حسین الحق کا علمی ستون بہت بلند تھا

حسین الحق کا علمی ستون بہت بلند تھا

(انجمن جمہوریت پسند مصنفین کے زیر اہتمام افسانہ نگار حسین الحق کو خراج تحسین پیش کیا گیا)

پٹنہ، 3 جنوری۔ انجمن جمہوریت پسند مصنفین کی پٹنہ یونٹ نے اردو اکادمی میں مشہور ناول نگار حسین الحق کی یاد میں ایک تعزیتی اجلاس کا انعقاد کیا. تعزیتی اجلاس میں پٹنہ سے اردو-ہندی کے ادیب، طلبا اور سماج کے مختلف طبقات کے نمائندے موجود تھے۔
میٹنگ کی شروعات کرتے ہوئے، انجمن جمہوریت پسند مصنفین کی پٹنہ یونٹ کے جوائنٹ سکریٹری ظفر اقبال نے اردو اور ہندی مصنفین کو شانہ بہ شانہ کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
پروفیسر صفدر امام قادری نے حسین الحق کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حسین الحق کا علمی ستون بہت بلند تھا، 1990 کے بعد ہمارے علمی کاموں کا موضوع بدل گیا تھا، جمہوری ادرے کا جو خواب ہم لوگوں نے دیکھا تھا اس میں کئی جگہ سوراخ ہوگئے تھے۔ میں ان خوش نصیب لوگوں میں تھا جنھیں ان کی کہانی ہمارے گھر میں سنائی گئی جو بعد میں ‘نیو کی اینٹ` کے نام سے مشہور ہوئی۔ جو نئی نئی دنیا آرہی تھی اس میں اس موضوع کی ضرورت تھی۔ جنگ آزادی کے زمانے میں جس طرح فرقہ واریت کو سمجھ رہے تھے، کیا اب فرقہ واریت پرانی قسم کی ہے؟ اس میں کیا فرق رہا ہے۔ حسین الحق نے انسانی رشتوں کی نازک کہانی ‘انہد`  لکھی ہے۔ ہمارے زمانے کے بڑے افسانہ نگاروں میں شامل تھے۔ 1970 کے بعد بہار اور غیر بہار کے درمیان بھی جھگڑا ہونے لگا۔ دوسرے صوبوں کے مصنفین اور نقاد بہار سے لکھنے والوں کو اہمیت نہیں دے رہے تھے۔ لیکن حسین الحق نے بتایا کہ بہاری صرف اردو ہی نہیں لکھتے، وہ چست اور شاعرانہ اردو بھی لکھ سکتے ہیں۔ وہ ہم میں نہیں لیکن ان کی تحریر موجود رہے گی۔ ہمارے عہد میں ایک ایسا افسانہ نگار تھا جو اپنے بزرگوں کا ہم رتبہ تھا۔
فخرالدین عارفی نے اپنے خطاب میں کہا کہ 1970 کے بعد جن لوگوں نے شناخت قائم کی اس میں حسین الحق سر فہرست تھے۔ جب ان کا پہلا ناول منظر عام آیا تو انھوں نے مجھے اس کی ایک کاپی دی۔ ان کا جسم بھلے ہمارے بیچ نہ ہو لیکن ان کے جذبات اور احساسات ہمارے ساتھ ہیں۔ 1992 میں بابری مسجد کے بعد، ہمارے سوچنے اور سمجھنے کا انداز بدل گیا۔ تقسیم ملک اور بابری مسجد دونوں کا درد حسین الحق کے یہاں سامنے آیا تھا۔ اردو زبان میں ترقی پسند تحریک نے ایک باغیانہ تیور پیدا کیا جو اردو ادب میں پہلے نہیں دیکھا گیا۔ وہ اردو ادب میں سنگ میل کی طرح ہیں۔ تحریک کے ضد میں جدیدیت آئی، جس کے سب سے بڑے حامی شمس الرحمن فاروقی تھے۔ جدیدیت یا ترقی پسند تحریک اگر ترقی پسندگی نہ ہو تو وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ایک اچھا ادیب وہ ہوتا ہے جو اپنے دور کا اظہار کرے۔ ہندستان میں آج جتنی بے چینی کبھی نہیں تھی۔ جو ادب چاہے افسانہ ہو، نظم ہو یا غزل ہو، یہ آپ کے حالات کے بارے میں بتاتی ہے۔ اگر ادب میں سوشلزم نہ ہو تو اس کا کوئی مطلب نہیں۔
اے این کالج کے شعبہ اردو کے منی بھوشن نے کہا، "میں حسین الحق سے 2005 میں ملا جب وہ پٹنہ میں ایک سیمینار میں آئے تھے۔ مجھے مگدھ یونی ورسٹی جانے کا بھی موقع ملا جہاں ان سے ملاقات ہوئی تھی۔"
ڈاکٹر اے۔ کے علوی نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے حسین الحق کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ "انھیں فکشن کے ساتھ ساتھ تصوف سے بھی لگاؤ تھا، انھوں نے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عالمی تعلیم بھی حاصل کی تھی، میرے تعلقات ان کے ساتھ تب ہیں جب سے وہ نوکری میں بھی نہیں تھے۔" حسین الحق  کا دل بڑا تھا، بہت کم ایسے شاعر یا ادیب ہیں جن کا دل زمین پر رہنے والوں کے لیے دھڑکتا ہے۔ حسین الحق بھی ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔"
انجمن ترقی پسند مصنفین کے ڈپٹی جنرل سکریٹری انیش انکور نے کہا، "میں حسین الحق سے 2005 میں ملا تھا۔ بعد میں ان سے 2008 میں گیا میں کتاب میلے میں ملاقات ہوئی تھی۔ جب ان کی کہانی کے پڑ ھنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پچھلے سال افصح ظفر کی یاد میں ان کے لیکچر کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جس میں حسین الحق نے ان کی اہمیت کو اجاگر کیا، وہ معاشرے کی سیکولر فطرت کو بچانے کے لیے بہت فکر مند رہتے تھے۔
صحافی ڈاکٹر انوارالہدیٰ نے اپنے خطاب میں کہا کہ حسین الحق ادیب کے ساتھ ادیب ہوا کرتے تھے جب کہ بچوں کے ساتھ بچے بن جاتے تھے، ساہتیہ اکادمی نے انھیں عزت دے کر خود کو عزت بخشی ہے۔ حسین الحق کی حیات و خدمات پر اردو ڈائریکٹوریٹ اور اردو اکادمی خصوصی نمبر اور خصوصی نشست کرائے اور ساتھ اردو اکادمی کے آڈیٹیوریم میں ان کی تصویر بھی آویزاں کی جائے۔
مگدھ مہیلا کالج کے سہیل انور نے کہا کہ حسین الحق درویش کی طرح تھے، اگر وہ ایک ہاتھ سے تعاون کرتے تو دوسرے کو خبر تک نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔
ان کے ساتھ اپنی یادیں بانٹتے ہوئے شکیل سہسرامی نے کہا، "وہ میرے بڑے بھائی کے لنگوٹیا یار تھے، انھوں نے ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کی۔ جب ہم پٹنہ میں پروگراموں میں ملتے تھے تو بڑے جوش و خروش سے ملتے تھے۔"
"پٹنہ ویمنس کالج کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر عبد الباسط حمیدی نے کہا، "کسی چیز پر لیکچر دینا آسان ہے اور اس پر عمل کرنا مشکل ہے۔ حسین الحق اسی قسم کے انسان تھے۔"
حسین الحق کی بیٹی ایمن نشاط نے اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ میرے بابا کے بہت سے پہلو ہیں، وہ ایک صوفی اسکالر، کہانی نویس، نقاد تھے، بابا کو رات گئے تک پڑھنے کی عادت تھی، میں اردو اکیڈمی میں تب آئی تھی جب بابا صدارت کررہے تھے۔ دوسری بار میں اور میری بڑی بہن ان کی طرف سے ایوارڈ لینے آئی تھی کیونکہ وہ اس وقت امریکہ میں تھے۔
جب میری بڑی بہن کی شادی ہوئی تو انھوں نے کارڈ اردو اور ہندی میں چھپوایا۔ جب کہ ہمارے یہاں اسے اردو اور انگریزی میں چھاپنے کا رواج تھا۔ تصوف میں رنگ اور دیوالی دونوں پائے جاتے ہیں۔ میرے والد ایک سچے سیکولر اور جمہوریت پسند تھے۔
تعزیتی اجلاس میں خالد عبادی، ناشاد اورنگ آبادی نے حسین الحق پر اپنی نظم سنائی۔
انجمن ترقی [؟] پسند مصنفین کے گھمنڈی رام نے تعزیتی نشست کی نظامت کی۔ خراج تحسین پیش کرنے والے اہم لوگوں میں ارون مشرا، ظفر اقبال، آصف اقبال، جئے پرکاش، اشوک گپتا شامل تھے۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے