احمد سعید ملیح آبادی- دید و شنید

احمد سعید ملیح آبادی- دید و شنید

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ

روزنامہ آزاد ہند کلکتہ کے سابق مدیر، راجیہ سبھا، مغربی بنگال حج کمیٹی، کورٹ آف علی گڑھ یونی ورسٹی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، مغربی بنگال ٹیلی فون، دور درشن، مشاورتی کمیٹی، اور کلکتہ یونی ورسٹی کے سابق رکن، عظیم صحافی، مشہور دانشور، بڑے محب وطن، غالب اور برلا ایوارڈ یافتہ، مدبر، دانشور اور اعلا انتظامی صلاحیتوں کے مالک جناب احمد سعید ملیح آبادی کا ۲؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء بروز اتوار چار بجے لکھنؤ کے سنجے گاندھی پی جی آئی اسپتال میں انتقال ہو گیا، ان کی عمر چھیانوے سال تھی، وہ کافی دنوں سے بلڈ کینسر جیسے موذی اور مہلک مرض میں مبتلا تھے، ۸؍ ستمبر کوان کی طبیعت سہ پہر ۴؍ بجے زیادہ خراب ہوئی تو انھیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا، لیکن ۲؍ اکتوبر کو وقت موعود آگیا، وہ جان بر نہیں ہو سکے، ضعف و پیرانہ سالی کے ساتھ وہ مختلف امراض کے شکار تھے، لیکن مرض الموت ان کا کورونا پوزیٹیو ہونا بنا، ۳؍ اکتوبر کو بعد نماز ظہر ملیح آباد میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی، اور ملیح آباد کے قبرستان میں والدہ کے بازو میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، اہلیہ کا انتقال دسمبر ۲۰۱۹ء میں ہو گیا تھا اور گذشتہ سال اکلوتی بہن بھی چل بسی تھیں۔
احمد سعید ملیح آبادی نامور صحافی اور ابوالکلام آزاد کے دست راست مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کے فرزند تھے، ان کی والدہ صابیہ بیگم کے نام سے جانی جاتی تھیں، ۱۹۲۶ء میں احمد سعید صاحب ملیح آباد میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے بڑے چچا عبد الوحید خان کی اہلیہ سے حاصل کی، انھوں نے اردو، فارسی، عربی، ہندی اور انگریزی کی ابتدائی کتابیں احمد سعید ملیح آبادی کو پڑھائیں، پانچ سال کی عمر میں اسٹول پر کھڑے ہو کر تقریر کی مشق بھی چچی نے ہی کرائی، اس کے بعد اسکول میں داخل ہوئے، لیکن تیسرے کلاس تک ہی ابھی پہنچے تھے کہ والدہ کی علالت کی وجہ سے آگے اسکولی تعلیم جاری نہیں رہ سکی، اور ان کا رخ مدرسہ کی طرف ہو گیا، انھوں نے مدرسۃ الاصلاح سرائے میر سے اپنی تعلیم کے بعد دار المصنفین سے منسلک علما سے کسب فیض کیا، پھر کلکتہ منتقل ہو گئے، جہاں ان کے والد صاحب کا قیام تھا، مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی نے ۱۹۲۹ء میں ہند اخبار جاری کیا، مختلف سالوں میں اخبار کا نام بدلتا رہا، الہند، ہند جدید، ہند روزنامہ کے نام سے نکلتا رہا، ۱۹۴۷ء میں آزاد ہند نکلنا شروع ہوا، آزاد ہند کے نام سے اخبار جاری کیا تو وہ والد کی معاونت کرتے رہے، مولانا ابو الکلام آزاد جب وزیر تعلیم ہوئے تو انھوں نے اپنے دیرینہ رفیق کو ثقافۃ الہند کے ایڈیٹر کی حیثیت سے دہلی بلانے کی تجویز رکھی، مولانا عبد الرزاق کو تردد تھا کہ آزاد ہند پر اس کا اثر پڑے گا، مولانا نے اپنا معذرت نامہ لکھ بھیجا، جس میں اپنے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ اخبار کا کیا ہوگا، مولانا آزاد نے احمد سعید کے حوالہ کر دینے کی بات کہی اور یہ تاریخی جملہ بھی ارشاد فرمایا کہ مچھلی اور بطخ کو تیرنا سکھایا نہیں جاتا، وہ تو بغیر سکھائے تیرنے لگتی ہے، مولانا عبد الرزاق صاحب اخبار سے مطمئن ہو کر دہلی روانہ ہو گئے اور احمد سعید ملیح آبادی نے والد ہی کی طرز پر ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا، انھوں نے اس اخبار کا ہفت روزہ ایڈیشن اجالا بھی نکالنا شروع کیا، بنگلہ زبان بولنے والوں کی ریاست مغربی بنگال میں اس اخبار نے اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کا غیر معمولی کام انجام دیا، ان کے اداریوں نے حق گوئی وبے باکی کی تاریخ رقم کی اور ان کے تجزیاتی مطالعہ نے سیاسی قائدین اور حکمراں طبقہ کی رہ نمائی کا فریضہ انجام دیا، بنگال میں جب کانگریس کی حکومت تھی اس وقت بھی انھوں نے ظلم وجبر کے خلاف آواز لگائی، کمیونسٹ دور حکومت میں مرکز اور ریاست کی سیاست دو انتہاؤں پر چل رہی تھی، اور دونوں نظریات کی حمایت کرنا ممکن نہیں تھا، اس وجہ سے ان کے اداریوں میں پہلے والی دھار اور کاٹ باقی نہیں رہی، اس صورت حال کا فائدہ اخبار مشرق نے اٹھایا، آزاد ہند کے قاری کا حلقہ کمزور پڑا، اس کے باوجود آزاد ہند کی پکڑ اور کھپت اچھی خاصی تھی۔ ۲۰۰۸ء میں وہ بھاری اکثریت سے جیت کر راجیہ سبھا کے رکن بن گئے اور کہنا چاہیے کہ احمد سعید کی صحافت اسی دن مر گئی، دو سال کسی کسی طرح آزاد ہند سانس لیتا رہا، بالآخر ۲۰۱۰ء میں احمد سعید ملیح آبادی نے شاردا گروپ کے ہاتھ اس اخبار کو بیچ دیا، کیوں کہ ان کے لڑکوں میں کوئی نہ اس کی صلاحیت رکھتا تھا اور نہ ہی اس کا بوجھ اٹھانے کو تیار تھا، شاردا گروپ مقدمہ میں پھنس گیا اور آزاد ہند، آزاد ہندستان میں بند ہوگیا، تاریخ کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا۔
احمد سعید ملیح آبادی راجیہ سبھا کی رکنیت کے زمانہ میں ہی ۲۰۱۳ء میں بلڈ کینسر کے مریض ہو گئے، صحت ٹھیک نہیں رہی اور بیماری کے اثرات بڑھنے لگے تو انھوں نے اپنے آبائی وطن ملیح آباد کو اپنا مسکن بنایا، یہاں وہ اپنے بڑے لڑکے کے یہاں قیام پذیر ہو گئے، جن کی اہلیہ ان کی حقیقی بھانجی تھیں اور ان کی ضرورتوں کا بھر پور خیال رکھتی تھیں۔ ۱۸؍ اگست کو نزلہ و زکام کا حملہ ہوا، گلے میں خراش کی تکلیف ہوئی، سہارا اسپتال میں آر. ٹی. سی. پی ٹسٹ کرایا گیا، کورونا پوزیٹو نکلا اور اس بیماری نے آخرکام تمام کر دیا۔
احمد سعید ملیح آبادی کی تقریریں سلجھی ہوا کرتی تھیں، لیکن ان کی شہرت ان کی صحافت اور اداریوں کی وجہ سے تھی، ان کے اداریوں نے کم وبیش دو نسلوں کو متاثر کیا، ان کی شناخت قومی مبصر کی حیثیت سے بھی تھی، انھوں نے کئی صدر جمہوریہ اور وزرائے اعظم کے ساتھ متعدد قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی، ف، س اعجاز نے ان کی زندگی میں ہی ماہنامہ انشاء کا ضخیم نمبر ان کی شخصیت اور خدمات پر نکالا تھا۔
احمد سعید ملیح آبادی کی پانچ کتابیں شائع ہوئیں، ۱۹۴۷ء میں انھوں نے ’’آج کا پاکستان‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی، ۱۹۷۲ء میں حج کا سفر نامہ ’’اللہ کے گھر میں‘‘ لکھا، ۱۹۹۸ء میں ’’بغداد سے مدینہ منورہ تک‘‘ شائع ہوئی، اتحاد و آزادی کے نام سے بھی انھوں نے ایک کتاب لکھی، ان کی آخری کتاب ان کی خود نوشت آپ بیتی’’میری صحافتی زندگی‘‘ تھی، جو قارئین میں کافی مقبول ہوئی، خراج عقیدت کے جلسے تو بہت ہو رہے ہیں، لیکن ایک بڑ اکام ان کے اداریوں کو موضوعات کے اعتبار سے مرتب کرکے شائع کرنے کا ہے، دیکھیے یہ فال نیک کس کے نام نکلتا ہے۔
احمد سعید صاحب سے میری ملاقات ان کے کلکتہ قیام کے دوران سال میں ایک بار ہوجایا کرتی تھی، ان دنوں میں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں ہوا کرتا تھا، رمضان المبارک میں میرا سفر لازمی طور پر کولکاتہ کا ہوتا اور اس بہانے ایک ملاقات ان سے ہوجاتی، ان ملاقاتوں میں دینی، ملکی، سیاسی، سماجی سبھی مسائل پر ان کی رائے سننے کو ملتی، پھر جب امارت شرعیہ آگیا تو یہ سلسلہ منقطع ہو گیا، لیکن امارت شرعیہ اور اکابر امارت شرعیہ سے عقیدت و محبت کی وجہ سے راہ ورسم باقی رہی، پھر جب وہ راجیہ سبھا کے ممبر بنے تو انھوں نے اپنے فنڈ سے مولانا منت اللہ رحمانی اردو ہائی اسکول آسنسول کے لیے چار کمروں پر مشتمل ایک عمارت بنوائی، جو امارت شرعیہ سے ان کی محبت کی دلیل اور کاموں پر اعتماد کا واضح ثبوت تھا۔
احمد سعید ملیح آبادی کو جاننا اور سمجھنا ہو تو ان کی خود نوشت میری صحافتی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہیے، یہ آپ بیتی ہی نہیں ان کے عہد کی سیاسی وسماجی تاریخ بھی ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور اردو صحافت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:کتاب: آزادی کے بعد بہار کے اردو ادبی رسائل

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے