کتاب: سفر نامہ کا فن اور شمالی ہند کے سفر نامے

کتاب: سفر نامہ کا فن اور شمالی ہند کے سفر نامے

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ڈاکٹر محمد اشتیاق احمد اپنے قلمی نام اشتیاق احمد شاکر سے مشہور ہیں، 15 اپریل 1985 کو محمد غیاث الدین صاحب کے گھر آنکھ کھولنے والے اس مصنف کا آبائی گاؤں لچھمن پور بوجگاو وایا قصبہ، ضلع پورنیہ ہے، تعلیمی لیاقت بی ایڈ، ایم اے، پی ایچ ڈی ہے، مطلب تعلیمی لیاقت اور اسناد مضبوط ہے، پڑھنا اور پڑھانا یہی مشغلہ رہا ہے، حیدر آباد، بہار اور جھارکھنڈ کے کئی اسکولوں سے مختلف اوقات میں وابستگی رہی ہے، سفرنامہ کا فن اور شمالی ہند کے سفرنامے، آزادی کے بعد ان کا پی اچ ڈی کا مقالہ ہے، جو تین ابواب پر مشتمل ہے اور جس میں سفرنامہ نگاری کا فن، سفرنامے کی روایت اور اردو سفرنامہ نگاری اور (آزادی کے بعد) اردو کے اہم سفر ناموں کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے، اس کتاب کی خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مصنف نے خود لکھا ہے کہ:
”ادب کے موجودہ عصری منظرنامہ میں یہ کتاب طرز احساس کے اعتبار سے اور نئے ادبی رجحان کو معرض وجود میں لانے کے سلسلے میں ایک پہل ہے، جس میں سفرنامہ کا نظریہ بہت واضح طور پر موجود ہے، دیکھنے پرکھنے اور پیش کرنے کی جامعیت کی پذیرائی ہوگی، اس کا یقین ہے۔“ (صفحہ:6)
کتاب کا آغاز والدین ماجدین اور مشفق اساتذہ کرام کی محبتوں اور شفقتوں کے نام ہے، جن کی رہ نمائی، حوصلہ افزائی اور شفقتیں مصنف کے ساتھ رہیں اور جو زندگی کے لیے مشعل راہ ثائب ہوئیں، انتساب کے معا بعد مصنف کا پیش لفظ ہے، جس کا ایک اقتباس اوپر نقل کیا گیا ہے، اس کے بعد مصنف نے اپنا رخ موضوع کی طرف کیا ہے اور بات شروع ہوگئی ہے، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مصنف نے کسی بھی اہل علم و قلم سے اس کتاب پر مقدمہ، پیش لفظ، حرف چند اور تا ثرات لکھوانے سے قصدا گریز کیا ہے، یہ گریز مصنف کی خود اعتمادی کو بتاتا ہے، انھوں نے اس فارمولے پر عمل کیا ہے کہ مشک کی خوشبو مشام جاں کو خود ہی معطر کر دیتی ہے، اسے کسی اور کو بتانے اور کہنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، انھوں نے اس کتاب کی اہمیت بیان کرنے اور کروانے کے لیے کسی دوسرے کا سہارا نہیں لیا ہے، جو کچھ ہے اور جیسا کچھ ہے قارئین کی خدمت میں بلا واسطہ پیش کر دیا ہے۔
زندگی مستقل ایک سفر ہے، اس سفر کی روداد، آپ بیتی کی شکل میں لکھنے کا رواج قدیم ہے، ہماری زندگی کا بیش تر حصہ مختلف جگہ اور مختلف قسم کے اسفار میں گزرتا ہے، ان اسفار کی تفصیلات اگر سفرنامے کی شکل میں آجائیں، اپنی نوعیت کے اعتبار سے ان کاموضوع اور مواد جو بھی ہو ان کا پڑھنا دل چسپی سے خالی نہیں ہوتا، سفر کے مقاصد الگ الگ ہوتے ہیں، لیکن سب میں ”سیرو فی الارض“ کے خدائی احکام کی تعمیل ہوتی ہے، کوئی سفر سے معاش حاصل کرتا ہے کوئی عبرت پکڑتا ہے، اور تاریخ کے دفینوں کو مشاہدے کے ذریعہ اپنے دماغ کو منور کرنے کے بعد اسے دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، اسی کو سفر نامہ نگاری کے فن سے مصنف نے تعبیر کیا ہے۔ کتاب کا پہلا باب اسی عنوان سے ہے، جس میں مصنف نے سفرنامہ کا تعارف، سفر نامہ کے محرکات، موضوع، اسلوب، ہیئت، سفرنامے کی اہمیت و افادیت پر اپنی تحقیقات پیش کی ہیں۔
یہ سفر نامے ایک طرح کے نہیں ہوتے، کیوں کہ لکھنے والوں کی صلاحیتیں الگ الگ ہوتی ہیں، بعض کا مشاہدہ قوی ہوتا ہے اور بعض کا کمزور، بعض کو جزئیات نگاری میں کمال ہوتا ہے اور بعض کو منظر نگاری میں، کوئی سرسری سا اس جہاں سے گذر جاتا ہے، اور کوئی اس طرح دنیا کو دیکھتا ہے کہ وہ سفرنامے ”جہاں دیدہ“ کے ”جہانِ دیدہ“ بن کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔
ڈاکٹر اشتیاق احمد شاکر نے ہر قسم کے سفرناموں پر روشنی ڈالی ہے، ان کے قلم میں تعلیمی و علمی سفرنامے، سیاسی سفر نامے، مذہبی سفرنامے، داستانوی یا فرضی سفر نامے سبھی آگئے ہیں، انھوں نے سفر ناموں کے ابتدائی نقوش کا جائزہ بھی لیا ہے اور سفر نامہ نگاری کے آغاز و ارتقا پر سیر حاصل گفتگو کے بعد آزادی کے قبل کے بیس سفرناموں پر اپنی تفصیلی تحقیق پیش کی ہے۔
اس باب سے نمٹنے کے بعد انھوں نے آزادی کے بعد اردو کے اہم سفر ناموں کا اجمالی تعارف کرایا ہے، جس میں اٹھارہ سفرنامے شامل ہیں، اس سلسلے کا اختتام ڈاکٹر ارشد جمیل کے سفرنامہ غبار سفر پر ہوتا ہے۔ اس فہرست میں رضا علی عابدی کا مشہور سفرنامہ جرنیلی سڑک بھی موجود ہے۔ دیگر سفرناموں میں رہ نور شوق -سید عابد حسین، جرمنی میں دس روز -علی احمد فاطمی، سیر کر دنیا کی غافل – صغریٰ مہدی، ساحل اور سمندر- سید احتشام حسین، ازبکستان انقلاب سے انقلاب تک-پروفیسر قمر رئیس، سفر آشنا- گوپی چند نارنگ، خوابوں کا جزیرہ مورشیش- دردانہ قاسمی، دیکھا ہم نے استنبول- ڈاکٹر صبیحہ انور، یوروپ کا سفر نامہ- س اعجاز، استنبول سے استنبول تک- ادریس صدیقی، سیاحت ماجدی- مولانا عبد الماجد دریاآبادی، دو ہفتے امریکہ میں- بدر الحسن قاسمی، لندن یاترا- ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، چراغ راہ گذر- ظہیر انور، یہ جو ہے پاکستان- شویندر کمار اور دنیا کو خوب دیکھا- پروفیسر محسن عثمانی ندوی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
دو سو سینتالیس صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت تین سو پچاس روپے ہے، طباعت روشان پرنٹرس دہلی 6 کی ہے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ناشر ہے، طباعت عمدہ اور ٹائٹل دیدہ زیب ہے، ڈیڑھ درجن سے زائد مکتبوں کے پتے درج ہیں، جہاں سے یہ کتاب حاصل کی جا سکتی ہے، آپ چاہیں تو 9182165095 پر فون کرکے بلا واسطہ مصنف سے طلب کر سکتے ہیں۔
***
تبصرہ نگار کی گذشتہ نگارش :مقدمہ کتاب: یادوں کے چراغ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے