کتاب: سوئے حرم چلئے

کتاب: سوئے حرم چلئے

مصنف : عبدالودود انصاری
اشاعت : 2023ء
صفحات : 188
قیمت : فی سبیل اللہ
مبصر : انصار احمد معروفی

اللہ تعالیٰ جس بندے کو حج و عمرہ کی توفیق عطا فرمادیں وہ بندہ بہت خوش نصیب اور سعادت مند ہے۔ یوں تو ہر مسلمان کے دل کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وہ پاک گھر کعبہ شریف اور روضہ اطہر کی زیارت سے بہرہ ور ہو جائے جس کی محبت مومن کے رگ و ریشے میں بچپن سے پیوست رہا کرتی ہے، اس کی آخری تمنا یہ ہوتی ہے کہ وہ بیت اللہ کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو نور اور سرور پہنچائے جس کی جانب رخ کر کے وہ زندگی بھر ساری نمازیں ادا کرتا رہا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے یہ شرف اسی کو حاصل ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ خود اپنے گھر بلانے کا پروانہ جاری کرتے ہیں۔ اور اسے اپنے دربار میں حاضر ی کا موقع دے کر اسے اپنی قربت کی سعادت بخشتے ہیں۔
جس طرح ہر مسلمان اللہ کے گھر خانہ کعبہ سے محبت رکھتا ہے، اسی طرح وہ اس کے پاک گھر کی زیارت کرنے والوں اور اس کا طواف کرنے والوں سے بھی محبت رکھتا ہے، اسی محبت کا کرشمہ اور کشش ہوتی ہے کہ اللہ کے گھر جانے والے حجاج کرام کی مشایعت کے لیے لوگ اپنے گھروں سے نکل جاتے ہیں اور دور تک پیدل جا کر رخصت کرکے بھیگی آنکھوں کے ساتھ واپس آتے ہیں، نیز حج و عمرہ سے بامراد واپسی پر خوشی اور مسرت میں ان کی دعائیں لینے کے لیے استقبال کرنے بھی جاتے ہیں، ان سے سلام و مصافحہ کے ساتھ معانقہ بھی کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں سے لگاتے اور سر پر پھیرتے ہیں۔
حجاج کرام بھی بڑی محبت، روحانیت اور سعادت کے ساتھ وہاں کی نورانی اور روحانی باتیں لوگوں کو سناتے ہیں تاکہ ان کے دل میں وہاں کی محبت مزید پیوست ہو جائے اور یہ بھی وہاں پہنچنے کے لیے تیاری شروع کردیں، کچھ لوگ زندگی کے ان بیش قیمت لمحات کو قید قلم و قرطاس کرکے محفوظ کرلیتے ہیں اور موقع ملنے پر وہ سرگزشت اشاعت کے مرحلے تک پہنچا کر بہت سے لوگوں کو اپنا شریکِ سفر بنالیتے ہیں، جنھیں پڑھنے کے بعد دل میں وہاں پہنچنے کی ایک عجیب سی ہلچل مچ جاتی ہے اور قاری کو دیار محبوب میں پہنچنے کی محبت یکایک جوش مارنے لگتی ہے۔
ایک ہی واقعہ اور ایک ہی منظر کو انسان الگ الگ انداز سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے، جو انسانوں کے مختلف المزاج ہونے اور واقعات سے جدا جدا سبق و عبرت پذیری کی نشان دہی کرتا ہے۔ اب سفر حج و عمرہ کے مشاہدات و تاثرات اور دلی کیفیات کا اگر اندازہ لگانا ہے تو آپ حج کے مختلف سفرناموں کا مطالعہ کریں جس سے احساس ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک قلم کار کے اخذ و اکتساب اور اس کے وسیلہ اظہار کے اسلوب کو کتنا ایک دوسرے سے منفرد رکھا ہے، جب کہ وہ اپنی اپنی جگہ مکمل بھی ہے اور قابلِ استفادہ بھی۔ جس طرح ہر ایک کا انداز تکلم اور وسیلہ بیان و طریقہ گفتگو الگ الگ ہوتا ہے یوں ہی اس کے انداز تحریر میں بھی نمایاں فرق ہوتا ہے۔
”سوئے حرم چلئے“ حج کا تازہ سفر نامہ ہے، جسے مشہور مصنف، ادب اطفال کے نمائندہ قلم کار اور سائنس نگار جناب الحاج عبد الودود انصاری صاحب نے محبت اور عشق میں ڈوب کر تحریر کیا ہے، اور خوشی و سعادت کی بات ہے کہ یہ سفرنامہ دیار شوق میں باوضو ہو کر لکھا گیا ہے، جس سے اس کے تقدس و احترام میں اضافہ ہوگیا ہے۔ تاہم اس کی موجودہ ترتیب اور اضافہ وطن واپسی کے بعد ہوا ہے۔
مصنف تحریر کرتے ہیں: ”حج کی فرضیت گناہ گار پر برسوں پہلے ہوچکی تھی، جس کی وجہ سے دل میں خواہش بار بار کروٹیں لے رہی تھی، کیونکہ فریضہ حج کی تکمیل سے روگردانی کی پاداش سوچ کر دل کانپ اٹھتا تھا، کبھی کبھی یہ بھی سوچتا کہ میں سراپا گناہ گار، خطا کار اور سیاہ کار کس منہ سے خانہ خدا میں قدم رکھوں گا اور کس منہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک پر حاضری دوں گا؟ کہ ہاتف کا یہ پیغام حوصلہ بخشا کہ تم گناہ گار ہو لیکن اللہ تو غفور الرحیم ہے۔"
آگے مصنف اسی سلسلے میں سبق آموز بات لکھتے ہیں: ”میری خوش نصیبی یہ بھی ہے کہ مجھے طالب علمی کے زمانے سے ہی فجر کی نماز کے بعد سونے کی عادت نہیں رہی، جس کی وجہ سے مختلف مضامین لکھنے اور متعدد کتابوں کی تصنیف کرنے میں کامیاب و بامراد تھا، بس اسی عادت کے تحت روزانہ کی روداد حرم شریف میں بھی بعد نماز فجر مکمل کرتا رہا، اس حقیقت کا انکشاف بھی کرتا چلوں کہ وطن آکر اس کتاب کو باوضو ہوکر مرتب کیا تاکہ برکت کے ساتھ کوئی غلطی یا زائد جملہ نہ لکھا جائے. "
مصنف کا یہ سفر نامہ حج 2022 کا ہے۔ جس میں مصنف نے ابتدا میں حج کی اہمیت، تربیت، حج کی قسمیں، حج کی چند اصطلاحات، حج کا فلسفہ، قرآن میں حج کا ذکر، اور حج مبرور کی برکات وغیرہ کا تذکرہ حوالے سے کیا ہے۔
مصنف حج کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے خانہ کعبہ کے متعلق لکھتے ہیں: ”کعبہ دراصل ایک خالی گھر ہے، جس میں چند ستونوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں، اللہ اگر چاہتا تو اس گھر کو دنیاوی سونے چاندی، اور ہیرے جواہرات سے بھر دیتا، لیکن اسے خالی رکھا، سوائے اپنی رحمت کے، حاجی بھی حج سے واپس آکر کعبہ کی طرح اپنے دل کو غیر اللہ سے خالی کرے، حسد، کینہ، اور بغض سے خالی کرے اور اس میں اللہ کا نور داخل کرنے کی کوشش تمام زندگی کرتا رہے." ص 42۔
مصنف نے پھر حج و عمرہ کا طریقہ اور ان دونوں کے فرق کو واضح کیا ہے۔ اس کے بعد اپنے اصل سفرنامے کا آغاز کیا ہے، اس سفرنامہ کو حرمین شریفین کی محبت اور حج و عمرہ کے عشق میں ڈوب کر پڑھنا چاہیے، بالخصوص ان عازمینِ حج و عمرہ کو؛ جو حج و عمرہ کی نیت کرچکے ہیں، میں نے جب اس زاویے سے ذوق و شوق کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا تو جگہ جگہ مقامات مقدسہ کی کشش اور ان کی محبت کی وجہ سے بلا اختیار آنکھیں تر ہوگئیں، نمدیدہ ہوگیا اور تڑپ کر جی چاہا کہ کاش میں بھی مصنف عبد الودود انصاری صاحب کے ہم رکاب ہوتا اور ان سعادتوں سے بہرہ ور ہوتا، جن سے مصنف لطف اندوز ہوچکے ہیں۔
مصنف  گھر سے روانگی، ائیرپورٹ، پرنم آنکھوں سے الوداعی ملاقات، جہاز کے اڑان بھرنے اور اترنے، نیز سعودی ایئر لائن کی خوبیوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ مکہ کی فضیلت اور خانہ کعبہ پر پہلی نظر کی منظر نگاری اور طواف کے تذکرہ کے بعد لکھتے ہیں: ”جی بھر کر زمزم پیا، اور خوب پیا، اب مسئلہ سعی کا تھا، معلوم نہیں کدھر جانا ہے؟ میں بالکل نہ گھبرایا، کہ جو خدا یہاں تک لاسکتا ہے وہی رہ نمائی کرکے سعی کرنے کے لیے صفا پر بھی لے جا سکتا ہے، ایسا ہی ہوا، خود آگے کی جانب بڑھتا گیا تو انگریزی میں start for sayee لکھا دیکھا، اس کو دیکھ کر بالائی حصہ پر چڑھا، کعبہ پر نظر کرکے خوب دعائیں مانگیں اور اللہ سے کہا کہ تو جانتا ہے میں گھٹنے کے درد کا مریض ہوں، سعی میرے بس میں نہیں، لہذا آپ سے پیروں میں قوت مانگتے ہیں، اللہ نے فریاد سنی، اور پیروں میں غیبی طاقت عطا کی اور ساتوں چکر لگانے میں کامیاب ہوا." ص 55۔
مصنف نے روزانہ کی ڈائری لکھی ہے اور ایام حج کے تمام احوال اور اللہ تعالیٰ کی نصرتوں کے علاوہ اپنے مشاہدات و تاثرات کو قارئین سے شیئر کرنے اور رہ نمائی کی کوشش کی ہے۔ اس دوران آپ نے جن تاریخی مقامات مقدسہ کی زیارت کی ان کا تعارفی خاکہ اور قدرے تفصیلی تذکرہ بھی پیش کردیا ہے۔ مکہ میں آپ نے حرم شریف کی الحرم لائبریری میں اپنی 8 تصانیف جمع کرائیں، اس مکتبہ کے متعلق مصنف نے تحریر کیا ہے: ”یہ لائبریری بیت اللہ کے اندر باب فہد کے گیٹ نمبر 80 کے قریب دو منزلہ عمارت پر قائم ہے جو 1000 مربع میٹر پر مشتمل ہے، اسے مکتبۃ المسجد الحرام کہا جاتا ہے، اس کے اندر 5600 عنوانات پر کم و بیش تیس ہزار کتابیں دستیاب ہیں، دن رات کھلی رہتی ہے، کوئی بھی کسی وقت استفادہ کرسکتا ہے." ص 69۔
باب مکہ کے بعد ذکر مدینہ کے عنوان سے مصنف نے ایک باب باندھا ہے جس میں مدینہ منورہ کے روحانی اور مبارک سفر کا دل نواز تذکرہ کیا ہے۔ ابتدا میں مدینہ منورہ کے فضائل کی کئی حدیثیں ذکر کی ہیں، مکہ میں تلبیہ یعنی لبیک کی پرسوز تکرار کی تاثیر اور اس کو زبان سے مانوس ہوجانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”دوپہر بارہ بجے مدینہ کی روانگی کی ہدایت تھی، ایک ایک حاجی کا شمار کیا گیا، چار پانچ بار گنتی ہوئی، شمار کرنے والے، حاجی اور حجن کا نام پکارتے، حاجی اور حجن لبیک کہہ کر جواب دیتے، اردو اور بنگلہ داں حاجیوں کا عربی میں لبیک کہہ کر جواب دینا بہت اچھا لگ رہا تھا اور ہنسی بھی آرہی تھی، ایسا لگ رہا تھا کہ سبھوں کو عربی پر عبور حاصل ہے." ص 91۔
آگے زیارت مسجد نبوی اور دیدار روضہ مبارک کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”سوچا تھا کل جمعہ ہے، عمدہ لباس پہن کر اور عطر سے معمور ہوکر روضہ کی زیارت کروں گا، مگر دل کہاں مانا؟ عشاء کی نماز کے فورا بعد ہی روضہ مبارک کی جانب کپکپاتے قدم، دھڑکتے دل، فرطِ مسرت سے معمور، زبان پر درود کی ڈالی، لب پر سلام کا نذرانہ، باادب ننگے پیر، آہستہ آہستہ نگاہیں نیچی کرکے باب سلام کی جانب بڑھتا گیا، نہ کوئی بتانے والا نہ کوئی رہ نمائی کرنے والا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانی کشش ہی آپ کے روضہ کے سامنے پہنچنے کی سعادت بخشتی ہے، دل میں ہر آن یہ احساس ہورہا ہے کہ کس منہ سے روضہ پر جاؤں گا، میرا گناہ پہاڑ سے بھی اونچا ہے، میں کہاں اس قابل کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا منہ دکھاؤں، مگر غیب سے آواز آئی، اے میرے گنہ گار! عبد الودود، تو یقیناً گنہ گار ہے، سیاہ کار ہے، بدکار ہے، مگر تمھیں جب اللہ نے حج کی سعادت لکھ دی ہے تو تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی تم سے راضی ہو جائیں گے." ص 95۔
مصنف نے پھر مدینہ منورہ کے آثار قدیمہ اور مقامات مقدسہ کی زیارت کا ذکر کیا ہے۔ جس میں مسجد قباء، قبلتین، مسجد جمعہ، غمامہ، خندق اور جنت البقیع کا تذکرہ اور تصویر بھی شامل کتاب ہے۔
کتاب ”سوئے حرم چلیے” کے مصنف حاجی عبد الودود انصاری صاحب نے کچھ مشورے بھی حجاج کرام اور سعودی حکومت کو دیے ہیں۔ سعودی حکومت کی خدمات اور اعلا انتظام کی تعریف کرنے کے پہلو بہ پہلو لکھا ہے کہ: ”حج کا ایک واجب رکن حلق یا قصر ہے، منی میں حلق یا قصر کرانے کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے، مصنف حاجیوں کی رہ نمائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حج میں جانے سے قبل اپنے ذمہ حقوق العباد کی ادائیگی کرکے جائیں، نیز حج پہ جائیں تو پاکٹ سائز کا قرآن لے جائیں جس سے آپ کو بہت سہولت ہوگی۔" ص 134۔
یہ سفرنامہ محض سفر نامہ نہیں ہے، کیوں کہ اس میں تاریخی مقامات کی فہرست اور تفصیلی تذکرہ کے علاوہ خاص بات یہ ہے کہ اب تک اردو زبان میں حج و عمرہ سے متعلق جتنی کتابیں لکھی گئیں ہیں ان کی فہرست اور مصنف کا نام بھی سن وار دے دیا گیا ہے، ساتھ ساتھ اب تک جتنے حج و عمرہ کے اردو یا فارسی سفرنامے تحریر کیے گئے ہیں ان کی بھی طویل فہرست شائع کردی گئی ہے۔ مصنف نے یہ کام نہایت خوش اسلوبی اور عرق ریزی سے انجام دینے کی کوشش کی ہے۔ حج کے سفرنامے کے تعلق سے کتابوں کی طویل فہرست ہے، جس میں 205 کتابیں شامل ہیں۔ اسی طرح حج وعمرہ کی رہ نمائی کے متعلق کتابوں کی فہرست میں بھی 204 کتابوں کے نام لکھے گئے ہیں۔ حجاج کرام ان میں سے جون سی کتاب کو منتخب کرکے مطالعہ کرلیں ان کے حق میں بہتر ہوگا۔
اسی کے ساتھ مصنف نے حج و عمرہ سے متعلق ہندی اور انگریزی کتابوں کی فہرست بھی شائع کردی ہے، ان کی تعداد 106 ہے۔ آخر میں مصنف نے اپنا تعارف بھی شاملِ کتاب کردیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ آپ کی پیدائش 12 ستمبر 1957 کو آسنسول بردوان میں ہوئی، آپ نے ایم ایس سی (ریاضی)، بردوان یونی ورسٹی اور ایم ایڈ ہماچل پردیش یونی ورسٹی شملہ سے کیا۔ آپ کی خدمات کے اعتراف میں مختلف اداروں نے ایوارڈ اور انعامات سے آپ کو نوازا ہے، آپ کی اب تک 34 کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں اردو کے سائنسی ادب میں خواتین کا کردار، ہندستان میں بچوں کا سائنسی ادب اور ادیب وغیرہ تحقیقی اور ہندستان کی اولین کتابیں شامل ہیں۔ آپ سے رابطے کا ذریعہ۔ 9674895325 ہے۔
”سوئے حرم چلئے“ کتاب 188 صفحات پر مشتمل ہے، کاغذ اور طباعت معیاری ہے، جسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی نے شائع کیا ہے، جو للہ فی اللہ رضائے الٰہی کے لیے تقسیم کی جارہی ہے۔ حج و عمرہ کی زیارت سے مشرف ہونے والوں کے لیے یہ کتاب بہت نافع اور رہ نما ثابت ہوگی۔ اخیر میں مصنف نے قاری سے دعا کی درخواست کی ہے۔ امید ہے یہ کتاب حج کے سفرنامہ میں ایک قیمتی اضافہ ہوگا۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :کتاب: ہندوستانی خواتین کی اردو سائنسی خدمات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے