارے دربھنگہ کے رئیس ابن رئیس خان والا شان عالی جناب معلی القاب ہلال رکاب جناب راجہ مولوی سید سعادت علی خاں صاحب سعادت والی ریاست پیغمبرپور ضلع دربھنگہ نے از راہ قدردانی پچاس روپے مرحمت فرمائے اور اپنے بیش بہا کلام سے ’بَہار‘ کی رونق بڑھانے کا بھی وعدہ فرمایا ہے۔ ناچیز ایڈیٹر کو اس قدردانی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں ملتے بجز اس کے کہ تا زندہ ام بندہ ام۔ ’بَہار‘ کی ساری امیدیں آپ کی ذات سے وابستہ ہیں اور ہم کو پوری توقع ہے کہ آپ اس ناچیز گلدستہ کی اس سے زیادہ اعانت فرماتے رہیں گے۔ آپ کا نام نامی شکریہ اور فخر کے ساتھ سرپرستوں میں لکھ لیا گیا ہے“۔
خیر رحمانی دربھنگوی [نے] پٹنہ کے زمین دار اور رئیس اعظم خان بہادر سید واجد حسین کے یہاں اتالیق کی حیثیت سے اُن کے لڑکوں سید شاہ محمد جعفر حسین صادق (بیرسٹر) اور سید شاہ محمد اصغر حسین (بیرسٹر) کو پڑھایا تھا۔ اِس کی تصدیق اِس سے ہوتی ہے کہ سید شاہ محمد جعفر حسین صادق نے خیر رحمانی کی قومی نظموں کے مجموعہ ’جوشِ آزادی‘ کو مرتب کیا تھا، اُس کے دیباچہ میں انھوں نے خیر رحمانی کو استاد سے مخاطب کیا ہے۔
آخری دنوں میں وہ پورنیہ کے نواب سید واجد حسین کے یہاں اتالیق کی خدمت پر مامور ہوگئے لیکن غیّور طبیعت کی بنا پر زیادہ دنوں تک وہاں ٹھہر نہیں پائے اور اپنا راستہ الگ کرلیا۔ وہاں سے وہ خانقاہ رحمانی تشریف لے گئے اور باطنی تعلیم میں مشغول ہوگئے۔ پھر وطن واپس آگئے۔ چند دنوں کے بعد ہی ١٣٦٨ھ/ ١٩٤٨ء میں ان کی وفات ہوگئی۔ جولائی ١٩٠٢ء میں سید رحیم الدین، مدیر الپنچ کی وفات پر نثری مرثیہ لکھتے ہوئے انھوں نے یہ کہا تھا کہ ”آج ہم مرحوم کا مرثیہ لکھ رہے ہیں کل کوئی میرا مرثیہ لکھے گا“۔ اپنے اسلاف کی ناقدری کی جو روایت چلی آرہی ہے، اس کی بنیاد پر آج ہم یہ بتانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں کہ اُن کی موت پر کسی نے ایسا مرثیہ لکھا بھی تھا یا نہیں؟
خیر رحمانی تقریباً ١٦/ برس تک ’الپنچ‘ سے جڑے رہے، کافی [؟] نامہ نگار کی حیثیت سے، کبھی بہ طور نائب ایڈیٹر اور کبھی ایڈیٹر رہے۔ ١٢/برس تک وہ سید رحیم الدین کی صحبت اور معیت میں رہے اور دونوں نے ’الپنچ‘ کو علمی و صحافتی دنیا میں وقار اور بلندی عطا کرنے میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا۔ دونوں کی ہم مزاجی سے اِس اخبار کو بڑا فائدہ پہنچا۔ خیر رحمانی نے اِس بارہ برس کی مدت میں سیدرحیم الدین کی صحبت سے بہت کچھ سیکھا اور ماہنامہ ’شوخ‘ میں جس ناتجربہ کاری سے وہ دوچار ہوئے تھے، اُس سے اپنے آپ کو باہر نکالا اور اخبار کو کیسے مستحکم اور پائیدار بنایا جاتا ہے، اِس ہنر سے آشنا ہوئے۔چنانچہ جب وہ ’الپنچ‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے تو اِس ہنر کا خوب خوب مظاہرہ کیا۔ سید رحیم الدین نے ’الپنچ‘ کو جو معیار اور وقار عطا کیا تھا، خیر رحمانی نے نہ صرف اس کو برقرار رکھا بلکہ الپنچ کی شاد مخالف جو شبیہ بن گئی تھی، اُسے توڑنے کی کوشش کی۔ ’الپنچ‘ ٢٤/مئی ١٩٠٢ء میں شائع خیر رحمانی کی ایک تحریر سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ معاصر اخبار اور اس کے ایڈیٹر کے خلاف کوئی تحریر ’الپنچ میں شائع نہیں ہوتی تھی۔ ورنہ خیر رحمانی کو یہ دھمکی آمیز تحریر لکھنے کی ضرورت کیا تھی:
مولانا الپنچ! تم نے ۸/مئی کے شحنۂ ہند میں ایڈیٹر (حضرت شوکت) کی بے جا ڈینگ تو دیکھی ہی ہوگی۔ بھلا تم کو بے جا کاہے کو معلوم ہونے لگی۔ تم سب اخبارچی تو ایک ہو۔ ہم کو شبہ ہے کہ اپنے ہم عصر کی پاس داری میں کہیں اس مراسلہ ہی کو ردّی کے ٹوکرے کے حوالے نہ کردو۔ مگر مجھ کو اس کی پرواہ نہیں ہے۔ میں نے اِس کی ایک نقل رکھ لی ہے۔ اگر نہ چھاپوگے تو کسی دوسرے آزاد اخبار میں بھیج دوں گا اور اس کے ساتھ ہی تمھاری بے جا طرفداری کی بھی دھجیاں اڑاؤں گا۔ مجھ کو یقین ہے کہ تم کو بھی اپنی آزادی کا ویسا ہی دعوی ہے جس طرح میاں شوکت کو ہمہ دانی کا“۔
یہاں اِس نکتے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جس وقت کی یہ تحریر ہے، اُس وقت خیر رحمانی ’الپنچ‘ کے نائب ایڈیٹر تھے اور بہ قول قاضی عبد الودود بہ سبب علالت سید رحیم الدین آٹھ برس سے اخبار خیر رحمانی چلا رہے تھے اور خیر رحمانی نے بھی سید رحیم الدین پر اپنے نثری مرثیہ میں اس کی صراحت کی ہے کہ سید رحیم الدین صرف پروف دیکھ لیا کرتے تھے۔ پھر وہ کون سی مجبوری اور پابندی تھی جو خیر رحمانی کو اِس دھمکی آمیز تحریر لکھنے کی ضرورت پیش آئی۔ بہ ظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ خیر رحمانی اخبار ضرور چلا رہے تھے لیکن مواد کے انتخاب کا حتمی فیصلہ سید رحیم الدین کا ہوتا ہو۔ اس لیے خیر رحمانی کویہ اندیشہ گزرا ہو کہ چونکہ اس تحریر میں ایک اخبار کے ایڈیٹر کے بڑبولے پن کی قلعی کھولی گئی ہے، اس لیے اس کی اشاعت میں تردد ہو۔ اس کے علاوہ ایک توضیح یہ بھی ہو سکتی ہے کہ از راہ  ظرافت خیر رحمانی نے اِس قسم کے طرزِبیان کو اپنایا ہو۔ ’الپنچ‘ ابتدا ہی سے شاد عظیم آبادی کا مخالف رہا ہے۔ شاد عظیم آبادی پر لگاتار مخالفانہ مضامین و اشعار اور طنزیہ کلام اس میں شائع ہوتے رہے۔ ١٨/ مارچ ١٨٨٩ء میں شائع ایک تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ خود شاد عظیم آبادی نے الپنچ دفتر حاضر ہوکر صلح صفائی کی کوشش کی تھی اور خبر کے مطابق صلح بھی ہوگئی تھی اور کارکنانِ الپنچ کو ہدایت بھی کردی گئی تھی کہ اپنے قلم روک لیں:
”ہمارے کرم فرما جناب میر علی محمد شاد بہ نظر مصالحہ کل ہمارے آفس میں تشریف لائے۔ ہماری تحریروں اور نکتہ چینیوں کی بِنا کسی ذاتی رنجش پر تو تھی نہیں۔ اس لیے صلح اس پر ٹھہری کہ ’نوائے وطن‘ کی کُل جلدیں جَلا دی جائیں اور آئندہ سے یا تو تصنیف و تالیف کی جرأت ہی نہ کریں یا پہلے ہم کو دکھلا لیا کریں۔ پھر اُس کی اشاعت کا قصد فرمائیں۔ چنانچہ اُس وقت نوائے وطن کی بقیہ کُل جلدیں جَلا دی گئیں اور اِس طرح ہم دونوں میں صلح ہوگئی۔ کسی نے سچ کہا ہے:
آنچہ دانا کُند کُند ناداں لیک بعد از خرابیِ بسیار
اب ہم اپنے نامہ نگاروں کو اطلاع دیتے ہیں کہ آئی گئی اس زبانی معذرت کو قبول فرمائیں اور آئندہ سے ذرا اپنی باگ روک کر چلیں“ (سلکِ مضامین/ سید حسن، ص٢٣)
لیکن ٢٠/مئی ١٨٨٩ء میں شاد عظیم آبادی پر شائع طنزیہ تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان صلح نہیں ہوسکی تھی:
”یار الپنچ تم نے کچھ سنا بھی۔ آپ کے شہری المصنف جناب السید علی محمد شاد صاحب آخر سچ مچ فقیر ہی بن بیٹھے۔ اور دَن سے پیری مریدی اور دعا تعویذ کا سلسلہ شروع ہی کردیا۔ یاروں نے تو بےچارے کی لیاقت کا پردہ فاش کرکے اس کا منہ ہی بند کرنا چاہا تھا۔۔۔ادھر حضرت ہیضہ خاں صاحب کی آمد آمد کی خبر سن کر مثنوی، ناول اور غزلیات وغیرہ کی تصنیف کی لَت چھوڑ کر آخرکار تعویذوں کی تصنیف کرنے لگے“ (سلک مضامین/ سید حسن، ص۷۲)
جب خیر رحمانی ایڈیٹر ہوئے تو برابر اُن کی یہ کوشش رہی کہ شاد عظیم آبادی کا بائیکاٹ اب بند ہونا چاہئے۔چنانچہ سید رحیم الدین کے انتقال پر شاد عظیم آبادی نے جو قطعات تاریخ لکھے تھے، خیر رحمانی نے بڑے اہتمام سے اس کو ۲/اگست ١٩٠٢ء کے شمارے میں شائع کیا اور عنوان لگایا: ”قطعات تاریخ انتقال پُر ملال مولوی سید رحیم الدین مہجور مدیر الپنچ از فکر رسا شاعر بے ہمتا جناب خان بہادر مولوی سید علی محمد صاحب شاد عظیم آبادی“۔ ١٤ اور ٢٥/ اکتوبر ١٩٠٢ء کے شمارے میں عظیم آباد کے تاریخی مشاعرہ کے سلسلے سے جو رپورٹنگ کی گئی، اُس میں شاد عظیم آبادی کا بھی نام شامل کیا۔ ۳/جنوری ١٩٠٣ء کے شمارے میں شاد عظیم آبادی کی دو نظمیں بڑی پذیرائی کے ساتھ شائع کی گئیں۔ اِن دونوں نظموں کا تعارفی لب و لہجہ ملاحظہ فرمائیں:
”آج ہم’اعیان دولت‘ کے تحت میں نہایت فخر کے ساتھ اپنے شہر کے ہردل عزیز رئیس اور مشہور شاعر جناب خان بہادر مولوی سید علی محمد صاحب شاد کی دو نظم شائع کرتے ہیں۔ حضرت شاد اپنا کلام کسی اخبار میں شائع نہیں کراتے۔ ہمارے اصرار پر آپ نے الپنچ کی رونق بڑھائی ہے۔ ہم ان کے کلام کو سخن فہموں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ دیکھیں کہ کس پائے کی نظم ہے۔کیا کیا بات پیدا کی ہے۔ ہم آئندہ حضرت شاد کے کلام اور ان کی محنت کی حقیقت لکھیں گے“ (چند اہم اخبارات و رسائل/ قاضی عبد الودود، ص ٢٠١)۔
٣١/جنوری ١٩٠٣ء کے شمارے میں شاد عظیم آبادی کی کتاب ’اردو تعلیم‘ کی تعریف کی گئی ہے اور اُس کی اہمیت و افادیت واضح کرتے ہوئے اُسے نصاب میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایڈیٹر کی ذمہ داری سنبھالتے ہی خیر رحمانی صلحِ کُل کے راستے پر چل پڑے تھے۔ چنانچہ اس سلسلے میں پہلا کارنامہ یہ انجام دیا کہ شاد عظیم آبادی کو الپنچ کے قریب لے آئے اور شایانِ شان اُن کی پذیرائی کی۔ ١٩٠٥ء کے اکتوبر، نومبر اور دسمبر کے متعدد شماروں میں فیض آزاد کے آٹھ مضامین شاد عظیم آبادی کی غزلوں پر تنقید کے تعلق سے شائع ہوئے اور یہ سلسلہ لگاتار ١٩٠٦ء تک جاری رہتا ہے۔ خیر رحمانی نے اپنی ادارت میں الپنچ کو اُسی نہج پر جاری و ساری رکھا جو پہلے سے چلا آرہا تھا۔ چونکہ اس اخبار کا مقصد سیاسی و سماجی اصلاح کے ساتھ بغیر نظریاتی اختلافات اور گروہ بندی کے علم و ادب، شعر و سخن اور فکر و فن کی آبیاری بھی تھا۔ یہی سارے پہلو خیر رحمانی کی ادارت والے الپنچ میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ١٩٠٣ء کے شمارے میں ’شاہی اعلان‘ کے تحت ’الپنچ‘ کے اصول و ضوابط کے ضمن میں جو باتیں کہی گئی ہیں، وہ ساری باتیں خیر رحمانی کی ادارت میں نکلنے والے ’الپنچ‘ پر صادق آتی ہیں۔ لیجیے ’شاہی اعلان‘ ملاحظہ فرمائیں:
”کیا آپ نے اب تک مولانا الپنچ کو نہیں دیکھا ہے۔ ضرور دیکھئے جو اخبار نہیں چلتا ہوا جادو ظرافت کا پورٹ، ایک جملہ پڑھیے اور ہنستے ہنستے بے خود نہ ہو جائیں تو ہمارا ذمہ۔ ایک خبر دیکھئے اور پیٹ نہ پکڑ لیجیے تو ہم گنہ گار۔ پھر یہی نہیں کہ صرف ہا ہا ہی ہی کے سوا کام کی باتیں بالکل ندارد، نہیں، پولیٹکل، سوشل، مارل آرٹیکل سے مالا مال، ملکی ترقی اور تمدنی مضامین پر زبردست چٹکیاں لینے میں گرو گھنٹال۔ اس پر زبان کی صفائی، محاورات کی بندش کا کیا کہنا، پڑھے اور لوٹ پوٹ ہوجائے“(چند اہم اخبارات و رسائل/ قاضی عبد الودود، ص٢٠٠)۔
خیر رحمانی کی ادارت میں نکلنے والے ’الپنچ‘ کے سارے پہلوؤں پر گفتگو اِس مضمون میں ممکن نہیں ہے، اِس کے لیے ایک مکمل کتاب کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ موقع ملا تو یہ سعادت ضرور حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔ اِس دور میں بھی سیاسی اور حالات حاضرہ کے علاوہ تنقید، تذکرہ، طنز و مزاح، لسانیات، تعلیمِ نسواں، تعلیمات، انشائیہ، ادارے، روداد، مشاعرہ، سفرنامہ، پند و موعظت، تبصرے، صحافت، نفسیات اور اسلامیات جیسے موضوعات پر متعدد گراں قدر مضامین شائع ہوئے۔ اِس کے علاوہ شاعری کے تحت متعدد غزلیں، نظمیں، قصائد، مثنوی، مراثی، رباعیات، نعت، قطعات، سہرا وغیرہ ’الپنچ‘ کی زینت بنے، جس کی روشنی میں اُس دور کی سیاسی، سماجی، ادبی، شعری، مذہبی اور تعلیمی پیش رفت کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔شاد عظیم آبادی، اکبر داناپوری، سید فضل الحق آزاد، رنجور عظیم آبادی، مولانا ابوالکلام آزاد، عشرت لکھنوی، مفتی گنجوی عظیم آبادی، فیض آزاد، عبد الحلیم دسنوی، بیتاب عظیم آبادی، مبارک عظیم آبادی، شرر سہارنپوری، شیدا عظیم آبادی، احقر مظفرپوری، اختر مظفرپوری، ہاشمی صفی پوری، ضیا عظیم آبادی، شفا سہسرامی، حفیظ جونپوری، نسیم ہلسوی، منشی شادی لال چین پوری، مست سہسرامی، مائل بیتھوی، جمیلہ خدا بخش، جوہر امروہوی، حافظ بخاری جیسے مشاہیر اور اکابر کا قلمی تعاون خیر رحمانی کو برابر ملتا رہا۔ جن کی تحریریں خود کسی رسالے کی کامیابی کی ضمانت ہیں۔ خیر رحمانی کی اداریہ نویسی کے تعلق سے اُن کی دو تحریریں پیش کی جاتی ہیں؛ ایک میں ناظم ندوۃ العلماء کے استعفی اور اس پر اپنی رائے۔ اور دوسری میں کلکتہ کی طوائفوں کے سلسلے سے عوام کی بیداری اور اِس بارے میں بہار کے عوام کی سردمہری پر اظہار خیال کیا گیا ہے:
”مولوی محمد علی صاحب ناظم ندوۃ العلماء نے اپنی نظامت سے استعفا دیا جس کا اعلان الپنچ مطبوعہ ١٣/جون ١٩٠٣ء میں شائع ہوچکا ہے۔ پھر اس کے لیے کسی کی درخواست ندوہ میں آئی یا نہیں؟ اور آئندہ کون ناظم ندوہ ہوگا۔ اس کا علم تو خدا کو ہے لیکن جہاں تک ہم نے اپنے ذہن میں اس کے لئیے لوگوں کو منتخب کیا ان سب میں مولوی حبیب الرحمن صاحب رئیس بھیکم پور کو نہایت ہی موزوں پایا۔ مولوی صاحب ممدوح میں ہر طرح کی قابلیتیں ایسی مجتمع ہیں کہ دوسروں میں بہت کم پائی جائیں گی۔ خدا کرے مولوی صاحب موصوف اس بار عظیم کو اپنے اوپر اٹھانا قبول کر لیں۔“ (الپنچ، ٢٧/ جون ١٩٠٣ء)۔
”کلکتہ کے ایک محلہ میں دشمن اخلاق طوائفوں کی بھرمار سے تنگ آکر وہاں کے باشندوں نے ایک درخواست جس پر عام لوگوں کے علاوہ عمائد و حکام ہائی کورٹ اور وکلاء وغیرہ کے بھی دستخط ہیں پولس کمشنر کے حضور میں پیش کی ہے کہ پولس شارع عام سے بازاری عورتوں کا ڈربہ ہٹا کر کہیں اور جگہ منتقل کردے۔ درخواست تو معقول ہے۔ امید ہے کہ اس پر عمل درآمد بھی ہو۔ کیا بانکی پور کے غیرت مند بھی اس قسم کی کوئی درخواست لوکل گورنمنٹ میں پیش کر سکتے ہیں؟ کیونکہ زیادہ تر ضرورت ہے کہ یہاں کے اسکولی طلبا سے ان چڑیلوں کا سایہ الگ کیا جائے۔“ (الپنچ، ٢٧/ جون ١٩٠٣ء)۔
خیر رحمانی ’الپنچ‘ میں خیر، ابو الظرفا، مولانا قہر نگار، ہنٹر پھٹکار جیسے مختلف ناموں سے نامہ نگاری کرتے تھے اور انھی ناموں سے اُن کی نظمیں اور مضامین شائع ہوتے تھے۔ کہیں کہیں وہ خیر اور ابوالظرفا کے ساتھ دربھنگوی بھی لکھتے تھے۔ ایڈیٹر کے طور پر جو نام لکھا جاتا تھا، اُس میں بھی وہ دربھنگوی شامل کرتے تھے۔ ’الپنچ‘ میں کہیں بھی اُن کے نام کے ساتھ’رحمانی‘ کا استعمال نہیں ہوا ہے۔ البتہ اُن کی نظم ’چٹکیاں‘ اور ’جوش آزادی‘ جو ١٩٢٢ء سے قبل شائع ہوئی تھیں، اُن میں خیر رحمانی دربھنگوی لکھا ہوا ہے۔ اِس کے علاوہ سید شاہ محمد طہ کی کتاب ’تربیت‘ کی تقریظ میں انھوں نے اپنے دستخط میں خیر رحمانی دربھنگوی لکھا ہے۔ اِس تقریظ پر ٣١/ دسمبر۵۲۹۱ء کی تاریخ درج ہے۔
خیر رحمانی کی متعدد نظمیں اور مضامین ’الپنچ‘ کے مختلف شماروں میں شائع ہوئے مثلاً(۱)۔ ’ہمارے چلتے پرزے ٨٩ء کے دھوم دھڑکے‘ (ابو الظرفا دربھنگوی، نظم، ۷/جنوری ١٨٩٨ء)،(۲)۔ ’چل بسا بوڑھا سید سا رہبر‘ (ابو الظرفا دربھنگوی، نوحہ، ٢٧/مئی ١٨٩٨ء)،(۳)۔’اللہ اکبر کی اہمیت و افادیت‘ (خیر، انشائیہ، ۱/جولائی ١٨٩٨ء)،(۴)۔ ’ارَرَرَ کبیر۔جھرَ رَ رَ کبیر‘ (ابو الظرفا، نظم، ١٦/مارچ ١٩٠٠ء)، (۵)۔ ’یاروں کا مضمون میرا مضمونچہ‘ (مولانا قہر نگار، نظم، ۴/جنوری ١٩٠١ء)،(۶)۔ ’رہے گا نام اللہ کا‘ (ابوالظرفا، نظم، ۵/جولائی ١٩٠٩ء)،(۷)۔ ’شاہ کی املی کے نامی رئیس و سجادہ نشیں سید شاہ محمد مہدی کے صاحبزادے سید محمد حامد کے مکتب پر الپنچ کے نامہ نگار کی کامیاب رپورٹ‘ (مولانا قہر نگار، رپورٹ، ١٢/جولائی ١٩٠١ء)،(۸)۔ ’پانچ اور پانچوں گھی میں‘ (ابو الظرفا دربھنگوی، مضمون، ۵/اپریل ١٩٠٢ء)،(۹)۔ ’بازی‘ (ہنٹر پھٹکار، مضمون، ۵/ اپریل ١٩٠٢ء)،(۰۱)۔ ’شحنۂ ہند میرٹھ سے دو دو باتیں‘ (مولانا ہنٹر پھٹکار، تبصرہ، ٢٤/مئی ١٩٠٢ء)،(۱۱)۔ ’چھوٹے تارے: انگریزی نظم لِٹِل اسٹار کا منظوم ترجمہ‘ (خیر، ٢١/ جون ١٩٠٢ء)، (۲۱)۔’ڈاکیا‘ (خیر، نظم، ٢١/جون ١٩٠٢ء)، (۳۱)۔’لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے: سید رحیم الدین استھانوی، مدیر الپنچ کا نثری مرثیہ‘ (خیر، مضمون، ١٩/جولائی ١٩٠٢ء)۔ خیر رحمانی کی یہ تیرہ نثری اور شعری نگارشات اور تخلیقات شعر و ادب اور روداد کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں۔ اُن کا ایک تبصرہ ’شحنۂ ہند میرٹھ سے دو دو باتیں‘ اُن کی علمی لیاقت، تفہیم شعر اور بیدل شناسی کی نشان دہی کرتا ہے۔ در اصل ’شحنۂ ہند میرٹھ‘ کے مدیر شوکت میرٹھی فارسی کے مشہور شاعر بیدل عظیم آبادی کے اشعار کی تشریح کرتے ہوئے ایک بے جا دعوی کر بیٹھے کہ ہند و ایران میں کوئی فاضل ایسا نہیں جو بیدل عظیم آبادی کے اشعار کی ایسی تشریح کر سکے۔ اِسی بے جا اور مبالغہ آمیز دعوی کی قلعی اس تبصرہ میں کھولی گئی ہے۔ خیر رحمانی کی یہ تحریر ملاحظہ فرمائیں:
”سچ کہا ہے کہ بڑے بول کا سر نیچا ہے
۔۔۔بیدل کے چار شعر کی جو آپ نے شرح کی ہے جس پر آپ وثوق کے ساتھ دعوی کرتے ہیں کہ بجز مجدّد السنۂ شرقیہ کے کوئی ہندوستانی تو کیا شعرائے فارس بھی نہیں سمجھ سکتے۔وہ ایسی ہے کہ چار دن کے لونڈے ایسی شرح لکھ سکتے ہیں۔ نہ آپ نے کلام کی خوبی دکھائی نہ فصاحت و بلاغت کو دکھایا، نہ نکات بیان کئے اور ڈینگ اتنی۔ اے معاذ اللہ۔ اسی غزل کا یہ شعر:
بکشاد دست کرم قسم کہ دریں زمانہ پرستم نہ رسد بہ تہمت بستگی ز دری کہ نان بگزار رسد
لکھ کر اپنی ہمہ دانی کے زعم میں یہ فرماتے ہیں کہ ”تمام ہندوستان کے علماء اور فضلاء اور شعراء اس شعر کا مطلب بتائیں جس کو ہم حل کرچکے ہیں۔ ان شاء اللہ کوئی نہ بتا سکے گا۔ ورنہ مجدّد کی کیا ضرورت تھی“۔اب میں حضرت شوکت سے پوچھتا ہوں کہ جیسا ان کا بیان ہے۔ اگر کوئی اس شعر کا مطلب بتا دے تو دنیا کو ایسے مجدّد کی ضرورت تو نہ رہے گی! وہ اس کو مان لیں اور اس کا اعلان کردیں تو میں مطلب بتانے کو ڈٹا بیٹھا ہوں اور مطلب بھی وہ بتاؤں کہ میاں مجدّد کے فرشتہ خاں کو بھی نہ سوجھا ہو۔ مجدّد تو مجدّد خود حضرت بیدل کی روح وجد کرنے لگے“۔
مولوی سید رحیم الدین مہجور استھانوی، مدیر الپنچ کا جولائی ١٩٠٢ء میں انتقال ہوا، تو اُس وقت خیر رحمانی ’الپنچ‘ کے نائب ایڈیٹر تھے۔ ١٩ /اور ٢٦/جولائی ١٩٠٢ء کے مشترک شمارے میں انھوں نے سید رحیم الدین پر ایک دردناک نثری مرثیہ لکھا، جس کی ایک ایک سطر سے اُن کی عقیدت ٹپکتی ہے اور ایک ایک جملے سے اُن کا بے لوث اخلاص جھلکتا ہے۔ چونکہ دونوں کے تعلقات کا عرصہ بہت طویل تھا اور دونوں ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں برابر شریک رہتے تھے، اس لیے ایک رفیق غم گسار اور مخلص مربّی کا اتنا جلد رخصت ہوجانا، اُن کے لیے سوہانِ روح بن گیا۔ درد اور غم کے اتھاہ سمندر میں ڈوب کر انھوں نے یہ نثری مرثیہ لکھا:
”اِس اخبار نے خدا جانے کتنے مرثیے لکھے، کتنے کا ماتم کیا، آج خود اپنے مالک، اپنے آقا کا مرثیہ لکھنے بیٹھا ہے۔ کُلّ نفس ذائقۃ الموت۔ آہ! آہ! یہ ناچیز اسسٹنٹ ایڈیٹر لکھنا تو بہت کچھ چاہتا ہے مگر کثرت غم سے کچھ لکھ نہیں سکتا۔ جس قدر دل کو صدمہ ہے نہ تو وہ زبان سے ادا ہوسکتا ہے نہ قلم سے۔ اس وقت ہم اسی غرض سے قلم لے کر بیٹھے تھے کہ کچھ اظہار غم کرکے سینہ ہلکا کرلیں مگر آہ نہیں ہوسکتا، مرحوم کی صورت سامنے آجاتی ہے اور دل امنڈ آتا ہے، ہائے یہ کیا معلوم تھا کہ ہم کو اپنے آقا کی موت کی خبر لکھنی پڑے گی۔ مرحوم کو دو ہفتے بھی مکان سے آئے ہوئے نہ گذرے تھے کہ ہمیشہ کے لیے ہم لوگوں سے جدا ہو گئے۔ ناظرین اخبار جناب مولوی سید رحیم الدین صاحب مالک و منیجر و ایڈیٹر اخبار الپنچ سے بہ خوبی واقف ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مرحوم ہی کی ذات مبارک سے اس اخبار کی زندگی تھی، گو وہ بارہ برس سے ضیق النفس کے عارضہ میں مبتلا تھے اور کام کرنے سے معذوری تھی مگر پھر بھی ان کی ایک نگاہ اخبار کی رونق بڑھا دینے کو کافی تھی۔۔۔آہ! سب سے بڑھ کر قلق تو یہ ہے کہ زبان بند ہوگئی، نہ کچھ کہا نہ سنا، بچوں کو دیکھنے کی آرزو رہ گئی۔ اللہ اللہ! یہی دنیا ہے اور اس کے یہی دھندے ہیں۔ آج ہم مرحوم کا مرثیہ لکھ رہے ہیں کل کوئی میرا مرثیہ لکھے گا“۔
’پانچ اور پانچوں گھی میں‘ انشائیہ ہے جس میں خیر رحمانی نے پانچ تعداد والی اشیا کی برکتیں پہلے نثر میں پھر شعر میں بتائی ہیں. جیسے پانچ وقت کی نماز، حواس خمسہ، خمسہ نظامی، پنچ تن، پنچ سوار، پنچ سورہ وغیرہ وغیرہ۔ اس مضمون کی ابتدا ظریفانہ انداز میں کرتے ہیں مثلاً ’پنچوں کے سرپنچ مہا پنچ مولانا الپنچ دامت پنچایتکم!‘۔ اِسی طرح ’بازی‘ بھی انشائیہ ہے جس میں مرغبازی، آتشبازی، سرکس بازی، اسپیچ بازی وغیرہ پر ظریفانہ انداز میں اظہار خیال کیا گیا ہے۔ خیر رحمانی اپنے ہم عصروں کی کتابوں پرتقریظ بھی لکھا کرتے تھے۔ چنانچہ سید شاہ محمد طہ کی کتاب ’تربیت‘ میں اُن کی ایک تقریظ شامل ہے:
”حضرت دل (یعنی سید شاہ محمد طہ صاحب) کی کتاب ’تربیت‘ میں نے طبع ہونے کے قبل بھی دیکھی تھی اور اب بعد طبع بھی دیکھی۔ ’تربیت‘ کے کیا کہنے ہیں صرف نام کی تربیت نہیں کام کی تربیت ہے۔ خوب کتاب ہے اور بہت خوب کتاب ہے۔ مصنف نے اخلاق کی درستگی، تہذیب و شائستگی کی تعلیم کا کوئی موقع اٹھا نہیں رکھا ہے پھر زبان بالکل سادہ کہ بچے خود بہ خود پڑھیں اور خود تربیت پائیں۔ تربیت کا موقع اس طرح بتایا ہے جیسے کوئی نباض طبیب نبض پر ہاتھ رکھ کر مریض کے احوال بتاتا ہے۔ ایسی کتابوں کی ملک کو سخت ضرورت تھی اور ہے۔ اِس کتاب نے اصول تربیت کی راہ کھول دی ہے اور میں کہہ سکتا ہوں کہ اس اصول کی اوّلیت کا سہرا اسی تربیت کے سر ہے۔ خدا کرے یہ کتاب مقبول ہو آمین اور یہ کتاب اسکولوں کے نصاب میں داخل ہوجائے تو زیادہ فائدہ پہونچے۔ (دستخط) خیر رحمانی دربھنگوی عفی اللہ عنہ۔٣١/ دسمبر ١٩٢٥ء۔ (تربیت/ سید شاہ محمد طہ، نظامی پریس، پٹنہ سٹی، ١٣٤٣ھ، ص۶۔۷)
سید شاہ محمد طہ کی مذکورہ بالا کتاب میں خیر رحمانی کے علاوہ خان بہادر مولوی سید شاہ احمد حسین حزیں (باڑھ)، ڈاکٹر سید شرافت کریم(شیخ پورہ)، پروفیسر محفوظ الحق، پریسیڈنسی کالج کلکتہ، خان بہادر سید شاہ محمد کمال (پٹنہ)، سید امداد امام اثر (نیورہ)، خان بہادر سید شاہ واجد حسین (خسروپور)، مولانا محمد عبد الباری، فرنگی محل، لکھنؤ، پروفیسر محمد ہدایت حسین، کلکتہ یونی ورسٹی، سید احمد شرف الدین، بیرسٹر پٹنہ، اورسید سعید عالم، پرنسپل لا کالج پٹنہ کی تقریظیں بھی شامل ہیں۔ خیر رحمانی کی اِن نثری نگارشات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سنجیدہ اور ظریفانہ دونوں طرح کی نثر لکھنے پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔ اُن کی نثر میں سلاست، روانی اور برجستگی پائی جاتی ہے۔
خیر رحمانی اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں طبع آزمائی کیا کرتے تھے۔ اردو میں داغ دہلوی اور امیر مینائی سے اصلاح لیا کرتے تھے اور فارسی میں نظام کالج، حیدرآباد کے پروفیسر سید محمد علی ایرانی سے، لیکن اُن کے فارسی اشعار دستیاب نہیں ہوسکے۔ جس زمانے میں وہ داغ دہلوی سے اصلاح لیا کرتے تھے، علامہ اقبال بھی خرمنِ داغ سے مستفیض ہوا کرتے تھے۔ پروفیسر صفدر امام قادری نے اس سلسلے میں ایک اہم معلومات فراہم کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے خیر رحمانی کے نام داغ کے دو خطوط کو دیکھا ہے، جس میں اشعار کی اصلاح کے ساتھ یہ ہدایت تھی کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اور حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے نام پر ایک ایک آنہ نذر پیش کریں۔ خیر رحمانی نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ دوسرے خط میں اشعار کی اصلاح کے بعد داغ نے پوچھا کہ کہ آپ کا مذہب (مسلک) کیا ہے اور پھر ایک ایک آنہ نذر پیش کرنے کی ہدایت فرمائی۔
خیر رحمانی سنجیدہ اور ظریفانہ دونوں طرح کی شاعری میں یکساں قدرت رکھتے تھے اور نظم و غزل دونوں پر بھی یکساں مہارت حاصل تھی۔ اُن کے اشعار میں کلاسیکی لب و لہجہ، شوخی اور تیکھا پن پایا جاتا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
کروٹیں لے کے کہتا ہوں شبِ ہجر
نیند کو موت آگئی ہے کیا
کیوں یہ آنکھیں جھکی ہیں حضرتِ خیر
کوئی صورت ستا گئی ہے کیا
دلِ بے تاب کیوں نالہ نہ کرتا
مَثل سچ ہے کہ مرتا کیا نہ کرتا
حال قاصد سے بیاں کیا ہوگا
وہ بھلا میری زباں کیا ہوگا
مر گیا کیا کوئی سرگشتۂ صحرائے جنوں
خاک اڑاتی ہوئی کیوں آج صبا آتی ہے
خیر مرتے ہو تم حسینوں پر
پھر یہ کہتے ہو پاکباز ہیں ہم
’الپنچ‘ میں بھی خیر رحمانی کی متعدد نظمیں شائع ہوئی تھیں۔ جس کی تفصیل اوپر بیان کی گئی ہے۔ ٢١/جون ١٩٠٢ء کے شمارے میں ان کی نظم ’ڈاکیا‘ شائع ہوئی۔ اِس میں بیس اشعار ہیں اور ڈاکیا کی مکمل تصویر کشی کی گئی۔ اُس کے حُلیہ سے لے کر کام میں اُس کی تیزی کو خیر رحمانی نے بڑی چابک دستی سے پیش کیا ہے۔ اشعار میں روانی اور بے ساختگی کے ساتھ شوخی اور چلبلاپن بھی ہے۔ یہ اشعار دیکھیں:
دیکھو وہ پھاٹک سے کوئی آیا
سر پر باندھے لٹ پٹ پگیا
سر پر لال اور کالی پگڑی
اور کمر میں چمڑے کی پیٹی
آڑا ترچھا گلے میں تسما
جس میں لٹکتا ہے چمڑے کا تھیلا
’الپنچ‘ میں شائع خیر رحمانی کی نظموں سے اُن کی ایک اور لیاقت کا پتا چلتا ہے کہ وہ انگریزی بھی خوب جانتے تھے۔ ٢١/جون ١٩٠٢ء کے شمارے میں اُن کی ایک نظم ’چھوٹے تارے‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ در اصل یہ انگریزی نظم Twinkle, twinkle little Star کا منظوم ترجمہ ہے۔ اِس میں کُل دس اشعار ہیں:
چمکو چمکو چھوٹے تارو
کیا حیرت ہے مجھے تم کیا ہو
سارے جہاں سے اونچے اتنا
جیسے ہو آکاس پہ ہیرا
خیر رحمانی نے ’بَہار‘ نام سے ایک ماہانہ رسالہ جولائی ١٩٠٣ء میں جاری کیا تھا۔ وہ خود اِس کے ایڈیٹر تھے اور مولانا حافظ سید شاہ نذر الرحمن حفیظ عظیم آبادی اور مولوی سید سعادت علی خاں صاحب سعادت والیِ ریاست پیغمبرپور ضلع دربھنگہ سرپرست اور عابد حسین عابد اس کے مہتمم تھے۔ یہ در اصل ’الپنچ‘ کا ضمیمہ تھا اور اُسی کے مطبع میں شائع ہوتا تھا۔ اس کے جاری کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ’الپنچ‘ میں کچھ اچھی اور معیاری تحریریں بہ غرض اشاعت آیا کرتی تھیں لیکن چونکہ وہ ’الپنچ‘ کے ذوق اور پالیسی کے برخلاف ہوتی تھیں، اس لیے اُس کی اشاعت نہیں ہوپاتی تھی۔ اس لیے ایک ایسے رسالہ کی ضرورت محسوس کی گئی جس میں اس قسم کی تحریریں شائع کی جائیں۔ اس ضمن میں خیر رحمانی تحریر فرماتے ہیں:
”گلدستہ ’ بَہار‘ کے جاری کرنے کی وجہ ہم اخبار اور گلدستہ کے اشتہار میں لکھ چکے ہیں کہ ہمارے اکثر زندہ دل حضرات عاشقانہ غزلیں اندراج اخبار کے لئے بھیجا کرتے تھے جن کو ہم اخبار کے مذاق کے خلاف ہونے کی وجہ سے شائع نہ کر سکتے تھے اور بعض طباع نثار حضرات ایسی عالمانہ اور قابلانہ علمی تحریر بھیجنے کے عادی تھے کہ گو وہ مضامین اخبار کے کام کے نہ ہوتے تھے مگر مجبوراً ہم کو شائع کرنا ہی پڑتے تھے۔ جب ہم نے شعرا کی دلچسپی اور طبع آزمائی کے لئے’ بَہار‘ نکالا تو نثر نگار حضرات کو موقع نہ دینا انصاف سے بعید تھا۔ اس لئے ہم نے اس میں دامن ’ بَہار‘ کا اضافہ کردیا ہے۔ دونوں حصہ ایک ایک جزو میں ہوگا۔ چونکہ بعد تیاری گلدستہ کے یہ خیال پیدا ہوا اس لئے اس دفعہ دامن بہار کے مضامین پورے نہ ہوسکے۔ آیندہ سے برابر ایک جزو میں ہوگا۔“(نمبر۱جلد۱)۔
ماہنامہ ’ بَہار‘ کا اشتہار شائع ہوتے ہی رئیسوں نے سرپرستی کی پیش کش شروع کردی۔ خیر رحمانی ایڈیٹر ’بَہار‘ کے نمبر ۱ جلد ۱، جولائی ١٩٠٣ء میں ’شکریہ‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں:
”جہاں تک ہمارا خیال ہے کسی گلدستہ کو ایسا موقع نہ ملا ہوگا کہ صرف اشتہار شائع ہوتے ہی رؤسا اس کی سرپرستی کرنے لگے ہوں۔ یہ فخر صرف بَہار کو حاصل ہے کہ ہر علم دوست اور قدرداں طبقہ میں اعانت کی خوش آیند صدائیں بلند ہوئیں۔ اس اعانت میں ہمارے شہر کے فیاض اور علم دوست رئیس عالی جناب مولانا حافظ سید شاہ نذر الرحمن صاحب حفیظ عظیم آبادی نے سبقت کی اور سر دست از راہ قدر دانی تیس روپے کی امداد سے سرپرستی فرما کر آیندہ اس سے زیادہ کے لئے امید دلائی ہے اور ناچیز مہتممین کے حوصلے بڑھائے ہیں۔ حضرت حفیظ مد فیوضہ کی اس سرپرستی اور قدر دانی کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے اور آپ کا نام نامی گلدستہ کے سرپرستوں میں درج کیا گیا ہے“۔
اسی طرح جب مولوی سید سعادت علی خاں صاحب سعادت والیِ ریاست پیغمبرپور ضلع دربھنگہ نے مدد کے لیے ہاتھ بڑھایا تو خیر رحمانی نے ان کی قدردانی اور محبت و شفقت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اُن کو اِس ماہنامہ’ بَہار‘ کے سرپرستوں میں شامل کر لیا۔ خیر رحمانی کی تحریر ملاحظہ فرمائیں:
”ہمارے سرپرست: ’ بَہار‘ کی خوش نصیبی ہے کہ فیاض اور دریا دل رؤسا اس کی سرپرستی کرنے کو آمادہ ہوتے جاتے ہیں۔ ہم کو سب سے بڑھ کر خوشی تو اس کی ہے کہ ہمارے رئیسوں میں علم کی قدردانی اور علمی مذاق ترقی کررہا ہے۔ ابھی بَہار کی عمر کُل دو مہینے کی ہے اور یہ دوسرا ہی نمبر شائع ہو رہا ہے کہ ایک دوسرے دریا دل رئیس نے اس کی سرپرستی قبول فرماکر ناچیز مہتمم کی ہمت بڑھائی ہے۔ ہمارے دربھنگہ کے رئیس ابن رئیس خان والا شان عالی جناب معلی القاب ہلال رکاب جناب راجہ مولوی سید سعادت علی خاں صاحب سعادت والیِ ریاست پیغمبرپور ضلع دربھنگہ نے از راہ قدردانی پچاس روپے مرحمت فرمائے اور اپنے بیش بہا کلام سے ’بَہار‘ کی رونق بڑھانے کا بھی وعدہ فرمایا ہے۔ ناچیز ایڈیٹر کو اس قدردانی کا شکریہ ادا کرنے کے لئے الفاظ نہیں ملتے بجز اس کے کہ تا زندہ ام بندہ ام۔ ’ بَہار‘ کی ساری امیدیں آپ کی ذات سے وابستہ ہیں اور ہم کو پوری توقع ہے کہ آپ اس ناچیز گلدستہ کی اس سے زیادہ اعانت فرماتے رہیں گے۔ آپ کا نام نامی شکریہ اور فخر کے ساتھ سرپرستوں میں لکھ لیا گیا ہے۔“ (نمبر۲جلد۱)
’بَہار‘ نمبر۳جلد۱ میں انجمن مؤید اللسان کی روئداد دس صفحات میں شائع ہوئی ہے جس میں انجمن کے اصول و ضوابط، مختلف نشستوں کی کیفیت، شرکا اور ممبران و اراکین کے نام درج کیے گئے ہیں۔ اس انجمن کے شاد عظیم آبادی پریسیڈنٹ، سید علی خاں بیتاب سکریٹری، مولوی ابوالخیر خیر ایڈیٹر الپنچ اور منشی عابد حسین عابد گلدستہ کے مہتمم تھے۔ ممبران میں خدا بخش خاں، امداد امام اثر کے ساتھ ١٨/ممبران۔ اس انجمن کی نشستوں میں یہ فیصلہ لیا گیا کہ ’بَہار‘ کو اس کا ترجمان بنایا جائے:”گلدستہ ’بَہار‘ اسی انجمن کی طرف منسوب ہوا اور اس کے متعلق سب لوگوں نے متفق الرائے ہوکر چند ضابطے قرار دیے، جو حسب ذیل ہیں:
”یہ گلدستہ ہر انگریزی مہینے کے آخر میں حسب ضوابط انجمن مؤید اللسان عظیم آباد شائع ہوتا ہے۔ اس رسالہ کے دو حصے ہیں؛ ایک میں صرف غزلیات، دوسرے میں عام علمی و اخلاقی مضامین کے متعلق نظم و نثر رہا کرے گی۔ تین مہینوں تک غزلیں بقید طرح اور ہر چوتھے مہینے بغیر طرح غزلیں شائع ہوا کریں گی۔ غزلیں بلا انتخاب درج ہوں گی، مگر شعروں کی تعداد ١٥/سے زیادہ نہ ہوں گی۔ دوسرے حصہ کے مضامین انجمن کی تجویز و پسند سے شائع ہوں گے۔ پتا: سید ابوالخیر خیر و عابد حسین عابد مالکان و مہتممان گلدستہ الپنچ پریس بانکی پور۔“
خدا بخش لائبریری میں ماہنامہ ’بَہار‘ کے شمارے جلد۱، نمبر۱، جولائی ١٩٠٣ء تا نمبر۲۱ جلد ۱، دسمبر ١٩٠٤ء موجود ہیں۔ نمبر ۸ جلد ۱ کے مکمل صفحات نہیں ہیں، اس کے صرف ۶/صفحات موجود ہیں۔ اس کے بقیہ شمارے کے بارے میں کوئی جان کاری نہیں ملتی ہے۔ اس کا بھی علم نہیں کہ اس کے کُل کتنے شمارے نکلے اور کب تک یہ جاری رہا۔ البتہ خیر رحمانی کی دو تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اِس رسالہ نے لمبی عمر نہیں پائی۔ بہ قول قاضی عبد الودود نمبر ۸ جلد۱ میں خیر رحمانی کی ایک تحریر ’انتظار‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی۔ ہمیں یہ تحریر نہیں ملی۔ پھر اگلے شمارے میں ’شکایت‘ کے نام سے خیر رحمانی کی تحریر شائع ہوئی۔ بڑے خوب صورت انداز میں شکایت درج کی گئی ہے اور اپنی باتوں کے شواہد میں اشعار پیش کیے گئے ہیں۔ شکایت اور محبت اور تعلق کے آپسی تعلقات پر اپنی گفتگو شروع کرتے ہوئے خیر رحمانی لکھتے ہیں:
بے شکایت نہیں اے ذوق محبت کے مزے * بے محبت نہیں اے ذوق شکایت کے مزے
شکایت کا جو کچھ مفہوم ہو اور اس سے دلوں پر کچھ ہی اثر کیوں نہ ہوتا ہو۔ مگر ہم تو اس سے اور ہی لطف اٹھاتے ہیں:
انھیں گور بخش بیجا ہے لیکن ہے تو ہم سے ہے محبت گر نہ ہو باہم شکایت درمیاں کیوں ہو
خاص کر اگر کسی لبِ پان خوردہ سے شکایت کی گئی ہو تو اس کے مزے نہ پوچھئے:
صبح کو ہوگا گلہ ’چوس لی مسی میری‘ * صدقے ان ہونٹوں کے جن سے یہ شکایت ہوگی
استاد ذوق کو بھی اس کے مزے سے متأثر ہوکر کہنا ہی پڑا:
بے شکایت نہیں اے ذوق محبت کے مزے * بے محبت نہیں اے ذوق شکایت کے مزے
شکایت کوئی ناخواند مہمان نہیں۔ اس کا وہیں گزر ہے جہاں تعلق و واسطہ ہے:
شکوے گلے کا لطف تعلق کے ساتھ ہے* جب واسطہ نہیں تو شکایت سے کیا غرض
جب تک تعلقات قائم ہیں، روٹھنا بھی ہے، بگڑنا بھی، شکوہ بھی ہے شکایت بھی۔ اور:
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب کیا کسی کا گلہ کرے کوئی
شکایت کے مزے کون نہیں لیتا ہے۔ شکایت کرنے والا اپنی شکایتوں کی ترتیب کے مزے لے لے کر جوش میں اپنی تقریر کا سلسلہ بڑھائے جا رہا ہے اور سننے والا ظاہر میں تو منہ بنائے بیٹھا ہے مگر دل ہی دل میں اس کی واجب شکایتوں کی داد دے رہا ہے:
دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستم گر* کچھ تجھے مزا بھی مرے آزار میں آئے
اِس تمہیدی گفتگو کے بعد پھر وہ اصل مدعا پر آتے ہیں:
”ہم کو شکایت ہے تو ان شعرا سے جو غزل وقت پر نہیں بھیجتے:
گلے شکوے کہاں تک ہوں گے آدھی رات تو گزری * پریشاں تم بھی ہوتے ہو پریشاں ہم بھی ہوتے ہیں
شکایت ہے قدردانوں سے جن سے اب تک قیمتیں وصول نہیں ہوئیں۔ ہم پھر یہی کہیں گے:
آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں* ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
شکایت ہے ان سرپرستوں کی عدم توجہی سے جن کی بدولت’ بَہار‘ پروان چڑھا ہے۔ کہ اب ان کو ادھر توجہ فرمانا چاہئے۔ع
اے ابر کرم بحر سخا کچھ تو ادھر بھی
شکایت ہے گمنام شاعروں سے جو مشاعرے اور دفتر میں گمنام غزلیں بغرض اندراج گلدستہ بھیجتے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایسا گمنام کلام درج گلدستہ نہیں ہوسکتا اور نہ از روئے قاعدہ انجمن مؤید اللسان عورتوں کا کلام شائع ہوسکتا ہے۔ ایڈیٹر۔(شکایت/خیر، نمبر۹ جلد۱، ستمبر ١٩٠٤ء)
خیر رحمانی کی اِن دونوں تحریروں ’انتظار‘ اور ’شکایت‘ سے واضح ہوتا ہے کہ جب ’انتظار‘ کی مدت ختم ہوگئی تو انھوں نے ’شکایت‘ درج کی، پھر بھی کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا تو اس گلدستہ کو بند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا ہوگا۔
ماہنامہ ’بَہار‘ میں طرحی اور غیر طرحی غزلیں اور عالمانہ اور محققانہ مضامین شائع ہوتے تھے۔ اُس وقت کے جتنے مشہور اور غیر مشہور شعرا تھے، اُن میں سے اکثر کی غزلیں اس میں شائع ہوئیں۔ نثری تحریر کے ضمن میں نیچرل شاعری/ بیتاب عظیم آبادی، نمبر۱ تا۵۔ یورپ کے فلسفۂ جدید پر ایک سرسری نظر/سید ضمیر الدین احمد، نمبر۶ تا ١٢ (قسط نامکمل)۔ضبط اوقات/فہیم الدین احمد، نمبر۶۔ ز دور چرخ گرداں /سید عبدالمجید مست، نمبر۱۱، انتظار/ خیر رحمانی، نمبر ۸، شکایت/ خیر رحمانی، نمبر۹ کے نام سے عالمانہ، محققانہ اور ظریفانہ مضامین شائع ہوئے۔ اس میں خیر رحمانی کی دو غزلیں بھی شائع ہوئیں۔ پہلی غزل کے مکمل اشعار اور دوسری غزل کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں:
وفا کی ہیں ہم انتہا کرنے والے
جفا کی وہ ہیں ابتدا کرنے والے
نہیں دیکھتے عکس رخ آئینہ میں
غضب باحیا ہیں حیا کرنے والے
دلھن کی طرح ہم لگا لیں گلے سے
ادھر لاؤ تیغ اے جفا کرنے والے
ترے نور رخ سے منور ہے عالم
مہ و خور ہیں کسب ضیا کرنے والے
چھپاتا ہے حسرت زدہ منہ کفن میں
ذرا دیکھ تو لیں حیا کرنے والے
بتوں میں نہیں خیر پاس محبت *ستم ہیں یہ ناآشنا کرنے والے (نمبر۲جلد۱)
دوسری غزل میں ١٤/اشعار ہیں، جو نمبر۴جلد۱ میں شائع ہوئی:
لبوں پر ان کے مسی کی دھڑی ہے
سیاہی آب حیوان پر پڑی ہے
سخن کے جوہری پرکھیں گے اے خیر
مری تقریر موتی کی لڑی ہے
’زبان خلق‘ کے تحت دوسرے رسالوں میں ’ بَہار‘ پر جو تبصرے ہوتے تھے، اسے شامل کیا جاتا تھا:
ریاض الاخبار، گورکھپور، ١٦/جنوری ١٩٠٤ء: گلدستہ بہار کا نمبر سال نو جو ہم کو ملا وہ نہایت اہتمام سے چھاپا گیا ہے۔ خدنگ نظر اور ’ بَہار‘ اب دو گلدستے ذرا شاندار بن گئے ہیں۔ ان کی لطافت ترقی کر رہی ہے۔ بہار کی غزلیں قابل ستایش ہیں۔(نمبر۸)
مخزن لاہور: ہمارے دوست جناب خیر دربھنگوی نے جو الپنچ بانکی پور کے ایڈیٹر ہیں، ایک گلدستہ اردو نظم و نثر کا جاری کیا ہے جس کا نام ’ بَہار‘ ہے۔ اور ہم بلا تامل کہہ سکتے ہیں کہ یہ گلدستہ اسم با مسمی ہے۔(نمبر۸)
نیر اعظم، مرادآباد، ١٢/اگست ١٩٠٣ء: بہار الپنچ آفس بانکی پور سے یہ گلدستہ جس میں علمی مضامین کا بھی ایک حصہ ہوتا ہے جاری ہوا ہے۔ تمام ایک طرح کی غزلوں کے عاشقانہ چیدہ اشعار درج ہوتے ہیں جو تیر و نشتر کا کام کرتے ہیں۔ (نمبر۵)
پیسہ اخبار لاہور، ۸/اگست ١٩٠٣ء: اس کی نظموں کا مضمون تیغ ابرو اور زلف دام تک محدود کیا گیا ہے۔ پہلے نمبر میں بیتاب عظیم آبادی کا مضمون ’نیچرل شاعری‘ پر پڑھنے کے قابل ہے۔(نمبر۵)
بہار پنچ گیا، ١٢/ اگست ١٩٠٣ء: الپنچ اخبار بانکی پور کے مطبع سے بہار کے نام سے ایک ماہوار رسالہ جاری ہوا ہے۔ جس کا پہلا نمبر ہمارے پاس بغرض ریویو آیا ہے۔ چھپائی کی عمدگی، ٹائٹل پیچ کی خوبصورتی، مالکان گلدستہ کی مستعدی ہم کو امید دلاتی ہے کہ یہ پرچہ اسم با مسمی ہوگا۔ اور شائقین سخن اس کی حسب دل خواہ مدد کریں گے(۔ نمبر۵)
’الپنچ‘ سے جدا ہونے اور ماہانہ رسالہ ’بَہار‘ کے بند ہونے کے بعد ایسا نہیں ہے کہ خیر رحمانی کا قلم رُک گیا بلکہ اُس وقت کے مستند اور مشہورِ زمانہ اخبارات و رسائل میں اُن کی تحریریں بڑے اعتبار اور اہتمام سے شائع ہوتی تھیں۔ اِس کی نشان دہی کرتے ہوئے مولوی سید شاہ محمد جعفر حسین صادق لکھتے ہیں:
”آج بھی آپ کے مضامین ’اودھ پنچ‘ لکھنؤ، روزانہ اخبار ’زمانہ‘ کلکتہ، روزانہ ’عصر جدید‘ کلکتہ، روزانہ ’احرار‘ کلکتہ، روزانہ ’نصرت‘ بمبئی، روزانہ ’کانگریس‘ دہلی، ’الخلیل‘ بجنور، ’مسلم‘ دہلی، ’مکہ مدینہ‘ مرادآباد ’آگرہ اخبار‘ آگرہ وغیرہ میں خراج تحسین لے رہے ہیں“ (جوش آزادی/ خیر رحمانی، ص۱۔۲)۔
جن کتابوں میں خیر رحمانی کا تذکرہ موجود ہے، جن کا ذکر اوپر ہواہے، اُن میں سے کسی میں بھی اُن کی مطبوعہ کتابوں کی نشان دہی نہیں کی ہے۔ یہ ذکر ضرور کیا ہے کہ کئی کتابوں کے مصنف ہوئے لیکن اُن کی کسی کتاب کا نام تک نہیں بتایا ہے۔ تلاش و جستجو نے میری رہ نمائی کی، جس کی تفصیل نیچے بیان کی جارہی ہے۔
’چٹکیاں‘
یہ کتاب چھوٹی تقطیع کے ١٥/ صفحات پر مشتمل ہے۔ سنہ اشاعت مذکور نہیں، البتہ آخری صفحہ پر مطبع کی دیگر مطبوعات کا ذکر ہے جس میں ایک کتاب ’اسلامی خلافت جنتری‘ کا سال اشاعت ١٣٤١ھ/ ١٩٢٢ء مرقوم ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ١٩٢٢ء یا اس سے قبل اس کی اشاعت ہوئی۔ یہ پہلا ایڈیشن ہے جو ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوا۔ صفحۂ اول پر مذکور اطلاع سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ عنایت محمد نے خیر رحمانی سے حقِ اشاعت لے کر اسے شائع کیا تھا۔ عبارت ملاحظہ فرمائیں: ”چٹکیاں از جناب مولانا ابو الخیر خیر رحمانی دربھنگوی جسے بعد از اخذ حقوق شیخ عنایت محمد آرٹسٹ منیجر اسلامی خلافت جنتری نمبر ٥٣ لاٹوش روڈ لکھنؤ نے چھپوایا۔“ اس شعری مجموعہ کا ذکر نہ تو مولانا ابوالکلام قاسمی نے اپنی کتابوں ’تذکرہ علمائے بہار (جلد اول)‘ اور ’بہار کی اردو شاعری میں علماء کا حصہ‘ میں کیا ہے اور نہ سید احمد قادری نے ’اردو صحافی بہار کے‘ میں کیا ہے۔ جب کہ یہ کتاب خدا بخش لائبریری میں موجود ہے۔ اِس کتاب میں شامل نظموں سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات حاضرہ کی عکاسی کی گئی ہے۔ الیکشن، ترک موالات، فرقہ پرستی، ہندو مسلم تنازع اور ہیضہ کی مہاماری اُس وقت کا سُلگتا موضوع تھا اور خیر رحمانی نے انھی سُلگتے موضوعات پر بڑی بے باکی اور پوری جرأت سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور اُس وقت کی صورت حال کو سمجھنے کی لوگوں سے اپیل کی ہے۔ مذکورہ بالا موضوعات کے تحت چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
ووٹ
ووٹ دو ہم کو یہ اک دشمنِ دین کہنے لگا
کہہ دیا ہم نے ترے ووٹ کی ایسی تیسی
دشمنِ ملک سے کہہ دو اے خیر
ہت ترے ووٹ کی ایسی تیسی
ترکِ موالات
کام کی بات ہے سو بات کی اک یہ ہے
دل میں ہمت کرو اور ترکِ موالات کرو
فرقہ پرستی/ ہندو مسلم جھگڑا
مسلم و ہندو کے جھگڑوں سے تو ہے دل اپنا چاک
اب بھی سب مل جائیں ڈالیں اگلے قصوں پر وہ خاک
ساتھ ان کا چولی دامن کا ہے دونوں ایک ہیں
ناک کو الٹو تو کان اور کان کو الٹو تو ناک
ہیضہ
ہیضہ میں کوئی فاسٹ کوئی لیٹ چلا
اور موت کے بازار کا یہ ریٹ چلا
ہیضہ کی کرامت ہوئی سب پر ظاہر
چلتے تھے کبھی پاؤں تو اب پیٹ چلا
اپنے اشعار کی معنویت
ہنسنا ہو تو اکبر کی خوش خیالی لے لیں
قومی رونا ہو تو پندِ حالی لے لیں
ان سب سے جدا نجات کی صورت ہے اک اور
صاحب خوش ہو کے میری ڈالی لے لیں
’جوش آزادی‘
خیر رحمانی کا یہ شعری مجموعہ چھوٹی تقطیع کے ٢٠/صفحات پر مشتمل ہے۔ اِس میں ١٥/ نظمیں شامل ہیں جن کو مولوی سید شاہ محمد جعفر حسین صادق خلف اکبر خان بہادر سید واجد حسین زمین دار و رئیس اعظم پٹنہ نے منیجر اسلامی خلافت جنتری، لاہور کے لیے مرتب کیا جو ١٩٢٢ء میں شائع ہوا۔ اِس مجموعہ کا تعارف کراتے ہوئے مولوی سید شاہ محمد جعفر حسین صادق اپنے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
”یہ ایک مختصر مجموعہ ہمارے استاد حضرت مولانا خیر رحمانی دربھنگوی کی قومی نظموں کا ہے جس کے حرف حرف سے اسلامی جوش، لفظ لفظ سے اسلامی درد، مصرعے مصرعے سے قومی جذبات کی موجیں اُٹھ رہی ہیں۔ آپ کے مضامین نظم و نثر آج کل کے اکثر سربرآوردہ روزانہ اخبارات میں نہایت ہردلعزیزی کے ساتھ شائع ہو کر مقبولیت کا خلعت حاصل کر رہے ہیں۔آپ کی ذات اس کی محتاج نہیں کہ یہ ہیچمداں آپ کو پبلک سے روشناس کرائے۔۔۔یہ وہ نظمیں ہیں جو اس ہیچمداں کی فرمائش سے کبھی کبھی لکھی گئی ہیں۔اس وقت اس کی ضرورت ہے کہ ایسے قومی مضامین شائع کرکے ملک و قوم میں روح پھونکی جائے“۔
اس شعری مجموعہ کا ذکر ’چٹکیاں‘ میں اشتہار والے صفحہ پراس طرح کیا گیا ہے: جوش آزادی۔حضرت مولائے خیر رحمانی کی نایاب قومی نظموں کا مجموعہ۔ اِس کتاب کے دو نسخے خدا بخش لائبریری میں موجود ہیں اور دونوں میں پہلا صفحہ نہیں ہے۔ خیر رحمانی کے تیور کو سمجھنے کے لیے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
عدوئے روسیاہ کب یار کی محفل سے نکلے گا
یہ کانٹا یا الہی کب ہمارے دل سے نکلے گا
سوراج کا دعوی ہے لیں گے تو وہی لیں گے
یہ اپنا ارادہ ہے لیں گے تو وہی لیں گے
’شہانی رات‘
١٦/ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ١٩٢٤ء میں شائع ہوئی۔ یہ معراج کے موضوع پر ہے۔ اپنے دیباچہ میں خیر رحمانی اس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
”معراج کا مضمون ہے تو بہت ہی پرانا مگر ساتھ ہی دلچسپ بھی ہے۔ ہزاروں ہزار میلاد کی کتابیں لکھی گئیں اور سب میں معراج پر گل افشانیاں کی گئی ہیں۔ مگر اس ’شہانی رات‘ کا انداز بالکل ہی نرالا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ عاشقان رسول مقبول ﷺ کو پرانے مضمون میں جدت کا لطف آئے“ (شہانی رات، دیباچہ)۔
خیر رحمانی کی مذکورہ بالا کتاب کا تذکرہ سید شاہ محمد طہ، زمین دار خسرو پور، پٹنہ کی کتاب ’تربیت‘ میں بھی موجود ہے۔ سید شاہ محمد طہ کی کتاب پر جن اہل قلم حضرات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، اُن کو انھوں نے اپنی اِس کتاب کی ابتدا میں شامل کردیا ہے۔ اِن میں خیر رحمانی کی تحریر بھی شامل ہے۔ اُس تحریر پر سید شاہ محمد طہ نے جو عنوان لگایا ہے، وہ اس طرح ہے: ’جناب مولانا سید شاہ مظہر عالم المتخلص بہ حضرت خیر رحمانی سابق ایڈیٹر اخبار الپنچ وغیرہ و مصنف ’شہانی رات‘ وغیرہ ٣١/ دسمبر ١٩٢٥ء کو تحریر فرماتے ہیں‘۔ ’شہانی رات‘ کی کاپی خدا بخش لائبریری میں موجود ہے۔
خیر رحمانی تصنیف و تالیف اور شعر گوئی کے ساتھ ساتھ اپنے ہم عصروں کی کتابوں کی اشاعت میں مدد بھی فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ سید شاہ محمد طہ نے اپنی کتاب ’تربیت‘ کی گذارش اول میں خیر رحمانی کی معاونت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا ہے:
”پھر آخر میں اس کتاب کی اشاعت اور نسخے کی جا بجا صحت اور قیمتی مشورہ سے میرے مکرم و محترم مولانا سید شاہ ابوالخیر مظہر عالم صاحب المعروف بہ حضرت خیر رحمانی مدّ ظلّہ العالی نے جو مدد فرمائی وہ نہ صرف میرے لئے بلکہ ملک و قوم کے لئے مفید ہے اور آج زیورِ طبع سے آراستہ ہوکر پیش خدمت جناب عالی ہے۔ ورنہ جس طرح یہ کتاب تصنیف کے بعد بارہ تیرہ برس پڑی رہی آج بھی طاق نسیاں میں پڑی ہوتی۔ (تربیت؛ گذارش اول، صفحہ ث)
مذکورہ بالا معروضات کی روشنی میں خیر رحمانی کا صحافت اور علم و ادب کی دنیا میں جو مقام و مرتبہ متعین ہوتا ہے، اُس نہج پر اُن کی خدمات کا اعتراف نہیں ہوسکا ہے اور نہ اب تک اُن پر کوئی مستقل کتاب لکھی جا سکی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اُن کے سارے مضامین، غزلیں اور نظمیں مختلف اخبارات و رسائل میں بکھرے پڑے ہیں، انھیں جمع کر کتابی شکل دی جائے۔
’الپنچ‘ ۲/اگست ١٩٠٢ء تا جنوری ١٩٠٦ء میں مشتملات کی فہرست نیچے درج کی جارہی ہیں۔ اس سے اِس بات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خیر رحمانی کے دور ادارت میں ’الپنچ‘ کا وہی جلوہ تھا جس کے لیے وہ مشہور ہے۔ نیز اِس مشتملات سے خیر رحمانی کی جودت طبع اور اُن کی فکر رسا کا بھی پتا چلتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اُن کے صلحِ کُل کی پالیسی سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔ لیجئے مشتملات ملاحظہ فرمائیں:
ادارے: ٭تکمیل الحکمت لکھنؤ/ مطیع الحق بہاری (١٦/جولائی ١٩٠٤ء) ٭شاہ جہاں پور میں دار العلوم کی شاخ/ محمد مسیح الزماں (۲/جولائی ١٩٠٤ء) ٭علی گڑھ کالج کی اعانت/ عبد المغنی عظیم آبادی (٣١/اگست ١٩٠٥ء)٭ مدرسہ اسلامیہ بہار/ عبد اللہ (١٥/ستمبر ١٩٠٤ء) ٭مدرسہ تکمیل الطب لکھنؤ/ وسیم (۳/ستمبر ١٩٠٤ء) ٭ مدرسہ سہسرام (١٨/جون ١٩٠٤ء) ٭ہزاری باغ کا کالج (۷/مئی ١٩٠٤ء)۔
اسلامیات: ٭تعداد ازواج/ حافظ بخاری (٢٨/نومبر ١٩٠٣ء) ٭ تعلیم معرفت/ حافظ بخاری (٢٤/اکتوبر  ۷/نومبر ١٩٠٣ء) ٭خدا کی وحدانیت کا ذکر/ فرشتہ (۱/اگست ١٩٠٣ء) ٭چودہویں صدی کے ریفارمر/ حافظ بخاری (١٦/جون ١٩٠٤ء) ٭ مسلمانوں سے اسلام کی فریاد/ عاجز محمد ابراہیم (۷/مارچ ١٩٠٣ء) ٭ہم بھی ہیں پانچویں سواروں میں / ابوالمجدد بہاری (۴/جون ١٩٠٤ء)۔
انشائیہ: ٭خواب/ حافظ بخاری (١٧/ستمبر ١٩٠٤ء) ٭خواب/ ا۔م (٢٤/ستمبر ١٩٠٤ء) ٭ڈاکخانہ/ منشی مئے خوار ڈاکیا (۵/نومبر ١٩٠٤ء) ٭غلط تقلید/ ع۔ح۔م دسنوی (١٨/جون ١٩٠٤ء) ٭مصرع ہائے شاعری/ ظریف پاشا (۵/نومبر ١٩٠٤ء) ٭ہم اور ہمارا پوزیشن (١٧/ستمبر ١٩٠٤ء) ٭ہمارا ماسٹر بابو/ ظریف پاشا (۳/دسمبر ١٩٠٤ء) ٭ہماری سالگرہ/ منعم عظیم آبادی (۵/نومبر ١٩٠٤ء)۔
پند و موعظت: ٭پردہ سسٹم/ حافظ بخاری (٢١/نومبر ١٩٠٣ء) ٭ پند سودمند/ زندہ دل عظیم آبادی (۷/مارچ ١٩٠٣ء) ٭مسلمانوں کو غریبوں سے بہتر سلوک کرنے کی تبلیغ/ حضرت گیدڑ گشت خاں (١٣/ اگست ١٩٠٤ء) زمانہ کا رنگ (١٢/ستمبر ١٩٠٣ء) ٭قومی ترقی/ لسان الغیب (٢٣/ جولائی ١٩٠٤ء)۔
تبصرۂ کتب و رسائل: ٭آثار السنن (ریویو) (٢٣/جنوری ١٩٠٤ء) ٭اخلاق عزیزی (۲۲/اگست ١٩٠٣ء) ٭استخارہ حامد (اگست ١٩٠٣ء) ٭اکسیر العلاج (٢٥/جولائی ١٩٠٣ء) ٭انقلاب زمانہ/ قاضی عظیم آبادی (۸، ١٥/ اکتوبر ١٩٠٤ء) ٭’تلخ و ترش ریویو‘ کے تحت اخبار وکیل (۵/دسمبر ١٩٠٣ء) ٭توقیر الخیرات (۲۲/اگست ١٩٠٣ء) ٭تیر نظر، چنک نندنی، بخشی جنگری (١٤/فروری ١٩٠٣ء) ٭خالد بن ولید (٢٥/ جولائی ١٩٠٣ء) ٭خان پُر نعمت (٢٧/ جولائی ١٩٠٥ء) ٭خورشید عرفان (٢٧/جولائی ١٩٠٥ء) ٭ راحت القلوب (٢٧/ جولائی ١٩٠٥ء) ٭رسالہ ہیضہ، صحت المدارس (۲۲/اگست ١٩٠٣ء) ٭زمانہ بریلی، فتنہ گورکھپور (٢٥/جولائی ١٩٠٣ء) ٭سیرت الشرف (٢٧/جولائی، ١٩/اکتوبر ١٩٠٥ء) ٭شرح آداب المریدین (٢٧/جولائی ١٩٠٥ء)٭ شرح حضرات خمس (٢٧/جولائی ١٩٠٥ء) ٭علاج امراض مستورات (۷/مارچ ١٩٠٣ء) ٭ فخر الحسن مع علی حسن (٢٧/جولائی ١٩٠٥ء) ٭ کاشف العلوم (٢١/مارچ ١٩٠٣ء) ٭کوکھ ملوکی و ملوکی (١٩/اکتوبر ١٩٠٥ء) ٭محل خانہ (۲۲/اگست ١٩٠٣ء) ٭مخ المعانی (٢٧/جولائی ١٩٠٥ء) ٭مرأۃ العیش، کنز الاسرار (٣١/اکتوبر ١٩٠٣ء) ٭کتاب مصباح القواعد (٣١/ دسمبر ١٩٠٤ء) ٭مقسوم حسینہ، انڈین فرنڈ لاہور (۸/اگست ١٩٠٣ء) ٭منازل السائرین، نیرنگ بیخودی، مرقع عبرت (۷/ مارچ ١٩٠٣ء) ٭میلاد النبی (٢٧/جولائی ١٩٠٥ء) ٭نماز با معنی، زاد السعید (۲۲/اگست ١٩٠٣ء) ٭نیر اعظم مراد، چند نئے اخبارات (٢٥/جولائی ١٩٠٣ء) ٭وسیلۂ شرف (٢٧/جولائی ١٩٠٥ء)۔
تذکرہ: ٭اسد اللہ خاں تمام ہوا/ حسن اتفاق (٢٣/جنوری ١٩٠٤ء) ٭جناب صغیر صاحب سید علی محمد شاد کے استاد گرامی/ عشرت لکھنوی (۴/جنوری ١٩٠٦ء) ٭شیخ غلام علی راسخ/ سید محمد مہدی (١٤/فروری، ٢٨/ مارچ، ٢٥/ اپریل، ۲، ١٦/ مئی ١٩٠٣ء)۔
تعلیم نسواں: ٭تعلیم نسواں کی اہمیت و افادیت پر ایک نظر/ محمد فخرالدین سکندرپوری (٢٧/جولائی ١٩٠٥ء) ٭مقیاس التہذیب (١٩/اکتوبر ١٩٠٥ء) ٭ولا یبدین زینتھن/ حافظ بخاری (۲/مئی ١٩٠٣ء) ٭ہماری سلف کی عورتوں کی تعلیمی حالت/ ابوالکمال دسنوی (١٦/نومبر ١٩٠٥ء) ٭ہندوستان میں عورتوں کی ترقیاں / سچا مخبر نظیر (٢٣/ مئی ١٩٠٣ء)۔
تعلیمات: ٭انگریزی تعلیم اور مسلمانان صوبہ بہار/ ن ہ (٢٨/فروری ١٩٠٣ء) ٭تعلیم کی کیا غرض ہونی چاہئے (٢٠/جولائی ١٩٠٥ء) ٭قوم کی موجودہ حالت/ خادم قوم (۱۱/جولائی ١٩٠٣ء)۔
تنقید:٭بزرگوں کی نافرمانی کا نتیجہ: شاد کی شاعری پر طنز/یکتا(۱۱جنوری ١٩٠٦ء) ٭تنقید بر اولین غزل جناب شاد/فیض آزاد (٢٦/اکتوبر ١٩٠٥ء) ٭تنقید بر غزل جدید جناب شاد عظیم آبادی/ فیض آزاد (١٢/اکتوبر ١٩٠٥ء) ٭ تنقید بر غزل خان بہادر شاد عظیم آبادی/ فیض آزاد (١٩/اکتوبر ١٩٠٥ء) ٭شاد کی چند غزلوں پر ناقدانہ نظر/ فیض آزاد (٢٣، ٣٠ نومبر، ۷، ١٢، ٢١ دسمبر ١٩٠٥ء) ٭خان بہادر شاد اور اردوئے معلی پر تنقیدی نظر (١٦/نومبر ١٩٠٥ء)۔
روداد: ٭آرہ میں علمی جلسہ کے انعقاد کا اعلان/ ابو زبیر محمد یوسف (٢٨/ستمبر ١٩٠٥ء) ٭ندوۃ العلماء کی خدمات/ محمد علی(مونگیری؟) (١٣/جون ١٩٠٣ء) ٭انجمن اصلاح کے چوتھے جلسے کی رپورٹ (٢٠/دسمبر ١٩٠٥ء) ٭انجمن الاصلاح دسنہ کے تیسرے اجلاس کی رپورٹ/ سید عبد الحکیم (٢٦/ نومبر ١٩٠٤ء) ٭اے اسکول جموئی/ ن۔ا۔ت (٢٣/ اپریل ١٩٠٤ء) ٭ بمبئی میں رونق اسلام/ ع۔د۔ع۔ز (٦/ فروری ١٩٠٤ء) ٭مرحوم مولانا عبد الحمید کی رحلت پر تعزیت (١٤/ستمبر ١٩٠٥ء) ٭مرحوم مولوی حکیم عبد الحمید کی رحلت پر خدا بخش خاں کی تقریر (١٤/ستمبر ١٩٠٥ء) ٭دار العلوم ندوۃ العلماء کے نظام درس و تدریس پر ایک نظر/ ح۔ن (١٩/ نومبر ١٩٠٤ء) ٭مدرسہ تکمیل الطب/ حضرت معین الطب (۵/دسمبر ١٩٠٣ء) ٭عربی کی تعلیم کُل تین مہینے میں (١٤/مارچ ١٩٠٣ء) ٭ کلکتہ کا یادگار جلسہ (٢٤/اگست ١٩٠٥ء) ٭محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا اٹھارہواں اجلاس پٹنہ میں / انیس الملک (٢٧/اگست ١٩٠٤ء) ٭مدرسہ تکمیل الطب لکھنؤ کے نظام تعلیم کی رپورٹ (۳/دسمبر ١٩٠٤ء) ٭مدرسہ اسلامیہ بہار کے سالانہ امتحان کے نتائج کی فہرست (۱۱/فروری ١٩٠٥ء) ٭مدرسہ تکمیل الطب لکھنؤ کے جلسے تقسیم انعامات کی رپورٹ/ سکریٹری جلسہ (٢٨/دسمبر ١٩٠٥ء) ٭مدرسہ طبیہ لکھنؤ کے قیام کی خاطر معزز رؤسا لکھنؤ اور حکیم صاحب کی سعی کامیاب (١٩/ستمبر ١٩٠٣ء) ٭ مدرسہ مجیبیہ پھلواری شریف کی تعلیمی صورت حال پر ایک نظر اور اس کی فلاح و بہبود کے لئے عوام سے گزارش (٢٠/جولائی ١٩٠٥ء) ٭مدرسہ مجیبیہ پھلواری شریف کے قیام کی تفصیلات (٣٠/جنوری ١٩٠٤ء) ٭علی [؟] کالج کے مقاصد پر ایک نظر (۳/اگست ١٩٠٥ء)۔
سفرنامہ: ٭مولانا الپنچ کے سفر دہلی کا ذکر/ ذہین فتح پوری (١٤/فروری ١٩٠٣ء) ٭مزیدار سفرنامہ / لسان النسب (٢٥/ جون ١٩٠٤ء)۔
صحافت: ٭اخبار کیا ہے/ بابا گرو گھنٹال علیہ الرحمہ (١٣/فروری ١٩٠٤ء) ٭اخبار بینی کے فوائد/ م۔ح۔ف۔دسنوی (٢١/ فروری ١٩٠٣ء)۔
طنز و مزاح: ٭بہار کے نقص سوسائٹی پر تیسری نظر (٢٦/ستمبر ١٩٠٣ء) ٭ترقی و تنزلی کے اسباب /ع ح م دسنوی (٢٨/ مئی ١٩٠٤ء) ٭در پردہ/ ا۔م۔ق۔ ناصح بہاری (٢١/ مئی ١٩٠٤ء) ٭رام رام / قاضی عظیم آبادی (٢٨/ نومبر ١٩٠٣ء) ٭ رباب و چنگ ببانگ بلند می گویند/ حافظ بخاری (٢١/ستمبر ١٩٠٣ء) ٭رمضان کے مریضوں کی تصویر/ م۔رنگ الہی (٢٨/ نومبر ١٩٠٣ء) ٭عرضی ملک الموت بحضور رب العالمین/ شوخ ظریف (١٤/ فروری ١٩٠٣ء) ٭مضمون غیر/ سید علی سجاد (۲۲/ اگست ١٩٠٣ء) ٭مضمونچہ/ایاز قدر خود بشناس (١٩/ اگست ١٩٠٣ء) ٭نئی روشنی کا چراغ/ حافظ بخاری (٢٤، ٣١/ دسمبر ١٩٠٤ء)۔
لسانیات: ٭اردو کے حروف ہجا میں ترمیم/ س م ی (۹/ اپریل ١٩٠٤ء) ٭چند الفاظ کا طنزیہ مفہوم/ م ح ف (٣١/جنوری ١٩٠٥ء) ٭تفارق الالسنہ/ ایک محقق (٢٦/ ستمبر ١٩٠٣ء) ٭ڈکشنری (۵/ستمبر ١٩٠٣ء)۔
نفسیات: ٭ امید اور نا امید کا انسانی ذہن سے کیا سروکار ہے/ ابو الکمال عبد الحلیم دسنوی (١٧/ستمبر ١٩٠٤ء)٭ انسانی فطرت/ قادر (٢٤/اکتوبر ١٩٠٣ء)۔
***
صاحب تحقیق کی گذشتہ نگارش:ترنم ریاض کے تحقیقی و تنقیدی مضامین: ایک جائزہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے