بھر گئی فرقہ پرستوں سے یہ دنیا کیسے

بھر گئی فرقہ پرستوں سے یہ دنیا کیسے

دلشاد دل سکندر پوری

بھر گئی فرقہ پرستوں سے یہ دنیا کیسے
رام رحمان میں ہونے لگا جھگڑا کیسے

ہیر پر کُچھ نہیں تیشے پہ سوال اٹھے گا
عشق میں مر گیا رانجھا کوئی پیاسا کیسے

میرے بھائی نے جلا ڈالا ہے اب کے مجھ کو
چاہ کنعاں سے مرا نکلے گا کپڑا کیسے

خود سے اک عمر لگی رشتہ بنانے میں مجھے
لوگ انجانوں سے کر لیتے ہیں رشتہ کیسے

ہم نے کشتی کو سمندر میں اتارا ہی نہیں
ہم کو طوفاں میں نظر آئے جزیرہ کیسے

زمہ داری کا کوئی بوجھ اٹھایا بھی نہیں
وقت سے پہلے ہی ہونے لگا بوڑھا کیسے

عمر بھر میں نے گلابوں کی تجارت کی ہے
پڑ گیا ہے یہ مرے ہاتھ میں چھالا کیسے

اِک پیمبر کی طرف دار ہے مانا بستِی
بت یہاں بِکتا ہے آزر کا تراشا کیسے

ہر قدم پر یہ سنبھالے ہے انا کو میری
پھاڑ کر پھینک دوں غربت کا لبادہ کیسے

زہر غم ہم نے زمانے کا پيا ہے برسوں
تن بدن آپ کا ہونے لگا نیلا کیسے

میں تو مر کر بھی اے دل سب میں رہوں گا زندہ
بھول جائے گا زمانہ مرا نغمہ کیسے
***
صاحب غزل کی گذشتہ غزل :میں نے کل پاؤں ترے شہر میں کیا رکھا تھا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے