سلیم محی الدین کے شعری امتیازات

سلیم محی الدین کے شعری امتیازات

شاہد حبیب*

سلیم محی الدین وابستہ ہیں ولی، سراج، وجد، قاضی سلیم اور بشر نواز کی تابندہ شعری روایت کی حامل سر زمین سے۔ انھوں نے کسی تحریک یا رجحان سے متعلق ہو کر شعر و ادب کی خدمت کی راہ نہیں اپنائی۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند فکر سے لے کر جدید اور مابعد جدید رجحانات کے خوش گوار عناصر ان کی شاعری میں خوب صورتی کے ساتھ ٹنکے ہوئے مل جاتے ہیں اور ان کی شاعری تازہ ہواؤں کی آماج گاہ بن گئی ہے۔ سلیم محی الدین کو پڑھتے ہوئے قاری کو مختلف النوع تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ جہاں وہ اپنے زمانے میں وقوع پذیر ناروا مظالم اور غربت و افلاس کی کراہیت کے اظہار کے لیے اپنی شاعری کا استعمال کرتے ہیں تو ساتھ ہی اپنے دل کی آواز پر بھی کان دھرتے ہیں۔ محبوب سے لو لگاتے ہیں تو اپنے اردگرد کے ماحول کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں۔ جس طرح غالب اور ذوق کا موازنہ کرنا اب اردو تنقید میں ناانصافی میں شمار ہوتا ہے اسی طرح ہمیں دبستانِ اورنگ آباد کے شعرا قاضی سلیم، بشر نواز اور سلیم محی الدین کے مابین موازنہ سے گریز کی راہ اپنانی ہوگی۔ کیونکہ ان سبھی کے مطمحِ نظر الگ الگ ہیں اور خصوصیات بھی۔ گو کہ سلیم محی الدین کے یہاں داخلیت اور خارجیت کا ایک حسین امتزاج موجود ہے، لیکن ایک قاری کو سب سے زیادہ جو چیز اپنی طرف کھینچتی ہے وہ ان کا اندازِ گفتگو ہے جو لوگوں کو زمانے کے ساتھ نہیں بلکہ زمانے سے ایک قدم آگے چل کر دکھانے کی بات کرتا ہے۔ زیر نظر مضمون کے عنوان کو اختیار کرنے میں سلیم محی الدین کا یہی اندازِ سخن حاوی رہا ہے۔[اصل عنوان تھا "خط پہ چاند کا پتہ لکھنے والا شاعر سلیم محی الدین"، جسے اشتراک نے ایڈٹ کیا. کیوں کہ مقالہ عنوان سے میل نہیں کھاتا. اشتراک] 

بچپن میں اور بچوں کی طرح سلیم کو بھی چندا ماما سے لگاؤ رہا ہوگا لیکن ان کا یہ لگاؤ زیادہ دنوں تک محض لگاؤ بھر نہیں رہا، بلکہ اسے سر کرنے اور اس پر فتح پانے کے جنون میں تبدیل ہو گیا۔ جب دنیا چاند پر پانی کی تلاش میں سرگرداں ہے تو ایسے میں سلیم کا خلاقانہ ذہن چاند پر کالونی بسانے کی بات کر رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر نئی نسل کو اس کالونی سے دنیا کے نام خط لکھتے وقت چاند کا پتہ تحریر کرنے پر ابھار رہا ہے۔ سلیم نے چاند کے استعارے کو استعارے کی فضا سے نکال کر حقیقی رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ شعر دیکھیں:
چلنا اگر ہے وقت کے ہمراہ تو سنو
دنیا کے نام خط پہ پتہ چاند کا لکھو
چاند پر کالونی بسانا تو شاید سلیم کی منزل ہے لیکن اس کے ماسوا بھی ان کی شاعری میں چاند سے مختلف طرح کی وابستگی کا ذکر ایک قرینے سے ملتا ہے۔کبھی سلیم ہتھیلی پہ چاند رکھنے کی بات کرتے ہیں تو کبھی ماتھے پر چاند سجانے کا ذکر، اور کبھی چاند کی خوب صورت سجاوٹ اور اس کی تراش خراش کو اپنی زندگی میں اتارنے کی ضد بھی ہوتی ہے:
ہم ہتھیلی میں چاند رکھتے تھے
ہاں لکیروں پہ زور اپنا تھا
کیوں ماتھے پر چاند سجائیں
تو میری پہچان ہے پیارے
میری بستی کا نام نقشے پر
چاند جیسے گھروں نے لکھا تھا
ہاتھ کی لکیروں میں چاند کب ابھرتے ہیں
دائرے مقدر کے ٹوٹتے سنورتے ہیں
دھوپ بوئیں کہ دھوپ کاٹیں ہم
واقعہ چاند سا تراشیں ہم
ان اشعار میں شاعر نے اپنے اجتہادی تفکرات کے سہارے جس طرح کی روش اپنائی ہے، اسے دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ چاند سے ان کا جذباتی تعلق ہی ہے جس کے سہارے چاند کو مختلف حیثیتوں سے دیکھنے میں کامیاب نظر آتے ہیں، ورنہ چاند سجانا اور چاند سا تراشنا جیسی باتوں کو شعری پیکر عطا کرنا جتنا سہل نظر آتا ہے اتنا سہل قطعی نہیں ہے۔
سلیم نے محض چاند کو مسخر کرنے کی بات نہیں کی ہے۔ بلکہ ان کا خلاقانہ ذہن انھیں اس سے بھی آگے بڑھ کر نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں کو بھی اپنی ہتھیلی میں اگانے اور اس کے ذریعے انسانی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کا عندیہ دیتا ہے۔ اسی لیے وہ سورج کا ذکر ایسے الفاظ میں کرتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ سورج تو ان کے حکم سے ہی اپنی زندگی کے شب و روز دیکھتا ہے۔ سورج کو وہ امید کی ایک علامت اور آئندگان کے خوش کن تصور کے طور پر بھی دیکھتے ہیں اور اس کے ذریعے ہر انسان کی زندگی میں ایک اچھے وقت کی آس پیدا کرتے نظر آتے ہیں۔ سورج طاقت و قوت کا استعارہ تو ہے ہی لیکن اس سے خوف زدہ ہونے کی کوئی ایسی صورت نہیں ہے:
دھوپ کا داغ ہے ہتھیلی میں
ہم نے سورج کئی اگائے تھے
آج کا دن لو تم رکھ لو
کل پھر سورج نکلے گا
شام کے ساتھ ہے زوال اپنا
لوگ کیوں سورجوں سے ڈرتے ہیں
پوجنے والے سورجوں کے سلیم
رات کی زندگی سے ڈرتے ہیں
آئینوں سے یہ کھلواڑ کب تک
کوئی سورج اتارو زمیں پر
دوسرے شعر میں جس طرح ایک ہارے ہوئے انسان کو حوصلہ بخشنے کی بات ہو رہی ہے اور آخری شعر میں سورج کو زمین پر اتارنے کا مضمون بیان کیا گیا ہے وہ غیرمعمولی فن کاری کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ سورجوں کی پوجا کرنے والوں کو اس سے ڈرنے کے بجائے اسے زمین پر اتارنے کے لیے آمادہ کرنا اور رات کی تاریکی سے خوف زدہ لوگوں کو حوصلہ بخشنا سلیم کی دل نشیں مضمون آفرینی ہے۔
ہمارے دور کو ’انفارمیشن ایج‘ کہا جاتا ہے۔ اسے اس خطاب کو عطا کرنے میں اخبارات کا بڑا اہم رول رہا ہے۔ لیکن اس خصوصیت کو سلیم ایک دوسرے نظریے سے دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی ہے کہ اخبار خبروں کی ترسیل کا ذریعہ نہ ہو کر پروپیگنڈے کی ترسیل کا اڈہ بن گیا ہے۔ اسی لیے وہ کبھی اخبار کا سامنا کرنے کو ایک عذاب تصور کرتے ہیں تو کبھی اخبار کے بجائے چہرہ پڑھنے کی بات کرتے ہیں۔ ذرا سی بات پر چہرے کو اخبار کرنے سے روکتے بھی ہیں، کیونکہ اس سے مسائل حل نہ ہوکر مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ ان اشعار میں شاعر کی نیرنگیِ طبع کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے:
آج جینا عذاب ہے کتنا
تازہ اخبار سامنے رکھنا
اخباروں میں کیا رکھا ہے
من ہے چہرہ پڑھنا سیکھو
میری نظریں جسے ڈھونڈھتی ہیں سلیم
آج اخبار میں ہے وہ کالم کہاں
ایک ذرا سی بات کی خاطر
چہرے کو اخبار کروگے
سوچتا ہوں، مصالحت کر لوں
ایک اخبار سے الجھنا ہے
دل کو اخبار تم نہیں کرتے
واقعہ مشتہر نہیں ہوتا
اک خبر یہ بھی اخبار میں ہے
اب بھی بکتے ہیں اردو رسالے
آخری شعر کو بہ طورِ استفہام بھی پڑھ سکتے ہیں اور یہ بھی کہ اردو کے اخبار میں اردو کے رسالوں کے فروخت ہونے کی خبر!! یہ شعر اپنی دور بینی اور گہرے طنزیہ لہجے کا غماز ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شاعر اردو کے رسائل و جرائد کے تئیں قارئین کی عدم دل چسپی پر افسردگی کا اظہار کر رہا ہو۔ حقیقت ہے کہ اگر اردو کی ترقی صحیح معنوں میں مقصود ہو تو اس کی ریڈرشپ کی توسیع کی فکر کرنی ہوگی۔ سرکاری اکادمیوں اور غیر سرکاری انجمنوں کی طرف سے اردو کی بقا کے لیے صرف مشاعروں اور سیمیناروں پر توجہ مرکوز رکھنا اردو کے حق میں سم قاتل ثابت ہو رہا ہے۔ اسی کی طرف شاعر نے بہ خوبی توجہ مبذول کرائی ہے۔
غزل کو اردو شاعری کی آبرو کہا گیا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے لیکن کئی دفعہ شاعر رواروی میں شعر کہنے پر آمادگی ظاہر کر دیتا ہے اور واقعے کو کامیاب غزل بنانے میں ناکام رہ جاتا ہے، جس سے غزل کے شعر اپنی وقعت کھو دیتے ہیں اور وہ فن کاری کے بجائے خبروں کا پلندہ بن کر رہ جاتا ہے۔ غزل کی اس صورت حال سے سلیم محی الدین جیسے غزل کے محافظ کو سخت کوفت کا احساس ہوتا ہے۔ ان کا یہ درد مختلف موقعے سے جھلکتا ہے اور غزل کی رسوائی سے شاعر کو آگاہ ہونے کی ضرورت کا احساس کراتا ہے:
ذلیل و خوار ہوتی جا رہی ہے
غزل اخبار ہوتی جا رہی ہے
غزل کی رسوائیوں کا ڈر ہے
عزیز لفظوں کی آبرو ہے
اس موقع پر انتظار نعیم کا ایک شعر، غزل کے فن کو سمجھنے اور اس کی فکر کے بیان کے لیے دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔دو مصرعے میں انتظار نعیم نے غزل کے مقام اور اس کے پیچھے چھپی جاں فشانی کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ واضح کیا ہے:
شاعری کہتے نہیں لفظوں کے پیکر کو نعیم
یہ رگِ جاں سے ابھرتے منظروں کا نام ہے
انتظار نعیم کے اس شعر کے مفہوم کو سلیم محی الدین نے بھی باریکی سے بیان کیا ہے۔ اس کے بعد غزل کی دیگر خوبیوں کو بیان کرنے اور اپنی غزل کی وقعت کے اندازہ کے لیے انھوں نے ایک انفرادی راہ اپنائی ہے۔ ان کے انفرادی رنگ کو ان اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے:
طرزِ غالب ملے، میر کا غم ملے
اس سمندر سے پیاسے کو شبنم ملے
اس کی باتیں، باتیں اس سے
تنہائی سوغات غزل کی
لے آئیں گے میر کا لہجہ
مانیں گے ہر بات غزل کی
حرف وراثت، لفظ قبیلہ
میری غزل کو پرکھا جائے
دکھاؤ غزل نکتہ چینوں کو میرے
مرے دستخط ہیں یہ، میرا کہا ہے
آخری دو شعر میں شاعر اپنی غزل کو پرکھنے کی نہ صرف دعوت دیتا ہے بلکہ ’حرف وراثت، لفظ قبیلہ‘ کہہ کر شاعری کے تہذیبی رویوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ کیونکہ شاعری حرف کی وراثت ہے اور اس ورثے پر نہ صرف فخر ہے بلکہ اس کے لیے امتحان کے مرحلے کو انگیز کرنے سے بھی گریز نہیں۔ اس قدر مربوط (Compact) لفظیاتی نظام کی پیش بندی خال خال ہی نظر آتی ہے۔
جدید تمدنی معاشرت میں شہروں کو علمی، تہذیبی اور اخلاقی برتری کے مسکن کے طور پہ دیکھا جاتا ہے۔ ممکن ہے فن کار بھی اس تناظر میں شہر اور گاؤں کی تفریق کرے۔ یہاں سلیم محی الدین نے اس حوالے سے جو مضامین نکالے ہیں، وہ ان کی جدت کی مثال کہے جا سکتے ہیں۔ یہ اشعار ہمیں شہری نظامِ زندگی کے ساتھ ساتھ شاعر کی مکمل معنیاتی نظام کی طرف متوجہ ہونے کی بھی دعوت دیتے ہیں۔ ایسی بات نہیں ہے کہ شہروں کے تعلق سے اس طرح کا احساس صرف سلیم محی الدین کا ہی ہے، بلکہ یہ احساس ہر اس شخص کا ہے جس نے گاؤں اور شہر دونوں کی طرزِ معاشرت کو غور سے دیکھا ہے، لیکن شاعر نے عمیق مشاہدے کا جو کمال دکھایا ہے اور اسے لفظوں کا پیکر عطا کیا ہے، وہی انھیں امتیاز عطا کرتا ہے۔یہاں پر سلیم ایک ماہرِ تمدن کے بہ طور اپنی شناخت قائم کرتے نظر آتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کریں:
جسم دکاں ہے، ذہن بکاؤ شہروں میں
جنگل تو دوچار دیوانے آتے ہیں
مکاں ہیں بہت، ان میں گھر ہی نہیں ہیں
نئی بستیوں کا یہی المیہ ہے
یہی واقعہ ہے، یہی زندگی
اگر پاؤں ڈھانکے ہوا سر کھلا
دلوں میں نفرتیں، ذہنوں میں چیخیں
فصل تیار ہوتی جارہی ہے
دشمنی بھی اسی سے کرتے ہیں
دوستی جس سے کچھ نبھا دیں ہم
کروں کیسے نقشے میں شامل
وہ گاؤں جو مجھے ملتا نہیں ہے
آخری شعر میں شاعر شہروں کی اندھا دھند توسیع (Unplanned Extension) کے نتیجے میں نگلتے گاؤں سے فکر مند ہے۔ اسے انھوں نے ’کروں کیسے نقشے میں شامل‘ کہہ کر نئے اسلوب و استعارے کا استعمال کرتے ہوئے اپنی بات کو مدلل انداز میں پیش کیا ہے۔
دانش وری مستقبل کے تعلق سے فکر مندی کا نام ہے۔ سلیم محی الدین کی غزلیں اور ان کا لفظیاتی نظام ان کے فنی دست رس کا اشاریہ ہیں۔ اس کے ذریعے انھوں نے مستقبل کو لے کر ایسی فکرمندی کا اظہار کیا ہے جو انھیں ایک دانش ور کے طور پر بھی ایک شناخت عطا کر رہی ہے۔ سوزِ آئندہ اور دن کے تلوار جیسی تراکیب کا استعمال ان کی انفرادیت واضح کرنے میں کامیاب ہیں۔ نہ جانے شاعر نے کن لمحات میں یہ اشعار کہے لیکن تخلیقِ شعر کی لاشعوری کیفیت کا اندازہ ان اشعار میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:
اگلی صدی میں جاگیں گے
ہم سوزِ آئندہ ہیں
رات خنجر تلے گزر ہی گئی
دن کی تلوار سے الجھنا ہے
ان تلازمات کے مشاہدے کے بعد یہ کہنے میں حق بہ جانب ہونے کا یقین مستحکم ہوتا ہے کہ سلیم کی دانش وری کے عرفان کو بہت جلد قبولیت کا ساحل بھی عطا ہوگا اور ان کا شعری سرمایہ شعور کی سطح کے افراد کو بھی متوجہ کرے گا۔
سلیم کے یہاں غمِ جہاں کے ساتھ ساتھ غمِ جاناں کی بھی عمدہ مثالیں ہیں۔ انھوں نے روایتی مضامین کو بھی بہ خوبی برتا ہے اور محبوب کے در کو کھٹکھٹانے میں کسی قسم کی عار محسوس نہیں کی ہے۔سلیم کی رومانی شاعری وضع داری کی بہترین مثال پیش کرتی ہے۔ فکر و اسلوب کی کسی نئی جہت کی تلاش یہاں بہت مشکل نظر نہیں آتی ہے۔’پلکیں‘ لفظ کا بہ طورِ ردیف استعمال کر کے شاعر نے رومانی شاعری کی روایت میں ایک نئی شان کا اضافہ کیا ہے:
اس کا آنا تو خوب ہے لیکن
اس کا جانا لہو رلائے گا
اس کی تصویر میں اتاروں جب
مرے مولا تو جان بھر دینا
مجھ سے کیا کیا پوچھ رہی ہیں
البم کی تصویریں اس کی
مکالموں کے حصار میں گم
سوال پلکیں، جواب پلکیں
بچھا ہوا ہے نصیب منظر
نظر ہے صحرا، سراب پلکیں
حکایتوں کی اسیر دنیا
کہانیوں کی کتاب پلکیں
غیر مانوس الفاظ کو شعری پیکر عطا کر نے کا ہنر انھیں خوب آتا ہے۔ سبھاؤ اور البم جیسے الفاظ ان کی شاعری میں استعمال ہوتے ہی نگینے کی طرح جڑے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان اشعار کو سلیم محی الدین کے نمائندہ اشعار تو نہیں کہا جا سکتا مگر ان میں لفظوں کے استعمال کی تخلیقی ہنرمندی نے اسلوب میں ایک نوع کی تازگی پیدا کر دی ہے:
کچھ پتھریلا، اپنا سبھاؤ
کچھ شیشوں کی باتیں اس کی
میں تو اس کو بھول چکا ہوں
بادل میں تصویر بنی ہے
البم میں ہیں سو تصویریں
ایک مگر کچھ بول رہی ہے
تنہا رہوں یا بھیڑ سے گذروں، تنہا میں کب ہوتا ہوں
یوں لگتا ہے جیسے مسلسل مجھ پہ نگاہیں تیری ہیں
قید تنہائی سے نکالے وہی
جو مجھے قید کرگیا مجھ میں
اب نہ وہ ہے، نہ اس جیسا کوئی
کس کو ڈھونڈیں خدا کی زمیں پر
اس کو گزرے زمانہ ہوا
مدتوں سے نہیں امنگ کوئی
تھا دشمنِ جاں روبرو
الفاظ تھے لہجہ نہ تھا
عکس نہیں تیرا لیکن
کیوں پھر تجھ سا لگتا ہوں
ہر جائی کا استعارہ ہماری شاعری میں بارہا استعمال ہوا ہے لیکن بنا ردیف کی ایک غزل میں شاعر نے بہ طورِ قافیہ ہرجائی کا لفظ لاکر اور ہرجائی کی مناسبت سے نیلام لفظ کا خوب صورت استعمال کر کے کیا خوب شعر بنایا ہے۔ اس تناظر میں بعض ایسے لفظوں کا استعمال بھی دیکھیں کہ بار بار کے برتے ہوئے لفظ بھی اچھے لگتے ہیں:
کرکے نیلام میری تنہائی
وہ ہوا ہے سلیم ہرجائی
گفتگو آنسوؤں نے کی تھی سلیم
اس کو خط ہچکیوں نے لکھا تھا
وہ کسی صبح کی علامت ہے
میں کسی شام کا ستارہ ہوں
دن تھا اس کی ملاقات کا
دستکیں رات بھر اجنبی
دوسرے شعر میں لفظ ہچکی کا استعمال بہ طورِ خاص داد طلب ہے۔’ہچکیوں کا خط لکھنا‘ ایک ایسا فقرہ ہے جس کی مثال کلاسیکی فن کاروں کے یہاں بھی موجود ہوگی۔ لیکن اس کا استعمال یہاں جس سبک انداز میں ہوا ہے، اس سے قاری کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ ایک ایسے احساس کو قرأت میں منتقل ہوتا ہوا دیکھ رہا ہے جس کا تجربہ تو ہر عاشق کو ہوتا ہے لیکن اس کو لفظیاتی نظام میں ایسے بھی پرویا جاسکتا ہے۔ سلیم کا کمال فن ملاحظہ کیجئے:
میری نیکیاں سب اسے بخش دوں
مرے حال کی گر وہ پرستش کرے
برف چہروں کی سب پگھل جائے
تم اگر بے نقاب ہوجاؤ
الجھے دھاگے سلجھ گئے تھے کئی
تم نے کچھ دیر تو ٹھہرنا تھا
کم الفاظ میں موثر طریقے سے اپنی بات کو پیش کرنے کے لیے ہماری شاعری میں تلمیحات کے استعمال کی روایت رہی ہے۔ سلیم محی الدین نے بھی اس روایت کو برتنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور اپنے نظریے کی ترسیل کی ہے۔ شاعر کے ذہنِ رسا کی مثالیں دیکھیے:
رات کی رات تم بھی حاتم تھے
رات کی رات کیوں فقیر ہوئے
کچھ تو ہے ڈارون میں سچائی
آدمی کب ہے آدمی جیسا
یہ دنیا ہے بدر کا میداں
مٹھی بھر انسان دے مولا
کشتیاں تو جلا چکا ہوں مگر
گونجتا ہے مرا یقیں مجھ میں
حاتم، ڈارون، بدر اور کشتیوں کے جلانے کے ذکر سے ہمارا ذہن فوراََ ان واقعات کی طرف پہنچ جاتا ہے اور اس سے استفادے کی شکل شعر میں نمایاں ہو جاتی ہے۔ ان تلمیحات کے خوب صورت استعمال سے قاری لطف اندوز بھی ہوتا ہے۔ چارلس ڈارون (۱۸۰۹۔۱۸۸۲) نے ۱۸۵۹ میں انسانی نشوونما کے تعلق سے اپنا مشہور’نظریۂ ارتقا‘ پیش کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ انسان بنیادی طور سے بندروں کی ترقی یافتہ نسل ہے۔ اس تھیوری کو مسلم دنیا نے خارج تو کیا ہی لیکن مغربی دانش وروں کی ایک بڑی تعداد نے بھی اس پر سوالات قائم کیے۔ انسانوں کی اخلاقی پستی کو دیکھتے ہوئے اسی واقعے کی طرف دوسرے شعر میں اشارہ کیا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہر بڑا ادب کسی نہ کسی مخصوص مقام میں ہی پروان چڑھتا ہے۔ ایسے میں اگر اس مخصوص مقام کا عکس جہاں سے تخلیق کار وابستہ ہے، اس کا عکس نہ جھلکے تو کہا جائے گا کہ تخلیق کار نے اپنے مقام کو ادب میں نظر انداز کیا ہے۔ اس پر یہ الزام بھی لگ سکتا ہے کہ وہ اپنے یہاں کے حالات و ظروف کو بیان کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ شیکسپئر سے لے کر میر اور فیض جیسے تمام ہی عظیم فن کاروں کے یہاں مقامی رنگ اور اس کے لوازمات کو خاطر خواہ نمائندگی ملی ہے۔ ایسے میں یہ ممکن نہیں تھا کہ سلیم محی الدین جیسے حساس شاعر کے یہاں مقامی رنگ نہ پایا جائے اور اس سرزمین کی آب و ہوا اور اس کی خوشبو کی نمائندگی نہ ہو جس کو ولی اور سراج جیسے باکمالوں نے اپنے خونِ جگر سے سینچا تھا۔ سلیم نے بھی اس دشت میں اپنی موجودگی خم ٹھونک کر درج کرائی ہے اور اس میں کسی عار کو حائل نہیں ہونے دیا ہے۔ مقامیت کے رنگ کی بوقلمونی سے انھوں نے اپنے شعری نگار خانے کو سجا کر رکھا ہے:
ہم بھی سینے میں آگ رکھتے ہیں
کوئی رشتہ کپاس مت کرنا
دلوں میں نفرتیں، ذہنوں میں چیخیں
فصل تیار ہوتی جا رہی ہے
جھوٹی سچی رسمیں ہی
گُر جیون کے سکھاتی ہیں
عظیم ادب سے یہ توقع بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے وقت کا ترجمان ہو۔ اسی لیے ادب کو ایسی تاریخ کے زمرے میں رکھا جاتا ہے جس میں نام و مقام کی وضاحت نہیں ہوتی۔ اس کی اس حیثیت کو ہر دور میں تسلیم کیا گیا اور جب جب تاریخ دانوں کو کسی زمانے کے درباری مؤرخ اور آزاد فکر مؤرخ کی متضاد رایوں کی تصدیق کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ اس وقت کی ادبیاتِ عالیہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ سلیم محی الدین کا شمار بھی ان فن کاروں کیا کیا جائے گا، جنھوں نے اپنے تخلیقی عمل کے ذریعے اپنے وقت پر گہری نظر رکھی اور اپنے مشاہدات کی قوت کو بروئے کار لا کر اپنے وقت کی قابل اعتماد تاریخ کو بلا کسی خوف کے قلم بند کیا اور یہیں پر سلیم محی الدین کے شاعرانہ امتیازات کھل کر سامنے آتے ہیں۔ شاعر کی خیال بندی ملاحظہ کیجئے:
فلک بوسیوں پر مبارک سلامت
مرے چار تنکوں پہ دنیا خفا ہے
مرثیہ دل، نظر، حواس کا ہے
آج ماتم مرے اساس کا ہے
بدلنے ہی والا ہے منظر سنا ہے
خلاؤں میں اللہ اکبر سنا ہے
شاعر ’سوچ‘ کی اتنی نئی صورتیں سامنے لاتا ہے کہ ایک عام انسانی دماغ حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ کیا ’سوچ‘ کی بھی اتنی پرتیں ہو سکتی ہیں، لیکن سلیم محی الدین کی غزل میں جب سوچ ردیف کے استعمال کو ایک قاری دیکھتا ہے تو خود اس کے ذہن کے پردے کھل جاتے ہیں:
آوازوں پر پہرے ہیں
تیز کرو اب دھیمی سوچ
رشتوں کی الجبراء میں
مثبت مثبت منفی سوچ
دنیا چاہے گاؤں بنے
میرا گھر ہے میری سوچ
آخری شعر میں تو شاعر نے دنیا بھر کی مخالفت کرتے ہوئے گلوبلائزیشن ہی کی بخیہ ادھیڑ دی اور اپنے گھر کو ہی اپنی دنیا کہہ ڈالا۔ حقیقت ہے کہ انسان کو اس دنیا سے اتنا ہی حاصل ہوتا ہے جس قدر اس کی سوچ ہوتی ہے۔ اگر لاکھ دنیا کو ایک گاؤں میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے لیکن انسان کی سوچ کو بدلنے کی فکر نہ کی جائے تو یہ گلوبلائزیشن ایک عام آدمی کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں لا سکتا۔ اس موقعے سے شاعر کی مضمون آفرینی کو بھی دیکھتے چلیں:
خود ہی روتا ہے بے گھری پہ سلیم
جو گیا لے کے میری بینائی
اپنی آنکھ بند کر لو
چاروں اور اندھیرا ہے
پھول، وعدے نئی کتابوں میں
ایک بیتی صدی نصابوں میں
جو مکمل بھی ہو، مسلسل بھی
اس صدی کا خواب ہو جاؤ
نئی صدی کے اختتام کے گواہ ہونے کی حیثیت سے شاعر ان لمحوں کو بھی اپنے لفظوں میں قید کر لینا چاہتا ہے، جو عمرِ رفتہ کی وجہ سے دوبارہ اس کی زندگی میں نہیں آسکتے۔ لیکن ان لمحوں کو بھی انھوں نے ایک پیغام کی ترسیل کے موقعے کے طور پر دیکھا۔ سیاسی گلیاروں کی بازی گری سے بھی اپنے لیے مواد اور پیام کی تلاش کر لی۔ ملاحظہ کیجیے اس رخ کو بھی:
نمک کا راجہ، یہ برف پرجا تمہیں مبارک، وزیر ہو تم
خدا نگہباں، خدا ہی حافظ سنا ہے اس کے مشیر ہو تم
غزلیہ شاعری کی ایک خوبی اس کی تہہ داری ہے۔ اشارے کنایے میں کہی گئی بات غیر واضح ہو کر بھی پر اثر ہوتی ہے۔ اس لیے غزل گو شاعر اپنی بات کے دائرے کو وسعت دینے اور اسے مؤثر بنانے کے لیے شعری وسائل کو بروئے کار لاتا ہے۔ تشبیہ و استعارہ ان ہی وسائل میں ایک ہے اور یہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ سلیم محی الدین نے اپنے اسلوب کو دل کش بناتے ہوئے نادر تشبیہات کا بھی سہارا لیا ہے اور حیرت انگیز تجربے کیے ہیں۔ ان کی تنوع رنگ لغت میں سے استعارے کے چند خوب صورت استعمال کو ذیل کے اشعار میں محسوس کیا جا سکتا ہے:
لاکھ شیشے اگر سجائے گا
ایک چہرہ کہاں سے لائے گا
بپھری ہوئی موجوں کے سمندر سے گزرنا
دشوار ہوا ذات کے لشکر سے گزرنا
دل سا کوئی درویش ملا ہے نہ ملے گا
بے صورت و صدا روز اسی در سے گزرنا
دل کی بستی کا اک اصول سنا
جو لٹے ہیں وہی امیر ہوئے
جن کو بین السطور ہونا تھا
حاشیے پر بنی لکیر ہوئے
ڈھ گیا موم کا نگر کوئی
آنکھ بھر آئی، پھر دھواں اٹھا
آئینوں سے یہ کھلواڑ کب تک
کوئی سورج اتارو زمیں پر
میں ہواؤں کے پر کترتا ہوں
راہ میں میری حادثے رکھنا
تتلیاں درمیان پھولوں کے
چاہتی ہیں مکالمے رکھنا
تتلیوں کو گل سے روبرو ہوتے دیکھ کر جس طرح کا استعارہ شاعر نے اخذ کیا، وہ نادر ہے۔ تتلیاں پھولوں سے رس نچوڑنے پہنچتی ہیں نہ کہ مکالمے کے لیے۔ لیکن بار بار کی ملاقات اور اس پر ایک خاص طرح کی آواز کا اخراج، اس نے شاعر کے اخاذ ذہن کو ایک نئے استعارے کو وضع کرنے کی راہ سجھادی۔ اسی طرح پرندے کی جستجو کو شاعر نے کس رنگ سے دیکھا وہ بھی ملاحظہ کرتے چلیں:
شعلے اگل رہا تھا، سورج لہو کی خاطر
آنکھیں ملا رہا تھا ایک بے خبر پرندہ
اب تک لہو میں روشن تیری ہی جستجو ہے
ہارا نہیں ہے اب تک محوِ سفر پرندہ
تصویریں جب بولیں گی اپنی آنکھیں مانگے گا
بستی میں آج اعلان کرو آج بجوکا بولے گا
دل کا شیشہ بکھر گیا جب سے
ہم بھی نازک لبوں سے ڈرتے ہیں
دل جزیرہ تو کب کا ڈوب چکا
اب کہاں بود و باش ہے تیری
بوجھ اتنا ہی جتنی طاقت
پھر کیوں یارب دل روتا ہے
آخری شعر میں شاعر نے قرآنی آیت’لا یکلف اللہ نفساََ الا وسعھا‘ سے استفادہ کرتے ہوئے رب سے اپنے دل کی کیفیت کو بیان کیا ہے اور بوجھ کو اٹھانے کی سکت کا سوال کیا ہے، لیکن اس انداز میں کہ ایک غیر محسوس خوشی کا احساس ہوتا ہے۔
شاعری میں اگر غنائیت اور موسیقیت بھی پائی جائے تو ایسی شاعری کو خواص ہی نہیں عوام میں بھی مقبولیت حاصل ہوتی ہے اور یہ شاعری کی بنیادی خوبی بھی ہے کہ اس میں ایسے الفاظ اور تراکیب کا استعمال کیا جائے جسے موسیقی کی باریک سے باریک تار پر بھی گایا جا سکے۔ ہمارے تمام ہی بڑے شعرا نے اس اصول کو فنی التزام کے ساتھ برتا ہے۔ بیچ کے دور میں میراجی اور اخترالایمان جیسے کچھ شعرا نے ایسی بحروں اور تراکیب کا استعمال کیا جس میں یہ اصول ٹوٹا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ شاعری بغیر غنائیت کے بھی کی جا سکتی ہے۔ ان کے تجربوں کو اگر کامیاب سمجھا جائے تو بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی شاعری کی مقبولیت خواص کے ایک محدود دائرے میں ہی مقید ہو کر رہ گئی ہے۔ سلیم نے ان تجربات کو اپنی آزاد نظموں میں آگے بڑھایا ہے لیکن اس کے ساتھ ان کی روایتی شاعری میں موسیقیت اور غنایت کی موجودگی بھی ملتی ہے۔ انھوں نے اس کے لیے مختلف وسائل کا استعمال کیا ہے۔ ایک واضح وسیلہ جو انھوں نے غنایت کی آمیزش کے لیے بروئے کار لایا ہے وہ ہے، الفاظ کی تکرار۔ اشتقاقی لفظوں کی تکرار کے ذریعے سلیم نے سماں باندھنے کی کوشش کی ہے۔ اس نوع کے چند شعر دیکھیں:
سورج جیسا منظر منظر بکھرا تو
آئینوں کی دھوپ سے ڈرنے والا میں
سایہ سایہ دھوپ اگانے والا تو
خوابوں جیسا آنکھ اترنے والا میں
سایہ سایہ تلاش ہے تیری
زندگی ہم قماش ہے تیری
میں جو بکھرا ہوں جھیل شیشے سا
کیوں نظر پاش پاش ہے تیری
ٹی ایس ایلیٹ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ادب کا کام انبساط و لطف اندوزی ہے اور اگر فنی پاس داریوں کے ساتھ اس میں فلسفۂ حیات اور درسِ اخلاق کے عناصر بھی پائے جائیں تو اسے اعلا ادب کہا جائے گا۔ سلیم محی الدین کا شمار ان فن کاروں میں کیا جائے گا، جنھیں اپنی شاعری کو پیامی شاعری کے درجے میں داخل کرنے میں کسی طرح کی جھجھک نہیں ہے۔ شاعر اس میں فکری شان پیدا کرنے کے لیے ستر کنوؤں میں جھانکنے کے لیے بھی آمادگی کا مظاہرہ کرتا ہے:
یخ بستہ جھیلوں سے بہتر
اپنے آپ میں ڈوبا جائے
رستہ چلنا فنکاری ہے
رکھ آؤ گھر اپنا لہجہ
جن کو مولا نگاہ دیتا ہے
آئینوں کو مشیر رکھتے ہیں
بے ضمیری ہزار نعمت ہے
حق تو کردار سے الجھنا ہے
زندگی کی کہانیاں لکھنا
حاشیے اقتباس مت کرنا
عصر حاضر کے کچھ مسائل بھی اپنے آپ شاعر کے بیان کے مرحلے میں شامل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن سے واسطہ تو ہر ایک شخص کا پڑتا ہے لیکن ان کو لفظ دینے کا ملکہ ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ کچھ لوگوں نے یقیناََ اس کی بھی کوشش کی ہوگی لیکن اس میں جتنی کامیابی سلیم محی الدین کے حصے میں آئی، شاید ہی کسی اور کے حصے میں آئی۔ شاعر کا کمال دیکھیں:
مجھ کو اپنا ہی لگتا تھا وہ بھی
جب مرے قد سے اونچا نہیں تھا
سچ بول کر تنہا ہوا
یہ حادثہ پہلا نہ تھا
کیسی خوشبو کہاں کے پھول میاں
تم ہوئے درد کے رسول میاں
اس کی چاہت کی جنگ خود سے کی
طاق پر رکھ دیے اصول میاں
پیٹ کا دوزخ ہی جو بھر دے
کوئی ہنر تو ایسا سیکھو
ہم سا پتھر کب سیکھے گا
جھیلوں جیسا گہرا لہجہ
اپنے قد پر ہے اختیار بڑھتے
سایے ہی کچھ گھٹالیں ہم
میں زندہ تو اب تک ماضی میں ہوں
مرے پاس لیکن نوادر نہیں
ہر بڑے فن کار میں خود اعتمادی، خود ستائی اور خود پرستی کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح کے احساس نے میر کو اپنے کہے کو فرمانا اور مستند گرداننا جیسے تلازمات کے استعمال پر اکسایا۔ شاعر اگر نوآموز ہو اور اس طرح کے احساسات کا شکار ہو جائے تو اس کو فنی خامی میں شمار کیا جاتا ہے لیکن اگر فن کار نے استادی تسلیم کروا لی ہے اور اس کے بعد اس طرح کے احساسات کا اظہار کر رہا ہے تو پھر یہ خامی نہیں خوبی میں شمار ہونے لگتا ہے۔ سلیم کی اب تک کی شاعری کے مطالعے کے بعد قاری انھیں ایک استاد شاعر کے بہ طور دیکھنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ سلیم محی الدین بھی اس طرح کے احساس سے دوچار ہوتے ہیں اور اپنی شاعری میں جگہ جگہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ حالانکہ اس میں بعض دفعہ محسوس ہوتا ہے کہ شاعر خود ہی اپنے شاعرانہ اکتسابات کا اعلان کر رہا ہے لیکن آفریں کہ اس میں پھوہڑپن کا شائبہ دور دور تک نظر نہیں آتا، بلکہ اس میں بھی ایک وقار اور شائستگی جھلک رہی ہوتی ہے اور عظیم تخلیقی جسارت بھی:
سلیم یہ بھی مرے دل کا کارنامہ ہے
چراغ ورنہ کوئی آندھی میں جلتا کیا
بولتا جو ہو لفظ لفظ سلیم کیا
ضروری ہے دستخط کرنا
اپنے قلم کے باعث ہی
بھیڑ میں ہوں اور تنہا ہوں
ہر مصیبت گھر آچکی ہے سلیم
بے سبب آہٹوں سے ڈرتے ہیں
تہہ میں پڑا ہوں دریا کی
ایسے ملی ہے گہری سوچ
اے ہوا! پیڑ گرانا تو تجھے آتا ہے
میری خاطر کوئی چلمن کوئی پردہ سرکا
بے ریا، شبنم صفت، سایہ مزاج
ساتھ میرے جو رہا مجھ سا ہوا
ہم مخاطب کا چہرہ پڑھیں گے
تم کتابوں میں رکھنا حوالے
نیند تو گویا ان آنکھوں کی دشمن ہے
مجھ کو پھر بھی خواب سہانے آتے ہیں
یونہی میلا ضمیر مت کرنا
ہم سے سیکھو مخالفت کرنا
جس کی تختی پہ میرا نام نہیں ہے
ہاں وہی تو مرا ہے دروازہ
ہر کوئی کب سلیم جھیل سکا
تجربہ میری بے گھری جیسا
کسی ورق پر مجھے نہ لکھنا دوست
مرے اندر باہر روز بکھرنے والا میں
لفظوں کو میں تول کر رکھ دوں
اک ایسی میزان دے مولا
ہاں غزل ہے ہماری وراثت
ہم کہ ٹھہرے دکن دیس والے
سلیم محی الدین کی شاعری کے اس سرسری سے مطالعے کے بعد یہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کی شاعری قوسِ قزح کے رنگوں سے رنگی ہوئی ہے۔ لفظوں کو برتنے کے نظام سے لے معنیاتی نظام کی بنیادیں ان کے یہاں مضبوط ہیں اور ان کی شاعری محض قافیہ پیمائی نہیں ہے بلکہ لفظ و حرف کے ساتھ ساتھ فکر و خیال کی جڑیں بھی کافی مضبوطی سے گڑی ہوئی ہیں۔ ان کا تیور اور آہنگ ایسا ہے کہ وہ دیر سویر نقادوں سے اپنی حیثیت تسلیم کروا ہی لیں گے۔
***
*Shahid Habib
Research Scholar, Maulana Azad National Urdu University, Lucknow Campus.504/122, Tagore Marg, Near Nadva college , Daliganj , Lucknow – 226020
Mob.: 8539054888, shahidhabib.rs@manuu.edu.in
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:ترنم ریاض کی افسانہ نگاری ’ابابیلیں لوٹ آئیں گی‘ کے تناظر میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے