سلگتے وقت کے ”آزاد ھند“ کے دو اداریے

سلگتے وقت کے ”آزاد ھند“ کے دو اداریے

ف۔س۔اعجاز
مدیر ”ماہنامہ انشا ء“
25-B, Zakaria Street, Kolkata -700073

ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کا قتل 31 اکتوبر 1984 کو صبح 9-30 بجے اُن کی رہائش گاہ واقع صفدر جنگ روڈ، نئی دہلی میں ہوا۔ اُن کا قتل اُن کے دوباڈی گارڈ ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ نے کیا تھا۔ یہ افسوسناک واردات ہندوستانی ملٹری کی کارروائی ”آپریشن بلواسٹار“ کا نتیجہ تھی جو 1جون اور 8 جون 1984 کے درمیان کی گئی تھی جس کا حکم اندرا گاندھی نے دیا تھا۔ ان کا منشا تھا کہ امرتسر میں واقع سکھوں کے مقدس ترین مقام ہرمندر صاحب کے گولڈن ٹیمپل سے جرنیل سنگھ بھنڈران والے اور ان کے پیرو کاروں کو بے دخل کر دیا جائے۔ اس فوجی کا رروائی میں کئی زائرین کی موت ہوئی اور اکال تخت کو نقصان پہنچا۔
ملک آزادی کے بعد پہلی سب سے بڑی سنسنی اور اضطراب کے دور سے گزر رہا تھا جب سب سے بڑی اکثریت ہندو اور دوسری بڑی اقلیت سکھ قوم کے درمیان بدترین سامنا آرائی کی صورتِ حال نے جنم لیا اور پھر فوج کے کردار و عمل کو بھی مختلف گوشوں سے مشکوک نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ ایسے میں ملک کی دوسری بڑی اکثریت یعنی سب سے بڑی اقلیت مسلم بھی خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگی۔ جو گنتی کے مسلمان فوج میں افسر تھے اُن کے بارے میں بدگمانیاں پھیلائی جانے لگیں۔ خالصتان کی تحریک نے شمال مشرق میں علیحدگی پسندانہ رجحان کو جنم دیا۔ اور آپریشن بلو اسٹار اس رجحان میں شدت لانے کا موجب ہوا۔ حکومت کو شمالی اور شمال مغربی صوبوں کا جغرافیائی تحفظ برقرار رکھنے کے ساتھ آپریشن بلو اسٹار کے سیاسی اور فرقہ وارانہ اثرات کو سخت ترین کنٹرول میں رکھنا تھا۔ ہرمندر فوج سے گھرا رہتا تھا۔ فوج مختلف سمتوں سے ہونے والی فائرنگ کا جواب دے رہی تھی لیکن فوج کو سخت ہدایت تھی کہ ہرمندر پر ایک بھی گولی نہیں چلنا چاہئے حالانکہ دہشت گردوں نے مندر پر مشین گنیں نصب کر رکھی تھیں۔ چنانچہ فوج مختلف سمتوں سے ہونے والی فائرنگ کا جواب تو دے رہی تھی مگر کسی بھی حال میں دربار صاحب کی جانب اپنی بندوقیں نہیں تانتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دہشت پسندوں کی بندوق بازی سے کئی کئی فوجی مرگئے۔ 5 اور 6 جون 1984 کی درمیانی شب میں ہرمندر کے سامنے 17 جوانوں کی لاشیں پڑی تھیں، 40 زخمی بھی پڑے تھے۔ فوج کو مندر میں پیش قدمی کی اجازت بالکل نہیں تھی او ر فوج اور ہر مندر دونوں سخت اضطراب میں تھے۔ اس صورت حال میں ایک بات ایسی ہوئی کہ ایک مسلمان لفٹننٹ کرنل اسرار خان کی قیادت میں ایک فوجی دستہ سب سے پہلے دربار صاحب میں داخل ہوگیا۔ اسرار خان پر متعصبانہ الزام لگائے جانے لگے۔ ان الزامات پر ممبر پارلیمنٹ مولانا سید احمد ہاشمی نے شدید احتجاج کیا۔
روزنامہ ”آزادھند“ کلکتہ کے ہفت روزہ ایڈیشن ”اجالا“ کے 17 جون 1984 کے اداریہ میں اخبار کے مدیر احمد سعید ملیح آبادی نے مولانا ہاشمی کے اس احتجاج کی حمایت کی اور اس واردات کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا:
”مولانا ہاشمی نے کہا ہے کہ کسی عبادت گاہ میں فوج کے داخلے کی بنیاد ذات پات اور مذہب پر نہیں ہوتی۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مختلف فرقوں کے درمیان نفرت پھیلا نا چاہتی ہے“۔
مدیر ”آزادھند“ دراصل مولانا ہاشمی ایم پی کی تائید کرتے ہوئے حکومت کو مشورہ دینا چاہتے تھے کہ وہ ایسی خبروں کی اشاعت و تشہیر سے گریز کرے جن سے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مولانا ہاشمی نے پیشتر اسی نوعیت کی ایک اور خبر پر تبصرہ کیا تھا کہ جمّوں میں سکھ مظاہرین کی طرف سے تشدّد کے دوران ایک مسلم پولیس والے کی ہلاکت کی بھی خبر دی گئی تھی۔ ملیح آبادی کا کہنا تھا کہ ایسی خبریں فرقہ وارانہ اتحاد اور امن کے لیے خطرہ ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
”صورت ِحال کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے خلاف مولانا ہاشمی کا احتجاج حق بجانب ہے۔ دربار صاحب میں قابض انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے فوج کا داخل ہونا اور وہاں خون کا دریا بہنا، نیز اکال تخت کا برباد ہونا، ایسے لرزہ خیز واقعات تھے جن پر ہر کسی کو گہرا صدمہ پہنچا مگر سکھ فرقے کی ذہنی حالت تو ناقابل بیان تھی۔ سِکھ غم و غصّے سے دیوانے ہورہے تھے۔ ایسے عالم میں یہ نشان دہی کرنا کہ جب دوسرے فوجی اندر جاتے ہوئے ٹھٹھک گئے تھے تو ایک مسلمان فوجی افسر سبقت کرکے دربار صاحب میں گھس پڑا، حددرجہ اشتعال دلانے والی بات ہے اور اس کا مقصد اس کے سوا دوسرا کچھ نہیں ہوسکتا کہ سکھوں کو مسلمانوں پر طیش دلایا جائے۔ اس شیطانی منصوبے میں کامیابی نہیں ہوئی یہ دوسری بات ہے سکھوں کو بے وقوف بناکر مسلمانوں سے لڑانے کی کوشش ناکام ہوگئی، اُن کا غصّہ جن پر تھا وہیں باقی رہا۔
”دربار صاحب میں فوج کے داخلے کی جو تفصیلات رفتہ رفتہ سامنے آرہی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ 5 اور 6 جون کی درمیانی شب میں جب فوج آگے بڑھ رہی تھی تو گولڈن ٹمپل کی مختلف عمارتوں اور گوشوں سے حتیٰ کہ مین ہول (man hole) سے بھی زبردست فائرنگ ہو رہی تھی۔ سرکاری ذرائع باربار اعلان کر رہے ہیں کہ فوج کو اس بات کی سخت ہدایت تھی کہ کسی بھی حالت میں ہر مندر پر گولی نہیں چلائی جانا چاہئے (باقی حصّوں کے لیے اجازت تھی)۔ دہشت پسندوں نے ہر مندر پر بھی مشین گنیں نصب کر رکھی تھیں۔ فوج مختلف سمتوں میں تو فائرنگ کا جواب دے رہی تھی مگر ہر مندر کی طرف اُس کی بندوقوں کا منھ نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوجیوں کے کُشتوں کے پشتے لگ رہے تھے اور آگے بڑھنا محال تھا“۔
ملیح آبادی نے صورتِ حال کا ادراک کرتے ہوئے کرنل اسرار خان کے اقدام کی توجیہہ کی ہے۔ آخر اسرار خان ہر مندر کی جانب کب اور کیوں آگے بڑھے۔ اس اسڑاٹیجی کو ملیح آبادی اپنے مذکورہ اداریہ میں یوں بیان کرتے ہیں:
”بکتر بند گاڑی میں فوجی دستے داخل کرنے کی کوشش کی گئی تو اُسے ٹینک شکن راکٹ مارکر دہشت پسندوں نے برباد کردیا۔ جب ہر طرف مایوسی چھانے لگی اور ایسا نظر آنے لگا کہ یاتو فوج شکست کھا کر پسپا ہوجائے یا ہر مندر کو تباہ کردے تب لفٹنٹ کرنل اسرار خان سامنے آئے اور ایک دستہ لے کر آگے بڑھ گئے۔ حقیقت یہ ظاہر ہوئی کہ کرنل اسرار خان نے ہر مندر کو تباہی سے اور فوج کو دہشت پسندوں سے ذلت آمیز شکست سے بچا لیا۔ ایک مسلمان فوجی افسر نے حکومت اور اپنی اعلیٰ فوجی کمان کے احکام کی مکمل طور سے بجا آوری کی۔ نہ ہرمندر کو نقصان پہنچا اور نہ فوج کو پسپائی کی ذلت اٹھانا پڑی، یہ ہے کرنل اسرار خاں کا کارنامہ!“۔
فوجی کارروائی کے حکومت کے فیصلے کے فریق کون کون تھے اس بابت ملیح آبادی لکھتے ہیں:
”پنجاب میں فوجی کارروائی کا حکومت نے فیصلہ کیا۔حکومت کا ہر فیصلہ اجتماعی مانا جاتا ہے۔ سردار بوٹا سنگھ بھی کیبنیٹ میں ہیں اس لئے حکومت کے فیصلے میں وہ بھی ذمہ دار ہیں۔ جیسے ہندو اور مسلم وزرا ء ذمہ دار ہیں۔ گیانی ذیل سنگھ صدر جمہوریہ اور تینوں مسلّح افواج کے سپریم کمانڈر ان چیف (سربراہ اعلیٰ ہیں) لہٰذا وہ بھی اس فیصلے کے ایک فریق ہوئے۔ پھر مرحلہ آیا فوجی افسروں سے صلاح مشورے کا، اُن میں ہندو مسلمان اور سکھ سب ہی شامل ہیں۔ پنجاب میں فوجی کارروائی کی کمان لیفٹننٹ جنرل رنجیت سنگھ دیال کو سوپنی گئی جو خود بھی سکھ ہیں۔ دربار صاحب میں داخل ہونے والے جوانوں اور افسروں میں ہندو مسلمان اور سکھ سب شامل تھے۔ پھر اکیلے کرنل اسرار خان کی نشان دہی کرنے کے کیا معنے؟“۔
اسرار خان کی پیش قدمی کو ملیح آبادی نے ان کی فرض شناسی اور مستعدی پر محمول کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں، انڈین آرمی کی بغاوت فرقہ وارانہ بنیاد پر ہوئی۔ اداریہ سے یہ اقتباس دیکھیں:
”میدانِ کارزار میں جونیئر افسر جب SOS (= ایس او ایس یعنی اوپر سے آئے ہنگامی احکام) دے کر ہرمندر پر یلغار کرنے کی اجازت طلب کررہے تھے تب کرنل اسرارخان جیسے سینئیر فوجی افسر اپنی جان پر کھیل کر آگے بڑھے اور اپنی خداداد صلاحیت و ہمت سے ہر مندر کو بھی تباہی سے بچالیا اور فوج کی کامیابی کا بھی راستہ کھول دیا“۔
اداریہ میں ملیح آبادی نے فوجی کارروائی کے حکومت کے فیصلے کے فریقوں کا ذکر کرنا بھی لازمی سمجھا (جو اوپر لکھا جا چکا ہے) تاکہ اس اقدام میں کسی ایک فرقہ کی تخصیص کے پیچھے جو فرقہ وارانہ ذہنیت کارگر ہوسکتی ہے اُس سے چوکنّا رہا جا سکے۔
ہندستان کی آزادی کے بعد سے فوج کے کردار و عمل کو فرقہ وارانہ سیاست سے بالاتر قرار دیتے ہوئے ملیح آبادی نے انڈین آرمی کی تعریف کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے ”اس کا کردار 1947 میں تقسیمِ ملک کے وقت سے بے داغ رہا۔ فوج سیکولرزم کا نمونہ تھی“۔ ملیح آبادی کا مشاہدہ ہے کہ انڈین آرمی آزادی کے بعد پہلی بار بغاوت سے آشنا ہوئی اوریہ بغاوت بھی فرقہ وارانہ بنیاد پر ہوئی۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اِن لوگوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ ملک کوبرباد کرکے ہی دم لیں گے؟۔
یہ اداریہ اندرا گاندھی کے قتل سے چار ماہ قبل لکھا گیا تھا۔ ایک دوسرا اداریہ آزادھند میں مسز گاندھی کی شہادت کے دو مہینے بعد شائع ہوا۔ تب راجیو گاندھی وزیر اعظم تھے۔ 4 جنوری 1985 کے آزادھند کا اداریہ ”فرقہ وارانہ جماعتوں پر پابندی“ وزیر اعظم راجیو گاندھی کے اس نکتے کو پیش کرتاہے کہ ملک میں حد سے بڑھی فرقہ پرستی کوروکنے کے لیے فرقہ پرست تنظیموں پر پابندی لگانا چاہیے لیکن یہ کام زبردستی نہیں بلکہ قومی مفاہمت سے ہو۔
احمد سعید ملیح آبادی نے آزادی کے بعد فرقہ پرست جماعتوں پر پابندی کی تین مثالیں دی ہیں۔ ایک، گاندھی جی کے قتل کے بعد آر ایس ایس کو خلاف قانون ٹھہرا کر اس پر روک لگادی گئی جسے کچھ مدت بعد اٹھا لیا گیا تھا۔ دو، 1975 میں ایمرجنسی لگنے کے بعد دو درجن سے زائد جماعتوں اور تنظیموں پر پابندی لگائی گئی تو اس میں آر ایس ایس کے ساتھ آنند مارگ اور جماعت ِاسلامی بھی آگئی۔ ملیح آبادی لکھتے ہیں: ”ایمرجنسی اٹھنے کے ساتھ یہ پابندی بھی اٹھ گئی کیونکہ مسز گاندھی کی حکومت 1977 میں ختم ہوگئی تھی اور جنتا پارٹی نے جب اپنی حکومت بنائی تو اس میں جن سنگھ کی شرکت کی وجہ سے غالب اثر آر ایس ایس کا تھا۔ مرکزی حکومت میں اَکالی دَل بھی ساجھے دار تھا اور پنجاب میں حکمراں تھا“۔
ملیح آبادی نے مضطرب اور بے چین قومی سیاست کے اُترتے چڑھتے درجۂ حرارت کا بہ غور مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ 1980میں مسز گاندھی کی واپسی کے ساتھ ہی پنجاب میں اَکالی دَل نے اچانک اپنی حکمتِ عملی بدل لی ہے۔ اُس نے حکومت سے بے دخل ہونے کے بعد احتجاج کی سیاست اختیار کرلی ہے۔ اور ملیح آبادی کے الفاظ میں بات ”آنند پور صاحب قرار داد اور علاحدگی کی تحریک تک جا پہنچی جس کے بعد فوجی کارروائی سے لے کر مسز گاندھی کے قتل اور ردّ عمل میں سکھوں کے قتل عام کے لرزہ خیز واقعات پیش آئے“۔
ملیح آبادی نے اپنے اداریہ میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا: ”یہ سب فرقہ وارانہ سیاست کا کرشمہ تھا اور اس میں اَکالیوں کے علاوہ ہندو فرقہ پرست جماعتوں نے بھی ہاتھ بٹایا“۔
ملیح آبادی کا نظریہ ہے ”فرقہ پرستی ہر حالت میں بری ہے چاہے اقلیت کی ہو یا اکثریت کی۔ اکثریت کی فرقہ پرستی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ کیونکہ اس میں زیادہ شدت، وسعت اور طاقت ہوتی ہے۔ اس لئے جب پابندی کی بات چلے تو صرف اقلیت کی فرقہ پرستی پر ختم نہ ہو، اُس سے پہلے اکثریت کی فرقہ پرستی پر گرفت ہونا چاہیے“۔
ملیح آبادی کا یہ نظریہ موجودہ زمانے میں بھی مسلسل آزما یا جارہا ہے۔ موجودہ سیاسی فرقہ وارانہ حقائق سے بھی بار بار اس کی سچائی ثابت ہو تی ہے۔ انھوں نے فرقہ پرست تنظیموں پر پابندی لگانے کے راجیوگاندھی کی قومی مفاہمت کی تجویزسے اتفاق کیا ہے۔ اور اُن کے عزائم کا ساتھ دیتے ہوئے لکھا ہے:
”راجیو گاندھی ہمت سے کام لیں تو ایسا ممکن ہے کہ اُن کا دور فرقہ وارانہ فساد سے صاف ستھرا رہے……. اور وہ اسی طرح کورے کپڑے کی طرح پاک صاف رہیں“۔
ملیح آبادی نے کئی اور اداریوں کی طرح اپنے اِس اداریہ کے ذریعہ بھی لوگوں کو ملک میں فرقہ پرستی سے خانہ جنگی چھڑ جانے کے خطرے سے چوکنّا کیا ہے۔ انھوں نے اِداریہ میں فرقہ پرستی کی تعریف بھی کی ہے اور بتایا ہے کہ فرقہ پرستی کیا ہے؟ وہ لکھتے ہیں:
”فرقہ پرستی کی آسان اور سیدھی تعریف و تشریح یہ ہے کہ جو بات کسی دوسرے فرقے، زبان، تہذیب، علاقہ اور ذات کے خلاف کہی جائے وہ فرقہ پرستی ہے، ان کے خلاف بغض اور نفرت پھیلانا فرقہ پرستی ہے“۔
ملیح آبادی فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کے خلاف ہمیشہ مورچہ سنبھالے رہتے تھے۔ اداریہ میں لکھتے ہیں:
”اس بات کو بسُرعت طے کرنے کے لئے نیشنل اور اسٹیٹ لیول پر ٹرائیبونل قائم کئے جاسکتے ہیں جن کے فیصلوں پر اپیل کاحق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں رکھا تو جائے مگر اِس ترمیم کے ساتھ کہ ٹرائیبونل سے فیصلہ ہونے کے بعد پابندی تو لگ جائے گی اور عدالت اس معاملے میں اِسٹے آرڈر نہیں جاری کرے گی۔ اگر اپیل میں فیصلہ مختلف ہوا تو پابندی ہٹادی جائے گی“۔
یہ اداریہ تکنیکی نوعیت کا ہے اور سیکولرزم کے تحفظ کی خاطر فرقہ وارانہ جماعتوں پر پابندی کے نفاذ کے سلسلے میں ایک جہاں دیدہ قوم پرست صحافی کے استدلال و تدارک کو پیش کرنے میں کامیاب ہے۔ اس میں مسئلہ بیان کیا ہے تو اُس کے ممکنہ حل کی جانب اشارے بھی ملتے ہیں۔
ملیح آبادی اس نظریہ کے حامی رہے کہ جمہوریت کے مفہوم میں تمام اقلیتوں کے لیے شہری اور سیاسی مساوات کی ضمانت شامل ہے۔ اُن کے اِداریوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر چند کہ جمہوریت اکثریت کے قابو میں اور اُس کے زیرِ نگیں رہتی ہے لیکن ایک ذمّہ دار، دیانت دار، با شعور جمہوریت کی تعریف، credibility اور بھرم اقلیت ہی سے قائم ہوتا ہے۔ ہندستان میں تمام قومیتوں کو متحد کرنے والے تاریخی عوامل کی طاقت پر وہ ہر طرح اورہر زاویے سے اصرار کرتے رہے۔ یہ دونوں اداریے اس بات کا ثبوت ہیں۔ ایسے بصیرت افروز پیش آگاہی کے اداریے انھوں نے وقت اور سیاست کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے موقع بہ موقع لکھے ہیں اور یہی وہ اداریے ہیں جو انھیں ملّت کا دوست، فلاسفر اور رہ بر ثابت کرتے ہیں۔ میں نے کوشش کی ہے کہ اِن دو اِداریوں کے ذریعہ ملک کی تاریخ کے ایک سلگتے باب کے حوالے سے ملیح آبادی کے ذہن و افکار کو اپنے طور سے آپ کے سامنے پیش کروں۔ اُن کے دیگر کامیاب اِداریوں کی طرح یہ اِداریے بھی اُن کی زبان دانی اور صحافتی طرزِ نگارِش کا نمونہ ہیں۔
آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ آج اردو صحافت سکڑتی زبان کی صحافت ہے۔ تین چار دہائی قبل اس میں کشادگی، وسعت اور کسی قدر پیشہ ورانہ گنجائش تھی۔ تب معتبر صحافی خبروں کی تشکیل میں احتیاط اور ذمّہ داری برتتے تھے اور خبروں کی بنیاد پر بے لاگ اداریوں کے ذریعہ قارئین کا ذہن موڑنے کی کوشش کرتے تھے۔ احمد سعید ملیح آبادی کی اخباری صحافت ایک ذمّہ دارانہ عمل کا نمونہ تھی۔ صحافت کا یہ عمل تو کوئی اچھا نیوز ایڈیٹر انجام دے لیتا ہے۔ لیکن اُن کے اپنے لکھے ہوئے اداریے سماجی اور سیاسی حقائق پر مبنی ہوتے تھے۔ نزاعی سماجی حالات میں اُن اداریوں کی محرّک اُن کی اپنی منفرد قوم پرور سوچ ہوتی تھی جس کا تسلسل اُن کے والد عبد الرزاق ملیح آبادی سے ہوتا ہوا مولانا آزاد کی حرّیتِ فکر سے جا ملتا ہے۔ سیاسی اداریے سیاسی حالات کا ردِ عمل ہوتے ہیں۔ احمد سعید ملیح آبادی کی خبری صحافت سے ادارتی صحافت کو جُدا کیا جا سکتا ہے۔ یہ اُن کا بڑا اختصاص ہے۔ شاید تھامس مانؔ کا یہ مقولہ اُن کی فکر کا صحیح اظہاریہ ہو: ”جدید آدمی کا مقدّر سیاسی اصطلاحوں میں لکھا ہے“ (The fate of modern man is written in political terms)
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :احمد سعید ملیح آبادی- دید و شنید

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے