شفیق الایمان قاسمی کا اوّلین شعری مجموعہ ہندو فرشتہ

شفیق الایمان قاسمی کا اوّلین شعری مجموعہ ہندو فرشتہ

﴿دیومالائی عناصر کی روشنی میں﴾

وسیم حیدر ہاشمی
B.10/43, Krim Kund,
Post Office Shivala,
Varanasi-221001.
e-mail: whh55bhu@gmail.com
Mob. 9580698805 & 9451067040
جس طرح ہر شاعر اور ادیب میں کچھ نہ کچھ انفرادیت ہوتی ہے، اُسی طرح زیر نظر کتاب ہندوفرشتہ، اس لیے بھی منفرد ہے کہ اس کتاب کے اچھے خاصے حصہے میں مہابھارت کی اُس مذہبی جنگ کے کچھ لافانی کرداروں کے ضمن میں [کلام پیش] کیا گیا ہے، جو حق پرست، بااصول اور مہابھارت کی جنگ عظیم کے اہم کردار تھے۔ اسی حق پرستی اور اصول پسندی کی وجہ سے کچھ کرداروں کو فریب اور دھوکہ کے سبب ناحق اپنی جان گنوانا پڑی اور کچھ کو اپنی اصول پرستی کے سبب وہ کرنا پڑا، جو سماج میں ناگوار تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ دانشوروں کا قول ہے کہ سمجھ دار وہ لوگ ہیں جو سیاسی اور مذہبی بحث و مباحثہ سے ہمیشہ کنارہ کش رہتے ہیں۔ یہ قول اس لیے درست کہا جاسکتا ہے کہ مذہبی اور سیاسی بحث میں سوائے آپسی تلخی، رنجش کے علاوہ اور کچھ ہاتھ نہیں آتا اور اس کا نتیجہ بھی صفر ہوتا ہے۔ نہ ہی کوئی اپنی سیاسی جہت کو غلط ماننے کو تیار ہوتا  ہے نہ ہی اپنے مذہب کو۔
دُنیا سیکڑوں مذہبوں کا مجموعہ ہے۔ ان کی مذہبی کتب کے مطابق کہیں کچھ یکسانیت ہے تو کہیں ایک دوسرے کے برعکس، مگر اخلاقیات کی تعلیم دنیا کے ہر مذہب میں بہترین پیرایے میں نظر آتی ہے۔ خود اخلاق حسنہ کی تعلیم پر کما حقہُ عمل نہ کرنے والے امام بھی اپنے مامون کو اخلاقیات کی تعلم نہایت پُراثر انداز میں دیتے ہیں، جس کا اثر جگ ظاہر ہے۔ اخلاقیات کی تعلیم ہر مذہب سے ملنے کے باوجود اخلاق حسنہ پر عمل کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اخلاقیات سے کچھ خاص مذہب کا کچھ لینا دینا نہیں ہے بلکہ یہ ایک انسانی تقاضا ہے جو بغیر تفریق مذہب و ملت  اس جذبے کے اصولوں میں یکسانیت نظر آتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مذہب و ملت میں اخلاقیات کو طاق نسیاں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ یہ اقدار اس وقت بری طرح پائمال ہوجا تے ہیں جب کوئی مہتم بالشان ہستی ان قدروں کو پائمال کرتی ہے۔ میرے خطبہ کا موضوع چونکہ دیومالا ہے اس لیے مجھے ان اقدار کے سلسلہ میں شفیق الایمان صاحب کے کلام سے مہابھارت کے چند خاص الخاص کرداروں کا ذکر مقصود ہے۔ اس سلسلہ میں میں سب سے پہلے پانڈووں کے استاذ جناب دروناچاریہ جی کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ احترام کے سلسلہ میں اُس زمانے میں موصوف کی قدر و منزلت سدرة المنتہٰی پر تھی۔ پانڈووں میں ارجن تیراندازی میں ماہر نشانہ باز تھے۔ تیر اور کمان کے ذریعہ نشانے بازی کا علم انھیں دروناچاریہ نے سکھایا تھا۔ استاذ کی حیثیت سے وہ چاہتے تھے کہ تیراندازی میں ارجُن کا ثانی کبھی ممکن نہ ہوسکے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ دنیا میں کوئی بھی تیرانداز ارجُن سے بہتر یا ان کے ہم پلہ ہو، جو فطری ہے۔ فن سپہ گری میں ان کے تمام شاگرد یکتا تھے مگر جب ایک مرتبہ اُن کی ملاقات ایکلویہ نامی ایسے لڑکے سے ہوئی جو کمتر ذات کا تھا، جس کی تیراندازی دیکھ کر ان کا ماتھا ٹھنکا۔ ﴿ایکلویہ کا کُتے پر تیر چلاکر اُسے خاموش کروانے کا واقعہ ملاحظہ فرمائیں﴾۔ اُنھیں چونکہ یقین کامل تھا کہ مستقبل قریب میں یہ لڑکا ارجُن سے بہتر تیرانداز ثابت ہو سکتا ہے، جو انھیں کسی بھی قیمت پر گوارا نہیں تھا۔ اسی خیال کے پیش نظر انھوں نے اُس لڑکے سے پہلے اُس کا نام پوچھا، پھر یہ جاننا چاہا کہ اُس کا استاذ کون ہے، کہا میرے معنوی استاذ آپ ہیں۔ ہرچند کہ آپ کی زیارت کا شرف مجھے آج زندگی میں پہلی مرتبہ ہُوا ہے. میں چونکہ آپ کی شخصیت سے ہمیشہ متاثر تھا اس لیے میں  آپ کی ایک مورت بنا کر اُسی کے سامنے تیر اندازی کی مشق کیا کرتا تھا۔ یہ سن کر گرو دروناچاریہ بہ ظاہر اس سے بہت خوش ہوئے مگر اس خوف سے کہ یہ اُن کے شاگرد عزیز ارجُن سے بہتر ہے، انھوں نے ایکلویہ سے گرودکشنا کی شکل میں اُس کے داہنے ہاتھ کا انگوٹھا مانگ لیا تو ایکلویہ نے فوراً اپنے دست راست کا انگوٹھا کاٹ کر گرو دروناچاریہ کو پیش کر دیا۔ اس طرح جگت گرو دروناچاریہ نے ہندو مذہت کی تاریخ سے بہ حیثیت استاذ، پہلی مرتبہ اخلاقی قدر کو پائمال کیا۔ اس کے بعد تمام عالم میں اُن کا مرتبہ کچھ حد تک کم ہو گیا مگر اُن کی معنوی حیثیت آج بھی اپنے مقام سے ٹس سے مس نہیں ہوئی ہے۔
چونکہ اساطیر اور دیومالا، اُردو شاعری کے اہم لوازمات میں شامل ہیں، اس لیے شاعری میں ان کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے۔ پیش نظر کتاب ھندو فرشتہ، جناب شفیق الایمان صاحب کا ایک ایسا شعری مجموعہ ہے جس میں موصوف نے دیومالائی عناصر کا اچھا استعمال کیا ہے۔ شاید اسی مُناسبت سے انھوں نے کتاب کا نام ہی ھندو فرشتہ منتخب کیا، جو بجا ہے۔ ہندووں کی مذہبی کتاب مہابھارت حق و باطل کے مابین ایک [؟] جس سے کم و بیش ہر ہندستانی کما حقہُ واقف ہے۔ اس جنگ کے کچھ ایسے مشہور و معروف کردار ہیں جن کا ذکر ہندستانی کہاوتوں میں بھی عام ہے۔ ان کرداروں میں جہاں ایک جانب شکونی جیسا چھل، کپٹ کا حامی، غیر اخلاقی کردار ہے، وہیں کورووں کی فوج میں کرن جیسا حق پرست، ایمان دار اور حق کا پُتلا بھی موجود ہے، جسے قتل کردینا اس لیے ممکن ہو سکا کہ دان کرنے [کے] معاملے میں پوری دنیا میں اُس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ ایک چال کے تحت اس سے اس کی زرہ دان میں مانگ کی گئی اور یہ جانتے ہوئے کہ اسے دان کر دینے کے بعد وہ قتل کر دیا جائے گا، پھر بھی اُس نے اپنا سمّان بچانے کے لیے جان کی پرواہ کیے بغیر، اپنی وہ زرہ دان کر دی، جس کی وجہ سے اُس کا قتل ممکن ہو سکا۔
ویسے تو شفیق الایمان صاحب نے مہابھارت کے کئی کرداروں کی دیانت داری اور دیگر خوبیوں کے ضمن میں تقریباً چالیس بہترین اشعار کہے ہیں مگر ان کا خاص ہدف کرن اور پانڈووں کی دَھرم پَتنی دَروپَدی ہے جسے بھگوان شری کرشن جی پَنچالی کہتے تھے۔ سب سے پہلے وہ شعر ملاحظہ ہو جِس کا کلیدی لفظ ہندو فرشتہ موصوف کی کتاب کے سرورق کی زینت بننے کی تمام صلاحیت رکھتا ہے۔﴿ صفحہ ٦۳﴾
خُدا ہی جانے وہ ہندو فرشتہ کون تھا جس نے
مہابھارت کے معصوموں کو چلنے سے بچایا تھا
اصولاً تو شاعر کو اس شعر میں مہابھارت کے معصوموں کا جلنے سے بچانے والے کا نام درج کرنا چاہیے تھا اور یہ بھی کہ جس شخص نے اپنی مسموم ذہنیت کے سبب لاہ ﴿Sealing Vax﴾ کا محل تیار کروا کے اُس میں پانڈووں کو زندہ جلا دینے کی مہم تیار کی تھی۔ وہ باطل پرست کردار، جس کا نام شکونی تھا، یہ سارا کیا دھرا اُسی کا تھا۔ جب اُس کی یہ صراحت مہاتما وِدُر کو معلوم ہوئی تو اُنھوں نے اپنی کوششوں سے ان تمام لوگوں کو آگ میں بھسم ہونے سے بچا یا تھا۔ چونکہ اس واقعہ یا اُن دونوں کا نام ایک شعر میں سمو سکنا مشکل تھا، اسی لیے شاعر نے اس پر زیادہ زور نہ دے کر ، قارئین حضرات کے لیے اِسے معما بنا کر آگے بڑھ گئے۔ بہر حال، حق پرست پانڈووں کے ساتھ شاعر کی یہ ہمدردی بھلی معلوم ہوتی ہے۔
اس کے بعد کتاب کے صفحہ ۲۹ پر چھپا ہوا وہ شعر ملاحظہ فرمائیں، جس میں موصوف نے سماجی بندھن کے ساتھ انسانی انا کی بات کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے:
وہاں سماج کا پہرہ، یہاں انا کی طفنگ
کہیں کرن تو کہیں رضیہ مات کھاتی ہے
کتاب کے صفحہ ۳۵ پر چھپا ہوا [درج] ذیل شعر بھی لائق داد و تحسین ہے۔ اپنے اس شعر میں شفیق صاحب ہندستانی تہذیب کا ذکر تے ہوئے فرماتے ہیں:
اسلام تو مذہب ہے، کہیں سے بھی مِلا ہو
تہذیب ہمیں، رام سے گوتم سے ملی ہے
بہت ممکن ہے کہ اس شعر سے بہت سے لوگ اتفاق رائے نہ رکھیں کیونکہ اس ملک [میں] تو بہت سی تہذیب ہیں۔ اس سلسلہ میں اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ شفیق صاحب [نے] یہاں مذہبی نہیں بلکہ ہندوستانی تہذیب کی بات کی ہے، جو درست ہے۔
شفیق الایمان کا اگلا شعر پیش کرنے سے قبل راقم السطور ان کی شاعری کی ایک بڑی خوبی کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہے۔ شاعری کی تمام خوبیوں کے ساتھ ایک بہت بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف شاعر کو اس طرح پھر جانا چاہئے کہ قارئین حضرات کو درمیانی خلا کا احساس تک نہ ہو جو بہت کم ممکن ہو پاتاہے۔ اکثر شعرا ایک عنوان سے دوسرے کی طرف پھرنے میں کئی کئی اشعار کا سہارا لیتے نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر قصیدے میں گُریز کے موقع پر یہ چیز زیادہ نظر آتی ہے۔ شاعری کی یہ خوبی کوتاہ نظر راقم کو میر انیس کے کلام میں کثرت سے نظر آئی ہے. وہ ایک زمانے سے دوسرے زمانے کی طرف پھرنے کے لیے اضافی اشعار کے محتاج نظر نہیں آتے بلکہ اکثر معجزاتی طور پر ایک دو لفظوں کی مدد سے ہی ایک منظر سے دوسرے منظر یا ایک زمانے سے دوسرے زمانے کی طرف اس طرح پھر جاتے ہیں کہ قاری کو درمیانی پیوند نظرہی نہیں آتا۔ اسی قسم کی خوبیاں قرة العین حیدر کے افسانوں میں بھی نظر آتی ہیں، جو فِکشن میں عام نہیں کہی جاسکتیں۔ اپنے ذیل [کے] شعر میں جناب شفیق الایمان نے ایک بھی اضافی لفظ کا سہارا لیے بغیر اِس طرح تریتا جُگ اور کل جُگ [کو] ایک باریک دھاگے سے باندھ کر پیش کرتے ہیں کہ ان کی چابک دستی پر ناقدین اور مبصرین حضرات حیرت کے سمندر میں غوطہ زن نظر آتے ہیں۔ وہ بیش بہا شعر صفحہ ۹۷ پر ملاحظہ فرمائیں:
بہو وہاں بھی نہ تھی گھر کی بیٹیوں جیسی
تبھی تو اُس کو دُساسن نے بے بلاس کیا
چونکہ کسی بھی جنگ میں فریقین ہر قیمت پر صرف اپنی فتح کے متقاضی ہوتے ہیں، اس لیے اُسے جیتنے کے لیے طرح طرح کے ہَتھ کَنڈوں اور سیاسی داؤ پیچ وغیرہ کے غیر انسانی حرکات و سکنات سے بھی نہیں چوکتے، جسے اخلاقیات کے دشمن کسی بیمار ذہنیت کے شخص نے "جنگ میں سب کچھ جائز ہے“ قرار دیا ہے۔ کسی بھی جنگ میں شرفا کے نزدیک صنف نازک کو ہدف بنانا غیر اخلاقی تصور کیا گیا ہے، مگر دُساسن ﴿کورووں کی طرف کے ایک باطل کردار کا نام﴾ کے دماغ پر ایسا شیطان سوار ہوا کہ اپنی بے عزتی کا بدلا لینے کے لیے اُس نے بھری محفل میں خاندان کی بہو ﴿دروپدی﴾ کی ساڑی، سب کے سامنے اُتارنے کی کوشش کی۔ اگر اُس نازک موقع پر شری کرشن جی نے دروپری کی غیبی مدد نہ کی ہوتی ہو تو اپنی اُس مسموم ذہنیت کا مظاہرہ تو دُساسن نے اپنی طرف سے کر ہی دیا تھا۔ اس ضمن میں شاعر کا یہ ماننا ہے کہ اُس زمانے یعنی تریتا جُگ میں بھی کچھ لوگ بہو کو بیٹی نہیں مانتے تھے اور پرائے گھر کی لڑکی ﴿بہو﴾ پر ہر طرح کے مظالم بے دریغ ڈھایا کرتے تھے۔ دروپری اور آج کی بہو کا ذکر کرتے ہوئے موصوف نے کھلے لفظوں میں اس حقیقت کی طرف ہمارے دھیان کو بڑی کامیابی کے ساتھ متوجہ کیا ہے۔
اگر دُریودَھن کی بدکرداری پر کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اُس کی بری ذہنیت کی وجہ راج محل میں پرورِش پانے اور بے جا دُلار ہے، [اور اسی] سبب [سے] اس کی ذہنیت مسموم ہو گئی تھی تو ایسے حضرات کے منفی خیال کو شفیق صاحب یکسر رد کرتے ہوئے سیدھے سادے انداز میں بھگوان رام اور ان کے بھائیوں کی مثال ﴿صفحہ ۳٦﴾ پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
دُریودھن سا سانپ پلے تو راج محل پر کیا الزام
رام، بَھرت اور لچھمن بھی تو راج محل میں پلتے ہیں
سماج میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہر دور [میں] عوام نے ہمیشہ گذشتہ زمانے کو آج کے مقابلے اچھا اور بہت اچھا مانا ہے۔ میر تقی میر نے اپنے زمانے کے بارے میں فرمایا تھا:
دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار
میرصاحب، زمانہ نازک ہے
تو اُن کے تقریباً سو برس کے بعد میر ببر علی انیس لکھنوی کو بھی اپنے زمانے سے کچھ کم شکایت نہیں تھی۔ وہ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں:
حالات مکدر، کوئی دل صاف نہیں ہے
اس عہد میں سب کچھ ہے پہ انصاف نہیں ہے
میر تقی میر کو سارے زمانے سے شکایت تھی مگر انیس کو منصفی کی شکایت سارے زمانے سے نہیں بلکہ لکھنو کے شعرا  اور اُن جاگیرداروں سے تھی جو ان کے مقابلے مرزا دبیر کی شاعری کو بہتر مانتے تھے۔ خاص طور سے یہ شکایت انھیں شاید نواب واجد علی شاہ سے تھی کیونکہ اُنھیں واجد علی شاہ کے دربار سے داد و دہش کے عنوان سے کبھی نوازا نہیں گیا۔ اس سلسلے میں اگر پروفیسر زماں آزردہ کی مانیں تو مرزا دبیر کو نواب واجد علی شاہ کے دربار سے انعام و اکرام کے عنوان سے سالانہ کم از کم دس لاکھ روپے ضرور ملتے تھے۔ اس کے علاوہ ملکۂ زمانی دبیر کو جو پیش کش فرماتیں وہ اس سے الگ ہوتا تھا۔
جو اشخاص طالب علم اور اساتذہ کے سلسلہ میں آج کے زمانے کو کم تر اور پہلے کے وقت کو بہتر گردانتے ہیں، اُسی کو موصوف ﴿صفحہ۴٦پر﴾ اپنے الفاظ میں کچھ اِس طرح بیان فرماتے ہیں:
استاذ دروناچاریہ سے تھے، اور طلباء اَرجُن سے
تب علم کا مرکز دنیا میں یہ، سورگ کا ہندوستان ہی تھا
موصوف کا درج ذیل شعر ﴿صفحہ۴۹﴾ بھی دروپری کی ہی تعریف میں  ہے۔ پانڈو روز صبح گھر سے نکلتے اور گداگری سے اُنھیں جو کچھ حاصل ہوتا اُسے ماں کے قدموں میں رکھ دیتے تو عام طور پر ماں اپنے بیٹوں سے فرماتی کہ جو کچھ لائے ہو اُسے مِل جُل کر آپس میں بانٹ لو۔ متذکرہ شعر میں اُس روز کا ذکر ہے جب وہ پانچوں بھائی ﴿یدھشٹھر، بھیم، ارجن، سہدیو اور نَکُل﴾ ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں سویم بر ﴿لڑکی کو اپنے پسند کے شوہر کے لیے﴾ کا اہتمام کیا گیا تھا، جہاں دور دراز سے بہت سے راجے قسمت آزمانے آئے تھے۔ لڑکے [کے] سامنے امتحان کا پیمانہ نشانہ بازی طے پایا تھا۔ ایک اونچے کھمبے کے اوپری سِرے پر ایک چکر مسلسل گھورہا تھا، جس میں ایک مجھلی ٹانک دی گئی تھی۔ کھمبے کے نیچے ایک بڑی سے کڑاہی میں تیل کھَول رہا تھا۔ کھولتے تیل میں مچھلی کو دیکھ کر اس کی آنکھ کو تیر کا نشانہ بنانا تھا، جس میں کوئی راج کمار کامیاب نہیں ہو پایا مگر اَرجُن نے اپنی سَدھی ہوئی تیر اندازی سے یہ کام کر دیا اور دروپدی اُنھیں دے دی گئی۔ جب وہ لوگ دُلہن کو گھر لائے اور ماں سے کہا کہ دیکھو ماتا، آج ہم لوگ کیا لائے ہیں تو حقیقت سے نابلد ماں نے عام دنوں کی مانند کہہ دیا کہ جوکچھ لائے ہو اُسے پانچوں بھائی آپس میں بانٹ لو۔ ماں کے حکم کی اولیت کے پیش نظر دروپدی نے بھی اس حکم کی تعمیل کی، جو نہایت دشوار گزار تھا۔ اسی واقعہ کو بیان کرتے ہوئے درج ذیل شعر میں شفیق الایمان، دروپدی کے نباہنے کو کس خوب صورت انداز میں پیش کرتے ہوئے اس حکم کو عجیب تر فرماتے ہیں۔ اس موقع کے لحاظ سے شاید عجیب تر سے بہتر کوئی دوسرا لفظ نہیں ہو سکتا۔ ملاحظہ فرمائیں ﴿صفحہ ۴۹﴾
عجیب تر ہی سہی، ماں کا حکم تھا وہ شفیق
نبھا کے اس کو بتایا، دروپری ہوں میں
دروپدی کے  بڑکپن کے ہی ضمن میں شفیق کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں۔ اُس کی شان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے موصوف فرماتے ہیں کہ جو کچھ دروپدی نے قبول کیا، اُس پر کسی کو اُنگلی اُٹھانے کا حق نہیں ﴿صفحہ۵۰﴾، اس لیے بھلا اس پر کوئی انگلی کیوں اُٹھائے، کیونکہ یہ اُس کی زندگی ہے اور فیصلہ بھی اُسی کا ہے۔ اس مقام پر بھی شفیق صاحب [نے] اس کے حق میں اپنی طرف سے جو دلیل پیش کی ہے وہ لائق ملاحظہ ہے:
بھلا اُنگلی اُٹھائے، کیوں کوئی دروپدی پر
یہ اُس کی زندگی ہے، یہ اُس کا فیصلہ ہے
اگلا شعر رِشی وِشوامِتر کے ریاض کے ضمن میں ﴿صفحہ ۵۷﴾ شفیق صاحب کی عمدہ پیش کش ہے۔ اسے عمدہ اس لیے بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس مقام پر موصوف نے جس طرح ایک کربلائی استعارے کا استعمال کیا ہے، وہ ہر لحاظ سے لائق داد و تحسین ہے۔ وِشوامِتر کی آرادھا [آرادھنا؟] یا ریاض کا ذکر ہندو دھرم گرنتھ میں نہایت عقیدت کے ساتھ کیا گیا ہے. جسے، وہ کربلا کی جنگ کے ایک کردار زین العابدین کی ریاضتوں کے استعارے کے ساتھ نہایت حسن و خوبی سے پیش کرنے میں پوری طرح سے کامیاب ہوئے ہیں۔ شعر ملاحظہ فرمائیں:
وِشوامِتر کا ریاض، مینکا کے سامنے
جیسے اک نحیف جاں، کربلا کے سامنے
سامعین حضرات نے اپنے بچپن میں وِشوامِتر رِشی اور مینکا کی کہانی ضرور پڑھی یا سنی ہوگی۔ مختصراً وِشوامِتر رِشی کا اصل نام وِشو رتھ تھا۔ ہندو دھرم میں چار ورن ہوتے ہیں۔ برہمن، شتریہ، ویشیہ اور شودر ورن۔ ان میں برہمن وَرن کے لوگ سب سے اعلا تصور کیے جاتے ہیں۔ جو برہمن ورن کا رِشی ہوتا ہے، اُسے برہم رِشی کہتے ہیں اور جو شتریہ ورن سے تعلق رکھتا ہے، اُسے راجرشی کہتے ہیں۔ اِسی طرح ورن کے مطابق ہندو مذہب میں برہم رشی کا درجہ بھی بالا تر ہوتا ہے۔ وِشوامِتر رِشی کی دلی تمنا تھی کہ وہ راجرشی سے برہم رِشی بن جائیں، جس کے لیے انھیں ایک خاص تپسیا کے نہایت سخت مرحلہ سے گزرنا تھا۔ جب دیولوک کے بھگوان اِندر کو یہ معلوم ہوا کہ وشوامتر تپسیا کر کے راجرشی سے برہم رشی بننا چاہتے ہیں تو ان کے دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ برہم رشی بننے کے بعد وشوامتر کہیں میرے سنگھاسن پر قابض نہ ہو جائیں اور اسی خوف کے سبب انھوں نے اپنی اِندر سبھا کی ایک حور مینکا اپسرا، جو کہ بلند پایہ رقاصہ تھی، کو اس ہدایت کے ساتھ بھیجا کہ وہ اپنے شان دار رقص سے رشی وشوامتر کی تپسیا کو بھنگ کر دے، اور اندر بھگوان، مینکا اپسرا کے ذریعہ وشوامتر کی پتسیا بھنگ کروانے میں کامیاب ہو گئے۔
شفیق الایمان صاحب کے درج بالا شعر کی یہ بھی بڑی خوبی ہے کہ انھوں نے شعر کے اولیٰ مصرع میں ایک دیومالا کا ذکر کیا ہے مگر تشبیہ کے لیے جس کربلائی استعارے کا سہارا لیا ہے وہ نہایت جاذب و جالب اور ہر نکتۂ نظر سے اعلیٰ اور شاعری کے پیمانے پر کھرا اُترتا ہے۔
اس کے بعد پیش ہے کرن کی سخاوت کے زیر اثر کہا گیا شفیق صاحب کا ایک اور شعر ﴿صفحہ٦١﴾، ملاحظہ ہو:
دان ویر یوں ہی نہیں کہتے ہیں کرن کو
دیوتاؤں کو بھی خیرات دی ہے اس نے
متعدد کتابوں میں کرن کا ذکر اس ضمن میں ملتا ہے کہ دان دینے میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اسی سبب اُسے عوام دان ویر کی کنیت سے بھی یاد کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں یہ اعزاز اس لیے بھی بڑا گردانتے ہیں کہ وہ باطل پرست کورووں کی طرف سے مہابھارت کی جنگ میں حصہ لے رہا تھا۔ کرن کی والدہ کا نام کُنتی تھا۔ کُنتی کو کرن کی دین، سورج بھگوان کا عطیہ مانا جاتا ہے۔ یعنی کہ کرن سوریہ پُتر تھے۔ جب وہ پیدا ہوئے تو ان میں سورج بھگوان کا ایک معجزہ نظر آیا۔ ان کے جسم پر ایک قدرتی زرہ اور کانوں میں کُنڈل تھے۔ انھیں سورج بھگوان کا یہ آشیرواد تھا کہ جب تک یہ چیزیں کرن کے جسم پر موجود ہیں، تب تک انھیں دنیا کا کوئی بھی آدمی مغلوب نہیں کر سکتا۔ مہابھارت کی جنگ میں جب ان پر کوئی بھی غالب نہ آسکا تو پانڈووں کے خیمہ میں ہر کسی کو یہ فکر لاحق ہوئی۔ کرن پر فتح یاب ہونے کے سلسلہ میں بھگوان شری کرشن، جو ارجن کا رَتھ چلایا کرتے تھے، انھوں نے کرن پر فتح یاب ہونے کے لیے ارجُن کو یہ صلاح دی کہ تم اگر کرن پر فتح یاب ہونا چاہتے ہو تو تمھیں اس کی زرہ اور کُنڈر اُتروانا پڑے گا جو کارے دارد کے مترادف ہے۔ اس کی ایک ممکنہ راہ یہ ہے کہ تم غریب برہمن ﴿ارجُن شتریہ تھے﴾ کے بھیس میں کرن کے پاس جاکر اُس سے بھیک کی شکل میں اس کا کوچ اور کُنڈل مانگ لو۔ جب وہ آناکانی کرے تو تم اسے دان ویر کہہ کر اس کی انا کو للکارنا، اس طرح تمھارا کام ہو جائے گا۔ اس ترکیب سے ارجُن نے کرن کی زرہ اور کُنڈل حاصل کیے، جو کرن کی موت کا سبب بنا۔
درج بالا شعر میں شفیق صاحب نے اسی دیومالائی عناصر کا سہارا لے کر ایک بڑی کہانی کو نہایت مختصر انداز میں صرف ایک شعر کی مدد سے پوری کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے، جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
درج ذیل شعر میں ایکلویہ اور گرو دروناچاریہ کا ذکر کرتے ہوئے شاعر نے بدلتی ہوئی اخلاقی قدروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب نہ تو زمانے میں ایکلویہ جیسے شاگرد ہیں اور نہ دروناچاریہ جیسے گرو۔ دروناچاریہ، ایکلویہ کے صرف معنوی استاذ تھے مگر گرودکشنا میں ایکلویہ کا انگوٹھا مانگ لیا۔ یہ بھی اخلاقیات سے گریز کا بدترین نمونہ ہے۔ ایکلویہ سے گرو دکشنا مانگنے کو جو چاہے کہہ لیجیے مگر وہ گرودکشنا ہرگز نہیں تھی بلکہ اسے دروناچاریہ کی زیادتی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
ایک لویہ سا جوان کہاں اب جہان میں
استاذ کو جو اپنا انگوٹھا دے کاٹ کے
ہندو دھرم میں شوہر کے لیے نیک بیوی کو پتی ورتا کہا گیا ہے۔ گویا شوہر اس کا مجازی خدا ہوتا ہے۔ اسی ضمن میں ذیل [کے] شعر میں بتایا گیا ہے کہ گندھاری کا شوہر چونکہ نابینا تھا اس لیے اس کی بیوی نے بھی پتی ورتا اِستری کے دھرم کو مکمل طور پر نبھانے کی غرض سے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی تھی۔ یہ کام کسی بھی عورت کے لیے بہت مشکل ہے کہ اپنے شوہر کی چاہت میں اپنی زندگی خود بھی اندھوں کے مانند گزارے، مگر گندھاری نے یہ عمل پوری دیانت داری سے نبھایا۔ اسی ضمن میں موصوف فرماتے ہیں ﴿صفحہ ۸۸﴾
شوہر ہے اندھا تو میں بھی باندھ لوں پٹّی آنکھوں پر
گندھاری کی سوچ ہے بھاری، دنیا کی ہر ہستی پر
بھیشم پِتامہ بھی کورووں کی طرف [سے] ایک ایسی مہتم بالشان شخصیت کے مالک تھے جس نے تمام عمر قول و فعل اور عہد و پیمان کے ساتھ اپنی زندگی گزاری ہے۔ اُنھیں یہ وَردان تھا کہ موت انھیں تب تک نہیں آسکتی تھی جب تک وہ خود راضی نہ ہوں۔ انھوں نے اپنے قول پر قائم رہتے ہوئے خود اپنی موت قبول کی تھی﴿صفحہ١۰٦﴾
اگلا شعر ملاحظہ ہو. 
یہ ماں کا حکم تھا، مِل بانٹ کر کرو تقسیم
دروپدی نے نبھایا، یہ اس کی عظمت تھی
دروپدی کے ساتھ پانڈووں کی شادی کا قصہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے اس لیے اب اس کی ضرورت نہیں ۔ اس ضمن میں شاعر نے درج بالا شعر میں کہا ہے کہ دروپدی نے جس طرح شادی کو نبھایا، یہ اس کی عظمت تھی کیونکہ اس مقام پر اس نے اس حکم کی لاج رکھ لی تھی جو پانڈووں کی والدہ نے اپنے بیٹوں کو دیا تھا۔ شفیق الایمان صاحب نے اس مقام سے بہ حسن و خوبی گزر جانے کا سہرا دروپدی کے سر رکھا ہے۔
مانا راجہ تھا نابینا، کیا رانی بھی اندھی تھی
دونوں دنیا دیکھ رہے تھے، سنجے کی بینائی سے
پانڈو پیدائشی نابینا تھا۔ جب اس کی شادی ہوئی تو شوہر کی محبت میں اس نے بھی اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیا کہ اس معاملے میں اُس کا نابینا شوہر اس کے مقابلے احساسِ کم تری کا شکار نہ رہے جو شوہر کے لیے ایک بڑی قربانی کے مترادف تھا۔  دنیا دیکھنے کے معاملے میں دونوں ایک جیسے ہو گیے تھے۔ ان دونوں کی زندگی کے کاروبار اسی طرح چلتے رہے مگر جب مہابھارت کی جنگ کا آغاز ہوا تو راجا ہونے کی حیثیت سے پانڈو کے دل میں جنگ کے تازہ حالات معلوم کرنے کی فطری خواہش بیدار ہوئی۔ وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ جنگ کے اختتام کے بعد میدان جنگ سے لَوٹا کوئی خبری اُسے تمام دن کے حالات سے آگاہ کرے بلکہ اس کی دلی خواہش تھی کہ وہ جنگ کے پَل پَل کے آنکھوں دیکھے حالات سے آگاہ ہوتا رہے۔ اُس زمانے میں وہاں سنجے نامی ایک  ایسا شخص بھی موجود تھا جو گھر بیٹھے دنیا جہان میں ہو رہے تمام مناظر دیکھ سکتا تھا. چنانچہ راجا نے سنجے کو حکم دیا کہ وہ روز اس کو میدان جنگ کے ہر پل کی خبر آنکھوں سے دیکھ کر سناتا رہے۔ جب سنجے اسے میدان جنگ کے حالات اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بیان کرتا تھا، اس گھڑی اس کی بیوی گندھاری بھی شوہر کے نزدیک بیٹھ کر تمام حال سُنا کرتی تھی۔ اس شعر میں شاعر نے اسی موقعے کا ذکر کر کے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر راجا نابینا تھا اور اس کی بیوی نے بھی آنکھوں پر پٹی باندھ لی تھی، جس کے سبب دونوں کو کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا تھا پھر بھی وہ لوگ جنگ کے حالات سے پوری طرح باخبر تھے۔ پیغام کے لحاظ سے متذکرہ فکر بھی اچھی ہے۔
دوستی، انسانیت، ایثار اور مہر و وفا
معتبر تھیں جس سے یہ قدریں، کرن تھا اس کا نام
اس مقام پر بھی باطل پرست خیمہ کے سب سے مہتم بالشان کردار کرن کی تمام خوبیوں کو ایک شعر ﴿صفحہ ١۲۳﴾ میں اکٹھا کر کے شفیق الایمان نےجس طرح کرن کے خاصہ کی تعریف کی ہے، وہ بھی لائق ستائش ہے۔ اپنے ذیل [کے] شعر میں بھی موصوف نے دروپدی کی تعریف کا ایک موقع از خود اختراع کر لیا اور اس کی خوبی کا احاطہ کرتے ہوئے نہایت مثبت طریقۂ بیان سے پنچالی کے انسانی جذبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بتانے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ اس نے اپنے اخلاقی جذبے کے تحت ماں کی حکم عدولی سے انکار کرتے ہوئے اس کے قول کو اس لیے نبھایا کہ ان لوگوں  کے دل تو پہلے سے ہی ٹوٹے ہوئے تھے، اس لیے بھلا اُنھیں وہ اور رنجیدہ کیوں کرتی۔ وہ عمدہ شعر﴿صفحہ ١۳١﴾ملاحظہ ہو:
پنچالی بھی اندھی ماں کے قول کے آگے تھی مجبور
پہلے سے وہ ٹوٹے دل تھے، اور شکستہ کیا کرتی
اسی ضمن میں شاعر کے چند اور اشعار ملاحظہ ہوں جہاں انھوں نے اپنی قوت متخیلہ اور قوت اختراع سے کئی لائق داد و تحسین گوشے شعر کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیے ہیں۔ اِن اشعار میں بھی جود و کرم، سخاوت، درگزر، پیار، ایثار اور وفا کے ساتھ اخلاقی قدروں کے ایسے عمدہ نمونے پیش کیے ہیں جو قابل ستائش ہیں۔ ملاحظہ ہوں:
انا کی جنگ میں بیٹوں کی بھی نہ کی پروا
دروپدی میں جو غیرت تھی وہ کہیں بھی نہیں
۔۔۔۔۔
گندھاری نے آنکھ پہ پٹّی باندھی تب یہ راز کُھلا
دنیا میں اکثر بہنوں کو مات ملی ہے بھائی سے
۔۔۔۔۔
سیتا آخر عورت ہی تھی، ڈال دیتی کیوں ہتھیار
وہ لمحے جو بیت چکے تھے، ان کا پیچھا کیا کرتی
۔۔۔۔۔
تو کیوں یہ اتنی الجھی الجھی، گر مری آنکھوں میں ہے نمی سی
اک میں کیا ہوں دروپدی کے دُکھ پر، کرشن بھی تو رو پڑے تھے
۔۔۔۔۔
پیار، ایثار و وفا، جود و کرم اور اخلاص
یہ سب اوصاف ہو جس میں، وہ کرن ہوتا ہے
۔۔۔۔۔
رسموں کے قیدی تھے ورنہ، خود وہ تماشہ کیوں بنتے
رسمیں ہی تھیں جن کے چلتے، پنچالی کا مان گیا
۔۔۔۔۔
شفیق الایمان کی منفرد شاعری سے متاثر ہو کر میں نے زیر مطالعہ مجموعہ میں اس قسم کے اشعار تلاش کرنے کی لاحاصل کوشش کی جس کے لیے علامہ شبلی نعمانی شاعری کی خوبی کے ضمن میں موازنہ انیس اور دبیر میں فرماتے ہیں کہ
۔۔۔۔۔نظم کا در حقیقت سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ اگر اُس کو نثر کرنا چاہیں تو نہ ہوسکے اور یہ اسی وقت
ممکن ہو سکتا ہے جب شعر میں الفاظ کی وہی ترکیب باقی رہے جو نثر میں عموماً ہُوا کرتی ہے۔ اس بناء پر شاعر
کو کوشش کرنا چاہیے کہ اگر اصل ترکیب پوری پوری قائم نہیں رہ سکتی تو بہر حال اس کے قریب قریب
پہنچا جائے۔ جس قدر اس کا لحاظ رکھا جائے گا، اسی قدر شعر زیادہ صاف، برجستہ، رواں اور ڈھلا ہوا ہوگا اور اردو میں جہاں تک ہم کو معلوم ہے یہ صفت میر انیس صاحب سے زیادہ کسی کے کلام میں نہیں پائی جاتی۔
ہندوفرشتہ کا شاعر میرے نزدیک اس لیے بھی پسندیدہ ہے کہ اس کے متذکرہ اشعار مذہبی شاعری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس حقیقت سے شاید ہی کسی کو انکار ہو کہ مذہبی شاعری کا کینوس، ادب کے مقابلے بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ مذہبی شاعری کا کینوس چھوٹا ہونے کے سبب اکثر شعرا حضرات کو اس میں شاعری کے ہر قسم کے لوازمات کو آسانی سے سمو سکنا کارے دارد کے مترادف ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج مذہبی شاعری کے بہت بڑے بڑے ذخائر [کی طرف] اکثر ناقدین متوجہ نہیں ہوتے۔ مذہبی شاعری کے سلسلہ میں جہاں تک ہم کو معلوم ہے، ان میں چند نام ہی ایسے ہیں جنھیں بین الاقوامی سطح پر بڑی شہرت حاصل ہوئی ہے۔ اِن میں انگریزی ادب کے مِلٹن کی تخلیق پَیراڈائز لاسٹ کے علاوہ ہندی ﴿اودھی﴾کے سب بڑے شاعر تلسی داس اور اردو شاعری میں میرانیس اور فارسی میں حکیم ابوالقاسم فردوسی سر فہرست نظر آتے ہیں۔ اِن لوگوں کے ایپِک کو دنیا بھر میں بڑی عزت حاصل ہے. جب کہ میر انیس کے کلام کو ایپک پاروں کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ بہر حال، ان سے قطع نظر کر کے اخیر میں میں شفیق الایمان صاحب سے امید کرتا ہوں کہ وہ بھی آنے والے وقت میں دیومالائوں کے سلسلہ میں کوئی بڑا کام ضرور کریں گے۔ ان کے لیے میری نیک خواہشات اور دعائیں۔
***

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے