دو سال

دو سال

ارم رحمان
لاہور، پاکستان

آئیے آئیے صاحبان
قدردان مہربان
آگیا آپ کاعبدالشکور
چلتی پھرتی دکان
پھولے مسوڑوں کو کر دے تندرست
ڈال دے کمزور دانتوں میں جان
حضرات و خواتین
کوئی نہ ہو غمگین
کھائیں میٹھا یا نمکین
آئس کریم پسند ہو یا سکنجبین
اب پورے ہوں گے سب ارمان
پھینک ڈالیے سب اگال دان
بس ایک بار آزمائیے
میلے دانت چمکائیے
خوشی خوشی گھر جائیے
آئیےائیے۔۔۔۔۔۔۔
یہ تھا عبدالشکور منجن فروش کا مخصوص انداز۔۔۔
عبدالشکور نہ جانے کتنے سالوں سے باقاعدگی سے لاہور کے اس بہت مشہور میلے میں جایا کرتا تھا جو جناب مادھولال حسین کے عقیدت مندان عرس منانے کی خاطر لگاتے تھے، اس میلے اور عرس کا انعقاد 30 مارچ کو ہوتا ہے، لیکن تیاریاں تو دس پندرہ دن پہلے ہی شروع ہوجاتی تھیں اور اختتام بھی آٹھ دس دن بعد ہوتا ہے… لوگ دوسرے علاقوں اور شہروں سے بھی آتے اور گرد و نواح کی اکثریت بہت پرجوش ہوا کرتی ہے۔۔۔لہذا عبدالشکور بھی اپنا خاص منجن لے کر دربار پہ حاضر ہوتا، صاحب مزار سے چپکے چپکے راز و نیاز کرتا اور اپنی دکان چمکاتا اور ایسے لوگوں کا ماننا ہوتا ہے کہ اس طرح کاروبار میں برکت پڑتی ہے اور سچ یہ ہے کہ اپنے خاص انداز اور دل کش آواز سے واقعی لوگوں کو متاثر کرتا اور عام دنوں سے کئی گنا زیادہ پیسہ کماتا اور واپس اپنے شہر ماموں کانجن چلا جاتا ۔۔۔
یہ مزار لاہور کے مشہور تاریخی ورثہ۔۔۔ مغل بادشاہ شاہ جہان کے بنائے باغ.۔۔شالیمار کے عقب میں موجود ہے اور یہ علاقہ اب بہت پھیل چکا ہے کیوں کہ کہ اس کے گرد اب آبادی اتنی گنجان ہوگئی ہے کہ پورا علاوہ باغبانپورہ شالیمار کہلاتا ہے۔۔
دور دراز علاقوں سے معتقدین بڑی عقیدت سے اس عرس اور میلے میں شریک ہوتے اور اس دوران خاص رونق اور پکوان سے لطف اندوز بھی ہوتے۔۔۔
چڑھاوے چڑھائے جاتے۔۔۔لنگر پکائے جاتے۔ دودھ اور شربت کی سبیلیں لگائی جاتیں۔۔ کتلمے..۔اندرسے۔۔پوڑیاں۔۔ چوڑیاں۔۔بچوں کے لیے مٹی کے کھلونے۔۔۔کانے کا ناگ۔۔اور بانسریاں۔۔اور سب سے بڑھ کر موت کا کنواں۔۔۔ اور سرکس۔۔ جس کا جو بس چلتا لے کر پہنچ جاتا۔ اور حسب توفیق کماتا۔۔
عبد الشکور کی مرحومہ ماں کی پھوپھی زاد بہن لاہور میں بیاہی تھی۔۔ وہ بھی مر گئی تو اس کے بیٹے اور بیٹیاں لاہور میں مقیم تھیں۔۔ یہ بھی ہر سال حاضری اور میلے میں دل چسپی کی وجہ لاہور آتا۔۔ان رشتے داروں سے ملتا وہ بھی خوش ہو جاتے۔۔ یہ سارا جم غفیر اکٹھا ہی رہتا تھا۔ رشتے بھی سانجھے، کسی کا بھائی کسی کی بہن۔ کوئی اوپر والے کمرے میں کوئی نیچے۔ کوئی ساتھ والے حصے میں۔۔ ایک بڑے سے گھر میں بہت بڑا مجمع۔۔ اور اس میں ایک بے چارہ چھڑا چھانٹ پتلا دبلا کم خوراک تیس پینتیس سالہ عبدالشکور بھی بالکل خاموشی سے شامل ہو جاتا۔۔۔ اتنے کھانے والے، کسی کے کچھ پکا کسی کے کچھ۔۔۔آ گر چمچ چمچ بھی دیتے تو اس بندے کا پیٹ بھر جاتا۔۔ جہاں سب فرش پہ دری بچھا کر لوٹتے یہ بھی پڑ جاتا۔۔ اور زیادہ وقت تو مزار پہ گزرتا.۔۔ وہیں لنگر کھاتا اور سبیلیں پیتا۔۔ اور شاز و نادر ہی ان ڈھیر سارے رشتے داروں کے دستر خوان پہ موجود ہوتا. 
ویسے بھی غریب لوگوں کے پاس اتنا سوچنے کا وقت نہیں ہوتا اور نہ ہی دل تنگ ہوتا ہے کہ کسی کو تھوڑا سا کھانا دینا بوجھ لگے۔۔ اور دری پہ لوٹنے والوں پہ ایک بندہ بڑھ جائے تو کسی شمار میں نہیں آتا، غریب محنت کش سارا دن محنت مزدوری کرتا ہے۔۔ پیٹ کی آگ بجھاتا ہے اور خالی گھر میں لمبی تان کے سو جاتا ہے۔۔ یہ سب عیاشی مل جائے تو پھر کسی کی پروا نہیں کرتا۔۔
غریب کا نشہ دو وقت کا پیٹ بھر کھانا، سر پہ چھت اور تن پہ کپڑے ہونا ہے۔۔ چاہے بوسیدہ۔۔پیوند زدہ۔۔ لیجیے، غریب خوش
اور ایسا ہی خوش باش تھا سب کا ہنس مکھ عبدالشکور۔۔ نہ شادی ہوئی نہ کسی نے کروائی نہ کبھی خیال آیا۔۔۔ اور زندگی منجن بناتے اور بیچتے گزر رہی تھی اور ایسے ہی گزرنے کی امید تھی۔۔
منجن بنانے کی خاندانی ترکیب باپ مرحوم نے سکھائی تھی اور پندرہ سال۔کی عمر میں اسے منجن بنانے اور بیچنے میں ماہر کر کے مر گیا.۔۔
ماں بھی باپ کے پیچھے ہی چلی گئی جلدی جلدی، 
بس پھر کبھی ماموں کبھی خالہ۔۔ کبھی چچی۔۔۔ کبھی تائی۔۔ اور زندگی کے تقریباً 30 سے 35 سال گزر گئے۔
ہنسی خوشی۔۔ غریب کی خوشی اتنی ہی ہوتی ہے کہ کوئی دھتکارے یا پھٹکارے نہیں۔۔ جہاں کسی کے گھر گئے کسی نے کچھ دے دیا کبھی کسی کو اس نے کچھ دے دیا۔۔
مستقل گھر تو ابا کے ابا کا ہی تھا اور ان کے سب وارثین
ایک ساتھ وہیں رہتے تھے، بس کمرے فرق تھے اور باورچی خانہ۔۔دوئم۔
اب کی بار وہ 26 مارچ کو لاہور پہنچا۔۔ 23 مارچ کو مینار پاکستان پہ جانا ممکن نہ ہو سکا. 
چچا بیمار تھا بس ان کے ساتھ تین دن ہسپتال رہا۔۔جونں ی اسے چھٹی ملی۔۔ اسے بھی چھٹی مل گئی۔ اور یہ بھاگا لاہور۔۔
اسٹال لگ چکے تھے۔۔ لنگر۔۔ سبیلیں۔۔ دکانیں۔۔ خوب رش میلہ۔۔ سب حاضر ہو چکے تھے. 
معتقدین عرس کے دن کے قریب قریب بہت پرجوش ہو جاتے ہیں۔۔ اچھے اچھے پکوان۔۔ خالص دودھ۔ ملائی پیڑے والا۔۔ کھیر۔۔ حلوے مانڈے۔۔۔ سب کچھ۔۔ کوئی بندہ وہاں بھوکا نہیں رہ سکتا۔ اللہ کے ولی کا عرس۔۔ اللہ برکت ڈال دیتا ہے. 
اب کی بار عبدالشکور کو لگا کہ اس بار کمائی خوب ہوگی۔ باقی سالوں سے زیادہ رش تھا اس بار.. 
وہ بھی اپنا منجن لہک لہک کے بیچ رہا تھا۔۔ اس کے چہرے میں عجیب سی بات تھی جو اسے دوسرے لوگوں سے مختلف بناتی تھی۔۔ چہرہ نرم۔۔ جلد ملائم اور عام مردوں کی طرح داڑھی سے بے نیاز شاید ہلکا سا رواں ہو جو زیادہ واضح نہ تھا۔۔ آواز بھی تھوڑی نرم اور سریلی۔ مردوں کی طرح بھاری بھرکم نہیں اور جثہ بھی منحنی۔۔ قد ٹھیک تھا۔۔. صاف ستھرا اور ہنس مکھ۔۔۔
وہ صبح دس گیارہ بجے مزار کے پاس پہنچ جاتا اور رات دس گیارہ تک دربار میں رہتا، بلکہ وہ تو اپنے ساتھ بہت کچھ کھانے کو بھی گھر لے جاتا اور اس کے عزیز رشتے دار ان سب کھانوں سے لطف اندوز ہوتے جو عام زندگی میں نہیں کھاسکتے تھے. 
باقاعدہ ڈول رکھتا تھا اپنے پاس تاکہ خالص ملائی مکھن والا دودھ جمع کر کے گھر لے جائے۔۔
گھر تو ساتھ ہی تھا دربار کے.۔۔ زیادہ کھانا جمع ہوتا تو دینے چلا جاتا پھر واپس آ جاتا۔۔ اسی لیے اس کا رہنا گھر والوں پہ بالکل بوجھ نہیں بنتا تھا. 
اس بار اس نے ذرا اندر دربار میں ڈیرہ ڈالا۔۔۔ مزار کے قریب جا کر تو اونچا نہیں بول سکتے تھے۔۔ ادب کا تقاضا تھا۔۔ وہ دربار کے دروازے پاس ہی کھڑا ہوجاتا۔۔۔اور جب کچھ تھک جاتا تو خاموش ہو کر مزار کے پاس بیٹھ جاتا اور لوگوں کو وہاں دعائیں مانگتا اور گڑگڑاتا دیکھتا۔۔ کوئی اولاد کے لیے روتا۔۔ کوئی غربت دور کرنے کے لیے بلکتا کوئی صحت کے لیے سسکتا کہ
"بابا جی اللہ سے سفارش کردو۔۔ اللہ سے میرے حق میں دعا کردو۔۔"
کسی کی آواز دھیمی کسی کی اونچی۔۔ اسے عجیب لطف آتا تھا ان لوگوں کی دعائیں سن کر۔۔ وہ ساتھ ساتھ دل ہی دل میں آمین کہتا رہتا۔ بہت کم آوازیں اس تک پہنچتیں۔۔ مگر پھر بھی اتنے سالوں میں اس کو اندازہ ہو ہی گیا تھا کہ اکثریت کیا مانگتی ہے۔۔ اولاد، دولت اور صحت تین اہم ترین دعائیں اور کبھی کبھی منچلے شادی کی دعا مانگتے نظر آتے، ورنہ ایسی دعائیں عموماً دل میں مانگی جاتی ہیں. 
عصر کے وقت وہ لنگر کھا کر کچھ سستانے کے لیے مزار شریف کے قریب ہی بیٹھ گیا۔۔ باوضو تھا جماعت کے ساتھ نماز پڑھ کر آیا تھا، اس لیے مزار کی پائنتی کے قریب بیٹھنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہوتی تھی۔۔ نمازی پرہیزی تو وہ تھا بے شک. 
ابھی آکر بیٹھا ہی تھا کہ ایک نوجوان جوڑا اس کے بالکل قریب پہنچ گیا۔ لڑکی کی عمر شاید 18 سال ہو اور لڑکا بھی 20 سے زیادہ کا نہیں کم کا ہی لگ رہا تھا۔داڑھی بھی پوری بھری ہوئی نہیں تھی۔۔
چھدری سی۔ جیسے مسیں بھیگی ہوں.. 
اس جوڑے کی حرکات و سکنات واضح کرتی تھیں کہ یہ گھر والوں کی نظروں میں دھول جھونک کر چپکے چپکے مزار پہ منت مانگنے آئے ہیں اپنی شادی کی۔۔ لڑکا قدرے سنجیدہ بآواز بلند اپنا اور لڑکی کا نام لے کر دعا کر رہا تھا۔۔ جب کہ لڑکی کے چہرے پہ بےزاری کے تاثرات نمایاں تھے اور بے دلی سے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھی اور دائیں بائیں نظریں دوڑا رہی تھی۔۔ اللہ جانے کسی کے پہچانے جانے کے خوف سے یا اس لڑکے سے اچھا لڑکا ملنے کی امید میں۔۔۔
لڑکا پر جوش تھا "بابا جی اللہ سے کہیں کہ ندیم اور رخسانہ کی جلدی شادی ہو جائے اور ان کی جوڑی تا قیامت قایم رہے۔۔ بس اللہ ایسا کرم کر دے کہ کوئی الگ نہ کرسکے۔ سارے مسئلے حل ہوجائیں۔۔ سب مان جائیں" یہ گردان جاری تھی کہ رخسانہ نے اسے دو تین بار کہنی ماری کہ جلدی کرو۔۔۔ بس کرو چلو۔۔ مگر وہ لڑکا آج اپنی دعا پوری کروا کے ہی جانے کے موڈ میں تھا۔۔ وہ کہنی لگنے پہ چونکتا۔۔ پھر. رٹی رٹائی دعا شروع۔۔۔
پھر جیسے ہی اس نے کہا کہ "یا اللہ میں رخسانہ جنت میں بھی ایک ساتھ ہوں"
رخسانہ غصے میں بولی”۔۔ جنت میں جانے سے پہلے گھر چلو۔۔ ابا اور بھائی آنے والے ہوں گے۔۔" اور بے چارہ ندیم اس کے ساتھ خاموشی سے باہر نکل گیا۔۔ اس سارے منظر کا عبدالشکور کو بہت لطف آیا، یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے ساری بات کان لگا کر سنی۔۔ اتنے میں ایک اور عورت بالکل بوڑھی اور کم زور۔۔ مزار کے پاس آئی، کانپتے ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے اور پھر جھریوں سے بھرے چہرے پر آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔۔۔ بے چاری نافرمان اولاد کے ظلم سے تنگ تھی۔۔ اور اپنی بے گناہی اور بیٹے بہو کے ظلم کی داستان سناتی تھی۔۔ اس کا دکھ واقعی دردناک تھا۔۔ عبدالشکور بھی نمناک آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا، بے چاری بوڑھی عورت نے جب قدرے اونچی آواز میں کہا "یا اللہ مجھے رسوا نہ کر۔۔کسی کا محتاج نہ کر۔۔ اپنے پاس بلا لے۔۔" اور ہچکیاں بندھ گئیں تو عبدالشکور سے رہا نہیں گیا وہ بھی رو پڑا "اماں جی بیٹھ جائیں میں آپ کے لیے دودھ لے کر آتا ہوں." ساتھ ہی سبیل سے گلاس بھر دودھ لایا۔ اماں جی کو دیا۔۔۔ تسلی دی اور اماں نے اسے تشکر آمیز انداز میں دیکھا۔۔ دودھ پیا گلاس اسے تھماکر باہر نکل گئی۔۔جب تک وہ اوجھل نہیں ہوئی۔۔ وہ اسے دیکھتارہا۔۔ کپڑوں جوتوں سے تو وہ بہت غریب نہیں لگتی تھی مگر اس کے لہجے اور اشکوں میں سچائی تھی۔۔ عبدالشکور کا دل بہت بوجھل ہوگیا۔۔ اور پھر اس کا دل نہیں کیا کہ منجن بیچنے کے لیے باہر نکلے ۔۔۔ وہ تقریباً آدھا گھنٹے تک خاموش بیٹھا رہا۔۔۔ کون آیا کس نے کیا دعا مانگی.۔۔ وہ سب سے بے خبر اپنے آپ میں مگن چپ چاپ لوگوں کے چہرے تکتا رہا. اسے واقعی آج اس بوڑھی عورت کو دیکھ کر اپنی ماں یاد آگئی جو بیس سال پہلے شدید بیمار ہو کر اللہ کو پیاری ہوگئی.۔۔ وہ کچھ نہیں کر سکا تھا اور کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ غربت کے علاوہ کینسر کا علاج ممکن نہ تھا اور پھر اس کی ماں کا سب سے بڑا غم اس کے محبوب شوہر کا اچانک مر جانا تھا۔۔ اور وہ سچی وفادار بی بی۔
اپنی عدت پوری کرنے سے پہلے ہی اللہ کو پیاری ہوگئی اور شاید شوہر سے جا ملی ہو۔۔ اسی دکھ اور دھندلی یادوں کو دہراتے ہوئے وہ اپنے ماضی میں کھو گیا۔۔۔ پھر اس سے لوگوں کی ہمدردی.۔۔ ترس۔۔ ڈانٹ ڈپٹ۔۔ اور تعلیم چھوڑنے کا صدمہ۔ آٹھویں جماعت پاس کرتے ہی باپ مرا اور پھر ماں۔۔ آگے کون پڑھاتا۔۔ کھانا کپڑا اور رہائش مل گئی.۔۔ یتیم کے لیے بہت تھا. پھر ویسے بھی اس کے چچا ماموں سب کاریگر مزدور لوگ تھے.۔۔ شاید ایک چچا نے دس پاس کی تھیں۔۔اور کسی دفتر میں چپراسی لگ گیا تھا. اس پس منظر کے تحت کچھ خاص زیادتی نہیں ہوئی تھی اس کے ساتھ۔۔۔ بس سب سادہ، کم گو اور غریب لوگ، جیسے سب رہتے ہیں وہ بھی رہنے لگا۔۔ غریب لوگ جتنے مرضی ذہین ہوں. وہ لاشعوری طور پہ خود کو باور کروا چکے ہوتے ہیں کہ ان کی قسمت میں غریب رہنا لکھا ہے اور اونچے خواب دیکھنے کا کوئی حق نہیں۔۔ کچھ نہیں بدل سکتا۔۔ لیجیے غریب کا سارا فلسفہ ختم۔۔۔
ابھی وہ انھی سوچوں کا تانا بانا بننے میں لگا تھا کہ ایک لمبی تڑنگی عورت جس نے اپنا چہرہ اس طرح ڈھانپا ہوا تھا کہ چہرہ چھپ بھی جائے اور نقش واضح بھی ہو جائیں۔۔پورے کالے کپڑوں میں ملبوس وہ مضبوط قد کاٹھ کی عورت مزار کے بالکل پاس آکر کھڑی ہوگئی۔ بالکل خاموش بت کی طرح۔۔ آنکھیں بہت کم جھپکتی۔۔ اور سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ کیا دیکھ رہی ہے؟ یا دل میں کچھ مانگ رہی ہے۔۔ کیونکہ لب بھی خاموش۔۔۔
کھردری جلد والا گورا چہرہ کسی بھی تاثر سے پاک۔۔ تقریباً دس منٹ ہاتھ دعا کے انداز میں ساکت کھڑی رہنے کے بعد۔۔ اپنی پشت کیے بنا وہ دربار سے باہر نکل گئی۔۔
پتہ نہیں عبدالشکور کو اچانک کیا ہوا۔۔ وہ بجلی کی تیزی سے اٹھا اور اس عورت کے پیچھے بھاگا۔۔ اور دربار کے دروازے کی طرف لپکا اور تھوڑے ہی فاصلے پر وہ عورت اسے مناسب رفتار سے چلتے ہوئے مل گئی۔۔۔ عبدالشکور کا سانس کچھ لمحے تک بحال ہوگیا اور وہ اس عورت کے بالکل پیچھے مناسب رفتار سے چلنے لگا اور بالکل قدموں کی چاپ محسوس نہیں ہو رہی تھی۔۔۔ ہر جگہ لوگ ہی لوگ تھے کسی کو اس پہ شک ہونے کا امکان نہیں تھا حتی کہ اس عورت کو بھی۔۔ کیونکہ وہ رش میں ہی چل رہی تھی۔۔ کچھ دیر دور تک رش میں چلنے کے بعد وہ مختلف گلیوں میں مڑنے لگی۔۔ اب رش کم ہو چکا تھا۔ اکا دکا لوگ ہوں گے جو چلتے پھرتے دکھائی دیتے۔۔ پھر اندھیرا بھی ہو چلا تھا، شام ہونے لگی تھی، لیکن عورت کی چال سے بے نیازی واضح تھی۔۔ جیسے اسے کسی سے کسی قسم کا کوئی ڈر نہیں۔۔ کیونکہ حلیے سے انتہائی سادہ۔۔ نہ کوئی پیسہ نہ زیور۔۔ اور قد کاٹھ مردوں کی طرح بلکہ کمزور مردوں کے لیے تو شاید اس کا ایک تھپڑ ہی کافی ہوتا. 
خیر 30..40 منٹ لگے اور وہ ایک انتہائی تنگ گلی میں پہنچ گئی اور وہ بھی آگے سے بند۔۔
یہاں عبدالشکور کو کچھ خوف محسوس ہوا کہ اگر اس عورت نے پیچھے مڑ کے دیکھ لیا تو پھر۔۔۔ آگے گلی بند ہے۔۔ وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ اگلی گلی میں جانا ہے۔۔۔
خیر وہ کچھ دیر رکا اور دیکھنے لگا کہ کس گھر میں داخل ہوتی ہے. 
اور پھر وہ عورت ایک گھر میں داخل ہوگئی۔۔ جس کا دروازہ چوپٹ کھلا تھا۔۔ اور وہ گلی کا آخری گھر تھا۔۔ عبدالشکور کچھ لمحے انتظار کے بعد اس گھر کے بالکل قریب پہنچ گیا اور پھر ہلکا سا سر آگے کرکے جھانکا۔۔۔ گھر چوڑائی میں کم تھا لیکن لمبائی کافی تھی۔۔۔ کافی دور ایک ٹاٹ کا پردہ پڑا تھا اور اندر کا سارا منظر غائب۔۔
اب کیا کرے۔۔ گھر میں گھسے یا واپس مڑ جائے۔۔ اس کا تجسس اتنا شدید بڑھ چکا تھا کہ وہ سمجھ نہیں سکا کہ وہ اس عورت کے پیچھے اتنی دور کیوں اور کیسے آگیا۔۔ نہ جان نہ پہچان نہ کوئی حسینہ نازنینہ۔۔۔ یا ایک پل میں اس پہ دل آ گیا ہو۔۔۔ پھر کیا تھا۔۔۔؟ وہ اسی ادھیڑ بن میں پردے کے پاس پہنچا ہی تھا کہ اندر سے کچھ عورتوں کی آوازیں آنے لگیں۔۔۔ اور ایک عورت جس کی آواز واضح تھی وہ درد سے کراہ رہی تھی جیسے وہ عورت درد زہ میں مبتلا ہو اور باقی عورتیں اس کو تسلی دے رہی ہوں۔ کتنی تھیں۔۔ درست اندازہ نہیں ہو سکا لیکن تین چار تو ہوں گی۔۔
عبدالشکور مبہوت ہو گیا اور شاید سمجھ گیا کہ کسی بچے کی ولادت ہونے والی ہے. اس کا تجربہ نہیں تھا لیکن شاید اس کا واسطہ ایسی آوازوں سے پڑا ہوگا۔کیونکہ اس کے گھر میں کتنے بچے ہوئے تھے۔۔ تین چچا ایک ہی گھر میں رہتے تھے اور ان سب کے تین چار بچے. 
تھوڑی سی چیخ و پکار کے بعد۔۔۔ عورت کی آواز بند ہوگئی اور پھر ایک چھوٹی سی باریک سی آواز کانوں میں پڑی۔۔ ایک اور ننھی روح جہان فانی میں وارد ہو چکی تھی۔۔۔
لیکن کچھ ہی لمحوں بعد رونے اور بین کرنے کی دبی دبی آواز کان میں آنےگی۔
"ہائے۔۔یہ کیاہو گیا۔۔ کیوں پیدا کیا اللہ نے اسے؟ کون سنبھالے گا اس کو۔۔۔ ہائے اللہ جی۔۔۔ ہائے سوہنے ربا۔۔ ہم پہ ترس نہ آیا دوبارہ ایسا بچہ۔۔۔"
عبدالشکور بالکل اندھا گونگا بنا کھڑا تھا۔۔ بس کان سلامت تھے اور یہ آوازیں اس کی سمجھ سے بالاتر۔۔۔ آخر ایسا کیا ہوگیا کہ بچے کی آواز کے بعد بین۔۔۔
پھر ایک آواز آئی اسے مار دو۔۔۔ لیکن ساتھ ہی ایک نحیف آواز آئی۔ نہیں۔۔ نہیں۔۔۔ اور ہلکی ہلکی سسکی بھری فریاد۔۔ نہ مارو نہ مارو۔۔۔
عبدالشکور کو جیسے ہوش آگیا ہو۔۔ کہ اندر ایسا کیا ہو رہاہے۔۔
بس اس کو جوش چڑھا اور وہ اندر جانے کی بجائے وہیں سے چلایا۔۔
” کیا ہورہا ہے اندر"
اس کے چلانے کی وجہ اس کی گھبراہٹ نہیں۔۔۔ پردہ داری تھی۔۔۔ وہ پوری طرح حواس میں تھا اسے پتہ لگ گیا تھا اندر صرف عورتیں ہیں اور ابھی کچھ ساعت پہلے ایک بچے کی ولادت۔۔ اور اب اس کو مارنے کی باتیں۔۔۔
اونچا چیخا تاکہ عورت اپنی ستر پوشی کر لے اور کسی نا محرم عورت پہ اس کی نظر نہ پڑے۔۔۔ اور پھر اس اعلانیہ چیخ کے بعد اس نے یکدم پردہ پیچھے ہٹادیا۔۔۔اور اس کے سامنے بالکل وہی منظر تھا جو وہ اپنے من کی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا۔۔۔
چار عورتیں ایک بڑے کمرے میں موجود۔۔ ایک بستر پر چھوٹا نومولود اس کے دائیں طرف اور تین لمبی تڑنگی عورتیں اس کے دونوں طرف. 
"کون ہو تم ؟" وہی سب سے لمبی عورت جو مزار پہ آئی تھی۔ بارعب بلند آواز میں بولی۔۔۔
عبدالشکور کی ایک دم گھگھی بندھ گئی۔۔۔۔ اس نے کبھی کسی عورت سے منجن بیچنے خریدنے کے علاوہ بات نہیں کی تھی۔۔ اور یہ تو بہت دبنگ عورت کی بلند آواز تھی۔۔ کچھ لمحے سناٹا رہا سب ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔۔ پھر ایک کافی بڑی عمر کی عورت جو دائی تھی وہ آرام سے بولی۔
"۔بیٹا کون ہو تم؟ کیا چاہتے ہو؟"
اس کے نرم لہجے سے عبدالشکور کی طبعیت بحال ہوئی۔۔
اور وہ کچھ بولنے کے قابل ہوا۔۔ اس نے کپکپاتی آواز میں پوچھا
"کیا اس بچے کو مارنے کی بات ہورہی ہے؟"
ایک دم اس نے سیدھا سوال پوچھ لیا
"۔۔۔ہاں۔”۔۔۔ دائی نے بھی بھرپور اعتماد سے جواب دیا
"۔۔۔لیکن کیوں؟ "
اس عورت نے اسے اشارے سے اپنے پاس بلایا۔۔۔
وہ نہیں ہل پایا۔۔ پھر دوبارہ اشارہ کیا تو عبدالشکور کے قدم اٹھنے کے قابل ہوئے۔۔۔
ہچکچاتے ہوئے اس عورت کے قریب پہنچا۔۔۔
اس عورت نے خاموشی سے بچے پہ پڑا کپڑا ہٹا دیا
عبدالشکور دم بخود رہ گیا۔۔
بچہ مخنث تھا۔۔۔ یعنی ہیجڑا۔۔۔
اور اچھے الفاظ میں خواجہ سرا ۔۔
عبدالشکور کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔۔ بلکنے لگا۔۔۔سسکنے لگا۔۔۔ ساری خواتین اس کی طرف ہمدردی اور اپنائیت سے دیکھنے لگیں۔۔۔ دائی نے آگے بڑھ کر کندھے پہ ہاتھ رکھا. 
جیسے کہہ رہی ہو بیٹا چپ ہو جاؤ۔۔۔
کچھ پل رونے تڑپنے کے بعد  اس نے اچانک یا لاشعوری طور پر ان عورتوں کے سامنے ہاتھ جوڑ لیے کہ۔۔۔
"اسے مت مارو خدا کا واسطہ ہے اسے مت مارو"
ان چاروں میں سے دو عورتیں غصے میں آ گئیں، ایک دائی اور دوسری مزار پہ حاضری والی۔۔
"تمھیں کیا تکلیف ہے۔۔ اس عورت کو دیکھو، دوسری بار ایسی اولاد ہوئی ہے۔ پہلی اولاد تو باپ نے خواجہ سراؤں کو دے دی تھی۔۔ اب وہ مر گیا ہے اسے کون پالے گا."
"میں پالوں گا"
اس جملے نے سب کو حیران کر دیا، سب ہکا بکا ہوگئے. 
"تمھارا دماغ ٹھیک ہے۔۔۔"
"کیسے پالو گے. کیسے سنبھالو گے، اس معاشرے میں۔۔۔۔طعنے تشنے اور پھر انجام وہی۔۔ یا تو اسے خواجہ سرا لے جائیں گے یا پھر یہ خود بھاگ جائے گا۔۔
اور اگر یہ زندہ رہا تو اس کی ماں کو اس کی فکر پڑی رہے گی اور وہ کسی کام کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔۔
روز روز پل پل جینے مرنے تڑپنے سے بہتر ہے کہ ابھی اس کا قصہ پاک کر دیا جائے."
اس جذباتی تقریر کے باوجود عبدالشکور اپنے مؤقف پہ قائم تھا کہ۔۔۔
"میرا وعدہ ہے، میں اسے پالوں گا، اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔۔ اس کو اس کی ماں سے محروم مت کرو۔۔ اس کو مت مارو۔۔۔ میں اسے سنبھال لوں گا۔۔ یہ جیے گا سرا ٹھاکر جیے گا۔۔۔
میں اسے مضبوط بنا دوں گا۔۔۔۔"
اب کہ پہلے سے بڑھ کر جذباتی تقریر سننے کو ملی۔۔۔
پھر اس کے مد مقابل عورت شروع ہوئی:
"تمھیں پتہ ہے کہ یہ مرد بنے گا نہ عورت۔۔۔ اس معاشرے میں تو عام انسان کا جینا مشکل ہے۔۔ جب کہ یہ بچہ تو ویسے ہی لوگوں کی حقارت کا نشانہ بنے گا۔۔ لوگ اس کا مضحکہ اڑائیں گے۔۔ اس کا جینا دوبھر کردیں گے۔۔ نہ زندوں میں ہوگا نہ مردوں میں۔۔۔ جذبات مچلیں گے۔۔ لیکن اس کے پاس سنبھالنے والا نہیں ہوگا، یہ ایک اچھی زندگی نہیں جی سکے گا. 
تمھیں کیا اندازہ اس کے دکھ کا اس کے نقص کا۔۔۔۔"
اب کی بار وہ عورت تھکی تھکی اور دل برداشتہ آواز میں بولی اور پھر چپ ہوگئی۔۔۔۔ جیسے اسے معلوم تھا کہ وہ غلط ہے۔۔۔
"مجھے اندازہ ہے اس کے دکھ کا، اس کے نقص کا"
عبدالشکور بھر پور اعتماد سے بولا۔۔۔
"میں اس کے دکھ کو محسوس کر سکتا ہوں۔ کیونکہ"
اس کی زبان لڑ کھڑائی۔۔. لیکن وہ سنبھل کے بولا۔۔۔
"میں بھی اس جیسا ہوں"
"کیا۔"
۔سب عورتیں بیک وقت بیک زبان بول پڑیں، سوائے بچے کی ماں کے۔۔
بچے کی ماں کے چہرے پہ اطمینان کے تاثرات تھے۔
"تو کیا تم اسے ساتھ لے جاؤ گے."
ایک دم ماں کے چہرے پہ تشویش ابھری۔۔۔
"”ابھی نہیں… دو سال بعد۔۔۔" عبدالشکور نرمی سے بولا. 
"وہ کیوں؟"
مزار والی عورت چیخی۔۔۔
” ابھی اسے اس کی ماں سے دور کرنا اس پر اور اس کی ماں کی مامتا پہ ظلم ہوگا، ابھی اس کو ماں کے دودھ کی ضرورت ہے۔۔ اس کی نرم گرم آغوش کی ضرورت ہے۔"
کسی کو یقین نہیں آیا.
کہ یہ شخص ضرور جھوٹ بول رہا ہوگا۔۔۔ لیکن جھوٹ بولنے کی مناسب اور منطقی وجہ سمجھ نہیں آئی تھی۔۔۔ اس لیے حیرت زدہ تھیں سب۔۔۔
عبدالشکور نے اپنا مکمل پتہ اور اپنے سارے خاندان کا پتہ انھیں لکھ کے دیا اور کہا۔۔
"”جھوٹ نہ سمجھو، فرض کیا کہ اگر میں نہ آ سکا تو کوئی بھی خواجہ سرا اسے اپنے ساتھ لے جائے گا۔
تم تو اسے ویسے بھی مارنا چاہتی ہو تو تھوڑا صبر کر لو۔
ابھی تو ماں بھی اس کی قربت کی خواہاں ہے۔۔ اس کی خاطر ہی رک جاؤ۔۔۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا یہ بچہ دو سال بعد مر جائے گا۔۔۔
***
ارم رحمان کی کی گذشتہ تخلیق :حکیم حکمت اللہ بقائی

شیئر کیجیے

One thought on “دو سال

  1. Name : murtaza khan
    Email : murtazakhana641@gmail.com
    Message : بہت عمدہ افسانہ اور خاص کر ایسے موضوع پر جس پر آج معاشرے میں بات کرتے ہوئے شرم آتی ہے ارم رحمان کے قلم سے چند لائنوں میں اس نازک مسئلے پر قلم اٹھا کر سوچنے پر مجبور کر دیا کیا ایک مخنث اللہ کی تخلیق نہیں ہم کتے سے بلی سے پرندوں سے محبت کر سکتے ہیں ایک مخنث سے کیوں نہیں ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے