تعلیم کا نام صرف دستخط کر لینا نہیں: ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں

تعلیم کا نام صرف دستخط کر لینا نہیں: ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں

ملی گزٹ کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں سے  خصوصی انٹرویو

انٹرویو نگار : علیزے نجف

عالم اسلام کے مشہور و معروف مصنف و مترجم اور کہُنہ مشق صحافی ڈاکٹر ظفر الاسلام کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، یہ نام اہل علم کے لئے اجنبی نہیں، علمی حلقوں میں موصوف ایک معتبر مقام رکھتے ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ ان کی خوبیوں کے معترفین کے ساتھ ناقدین کی بھی ایک بڑی تعداد ہے، یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اب ہمارے یہاں تنقیصی تنقید کو فروغ دیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے علم پسندی کی نفسیات پہ ضرب پڑ رہی ہے اور علم کے نئے رموز کے انکشاف کی راہ میں وہ حائل ہو رہے ہیں، ایسے حالات میں مجتہدانہ نفسیات کے حامل انسان کا تنقید کی زد میں ہونا حسب توقع ہے۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں مولانا وحیدالدین خاں کے بڑے صاحب زادے ہیں. علم سے رغبت و شغف انھیں ورثہ میں ملا ہے، یہ برصغیر کی وہ نمایاں شخصیت ہیں جنھیں اردو، عربی، انگریزی زبانوں پر یکساں دسترس حاصل ہے اور ان تینوں زبانوں میں انھوں نے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں. آپ ایک بہترین مصنف و مترجم ہیں. آپ کی تصنیف و ترجمہ کردہ کتابیں پچاس سے زائد ہیں جو کہ عربی، اردو اور انگریزی زبانوں میں ہیں۔ ترجمہ کی ہوئی کتابوں میں مولانا وحیدالدین خاں کی کتاب ‘مذہب اور جدید چیلنج` کا عربی ترجمہ الاسلام یتحدی سر فہرست ہے جس کے کئی سارے ایڈیشن عرب دنیا میں شائع ہو چکے ہیں. اس کے علاوہ دیگر کتابیں بھی نہایت اہمیت کی حامل ہیں. ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کی شخصیت سازی میں کئی عوامل کا اہم کردار رہا ہے، وہ ایک سیلف میڈ پرسن ہیں جنھوں نے ساری زندگی علم کے حصول و ترسیل کی جدوجہد میں گزاری ہے۔ انھیں تین براعظموں یعنی ایشیا، افریقہ، اور یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہے. یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں وسیع النظری کو واضح طور پہ محسوس کیا جا سکتا ہے، وہ ایک تجزیاتی ذہن کے حامل انسان ہیں جو رائے قائم کرنے کے لیے آزادی کے قائل ہیں، ان کا خیال ہے کہ ذاتی مفاد کے لیے قومی مفاد کو قربان کرنا سب سے بڑی بےحسی ہے. انھوں نے خود اس کی قیمت چکائی ہے، پھر بھی اپنے ضمیر کی سرخروئی کے ساتھ مطمئن ہیں۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں ملی گزٹ کے چیف ایڈیٹر ہیں. یہ ایک ایسا معتبر اخبار ہے جس نے زمینی حقائق کو بالائے بام لانے کے لیے بڑی جدوجہد کی ہے. اس کے علاوہ الجزیرہ ٹی وی اور بی بی سی کے عربی ریڈیو اور ٹیلی وژن سے بھی وابستہ رہے ہیں. انھیں عربی، اردو، انگریزی صحافت پر دسترس حاصل ہے، ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں ہندستان میں مسلم اقلیتی طبقے کے دانشور رہ نما ہیں۔ انھوں نے ان کی فلاح و بہبود کے لیے کئی اہم اقدامات کئے ہیں. مسلمانان ہند کو درپیش مسائل پہ ان کی گہری نظر ہے۔ تعلیم کہیں تیسری نسل میں برگ و بار لاتی ہے جسے ہم شعور سے تعبیر کرتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ تعلیم کے بغیر کسی بھی قوم کی ترقی ممکن نہیں، مذہب اس ترقی کی اساس ہوتا ہے، مسلمان قوم کی زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ مذہب اور تحقیقی مزاج سے دوری ہے، وہ مسلمانوں کی تعلیمی بے شعوری سے دل برداشتہ ہیں۔
موصوف ہند اور بیرون ہند کی کئی تعلیمی و سماجی تنظیموں سے وابستہ رہے ہیں، جیسے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت، دارالمصنفین اعظم گڑھ۔ اس کے علاوہ بیرون ہند میں الاتحاد العالمی العلماء المسلمین، مؤسسة القدس اور ورلڈ ایسو سی ایشن فار مسلم یوتھ (وامی)، اس قابل قدر اور محترم شخصیت کے سامنے اس وقت میں بہ طور انٹرویو نگار  حاضر ہوں۔ میری کوشش ہے کہ میں ان کی شخصیت کے کم و بیش تمام پہلوؤں کو موضوع گفتگو بناؤں۔ آئیے سوالات کی طرف بڑھتے ہیں۔

علیزے نجف: سب سے پہلے میں آپ کا تعارف چاہتی ہوں اور یہ بھی جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کا تعلق کس خطے سے ہے، اس خطے کی تاریخی حیثیت کیا ہے اور اس وقت آپ کہاں مقیم ہیں؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام: میرا نام ظفرالاسلام ہے۔ میرے والد مولانا وحیدالدین خان صاحب تھے، جن کا ۲۱؍ اپریل ۲۰۲۱ کو انتقال ہوگیا۔ میرا تعلق مشرقی یوپی کے ضلع اعظم گڑھ سے ہے۔ وہاں میرا نانیہال کوہنڈا گاؤں میں تھا جو شاہ گنج کے پاس ہے، اور ددیہال بڈھیریا گاؤں میں تھا جو کہ سنجرپور اور پھریہا کے بیچ میں واقع ہے۔ اعظم گڑھ ایک تاریخی اورمردم خیز خطہ ہے جہاں بہت سے علما، فضلا اور شعرا پیدا ہوئے، جیسے مولانا فاروق چریاکوٹی، علامہ شبلی نعمانی اور اقبال سہیل وغیرہ۔
میں نے بچپن کے تقریباً دس سال (۱۹۴۸۔۱۹۵۸) اپنے نانیہال میں گزارے۔ اس کے بعد میں رام پور چلا گیا جہاں میرے والد بہ سلسلۂ ملازمت مقیم تھے۔ وہاں میں نے مرکزی درس گاہ اسلامی میں دو سال (درجات ۴، ۵) تعلیم حاصل کی۔ پھر میرے والد نے مجھے جامعہ دارالسلام میں پڑھنے کے لیے بھیج دیا جو کہ جنوبی ہند کی ریاست تامل ناڈوکے قصبہ عمرآباد میں واقع ہے۔ وہاں ایک سال رہ کر میں نے تعلیم حاصل کی۔ لیکن سالانہ چھٹی پر جب میں رام پور واپس آیا تو پھر میں نے دوبارہ وہاں جانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد والد صاحب نے مجھے مدرستہ الاصلاح سرائے میر میں داخل کرایا جو کہ اعظم گڑھ کا ایک معروف دینی ادارہ ہے۔ یہاں تین سال رہ کر میں نے عربی درجات میں (درجہ سوم تک) تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد چونکہ میرے والد بہ سلسلۂ ملازمت لکھنؤ منتقل ہو گئے تھے، اس لیے میں بھی لکھنؤ چلا گیا اور وہاں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لے کر دو سال (درجہ ششم) تک پڑھائی کی۔ لیکن فراغت سے ایک سال پہلے ہی میں نے ندوہ چھوڑ دیا اور وہیں لکھنؤ یونی ورسٹی کے شعبۂ مشرقی علوم میں داخلہ لے لیا جہاں سے میں نے عربی میں ’’عالم‘‘ کا ڈپلوما لیا۔ اس کے بعد میں اکتوبر ۱۹۶۶ میں مزید تعلیم کے ل‍یے  مصر چلا گیا اور وہاں جامعۃ الازہر کے کلیۃ اصول الدین میں تین سال تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہیں قاہرہ یونی ورسٹی کے کلیۃ دارالعلوم میں داخلہ لے لیا اور وہاں سے اسلامی تاریخ میں ایم اے کیا۔ اسی دوران میں نے عربی میں مضمون نگاری شروع کر دی اور مختلف موضوعات پر مضامین لکھنے لگا جو کہ مصر کے اخبارات و رسائل میں چھپنے لگے۔ میں نے اسی دوران عربی میں اندراگاندھی کی سیاسی سوانح عمری لکھی جو وہاں کے مشہور ناشر مکتبۃ النہضۃ المصریۃ نے ۱۹۶۸ میں شائع کی۔ میں نے اسی زمانے میں اپنے والد صاحب کی مشہور کتاب ’’مذہب اور جدید چیلنج‘‘ کا عربی ترجمہ کیا جس کی نظرثانی میرے استاذ ڈاکٹر عبدالصبور شاہین نے کی۔ ترجمہ مکمل ہونے کے بعد ۱۹۶۹ میں یہ کتاب کویت اور بیروت سے ’’الاسلام یتحدی‘‘ کے نام سے شائع ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔ یہ کتاب اب بھی عالم عرب کے علمی حلقوں میں معروف اور پسندیدہ کتابوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس کے درجنوں ایڈیشن عالم عرب کے مختلف ملکوں سے شائع ہو چکے ہیں۔
اس کے بعد میں فروی۱۹۷۳ میں طرابلس، لیبیا چلا گیا اور وہاں کی وزارت خارجہ میں ٹرانسلیٹر اور ایڈیٹر کے طور پر ملازم ہو گیا اور اگلے چھے سال تک وہیں کام کرتا رہا۔ اس کے بعد استعفی دے کر میں ہندستان چلا آیا اور یہاں کچھ مہینے رہ کر لندن چلا گیا۔ وہاں مسلم انسٹی ٹیوٹ نامی ادارے نے مجھے ملازمت دی اور مزید پڑھائی جاری رکھنے کے مواقع فراہم کیے۔ وہیں رہ کر میں نے مانچسٹر یونی ورسٹی میں اسلام میں مفہومِ ہجرت کے موضوع پر پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن کرایا۔ لندن میں میرا قیام اگلے پانچ سال تک رہا۔ مسلم انسٹی ٹیوٹ کے مختلف مشاغل میں مصروف رہنے کی وجہ سے میں پی ایچ ڈی مکمل نہ کر سکا۔ پھر کچھ وجوہات کی بنا پر میں ہندوستان واپس آگیا۔ ہندستان میں کچھ عرصہ رہ کر میں دوبارہ ۱۹۸۷ میں برطانیہ واپس گیا اور تقریباً دس ماہ مانچسٹر میں رہ کر پی ایچ ڈی مکمل کی۔ اس کے بعد میں دوبارہ ہندستان آ گیا اور تب سے میں دہلی میں ہی مقیم ہوں۔
علیزے نجف: آپ نے جب آنکھ کھولی تو اس وقت انگریزوں کی حکومت مکمل طور سے ختم ہو چکی تھی. ہندستان آزادی حاصل کر کے اپنا سیاسی نظام بنانے میں مصروف تھا۔ میرا سوال یہ ہے کہ آزادی کے اثرات دیہی اور دور افتادہ علاقوں میں بھی مرتب ہوئے تھے یا ان کی زندگی اپنی سابقہ روش پہ رواں تھی اور اس وقت آپ کے ارد گرد کا ماحول کیسا تھا؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام: جب میں نے مارچ ۱۹۴۸ میں آنکھ کھولی تو انگریزی حکومت ختم ہو چکی تھی اور یہ وقت تھا جب میں اپنے نانیہال میں رہتا تھا، جہاں دنیا بھر میں آنے والے صنعتی انقلاب کا کوئی اثر نہیں تھا، یہاں تک کہ نہ وہاں بجلی تھی نہ پکی سڑک، نہ کوئی ٹیلفون۔ اس زمانے میں باہری دنیا سے رابطے کا صرف ایک ذریعہ گاؤں کا پوسٹ آفس تھا جس کے ذریعے خطوط، پوسٹ کارڈ اور منی آرڈر آتے جاتے تھے۔ وہاں کے لوگوں کو شاہ گنج کے ریلوے اسٹیشن تک پہنچنے کے لیے یکہ سواری کا استعمال کرنا ہوتا تھا جو کہ اس وقت بہت ہی قلیل تعداد میں دیہی علاقوں میں مہیا تھی۔ ہمارے گاؤں میں کوئی سرکاری یا پرائیویٹ اسکول بھی نہیں تھا۔ جو بچے تعلیم کے خواہش مند تھے وہ روزانہ کوئی پندرہ میل دور شاہ گنج کے اسکولوں میں سائیکل سے جایا کرتے تھے۔ وہاں پر بھی میرے خیال میں اس وقت صرف دو یا تین ہی اسکول ہوا کرتے تھے۔ ایسے حالات میں اگر کسی کو تعلیم حاصل کرنی ہوتی تو بڑی مشقت سے حاصل کرتا اور مزید تعلیم جاری رکھنے کے لیے کسی قریبی شہر جیسے اعظم گڑھ یا لکھنؤ وغیرہ کا رخ کرتا۔ گاؤں میں دینی تعلیم کے لیے میرے نانا حافظ حامد حسن علوی مرحوم نے ایک مدرسہ بنایا تھا جس کا نام مدرسہ دینیات تھا۔ اور وہ گاؤں کے بیچوں بیچ چند کمروں اور مبارک صاحب مرحوم کی بارہ دری پر مشتمل تھا۔ اب وہ مدرسہ گاؤں کے باہر پچھم کی طرف باغ سے منسلک ایک زمین پر منتقل ہو چکا ہے۔ یہ تھی ہمارے گاؤں کی حالت۔ اور شاید ہمارے علاقے بلکہ پورے ہندستان کے گاؤں کی بھی حالت اس سے کوئی بہتر نہ تھی۔ گاؤں میں ملازمت کا کوئی امکان نہ تھا۔ زیادہ سے زیادہ کچھ لوگ کھیتوں میں کام کرتے، جو کہ تقریبا تمام کے تمام ہندو ہوتے۔ کچھ پڑھے لکھے مسلمان کام کی غرض سے دوسرے بڑے شہروں جیسے کہ بمبئی اور کلکتہ وغیرہ کا رخ کرتے یا سنگاپور اور ملیشیا وغیرہ جاتے جس کا راستہ اس وقت تک کھلا تھا۔ وہاں مبارک صاحب جو غالبا اور سینئر تھے، ایک بہت بڑے ڈبہ نما ریڈیو لائے تھے جو ایک بہت بڑی بیٹری سے چلتا تھا۔ اس کا انٹینا ایک بہت بڑا سا جال تھا جو دو کھمبوں کے درمیان لٹکا دیا جاتا تھا اور ریڈیو سیٹ سے اس کا تار منسلک ہوتا تھا۔ لوگ بہت احترام سے اس کے سامنے چٹائیوں پر بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت اور خبریں سنتے تھے۔ یہ آخری چیز تھی جدید تہذیب کی جو ہمارے گاؤں میں اس وقت تک پہنچ سکی تھی۔ یہ غالبا ۱۹۵۵ کے آس پاس کا زمانہ ہے۔
علیزے نجف: آپ کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس میں کئی مایۂ ناز شخصیات نے جنم لیا۔ انھوں نے اپنے اپنے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ میرا سوال یہ ہے کہ آپ کے اندر وہ کون سی صفات ہیں جو آپ کو اپنے اجداد کی طرف سے وراثت میں ملی ہیں. یعنی آپ کی شخصیت سازی میں کس کا سب سے بڑا کردار رہا ہے اور انھوں نے آپ کو کس پہلو سے سب سے زیادہ متاثر کیا؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام: چونکہ میں نے بچپن کے ۱۰-۱۱ سال اپنے نانا کے ساتھ گزارے تھے، اس لیے ان کا اثر میری شخصیت پر سب سے زیادہ پڑا۔ میرے بہت سے خالہ زاد بھائی بہن تھے لیکن ان سب میں، میں ہی نانا کو عزیز تھا اور وہ مجھ کو اپنے پاس ہی رکھتے تھے۔ وہ اپنے پورے علاقے کی سب سے ممتاز شخصیت تھے۔ وہ بہت بڑے زمین دار اور ساتھ ہی پیر و مرشد بھی تھے۔ ان کے مرید بہار اور بنگال سے لے کر مشرقی پاکستان (اب بنگلا دیش) تک پھیلے ہوئے تھے۔ ان کے یہاں مریدوں کی آمد کا سلسلہ سال بھر جاری رہتا۔ لیکن کسی کو دو تین دن سے زیادہ وہاں رہنے کی اجازت نہ تھی۔ ان کے یہاں کوئی خرافات نہیں تھی اور ان کے یہاں مریدوں سے تحفے تحائف یا نذرانے لینے کا کوئی رواج نہ تھا بلکہ آنے والے تمام مرید ان کے مہمان ہوتے اور گھر کے اندر ہی واقع چھوٹی سی مسجد میں مراقبہ اور اوراد و وظائف ادا کرتے۔ میرے نانا بہت ہی رحم دل، دوسروں کا خیال کرنے والے اور بہت ہی اعلا صفت کے آدمی تھے۔ ان سب چیزوں کو میں نے بہت خاموشی سے دیکھا اور قبول کیا۔ آج میرے اندر جو اعلا صفات ہیں، ان کی ہی وجہ سے ہیں۔
والد صاحب کا میرے اوپر کوئی خاص اثر نہیں ہے، کیونکہ میں ان کے ساتھ بہت کم رہا۔ نیز ان کی بےجا سختی کی وجہ سے میں ان سے ڈرتا تو ضرور تھا لیکن ان سے محبت کرنے سے عاجز تھا۔ البتہ والدہ مجھے بہت چاہتی تھیں لیکن وہ والد صاحب کی سختی کے سامنے بے بس تھیں۔ جب والد صاحب نے لکھنؤ چھوڑا تو مجھ سے پوچھا: کیا تم اپنا کلام چلا لوگے۔ میں نے کہا: ہاں۔ یوں وہ مجھے اپنے حال پر چھوڑ کر اعظم گڑھ چلے گئے۔ پھر میں نے ٹیوشن وغیرہ کرکے اپنا خرچ چلایا۔ اسی وجہ سے میں اس صورت حال سے نجات پانے کے لیے بہت جلد خود اپنی محنت و کوشش سے مزید تعلیم کے لیے قاہرہ چلا گیا۔ یوں بھی مجھے لگ رہا تھا کہ ہندستان میں میرے لیے کوئی خاص مواقع نہیں ہیں۔ اس کے بعد میں تقریباً ۱۸ سال تک باہر رہا۔ اس عرصے میں بھی میرے اپنے والد سے کوئی خاص تعلقات نہیں تھے، سوائے اس کے کہ جب میں لیبیا میں بہ سلسلۂ ملازمت ۶؍ سال مقیم تھا تو میں نے ان کی پوری طرح سے مدد کی جس کے نتیجے میں ان کی وہ کتابیں شائع ہوئیں، جن کے چھپنے کو لے کر وہ مایوس ہو چکے تھے اور یوں ’’الرسالہ‘‘ نامی پرچہ بھی میرے تعاون سے نکلا اور اب بھی نکل رہا ہے۔
علیزے نجف: ایک بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو قدرت نے اسے کئی ممتاز خوبیوں سے بھی نوازا ہوتا ہے جو کہ پوٹینشیل کی صورت اس کے اندر موجود ہوتی ہیں۔ اس کو بروئے کار لانے کے لیے مثبت ماحول اور اچھے مربی کی ضرورت ہوتی ہے. میرا سوال یہ ہے کہ آج کے دور کے بچوں کو ملنے والا ماحول عمومی طور پر کیسا ہوتا ہے اور کیا وجہ ہے کہ نوجوان نسل کی اکثریت اپنے اسلاف کی اقدار و روایات سے برگشتہ ہوتی جا رہی ہے؟ کیا اس کی وجہ صحت مند ماحول اور اور تربیت ساز والدین کا فقدان ہے؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام: میرا تجربہ اور تأثر یہ ہے کہ بچوں کو ہمارے معاشرے میں وہ ماحول نہیں مل پاتا جس سے ان کی مثبت تربیت ہو اور وہ مستقبل کے لیے تیار ہوں۔ گھروں میں یا تو بچوں کے ساتھ بڑی سختی ہوتی ہے یا حد سے زیادہ لاڈ پیار۔ اس طرح کے دونوں قسم کے بچے آگے چل کر معاشرے کے لیے مسئلہ بنتے ہیں۔ مدرسوں میں، جہاں میں نے پڑھا، اساتذہ بچوں کے ساتھ بہت سختی کا معاملہ کرتے ہیں اور بہت معمولی معمولی باتوں پر ان کی پٹائی کرتے ہیں، جس کے لیے وہ کسی بھی طرح سے جواب دہ نہیں ہوتے۔ معاشرے کے اندر بھی بچوں سے ہم دردی اور اپنائیت رکھنے کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر آپ اسکول میں پڑھ رہے ہیں تو وہاں بھی اسی طرح کا ماحول ہے کہ ماسٹر صاحب یا ٹیچر کو آپ سے کو ئی ہم دردی نہیں ہوتی۔ جب بچہ مسجد میں یا مکتب میں قرآن پاک یا دینیات پڑھنے جاتا ہے تو وہاں بھی مولوی صاحب چھڑی، ڈنڈوں اور مکوں سے ان کی خاطر تواضع کرتے ہیں۔ نماز پڑھنے بچہ آتا ہے تو جھڑک کر اسے آخری صف میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں جب مدرسہ یا اسکول کے اساتذہ اور بالخصوص والدین بچوں کو محبت اور عمدہ سلوک کے ذریعے سکھانے کے بجائے سختی اور سزا پر یقین رکھتے ہوں تو میں نہیں سمجھتا کہ اس سے وہ اچھی نسل پیدا ہو گی یا پروان چڑھے گی جو اپنے معاصرین اور اپنے آگے آنے والی نسل کے لیے خیرخواہ ہو پائے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے سماج میں بداخلاقی، بے ایمانی، خودغرضی اور منافقت کا چلن عام ہے۔ استثنا ہر جگہ ہوتا ہے، میں اس کی بات نہیں کرتا، لیکن یہ ایک عمومی حالت ہے جس کی میں بات کر رہا ہوں۔
علیزے نجف: تعلیم ایک ایسا مرحلہ ہے جس سے گذر کر انسان اپنے شعور میں پختگی پیدا کرتا ہے۔ آپ نے اپنے تعلیمی مراحل کو کس طرح طے کیا؟ پرانے وقت کے تعلیمی نظام کی وہ کون سی خوبیاں ہیں جو آج کے تعلیمی نظام میں ناپید ہوتی جا رہی ہیں اور کیوں؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام: تعلیم صرف کچھ معلومات کے رٹانے یا نوٹس رٹنے کا نام نہیں ہے بلکہ ایک اچھے انسان کی طرح سے ذمہ دار زندگی گزارنے کے طورطریق سکھانے کا نام ہے۔ میرے خیال میں ہمارے موجودہ تعلیمی نظام میں یہ بات مفقود ہے۔ تعلیم اب رٹنے رٹانے اور امتحان پاس کرنے کا نام ہے۔ میں نے، جیسا کہ پہلے بتا چکا ہوں، ہندستان کے مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کی اور آخر میں لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ مشرقی علوم میں پڑھا۔ اس کے بعد میں قاہرہ چلا گیا جہاں میں نے جامعہ ازہر میں داخلہ لیا۔ جامعہ ازہر حالانکہ ہمارے مدرسوں سے مختلف ہے، لیکن پھر بھی انسان سازی کا کام وہاں پر بھی کم از کم میرے زمانے میں نہیں ہو رہا تھا۔ صرف کچھ نصوص یاد کرنے اور ان میں امتحان پاس کرنے کا نام تعلیم تھا۔ اور یہی چیز میں نے قاہرہ یونی ورسٹی میں بھی دیکھی، حالانکہ وہاں پر حالت قدرے بہتر تھی، لیکن پھر بھی ایک ڈھرّے پر چلنے کی وجہ سے ڈگری تو حاصل ہو جاتی ہے لیکن ایک ذمہ دار زندگی گزارنے کا راز انسان کو نہیں ملتا۔ قاہرہ یونی ورسٹی سے میں نے ایم اے  کرنے کے لیے تھیسس لکھا۔ اس تھیسس کے آخر میں تقریبا تین، چار صفحات میں، میں نے وہ اسباب لکھے جن کی وجہ سے فلسطین کی مزاحمتی تحریک ناکام ہوئی لیکن میرے استاد نے وہ تین چار صفحات مقالے سے نکلوا دیے یہ کہہ کر کہ یہ تمہارے لئے بہت پریشانی کا باعث بنیں گے! میرے نزدیک وہ تین چار صفحات بہت قیمتی تھے بلکہ سارے مقالات کا نچوڑ تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ صفحات کہاں گئے۔ ان کے ضائع ہونے کا مجھے اب تک افسوس ہے۔ اس کے برعکس جب میں نے مانچسٹر یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے کے لئے داخلہ لیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں پر بہت رواداری ہے۔ میرے استاد پروفیسر بوزورتھ نے، جو کہ اپنے وقت کے اہم ترین مستشرق تھے، مجھ سے میری آراء کے بارے میں کبھی کوئی سوال نہیں کیا اور کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ میں اپنی رائے بدل دوں حالانکہ میرا جو موضوع تھا اس میں بار بار یوروپین ملکوں پر شدید تنقید کی گئی تھی کیونکہ میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ مفہوم ہجرت پر تھا اور اس میں یوروپین ممالک سے یا ان کی وجہ سے ہونے والی ہجرتوں کا تذکرہ تھا، جیسے اسپین اور روس کے مختلف علاقے جہاں سے روسی قبضے کے بعد مسلمانوں نے بڑی تعداد میں جنوب کی طرف ہجرت کی تھی۔ اسی طرح میں نے دیکھا کہ جہاں ہمارے قاہرہ یونی ورسٹی کے استاد میرے کسی چیپٹر کو دیکھنے میں مہینوں لگا دیتے، مانچسٹر یونی ورسٹی میں میرے استاد ہمیشہ مجھے میرا چپیٹر اگلے دن صبح کو واپس کر دیتے۔ رہی بات ہندستان کی، تو غالباً یہاں کی حالت اس سے بھی خراب ہے۔ یہاں لوگ کہتے ہیں کہ اساتذہ پی ایچ ڈی کے طلبہ کے چپپٹرز، جو ان کو دیے جاتے ہیں، سالہا سال تک رکھے رہتے ہیں، انھیں دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے اور طلبہ کو اپنے ذاتی کاموں میں الجھائے رکھتے ہیں۔ ایسے میں وہ ماحول کہاں سے پیدا ہو گا جس میں طالب علم اپنے علم سے محبت کرے گا، استاذ کا احترام کرے گا اور اگلی نسلوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں سنجیدہ ہوگا اور یونی ورسٹیوں میں ایک اچھا ماحول پیدا ہو گا؟
علیزے نجف: آپ نے ہندستان کے کئی معتبر دینی اداروں کے ساتھ ساتھ جامعہ ازہر مصر اور مانچسٹر یونی ورسٹی سے بھی تعلیم حاصل کی۔ یوں آپ نے مختلف ماحول اور تہذیبوں اور ثقافتوں کا قریب سے مشاہدہ کیا. میرا سوال یہ ہے کہ ان میں سے کس ادارے میں طلبہ کی نفسیات اور ان کی انفرادیت پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی اور کیا وجہ ہے کہ ہندستان کے بیشتر دینی مدارس بدلتے وقت کے تقاضوں کو قبول کرنے کے بجائے ان کی تردید کرنے پر کمربستہ بستہ ہیں۔ یوپی حکومت کے مدارس کا سروے کے حالیہ فیصلے پر آپ کی کیا رائے ہے؟ اس سروے سے آپ کس طرح کے نتائج کی امید رکھتے ہیں؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام: ہندستانی مدارس، جامعہ ازہر اور مانچسٹر یونی ورسٹی کی تعلیم کے سلسلے میں ابھی بتا چکا ہوں۔ مختصراً دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ ہمارے مدارس میں طلبہ کی نفسیات اور ان کی انفرادیت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی، بلکہ ان کو کچلا جاتا ہے۔ خود میرے ساتھ یہ معاملہ مدرسۃ الاصلاح میں ہوا، جہاں انگریزی کے ٹیچر کوثر فاروقی صاحب سے، جو بعد میں شبلی کالج اور پھر پونہ یونی ورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر ہوئے، قربت کی وجہ سے مجھ کو ایک ’’باغی‘‘ سمجھا گیا اور اس کی شکایت میرے گھر والوں تک سے کی گئی۔ ندوۃ العلماء میں پڑھائی کے دوران چونکہ میری اس وقت بھی شدید خواہش تھی کہ انگریزی زبان پر عبور حاصل کروں، اس لیے وہاں مشہور کردیا گیا کہ میں’’عیسائی‘‘ ہو گیا ہوں، جب کہ ایسی کوئی بات نہیں تھی بلکہ معاملہ صرف یہ تھا کہ انگریزی سیکھنے کی خواہش میں، میرے تعلقات کچھ عیسائیوں سے بھی ہو گئے تھے۔ ہمارے مدارس کو نہ صرف اپنے نصاب تعلیم پر بہت گہرائی سے نظرثانی کرنے کی اور ان کو حالات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے، بلکہ انھیں اپنے طلبہ کی نفسیات و انفرادیت کا بھی خاص خیال رکھنا چاہئے، کیونکہ وہی طلبہ سوال و جواب کرتے ہیں اور اختلاف کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جن کے اندر غیرمعمولی ذہانت ہوتی ہے۔ اس صلاحیت کو کچلنے کے بجائے اسے مزید پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ مدارس کے ٹیچروں کی ٹریننگ پر توجہ ہونی چاہئے جس کے دوران ان کو بچوں کی نفسیات کی بھی تعلیم دی جانی چاہئے اور ان کو نئی نسل کا ہم درد بنانا چاہئے۔ ہمارے مدارس کے نصاب اب بھی کچھ تبدیلیوں کے باوجود جدید زمانے کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ ان کو بہت سے مواد کو حذف کر دینا چاہئے جیسے منطق، فلسفہ، فارسی اور فقہ کی کچھ کتابیں۔ ان کو دینی و عربی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم اس طرح دینی چاہئے کہ طلبہ پہلے مرحلے یعنی عالمیت تک پہنچتے پہنچتے گورنمنٹ سے منظورشدہ ہائی اسکول کے سرٹیفکٹ بھی حاصل کر سکیں۔ اس مرحلے کے بعد ان کو تخصص کے مرحلے میں داخل کرانا چاہئے جہاں تین، چار سال میں وہ تفسیر، حدیث، فقہ اور عربی زبان و ادب پر مہارت حاصل کر کے مستند عالم بن سکیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی ہونی چاہئے کہ یہ تخصص و فضیلت کا مرحلہ بھی حکومت سے منظور شدہ ہو تاکہ ایسے فارغین دنیا میں صرف کچھ ’’دینی‘‘ کاموں کے لیے ہی محدود نہ ہوں بلکہ اگر وہ چاہیں تو اس میدان سے باہر جا کر بھی کوئی دوسرا کام کر سکیں، ملازمتیں حاصل کرسکیں اور یونی ورسٹی وغیرہ میں بھی اعلا تعلیم حاصل کر سکیں۔
یوپی حکومت جو مدارس کا سروے کرا رہی ہے اس میں بذات خود کوئی غلط بات نہیں ہے بلکہ یہ ہر حکومت کا حق بھی ہے اور فرض بھی کہ وہ جانے کہ اداروں اور مدرسوں میں کیا ہو رہا ہے یا کیا تعلیم دی جا رہی ہے۔ لیکن چونکہ یوپی اور ہندستان میں موجودہ حکومت کے خیالات، ارادے اور منصوبے واضح طور سے مسلم دشمنی پر مبنی ہیں، اس لیے مجھے مذکورہ سروے سے کسی اچھائی کی امید نہیں ہے بلکہ اس کا استعمال کر کے موجودہ فرقہ پرست حکومت کچھ غلط اقدامات کرے گی۔ اسی کے ساتھ یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ ہمارے اداروں اور مدارس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی سوسائٹی یا ٹرسٹ اور زمین کے کاغذات کا باقاعدہ رجسٹریشن کرائیں اور اپنا حساب کتاب ٹھیک سے رکھیں تاکہ کسی وقت طلب کرنے پر یہ اہم دستاویزات آپ کے پاس دکھانے کے لیے ہوں۔
علیزے نجف: آپ ایک صحافی ہیں۔ آپ ہندستان کے معتبر جریدہ ’’ملی گزٹ‘‘ کے چیف ایڈیٹر بھی ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے اپنی صحافت کا آغاز کب اور کہاں سے کیا؟ آپ کے اندر صحافی بننے کا رجحان فطری تھا یا وقت کی ضرورت کے تحت آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے؟ آپ کی اب تک کی صحافت کا تجربہ کیسا رہا؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام: میں نے قاہرہ جانے سے پہلے ہی ہندستان میں مضامین اردو میں لکھنا شروع کر دیا تھا اور تقریباً ۱۹۶۴ سے میری کچھ تحریریں یہاں کے بعض پرچوں میں جیسے ’’دعوت‘‘ اور ’’تعمیر حیات‘‘ وغیرہ میں چھپ چکی تھیں۔ مصر جانے کے بعد میں نے باقاعدہ عربی صحافت میں قدم رکھ دیا۔ تقریباً وہاں پہنچنے کے ڈیڑھ سال کے اندر ہی یہ سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ نہ صرف یہ کہ مجھے اس کام سے دل چسپی تھی، بلکہ یہ بھی تھا کہ مصر میں جو اسکالر شپ ہمیں ملتی تھی وہ بہت کم تھی اور مہینے کے دس، پندرہ دنوں میں ختم ہو جاتی تھی۔ گزارے کے لیے آمدنی کے کسی اور ذریعے کی بھی ضرورت تھی۔ وہاں یہ رواج تھا کہ طلبہ ٹیوشن، ترجمہ، یونی ورسٹی یا کالج میں پڑھانا اور دوسرے پارٹ ٹائم کام کرتے تھے۔ لہذا میں نے بھی اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے عربی میں لکھنا شروع کر دیا۔ مصر میں ایک ضابطہ ہے، شاید اب بھی وہاں لاگو ہو گا، کہ ہر مطبوعہ مضمون کا معاوضہ لکھنے والے کو دیا جاتا تھا۔ یوں میرے لیے وہاں کی صحافت میں لکھنا نہ صرف ایک شوق کی تکمیل تھا بلکہ اس سے مجھے کچھ آمدنی بھی ہو جایا کرتی تھی جس سے میرا ماہانہ خرچ آرام سے چل جاتا تھا۔ میرے مضامین مشہور روزنامہ ’’الاخبار‘‘ اور الشبان المسلمون، سنابل، الاعتصام، منبر الاسلام وغیرہ نامی پرچوں میں چھپے۔ میرے مضامین اس وقت کے سب سے مشہور عربی ہفت روزہ ’’الحوادث‘‘ (بیروت) میں بھی چھپے۔ لیبیا جانے سے پہلے میں نے کچھ عرصہ قاہرہ ریڈیو پر اردو اناؤنسر کے طور پر بھی کام کیا۔
۱۹۷۳ میں، میں قاہرہ سے میں لیبیا کی وزارت خارجہ میں کام کرنے طرابلس چلا گیا۔ وہاں بھی میں نے لیبیا کے عربی پرچوں جیسے ’’الفجر الجدید‘‘، ’’الجہاد‘‘ اور ’’الأسبوع الثقافی‘‘ میں مسلسل عالم اسلام، مغرب اور ہندستان وغیرہ کے مسائل پر لکھنا شروع کیا جو لیبیا میں میرے قیام کے اگلے چھے سال تک جاری رہا۔ اکتوبر ۱۹۷۹ میں، میں لندن چلا گیا اور وہاں میں نے باقاعدہ انگریزی زبان میں لکھنا شروع کیا۔ میں پہلے بھی انگریزی میں کبھی کبھار مضامین لکھتا تھا اور وہ میرے قاہرہ کے زمانے سے ہی دلی کے معروف ہفت روزہ ’’ریڈیئنس‘‘ میں چھپتے تھے۔ لندن جانے کے بعد میں نے ’’کریسنٹ انٹرنیشنل‘‘ میں مستقل مضامین لکھنا شروع کیے۔ اسی کے ساتھ ایک مسلم فیچر سروس کا آغاز کیا جس کا نام مسلم میڈیا تھا۔ یہ فیچر سروس مسلم انسٹی ٹیوٹ کے خرچے پر چلتی تھی جہاں میں کام کرتا تھا۔ یہ سروس تقریباً ۱۹۸۱میں شروع ہوئی اور لندن سے ہندستان واپسی تک میں ہی اس کا ایڈیٹر تھا۔ میرے واپس آنے کے بعد بھی مسلم میڈیا سروس کئی سال تک چلتی رہی، لیکن بعد میں وہ بند ہو گئی۔ مسلم میڈیا میں ہم ہر ماہ تقریبا پندرہ بیس فیچر مضامین انگریزی میں تیار کر کے یا لکھواکر دنیا کے مختلف اخبار و رسائل کو بھیجتے تھے جس میں سے کافی یہاں وہاں چھپتے تھے، خصوصاً پاکستان اور ایران میں۔ لیکن جیسا کہ ہمارے لوگوں کی عادت ہے، وہ شاذ و نادر ہی اس کی فیس مسلم میڈیا کو ادا کرتے تھے، جس کی وجہ سے یہ فیچر سروس بعد میں بند کر دی گئی کیونکہ مالی طور پر یہ اپنے پاؤں پر کبھی کھڑی نہیں ہو پائی تھی۔ ہندستان واپس آنے کے بعد میں نے کریسنٹ انٹرنیشنل اور مسلم میڈیا کے لیے لکھنا جاری رکھا۔ یہاں آکر میں نے مسلم میڈیا جیسی ایک سروس اردو میں ’’اوریینٹ پریس انٹرنیشنل‘‘ کے نام سے شروع کی لیکن وہ بھی کوئی ڈیڑھ سال میں بند کرنی پڑی کیونکہ ہند و پاک کے اردو اخبارات اس کے مضامین تو خوب چھاپتے تھے لیکن وہ شاذ و نادر ہی کوئی فیس ادا کرتے تھے۔ اس زمانے میں، میں نے ہندستان کے انگریزی پرچوں میں بھی لکھنا شروع کیا جیسے ٹائمز آف انڈیا، انڈین ایکسپریس، پاینیئر اور اسٹیٹس مین وغیرہ۔ اسی دوران میں نے عربی صحافت میں بھی مضامین لکھنا شروع کیا خصوصاً سعودی عرب کے سب سے مشہور عربی روزنامہ ’’الریاض‘‘ میں اور جدہ کے انگریزی روزنامہ ’’عرب نیوز‘‘ میں۔ ’’الریاض‘‘ نے بالآخر مجھے ۱۹۹۹ کے اواخر میں ہندستان میں اپنا مستقل نمائندہ باضابطہ مشاہرے پر مقرر کیا۔ غالباً یہ اب تک کی واحد مثال ہے کہ کسی عرب اخبار نے ہندستان میں کسی ہندوستانی کو باقاعدہ اپنا نمائندہ مقرر کیا ہو۔ یہ سلسلہ تقریبا ۲۰۰۶ تک چلتا رہا۔ اس کے بعد اس وقت کے ہندستان میں سعودی سفیر کے اعتراض کی وجہ سے یہ سلسلہ منقطع ہو گیا کیونکہ ان کو میری رپورٹیں پسند نہیں تھیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہندستان کے بارے میں منفی رپورٹیں کسی سعودی اخبار میں چھپیں۔ ایک ملاقات میں انھوں نے مجھ سے تلخ لہجے میں کہا: ’’میں ہندستان سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کررہا ہوں اور تم اسے خراب کر رہے ہو! ‘‘ انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں ہندستان کے بارے میں ایسی رپورٹیں بھیجوں جو منفی نہ ہوں!
اسی دوران میں نے قاہرہ سے چلنے والے عربی اور انگریزی نیوزپورٹل ’’اسلام آنلائن‘‘ کے لیے بھی دونوں زبانوں میں لکھنا شروع کیا جو سلسلہ کافی دن تک چلتا رہا۔ اسی کے ساتھ میں نے اس زمانے میں ہندستانی اخبارات کو سینکڑوں خطوط لکھے جو کہ مختلف مسائل کے بارے میں ہوتے تھے یا ان خبروں اور ان مضامین کے بارے میں ہوتے تھے جو ان پرچوں میں شائع ہوتے تھے۔ یہ سلسلہ جنوری ۲۰۰۰ء میں ملی گزٹ نکلنے کے بعد بڑی حد تک بند ہو گیا کیونکہ اس کے بعد میری پوری توجہ ملی گزٹ پر مرکوز ہو گئی۔ ملی گزٹ کے نکلنے کے بعد میں نے ہندستانی پرچوں میں لکھنا بند کر دیا، البتہ باہر کے پرچوں کے لیے لکھنے کا سلسلہ جاری رہا کیونکہ باہر کے اخبارات اور پورٹل معقول معاوضہ دیتے تھے جس کی مجھے اس وقت شدید ضرورت تھی اور سچ پوچھیں تو اسی کی وجہ سے میں ملی گزٹ نکال پایا اور اتنے عرصے تک چلا پایا۔
ملی گزٹ جنوری ۲۰۰۰ سے دسمبر ۲۰۱۶ تک پرنٹ ایڈیشن کے طور سے جاری رہا، جو کہ پورے ۱۷ ؍سال ہوتے ہیں۔ اس دوران پہلے دن سے اس کا پورٹل بھی جاری رہا، لیکن ۲۰۱۶ میں ملی گزٹ پر سرکار کی طرف سے دو مقدمے کر دیے گئے اور دلی پولیس سے بھی نوٹس آیا کہ کیوں نہ آپ کا ڈیکلریشن کینسل کر دیا جائے، نیز ہمارا ایک رپورٹر آیوش منسٹری پر ایک رپورٹ کی وجہ سے گرفتار بھی ہوا۔۔۔ اس کی وجہ سے ہمیں بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور عدالتوں کے چکر لگا کر کافی پیسہ برباد ہوا۔ چونکہ پرچہ اس وقت تک بھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو پایا تھا، اس لیے ہم نے اس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا حالانکہ اب میں سوچتا ہوں کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس وقت (۲۰۱۶) کے حالات ایسے تھے کہ ہمیں اندازہ ہو رہا تھا کہ مودی گورنمنٹ کے تحت اب آزادی کے ساتھ کوئی پرچہ نکالنا ممکن نہیں رہے گا اور جو آزادی ہم کو پہلے ملی ہوئی تھی وہ باقی نہیں رہے گی۔ بعد کے ایام نے یہ ثابت کر دیا کہ مودی حکومت کا رویہ صحافت کے ساتھ سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا، الا آنکہ وہ اخبارات یا نیوز پورٹل یا ٹیلی ویژن اسٹیشن حکومت کی اندھی تأیید و چاپلوسی کریں، جو کہ یقیناً ملی گزٹ کا مزاج نہیں تھا۔ ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اگر پرچہ جاری رہتا تو شاید ہر ایشو کے بعد ہمیں کوئی نہ کوئی مصیبت جھیلنی پڑتی۔ اس کے علاوہ میرا غیرملکی میڈیا سے تعلق مسلسل جاری ہے، بالخصوص الجزیرہ اور بی بی سی کی عربی سروس سے۔ الجزیرہ کے لیے میں ۱۹۹۶ سے کچھ نہ کچھ کام کرنے لگا تھا جس میں اس کے پروگراموں میں قطر جاکر شرکت، ٹیلی ویژن پر خبروں پر تبصرے اور اس کے عربی پورٹل کے لیے مضامین لکھنا شامل ہے۔ کویت ریڈیو (عربی) کے لیے بھی میں نے کافی عرصے مبصر کے طور پر کام کیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے اہم ٹیلی ویژن اسٹیشن جیسے ترکی کا ٹی آر ٹی چینل وغیرہ بھی میرے ربط میں رہتے ہیں۔
علیزے نجف: پندرہ روزہ ’’ملی گزٹ‘‘ کو ایک ایسا جریدہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو مسلمانوں بالخصوص مختلف ملکوں میں بسنے والی مسلم اقلیتوں کے لیے وقف ہے. میرا سوال یہ ہے کہ اس جریدے کی ادارت کے دوران آپ نے مسلم اقلیتی طبقے میں کس مسئلے کو سب سے زیادہ موضوع بحث بنایا اور ان کوششوں سے اس طبقے میں اب تک کس طرح کی بہتری پیدا ہوئی اور کیا وجہ ہے کہ ہندستان میں مسلم اقلیتی طبقے کی سیاسی قیادت میں اتحاد مفقود نظر آتا ہے اور آپ ان کی سیاسی بصیرت کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام: ہم نے، جیسا کہ اس کا نام ہے، مسلمانان ہند کے مسائل اور خبروں پر ترکیز کی۔ مسلمانوں سے متعلق اچھی اور بری خبریں سب چھاپیں اور ایک نیٹ ورک بنا لیا جس کی وجہ سے تقریباً پورے ہندستان کی اہم خبریں ہمارا اسٹاف اور ہمارے نمائندے ہم کو فراہم کرتے تھے جو کہ پرچے میں چھپتی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۱۶ء تک ہندستانی مسلمانوں کی تاریخ اور سیاست جاننے اور سمجھنے کے لئے ملی گزٹ ایک ضروری ماخذ ہے۔ ملی گزٹ کا پرنٹ ایڈیشن اب بند ہوگیا ہے، لیکن اس کا پورٹل اب بھی آنلائن چل رہا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس کا کوریج بہت کم ہو گیا ہے۔ اب ہمارے پاس باقاعدہ اسٹاف بھی نہیں ہے جو کہ اس کے لیے رپورٹیں وغیرہ تیار کر سکے۔
علیزے نجف: انگریزی صحافت کے ساتھ اردو صحافت پر بھی آپ کی گہری نظر ہے۔ اس کے علاوہ الجزیرہ ٹی وی اور بی بی سی کے عربی ریڈیو اور ٹیلی وژن سے وابستگی کی وجہ سے عربی صحافت کا بھی آپ کو تجربہ ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ آپ کی نظر میں ان تینوں زبانوں کی صحافت کا معیار کیا ہے اور ان کے درمیان کس طرح کا اصولی فرق پایا جاتا ہے؟ کیا اردو صحافت معیار کے نچلے پائدان پر جا پہنچی ہے؟ کیا اکیسویں صدی میں اردو صحافت کی نشأۃ ثانیہ کی امید کی جا سکتی ہے؟ اگر ہاں تو یہ کیسے ممکن ہے؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام: اردو اور عربی صحافت میں بالعموم کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ دونوں میں جوشیلا انداز اپنایا جاتا ہے اور من پسند حقائق کا ہی ذکر کیا جاتا ہے۔ ان دونوں زبانوں میں صحافی عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں جو غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں، انھوں نے صحافت میں باقاعدہ تعلیم یا ٹریننگ حاصل نہیں لی ہوتی ہے، بلکہ کچھ ذاتی خواہش اور شوق کی وجہ سے اور کچھ مجبوری میں اس پیشہ سے جڑتے ہیں۔ لیکن الجزیرہ پر یہ بات چسپاں نہیں ہوتی ہے کیونکہ وہاں پر معیار اور حقائق کو پرکھنے اور مخالف و موافق دونوں جانبین کی رائے پیش کرنے کا اصول شروع سے اپنایا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شروع میں الجزیرہ کے اکثر صحافی بی بی سی کی عربی سروس سے آئے تھے اور انگریزی الجزیرہ کے صحافی بھی بہت اونچے مغربی اخبارات اور معروف ٹیلی ویژن چینلز سے آئے تھے۔ اس کی وجہ سے ایک معیار بنا اور یہ اس کا طرّۂ امتیاز ہو گیا۔ لیکن عربی صحافت میں بالعموم معیار کا فقدان ہے۔ شکل و صورت کے اعتبار سے تو بہت ہی دیدہ زیب ہوتے ہیں اور نیوز پرنٹ بھی بہت عمدہ ہوگا لیکن چھپی ہوئی خبروں اور مقالوں کے اندر جو مضامین ہوں گے وہ اکثر معیار سے گرے ہوئے ہوں گے۔ ان کےا ندر آپ کو ایک اور خاصیت بہت واضح طور پر نظر آئے گی کہ وہ زیادہ تر ہر ملک کی اپنی حکومت کے مزاج کے موافق ہوں گے۔ اس میں کچھ پرچوں کا استثنا بھی ہے جو کہ بنیادی طور پر بیروت سے نکلتے تھے، لیکن وہاں کی خانہ جنگی وغیرہ کی وجہ سے ان کے مدیران اور نامہ نگاران بیرون ممالک منتقل ہو گئے اور لندن اور پیرس وغیرہ میں جا کر اپنے آفس کھول لیے، جس میں روزنامہ ’’النہار‘‘ ایک بہت عمدہ مثال ہے جو ایک لبنانی عیسائی شخص کی ملکیت ہے۔ اس نے اپنے معیار کو قائم رکھا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی انگریزی صحافت یعنی پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کا معیار پچھلے سالوں میں کافی گرا ہے اور ایک دو اخبارات جیسے انڈین اکسپریس اور دی ہندو کے علاوہ سب گودی میڈیا کا حصہ بن چکے ہیں۔ اسی طرح این ڈی ٹی وی کے اڈانی کے ہاتھوں بک جانے کے بعد وہ چینل بھی اپنی پرانی روایتوں سے بڑی حد تک دست بردار ہو چکا ہے اور اب ہندستان کے سارے بڑے چینلز گودی میڈیا کا حصہ ہیں جو بڑے دھڑلے سے موجودہ حکومت کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں۔
رہی بات اردو صحافت کی، تو میں اس کے بارے میں خوش گمان نہیں ہوں۔ اب کچھ چھوٹے چھوٹے پرچے یہاں وہاں سے نکل رہے ہیں اور جو دو بڑے پرچے ہیں ان کو غیرمسلم سرمایہ داروں نے یا تو شروع کیا ہے یا خرید لیا ہے۔ اردو پرچے اگرچہ کچھ نہ کچھ مسلمانوں کے مسائل میں دل چسپی لیتے ہیں کیونکہ ان کے قارئین مسلمان ہیں، لیکن بڑے مسائل پر وہ گودی میڈیا ہی کے نقش قدم پر رواں دواں ہیں اور حکومت وقت کی طرف داری اور خوشامد میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اردو پڑھنے لکھنے والوں کی تعداد بھی مسلسل کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں اردو صحافت کی نشاۃ ثانیہ کی امید مجھے نہیں ہے اور شاید اس ملک میں اردو کا مستقبل بھی خوش آئند نہیں رہ گیا ہے، کیونکہ اب اردو کے بہت سے علاقے اپنی زبان سے نابلد ہوتے جا رہے ہیں۔ وہاں کے لوگ اردو بولتے تو ضرور ہیں لیکن لکھتے یا پڑھتے نہیں ہیں۔ یہ ایک طویل سرکاری پالیسی کا نتیجہ ہے اور فی الحال ایسا نہیں لگتا ہے کہ اس سرکاری پالیسی میں کوئی تبدیلی یا بہتری ہو پائے گی۔ خود مسلمانوں کو اپنی زبان سے سوائے لفاظی کے کوئی لگاؤ نہیں رہ گیا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو اردو پڑھانے کے بجائے صرف انگریزی یا ہندی وغیرہ میں پڑھاتے ہیں اور اردو کتابوں اور اخبارات و رسائل کو خریدنے سے گریز کرتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں کوئی معجزہ ہی ہے جو اردو کو اس ملک میں بچا پائے گا۔
علیزے نجف: آپ ہند اور بیرون ہند کی کئی تنظیموں سے وابستہ رہے ہیں جیسے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت، دارالمصنفین اعظم گڑھ۔ آپ بیرون ہند میں الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین، مؤسسة القدس اور ورلڈ ایسو سی ایشن فار مسلم یوتھ (وامی) وغیرہ سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ یوں آپ نے مختلف پلیٹ فارموں کے ذریعے کئی پہلوؤں سے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا ہے اور ان کے حقوق کی ترجمانی کی ہے. میرا سوال یہ ہے کہ عالمی سطح پہ اپنی قیادت میں استحکام پیدا کرنے کے لیے مسلمانوں کو کن کن اقدامات سے مکمل طور سے گریز کرنا چاہئے اور انھیں زندگی کے کن شعبوں پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام: مسلمانوں کی ملک کے اندر اور ملک کے باہر کئی بڑی تنظیمیں ہیں لیکن میں کسی کے کام سے مطمئن نہیں ہوں کیونکہ چیلنجز بہت زیادہ ہیں اور ان کو حل کرنے کے لیے جو کوششیں ان تنظیموں کے ذریعے ہو رہی ہیں وہ بہت ہی ناقص اور آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ مسلم تنظیمیں بالعموم آپس میں حریف کے طور سے کام کرتی ہیں جب کہ ضرورت تھی کہ سب مل کر اپنے اپنے دائرے میں باہمی اتحاد کے ساتھ کام کرتیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں ملک کے اندر اور ملک کے باہر اتحاد قائم ہو۔ صورت حال دونوں جگہوں پر یہی ہے کہ مسلمان ممالک اور مسلمان گروہ آپس میں دست بہ گریباں ہیں۔ ایسے میں ان کو کسی بیرونی دشمن کی کیا ضرورت ہے! مسلمانوں کو ملک کے اندر اور ملک کے باہر بھی اولین ترجیح تعلیم کو دینی چاہئے کیونکہ اچھی اور عمدہ تعلیم کے بغیر کوئی بھی فرد یا خاندان یا قوم ترقی نہیں پا سکتی ہے اور نہ اس کو قاعدے سے جینے کا شعور اور سلیقہ حاصل ہو گا۔ بعض مسلم ممالک میں دولت چھپر پھاڑ کر آ گئی ہے۔ وہاں بڑی بڑی یونی ورسٹیاں تو بن گئیں ہیں لیکن معیار کے لحاظ سے کوئی بھی یونی ورسٹی عالمی مقام نہیں رکھتی ہے اور نہ ہی وہاں تعلیم یا ری سرچ کا ایسا کوئی کام ہو رہا ہے جس کا عالمی طور پر کچھ اثر دکھائی دے۔
علیزے نجف: کسی بھی خاندان کی ترقی کا انحصار مرد و زن کی قیادت کے درمیان ہم آہنگی اور باہمی سمجھ داری پر ہے اور یہ شعور تعلیم کے ذریعے پیدا ہوتا ہے۔ کسی بھی ایک صنف کا تسلط حالات کو غیر متوازن بنا دیتا ہے۔ اس لیے دونوں کو ہی یکساں طریقے سے تعلیم و تربیت کے مواقع حاصل ہونے چاہئیں. میرا سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ بالخصوص مسلمانوں میں تعلیم نسواں کو لے کر وہ بیداری نہیں پائی جاتی جو کہ وقت کا تقاضا ہے؟ دیہی علاقوں میں یہ صورت حال اور بھی بدتر ہے۔ آپ کے خیال میں اس عدم توازن کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام: میرے خیال میں ہمارے مسلم معاشرے میں بچیوں کی تعلیم کے بارے میں بہت بیداری آئی ہے۔ اب یہ صورت حال ہے کہ لڑکیاں زیادہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور لڑکے کم۔ جس کی وجہ سے تعلیم یافتہ لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ پیش آ رہا ہے۔ ہماری لڑکیوں کی غیرمسلمین سے شادی کی بھی یہ ایک وجہ ہے۔ یہ بات درست ہے کہ غالباً دیہی علاقوں میں یہ بات اتنی عام نہیں ہے لیکن پھر بھی بچیوں کی تعلیم کی طرف توجہ میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ میں جہاں بھی جاتا ہوں یہ پاتا ہوں کہ لڑکیاں لڑکوں کے شابہ بشانہ اسکول سے لے کر کالج و یونی ورسٹی تک میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ لڑکیاں تعلیم پر پوری توجہ دیتی ہیں جب کہ لڑکے کھیل کود پر۔ البتہ اس بات کا امکان ہے کہ دیہاتی علاقوں میں اس سلسلے میں اب بھی عدم توازن ہو۔
علیزے نجف: آپ ایک بہترین مصنف و مترجم ہیں۔ آپ کی تصنیف و ترجمہ کردہ کتابیں پچاس سے زائد ہیں جو کہ عربی، اردو اور انگریزی زبانوں میں ہیں. ان میں سے ایک نامور کتاب Palestine Documents ہے۔ اس میں آپ نے فلسطین اور فلسطینی عوام کے مسائل سے متعلق بہت تفصیل کے ساتھ لکھا اور بنیادی دستاویزات جمع کی ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اسرائیلی جارحیت کو عالمی ادارہ بھی روک نہیں پا رہا ہے؟ عرب ممالک فلسطین کے حق میں بولنے سے کتراتے ہیں۔ اگر فلسطینی عوام اپنی آزادی و خودمختاری کی تحریک کو پر امن طریقے سے جاری رکھنے کی کوشش کریں تو کیا یہ کامیاب ہوگی جب کہ اسرائیلی جارحیت جاری ہے؟ ایسے میں فلسطینی عوام کو کیا کرنا چاہئے اور اس کے علاوہ دوسرے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں پرکیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام: یہ بات درست ہے کہ اسرائیلی جارحیت کو عالمی ادارہ (اقوام متحدہ) روک نہیں پا رہا ہے اور دھیرے دھیرے عرب ممالک کی وہ دل چسپی اور ہمدردی بھی ختم ہوتی چلی جا رہی ہے جو پہلے ان کے اندر فلسطین کے مسئلہ کو لے کر تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عالمی ادارہ یعنی اقوام متحدہ اسی وقت فعّال ہوتا ہے جب اس کے پانچوں مستقل ممبران کسی ایک پالیسی پر متفق ہو جائیں لیکن اسرائیل کے بارے میں ایسا نہیں ہوتا ہے کیونکہ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ چین اور روس اسرائیلی جارحیت کے خلاف واضح طریقے سے سامنے آتے ہیں جب کہ مغربی ممالک اور بالخصوص امریکا ہر طرح سے اسرائیل کی تأیید و حمایت کرتے ہیں، بلکہ امریکا نے آج تک اسرائیل کو بچانے کو لے کر اتنا زیادہ ویٹو استعمال کیا ہے جتنا اس نے خود اپنے لیے نہیں کیا ہے۔ بعض عرب ممالک ایران اور ترکی کا ہوّا کھڑا کرکے اسرائیل سے تعلقات استوار کررہے ہیں۔ اس کے باوجود فلسطینی عوام کی تحریک جاری و ساری ہے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ آج وہ پہلے سے کہیں بہتر حالت میں ہیں۔ کم ازکم ایک خطہ یعنی غزّہ پٹی پوری طرح سے ان کے ہاتھوں میں ہے، جب کہ مغربی پٹی یعنی ویسٹ بینک میں ایک فلسطینی حکومت بنام ’’فلسطینی اتھارٹی ‘‘بھی قائم ہے جس کو اگرچہ پورے اختیارات حاصل نہیں ہیں لیکن پھر بھی اس کے ذریعے فلسطینی عوام کی آواز دنیا کی ہر محفل میں پہنچتی ہے اور اس کی نمائندگی دنیا کے تمام بین الاقوامی اداروں میں موجود ہے، جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ مسئلۂ فلسطین کی اہمیت کم ہو رہی ہے یا اس کے لیے کوئی کام نہیں کیا جا رہا ہے، درست نہیں ہے۔ آج خود چھوٹے سے غزّہ کے پاس میزائلوں کی زبردست فوجی قوت موجود ہے اور وہ اسرائیل کا ہفتوں مقابلہ کر سکتا ہے۔ اسرائیل غزّہ کے اندر گھسنے کی جرأت نہیں کرتا بلکہ باہر سے ہوائی حملے کرتا ہے۔ پچھلے پندرہ برسوں میں اسرائیل ا پنی ساری قوت کے باوجود تین بار غزہ پر حملہ کرکے فتح یاب نہیں ہو سکا ہے۔
علیزے نجف: گزشتہ دنوں دارالمصنفین کے پرانے پرنٹنگ پریس کے حوالے سے کافی تنازع پیدا ہوا. مختلف علمی شخصیات نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ تاریخی اشیا کو یوں فروخت کرنا مناسب نہیں، اس کو بہ طور یادگار محفوظ رکھنا چاہئے۔ میں چاہتی ہوں کہ اس ادارے کے ڈائریکٹر ہونے کے ناطے آپ خود پوری صورت حال واضح کرتے ہوئے یہ بتائیں کہ یہ فیصلہ کیوں لیا گیا اور آپ معترضین کے اعتراضات کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام: دارالمصنفین کے پرانے پرنٹنگ پریس کے بارے میں جو تنازع تھا وہ بالکل مصنوعی تھا، کیونکہ اس پرنٹنگ پریس کا عرصۂ دراز سے کوئی مصرف نہیں تھا، کیونکہ وہ ٹکنالوجی جو کہ پتھر کے سلوں سے چھپائی کرتی تھی کب کی ختم ہو چکی ہے اور اب خود دارالمصنفین میں ایک جدید پریس موجود ہے جو اگرچہ بہت اعلا کوالیٹی کا نہیں ہے اور ہماری ساری ضرورتوں کو پورا نہیں کر پاتا، لیکن پھر بھی وہ آج کل کے لحاظ سے ایک ماڈرن پریس ہے، جب کہ پرانا پرنٹنگ پریس کسی کام کا نہیں رہ گیا تھا بلکہ صرف ایک بڑی جگہ لے رہا تھا۔ اور چونکہ وہ لوہے کا بنا ہوا تھا اس لیے وہ مستقل زنگ بھی کھا رہا تھا۔ برسوں سے یہ خیال تھا کہ اس کو بیچ دینا چاہئے کیونکہ اب اس کا کوئی مصر ف نہیں رہ گیا تھا۔ اس لیے اس پرنٹنگ پریس کو اب بیچ دیا گیا۔ البتہ ایک دوسرا اسی طرح کا پرنٹنگ پریس، جس پر سیرت النبی کا پہلا ایڈیشن چھپا تھا، اب بھی ہمارے یہاں اسی حالت میں موجود ہے، کیونکہ ہمارے رفقا نے یہ فیصلہ کیا کہ اس پرنٹنگ پریس کو ایک یادگار کے طور پر رکھ لیا جائے۔ اس لیے وہ پرنٹنگ پریس آج بھی ہمارے یہاں موجود ہے۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ جس پرنٹنگ پریس کا فوٹو لوگ چھاپ کر ماتم کر رہے تھے وہ اب بھی ہمارے یہاں موجود ہے! یہ کسی بھی ادارے کا حق ہے کہ ایسی چیزیں جن کا کوئی مصرف نہ رہ گیا ہو ان کو بیچ دے تاکہ اس سے کچھ پیسے بھی آئیں اور وہ جگہ جو اس چیز کی وجہ سے بند پڑی ہے دوسرے کاموں میں استعمال ہو سکے۔ مجھے اس پریشانی پر، جو بعض لوگوں نے اس ناکارہ پریس کے بارے میں دکھائی اور اس کے حوالے سے دارالمصنفین کو مطعون کرنا شروع کر دیا، بڑا تعجب ہوتا ہے، کیونکہ ان لوگوں کو یہ نظر نہیں آتا کہ دارالمصنفین کی مالی حالت برسوں سے بہت خراب ہے، تنخواہیں دینے میں مشکل ہوتی ہے اور اس کے احاطے کی دیکھ ریکھ اس طرح نہیں ہو پاتی جس طرح ہونی چاہئے، نئے علمی رفقا کا اپائنٹمنٹ نہیں ہو پاتا، تیار شدہ کتابوں کی طباعت نہیں ہو پاتی، اور اس وجہ سے اکیڈمی کی کتابوں کی خرید و فروخت میں بھی کافی کمی واقع ہوئی ہے۔ ہم لائبریری میں نئی آنے والی کتابوں کے لیے الماریاں بھی خریدنے سے معذور ہیں۔ اگر ایسے لوگوں کو دارالمصنفین سے محبت ہوتی تو وہ سامنے آتے اور ادارے کی مالیات کو مضبوط اور بہتر کرکے اس کے مستقبل کے لیے کچھ کام کرتے۔ لیکن ایسا کچھ ہمیں نظر نہیں آتا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ مسئلہ ان کا اپنا نہیں ہے بلکہ دارالمصنفین خود کہیں سے فنڈ حاصل کرے۔ یہ بات یقینی ہے کہ ہمیں کہیں سے یہ فنڈ حاصل نہیں ہوتا اس لیے ہمیں عوام کے پاس ہی جانا پڑتا ہے، جن کو دارالمصنفین کے مقاصد، اس کی خدمات اور تاریخ سے لگاؤ ہے اور یوں وہ ایک حد تک اس ضرورت کو پورا کرتے ہیں. حالانکہ دارالمصنفین پورے برّصغیر کے لیے سو سال زیادہ سے خدمات پیش کر رہا ہے اور اس نے ایسے اہم مسائل پر سینکڑوں کتابیں چھاپی ہیں جو کہ ہماری قوم کے لیے بہت اہم ہیں، اور جن کا ترجمہ دنیا کی بہت سی زبانوں میں ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود میں دیکھتا ہوں کہ زیادہ تر اعظم گڑھ کے ہی لوگ آگے آتے ہیں اور اس ادارے کو چلانے میں معاون ہوتے ہیں۔
علیزے نجف: اسلام کی بساط پہ علامہ شبلی نعمانی کی دینی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کے اندر دینی اور تعلیمی شعور بیدار کرنے کے لیے کئی قابل ذکر اقدامات کیے. اعظم گڑھ کی سرزمین دارالمصنفین اور شبلی کالج جیسے معتبر ادارے انھی کے مرہون منت ہیں۔ میرا سوال ہے کہ آغاز قیام کے وقت دار المصنفین کی تاسیس کا مقصد جو تھا اس میں اس وقت کس حد تک تبدیلی ہوئی ہے اور آپ اس تبدیلی کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ ایک اور ضمنی سوال یہ بھی ہے کہ اس ادارے کو بدلتے زمانے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے آپ نے اپنی نظامت میں اب تک کس طرح کے تجدیدی کام کیے ہیں اور ان کی نوعیت کیا ہے؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام: دارالمصنفین کے آغاز قیام کے وقت اس کا جو مقصد تھا وہ آج بھی قائم ہے، یعنی بنیادی مسائل بالخصوص تاریخ اسلام و مسلمانان ہند کے بارے میں معیاری لٹریچر تیار کرنا، اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا، تصنیف و تالیف سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ضرورت کی کتابیں فراہم کرنا اور ان کے لیے ایک ایسا پرامن ماحول مہیا کرانا جہاں وہ رہ کر اپنی ریسرچ کی سرگرمیوں کو انجام دے سکیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ دارالمصنفین کے پاس ایک بہت بڑی لائبریری ہے جس میں ایک لاکھ سے زیادہ کتابیں ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کافی تعداد میں عربی و فارسی کے مخطوطات بھی ہیں جن کی دنیا بھر میں طلب ہے اور وقتا فوقتا لوگ ان کی کاپیاں مانگتے رہتے ہیں جن کی پی ڈی ایف کاپی ہم بہت معمولی معاوضہ لے کر انھیں فراہم کرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ بدلتے ہوئے حالات اور ہندستان میں اب جو نفرت کا ماحول ہے اس کی وجہ سے بھی دارالمصنفین پر کچھ نئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، لیکن فی الحال چونکہ مالیات کا مسئلہ  بہت ہی دقت طلب ہے اور صحیح معنوں میں دارالمصنفین اب بھی خودکفیل نہیں ہے اس لیے مزید ریسرچ اسکالرز اور علمی رفقا کی تقرری ہم ابھی نہیں کر سکتے اور ظاہر ہے کہ مطلوبہ نئی قسم کی ریسرچ کچھ جدید تعلیم یافتہ اسکالرز کے ذریعے ہی پایۂ تکمیل تک پہنچ سکتی ہے۔
میری نظامت کو ابھی تقریبا ایک سال سے ذرا کچھ زیادہ عرصہ گزرا ہے۔ اس عرصے میں، میں نے کوشش کی ہے دارالمصنفین سے شائع ہونے والی کتابیں اور ماہانہ رسالہ ’’معارف‘‘ جدید تحقیقی اصولوں کے مطابق ہوجائیں، جن سے بالعموم ہمارے روایتی لکھنے والے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں ایک حد تک کامیابی ملی ہے اور امید ہے کہ اگلے چند برسوں میں ہمارے رفقا تحقیق کے جدید طریقوں اور وسائل سے واقف ہو جائیں گے۔ اس سلسلے میں ایک اہم کامیابی یہ بھی ہے کہ تمام رفقا اور کتابوں اور معارف سے متعلق اسٹاف کو کمپیوٹرز فراہم کر دیے گئے ہیں، ان کو کمپیوٹر لٹریٹ کیا جارہا ہے تاکہ آفس کے کام زیادہ آسانی سے ہوں اور ہمارے علمی رفقا ان ذخائر سے بھی فائدہ اٹھا سکیں جو کہ انٹرنیٹ پر بے شمار تعداد میں موجود ہیں اور جو کہ کچھ سالوں قبل تک بہت مشکل سے دستیاب تھے۔ معارف کے اندر بھی کچھ منہجی تبدیلیاں کی گئی ہیں اور کچھ جدید مسائل پر مضامین بھی چھپنے شروع ہوئے ہیں، جب کہ پہلے صرف تقلیدی مسائل پر مضامین چھپا کرتے تھے۔
علیزے نجف: آپ ہندستان کے جلیل القدر عالم دین مولانا وحید الدین خان کے صاحب زادے ہیں۔ مولانا صاحب کا ایک مشن تھا، دعوہ مشن۔ اب جب کہ مولانا صاحب ہمارے درمیان نہیں رہے، ایسے میں ان کے اس قائم کردہ ادارے کی سربراہی کون کر رہا ہے؟ عام قارئین کی معلومات کے لیے میں چاہتی ہوں کہ آپ مولانا وحیدالدین خاں کے مشن کے بارے میں بھی مختصراً بتادیں۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام: میں مولانا وحیدالدین خان کے مشن سے اس وقت جڑا جب میرا شعور ابھی بالغ ہو رہا تھا اور میں نے ان کی ’’علم جدید کا چیلنج‘‘ نامی کتاب کا عربی میں ترجمہ کیا تھا، جو ۱۹۶۹ میں کویت اور بیروت سے شائع ہوا۔ اس سے نہ صرف عرب دنیا اس عظیم کتاب کے بارے میں بات کرنے لگی بلکہ مولانا وحیدالدین خان صاحب کی ساکھ بھی ملک و بیرون ملک میں مضبوط ہو گئی۔ اس کے بعد اگلے چند سالوں میں، میں نے ان کی کئی اور کتابوں کا ترجمہ کیا جو بیروت اور قاہرہ سے شائع ہوئیں۔ اس میں سب سے اہم وہ پمفلٹ ہے جو ان کے ایک مضمون کا ترجمہ ہے جو ہفت روزہ الجمعیت میں ۱۹۷۰ کے قریب شائع ہوا تھا۔ وہ اس وقت اس کے مدیر تھے۔ اس طویل مضمون میں ایک اسلامی مرکز کا تصور پیش کیا گیا ہے جو بنیادی طور پر ایک مؤثر دعوتی لٹریچر پیدا کر کے ہندستان اور دنیا میں ایک فکری انقلاب برپا کرے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تک مسلمانوں میں جیتا جاگتا اسلام نہیں زندہ ہوگا اور ان میں دعوتی روح نہیں پیدا ہوگی، نہ ان کے اندر اور نہ ان کے باہر کوئی انقلاب آسکتا ہے۔ میں اس تصور سے بہت متأثر ہوا اور میں نے اس کا عربی ترجمہ کر کے اس کو خود اپنے اور اپنے عزیز ساتھی عبدالحلیم عویس کے مشترکہ خرچے پر قاہرہ میں ۱۹۷۱ میں شائع کیا اور اسے عالم عرب کے بہت سے علما اور دانشوروں تک محنت کر کے پہنچایا۔ بعد میں اس پمفلٹ کو دوسرے لوگوں اور اداروں نے بھی شائع کیا. اسی تصور کے تحت میں نے لیبیا میں رہتے ہوئے ہندستان میں ایک ادارہ ’’المرکز الاسلامی للبحوث والدعوۃ ‘‘ کے نام سے رجسٹر کرایا۔ اس کے نام سے ہی اس کے اغراض و مقاصد واضح ہوجاتے ہیں۔ یہ تقریباً ۱۹۷۵ کی بات ہے جب میں چھٹی پر ہندستان آیا ہوا تھا۔ اس کے لے میں نے اپنے والد صاحب کی پوری مالی مدد کی جس کے ذریعے ماہنامہ ’’الرسالہ‘‘ جاری ہوا اور ان کی متعدد کتابیں جو انھوں نے لکھ کر طاق پر رکھ دی تھیں، جیسے الاسلام اور ظہور اسلام وغیرہ شائع ہوئیں۔ بعد میں والد صاحب نے، جو کہ اس ادارے کے صدر تھے اور میں جنرل سکریٹری تھا، اس کا نام بدل کر ’’المرکز الاسلامی‘‘ کر دیا، یہ کہتے ہوئے کہ مجھے بڑا نام پسند نہیں ہے! مجھے افسوس ہے کہ اس ادارے کے تحت کوئی کام نہیں ہوا بلکہ آج تک اس کی کسی میٹنگ میں مجھے بلایا تک نہیں گیا۔ تقریباً ۱۹۸۰ کے آتے آتے والد صاحب کے نظریات و خیالات کافی حد تک بدل گئے۔ اب وہ ’’معتدل اور امن پسند اسلام‘‘ کی ایک ایسی ڈھیلی ڈھالی تعبیر پیش کرنے لگے جس میں حالات اور حکام سے مصالحت ہی مصالحت ہو، ہر وقت مصلحت اور مداہنت سے کام لیا جائے، مسلمانوں کو صرف صبر کی تلقین کی جائے لیکن ان کے مسائل کے بارے میں بات نہ کی جائے اور غیر مسلمین اور حکومتوں کو ناراض کرنے والی کوئی بات نہ کی جائے۔ مولانا کو ہندستانی مسلمانوں پر مظالم نظر نہیں آتے تھے۔ اس سوچ کا اثر ’’الرسالہ‘‘ میں صاف جھلکنے لگا۔ پھر جنوری ۲۰۰۱ میں انھوں نے ’’ سنٹرفار پیس اینڈ اسپریچوالیٹی‘‘ (مرکز برائے امن و روحانیت) کے نام سے ایک نئے ادارے کی بنیاد رکھی، جس کو اس کے پہلے حروف کی نسبت سے CPS کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے تحت وہ مصالحتی لٹریچر، تحریروں اور تقریروں کو شائع کرنے لگے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ اگر ہم مدعو کو ناراض کریں گے تو اسے دعوت کیسے دیں گے؟ وہ اب بار بار صلح حدیبیہ کا ذکر کرنے لگے اور جہاد کو ایک کارِعبث قرار دینے لگے حتی کہ اس کے منکر ہی ہو گئے۔ یہی نہیں، بلکہ الرسالہ (جون ۲۰۰۷) میں انھوں نے لکھا کہ اب شریعت عیسوی کا دور آ گیا ہے۔ انھوں نے اور ان کی بیٹی فریدہ خانم نے پرائیویٹ طریقے سے ’’خوابوں‘‘ کی بنیاد پر کچھ ایسے دعوے کیے جو قابل قبول نہیں ہیں، لیکن ان کو علانیۃً نہیں کہا گیا۔ والد صاحب کی شدید خواہش اور بار بار مجھ سے یہ کہنے کے باوجود کہ لوگ کہتے ہیں کہ ظفرالاسلام ان کی ہفت روزہ میٹنگوں میں کیوں شریک نہیں ہوتے ہیں، میں اس تحریک سے دور رہا۔ لیکن ذاتی طور پر بہ طور ایک بیٹے کے میں نے اپنے والد کا آخری دن تک احترام کیا اور ان سے ملتا رہا۔ اب ان کے انتقال کے بعد CPS کا جو ترکہ وہ چھوڑ کر گئے ہیں اس کی ذمہ دار میری چھوٹی بہن ڈاکٹر فریدہ خانم کو بنا کر گئے ہیں۔ اس وقت وہاں کیا ہو رہا ہے، مجھے نہیں معلوم۔ البتہ میں’’الرسالہ‘‘ دیکھتا ہوں جس میں مولانا مرحوم کے پرانے مضامین کو مختلف پیرایوں میں دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔ میں اس مشن کے ساتھ پہلے بھی شریک نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہوں کیونکہ میرے خیال میں اسلام ایک مکمل طریقۂ حیات اور کامل طرز زندگی ہے جس میں مؤمنین کی زندگی میں خوشی و غمی، ناکامی و کامیابی اور تکلیف و آسانی کے بہت سے مراحل آتے ہیں۔ بندوں کا امتحان و ابتلا اللہ پاک کی سنت ہے اور دنیا میں کامیابی و تمکین اللہ پاک کا انعام ہے۔ انھی مراحل میں قبل از ہجرت کے واقعات جیسے مکہ میں ابتلا، ہجرت حبشہ اور بعد از ہجرت مدینہ کے واقعات جیسے صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے سارے مراحل آتے ہیں۔ انھی واقعات و حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مؤمنین اپنی زندگی کے جس حال میں بھی ہوں، وہ اس وقت اپنی استطاعت کے مطابق دین پر اتنا ہی عمل کرنے کے مکلف ہیں۔ میرا یہ بھی ماننا ہے ہے کہ مسلمانوں کو انفرادی طور پر کسی اسلامی حکومت کو قائم کرنے کا مکلف نہیں بنایا گیا ہے بلکہ وہ پہلے ایک معاشرہ تشکیل دیں اور ایک ماحول پیدا کریں کہ لوگ خود بہ خود ہی اسلامی حکومت کے قیام کے لیے تیار ہو جائیں، جو اللہ پاک کا انعام ہوگا۔ اللہ تعالی نے اسلامی نظام کے قیام کو اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے کہ وہ مؤمنین کو تمکین عطا کرتے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ خود اپنی اور اپنے خاندانوں کی زندگی میں اسلام پر اپنی طاقت و استطاعت کے مطابق عمل کریں، دوسروں کو پرامن طور پر اس کی دعوت دیں، آخرت کے بارے میں لوگوں کو ڈرائیں اور جب موقع ہاتھ آئے تو اسلامی نظام کو کسی خطے میں قائم کر یں۔ البتہ ایسا نظام قائم کرنے کے لیے ان کو جدوجہد کرنے کا مکلف نہیں بنایا گیا ہے، کیونکہ جدوجہد کرنے سے ساری ذاتی اور دعوتی زندگی اور مقصد حیات اخروی کے بجائے دنیوی ہو کر رہ جاتی ہے۔
علیزے نجف: آپ ہندستان میں مسلم اقلیتی طبقے کے لیڈر ہیں۔ اب تک آپ نے ان کی فلاح و بہبود کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں اور آپ نے ان کے مسائل کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ موجودہ وقت میں خاص طور سے ہندستان میں مسلمان قوم کی پس ماندگی کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟ ان کو ملنے والا ماحول عموما کیسا ہوتا ہے اور نوجوان نسل کی ذہن سازی کے لیے کن تربیتی عناصر پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام: مسلمان قوم کی دنیوی پس ماندگی کی سب سے بڑی وجہ تعلیم سے دوری ہے اور دینی طور پر قرآن پاک سے دوری ہے۔ جو قوم اپنے دین کو براہِ راست اللہ پاک کی کتاب سے حاصل نہیں کرتی وہ طرح طرح کے خرافات اور مسلکی تنازعات میں گرفتار ہو جاتی ہے، جیسا کہ آج مسلمانوں کی آج حالت ہے۔ ماضی میں یہودیوں، عیسائیوں اور ہندستانی مذہبوں کو ماننے والوں کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ اور جو قوم تعلیم سے دور رہتی ہے وہ دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس کو اس بات کا شعور ہی نہیں ہوتا کہ دنیا میں کامیابی کے کیا وسائل ہیں؟ کون سے کام کرنے کے ہیں اور کون سے نہیں کرنے کے ہیں؟ اور دوسری قومیں کس طرح سے ترقی یافتہ بنتی ہیں؟ ہمارے یہاں تقریبا کہنے کو تو ۴۵ فی صد مسلمان ان پڑھ ہیں، لیکن میرے خیال میں تعلیم کا نام صرف دستخط کر لینا یا ایک دو زبانوں میں کچھ پڑھ لکھ لینا یا ڈگری حاصل کر لینا نہیں ہے بلکہ اس ذہن اور عقل کا حامل ہونا ہے جس سے آدمی کو اچھے اور برے، حق اور باطل کی تمیز ہوتی ہو۔ میرے خیال میں ہندی مسلمانوں کی اکثریت کی حالت آج ایسی ہی ہے اور ان پر حضور پاکؐ کا یہ قول پوری طرح صادق آتا ہے کہ ایک زمانے میں تم بہت بڑی تعداد میں ہو گے لیکن تمھاری حیثیت سیلاب کے خس و خاشاک جیسی ہو گی۔ آج ہندستان کے مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ بیس کروڑ لوگوں کا سوسائٹی میں کوئی مقام نہیں ہے، ان کے ساتھ کوئی بھی بدتمیزی کرسکتا ہے، حملہ کرسکتا ہے، قتل کر سکتا ہے اور ان کے حقوق چھین سکتا ہے۔ اگر صرف ایک بہت چھوٹے سے گروہ سے ان کا موازنہ کیا جائے، یعنی پارسیوں سے جو ہند ستان میں صرف ۷۰ ہزار کی تعداد میں ہیں، یا سکھوں سے ان کا موازنہ کیا جائے جو بہ مشکل ۳۰ سے ۴۰ لاکھ کے درمیان ہوں گے، تو واضح ہو جائے گا کہ آج ہندستان میں ہماری کیا حیثیت ہے۔ اس لیے تعلیم ہر گھر میں عام کرنا اور ہر مسلمان کو قرآن پاک سے جوڑنا ہمارا بنیادی پروگرام ہونا چاہئے۔
علیزے نجف: ہندستان میں مسلمانوں کو دوسرا اکثریتی طبقہ کا مقام حاصل ہے. ان کی آبادی بائیس کروڑ سے متجاوز ہے. اس کے باوجود ان کی تعلیمی، اخلاقی اور سیاسی حالت غیر مستحکم ہے۔ کہیں نہ کہیں ان کی ایک بڑی تعداد حاشیے پر ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہندستانی مسلمانوں کو معاشرتی سطح پر اپنی حالت زار بہتر بنانے کے لیے کیا سیاسی غلبے کی ضرورت ہے یا اس سے پہلے انھیں اپنی تعلیمی اور اخلاقی حالت بہتر بنانا ہو گا؟ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام: آج ہندستان میں لگ بھگ بیس سے پچیس کروڑ مسلمان رہتے ہیں، لیکن ان کا یہاں کوئی سیاسی اور سماجی مقام نہیں ہے۔ دینی، تعلیمی اور اخلاقی حالت سدھارے بغیر ہماری حالت کبھی نہیں سدھرے گی۔ جس کا تفصیلی ذکر اوپر آ چکا ہے۔
علیزے نجف: آپ نے اب تک اپنی زندگی کی ستر سے زائد بہاریں دیکھی ہیں اور ان میں نشیب و فراز دونوں کا تجربہ کیا ہے۔ میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ زندگی آپ کی نظر میں کیا ہے ؟ آپ نے اپنی زندگی کے سفر کا آغاز باقاعدہ مقصد بنا کے کیا تھا یا وقت کے ساتھ آپ نے اپنے سفر کی سمت متعین کی اور اس زندگی کو آپ نے کن دو واضح اصول کی اتباع کرتے ہوئے گزارا؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام: جب تک یہ انٹرویو چھپے گا میں ۷۵ سال کا ہو چکا ہوں گا۔ یہ بات درست ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے لیے ایک مقصد کا تعین کیا تھا اور اپنے سفر کی سمت متعین کی تھی، لیکن ہر چیز ویسے نہیں ہوا کرتی ہے جیسا کہ آپ چاہتے ہیں۔ یہی میرے ساتھ بھی ہوا۔ میں درحقیقت ایک محقق، مصنف اور یونی ورسٹی کا ٹیچر بننا چاہتا تھا، لیکن یہ خواب مکمل طور پر پورا نہیں ہو سکا۔ میں نے تحقیق و تصنیف اور ترجمے کے میدان میں کافی کام کیا اور یہ کام تین زبانوں میں یعنی عربی، انگریزی اور اردو میں کیا۔ شاید میرے علاوہ برصغیر میں کوئی اور نہیں ہے جو ان تینوں زبانوں پر یکساں قدرت کےساتھ لکھتا اور بولتا ہو. کتابیں اور تحقیقی مضامین لکھنے کے علاوہ، میں عربی، انگریزی اور اردو کے کئی اخبارات و مجلات کا ایڈیٹر بھی رہا۔ اسی کے ساتھ میں نے دنیا کی بہت سی یونی ورسٹیوں میں کلیدی خطبے دیے جن میں استنبول کی بورگاز یونی ورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونی ورسٹی، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، وشوابھارتی (شانتی نکیتن)، سعودی عرب کی جامعۃ الامام وغیرہ شامل ہیں۔ میں نے اگرچہ اس مقصد کے لیے لندن کے قیام کے دوران ہی مانچسٹر یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا تھا، لیکن وہاں کی مصروفیات اور مشغولیتوں کی وجہ سے میں اپنا تحقیقی کام مکمل نہیں کرپایا اور جب میں نے اکتوبر ۱۹۸۴ میں ہندوستان آنے کا فیصلہ کیا تو وہ ابھی نامکمل تھا۔ یہاں آنے کے دو سال بعد میں پھر مانچسٹر واپس گیا اور وہاں تقریبا ایک سال رہ کر اپنا پی ایچ ڈی کا کام مکمل کر کے، بلکہ شفہ امتحان (وائیوا) ادا کر کے میں ہندستان واپس آ گیا۔ یہاں آنے کے چند ماہ بعد میرا بہت بھیانک ایکسیڈنٹ ہو گیا جس میں میری کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اور یہ ایک اللہ پاک کا فضل اور کرشمہ تھا کہ میں اس کے باوجود زندہ رہا۔ پھر تقریبا دو سال میں صاحب فراش رہا کیونکہ ٹھیک ہونے کے بعد فزیوتھریپی کے دوران میں پھر گر گیا جس میں میری کولہے کی ہڈی دوبارہ ٹوٹ گئی۔ اس سب سے پوری طرح نکلنے میں مجھے تقریبا دو سال لگ گئے۔ اگر یہ حادثہ نہ ہوا ہوتا تو شاید میں باہر کی کسی یونی ورسٹی میں پڑھانے چلا جاتا۔ لیکن اس کے بعد میرا رجحان ایسا بنا کہ اب میں ملک میں ہی رہ کر اپنی زندگی گزاروں گا اور یہیں کسی یونی ورسٹی پڑھاؤں گا۔ میں نے دو بار جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دو بار جامعہ ہمدرد میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر کی پوسٹ کے لیے درخواست دی۔ وہاں کچھ غالب مافیا نے، جو خود اور اپنے گروہ کے ممبران کے علاوہ کسی کو تعلیمی اداروں کے اندر قدم رکھنے نہیں دینا چاہتے، ایڑی چوٹی کا زور لگا کر مجھے ان تعلیمی اداروں میں شامل ہونے سے دور رکھا۔ انھوں نے ہر بار کچھ ایسے ممتحن بلائے جن کو پہلے سے خوب سمجھا دیا گیا تھا کہ فلاں شخص کو ہر حال میں فیل کرنا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انٹرویو کے دوران علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے دو پروفیسر حضرات نے پوری طاقت سے میرے پی ایچ ڈی مقالے کو بےوقعت ثابت کرنے کی کوشش کی اور مسلم انسٹی ٹیوٹ لندن کے بارے میں جھوٹ بولا کہ وہ تبلیغی جماعت کا ادارہ ہے! وہاں بات انھیں کی سنی جانی تھی۔ دوسری بار چند منٹ میں میرا انٹرویو ختم کر دیا گیا۔ یوں جب جامعہ ملیہ میں، میں نے دوسری بار بھی کھلم کھلا دھاندلی دیکھی تو میں نے وہیں انٹرویو کے لیے بیٹھے دوسرے حضرات کے سامنے یہ اعلان کر دیا کہ اب میں دوبارہ کہیں درخواست نہیں دوں گا۔ اور یہی صورت حال جامعہ ہمدرد میں بھی پیش آئی۔ پہلی بار جب میں نے وہاں انٹرویو دیا تو انتخاب کے وقت وہاں موجود تقریبا سارے ممبران کا رجحان میری طرف تھا، لیکن آخر میں صرف ایک سوال نے پوری فضا بدل دی۔ وہ سوال یہ تھا کہ اگر آپ کا سلیکشن ہو گیا تو کیا آپ یہاں کے نصاب تعلیم میں تبدیلی کریں گے؟ اور وہ تبدیلی کیا ہو گی؟ میں نے اس کا جواب دیا کہ جی ہاں، میں تبدیلی کروں گا، اور اس میں مشرق وسطی اور مغربی ممالک کے تجربوں سے فائدہ اٹھانا چاہوں گا۔ میرا یہ کہنا تھا کہ سارے ایکسپرٹ حضرات بیک زبان چیخنے لگے کہ آپ کو اس کی اجازت کون دے گا؟ آپ یہ نہیں کر سکتے! وغیرہ وغیرہ۔ بات درحقیقت یہ تھی کہ یہ وہ لوگ تھے جو مختلف یونی ورسٹیوں میں اسلامک اسٹڈیز کے ڈپارٹمنٹوں پر قابض تھے اور ان کی اپنی یا ان کے لاڈلوں کی لکھی ہوئی کتابیں وہاں پڑھائی جاتی تھیں۔ انتہائی تعجب خیز بات یہ ہوئی کہ کچھ ہی دنوں کے بعد انھیں اکسپرٹ حضرات میں سے ایک کو جامعہ ہمدرد میں اسلامک اسٹڈیز پڑھانے کے لیے رکھ لیا گیا! اس پر میں نے وہاں کے رجسٹرار کو خط لکھا کہ کیا یہ بات اخلاقی طور پر درست ہے کہ اکسپرٹ حضرات ایک امیدوار کو فیل کرکے خود اپنا انتخاب اسی پوسٹ پر کرا لیں؟ اس کا جواب رجسٹرار صاحب کی طرف سے یہ آیا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، بلکہ سب کچھ قواعد اور ضوابط کے مطابق ہوا ہے! اس کے بعد دوبارہ جامعہ ہمدرد میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر کی پوسٹ نکلی تو پھر میں نے اس کے لیے  درخواست دی۔ اس وقت دو ممتحن حضرات تھے۔ ان میں سے ایک نے (جو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ دینیات سے وابستہ تھے) اس بات کا مذاق اڑایا کہ میں یو جی سی کے ریفریشر (تربیتی) کورس میں یونی ورسٹیوں کے اساتذہ کو علمی تحقیق کے اصول پڑھاتا ہوں۔ میں یہ کام پچھلے کئی سال سے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں کر رہا تھا۔ دوسرے ’’ایکسپرٹ‘‘ صاحب نے مجھ سے یہ پوچھا کہ کیا آپ نے اسلم جیراجپوری کی تاریخ اسلام پڑھی ہے؟ اس کا جواب میں نے یہ دیا کہ میں اردو میں لکھنے والوں کی تحریریں نہیں پڑھتا ہوں بلکہ میں عربی مآخذ پڑھتا ہوں اور اسلامی لٹریچر کے بنیادی سرچشموں سے براہ راست استفادہ کرنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ میری یہ بات شاید ان کو پسند نہیں آئی۔ بہرحال اس کے بعد یہ ہوا کہ صرف اس کنڈیڈیٹ کا انتخاب ہوا جو فکری طور پر اسی مسلک کا پیروکار تھا جو کہ اس وقت کے وائس چانسلر صاحب کا تھا۔ اس کے بعد میں نے اس طرف توجہ بالکل ختم کردی اور اپنے آپ کو لکھنے پڑھنے اور صحافتی زندگی کے لیے وقف کر دیا، جس کی کچھ تفصیل پہلے آچکی ہے۔ اور اسی میں ملی گزٹ کا اجرا بھی تھا جو کہ ۱۷؍ سال تک جاری رہا۔ اس کی ناکامی کو میں اپنی ناکامی نہیں سمجھتا بلکہ مسلمانانِ ہند کی بےحسی سمجھتا ہوں جن کی وجہ سے یہ عمدہ پرچہ ۱۷؍ سال میں بھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو پایا۔ اس دوران میں نے کئی بڑے ٹیلی ویژن چینلز کے لیے بھی کام شروع کیا جس میں الجزیرہ اور بی بی سی عربی سے تعلق آج بھی برقرار ہے۔
بہرحال میں وہ حاصل نہیں کر پایا جو میں چاہتا تھا۔ لیکن اسی کے ساتھ میں نے اپنا دوسرا راستہ بھی چن لیا اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہا۔ ادھر پچھلے ۱۲-۱۳ برسوں میں، میں نے کافی وقت قرآن پاک کے انگریزی ترجمے پر لگایا ہے۔ اس کا آغاز درحقیقت عبداللہ یوسف علی مرحوم کے انگریزی ترجمے کی اصلاح سے شروع ہوا، لیکن دھیرے دھیرے یہ کام اتنا بڑھ گیا کہ وہ الگ ایک مستقل کام بن گیا۔ اس کے لیے میں نے نہ صرف بنیادی طور پر صحیح ترین ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ تقریبا ڈھائی ہزار حاشیے بھی لکھے ہیں جن سے کلام پاک کو سمجھنے میں مسلم اور غیرمسلم دونوں کو آسانی ہو گی اور وہ بہت سی غلط فہمیاں بھی دور ہوں گی جو کہ صحیح طریقے سے کلام الہی کی تشریح نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ میں نے ہزاروں الفاظ کے معانی اور لا تعداد آیتوں کے دقیق معانی اور شان نزول معلوم کرنے کی خصوصی کوشش کی ہے۔ میں نے قرآن پاک کا وہ مفہوم پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو قرون اولی کے علما و مفسرین سمجھتے تھے۔ میں نے تفسیر و علوم قرآن کی صرف بنیادی عربی کتابوں، عربی کی بنیادی ڈکشنریوں اور اسلامی تاریخ کی بنیادی کتابوں پر اکتفا کیا ہے۔ میں نے اسلام کے آنے کے بعد کے صرف چار پانچ صدیوں تک کے مفسرین اور محققین کی تالیفات پر انحصار کیا ہے تاکہ صحیح طریقے سے کلام الہی اسی طرح سے پیش ہو جیسا کہ ہمارے سلف صالح نے اسے سمجھا تھا اور ہم کلام الہی کو پڑھتے وقت ذہنی اور فکری طور پر اسی ماحول اور اسی پس منظر میں جا کر سوچیں جیسا کہ انھوں نے سوچا تھا۔ قرآن پاک کا صحیح مفہوم و معنی ہم کو اسی وقت سمجھ میں آئے گا جب ہم اس کو اُس تناظر میں دیکھیں گے۔ میں نے متأخرین کی تفاسیر، ترجموں اور کتابوں پر قطعا نظر نہیں ڈالی ہے۔ میرا احساس ہے کہ بہت سے متأخرین نے اپنے اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لیے قرآن شریف کا ترجمہ و تفسیر اپنے ذوق اور رجحان کے مطابق کیا ہے۔ اس سے کلام الہی کی اصل روح، جو کہ قرآن کا اصل پیغام ہے، متأثر ہوئی ہے، اور یہ چیز سلف صالح کے طریقے کے خلاف ہے۔
علیزے نجف: آپ نے اب تک مذہب، صحافت، تصنیف، مسلم اقلیتی طبقہ کے ضمن میں بےشمار خدمات انجام دی ہیں. کیا آپ کے دل میں ابھی بھی ایسا کوئی ہدف ہے جس کی تکمیل آپ کی دیرینہ خواہش ہے۔ اگر ہاں تو وہ کیا ہے؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام: میری خواہش ہے کہ میرا انگریزی ترجمۂ قرآن پاک جلد از جلد شائع ہو جائے اور پھر میں قرآن پاک کا اردو میں بھی ترجمہ کروں جس کے ساتھ وہ سارے حاشیے بھی ہوں گے، جنھیں میں نے نص قرآن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے انگریزی ترجمے کے ساتھ شامل کیا ہے۔ میری خواہش ہو گی کہ یہی چیز ہندی اور دیگر زبانوں میں بھی ہوپائے تاکہ مسلم اور غیر مسلم دونوں قارئین کو اسلام اور قرآن کا وہ پیغام اسی یکسانیت کے ساتھ ملے جیسا کہ سلف صالح نے اس کو سمجھا تھا۔ اس کے علاوہ میں قرآن کریم کا سبجکٹ انڈکس ( موضوعاتی اشاریہ) بھی کئی سال سے تیار کر رہا ہوں۔ یہ ایک مختصر انڈکس ہے جو ترجمے کے ساتھ ہی چھپے گا۔ دوسرا انڈکس عربی میں مفصل ہے جو الگ سے غالبا بیروت سے شائع ہوگا۔ انگریزی ترجمے کی اشاعت کے بعد میں اس طرف متوجہ ہوں گا۔ اس کام کے بعد میری خواہش یہ بھی ہے کہ میری خودنوشت سوانح حیات اور میرے وہ ہزاروں مضامین جو دنیا کے مختلف پرچوں میں بکھرے ہوئے ہیں کتابی شکل میں شائع ہو جائیں۔ میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ میں نے جو ڈائری یا یادداشت وقتاً فوقتاً لکھ رکھی ہے ان کی اشاعت بھی ہو جائے، جس سے کچھ ایسے مسائل کی وضاحت ہو جائے جن کا بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق مجھ سے ہے یا جن کا مشاہدہ میں نے خود کیا ہے۔ اس سے ملک و ملت اور دنیا سے متعلق کچھ مسائل پر بھی روشنی پڑے گی جن کو میں نے قریب سے دیکھا ہے۔
***
علیزے نجف کی یہ گفتگو بھی ملاحظہ فرمائیں :جب تنقید بھی ادب کا ایک حصہ ہے تو اس میں بھی تو ادبیت ہونی چاہیے: غضنفر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے