کتاب: حاشیہ خیال

کتاب: حاشیہ خیال

نام کتاب : حاشیہ خیال (از نصرت نسیم) 
تبصرہ نگار: قانتہ رابعہ

آج کا بہت بڑا اور اہم المیہ یہ ہے کہ کتاب لکھنے والے تو لکھ رہے ہیں کہ ایک قلم کار کے لیے لکھنا ایسا ہی ہے جیسے طعام و کلام اور سانس لینا. قلم کی حرمت کا خیال رکھنے والوں کا قلم رکنے کے لیے نہیں ہوتا. مگر صد افسوس کہ ڈھیروں سرمایہ لگا کر جب اپنے قیمتی وقت کا کچھ حصہ کتاب لکھنے کے بعد کتاب شائع ہو جاتی ہے، تو کتاب کو ہاتھوں میں لینے والے نہیں ملتے۔ مل بھی جائیں تو باذوق قاری خال خال ہی نظر آتے ہیں. وہ دور گزر گئے جب کتاب کی اشاعت مشکل کام تھا اور اس کی تشہیر کے ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے، پھر بھی کتاب سے عشق رکھنے والے قاری کو کتاب کی اشاعت کے بارے میں پل پل کی خبر ہوتی تھی اور جب تک کتاب ہاتھوں میں آکر نظروں سے گزر نہ جائے اس کے سیاق و سباق اور چنیدہ حصے اہل ذوق کو نہ سنا دیے جائیں، کتاب پر دو چار لوگوں سے تبصرہ نہ کرالیا جائے، روح کو تسکین نہیں ملتی تھی۔ آج کے سوشل میڈیا کے پر فتن دور میں اس کے ہزار فائدے اپنی جگہ لیکن کتاب بینی پر بہرحال اثر پڑا ہے. اگر معدودے چند ایک اس سے بچے ہوئے ہیں، کتاب کا شوق بھی رکھتے ہیں، اسے دل کی آنکھوں سے پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے بارے میں سیر حاصل گفتگو بھی کرتے ہیں تو ان میں سے ایک نمایاں نام محترمہ نصرت نسیم صاحبہ کا ہے۔ ان کے باذوق قاری ہونے پر تو سب ہی متفق ہیں لیکن مطالعہ کی گئی کتب پر ان کے معلومات سے بھرپور خوب صورت زبان میں کیے عمدہ تبصرے اور تجزیے بھی ادب میں شاہ کار ہیں۔ اس کا پتا ان کی کتاب حاشیہ خیال سے چلتا ہے۔
کہنے کو یہ ایک کتاب ہے، جس میں انھوں نے جن اکیس کتب پر عمدگی سے تبصرے کیے تھے وہ جمع کر دیے ہیں، لیکن سچ بات ہے کہ عطار اور لوہار والی مثال اس پر صادق آتی ہے. کچھ نہ بھی خریدو گے تو خوش بو تو لے کر ہی آؤ گے۔
کتاب میں ادب کی ہر صنف سخن سے متعلق کسی نہ کسی کتاب پر تبصرہ شامل ہے۔ ان تبصروں کو تجزیہ، بھی کہا جاسکتا ہے اور اس کی خوب صورت انداز کی وجہ سے انشائیہ نما بھی، جس میں شاعری کے ساتھ ساتھ سفر نامے، سیرت پر ولی رازی کی غیر منقوط کتاب ہادی عالم، ضیاء یوسف زئی کی آپ بیتی کا ترجمہ، سلمان باسط کی خود نوشت، ناسٹلجیا، افسانوی مجموعے کے علاوہ بہت سی کتب شامل ہیں۔ ہر مضمون ایک پھول ہے جو کتاب میں جمع ہو کر اکیس پھولوں کا گلدستہ بن جاتا ہے، جس پر بے اختیار اکیس توپوں کی سلامی دینے کا دل چاہتا ہے۔
ان اکیس مضامین میں بہت سے نادر خزانے جمع ہیں. آپ جانیے کہ اکیس بیش بہا قیمتی کتب کا نچوڑ کتنا اہم ہوتا ہے۔ یہ وہی جانتا ہے جو ایک کتاب نہیں ایک لفظ کی قیمت جانتا ہو. ایسے ہی تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے نہیں فرمایا تھا کہ جو مجھے ایک لفظ بھی سکھا دے وہ میرا استاد ہے۔
نجمہ عثمان کا سفر نامہ حج ہو یا سعود عثمانی کے اسفار، باونی کے افسانے ہوں یا شجاعت علی راہی کا بچوں کے لیے ناولٹ سب پر محترمہ نصرت نسیم نے لکھنے کا حق ادا کیا اور قارئین کے لیے اس طرز پر لکھا کہ متعلقہ کتاب کے بارے میں قاری کی اشتہا بڑھے۔ ان کے طرز تحریر میں کوئی ثقالت نہیں ہے، سادہ ہے اور زندگی سے بھرپور، کچھ فقروں پر بے اختیار رک کر داد دینا پڑتی ہے۔ جیسے دو ہنسوں کا جوڑا ( جو محترم جبار مرزا صاحب نے اپنی نصف بہتر کی جدائی پر لکھی ہے) میں لکھتی ہیں:
"اکلِ حلال اور صدق مقال لازم و ملزوم ہیں. "
اس چھوٹے سے فقرے میں جہاں معنی آباد ہے. مزید لکھتی ہیں:
"جبار مرزا صاحب اپنے جد کی طرز پر تاج محل بنانے پر تو قادر نہیں مگر پیار کی روشنائی سے جذبہ دل اور محبت سے ایک ایک لفظ صفحہ قرطاس پر بکھیر کر تاج محل تعمیر کرڈالا۔"
کتاب سنہرے ہاتھ، جو کوہاٹ کی نابغہ روزگار شخصیت نامور مصور لیاقت علی خان کی داستان حیات ہے، جو کوہاٹ ہی کی ہر دل عزیز ہستی محترم شجاعت علی راہی صاحب نے تصنیف کی ہے۔
تیس برس بلدیہ ابو ظہبی کے ساتھ وابستہ رہنے والی شخصیت لیاقت علی خان کی داستان اتنی دل چسپ اور محنت و مشقت سے بھر پور زندگی کی ہے کہ بے اختیار ان کے بارے میں مزید جاننے کو جی چاہتا ہے۔
انیس سو نناوے میں انھیں دنیا کی سب سے بڑی پورٹریٹ بنانے کا اعزاز حاصل کرنے والے کی اپنے ملک میں قدردانی کا یہ عالم تھا کہ قائد اعظم سے محبت و عقیدت کی بنا پر فور بائے فور کے دو سو ٹکڑوں پر انھوں نے پورٹریٹ بنانے کا کام شروع کیا جو سات ماہ کی ان تھک محنت سے تیار ہوا. بے نظیر سے نواز شریف تک سب کی خواہش تھی کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا پورٹریٹ اپنے ہاتھوں سے نصب کریں، م۔شرف نے اپنے دور میں تئیس مارچ 2001ء کو مینار پاکستان پر اس کی تنصیب کا حکم دیا، اس کو بعد ازاں مستقل طور پر کنوینشن سینٹر کے باہر لگانے کا فیصلہ کیا، جو تب سے سرد خانے میں پڑی ہے."
ایک جگہ محترم راہی صاحب رقم طراز ہیں: "لیاقت علی خان کی تصویر دیکھنا گویا اپنے ذوق نظر کی تربیت کرنا ہے."
کتاب میں ایک کالم محترمہ شازیہ ستار نایاب کی مزاحیہ کتاب "توبہ ہے بھئی"، بھی رونق بڑھانے کا باعث ہے۔
محترمہ نصرت نسیم کی خوبی یہ ہے کہ وہ کتاب کا پیش لفظ پڑھ کر کالم لکھنے کی بجائے مکمل کتاب سے خوب صورت فقرے کشید کرتی ہیں۔ ایک تتلی کی مانند جو پورے گلستان کی سیر کرتی ہے لیکن منتخب پھول سے ہی رس کشید کرتی ہے. کرونا کے متعلق لکھتی ہیں:
"یوں کھایا چین نے اور ہاتھ ساری دنیا دھونے لگی۔"
اویس قرنی کے افسانوی مجموعے، اگلی بار، پر تبصرے کو شاہ کار قرار دیا جا سکتا ہے. لکھتی ہیں:
"افسانہ لفظ کا جادو اور درد کا دارو ہے۔
افسانہ قرینے کی روایت قلم کی تلاوت اور قلم کار کی عبادت ہے۔
افسانہ جگنوؤں کی بارات ہے۔
افسانہ جذبات کی سہیلی اور مناظر کی نیرنگی ہے۔
افسانہ کسی کی آنکھوں میں ساحل کی تلاش ہے۔"
کتاب اگلی بار کے بارے میں پڑھیے:
"ایک افسانے میں کئی افسانے ہیں، کہانی در کہانی بلکہ ایک سطری لائن اپنی جگہ مکمل داستان سموئے ہوئے.
کارگل لکھا اور کچھاروں میں ہلچل مچ گئی.
نائین الیون لکھا اور ٹریڈ سینٹر کا ملبہ پہاڑوں پر گرایا.
کشمیر لکھا اور برف زاروں میں قبرستان آباد ہوگئے
غدر لکھا اور رنگین قلعہ رنگون ہوگیا۔"
بہت عمدہ تبصرے پر میں محترمہ نصرت نسیم کو مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ میرے لیے مشکل بات یہ کہ ہر کالم میں سے اقتباس نقل کئے جانے کے قابل ہیں اور ڈر یہ ہے کہ یہ کالم ہی کہیں کتابی شکل اختیار نہ کر جائے۔ محسن مگھیانہ صاحب کا سفر نامہ حج ہو یا ولی رازی کی ہادی عالم، سب معلومات میں اضافے کا سبب ہیں. مثلاً: مجھ کم علم کو تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ غیر منقوط سیرت کی اس کتاب سے پہلے کتنی کتنی غیر منقوط کتب ادب کی دنیا میں پہلے سے موجود ہیں۔
لکھتی ہیں:
"جس وقت سے سیرت کی یہ کتاب میرے زیر مطالعہ ہے میں حیرت و استعجاب کی کیفیت میں ہوں کہ اکبر کے نو رتنوں میں سے فیضی کے بارے میں پڑھا تھا کہ اس نے غیر منقوط الفاظ میں قرآن مجید کی تفسیر لکھی تھی، لیکن یہ تفسیر چیدہ چیدہ واقعات پر مشتمل تھی، جب کہ رازی کی یہ کتاب سیرت کے نہ صرف سارے پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے بلکہ پیدائش سے لے کر وصال تک کے تمام واقعات کو ترتیب کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔"
کالم میں اپنی نوعیت کی اس واحد کتاب کی تیاری کے مراحل کے علاوہ ایک دو بہت خوب صورت اقتباسات بھی دیے گئے ہیں۔
کتاب ہاتھ سے رکھنے سے پہلے سلمان باسط کی ناسٹلجیا کے بارے میں بھی ایک دو سطور پڑھیے:
"کسی کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ خود کو پڑھوائے اور قاری پڑھتے ہوئے اس میں گم ہو جائے۔" بلاشبہہ یہی الفاظ حاشیہ خیال کے لیے بھی کہے جاسکتے ہیں. در حقیقت یہ کتاب ان کے لیے بہت مفید ثابت ہو گی، جو اچھی کتب خریدنے اور پڑھنے سے اس لیے کتراتے ہیں کہ انھیں معلوم نہیں ہوتا کون سی کتب پڑھے جانے کے قابل ہیں، کہاں سے کتنے میں اور کیسے مل سکتی ہیں۔
یہ کتاب جسے فخریہ طور پر "حاصل مطالعہ" کا نام بھی دیا جا سکتا ہے یقیناً اس قابل ہے کہ خرید کر پڑھی جائے اور کتب کا ذوق رکھنے والوں کو اس سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے.
میں مصنفہ اور پریس فار پیس فاؤنڈیشن کو مبارکباد پیش کرتی ہوں جنھوں نے مجھے اس لائق سمجھا کہ میں اس پر اپنی رائے دے سکوں۔
***
تبصرہ نگار کی گذشتہ نگارش:کتاب: تماشائے اہل کرم

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے