دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا

دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا

عاصم طاہر اعظمی
رابطہ:7860601011

بیت اللہ شریف کی زیارت کا سفر کرنا بلاشبہ ایک سعادت ہے جو اللہ رب العزت کی توفیق سے ملتی ہے. یہ ایک ذمہ داری اور اللہ رب العزت کی طرف سے عائد کردہ ایک فریضہ بھی ہے جس کو ادا کرنے کے لیے وسائل مہیا ہوں تو بندے کو اوّلین فرصت میں اس کو ادا کرنا چاہیے. اس کے لیے جدوجہد کرنا چاہیے. حج و عمرہ اللہ رب العزت کی عبادت کے مظاہر ہیں، یہ کوئی سیر و تفریح یا سیاحت کا مقام نہیں ہے، لیکن افسوس ہمارا عمومی رویہ اس کا غماز نہیں، ہم سب کے لیے یہ فریضہ سب سے آخری ترجیح ہوتا ہے. 
حرمین شریفین ہمارے مقدس مقامات ہیں. ان کی زیارت کی تڑپ ہر دل میں ہوتی ہے، لیکن وہاں وہی پہنچتا ہے جو اس کے لیے محنت کرتا ہے. یقین جانیے اس راستے پر قدم بڑھانے والا ہی اللہ رب العزت کی مدد و استعانت کا مستحق ٹھہرتا ہے. 
تقریباً دومہینہ قبل پاسپورٹ پر زیارت کا ویزا اسٹامپ ہوا، اسی وقت ٹکٹ نکل رہا تھا لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر تاخیر ہوئی، لیکن اس درمیان میں تقریباً تین مرتبہ یہ خواب دیکھا کہ بیت اللہ شریف کے سامنے نماز پڑھ رہا ہوں  جب صبح اٹھتا عجیب سی کیفیت رہتی، دل میں سرور رہتا، من ہی من میں بہت کچھ سوچتا رہتا، بہر حال رب العزت نے وہ دن بھی دکھایا کہ جب یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا. 
ابھی جدہ پہنچے ایک دن ہی گزرے تھے کہ والد صاحب نے کہا کہ یہ پلاسٹک میں احرام ہیں، ان کو رکھو شام میں عمرہ کرنے چلنا ہے. وقتِ مقررہ پر والد صاحب کے دو عزیز شاگرد مولوی عمر و مولوی عبداللہ برادران اپنی گاڑی کے ساتھ تشریف لائے، ہم لوگوں کا پانچ نفری قافلہ: والد محترم مفتی محمد طاہر صاحب، بڑے بھائی مفتی محمد حاکم، مولوی عمر و مولوی عبداللہ برادران و ناکارہ جدہ سے شہر آرزو مکة المكرمه کی طرف روانہ ہوا، راستے میں خوب صورت سڑکیں، عالی شان عمارتیں اور پرسکون مگر خشک پہاڑ ایک بہترین نظارہ پیش کررہے تھے، سارے راستے میں یا تو خشک پہاڑ تھے یا آسمان سے باتیں کرتیں عمارات، لیکن ان فضاؤں میں سانس لینے اور ان بلند و بالا عمارتوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے جو روحانی سکون ملا وہ دنیا کے کسی اور سفر میں اور نہ ہی کسی اور جگہ مل سکتا ہے. اس شہر کو جو آقائے نامدار سے نسبت ہے، اس پر اگر کسی کی نظر ہو تو یہ خشک نظارے جنت کے نظارے بن جاتے ہیں. 
گاڑی نکلتی چلی جارہی تھی، میری نظریں باہر کے نظاروں پر تھیں، جو تیزی سے بدلتے جارہے تھے، مجھے چودہ صدی قبل ریگستانوں میں چلتے عربی قافلے یاد آرہے تھے، خاص طور پر وہ قافلہ جو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں چلا تھا. جب بھی باہر دیکھتا ہر بار نئی تروتازگی محسوس کرتا، جب سوچتا کہ ہم انھی محبوب راہوں کے راہی ہیں، جہاں سے کبھی میرے محبوب صل اللہ علیہ وسلم گزرے تھے تو عجیب سرور حاصل ہوتا تھا، تقریباً تین گھنٹے چلنے کے بعد ہمارا قافلہ طائف پہنچا، یہ وہی جگہ ہے جہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشاعت اسلام کے سلسلے میں تشریف لے گئے تو کچھ اوباش اور بد تمیز لوگوں نے آپ کو اتنا ستایا اور پتھروں سے اتنا مارا کہ سارے جسم مبارک سے خون بہہ کر جوتے کی ایڑیوں میں جمع ہوگیا تھا اور جوتا پیروں میں اس طرح چپک گیا تھا کہ نکالنا مشکل ہوگیا تھا. ایک حدیث کے مطابق طائف کا دن آپ کی زندگی کا سب سے مشکل ترین دن تھا، یہیں سے ہم لوگوں کو احرام باندھ کر مکہ مکرمہ واپس آنا تھا. وہیں پر مولوی عبد اللہ سلمہ کی امامت میں عشاء کی نماز ادا کی. بعدہ دو رکعت نماز پڑھ کر لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك پڑھ کر عمرہ کی نیت کی اور وہاں سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے، ہم لوگوں کا عشائیہ عارف ماموں، جو کہ مکہ مکرمہ میں رہتے ہیں،  کے یہاں تھا. بار بار فون کرکے انتظار کررہے تھے، لیکن مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہی اکثر راستے بند تھے. اس کی وجہ سے تھوڑی سی تاخیر سے پہنچے. عارف ماموں پہنچنے سے پہلے ہی دسترخوان لگا کر انتظار کر رہے تھے. پہنچتے ہی ہم لوگ دسترخوان پر بیٹھ گئے. وہیں قریب میں پھوپی زاد بھائی دلشاد احمد راجہ پور سکرور رہتے ہیں. وہ تشریف لائے، ان سے بھی ملاقات ہوئی. کھانے سے فارغ ہوکر عارف ماموں کی ضد تھی کہ ہم لوگ یہیں رات گزار کر صبح حرم جائیں، لیکن یہ مشکل امر تھا. خیر وہاں سے مل ملا کر حرم کی طرف روانہ ہوئے. اکثر روڈ بند تھے. تقریباً ایک گھنٹے بعد میپ کے سہارے ہم لوگ حرم پہنچے. 
حیاتِ مستعار کا یہ پہلا موقع تھا کہ بیت اللہ شریف کا دیدار ہونے کو تھا. 
حرم اپنی تمام تر جلوہ خیزیوں اور خیرہ نگاہیوں کے ساتھ ہمارے سامنے تھا، یہ وہ مقامِ مقدس ہے جہاں پہنچ کر دنیا کی ساری رنگینیاں و دل فریبیاں بے وقعت ہوجاتی ہیں. یہ ایک ایسا جامِ مبارک ہے جسے ہونٹوں سے لگانے کی ہر شخص کو خواہش ہوتی ہے. جہاں ہر شخص فقیرانہ حاضر ہوتا ہے. یہاں ہر شخص حاکم ہو یا محکوم، بادشاہ ہو یا رعایا، امیر ہو یا غریب، ہر فرد رب العزت کے سامنے جھکا ہوتا ہے. اس کے گن گاتا ہے. اسی کی بارگاہ میں اپنی جبین نیاز خم کرتا ہے. کتنے ہی ظالم کا ظلم و سرکشی یہاں آکر ختم ہوجاتا ہے. اسے اپنے رب العزت کی یاد آتی ہے. اس کے سامنے بہائے جانے والے آنسوؤں اور دل سے نکلنے والی آہوں کو وہ اپنی زندگی کی گراں قدر متاع سمجھتا ہے. اس کے پاکیزہ گھر کے سامنے جھکی ہوئی گردن اور آنکھوں کے عرق انفعال کو زیست کا سب سے قابل فخر سرمایہ سمجھتا ہے،
مکہ مکرمہ وہ شہر ہے جسے اُمُّ القریٰ (یعنی تمام شہروں کی اَصْل) کہا جاتا ہے، مکہ مکرمہ وہ شہر ہے کہ ابھی زمین بنائی بھی نہیں گئی تھی، اس سے 2 ہزار سال پہلے فرشتے اس مقام پر تسبیح بیان کرتے تھے، انسانوں کی پیدائش سے 2 ہزار سال پہلے سے فرشتے مکہ مکرمہ میں حج کیا کرتے تھے. 
اللہ رب العزت نے اس شہر کی عظمت اجاگر کرتے ہوئے اس کی قسم بھی اٹھائی. 
{لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ}
{میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں [البلد: 1]
ایک اور جگہ قسم کے ساتھ اس کا نام بھی امن والا شہر رکھا اور فرمایا:
{وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ}
اور اس پر امن شہر کی قسم [التين: 3]
یہی وہ شہر ہے جسے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا وطن اور آپ کی ولادت گاہ ہونے کا شرف حاصل ہے،
یہیں سے اسلام کی آواز بلند ہوئی اور یہیں اسلامی تعلیمات کا پہلا مرکز ہے. یہیں سے آیاتِ بینات کی تجلیاں اہل اسلام کے سینوں کو منور و مجلا بناتی ہیں. 
اسلام کی تاریخ یہیں سے شروع ہوتی ہے، اور توحید کی دعوت کا آغاز یہیں سے ہوا، دین کے لیے جس جذبہ قربانی و خود سپردگی کی ضرورت ہے اس کی جھلک اسی جگہ کے واقعات میں پوشیدہ ہے. 
یہی وہ مبارک شہر ہے کہ جب ایک پر قوت مسیحی سلطنت کے گورنر ابرہہؔ نے جو یمن کا حاکم تھا حجازِ مکہ بلکہ خود خانہ کعبہ پر چڑھائی کر دی اور اپنی پوری قوت کے ساتھ مکہ مکرمہ پر فوج کشی کی تو بجائے خانہ کعبہ کے برباد کرنے کے خود ہی مع اپنے لشکر کے برباد ہو گیا. 
مسلمانوں کے لیے مکہ مکرمہ ممتاز حیثیت رکھتا ہے. اس سر زمین پر اللہ رب العزت نے آخری پیغمبر کو مبعوث فرما کر ان پر قرآن مقدس نازل فرما کر ان کی دعوت کو عالمی و دائمی امتیاز عطا فرما کر اس سر زمین اور اس کی تاریخ کو ایسی معنویت عطا فرما دی ہے کہ جس کا بیان مجھ جیسے طالب علم کے لیے ممکن نہیں ہے. 
کعبے پہ پڑی جب پہلی نظر کیا چیز ہے دُنیا بھول گیا
یوں ہوش و خرد مفلوج ہوئے دل ذوقِ تماشہ بھول گیا
اندر داخل ہوتے ہی مولوی عبداللہ سلمہ ہم دونوں بھائیوں کے ساتھ خانۂ کعبہ کے صحن میں اور ان کے بڑے بھائی والد محترم کے ساتھ پہلی منزل پر وہیل چئیر  کے ساتھ تھے. کعبے پر پہلی نظر پڑتے ہی خوب دعائیں کیں. مولوی عبداللہ سلمہ کی رہ نمائی میں طواف مکمل کیا. اس کے بعد خانۂ کعبہ کے صحن میں دو رکعت نماز ادا کرکے صفا مروہ کی سعی، جو ایک ماں کی یادگار میں کی جاتی ہے،  کی طرف روانہ ہوئے، 
اپنے بیٹے کی خاطر ایک ماں کی یہ دوڑ دھوپ اللہ رب العزت کو اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک اسے مسلمانوں کی عظیم عبادت یعنی حج و عمرہ کا حصہ بنا دیا،
حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی حیاتِ مبارکہ ہمارے لیے مَشعلِ راہ ہے، آپ کی سیرتِ مبارکہ سے اطاعتِ الٰہی، شوہر کی فرماں برداری، تربیتِ اولاد، صبر و رضا، قربانی اور تَوَکُّل عَلَی اللہ کے ایسے نکات چننے کو ملتے ہیں جن کی ہماری عملی زندگی میں بہت ضرورت و اہمیت ہے۔
حالات کیسے ہی کَٹِھن کیوں نہ ہوں ہمیں اللہ پاک کی رضا پر راضی رہنا چاہیے اور قربانی دینے کا ذہن رکھنا چاہیے، کسی بھی قسم کے دنیوی مصائب و پریشانیاں، بےروزگاری، بیماری اور تنگ دستی کا سامنا ہو، ہمیں بےصبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اسباب کو اختیار کرتے ہوئے اللہ رب العزت پر بھروسا کرنا چاہیے اور اسباب کو پیدا کرنے والے اللہ رب العزت سے دعا کرتے رہنا چاہیے. 
طواف و سعی مکمل کرنے کے بعد فجر کی نماز امامِ حرم کی امامت میں خانۂ کعبہ میں ادا کی گئی. اس کے بعد جنازے کی نماز بھی وہیں پر پڑھنے کا موقع ملا، باہر نکلے، مولوی عمر سلمہ کا ساتھ ملا، سبھی لوگ بال منڈوائے اور قاری خلیق اللہ صاحب بستوی جو کہ حرم شریف کے قریب میں ہی رہتے ہیں، کے گھر کی طرف روانہ ہوئے. حضرت قاری صاحب جو کہ جون پور کے مشہور گاؤں مانی کلاں اور دارالعلوم مئو سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد متعدد مقامات پر درس دیا ہے، آپ حرم شریف میں تقریباً تیس سے بتیس سال  درس دیا، اور تقریباً اتنے ہی سال مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ میں بھی درس دیا ہے، گھر پہنچتے ہی فرمانے لگے واہ فرزندان بھی تشریف لائے ہوئے ہیں. مصافحہ و معانقہ کے بعد کچھ علمی باتیں چلیں، پھر فرمایا کہ سامنے جو دو الماریاں رکھی ہوئی ہیں، ان میں سے جو چاہیں کتابیں لے سکتے ہیں، اب موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے چاروں لوگ اس کی طرف بڑھے اور جلدی جلدی کتابوں کے نام پڑھنے لگے اور اپنی اپنی پسند کی کتابیں نکالنے لگے. اتنی ہی دیر میں ناشتے کا دستر خوان لگ گیا اور فرمایا کہ آپ لوگ پہلے ناشتہ کرلیں پھر بعد میں کتابیں نکال لینا، خیر ناشتہ کیا اور پھر اپنے کام میں لگ گئے. مجھے تو انیس چشتی صاحب کی دو کتاب (عصری و تحقیقی مقالات اور یادیں ورق ورق) پسند آئی، نکال لیا، اور مولوی عمر سلمہ نے اپنے ذوق کے اعتبار سے تو درسیات و غیر درسیات کی کئی کتابیں لیں اور پھر تھوڑی دیر رک کر وہاں سے جدہ کی طرف روانہ ہوئے اور تقریباً ایک گھنٹے بعد ہم لوگ جدہ پہنچ گئے. اس طرح کچھ حسین یادوں کے ساتھ ہمارا یہ سفر مکمل ہوا،
اللہ رب العزت اپنے گھر کا دیدار مجھے اور تمام مسلمانوں کو بار بار نصیب فرمائے آمین یا رب العالمین
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :کتاب: سوئے حرم چلئے

شیئر کیجیے

One thought on “دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے