مقدمہ زاویہ نظر

مقدمہ زاویہ نظر

(مولانا ڈاکٹر) ابو الکلام قاسمی شمسی
سابق پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ

مولانا مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی زود نویس صاحب قلم ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں گوناں گوں صفات سے نوازا ہے، وہ تقریر و تحریر دونوں پر یکساں عبور رکھتے ہیں، جہاں تک تقریر کی بات ہے تو خوب بولتے ہیں، اور زور دار تقریر کرتے ہیں، ان کی تقریر دینی، علمی اور فکری ہوتی ہے، جو ان کو عام مقررین سے ممتاز کرتی ہے، جہاں تک تحریر کی بات ہے، تو ان کا قلم رواں دواں ہے، اپنی بات کو سجا کر پیش کرنے کا فن جانتے ہیں، وہ علمی مضامین اور تحقیقی مقالات بھی لکھتے ہیں، حالات حاضرہ پر تبصرہ بھی تحریر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں صحافتی ذوق سے بھی نوازا ہے، وہ امارت شرعیہ کے ہفت روزہ ”نقیب“ کے ایڈیٹر ہیں، نقیب میں مختلف موضوعات پر ان کے افکار و نظریات شائع ہوتے ہیں، ان کے مضامین، مقالات اور کتابوں کی تعداد دیکھنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ وہ بر جستہ لکھتے ہیں، اور خوب لکھتے ہیں، ان کی تحریر میں جاذبیت اور کشش ہوتی ہے، لوگ شوق سے پڑھتے ہیں، ان کی تحریر میں فن اور فکر دونوں کا امتزاج  ہوتا ہے، جس کی وجہ سے پڑھنے والے اکتاتے نہیں ہیں، نیز پڑھنے کے بعد خالی ہاتھ نہیں رہتے، بلکہ ان کو فکر کا خزانہ حاصل ہوتا ہے، اس طرح وہ اپنے معاصر ین میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔
مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی با وقار عالم دین، بہترین صاحب قلم، کامیاب خطیب، ماہر صحافی، اچھے ادیب اور کامیاب محقق ہیں، ان کی تصانیف ہر موضوع پر دستیاب ہیں، ان کی تصانیف میں مذکورہ صفات کا جلوہ نظر آتا ہے، یہ اللہ کی بڑی نعمت ہے، جس سے اللہ نے انھیں نوازا ہے۔ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا اانھوں نے حق بھی ادا کیا ہے، یہ اللہ کی طرف سے توفیق ہے، جو انھیں من جانب اللہ عطا کی گئی ہے۔
مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی امارت شرعیہ کے ہفت روزہ نقیب کے ایڈیٹر ہیں، نقیب کی ادارت نے انھیں ایک دوسرا میدان فراہم کیا ہے، وہ صحافی ہیں، کہنہ مشق صحافی، وہ میدان صحافت میں بھی نمایاں نظر آتے ہیں، ان کی تازہ تصنیف ”زاویہ نظر“ کا مسودہ میرے سامنے ہے، اس میں ان کی تحریر کردہ اداریے ہیں اور وہ مضامین ہیں، جو نقیب میں شائع ہوئے ہیں، یہ ملی، تعلیمی سماجی اور لسانی حالات پر تجزیاتی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔
موجودہ دور تکنیکی دور ہے، لوگ کسی چیز میں زیادہ وقت لگانا پسند نہیں کرتے ہیں، اس دور کا اثر قارئین پر بھی نظر آتا ہے، ان کو طویل مضمون پڑھنے کی فرصت نہیں، وہ چاہتے ہیں کہ کسی مضمون کو پڑھیں تو جلد ختم ہوجائے اور جلد نتیجہ پر پہنچ جائیں، یہی وجہ ہے کہ بڑی بڑی کتابوں کی جانب رجحان میں کمی آتی جا رہی ہے، اب لوگ مختصر کتابوں کو پڑھنا پسند کرتے ہیں، اس لیے مختصر کتابوں کا رواج بڑھتا جا رہا ہے، ادبی اصناف میں ایک صنف ناول ہے، پہلے لوگ طویل ناول پڑھنے کو پسند کرتے تھے، پھر وقت کے تقاضے کے مطابق افسانہ کا وجود ہوا، پھر اس کے بعد منی افسانہ کا رواج بڑھا، یہ وقت اور حالات کا تقاضا ہے، موجودہ وقت میں پڑھنے والے کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جلد مطالعے سے فارغ ہوجائے اور کچھ ضروری معلومات اپنے مطالعہ سے حاصل کر لے، اسی تقاضے نے مضامین کے مجموعے کی اشاعت کی طرف متوجہ کیا ہے، چونکہ مضامین کے مجموعے میں ہر مضمون ایک اکائی ہوتا ہے، جس کو قاری پڑھ کر مطمئن ہوجاتا ہے، پھر وہ دوسرے مضمون کو پڑھنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتا ہے، اس طرح مضامین کے مجموعے کی طباعت کا رجحان بڑھتا نظر آرہا ہے۔ ”زاویہ نظر“ بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے، جو نقیب میں شائع شدہ مضامین کا مجموعہ ہے، جس میں پانچ ابواب ہیں۔ باب اول مذہبیات۔ باب دوم تعلیمات۔ باب سوم سماجیات، باب چہارم لسانیات اور باب پنجم متفرقات پر مشتمل ہے۔
باب اول میں مذہبیات پر ۹۵ مضامین ہیں، ان مضامین میں مذہبی رہ نمائی کی گئی ہے، آج ہم جس دور سے گزر  رہے ہیں، یہ پُر فتن دور ہے، مذہب میں رسم و رواج اس طرح داخل ہو گئے ہیں کہ مذہب پر رسم و رواج کا غلبہ ہوتا نظر آ رہا ہے، اس لیے موجودہ وقت میں مذہب کے سلسلہ میں رہ نمائی ضروری ہے، اس باب میں مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی نے عالم و مفتی ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے، اور حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، مضبوط اور مدلل انداز میں اپنی بات رکھی ہے، مضامین کے عنوانات سے پتا چلتا ہے کہ یہ مضامین مختلف مواقع پر وقت اور حالات کے اعتبار سے تحریر کیے گئے ہیں، اس طرح یہ مضامین موجودہ وقت اور حالات میں فکری رجحانات کی بھی ترجمانی کرتے ہیں، اس باب کے پہلے مضمون کا عنوان ہے ”رحمة للعالمین“ ۔ مضمون سے ظاہر ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر مشتمل ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند تعلیمات کا بھی ذکر ہے، جس سے آپ کی رحمت نمایاں طور پر ظاہر ہوتی ہے، اس موقع پر انداز تحریر مثالی ہے، تحریر کرتے ہیں:
”درختوں کو بلا ضرورت کاٹنے اور جنگ کے موقع سے انھیں برباد کرنے سے بھی منع کیا گیا، کیونکہ یہ ہمارے لیے ماحول کے تحفظ کا بڑاذریعہ ہیں، فرمایا گیا کہ اگر قیامت قائم ہو جائے اور تمھارے پاس اتنی مہلت ہو کہ تم ایک پودا لگا سکتے ہو تو لگا دو، پھل دار درخت لگانے والوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہو اکہ جس درخت کے پھل سے انسانوں نے اور پتوں سے جانوروں نے فائدہ اٹھایا تو یہ صدقہ ہے، اور ایسی تمام کوشش جس سے ماحول خراب ہو، فضائی آلودگی پیدا ہو ”فساد فی الارض“ کے قبیل سے ہے۔
ماحولیات کے تحفظ اور ہر قسم کے جاندار کے لیے پانی کی اہمیت ظاہر ہے، حکم دیا گیا کہ اسے ناپاک نہ کرو، پینے اور دوسری ضرورتوں کے لیے اسے پاک و صاف رکھو، پانی میں پیشاب نہ کرو، سو کر اٹھو تو بغیر ہاتھ دھوئے پانی کے برتن میں ہاتھ مت ڈالو، پانی پیتے وقت برتن میں سانس مت لو، مشکیزے، گھڑے اور پانی کے برتن کو ڈھانک کر رکھو، یہ ہدایات ہر اعتبار سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت و رحمت کا مظہر ہیں۔“ (صفحہ ١٥)
اسی طرح ایک مضمون کا عنوان ”علاقائی عصبیت“ ہے. اس مضمون میں علاقائی عصبیت کے نقصانات کا جائزہ مذہب کی روشنی میں لیا گیا ہے، مذہب کی روشنی میں جائزہ لینے سے مضمون میں زور پیدا ہو گیا ہے، نیز سماجی اور سیاسی حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے، تحریر کرتے ہیں:
”جس طرح شرم و حیا ختم ہوجائے تو آدمی کچھ بھی کر گزرتا ہے، اسی طرح جب سیاست میں اخلاقیات نے دم توڑا تو وہ سارا کچھ ہونے لگا جو انہونی کہا جاتا تھا، انھی میں سے ایک علاقائی اور ریاستی عصبیت ہے، جس نے گجرات میں اس زور و شور سے سر اٹھایا ہے کہ شمالی ہندستان کے مزدور جو وہاں برسوں سے کام کر رہے تھے، انہیں اپنی ملازمت چھوڑ کر بھاگنا پڑ رہا ہے، ان کے اندر مار، کاٹ، قتل و غارت گری اور خون ریزی کی ایسی دہشت پیدا کر دی گئی ہے کہ اب تک پچاس ہزار سے زائد لوگ گجرات چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں، کارخانوں میں مزدوروں کی کمی ہو گئی ہے اور ظاہر ہے اس کا سیدھا اثر پیداوار پر پڑ رہا ہے، کانگریس اور بی جے پی والے اس صورت حال کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں، بات ایک شیر خوار بچی کی آبرو ریزی سے شروع ہوئی تھی، ظاہر ہے مجرم کوئی ایک تھا، اسے قانون کے حوالہ کرکے سزا دلانی چاہیے تھی، تاکہ درندگی اور حیوانیت کے اس سلسلے کو روکا جا سکے، لیکن اس واقعہ کا سہارا لے کر گجرات خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا گیا، کانگریس کے الپیش ٹھاکر اور دوسرے کئی سیاسی لوگوں کے بیانات بھڑکانے اور خوف و دہشت پیدا کرنے والے آئے، اس کی ویڈیو کلپ بھی ٹی وی چینلوں نے جاری کیا، لیکن گجرات حکومت الپیش کو گرفتار نہیں کر سکی اور بہ ظاہر اس کا ایسا کوئی ارادہ بھی نہیں دکھتا، تو کیا شمالی ہندستان کے مزدوروں سے گجرات کو خالی کرانے میں دونوں پارٹیوں کی ملی بھگت ہے اور یہ سارا کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق منظم انداز میں کیا جا رہا ہے۔“ (صفحہ ١١٠)
مزید تحریر کرتے ہیں:
” لیکن اس عصبیت سے سب سے بڑا نقصان اس ملک کی سالمیت کو پہنچ رہا ہے، اس کی وجہ سے ملک کے اتحاد کو خطرہ لا حق ہو رہا ہے، اور ہر ذی شعور آدمی یہ سوچ سکتا ہے کہ اگر ہندستان کی تمام ریاستوں میں اس انداز کا ماحول پیدا ہوا تو ملک کے وفاقی ڈھانچہ کو کس قدر نقصان پہنچے گا؟ ہر ریاست خود مختاری کی طرف تیزی سے قدم بڑھا نے لگے گا، ملک کا جو نقصان ہوگا وہ تو طے ہے، یہاں کا معاشی نظام، کل کارخانوں میں پیدا وار کی کمی کی وجہ سے تباہ ہو کر رہ جائے گا، جو اب بھی روپے کی گرتی قیمت کی وجہ سے خطرے کے نشان کو پار کرتا جا رہا ہے۔
اسی لیے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ علاقائی بنیادوں پر کسی کو فضیلت اور بر تری حاصل نہیں ہے، سب کے سب آدم کی اولاد ہیں اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے۔ (صفحہ ۱۱۱)
باب دوم کا عنوان ”تعلیمات“ ہے اس باب میں ١٩ مضامین ہیں، ہر مضمون کا انداز نرالا ہے، ابتدا حالات کے تناظر میں ہے اور اختتام پر کسی نتیجہ کو اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کی وجہ سے مضمون کی اہمیت اور افادیت بڑھ گئی ہے، اس باب کے مضامین میں سے ایک مضمون کا عنوان ”فکری یلغار“ ہے، اس کے تحت مصنف تحریر کرتے ہیں:
”قدیم زمانے میں لڑائیاں جسمانی طاقت و قوت، چستی پھرتی اور حکومتوں کی فوجی منصوبہ بندی کے ذریعہ ہوا کرتی تھیں، مقابلہ آمنے سامنے کا ہوتا تھا، اور جیت ہار کا فیصلہ فوجوں کی شکست پر ہوا کرتا تھا، لیکن اب لڑائیاں آمنے سامنے نہیں ہوتی ہیں؛ سائنسی ترقیات نے اس طریقہ کار کو از کار رفتہ کر دیا ہے، اب تو آسمان سے آگ برستی ہے، سمندر کے راستے بحری بیڑے چلتے ہیں، اور پل بھر میں دشمن کے ٹھکانوں کو نیست و نابود کر کے واپس ہوجاتے ہیں، جن کے پاس نیو کلیائی ہتھیار ہیں، ہلاکت خیز میزائیل ہیں، ان کی زد میں دنیا کے بیشتر ممالک ہیں اور وہ بھبھکیاں دے دے کر کم زور ملکوں کا جینا حرام کیے ہوئے ہیں، لیکن یہ چھوٹی جنگ ہے اور یہ زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہا کرتی ہے۔ لیکن جنگ کا ایک دوسرا میدان انتہائی وسیع ہے، اس میدان میں توپ، میزائیل، ٹینک، گولے بارود نہیں ہوتے، بلکہ اس لڑائی میں فکری یلغار ہوتی ہے، انتہائی منظم اور غیر معمولی منصوبہ بند، اس حملہ کے اثرات کھیت، کھلیان، گھر، مکان اور دوکان پر نہیں پڑتے، سیدھے سیدھے دل، دماغ، عقل و شعور پر پڑتے ہیں، دل کی دنیا بدل جاتی ہے، سوچنے کا انداز بدلتا ہے، اور اس تبدیلی کے اثرات صدیوں تک جاری رہتے ہیں اور نسل کی نسل تباہ ہو کر رہ جاتی ہے، اس تباہی کے نتیجہ میں ارتداد کی وہ لہر پیدا ہوتی ہے جو کچھ دن تک تو نظر نہیں آتی، لیکن گزرتے ایام کے ساتھ اس کا مشاہدہ عام ہوجاتا ہے، ہر کوئی کھلی آنکھوں اسے دیکھ سکتا ہے، قوموں کی تاریخ میں یہ بڑا نازک وقت ہوتا ہے، اس لیے کہ اس یلغار سے مذہبی اقدار، خیالات و معتقدات سب کے سب برباد ہوجاتے ہیں اور فاتح وہ قرار پاتا ہے جس نے دل و دماغ کی دنیا بدلنے کا کام کیا ہے۔ (صفحہ ١٩٥)
آگے تحریر کرتے ہیں:
”عصر حاضر میں اس سلسلہ کو سب سے بڑا خطرہ تعلیم کے بھگوا کرن سے ہے، جس کی تیاری تقریبا مکمل ہے اور بہت جلد مرکزی حکومت نئی تعلیمی پالیسی کے نام سے اسے رائج کر نے والی ہے، اس پالیسی کے نتیجے میں اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جائے گی اور ان رسومات کو اسکولوں میں رائج کیا جائے گا جو ایمانی اور اسلامی بنیادوں کو متزلزل کرنے والے ہوں گے، ان مثالی انسانوں کی زندگی کو نصاب تعلیم سے نکال باہر کیا جائے گا، جنھوں نے اس ملک کو اخلاقی اقدار سے مالامال کیا اور جو یہاں کی تہذیبی شناخت سمجھے جاتے ہیں۔ (صفحہ ١٩٦)
آخر میں رقم طراز ہیں:
” اللہ کا شکر اور اس کا احسان ہے کہ ترکی کا ”مرد بیمار“ ہوش میں آگیا ہے، اور تدریجا وہاں اسلامی نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو رائج کر نے کی کوشش جاری ہے، ترکی وزارت تعلیم نے اپنے نصاب سے غیر اسلامی چیزوں کو نکالنا شروع کر دیا ہے، مکتب کا نظام جس پر زمانہ دراز سے پابندی تھی، اب وہاں پھر سے کام کرنے لگا ہے ۔
پوری دنیا کے مسلمان یہ سوچ کر پریشان ہو رہے ہیں کہ سعودی عرب جہاں ہمارا قبلہ و کعبہ ہے، اور جس کی طرف رخ کر کے ہم عبادت کر تے ہیں، وہ بڑی تیزی سے اپنا قبلہ مغرب کو بناتا جا رہا ہے اور امریکا کے چشم و ابرو پر ایسے ایسے عجیب و غریب فیصلے کر رہا ہے کہ عقل حیران ہے، شاعر کا ایک شعر نوک قلم پر آگیا۔
ای تماشہ گاہ روئے عالم تو
تو کجا بہر تماشہ می روی؟ (صفحہ ١٩٧)
باب سوم میں سماجیات پر مضامین ہیں۔ اس باب میں ۱۸ مضامین ہیں، ان مضامین میں ایک کا عنوان ”بھوک“ ہے، اس مضمون سے مضمون نگار کی وسعت نظری اور مطالعہ کی گہرائی کا پتہ چلتا ہے، اور وہ ماہر اقتصادیات کو پیچھے چھوڑتے دکھائی دیتے ہیں، بھوک سے پیدا ہونے والے مختلف وجوہات کا ذکر کرنے کے بعد وہ عالمی فوڈ پالیسی ری سرچ انسٹی چیوٹ کے سروے کے حوالہ سے تحریر کرتے ہیں۔
”عالمی فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی چیوٹ نے ایک سو انیس ممالک کے سروے کے بعد دنیا کے بھوکے لوگوں کا اشاریہ (عالمی ہنگر انڈکس) پیش کیا ہے، اس انڈکس کے مطابق ہندستان سویں مقام پر آگیا ہے، گذشتہ سال کی فہرست میں یہ سنتانوے (٩٧) اور ٢٠١٥ء کے اشاریہ میں ایک سو ستر (١٧٠) ملکوں کی فہرست میں اسی (٨٠) نمبر پر تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ گذشتہ تین سالوں میں ہندستان میں بھوکے لوگوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ پینتالیس (٤٥) درجے یہ ملک نیچے چلا گیا ہے، تین (۳) سال قبل یو پی اے حکومت میں اس کا نمبر پچپن (۵۵) تھا، اچھے دن آئے، وکاس ہوا، امیر، امیر ہو گئے اور غریبوں کی غربت تیزی سے بڑھی، غربت اور بھوک کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اس لیے ملک کی عوام مزید بھوک مری کی شکار ہو گئی ہے، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ٢٣ فی صد بھوکے لوگ صرف ہندستان میں رہتے ہیں، انیس کروڑ لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہیں اور 19.7 فی صد لوگ غذائیت کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں، اڑتیس فی صد پانچ سال سے کم عمر بچوں کو ایسی خوراک نہیں مل پا رہی ہے، جو ان کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما کے لیے ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ 35.7 فی صد بچوں کا جو وزن اس عمر میں ہونا چاہیے وہ اس سے دور ہیں، 51 فی صد نوجوان خواتین کو خون کی کمی کا سامنا ہے، سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہندستان میں 35.6 فی صد عورتیں اور 34.2 فی صد مردوں کا بی ایم آئی (باڈی ماس انڈکس) 18.5سے کم ہے، یہ انسانی جسم میں غذائیت کی جانچ کا ایک فارمولا ہے، جس کے مطابق 16 سے 16.9 تک کے لوگ بری طرح عدم غذائیت کے شکار سمجھے جاتے ہیں، 16سے کم والے بھوک مری کی کگار پر ہوتے ہیں، اس وقت ہندستان گلوبل ہنگر انڈکس میں 31.4 پوائنٹ پر ہے، جو سنگین فاقہ کشی کی علامت اور پہچان ہے، ہندستان میں مدھیہ پردیش اس معاملہ میں سب سے آگے ہے اور اس کا شمار ایتھوپبا اور وسطی افریقی ممالک سے کیا جاتا ہے، جہاں بھوک سے مرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، ہندستان اقوام متحدہ کی تجویز کے مطابق بھوک مری سے نمٹنے کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے، اور اس کا خیال ہے کہ 2022 تک بھوک مری پر قابو پا لیا جائے گا، اس کام کے لیے حکومت نے نیتی آیوگ کے ساتھ تین اور وزارت کو اس میں شریک کرکے مشترکہ پروگرام چلانے کا منصوبہ بنایا ہے، نیتی آیوگ نے 640 اضلاع میں سے عدم غذائیت کے شکار 110 اضلاع کی فہرست جاری کی ہے اور ان اضلاع میں پانچ سال سے کم عمر کے بچے باڈی ماس انڈکس کو 37.5 کے بجائے 20.5 تک پہنچانا ہے، یہ کوشش کتنی کامیاب ہوگی اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ (صفحہ ٢٣٠-٢٣٣)
وہ مفتی ہیں، ان کی نظر دین پر بھی ہے، اس لیے اس موقع پر بھی لوگوں کی صحیح رہ نمائی کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
”کھانا برباد نہ ہو، اس کے لیے اسلام میں سخت ہدایات موجود ہیں، دسترخوان پر گرنے والے ایک ایک دانے کو چن کر کھانے کی تلقین کی گئی ہے، کھانا کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے مختلف طریقہ کار پر زور دیا گیا ہے، خالصا لوجہ اللہ غریبوں، یتیموں مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے اور جہنمیوں کی زبان سے یہ بیان کروایا گیا کہ ہمارے جہنم میں داخل ہونے کے مختلف اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے اور ان سے کسی بدلے یا کلمات شکر کی امید نہ لگائی جائے، اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے بھوک مری پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے، کاش ہمارے حکمراں بھی اس حقیقت کو سمجھ لیتے۔ (صفحہ ۲۳۲)
باب چہارم میں لسانیات سے متعلق مضامین ہیں، اس باب میں دو مضامین ہیں اور دونوں اہم ہیں، ایک مضمون کا عنوان ”اردو کا مسئلہ“ ہے، اردو ہماری مادری زبان ہے، اس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے، محبان اردو نے ہمیشہ اس کی حفاظت کے لیے کوشش اور رہ نمائی کی ہے، مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی اردو زبان و ادب کے ماہر اور ادیب ہیں، اور حساس شخصیت کے حامل بھی ہیں، اس لیے ان کی رہ نمائی کا انداز نرالا ہے، وہ تحریر کرتے ہیں:
” واقعہ یہ ہے کہ ہم اردو کی زبوں حالی کا رونا روتے ہیں، ماتم کرتے ہیں، لیکن ہمیں خوب اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ زبان ماتم اور نوحہ سے باقی نہیں رہتی، ہمارا حال یہ ہو گیا ہے کہ اب مسجد میں دعاؤں کی تختی بھی ہندی میں لگ رہی ہے، ہمارے گھروں میں اخبارات ہندی اور انگریزی کے آ رہے ہیں، اردو اخبار کو قاری کی کمی کا شکوہ ہے، ہمارے بچے اسکول میں اردو بہ طور سبجیکٹ نہیں رکھتے، وہ اردو پڑھنے سے کتراتے ہیں، گھروں میں اب پڑھنے پڑھانے کے بجائے بچہ کو کم عمری میں کنونٹ میں داخل کر دیا جاتا ہے، ہماری ترجیحات انگلش میڈیم اسکول ہیں، ہم اپنے بچے کے فرفر انگریزی بولنے پر فخر کرتے ہیں اور اسے اردو بولنا، لکھنا، پڑھنا نہیں آتا اس پر ہمیں کوئی ندامت نہیں ہوتی، جب تک یہ مزاج باقی رہے گا، ہم اردو کو اس کا مقام نہیں دلوا سکتے، کیوں کہ ہم یہ لڑائی سرکاری سطح پر نہیں داخلی سطح پر ہار چکے ہیں، داخلی شکست کو فتح میں بدلنا خارجی شکست کے مقابلہ میں زیادہ دشوار ہوتا ہے۔“ (صفحہ٥٦٩)
باب پنجم کا عنوان ”متفرقات“ ہے، اس باب میں ٢٠ مضامین ہیں، اس باب کے مضامین میں بھی جامعیت اور جاذبیت ہے، تمام مضامین فکر انگیز اور نتیجہ خیز ہیں، اس باب میں ایک مضمون ”امیروں کی دنیا“ ہے، اس مضمون کی ابتدا ایک سروے ایجنسی کی رپورٹ سے کی گئی ہے، رپورٹ معلوماتی ہے، رپورٹ کے مطالعہ سے مصنف کے تحقیقی ذوق کا بھی پتہ چلتا ہے، وہ تحریر کرتے ہیں:
”بلومبرگ نامی ایک سروے ایجنسی نے رابن ہوڈ انڈکس کے نام سے دنیا کے مختلف ملکوں کے مال داروں کی دولت کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ جن ملکوں میں وہ رہ رہے ہیں، اس ملک کو اگر ان کو چلانا پڑے تو اپنی دولت سے وہ کتنے دن اس ملک کی کفالت کر سکتے ہیں، اس رپورٹ میں ہندستان کے مکیش انبانی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ بیس دنوں تک ہندستان کا خرچ بلا شرکت غیرے چلا سکتے ہیں جب کہ بھارت سرکار کا ایک دن کا خرچہ ۸۶۷،۲۱ کڑوڑ روپے کا ہے، امریکا کے جیف بے حوس پانچ دن، فرانس کے بنارڈ آرنالٹ ١٥ دن، میکسیکو کے کارلس سلم ٨٢ دن، چین کے جیک ما ۴ دن، برازیل کے جارج پاؤ لو تیرہ دن، اٹلی کے گی اووپنی فرارو نو دن، یورپی ملک سائپرس کے جان فرڈ رکسن چار سو اکتالیس دن، جار جیا کے بِد جینا چار سو تیس دن، ہانگ کانگ کے لی کاسن ۱۹۱ دن، ملیشیا کے رابرٹ کو اوک ٩٥ دن، سنگاپور کے وی چو یا ٥٢ دن اور جرمنی کے ڈائٹر سوارج پانچ دن کا خرچ اٹھا سکتے ہیں، انچاس ملکوں کے مال داروں کی اس سروے رپورٹ میں چار خواتین کا بھی نام ہے جو اپنے ملک کا خرچ اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ (صفحہ ۹۷۵)
اس مضمون سے مصنف نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے، اس سے ان کے ایک دوسرے ذوق کی نشان دہی ہوتی ہے، وہ تحریر کرتے ہیں:
”اس سروے رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ دولت کا ارتکاز کس تیزی سے ایک فی صد لوگوں کے ہاتھوں میں ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں مال دار اور مال دار ہوتا جا رہا ہے اور غریب اور غریب، اسلام نے دولت کے ارتکاز کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا، اس کا معاشی اور اقتصادی نظام دولت کی ایسی تقسیم پر مبنی ہے، جس میں مال داروں کے ذمہ غریبوں مسکینوں کی ضروریات کی کفالت بھی مختلف عنوانات سے شامل ہے جس کی وجہ سے دولت ایک ہاتھ میں مرکوز نہ ہو کر گردش کرتی رہتی ہے، اسی لیے حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے لکھا ہے کہ اسلام کا معاشی نظام آمد سے زیادہ خرچ پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے۔“ (صفحہ ۹۷۵)
”زاویہ نظر“ کے ہرباب میں اسی طرح کے مضامین ہیں جو فکر اور تاثیر سے پُر ہیں، اس طرح یہ کتاب معلومات کا خزانہ ہے، اور دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، اس میں چھوٹے چھوٹے مضامین ہیں، ہر مضمون کی اپنی ایک خصوصیت ہے، اور ہر مضمون اپنی الگ فکر اور تاثیر رکھتا ہے، جس کے مطالعہ سے قاری کا ذہن اثر قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔
عام طور پر علما کا اسلوب بیان اور انداز تحریر گنجلک اور ثقیل و مشکل الفاظ کا مجموعہ ہوتا ہے، مگر مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی کی تحریر بہت حد تک سادہ اور آسان ہے، زبان میں سلالت اور شیرینی کا پہلو نمایاں ہے، اس طرح یہ کتاب عوام و خواص سب کے لیے یکساں مفید ہے۔
مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی کا وطن ویشالی ضلع کا حسن پور، گنگھٹی، بکساما ہے، انھوں نے دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کی سند حاصل کی، پھر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر بہار یونی ورسیٹی مظفر پور سے فارسی زبان و ادب میں ایم اے پاس کیا، پی ایچ ڈی پر کام جاری ہے، انھوں نے تدریسی خدمات کا آغاز مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی سے کیا، فی الحال امارت شرعیہ، بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ میں نائب ناظم کے عہدہ پر فائز ہیں، علمی، ادبی، صحافتی اور سماجی خدمات طرۂ امتیاز ہے، اللہ تعالیٰ نے انھیں بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے، تصنیف و تالیف سے خصوصی دل چسپی ہے، بہت سی مصروفیات کے باوجود ان کی تصانیف کا دائرہ وسیع ہے، اور بہت سے فنون پر محیط ہے، ان کی تصانیف سے ان کی وسعت مطالعہ کا بھی پتا چلتا ہے۔
مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی کی بہت سی کتابیں شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکی ہیں، ان میں ”زاویۂ نظر“ ایک اہم کتاب کا اضافہ ہے، کتاب بہت معلوماتی ہے، اور اپنے موضوع پر محیط اور دل چسپ ہے۔ مجھے امید ہے کہ مطالعہ کرنے والوں کو اس کتاب سے فائدہ پہنچے گا۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کتاب کو مقبولیت سے نوازے اور افادیت عام کرے اور تصنیف کو نظر بد سے محفوظ رکھے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ 
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :کتاب: زاویۂ نظر کی آگہی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے