مشاہیرِ ادب کے کلام میں ذِکر بے ثباتی

مشاہیرِ ادب کے کلام میں ذِکر بے ثباتی

(از انیسویں تا بیسویں صدی عیسوی)

وسیم حیدر ہاشمی 

دنیا کا کوئی بھی بشر کبھی بے ثباتیِ عالم سے انکار نہیں کر سکا۔ دنیا کے سرائے فانی ہونے کا ذکر جہاں تمام مذہبی کتابوں میں ملتا ہے وہیں اس حقیقت کو انبیا، صوفیا، پیروں، فقیروں اور اولیاے کرام سے لے کر عام انسانوں نے صدق دل سے مانا اور قبول کیا ہے۔ خداوند کریم کی وحدانیت پر اکثر لوگوں میں تضاد اور شبہ دیکھا گیا ہے مگر فنا چونکہ ہر کس و ناکس نے خود دیکھی ہے اس لیے اس کے تئیں کوئی بشر کبھی شک و شبہ میں مبتلا نظر نہیں آیا۔ بس فنا کے وقت کو جاننا کسی کے بس کی بات نہیں۔ کسی کو دیر سے فنا ہے تو کوئی شے ایک دم زود فنا۔
اخلاقی مضامین سے چونکہ بے ثباتی عالم کا گہرا رشتہ ہے، اس لیے یہاں پر اس بات کا ذکر بھی ناگزیر ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ”اخلاقی مضامین صرف صوفیانہ شاعری میں ہی ملتے ہیں“ لیکن یہ بات درست نہیں، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اردو شاعری میں اخلاقیات کی علم برداری میر انیسؔ کا حصہ ہے۔ صنف شاعری کے سلسلے میں گوئٹےؔ کا یہ قول ہے کہ ”ادب میں کوئی صنف اس وقت تک عظیم نہیں بن سکتی جب تک اس کا موضوع عظیم نہ ہو۔“ اس قول کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو شاعری کے عام موضوعات میں صرف واقعہ کربلا ہی وہ موضوع ہے جسے ہر نکتۂ نظر سے عظیم کہا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت بھی ہے کہ اردو میں اخلاقی شاعری کا جب بھی تذکرہ ہو گا اس کا سب سے درخشاں باب کربلا کے عنوان سے کی گئی شاعری میں پورے آب و تاب کے ساتھ نظر آئے گا۔ اس میں شاعر کے مسلک کی قید نہیں۔ اس موضوع کے تحت علامہ اقبالؔ لاہوری، مرزا غالبؔ دہلوی، میر ببر علی انیسؔؔ، جوشؔ اور اسی پایے کے دوسرے شعرا کے کلام میں اعلیٰ پیمانے کا درس تصوف نظر آتا ہے۔ چونکہ کربلا میں حضرت امام حسینؑ کا مقصد عظیم تھا، اس لیے شعرا کے یہاں اس احساس کے ضمن میں جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے وہ عظمتوں کے اونچے درجے پر فائز ملے گا۔
اخلاقیات کے سلسلہ میں اپنے ایک مقالے ”کلام انیسؔ اور اخلاقی قدریں“ میں بیگم صالحہ عابد حسین یوں رقم طراز ہیں:
”یہ قدریں ہیں خدا شناسی اور خدا پرستی، عقیدہ اور ایمان، دیانت و شرافت، حق پرستی و عفو و کرم، ایثار و قربانی، شجاعت و جاں بازی، وفا و جاں نثاری، صبر اور استقلال، راضی بہ رضا رہنے کا حوصلہ، رشتوں کی پاس داری اور انسانیت کا درس، خلوص و محبت اور پھر حق کی راہ میں جان قربان کر دینے کا وہ جذبہ جو شہادت کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ شہادت یعنی سرِ دار بھی صرف حق کا نام لینا اور حق کے لیے جان تک قربان کر دینا۔ یہ وہ قدریں ہیں جن کو فنا نہیں کیا جا سکتا۔ جو دب دب کر ابھرتی ہیں اور اپنی سچائی منوا لیتی ہیں، جن کو انیسؔ نے زیادہ تر بالواسطہ یعنی اپنے کرداروں کی سیرت اور اخلاق میں اجاگر کر کے اور کہیں کہیں بلا واسطہ پیش کیا ہے۔“ ۱؎
اخلاقی قدروں میں عجز و انکسار کا بالواسطہ نمونہ میر انیسؔ کے یہاں اس کثرت سے ملتا ہے جس کی مثال اردو تو کیا عالمی ادب میں بھی مشکل ہے۔ مثال کے طور پر وہ موقع جب میدان کربلا میں حضرت امام حسینؑ کی ملا قات اس غریب الوطن مسافر سے ہو جاتی ہے جو زیارت نجف اشرف اور قدم بوسی امام حسینؑ کی غرض سے گھر سے نکلا تھا اور راہ بھول کر کربلا کی طرف آ نکلا تھا۔ وہ حضرت امام حسینؑ کو پہچانتا نہ تھا۔حضرت امام حسینؑ نے اس شخص سے اپنا تعارف کچھ اس طرح کرایا کہ عجز و انکسار کی اس سے بہتر مثال ناممکن ہو گئی۔ نہ سلاست میں کمی نہ بلاغت میں کجی اور روانی ایسی کہ ہر لفظ کی ترکیب سے خالص انیسیت جھلکے۔ ملاحظہ ہو:
یہ تو نہیں کہا کہ شہ مشرقین ہوں
مولیٰ نے سر جھکا کے کہا میں حسینؑ ہوں
ٹھیک اسی طرح جب انیسؔ کا مقصد بلا واسطہ کہنا ہو تو بھی انداز بیان میں وہی حسن و خوبی اور عجز و انکسار نظر آئے گا جو اخلاقی شاعری کی عالمی مثال ثابت ہوتا ہے۔ دو شعر ملاحظہ ہوں:
کبھی برا نہیں جانا کسی کو اپنے سوا
ہریک ذرے کو ہم آفتاب سمجھے ہیں
…..
خاکساری نے دکھائی رفعتوں پر رفعتیں
اِس زمیں سے واہ، کیا کیا آسماں پیدا ہوئے
دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ادیب یا شاعر گزرا ہو جس نے بے ثباتی عالم کو اپنی شاعری کا موضوع نہ بنایا ہو۔ بیش تر شاعروں اور ادیبوں نے اپنے اپنے انداز سے اس مضمون کو قلم بند کیا ہے۔ ویسے بھی شاعری تو جذبات کے اظہار کا وسیلہ ہے جیسا کہ علامہ شبلی نعمانی نے موازنہ انیسؔ و دبیرؔ میں لکھا ہے کہ:
”شاعری کس چیز کا نام ہے؟ کسی چیز، کسی واقعہ، کسی حالت، کسی کیفیت کو اس طرح بیان کیا جائے کہ اس کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جائے۔ دریا کی روانی، جنگل کی ویرانی، باغ کی شادابی، نسیم کے جھونکے، دھوپ کی سختی، گرمی کی تپش، جاڑوں کی ٹھنڈک، صبح کی شگفتگی، شام کی دلآویزی یا رنج و غم، غیظ و غضب، خوشی و محبت، افسوس و حسرت، عیش و طرب، استعجاب و حیرت، ان سب چیزوں کا اس طرح بیان کرنا کہ وہ کیفیت دلوں پر چھا جائے، اسی کا نام شاعری ہے۔“ ۲؎
شبلی نعمانی نے شاعری کی جو تعریف پیش کی ہے اسے میر انیسؔ کی مجموعی شاعری کا نثری ماخذ کہا جا سکتا ہے اور بے شک وہ مکمل ہے مگر اس مقالے کے عنوان کے تحت صرف ویرانی، سختی، رنج و غم، اور استعجاب و حسرت ہی زیر غور ہیں۔
دیگر ہندستانی زبانوں کے مد مقابل یوں تو اردو کی عمر بہت کم ہے مگر اس کے باوجود بے ثباتی عالم پر جتنا کچھ، جس خوب صورتی کے ساتھ اردو میں ملتا ہے وہ اس کی عمر کے لحاظ سے بہت وقیع ہے، خاص کر اردو نثر کے مقابلے نظم میں۔ اردو شاعری میں اس مضمون پر کئی شعرا نے ایک دو شعر ایسے کہہ دیے ہیں کہ عالمی ادب میں تلاش کے باوجود اس کا جواب نہیں ملتا۔ مثلاً استاد ذوقؔ کا یہ شعر:
لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے
ذوقؔ کے اس شعر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بے ثباتی کے ہم راہ شروع سے آخر تک انسان مجبور اور محض بے چارگی کا پیکر نظر آتا ہے۔ مسئلۂ جبر و اختیار پر اس سے بہتر شعر ملنا مشکل ہے۔
بہادر شاہ ظفرؔ نے جب بے ثباتیِ عالم کا ذکر کیا تو سب سے پہلے انسان کی لمبی زندگی کی حد مقرر کرتے ہوئے ایک ہندوستانی محاورے کے ضمن میں ایک شعر یوں کہا کہ اس نے ذہن کے لاشعور میں ایک مستقل مسکن بنا لیا:
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں
یہاں ظفرؔ نے انسانی زندگی کے طول و عرض کو چار روز میں سمیٹتے ہوئے یہ کہا کہ جہاں اس کا نصف خواہشات کی نذر ہو جاتا ہے وہیں باقی کا نصف ان خواہشات کی تکمیل کے انتظار میں گذر ہو جاتا ہے۔ ظفرؔ کے بعد درگا سہائے سرورؔ جہان آبادی نے بے ثباتی عالم کا ذکر کرتے ہوئے انسان کی لمبی زندگی کو دو روزہ کہا اور بہت خوب کہا:
کرے نہ عمر دو روزہ پہ سرکشی کہہ دو
کہ خاک کا ہے یہ پتلا بشر نہیں ناری
ہر چند کہ ظفرؔ اور سرورؔ نے حیات انسانی کے سلسلے میں ہندستانی محاورے کی ترجمانی کرتے ہوئے زندگی کو دو روزہ اور چہار روزہ کہہ کر بڑے حسن و خوبی سے اپنا نظریہ پیش کیا مگر اس نہج سے ہٹ کر باباے سخن میر انیسؔ نے زندگی کو دو یا چہار روزہ کہنے کے بجائے حیرت انگیز طور پر تین روزہ کہا، جب کہ انیسؔ سے قبل یا آج تک کسی شاعر یا ادیب نے زندگی کو سہ روزہ نہیں کہا تھا۔ انیسؔ نے ہر تین دن کا حساب ایسی خوب صورتی سے پیش کیا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ فصاحت، بلاغت، روانی، ترکیب اور شعریت ایسی بھر پور کہ سامع داد دینا بھول کر عرصہ تک غور کرتا رہے۔زندگی کو سہ روزہ کہنا اٹپٹا اور معیوب لگتا ہے جب کہ اسی لفظ نے اس شعر میں بلاغت پیدا کر دی ہے:
تین دن کی زندگانی دیکھ لی
بچپنا، پیری، جوانی دیکھ لی
…..
جتنے بھی مشاہیر شعرا ہیں ان میں اکثر و بیش تر غزل گو ہیں اور چونکہ بے ثباتی بھی غزل کا عنوان ہے اس لیے ان لوگوں کے یہاں اس عنوان کے اشعار خوب مل جاتے ہیں۔ بے ثباتیِ عالم پر میر تقی میر  نے بھی بہت سے ایسے بے مثل اشعار کہے ہیں کہ جو از خود زبان پر چڑھے ہوئے ہیں۔ مثلاً:
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کے اس کار گہہِ شیشہ گری کا
ٹک میرؔ جگر سوختے کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسہ ہے چراغ سحری کا
یا پھر انھی کے چند دوسرے اشعار:
ہر صبح مرے سر پر اک حادثہ نیا ہے
پیوند ہو زمیں کا، شیوہ ہے آسماں کا
…..
اُگتے تھے دشت بلبل و دامان گل بہم
صحن چمن نمونۂ یوم الحساب تھا
اتنے منعم جہاں سے گزرے ہیں
وقت رحلت کے کس کنے زر تھا
…..
آیا جو واقعہ میں درپیش عالم مرگ
یہ جاگنا ہمارا دیکھا تو خواب نکلا
…..
میرؔ کا یہ تصور کہ ان کا گزر کسی ویرانے یا قبرستان سے ہونا اور کسی کے کاسۂ سر کا ان کے پیر سے ٹکرا جانا، بے ثباتی عالم کا بہترین نمونہ ہے:
کل پانوں ایک کاسۂ سر پہ جو آگیا
یکسر وہ اُستخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سر پُرغرور تھا
…..
میرؔ کی زندگی ایسی پرآشوب تھی کہ قدم قدم پر حادثات زمانہ سے دوچار ہوئی اور انھوں نے اپنی شاعری میں انھی تجربات کو عبرت کا نمونہ بنا کر پیش کیا:
نام آج کوئی یاں نہیں لیتا ہے انھوں کا
جن لوگوں کے کل ملک یہ سب زیر نگیں تھا
…..
کہا میں نے گل سے ہے کتنا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
…..
عہد جوانی رو رو کاٹا، پیری میں لی آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے، صبح ہوئی آرام کیا
اسی طرح انھوں نے مسئلۂ جبر و اختیار کو نمونۂ عبرت بنا کر پیش کیا ہے:
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہے ہیں سو آپ کرے ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا
…..
کل چمن میں گل و سمن دیکھا
آج دیکھا تو باغ بن دیکھا
…..
اس موج خیز دہر میں ہم کو قضا نے آہ
پانی کے بلبلے کی طرح سے مٹا دیا
…..
شہاں، کہ کحل جواہر تھے خاک پا جن کی
انھیں کی آنکھوں میں پھرتے سلائیاں دیکھی
…..
بہت نا آشنا تھے لوگ یاں کے
چلے ہم چار دن رہ کر جہاں میں
…..
سب سرگزشت سن چکے اب چپکے سو رہو
آخر ہوئی کہانی مری، تم بھی سو رہو
…..
درج بالا اشعار کے مطالعے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میرؔ کی غزلوں میں صرف اعلیٰ درجے کا تغزل ہی نہیں بلکہ دوسرے رنگ بھی نمایاں حیثیت رکھتے ہیں اور بے شک، ان تمام رنگوں میں حسن تغزل کے بعد بے ثباتی کو ہی اولیت حاصل ہے۔
طنز و مزاح، غم اور خوشی کا اظہار، حب الوطنی، جام و مینا، حسن تغزل اور بے ثباتیِ عالم، فلسفۂ رنج و ملال، تفکر و تصوف، منظر نگاری وغیرہ اردو شاعری کے عام رنگ ہیں۔ مشاہیر شعرا میں ایسے کم ہی ملیں گے جنھوں نے اپنی شاعری کا عنوان درج بالا میں سے صرف ایک یا دو کو بنایا ہو۔ اب حکیم مومن خاں مومنؔ کو ہی لے لیجیے۔ ان کا کلام حسن و عشق اور لذت دنیا سے عبارت ہے، تا ہم وہ بے ثباتیِ عالم جیسے اہم موضوع سے صرف نظر نہیں کر تے۔ بے ثباتی پر انھوں نے بہت کم اشعار کہے ہیں۔ ان کے تمام دیوان کو کھنگالا تو صرف چار اشعار ہی بے ثباتی پر مل سکے، جو درج ذیل ہیں:
اس چمن زار کا حسرت سے نظارہ کر لے
اے نگہ دیدۂ ہر سو نگراں ہونے تک
…..
آسماں فتنہ کچھ ایسا نہیں اے اہل جہاں
کوئی باقی نہیں رہنے کا اماں ہونے تک
کیسی حسرت سے اے سبک روحی
دیکھے ہے دیدۂ حیات ہمیں
…..
بہار باغ دو دن ہے غنیمت جان اے بلبل
ذرا نہیں بولے ہو زمزمہ پرواز چہ چہ کر
ہر ادیب اور شاعر کا اپنا الگ مزاج ہوتا ہے، جسے اس کی تحریر اور کلام سے پہچانا جاتا ہے۔ اسے دوسرے لفظوں میں اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اشعار کی کیفیت شاعر کے حقیقی مزاج کا آئینہ ہوتی ہے۔ لیکن ان میں چند ایسے بھی ہوئے ہیں جن کی شخصیت ہشت پہلو ہے۔ انھوں نے زندگی کے بیش تر پہلوؤں کو اپنے نوک قلم سے مختلف طریقے سے سجایا سنوارا ہے۔ ان لوگوں میں ڈاکٹر اقبالؔ، مرزاغالبؔ اور نظیرؔ اکبر آبادی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان شعرا نے شاعری کے مختلف عناوین کے ساتھ بے ثباتیِ دنیا پر بھی قلم اٹھایا اور جو کچھ بھی کہا، خوب کہا۔ ان لوگوں میں نظیرؔ اکبرآبادی کا انداز ان کے ہم عصروں اور دوسرے شعرا سے الگ اور نیا ہے۔ نظیرؔ نے اپنی بیش تر نظمیں مختلف عناوین پر لکھی ہیں اور اپنے انوکھے انداز سے عام بیان میں، لکھنوی نزاکت اور تکلفات سے پاک اور متروک لفظوں کے استعمال کی وجہ سے پہلے تو انھیں اردو میں نمایاں مقام رکھنے والوں نے قبول ہی نہیں کیا۔ یہ لوگ نظیرؔ کی زبان کو بازاری کہا کرتے تھے۔ نظیرؔ کے بارے میں اس طرح کا خیال رکھنے والوں میں حالیؔ، آرزوؔ اور شیفتہؔ جیسے بڑے نام بھی شامل تھے۔ اس کے باوجود نظیرؔ کی نظمیں انھی کے زمانے میں عوام میں کافی مقبول ہو چکی تھیں اور بعد میں اردو ادب اور نقد شاعری میں بھی ان کے کلام کی بھرپور پذیرائی ہوئی۔ پروفیسر کلیم الدین احمد جیسے منفی خیال [منفی خیال درست ترکیب نہیں ہے. اشتراک] رکھنے والے ناقد نے بھی کلام نظیرؔ پر تبصرہ کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ ”اردو شاعری کے آسمان پر نظیرؔ اکبرآبادی کی ہستی تنہا ستارہ کی طرح درخشاں ہے۔“ (صفحہ ۱؎ ضمیمہ نظیرؔ اکبر آبادی ”اردو شاعری پر ایک نظر حصہ اول“)۔
نظیرؔ کی مقبول ترین نظموں میں ”شب برأت، عید، بسنت، بلدیو جی کا میلہ اور راکھی کے ساتھ مفلسی، موت، روٹیاں اور بنجارہ نامہ“ بھی خوب سراہی گئیں۔ ان نظموں میں سے چند اشعار پیش ہیں جن میں بے ثباتی کا ذکر بڑی خوب صورتی سے کیا گیا ہے:
جب آن کر فنا نے کھِلایا اجل کا گل
کام آئی تب کسی کی خموشی نہ شور و غل
وہ شخص جو تھے سات ولایت کے بادشاہ
حشمت میں جن کی عرش سے اونچی تھی بارگاہ
مرتے ہی ان کے تن ہوئے گلیوں کی خاک راہ
اب ان کے حال پر بھی یہی بات ہے گواہ
جو خاک سے بنا ہے، وہ آخر کو خاک ہے
گر ایک کو ہزار روپے کا ملا کفن
اور اِک یونہی پڑا رہا بے کس برہنہ تن
کیڑے مکوڑے کھا گئے دونوں کے تن بدن
دیکھا جو میں نے آن تو سچ ہے یہی چلن
جو خاک سے بنا ہے، وہ آخر کو خاک ہے
جتنے درخت دیکھو ہو، بوٹے سے تا نہ جھاڑ
بڑ، پیپل، آمب، نیب، چھواڑا، کھجور، تاڑ
سب خاک ہوں گے جب کہ فنا ڈالے گی اکھاڑ
کیا بوٹے ڈیڑھ ہاتھ کے، کیا جھاڑ کیا پہاڑ
جو خاک سے بنا ہے، وہ آخر کو خاک ہے
”بنجارہ نامہ“ بذات خود ایک علامتی نظم ہے جس کا ایک ایک مصرع عبرت دنیا اور فنا کا ایسا مرقع ہے جس کی نظیر مشکل ہے۔ صرف پہلا بند ملاحظہ ہو:
ٹُک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں، مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے، دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا، بھینسا، بیل، شتر، کیا گوئیں، پلا سربھارا
کیا گیہوں، چاول، موٹھ، مٹر، کیا آگ دھواں، کیا انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا، جب لاد چلے گا بنجارا
بے ثباتی کے عنوان پر تو تھوڑے بہت اشعار قریب قریب سبھی شعرا کے یہاں مل جاتے ہیں مگر تسلسل سے ٣٠۔ ٤٠ اشعار بہت کم شعرا کے یہاں دستیاب ہیں۔ فانیؔ، انیسؔ اور شوقؔ کے ہی مانند سرورؔ جہان آبادی بھی اس ضمن میں وہ نام ہے کہ اگر بے ثباتی عالم پر کوئی مضمون یا مقالہ لکھا جائے اور سرورؔ جیسے عالی قدر شاعر کو نظر انداز کر دیا جائے تو یہ نہ صرف سرورؔ کے ساتھ ناانصافی ہوگی بلکہ مقالے میں بھی ایک خلا محسوس ہوگا۔ ان کی ایک مکمل نظم ہی ”بے ثباتیِ دنیا“ ہے۔ یہ نظم انھوں نے اسی محبت کرنے والی بیوی کی ناوقت موت سے متاثر ہو کر کہی ہے جو ٢٦ سال کی قلیل عمر میں انھیں داغ مفارقت دے گئی تھی۔ نظم کا ایک ایک مصرع سرورؔ کی تڑپ کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کا مطلع ہی اس طرف متوجہ کرلیتا ہے۔
جگر کے داغ نے کی ہے چمن کی تیاری
کہو کہ دیدۂ تر جوئے خوں کرے جاری
٣٧/ اشعار کی اس نظم کو جوں کا توں پیش کرنے کا موقع نہیں ہے اور اشعار کا انتخاب بھی مشکل ہے۔ بہر حال چند منتخب اشعار ”از دل خیزد، بر دل ریزد“ کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں:
زمیں نے نور کے پتلے چھپا لیے کیا کیا
کہ سو رہے ہیں لحد میں بتان فرخاری
زمانہ صید تھا جس کے خدنگ غمزہ سے
ہوئے شکار اجل وہ غزال تاتاری
وہ مہ جمال جو بالائے بام سوتے تھے
اب ان پہ خواب اجل، زیر خاک ہے طاری
بنا کے نقش فلک نے مٹا دیے لاکھوں
عجیب طرح کا ہے کچھ طلسم زنگاری
عدم سے مرگ کا سودا چکانے آئے ہیں
سرا میں ٹھہرے ہوئے کچھ جو ہیں یہ بیوپاری
کہاں سے آئے ہیں ہم، اور کہاں کو جاتے ہیں
رہی نہ غفلت دنیا میں اتنی خود داری
رہا نہ کچھ زن و فرزند و مال و زر کا خیال
قضا کے آتے ہی نیند ایسی ہو گئی طاری
اجل کمیں میں، زمانہ عدو، فلک دشمن
کرے مقابلہ کس کس سے جان بیچاری
زمانہ آنکھ جھپکتے ہی ہو گیا تاریک
وہ شب کا خواب ہوا، دن کی جو تھی بیداری
گڑھے میں گور کے جاگیردار سوتے ہیں
فلک نے چھین لیا منصب جہاں داری
یہی ہے راہ فنا جس میں روز و شب غافل
نفس کی آمد و شد کا ہے قافلہ جاری
بہت غریب لٹے شاہ راہ ہستی میں
سنی اجل نے کسی کی نہ گریہ و زاری
دیا نہ ان کو کفن، پیر زالِ دنیا نے
قبائے زر تھی کبھی جن کے دوش پر بھاری
کہاں وہ مسندِ جم ہے، کہاں وہ بزم نشاط
کہاں ہے قصر فریدوں ؔ کی اب وہ تیاری
پتہ نہیں ہے کہ رستمؔ کی ہڈیاں ہیں کدھر
رہی نہ سامؔ و نریماں ؔ کی اب وہ خود داری
کہاں ہے خسرؔو و بہمنؔ کی بارگاہ رفیع
کہاں قبادؔ کی، ہوشنگؔ کی جہاں داری
اڑا کے تخت سلیماں کو لے گئے دم میں
قضا کے جھونکوں میں تھی اتنی تیز رفتاری
تمام عمر رہا سامنا قضا کا سرورؔ
گئی نہ وہ جو کلیجے پہ چوٹ تھی کاری
میر تقی میرؔ، میر انیسؔ، شوقؔ، مرزا دبیرؔ اور دوسرے سر فہرست شعرا کے مانند یہاں پر سرورؔ نے بھی اپنی بات منوانے کی خاطر حسینوں، جاگیرداروں، مسافروں، غریب الوطن، عالی منصب امرا، اکابر، جمشیدؔ، داراؔ، رستمؔ، سامؔ، خسروؔ اور حضرت سلیمانؑ وغیرہ کے اوج و طنطنے کا ذکر کرتے ہوئے ان کی بھی آخری منزل قبر ہی بتائی ہے۔ یہاں صرف عام گنہ گاروں کا ذکر نہیں بلکہ ان کی طرف بھی اشارہ ہے جو پیکر نور یعنی رسولؐ، نبیؐ اور امامؑ تھے، انھیں بھی موت اور قبر کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے علاوہ یہاں وہ صاحب کمال بھی فنا کی نذر ہو گئے جو یوسف لقا تھے، حسین و جمیل تھے، بادشاہ تھے، منصب دار اور جانے کن کن دنیاوی خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ تھے۔ زندگی کے حقیقی انجام سے واقفیت کے باوجود انسان حقیقت کی طرف سے چشم پوشی ہی اختیار کیے رہتا ہے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ انسان کو اپنی موت کا جتنا یقین ہے اس سے زیادہ یقین اس بات کا ہے کہ اس کے حقیقی انجام میں ابھی بہت تاخیر ہے. جب کہ انسان کا ایسا سوچنا محض خام خیالی ہے۔
اس پوری نظم میں طرح طرح کی تشبیہات و تلمیحات کے ساتھ بے ثباتی کی طرف بڑی خوب صورتی سے اشارہ کیا گیا ہے۔ لفظوں کی بندش، مختلف تراکیب کا استعمال، سلاست اور روانی، اس نظم کو بلند درجہ پر فائز کرتے ہیں۔ یہ نظم اپنے موضوع، پیش کش اور زبان و بیان کے اعتبار سے اردو ادب میں ناقابل فراموش ہے۔
ان مشاہیر کے بعد ذہن بے اختیار ان شعرا کی طرف از خود مبذول ہو جاتا ہے جو ایک خاص عنوان کے لحاظ سے اس میدان میں سدرۃالمنتہٰی پر ہی نظر آتے ہیں۔ شاعری کے اس خاص میدان میں نہ تو ان سے قبل کوئی اس مقام پر تھا اور نہ ہی آج تک کوئی ان کی خاک کو بھی پہنچ سکا۔
مری قدر کر اے زمین سخن
تجھے بات میں آسماں کر دیا
سبک ہو چلی تھی ترازوئے شعر
مگر ہم نے پَلّہ گراں کر دیا
یہ قطع صرف شاعرانہ تعّلّی نہیں ہے بلکہ حقیقتاً اردو شاعری میں وقیع اضافے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پروفیسر سید مسعود حسن رضوی ادیبؔ نے دریا کو کوزے میں بند کر تے ہوئے کہا کہ ”مرثیہ، اردو شاعری کی سب سے شریفانہ صنف ہے۔“ اور میر انیسؔ کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ شبلی نعمانی جیسے صاحب نظر اور صف اول کے ناقد کو بھی یہ کہنا پڑا کہ:
”میر انیسؔ کے کمال کا اگرچہ جس قدر مجھے اعتراف ہے شاید ہی کسی اور کو ہوگا۔“ (’موازنہ انیس و دبیر‘)
مرثیہ سے چونکہ زیر بحث عنوان کا گہرا تعلق ہے اس لیے کسی بھی مرثیہ گو شاعر کے یہاں اس موضوع کے اشعار کی تعداد زیادہ یا بہت زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ ہاشم علی سے میرؔ، سوداؔ اور میر انیسؔ تک کے کلام میں اس عنوان کے اشعار کی کثرت ہے۔ اس ضمن میں پہلے میر انیسؔ کی چند رباعیاں اور اشعار ملاخطہ ہوں:
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آکے نہ جائے، وہ بُڑھاپا دیکھا
جو جاکے نہ آئے، وہ جوانی دیکھی
…..
آغوش لحد میں جب کہ سونا ہوگا
جز خاک، نہ تکیہ، نہ بِچھونا ہوگا
تنہائی میں آہ، کون ہوے گا انیسؔ
ہم ہوئیں گے، اور قبر کا کونا ہوگا
…..
جس دن کہ فراق روح و تن میں ہوگا
آنا مشکل اِس انجمن میں ہوگا
نازاں نہ ہو رخت نو پہن کر غافل
اک روز یہی جسم کفن میں ہوگا
…..
اب گرم خبر موت کے آنے کی ہے
غافل تجھے فکر آب و دانے کی ہے
ہستی کے لیے ضرور اک دن ہے فنا
آنا ترا، دلیل جانے کی ہے
ہے عالم فانی کی عجب صبح عجب شام
گہ غم، کبھی شادی، کبھی ایذا، کبھی آرام
…..
شبنم سے جو وجہ گریہ پوچھی تو کہا
رونا فقط اپنی بے ثباتی کا ہے
…..
برسوں سے یہی رنگ گلستانِ جہاں ہے
جس گل پہ بہار آج ہے، کل اس پہ خزاں ہے
بے ثباتیِ عالم پر اب انیس ؔ کے اس سلام کا بھی ایک بے مثل شعر ملاحظہ ہو، جس غزل کو ان کے والد میر مستحسن خلیق نے انھیں ”سلام“ کرنے صلاح دی تھی اور جس کا مطلع ”اشارے کیا نگہہ ناز دل ربا کے چلے“ ہے:
خیال آگیا دنیا کی بے ثباتی کا
چلے جہاں سے جو اصغر،ؑ تو مسکرا کے چلے
…..
بے ثباتی کے سلسلے میں سلام اور رباعیات کے ساتھ مرثیہ کا ذکر ناگزیر ہے، ورنہ مضمون میں ایک خلا رہ جائے گا۔ انیسؔ کے مرثیہ کے چند بند پیش خدمت ہیں:
آیا بنائے ہستی انساں میں جب خلل
رونا ہے بے فضول کہ ہے سعی بے محل
جاتا ہے کوئی آج جہاں سے تو کوئی کل
روؤ کہ خاک اڑاؤ، نہیں چھوڑتی اجل
نے فاطمہؐ رہیں، نہ امیر عرب رہے
ہمشکل جن کے یہ ہیں، وہ دنیا میں کب رہے؟
اے مومنو مصروف رہو یاد خدا میں
جینے کا بھروسہ نہیں اس دار فنا میں
اوقات کرو صرف عزاے شہدا میں
سر گرم رہو نالہ و فریاد و بکا میں
غافل نہ ہو مل جائے جو موقع کوئی دم کا
نزدیک ہے دنیا سے سفر، ملک عدم کا
جو خلق میں تھے صاحب تخت و علم و تاج
نوبت یہ ہوئی ہے کہ نشاں ان کے نہیں آج
شاہانِ جہاں فخر سے دیتے تھے جنھیں باج
وہ قبر میں ہیں سورۂ الحمد کے محتاج
سکہ ہے نہ وہ، اور نہ وہ تاجِ نگیں ہیں
دولت تو خزانے میں ہے، خود زیر زمیں ہیں
اولاد کا گلشن نہ عزیزوں کا چمن ساتھ
یاور نہ مصاحب، نہ مُحِبّانِ وطن ساتھ
نے ماں ہے نہ فرزند، نہ بھائی نہ بہن ساتھ
دنیا کے کل اسباب سے ہوتا ہے کفن ساتھ
آجاتی وہاں موت، جہاں گھر نہیں ہوتا
بہتوں کو کفن تک بھی میسر نہیں ہوتا
بھائی نہ تو کام آئے گا، اس وقت نہ فرزند
عرصہ نہیں کھل جائے گا، جب آنکھ ہوئی بند
وہ کام کرو، جس سے خدا ہوے رضامند
ہشیار کہ ہونا ہے تمہیں خاک کا پیوند
پیری کی بھی مدت ہے، جوانی کی بھی حد ہے
آرام گہ شاہ و گدا، کنج لحد ہے
…..
خداوند کریم کی ہر تخلیق کا انجام مقرر ہے۔ وہ انسان ہو یا حیوان، شجر و حجر و جبل ہو یا سمندر و دریا، زمین ہو یا آسمان، کسی کو بقا نہیں۔ ہاں وقت و حالات کا علم صرف اللہ کو ہے۔ دوسروں کا بد سے بدتر انجام دیکھنے کے بعد بھی انسان اپنی موت سے بے خبر رہتا ہے اور اکثر سگ دنیا بن کر جیتا ہے۔ قرآن شریف میں بھی خداے بزرگ و برتر نے صاف لفظوں میں اعلان فرمایا ہے کہ ”وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْر“ پھر بھی ہر کس و ناکس صرف اس لیے غفلت کی زندگی گذار رہا ہے کہ جتنا یقین اسے اپنی موت کا ہے اس سے زیادہ بھروسا اس بات کا ہے کہ ابھی اس کا انجام حقیقی دور اور بہت دور ہے جب کہ نبیوں ؐ اور اولیاے کرام سے لے کر صوفیوں تک نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ میر ببر علی انیسؔ فرماتے ہیں کہ:
کیا سخت گھڑی ہوگی، اجل آئے گی جس دم
کھنچ کھنچ کے ہر اک رگ سے، نکلنے لگے گا دم
کیا دیکھیں گے اک ایک کو، حسرت سے بصد غم
اتنی بھی زباں ہل نہ سکے گی، کہ چلے ہم
سب کے لیے اک روز یہ تکلیف دھری ہے
اس پر بھی یہ غفلت ہے، عجب بے خبری ہے
بھائی نہیں اپنے ہیں، نہ ہی ہے پسر اپنا
بے گانے ہیں سب، ہوئے گا جس دم سفر اپنا
نے مال، نہ اسباب، نہ زیور، نہ زر اپنا
دو گز ہے کفن، قبر کا کونا ہے گھر اپنا
کچھ ساتھ بجز بے کسی و یاس نہ ہوگا
رہ جائیں گے سب دور، کوئی پاس نہ ہوگا
اس زیست پہ پھولو نہ، اجل کو بھی کرو یاد
گھر سیکڑوں یاں سیل فنا نے کیے برباد
دنیا میں عمارت نہ بنا کر ہو کوئی شاد
اس قالب خاکی کی عجب سخت ہے روداد
کل اوج پہ جو لوگ تھے، وہ زیر زمیں ہیں
ہے خاک کا ڈھیرا، نہ مکاں ہے نہ مکیں ہیں
کس کس گل رنگیں کی نہ اس باغ میں تھی دھوم
اک آن میں شبنم کی طرح ہو گئے معدوم
دِکھلا رہی ہے رنگ عجب ہستیِ موہوم
کیا قصد ہے گلچین اجل کا نہیں معلوم
اس باغ میں جس سرو کو دیکھا تو رواں ہے
جس گل پہ بہار آج ہے، کل اس پہ خزاں ہے
جب کبھی بے ثباتی کے عنوان سے دبستان لکھنو کا ذکر ہو گا تو پنڈت برج نارائن چکبستؔ کا نام از خود ذہن میں آجاے گا۔ انھوں نے اس عنوان پر اپنے ایک بھرپور شعر کے ذریعے زندگی اور موت کے ہفت خواں کو نہایت منطقی استدلال کے ساتھ چند لفظوں میں حل کر دیا ہے:
زندگی کیا ہے؟ عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے؟ اِنھیں اجزا کا پریشاں ہونا
…..
یہ شعر زندگی اور موت کی ایسی تعریف ہے جسے کافی حد تک ”سائنٹفک“ بھی کہا جا سکتا ہے اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے لیے بھی قابل قبول ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس شعر کے دونوں مصرعے ہندی زبان کے مندجہ ذیل اشعار سے استفادہ کا نتیجہ ہیں تو کچھ غلط نہ ہوگا:
پہلا شعر:(جس کے ساتھ درج بالا شعر کے پہلے مصرعے کو ذہن میں رکھنا لازم ہے)
شِتی ۱؎، جَل ۲؎، پاوَک ۳؎، گگن ۴؎، سَمیرا ؎۵
پانچ تَتْو۶؎ یہ اَدھم۷؎ سریرا۸
دوسرا شعر:(جس کے ساتھ درج بالا شعر کے دوسرے مصرعے کو ذہن میں رکھنا لازم ہے)
یہ پنچ بھوت۹؎ میں نَشور تَن۰۱؎
نشور بھوتوں میں لین۱۱؎ ہوا
…..
درج بالا ہندی کے پہلے شعر میں عناصر کے اجزاے ترکیبی کے ظہور پذیر ہونے اور دوسرے میں ان کے انتشار کا ذکر کر کے ازل سے ابد تک کی ترجمانی کا چکبستؔ نے اپنے ہندو عقیدے سے جو فایدہ اٹھایا ہے وہ لاجواب ہے۔
دبستان لکھنو کے شعرا میں میر انیسؔ بے مثل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بے ثباتیِ عالم پر انیسؔ کے سیکڑوں تو کیا ہزاروں اشعار ملتے ہیں۔ ان میں اکثر بے مثل و لاجواب ہیں لیکن ان سے ہٹ کر اب میں اسی دبستان کے ایک ایسے شاعر کے چند اشعار پیش کرتا ہوں جس کی شاعری کے رنگ میں نہ تو یاسیت و قنوطیت ہے اور نہ بے ثباتیِ دنیا۔ میرا اشارہ مرزا شوقؔ لکھنوی کی طرف ہے۔ شوقؔ نے دوسرے مشاہیر شعرا کے مقابلے بہت کم لکھا۔ شاید وامقؔ جون پوری نے ایسے ہی شعرا کے لیے یہ شعر کہا ہوگا:
کیا ضروری ہے کہ دیوان کا دیوان لکھیں
ایک شعر ایسا کہو زندۂ جاوید رہے
…..
مرزا شوقؔ اپنی تمام تر شاعری کے باوجود شہرت کی ان بلندیوں پر ہرگز نہ پہنچتے اگر انھوں نے ”مثنوی زہر عشق“ نہ لکھی ہوتی۔ یا اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اگر شوقؔ کے مجموعۂ کلام سے صرف اس مثنوی کو ہٹا دیا جائے تو ان کا شمار بھی اس دور کے عام شعرا تک ہی سمٹ کر رہ جائے گا۔ اب زہر عشق کا وہ مقام ملاحظہ فرمائیے جب ہیروئن آخری بار ہیرو سے ملنے آتی ہے، رات بھر اُس کے ساتھ رہ کر خود کشی کے ارادے کا اظہار کرتی ہے اور ہیرو کو صبر کی تلقین کرتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جب زندگی اپنی تمام لذتیں اور تمام حسن کھو چکی ہے۔ اسے دنیا کے تمام مسائل کا حل موت کی آغوش میں نظر آتا ہے۔ یہ داستان صدیوں سے دہرائی جارہی ہے اور آج بھی محبت کرنے والے اسے دہراتے رہتے ہیں۔ مرزا شوقؔ نے شاعرانہ فن کاری کے ساتھ بے ثباتیِ دنیا کا ذکر بڑے موثر انداز میں کیا ہے:
جائے عبرت سرائے فانی ہے
مورد مرگ نوجوانی ہے
اونچے اونچے مکان تھے جن کے
آج وہ تنگ گور میں ہیں پڑے
کل جہاں پر شگوفہ و گل تھے
آج دیکھا تو خار بالکل تھے
جس چمن میں تھا بلبلوں کو ہجوم
آج اس جا ہے آشیانۂ بوم
بات کل کی ہے نوجواں تھے جو
صاحب نوبت و نشاں تھے جو
آج خود ہیں، نہ ہے مکاں باقی
نام کو بھی نہیں نشاں باقی
غیرت حور مہ جبیں نہ رہے
ہیں مکاں گر تو وہ مکیں نہ رہے
جو کہ تھے بادشاہ ہفت اقلیم
ہوئے جا جا کے زیر خاک مقیم
کوئی لیتا نہیں اب اس کا نام
کون سی گور میں گیا بہرامؔ
اب نہ رستمؔ نہ سامؔ باقی ہے
اک فقط نام نام باقی ہے
کل جو رکھتے تھے اپنے سر پر تاج
آج ہیں فاتحہ کو وہ محتاج
تھے جو خودسر جہان میں مشہور
خاک میں مل گیا سب ان کا غرور
عطر مٹی کا جو نہ ملتے تھے
نے کبھی دھوپ میں نکلتے تھے
گردش چرخ سے ہلاک ہوئے
اُستخواں تک بھی ان کے خاک ہوئے
تھے جو مشہور قیصرؔ و مغفورؔ
باقی ان کے نہیں نشان قبور
تاج میں جن کے ٹکتے تھے گوہر
ٹھوکریں کھاتے ہیں وہ کاسۂ سر
رشک یوسفؔ تھے جو جہاں میں حسیں
کھا گئے ان کو آسمان و زمیں
ہر گھڑی منقلب زمانہ ہے
یہی دنیا کا کارخانہ ہے
ہے نہ شیریں ؔ نہ کوہکنؔ کا پتہ
نے کسی جا ہے نلؔ دمنؔ کا پتہ
بوئے الفت تمام پھیلی ہے
باقی اب قیسؔ ہے نہ لیلیؔ ہے
صبح کو طائران خوش الحان
پڑھتے ہیں کُل من علیھا فان
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ، کل ہماری باری ہے
زندگی بے ثبات ہے اس میں
موت عین حیات ہے اس میں
…..
میر تقی میرؔ سے کچھ ہٹ کر فانیؔ بدایونی کی غزل گوئی ہے۔ وہ زندگی کی ہر سانس کو عالم نزع میں جیتے ہیں، جس نے ان کی شاعری کو عبرت سے زیادہ قنوطیت کا مرقع بنا دیا ہے۔ ان کی بیش تر شاعری موت، کفن، میت، قبر اور فنا سے عبارت ہے۔ جس طرح میرؔ نے ”آپ بیتی کو جگ بیتی“ بنا کر پیش کیا، کم و بیش اسی طرح فانیؔ کی شاعری بھی زندگی کے ہر نشیب و فراز سے گزرتی نظر آتی ہے۔ جس شاعر نے زندگی کو جتنے قریب سے دیکھا اور محسوس کیا ہوگا، اس کے کلام میں زندگی کی اتنی ہی بھرپور جھلک نظر آئے گی۔ پھر بھلا ایسے شاعر سے بے ثباتی کا عنوان کیسے چھوٹ سکتا تھا جس نے اپنا تخلص ہی فانیؔ اختیار کیا ہو۔ ”کلیات فانیؔ“ کا دیباچہ لکھتے ہوئے قاضی عبدالغفار نے ان کی شاعری پر اپنے جذبات کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا ہے:
”زندگی شعر ہے مگر زندگی کا ہر جذبہ شعر نہیں۔ صرف غم شعر ہے۔ تازہ پھولوں کا حسن شعر کا ادنیٰ مقام ہے مگر مرجھائے ہوئے پھول کی گزری ہوئی رعنائی اور مٹا ہوا رنگ حقیقی شعریت کا ارفع ترین مقام ہے۔“
درج بالا بیان کو نظر میں رکھ کر فانیؔ کے اس زبان زد قطعہ پر غور کیجیے تو ایک الگ لطف محسوس ہوگا:
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے، خواب ہے دیوانے کا
ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ
زندگی نام ہے مر مر کے جِیے جانے کا
یا درج ذیل شعر:
بنیاد جہاں کیا ہے، مجبور فنا ہونا
سرمایہ ہستی ہے، محروم بقا ہونا
اسی عنوان کے تحت فانیؔ نے چھوٹی بحر میں ایک مکمل نظم ”دار فانی“ کے نام سے کہی ہے۔ نظم کے چند اشعار بہ طور مثال پیش خدمت ہیں:
ہوتے آئے دنیا والے
اللہ مال خزانے والے
داراؔ، جمؔ، اسکندرؔ کیا تھے
آنے والے جانے والے
کھو بیٹھے اب نام و نشاں تک
شوکت شان دکھانے والے
ہو گئے اب روباہ سے کمتر
شیر سے آنکھ ملانے والے
کوئی نہ ٹھہرا وقت جب آیا
چل دیے آخر جانے والے
جو نہ گئے سو آگے رہیں گے
سب ہیں مسافر خانے والے
دولت، ثروت، عزت، حشمت
چھوڑ گئے سب جانے والے
تج بیٹھے جو عمر کی دولت
اب نہیں ہرگز پانے والے
دار فنا ہے دنیا فانیؔ
آنے والے ہیں جانے والے
اس کے علاوہ بھی فانیؔ نے اس عنوان کے تحت بہت سے لافانی اشعار کہے ہیں، جن میں سے چند پیش خدمت ہیں:
ہم نہ تھے، کل کی بات ہے فانیؔ
ہم نہ ہوں گے، وہ دن بھی دور نہیں
…..
چمن میں آئے، شب گزری، صبح چل نکلے
ملی تھی کیا ازل میں زندگانی ہم کو شبنم کی
…..
قطرہ، قطرہ رہتا ہے، دریا سے جدا رہ سکنے تک
جو تاب جدائی لا نہ سکے، وہ قطرہ فنا ہو جاتا ہے
…..
درج بالا مضمون کو اخیر تک پڑھ لینے کے بعد ایک بات تو ایک دم صاف ہو گئی ہے کہ اس عنوان کے تحت اردو میں بہت کچھ لکھا گیا۔ خاص کر میرانیسؔ نے اس عنوان پر خوب شعر کہے، کیونکہ ان کا تو میدان ہی مرثیہ ہے مگر ایک ایسا شاعر جس نے اپنی تمام زندگی میں بہت کم لکھا ہو…….شوقؔ کے محض ٢٣ مسلسل اشعار ہی مثال کے لیے کافی ہیں، جس کا ہر شعر بے ثباتی کے لحاظ سے دعوت فکر دیتا ہے اور اس عنوان پر موازنے کے لیے کسی بھی عالمی ادب پر تنہا بھاری ہے۔
***
صاحب مقالہ کی گذشتہ نگارش :شفیق الایمان قاسمی کا اوّلین شعری مجموعہ ہندو فرشتہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے