کتاب: رنگ رنگ کے شاعر

کتاب: رنگ رنگ کے شاعر

نام کتاب : رنگ رنگ کے شاعر
مصنف : ساجد جلال پوری (عزادار حسین)
صفحات : 224
قیمت : 250
ناشر : ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، انصاری روڈ، دریا گنج، نئی دہلی
مبصر : محمد اشرف یاسین، E-66 دوسری منزل، شاہین باغ، ابوالفضل انکلیو، نئی دہلی 25
8750835700

اردو ادب میں طنز و مزاح کی تاریخ اور روایت کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اس میدان میں عمومی طور پر ہمارے مزاح نگاروں کی اکثریت نے صرف دو اصناف "انشائیہ" اور "خاکہ" کو ہی اپنی تخلیق کے لیے منتخب کیا ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے پروفیسر قمر رئیس نے اپنی کتاب "اُردو ادب میں طنز و مزاح کی روایت اور ہم عصر رجحانات ایک جائزہ (1986ء)" میں صفحہ نمبر 09 پر لکھا ہے : "دراصل اردو کے بیشتر ادیب طنز و مزاح کے لیے انشائیہ یا خاکے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کے محدود اور مختصر پیکر میں کچھ مبالغہ کچھ ماحول آفرینی اور کچھ مزیدار جملوں اور فقروں کی تراش سے رنگ بھرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ وہ کسی بڑے تخیلی کینوس پر، ڈرامہ یا قصہ کی صورت میں سماجی نظام کی مضحک ناہمواریوں کے شعبدے دکھانے سے گریز کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اس میں تخیلی فکر اور تخلیقی ہنر دونوں کی آزمائش ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو طنز و مزاح کا بڑا سرمایہ بڑے اور زندہ رہنے والے تخلیقی ادب کی سطح سے پست رہتا ہے۔"
ساجد جلال پوری کے انشائیوں پر مشتمل مجموعے "رنگ رنگ کے شاعر" میں طنز و مزاح نگاری پر باقاعدہ گفتگو کرنے سے پہلے ہمیں انشائیہ کی تعریف بھی جان لینی چاہیے۔ انشائیہ کے لغوی معنی عبارت، بات پیدا کرنا اور طرزِ تحریر وغیرہ ہیں۔ انشائیہ نثری ادب کی وہ صنف ہے، جو ایک مختصر ادبی مضمون کے مانند ہوتے ہوئے بھی مضمون سے الگ انداز رکھتا ہے۔ اس میں تاثرات و مشاہدات و غیرہ بیان کیے جاتے ہیں۔ شگفتگی اور شائستگی اس کا اہم عنصر ہے۔ انشائیہ نگار کا اندازِ بیاں خشک نہ ہو کر پر لطف اور دل چسپ ہوتا ہے۔ اس کی ہیئت گرچہ نثری صنف کی ہے، لیکن یہ اپنے اندر شاعری کا سا لطف رکھتا ہے۔ انشائیہ میں انشائیہ نگار اپنی تحریر سیلِ رواں کی مانند آزادانہ طور پر شعوری رو میں بہتا ہوا پیش کرتا ہے۔ جس میں اس کی شخصیت کا پہلو بھی نمایاں نظر آتا ہے اور بغیر کسی خاص نتیجے کے بات کو ختم کرکے فیصلہ قاری پر چھوڑ دیتا ہے۔ واضح رہے کہ انشائیہ کے مفہوم اور بیئت کو کسی ایک تعریف میں محصور کرنا یا اس کی کوئی ایک ترکیب بیان کرنا قدرے دشوار ہے۔
شمالی ہند میں اردو شعر وادب کے آغاز سے ہی طنز و مزاح کے نمونے ملنے شروع ہو جاتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغلیہ حکومت کے زوال اور انتشار کے ساتھ ہی ساتھ ہندستانی معاشرے میں ہر طرح کی ناہمواریاں بھی جنم لے رہی تھیں اور انسانی اقدار و استحکام کا نظام بھی ٹوٹ پھوٹ رہا تھا، جو سیاست اور استقلال سے جڑا ہوا تھا۔ نا اہل حکمرانوں کا طوطی بول رہا تھا۔ زندگی کے ہر شعبے میں ہما ہمی اور کشاکش کا دور دورہ تھا. معاشرہ انصاف اور اعتدال سے تقریبا عاری ہو چکا تھا۔ چنانچہ ایسے پر آشوب اور پر فتن دور میں جعفر زٹلی (1659ء 1713ء) نے شاعری شروع کی، بعد ازاں جعفر زٹلی کی اس روایت کو مرزا محمد رفیع سودا (1706ء۔ 1781ء)، نظیر اکبر آبادی (1740ء-1830ء)، انشاء اللّٰه خان انشاء (1756ء-1817ء) وغیرہ نے پروان چڑھایا۔ آگے چل کر مرزا اسد اللّٰه خاں غالب (1797ء-1869ء) نے اپنے خطوط اور ”مدراس پنچ (مدراس:1859ء)، "روہیل کھنڈ پنچ“ ( مراد آباد: 1876ء)، ”بہار پنچ (پٹنہ:1876ء)، اودھ پنچ (لکھنؤ:1877ء) اور سر سید احمد خان (1817ء-1898ء) نے اپنے مضامین کے ذریعے فروغ دیا۔
آزادی کے بعد جن مزاح نگاروں نے اس فن کو نکھارا، سنوارا ان میں مشتاق احمد یوسفی، احمد جمال پاشا، یوسف ناظم، کنہیا لال کپور، فکر تونسوی، مشفق خواجہ اور مجتبیٰ حسین وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ انجم عثمانی اور نصرت ظہیر نے ماضی قریب تک اس میں اضافے کیے فی الحال اردو میں ابن کنول، اسد رضا اور زاہد علی خان اثر جیسے کئی انشائیہ نگار مسلسل لکھ رہے ہیں۔
"رنگ رنگ کے شاعر" نامی اس کتاب کے تخلیق کار ساجد جلال پوری نئی نسل کے ایک ابھرتے ہوئے قلم کار ہیں۔ اس کتاب میں انھوں نے شعراے کرام کی مختلف اقسام پر مبنی پچیس انشائیے لکھے ہیں۔ ان شعرا کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔ استاد الشعراء، شاعرِ غزل، اشتہاری شاعر، درباری شاعر، خیالی شاعر، خاندانی شاعر، تجارتی شاعر، سیاسی شاعر، بلند پرواز شاعر، شاعر زلف دراز، شاعر شراب، شاعر کباب، شاعر نصاب، خوش خوراک شاعر، خوش پوشاک شاعر، شاعر احساس کمتری، شاعر احساس برتری، شاعر ترنم، شاعر بلامعاوضہ، مقتول شاعر، صاحب زبان شاعر، شاعر خود نوشت، شاعر تخلص، شاعر اکھاڑہ، صدر شاعر اور ماہرین غالب وغیرہ. ساجد جلال پوری سے پہلے سید احمد شاہ بخاری (پطرس بخاری) نے اپنے ایک انشائیہ "لاہور کا جغرافیہ" میں طلبا کی ایسی ہی کئی اقسام بتلائی ہیں۔ جیسے جمالی، جلالی، خیالی اور خالی وغیرہ.
شعراے کرام کو اپنے انشائیوں کا موضوع بنانے کی وجہ بتاتے ہوئے ساجد جلال پوری نے ایک جگہ لکھا ہے "آج تک شعراء نے دوسروں پر طنز کیے ہیں۔ دوسروں کے ذریعے دوسروں کو ہنسایا ہے۔ لیکن خود اپنے آپ پر طنز کرکے اپنے کو اور غیروں کو ہنسانا گویا ایسا شغل ہے جیسے کسی سرکس کا جوکر اپنے کرتب و کرامات سے دوسروں کو ہنسا کر خود بھی ہنسے۔"
ساجد جلال پوری پچھلے بارہ برسوں سے درس و. تدریس کے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح کے گیسو سنوار رہے ہیں؛ جس کا ایک ثبوت ان کے انشائیوں پر مشتمل یہ کتاب ہے۔ اس کا انتساب مرزا اسد اللّٰه خاں غالب، مشتاق احمد یوسفی اور مجتبیٰ حسین کے نام ہے۔ جب کہ ساجد جلال پوری کی انشائیہ نگاری پر پروفیسر شارب ردولوی [سید مسیب عباس]، پروفیسر علی احمد فاطمی، زاہد جعفری، پروفیسر عباس رضا نیر جلالپوری اور ڈاکٹر ذیشان حیدر وغیرہ نے بھی اظہار خیال کیا ہے، جو کتاب میں شامل ہے۔
کتاب کے مطالعہ کے دوران مجھے بہت سے ایسے جملے نظر آئے، جنھیں پڑھ کر مشتاق احمد یوسفی کی یاد تازہ ہوگئی۔ محض مثال کے لیے یہاں چند جملے پیش کیے جاتے ہیں۔
(1) استاد بننے کا مطلب دوسروں کے گناہوں کا بوجھ اپنے سر پر ڈھونا ہے۔
(2) ایسے استاد بھی کثرت سے ملتے ہیں، جن کو شاگرد پالنے کا اتنا ہی شوق ہے، جتنا مسلمانوں کو مرغی پالنے کا۔
(3) غزل اگر نوجوانوں کے لیے روح افزا ہے تو بزرگوں کے لیے کسی ٹانک سے کم نہیں۔
(4) اشتہاری شاعر کو اشتہار میں نام درج کروانے کی اتنی بری عادت لگ گئی ہے کہ جیسے بعض نوجوانوں کو نشہ آور ادویات کی۔
(5) اشتہار سے مشاعرے اسی طرح پھنستے ہیں، جیسے ندیوں، تالابوں میں جال لگانے سے مچھلیاں۔
اس کتاب میں شامل مختلف شعرا کے اشعار اور پیروڈیاں تحریر میں بالکل اسی طرح سے پیوست ہیں، جیسے انگوٹھی میں نگینہ پیوست ہوکر انگوٹھی کے حسن کو دو چند کر دیتا ہے۔ میں نے تبصرے کی طوالت سے بچنے کے لیے اشعار کی مثال پیش نہیں کی ہیں۔
طنز و مزاح کے عمومی طور پر پانچ فنی حربے پائے جاتے ہیں۔ جنھیں ہم موازنہ (Comparison)، زبان و بیان کی بازی گری، مزاحیہ صورتِ واقعہ (Humorous Situation)، مزاحیہ کردار (Humorous Character) اور پیروڈی یا تحریف وغیرہ کے نام سے جانتے ہیں۔ ان حربوں میں سے ساجد جلال پوری کے یہاں زبان و بیان کی بازی گری کثرت سے پائی جاتی ہے۔ جیسے پالن، سالن، چھاجاتے ہیں، پاجاتے ہیں، سبک دوش، سبک اسٹیج، مفلس، مخلص، اصلی، نسلی، صیاد، جلاد، پختہ، ریختہ، محترم، معظم، شریف، نظیف، شرافت، شرارت، لطافت، نزاکت، بالغ، نابالغ، جوان، کسان، عوام، غلام، ضعیف، عفیف، نحیف، ظریف، لیاقت، نزاکت، منصب، مکتب، مشغولیات، مصروفیات، ترنم، تکلم، تبسّم، قامت، ضخامت، جسامت، قدامت، عشرت، عسرت، تنگ دستی، بالا دستی، سینہ، کینہ، خزینہ، قطعات، رباعیات، لغویات، ہجویات، فضولیات، کلیات، گور کن، کان کن، ججمانی، منمانی، کابل، قابل، نس بندی، نوٹ بندی وغیرہ کی طرح بے شمار الفاظ اس کتاب میں بھرے پڑے ہیں۔ یاد رہے کہ ساجد جلال پوری کے اس مجموعے میں ہمیں زبان و بیان کی بازی گری کی کئی کئی مثالیں مل جاتی ہیں، لیکن مزاحیہ صورتِ واقعہ اور موازنہ کی مثالیں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ خیر اب جو بھی ہو یہ مصنف کی باضابطہ پہلی کوشش ہے، اس لیے مستقبل میں ان سے مزید اچھی توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔
یہ کتاب بہت ہی خوب صورت ڈیزائن اور دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ ہارڈ بائنڈنگ میں شائع کی گئی ہے، لیکن کاغذ، بائنڈنگ اور پرنٹنگ کی کوالٹی کتاب کے شایانِ شان نہیں ہے۔ اس میں جگہ جگہ کالے رنگ کے دھبے کتاب کی خوب صورتی کو متاثر کرتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اسے سافٹ بائنڈنگ کے ساتھ پیپر بیک پر عمدہ کاغذ کو استعمال کرکے شائع کیا جاتا۔ میری طرف سے ساجد جلال پوری کو اس پہلی کتاب کی اشاعت پر بہت بہت مبارک باد، مجھے قوی امید ہے کہ یہ کتاب قارئین سے دادِ تحسین حاصل کرنے میں ان شاءاللّٰه تعالیٰ ضرور کامیاب ہوگی.
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش :تحریک آزادی سے وابستہ علما کی اردو خدمات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے