کتاب: تماشائے اہل کرم

کتاب: تماشائے اہل کرم

تحریر و تبصرہ : قانتہ رابعہ
گوجرہ، پاکستان 

ہر بندہ جدی پشتی مسافر ہی ہے۔ دنیا ہے ہی مسافرت کا گھر، لیکن اس عارضی سفر کو دائمی وسیلہ ظفر بنانا ہر بندہ بشر کا کام نہیں ہوتا. کچھ لوگ ہمیشہ پا بہ رکاب رہتے ہیں اور کچھ کے لیے سفر انگریزی زبان کا سفر بن جاتا ہے۔ میرے ہاتھ میں اس وقت جو کتاب ہے اس کا نام، تماشائے اہل کرم، ہے اور اس کے مصنف محمد ایاز کیانی ہیں۔
جس طرح کسی کے چہرے مہرے کو دیکھ کر بندے کے باطن کے بارے میں بتانا مشکل ہے، یہی معاملہ کسی بھی کتاب کے لیے بھی ہو سکتا ہے. بالکل اسی طرح جیسے ہر مسافر کے سفر کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے. محض سیروتفریح کے لیے کوئی کوچہ بہ کوچہ کو بہ کو نہیں پھرتا. خوش قسمتی سے فاضل مصنف ابن بطوطہ کے قبیلے سے ہی ہیں کہ جن کے دربدر جانے کا مقصد صرف اور صرف مختلف دوست احباب کے ساتھ میل ملاقات اور ان کے علاقے میں سیاحت تھی۔
اس حساب سے آج کے افراتفری اور پرفتن دور میں محض ملاقات اور سیاحت کے لیے دوسرے شہروں میں ہی نہیں دوسرے صوبوں میں جانا بہت حیرت انگیز بات ہے. پاکستان سے محبت کے دعوے دار تو بہت ہوں گے لیکن اس کے ہر کونے میں سیاحت کی غرض سے جانا بہت اہم ہے۔
لکھنے والوں نے جناب کیانی صاحب کو مارکو پولو، ابن بطوطہ اور پتا نہیں کیا کیا قرار دیا لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ اس دور جدید میں نوجوانوں کے لیے ہی نہیں عمر رسیدہ افراد کے لیے بھی قابل رشک ہیں، جن کے پاس بےکار مباش کچھ کیا کر کے مصداق کرنے کو کچھ نہیں ہوتا۔
جناب ایاز کیانی صاحب خود سفر نامہ کے آغاز میں لکھتے ہیں:
"سردیوں کی تعطیلات ہوئیں تو سوچا کچھ ایسا کیا جائے کہ سردیوں سے بھی چھٹکارا مل جائے اور اللہ کی زمین میں چل پھر کر اس کی نشانیاں دیکھنے کی سبیل بھی بن جائے، اسی ذوق سفر کو لے کر جنوری فروری 2022ء کو میں اس سفر پر نکل پڑا، جس کی روداد آپ کے ہاتھوں میں ہے۔"
قارئین! سفر سے پہلے اس کی نیت بنالینا اور قرآن کے فرمان کے مطابق سیرو فی الارض، زمین میں گھومو پھرو اور اس کی نشانیاں دیکھو، سفر سے پہلے اس کی تیاری ہے۔ یوں پندرہ جنوری کو اکیلے ہی آزاد کشمیر سے عازم سفر ہونے والے کیانی صاحب نے پورے پاکستان کی جس طرح سے سیر کروائی اور جہاں جہاں بھی گئے وہاں کے تجربات مشاہدات کے ساتھ ساتھ وہاں کی تاریخ بیان کرتے گئے. یوں آپ اس سفر نامے کو بیک وقت سیون ان ون یا ملٹی پل سفرنامہ بھی کہہ سکتے ہیں، جس میں زبان کی ششستگی باذوق قارئین کی آخری سطر تک انگلی تھامے رکھتی ہے. کتاب میں جغرافیہ، محل وقوع کے ساتھ پر لطف انداز بیان میں تاریخ بتائی گئی ہے. ان شہروں کے باشندوں کی بود و باش کا بھی تذکرہ ہے۔ خوب صورت تصاویر سے مزین یہ سفرنامہ عمدہ اشعار کو انگوٹھی میں نگینے کی طرح سموئے ہوئے ہے۔
اصل میں مصنف نے دوران تعلیم جہاں جہاں جن جن اداروں میں تعلیم حاصل کی، کئی عشروں کے بعد وہ ان درس گاہوں میں گئے اور جن یار بیلیوں سے رابطہ قائم تھا، ان سے بھی ملاقات کی ایک صورت تھی. انسان کی زندگی میں ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے کہ اسے پرانے دوست، پرانی جگہیں، پرانی صحبتیں سب سے بڑا سرمایہ محسوس ہوتی ہیں. یوں یہ کتاب انھی پرانے دوستوں کے ساتھ اپنی پرانی درس گاہوں میں جانے اور ماضی کی خوب صورت یادوں سے سجی ایک کتاب ہے جس کا دوسرا نام "یاراں نال بہاراں" بھی ہوتا تو چنداں مضائقہ نہیں تھا۔
کتاب جامعہ پنجاب میں مصنف کی روانگی اور پھر لاہور کے اہم مقامات کی سیر اور روداد پر مشتمل ہے، جن میں انار کلی، قذافی اسٹیڈیم، داتا دربار، باغ جناح اور ریس کورس پارک سمیت بہت سے مقامات شامل ہیں۔ سب کی تاریخ اور جغرافیہ اضافی سبق کے طور پر دل چسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
لاہور سے روانگی کے بعد دوران سفر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"لاہور سے نکلنے کے بعد ایک گھنٹے کے فاصلے پر پہلا شہر پتوکی پڑا."
پتوکی کو وہ پھولوں کا شہر قرار دیتے ہیں.(پھولوں اور پودوں کی ریکارڈ نرسریوں کی وجہ سے) اوکاڑہ میں اپنے تعلیمی دور کے ساتھ کاشف سے ملاقات کا حال اس خوب صورت مصرعے میں لکھ کر حق ادا کردیا "آملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک۔"
ملتان کی بات ہو اور اس کے چار تحفوں کی بات نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے؟ زکریا یونی ورسٹی ملتان سے حصول علم کی پچیس سال پرانی یادوں کو یاروں کے ساتھ تازہ کرنے، وہاں کے ناشتے کھانے اور مختلف مقامات کی سیر کرتے ہوئے وہاں کے مزاروں درباروں کے متعلق آنکھوں دیکھی معلومات منتقل کرتے ہوئے وہ بلوچستان روانہ ہوتے ہیں. راستے میں مشہور سیاحتی مقام فورٹ منرو، لورا لائی، قلعہ سیف اللہ سمیت بہت سے علاقوں کے متعلق تفصیلات موجود ہیں۔ تاریخ جغرافیہ سے بھی اوپر کی چیز اس علاقے کے باشندوں، ان کے طور طریقے پر لکھنا ہے۔ یہ کام جناب کیانی صاحب نے بہت عمدگی سے کیا۔ خواہ بولان میڈیکل کالج ہو یا بلوچستان کا قبائلی جرگہ سسٹم؛ وہ اپنے خیالات کے گھوڑے پر ہر جگہ سوار بگٹٹ دوڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہنہ جھیل ہو یا اڑک آبشار، سب کے متعلق لکھنے کا انداز اتنا جان دار ہے گویا قاری اور لکھاری اکھٹے ہی موجود ہیں۔
ایک حساس دل رکھنے والے پاکستانی نے بلوچستان کی زبوں حالی کا صرف تجزیہ ہی پیش نہیں کیا، حالات کا نوحہ لکھ کر فارغ نہیں ہوئے، بلکہ ان مسائل کا حل پیش کیا ہے. لکھتے ہیں: "ریاست عملاً ماں کا کردار نبھائے بچے خواہ کتنے ہی ضدی کیوں نہ ہوں یہ ماں کی حکمت عملی ہوتی ہے کہ وہ انھیں کیسے راہ راست پر لاتی ہے۔"
قارئین کرام! ہر علاقے کے لوگوں میں وہاں کے بارے میں کچھ روایات اور حکایات سینہ در سینہ چلی آ رہی ہوتی ہیں. کوہ مردار ان میں سے ایک ہے جس کے بارے میں درجنوں پراسرار واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔ کیانی صاحب نے ان پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
بلوچستان سے بذریعہ سڑک سفر طے کرکے کیانی صاحب کراچی پہنچے، وہاں کی سیر اور سیاحت کی روداد بہت معلوماتی اور دل چسپ ہے. اگر کتاب ہاتھ میں لے کر پڑھی جائے اور اہم حصوں کو نشان زد کرنے کا بھی کہا جائے تو یہ کتاب جا بجا نشان زدہ ہے. بہت سے علاقے بہت سے واقعات بہت سی نئی باتوں کے بارے میں مجھے اس کتاب کے مطالعہ سے پتا چلا۔
کتاب ایسی ہی ہے کہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شہر یا جگہ سے پڑھنے والے کی یاد وابستہ ہوگی. مجھے تو بہت سی جگہوں پر رک کر اپنی یادوں کا موازنہ کرنا پڑا۔ آپ بھی مطالعہ کریں اور اپنے ذوق سفر کی تازگی کا سامان مہیا کریں۔
میں مصنف جناب ایاز کیانی اور پریس فار پیس کی ٹیم کواس خوب صورت کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
***
قانتہ رابعہ کی گذشتہ نگارش :کتاب: بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے