خواب فروش

خواب فروش

ثناء ادریس

اس نے اپنی بات مکمل کی اور فاتحانہ نظر پورے ہال پر ڈالی جہاں ہو کا عالم تھا۔ وہاں موجود لوگ اس کی گفتگو کے سحر میں یوں جکڑے ہوئے تھے کہ تقریر ختم ہونے کا احساس بھی نہ ہوا۔ اگلے لمحے ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ تمکنت سے قدم اٹھاتا مہمانِ خصوصی کی کرسی پر جا بیٹھا۔ یہ اس کی پہلی کامیابی نہ تھی۔ اس کا کام ہی لوگوں کو خواب بیچنا تھا۔ اور اس کے بدلے اسے کثیر معاوضہ ادا کیا جاتا۔
تقریب کے اختتام پر لوگ اس کے ساتھ تصویر بنوانے کے لیے بے چین تھے۔ گارڈز کے گھیرے میں چلتا ہوا کمرے سے باہر نکلنے لگا تو ایک کم زور سی آواز پر قدم رک گئے۔ مڑ کر دیکھا تو آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ایک کم زور سی عورت اس کی جانب آ رہی تھی۔ وہ سمجھ گیا کہ شاید تصویر بنوانا چاہتی ہے۔ اس نے اپنے اسسٹنٹ کو اشارہ کیا کہ جب عورت اس کے پاس پہنچے تو ان کی تصویر بنا لے۔ سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی تصویریں ایسے ہی موقعوں پر بنائی جاتی ہیں۔
آگے بڑھ کر وہ خود اس عورت تک پہنچا اور اس کے سامنے اپنا سر نیچے کیا تاکہ پیار لے سکے۔ مگر یہ کیا !!! اس عورت نے اپنے نحیف و ناتواں ہاتھوں سے اس کا گریبان پکڑ لیا۔ مجمع میں شور پیدا ہوا۔ گارڈز عورت کو پکڑنے آگے بڑھے تو اس نے اشارے سے منع کر دیا۔ وہ کسی بھی قسم کا منفی رویہ رکھ کر اپنی ساکھ خراب نہیں کرنا چاہتا۔ بے یقینی سے وہ عورت کو دیکھنے لگا۔ آج تک اسے ہر محفل سے صرف عزت ملی تھی۔ آج پہلی بار کوئی اس کے گریبان تک پہنچا تھا وہ بھی سرِ عام۔
عورت نے اس کا گریبان  اس قدر مضبوطی سے پکڑا کہ اسے خود حیرت ہوئی۔ سوالیہ نظروں سے عورت کو دیکھتے کچھ کہنے کو منہ کھولا ہی تھا کہ ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر نشان ثبت کر گیا۔ مجمع کی اونچی اونچی سرگوشیاں ایک دم سناٹے میں بدل گئیں۔ عورت نے اپنے ہاتھ میں پکڑی تصویر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرائی۔ آنکھیں سکیڑے، وہ اس تصویر میں موجود چہرے کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں سے سامنے ایک مسکراتا ہوا چہرا رقص کرنے لگا۔ دو قدم پیچھے ہوا۔ عورت کے ہاتھوں کی گرفت اب بھی اس کے گریبان پر تھی۔ کہ اچانک سناٹے کو توڑتی کم زور آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی ۔
” لوگوں کو خواب نما زہر بیچتے ہو۔ من گھڑت کہانیوں سے معصوم ذہنوں کو مفلوج کرتے ہو۔ کامیابی حاصل کرنے کے وہ رستے دکھاتے ہو جن پر اگر کبھی تم چلے ہوتے تو آج یہاں کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوتے۔"
"تم خواب فروش نہیں… زہر فروش ہو…!"
اس کی آنکھوں کے سامنے بیس سالہ نوجوان کا چہرہ گھوم گیا۔ جو اس کو اپنا استاد مانتا تھا۔ اپنی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات اس سے شئیر کرتا۔ جو مانتا تھا کہ اس کے مسائل کا حل صرف اس کے استاد کے پاس ہے اور استاد کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ اس روز بھی وہ لڑکا ایک بڑی پریشانی کے حل کے لیے اس کے پاس آیا تھا۔ اور وہ شاید کسی اور ہی موڈ میں تھا۔ اس نے لڑکے کی بات سنی اور ازراہِ تفنن اس سے کہہ دیا کہ:
"جب زندگی ہم ہر مہربان نہ ہو تو موت ہم پر مہربان ہو جاتی ہے اور ہمیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔"
یہ سن کر وہ لڑکا کتنی ہی دیر خاموشی سے اپنے ہاتھوں کو دیکھتا رہا، شاید ہاتھ میں قسمت کی لکیر ڈھونڈ رہا تھا، جو محنت و مشقت کے باعث مدھم ہو چکی تھی۔ آخر کار اٹھا اور خدا حافظ کہہ کر باہر نکل گیا۔ لڑکے کو جاتا دیکھ کر اس نے حقارت سے سر جھٹکا۔
” بے وقوف لوگ ! نہ جانے اپنے دماغ سے کیوں نہیں سوچتے۔ انھیں دیکھنے کے لیے دوسروں کی آنکھیں کیوں درکار ہوتی ہیں۔"
اس روز ٹی وی پر خبر چلی کہ ایک بیس سالہ نوجوان نے حالات سے مقابلہ کرنے کے بجائے موت کو ترجیح دی اور سوگواران میں ماں باپ کو چھوڑ گیا۔ اس خبر نے اسے لمحے بھر کو چونکا دیا مگر افسوس سے سر جھٹک کر وہ اپنے کل ہونے والے موٹیویشنل پروگرام کی تیاری کرنے لگا۔ جہاں اسے یونی ورسٹی کے بچوں کو بتانا تھا کہ کامیابی قدم کیسے چومتی ہے اور حالات کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے۔
آخر وہ اس ملک کا ایک بہترین اسپیکر تھا۔
مجمع کی سرگوشیاں اسے حال میں واپس لے آئیں۔ اس نے اطمینان سے عورت کے ہاتھ اپنے گریبان سے الگ کیے اور شرٹ کا کالر درست کیا۔ مسکرا کر مجمع کو دیکھا اور گویا ہوا :
” ماں جی! مجھے دکھ ہے آپ کے بیٹے کی موت کا۔ میں آپ کا غم سمجھ سکتا ہوں۔ اس لیے آج سے آپ مجھے اپنا بیٹا سمجھیں۔ آپ کی کفالت میں کروں گا۔"
یہ کہہ کر اس نے آنکھ کے اشارے سے تصویر بنانے کا حکم دیا۔ تصویر بنتے ہی تیز قدم اٹھاتا ہال سے باہر نکل گیا۔ لوگوں کی ستائشی نظریں اس کا تعاقب کرتی رہ گئیں اور وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
(19/01/2023)
***
ثناء ادریس کی گذشتہ نگارش :بیٹی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے