زِندگی کو اِک کہانی چاہیے

زِندگی کو اِک کہانی چاہیے

دلشاد دل سکندر پوری

زندگی کو اک کہانی چاہیے 
خشک دریا کو روانی چاہیے

دل کو اِک خوابوں کی رانی چاہیے
سر حدوں کی نگہبانی چاہیے

چوم لے بڑھ کر مری تحریر کو
میرے لفظوں کو معانی چاہیے

کامیابی نہ ملے تو نہ سہی
اپنی قسمت آزمانی چاہیے

بک رہی ہے کوڑیوں میں شاعری
آپ کو قیمت لگانی چاہیے

دیکھنے کے واسطے بزم جہاں
شرم کا آنکھوں میں پانی چاہیے

آئیں جب پلکوں کے دسترخوان پر
آنسووں کی میزبانی چاہیے

دوسروں کے دل میں رہنے کے لیے
شاعری تھوڑی سی آنی چاہیے

داد دیتے ہو ہمارے عیب پر
آپ کو انگلی اٹھانی چاہیے

چھین لے پیمانۂ سقراط کو
گر حیاتِ جاودانی چاہیے

یار احساس ندامت کے لیے
کچھ تری آنکھوں میں پانی چاہیے

کون اترا میرے دل کے طور پر
ہر نفس کو لن ترانی چاہیے

مسند شاہی مبارک آپ کو
دل کو دل پر حکمرانی چاہیے
***
صاحب غزل کی گذشتہ غزل :بھر گئی فرقہ پرستوں سے یہ دنیا کیسے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے