گوا: رنگا رنگ طلسمی سنگم

گوا: رنگا رنگ طلسمی سنگم

فوزیہ رباب
(گوا، انڈیا)

میری پیدائش احمدآباد میں ہوئی۔ میری ماں اصلاً سیوہارہ اور بعد میں دیوبند آگئی تھیں اور باپ دادا بجنور کے رہنے والے تھے۔ میں بھی بجنور ہی بیاہی گئی:
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
لیکن تبدیلیوں کا طوفان اس قدر شدید ہے کہ اس نے کہاوتوں کو بھی تہہ و بالا کردیا ہے۔ اب خاک اپنے خمیر میں کہاں رچتی بستی ہے، بلکہ خاک کے پاؤں تو ہجرتوں کے غبار میں اٹے ہوئے ہیں۔ سو ہمارا اگلا ٹھکانہ 2010ء کو گوا ٹھہرا۔
گوا جنوب مغربی ہند کے سواحل میں ایک جادوئی جزیرہ ہے، جس نے مجھے موہ لیا۔ اب میں گوا میں بستی ہوں اور گوا بھی مجھ میں بستا ہے۔ یہ خطۂ کوکن کہ اس کے آثار ہمیں ماقبل تاریخ میں پتھروں کے عہد تک لے جاتے ہیں۔ اس نے کتنے راجا مہاراجاؤں، شہنشاہوں اور نوآبادیات کاروں کی فتح و شکست کی تواریخ اپنی آنکھوں کے سامنے رقم ہوتی دیکھی ہے۔ وقت کی تیز و تند آندھیوں نے گوا کو کس کس طرح الٹ پلٹ کیا۔ گوا کے کتنے نام بدلے؟ گوا کا جغرافیہ، تاریخ، تہذیب، زبان اور  قوموں کی آمد و رفت نے اس کی مٹی کو کیسا دل کش آمیزہ بنادیا۔
تاریخ کے الگ الگ ادوار میں گوا کے الگ الگ نام رہے۔کبھی گومنچلہ تو کبھی گوپاکا پٹّنا، گوپاکا پٹّم، گوپا کاپوری، گوبھاپوری، گوبھم، گومنتک، سندا پور اور مہسّا پٹم وغیرہ….ناموں سے گوا کو موسوم کیا گیا۔ یہ کوئی حیرت کی بات بھی نہیں۔ اس لیے کہ نام اور سکہ اسی کا چلتا ہے، جس کے ہاتھ میں اقتدار ہو۔ نام بے وجہ نہیں ہوتا۔ نام کے پیچھے کسی قوم اور تہذیب کی ایک تاریخ ہوتی ہے۔ مقتدر اقوام اپنی پسند، اپنے ذوق اور اپنے جمالیاتی اور اساطیری تصورات کی بنیاد پر کسی خطۂ ارضی کوایک نام دیتی ہیں اور ماتحت و محکوم قومیں اس کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔
تبدیلی ہستی کی فطرت ہے۔ اس عمل کا تھم جانا نیستی کی دلیل ہے۔ سب کچھ بدلتا ہے، تاریخ بدلتی ہے، قومیں، تہذیبیں، زبانیں اور قدریں بدل جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ جغرافیہ بدل جاتا ہے۔ آج جہاں پہاڑ ہے، لاکھوں برس قبل سمندر تھا اور جہاں سمندر ہے، کبھی پہاڑ تھا۔ خلقت کی ایک حقیقت اور بھی مسلم ہے کہ تبدیلی کے ساتھ یہاں اختلاط و انضمام کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔خالص کچھ بھی نہیں، سب کچھ مخلوط ہے۔ انسان، اقوام، تہذیب، زبان، کوئی چیز مکمل طور پر غیر خالص نہیں۔ ایک قوم کتنی قوموں کے اتصال سے بنتی ہے اور اسی طرح ایک تہذیب اور زبان کتنی آمیزشوں سے وجود پذیر ہوتی ہے، کبھی کبھی اس کا تعین شعبہ ہائے علوم و فنون کے بس میں بھی نہیں ہوتا۔
گوا بھی اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں۔ گوا میں ہمیں Rock Art کی شکل میں حجری عہد کے آثار بھی ملتے ہیں۔ تیسری صدی قبل مسیح میں گوا موریہ سلطنت میں شامل تھا۔ پہلی صدی عیسوی میں کولہا پوری ستواہانا خاندان کی حکمرانی رہی۔ پھر چلوکیہ سلاطین کے زیرِ نگیں آگیا۔ پھر چودہویں اور پندرہویں صدی میں کبھی دلی سلطنت، کبھی بہمنی سلطنت اور کبھی بیجاپوری بادشاہ عادل شاہ نے گوا کو فتح کیا۔
لیکن 1510ء گوا کی سیاسی اور تہذیبی تاریخ کا سب سے اہم انقلاب آفریں موڑ ہے، جب پرتگالی پہلے تو صرف مسالے بیچنے کے لیے گوا آئے پھر دیگر نوآبادیاتی طاقتوں کی طرح انھوں نے بھی منظم حملہ کرکے مغلوں کو شکست دے کر گوا کو باقاعدہ اپنی کالونی بنالیا۔ نوآبادیات یا استعماریت کے اثرات کا مطالعہ یہاں مقصود نہیں۔ لیکن اتنی بات تو بہت صاف ہے کہ محکوم قوم اپنی حاکم طاقت سے اس قدر مغلوب ہوجایا کرتی ہے کہ وہ ہر طرح سے غلامی کی شکار ہوجاتی ہے۔ سب سے بڑی غلامی ذہنی اور نفسیاتی محکومیت ہے۔ چنانچہ محکوموں کے سامنے معیار قائم کرنے کا پیمانہ آقا اور حاکم کا تمدن ہوتا ہے۔ حاکم کی طرزِ بود و باش، ملبوسات، ماکولات و مشروبات، زبان اور تہذیب، محکوم قوم ہر چیز کی فخریہ نقالی کرتی ہے اور اپنی ترقی و فلاح اور مہذب ہونے کا معیار اسی کو بنالیتی ہے۔ چنانچہ گوا کے مقامی باشندوں پر بھی پرتگالی استعماری اثرات بہت گہرے طور پر مرتب ہوئے۔ اس کے نقوش اتنے اندر تک مرتسم ہوگئے کہ آج بھی پرتگالی تہذیب و ثقافت گوا پر غالب محسوس ہوتی ہے۔
ہندستان کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں گوا کا معاملہ اس لیے بھی مختلف ہے کہ پورا ہندستان برطانوی استعمار کے چنگل میں تقریباً ڈیرھ سو برسوں تک رہا اور پندرہ اگست 1947ء کو ہندستان، فرنگی سامراج سے آزاد ہوگیا۔ لیکن گوا پر انگریزوں کے بجائے پرتگالیوں کا تسلط رہا اور اس کے غلبے کی مدت 451 برس رہی۔ 19 دسمبر 1961 کو نہرو جی کے دور میں پرتگالیوں کا مسلح محاصرہ کرکے انھیں گوا سے دست بردار ہونے پر مجبور کردیا گیا اور ہندستان کے ساتھ گوا کا الحاق ہوگیا۔ لیکن گوا کو باضابطہ ریاست کا درجہ 30 مئی 1987 کو حاصل ہوا۔ یہ رقبے کے اعتبار سے ہندستان کی سب سے چھوٹی اور آبادی کے لحاظ سے چوتھی چھوٹی ریاست ہے۔ گوا کی یہ تاریخ نظر میں رکھیے اور پھر اس کا نقشہ دیکھیے تو اس مٹی کی بو باس سمجھ میں آتی ہے۔
یہ علاقہ جغرافیائی طور پر کوکن سے وابستہ ہے۔ اس کی سرحدیں مہاراشٹر، کرناٹک اور بحر ہند سے متصل ہیں۔ دکن کے پٹھار اور سمندری سواحل نے گوا کو ایک الگ شکل عطا کی ہے۔ گوا کا سب سے زیادہ روشن امتیاز یہ ہے کہ کثرتوں اور رنگارنگیوں کا ایک طلسمی سنگم ہے۔ جزیرے، پہاڑیاں، سمندر، میدانی علاقے، حد نگاہ تک ناریل کے پیڑوں کا سلسلہ، رم جھم بارش اور نمی آلود ہوا…. پھر اس پہ کوکنی، مراٹھی، انگریزی، تلگو، گجراتی، ہندی زبانیں بولنے والی قومیں…..عیسائی، ہندو، پارسی، مسلم، جین، بودھ اور سکھ مذاہب کے لوگ…..اور پھر اسی سنگم سے پھوٹنے والی تہذیب، گوا کو ہندستان کے دیگر مقامات سے ممیز کرتی ہے۔
گوا کیسی بھرپور باغ وبہار دھرتی ہے۔ یہاں کی صاف شفاف ندیاں زواری، منڈووی، ٹیری کھول، چاپورہ، گالگی باغ اور کمبر جوا کینل مختلف مقامات سے اٹھلاتی بل کھاتی، سیراب کرتی گذرتی ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہاں 1512 انواع کے پودے، 275 قسم کے پرندے، 48 طرح کے جانور اور 60 اقسام کی مختلف رینگنے والی خلقت پائی جاتی ہیں۔
مولیم اور انموڈ نامی قدیم ترین پٹھاروں نے گوا کو اور زیادہ خوب صورت بنادیا ہے۔ دور تک تاحد نگاہ سفید ریت کے سواحلِ سمندر کا نظارہ ایک الگ رومانوی دنیا میں لے جاتا ہے۔ گوا، سمندر، سیاحت اور رومان، میرے تصور کی لغت میں یہ چاروں الفاظ ہم معنی ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک لفظ بھی سنتی ہوں تو بے ساختہ بقیہ تینوں تخیل کے پردے پر رقص کناں ہوجاتے ہیں۔ گوا کے درجنوں سمندری سواحل بین الاقوامی سیاحوں کو اپنی طرف بہا لاتے ہیں۔ کولوا، پولولیم، کالنگوٹ، میرامار، باگا، انجنا اور ڈونا پول ایسے طلسماتی ساحل ہیں، جہاں کا صاف شفاف پانی آئینۂ آب دار کو شرماتا ہے۔ ان سمندری کناروں پر سیاحوں کے عجیب و غریب دل کش و دل فریب آبی کھیلوں کا منظر کتنا من موہنا اور لبھاؤنا ہوتا ہے۔ کہیں ونڈ سرفنگ تو کہیں واٹر اسکیئنگ، کیکنگ، گھٹنے بورڈنگ، اسکوبا ڈائیونگ، کیلے کی سواری، پیرا سیلنگ اور ویک بورڈنگ جیسے دل چسپ و دل ربا کھیلوں سے ان ساحلوں کا ماحول بے حد رومانی ہوجاتا ہے۔ بلکہ ڈونا پول بیچ کو تو عاشقوں کی جنت بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا نیم تاریخی، نیم داستانی پس منظر یہ ہے کہ پرتگالی وائسرائے کی بیٹی ڈونا پول ایک مچھیرے پر فریفتہ ہوگئی، لیکن وائسرائے نے مچھیرے سے اس کی شادی سے انکار کردیا، اس سے دل برداشتہ ہوکر ڈونا پول نے سمندر میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔ اس سانحے کے بعد یہ ساحل ڈونا پول بیچ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ ڈونا پول بیچ کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ گوا کی دو مشہور ندیوں زواری اور منڈووی کا سنگم بحرِ عرب کے اسی ساحل پر ہوتا ہے۔ گوا کے ان سواحل کی بے پناہ رومان انگیز فضا کے سبب بہت سی بالی وڈ فلموں کی شوٹنگ بھی یہیں ہوا کرتی ہے۔
سیاحوں کے لیے ڈونا پول بیچ سے قریب کچھ اور اہم سیاحیاتی مقامات ہیں۔ مثلاً نیشنل اوسینوگرافی انسٹی ٹیوٹ، کابو راج نواس، سالم علی برڈ سینکچویری اور ریس ماگوس چرچ وغیرہ…
گوا کی سیر کے لیے لطف انگیز موسم نومبر تا فروری ہے۔اس کے علاوہ ایام میں شدید رطوبت زدہ گرمی یا موسلا دار بارش ہوتی رہتی ہے۔ یہاں کا موسم واقعی معشوق صفت ہوتا ہے۔ یعنی محبوب کی طرح اس کا بھی کچھ بھروسا نہیں کہ کب اچانک تیز بارش ہونے لگے اور کب جان لیوا گرمی پڑنے لگے۔ یہاں کا موسم ہندستان کے دیگر مقامات سے مختلف بھی ہے۔ مثلاً جب ہر جگہ شدید سردیوں کا موسم ہوتا ہے، گوا میں اس وقت معتدل آب وہوا رہتی ہے اور جب پورے ہندستان میں سخت گرمی پڑرہی ہوتی ہے، یہاں کا موسم خنک اور خوش گوار ہوتا ہے۔
ماکولات و مشروبات میں ناریل، کاجو، کاجو مصالحہ، کاجو فینی، چاول، گنا، اننناس، آم اور کیلا یہاں کی خاص پیداوار ہے۔ یہاں کے لوگ چاول مچھلی بہت پسند کرتے ہیں۔ جھینگا مچھلی کا سالن یہاں کا مقبول ڈش ہے۔
یہاں کا آرٹ، تیوہار، فنِ تعمیر اور ثقافتی مظاہرے دیکھیے تو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ مشرق و مغرب کا ایسا سنگم ہندستان میں کہیں اور نظر نہیں آتا۔ آرٹ میں دکنی، فگدی، کوری ڈنہو اور مانڈو بہت مشہور ہیں۔
تیوہاروں میں کرسمس، ایسٹر، کارنیول، دیوالی، شیگمو، چاوتھ اور دسہرہ دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ ان خوش گوار موقعوں پر پورا گوا جاگ اٹھتا ہے۔ تمام رنگ، روشنی، خوشبو اور ذائقے بیدار ہوجاتے ہیں۔
طرزِ تعمیر میں عثمانیوں اور پرتگالیوں کا عجیب خوش آہنگ امتزاج نظر آتا ہے۔ یہاں کے قدیم چرچ اور مندر اپنے فنِ تعمیر اور قدیم آثار کے نہایت اعلا نمونے ہیں۔بوم جیسس کیتھیڈرل، نیو ویکس میزیم اور بوم جیسس بیسیلیکا یہاں کے اہم آثارِ قدیمہ ہیں۔ قلعوں میں ٹیرا کول، چاپورہ، کورجیم، اگواڈہ، ریس ماگوس اور نانوس کی اپنی ایک تاریخی اہمیت ہے۔ مندروں میں شانتا درگا ٹیمپل، منگیشی ٹیمپل اور شری دامودر ٹیمپل بہت مشہور ہیں۔
لیکن سچ تو یہ ہے کہ گلوبلائزیشن نے ساری دنیا کو تقریباً ایک ہی رنگ میں رنگ دیا ہے۔ اب مشرق و مغرب کہیں بھی چلے جائیں کھانا پینا، اوڑھنا پہننا، رہن سہن یہاں تک کہ انگریزی زبان کے عام استعمال نے پوری دنیا کو ایک گاؤں بنا دیا ہے، جہاں کسی بھی ملک اور مقام میں کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں ہوتی۔ کہنے کو تو گلوبلائزیشن دنیا کے ہر رنگ، ہر کلچر، ہر زبان اور ہر شے کو عالمی سطح پر پھیلا دینے کی آزادی کا نام ہے۔لیکن گلوبلائزیشن کے پردے میں دراصل امریکی نواستعماریت کو فروغ دیا جارہا ہے۔ امریکی مصنوعات اور کلچر نے ساری دنیا کے تمام رنگوں کو نگل لیا اور اس نے ہرجگہ اپنا رنگ تھوپ دیا ہے۔ گوا چوں کہ بنیادی طور پر ایک خوب صورت سیاحتی ریاست ہے، لہٰذا یہاں گلوبلائزیشن کا تسلط بہت نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ اس نے یہاں کی مقامیت کو تاراج کردیا ہے۔
گوا کی ایک امتیازی حیثیت یہ بھی ہے کہ شاید ہندستان میں جدید عصری اور مغربی علوم و فنون کے ادارے سب سے پہلے یہیں قائم کیے گیے۔ مثلاََ 1542ء میں پرتگالیوں نے ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد ڈالی جہاں ہندستان کے پہلے پرنٹنگ پریس کی داغ بیل پڑی اور وہیں سے 1556ء میں ہندوستان کی پہلی کتاب بھی شائع ہوئی۔
یہاں کا بیکری نظام بہت مستحکم ہے۔ یہاں کا پاؤ مشہور ہے۔ اگر گلی میں پرانے دور کے انداز کا بھونپو بجنے لگے تو سمجھ جائیں کہ پاؤ بیچنے والا آیا ہے۔لوگوں میں سادگی بہت ہے۔ تصنع نہیں ہے۔ لوگ پڑھے لکھے ہیں۔ کاروباری ذہن بالکل نہیں ہے۔
مقامی لوگوں کے پاس جائیدادیں بہت ہیں۔ مقامی لوگ کھیتی کرنا اور سرکاری نوکری پسند کرتے ہیں۔ نتیجتاً یہاں کے کاروبار میں زیادہ تر گجرات، مہاراشٹر اور کرناٹک کے لوگ حاوی نظر آتے ہیں۔ لوگ یا تو اعلا طبقے سے ہیں یا اعلا متوسط ہیں۔ یہاں غربت برائے نام ہے۔لوگوں کا مزاج ذرا اپنے کام سے مطلب رکھنے والا ہے، کسی کے معاملے میں بےجا دخل نہیں دیتے۔ سب سے زیادہ عیسائیوں کی آبادی ہے۔
یہاں کرشچن اسکول بہت زیادہ ہیں اور معیاری بھی ہیں۔ یہاں کے لوگ طبعاً ایمان دار، دیانت دار اور مذہب پسند ہوتے ہیں۔ لوگ بہت شائستہ طبع ہوتے ہیں۔ کوئی چیختا، چلاتا اور غصے میں نظر نہیں آئے گا۔ اصول پسندی بہت ہے۔ مثلاً ہر شخص ماسک اور ہیلمیٹ کی پابندی کرتا ہے۔ عیسائی عورتیں خاص قسم کا لباس پہنتی ہیں جو گھٹنوں تک ہوتا ہے اور مراٹھی عورتیں ساڑیاں پہنتی ہیں۔ مراٹھی خواتین بھاری زیورات میں لدی پھندی دکھائی دیتی ہیں۔ گھر عموماً بڑے اور بنگلہ نما ہوتے ہیں۔ یہاں اگر کسی کے پاس ذاتی سواری نہ ہو تو پریشانی ہوتی ہے، چوں کہ ہرجگہ رکشہ، آٹو، یا ٹیکسی نہیں ملتی، بلکہ مخصوص اسٹینڈ پر ہی اس کی سہولت ہوتی ہے۔ یہاں ٹیکسی کی طرح بائیک بھی کرائے پہ ملتی ہے، جس کو پائلٹ کہتے ہیں۔
گوا میں اردوداں طبقہ بہت محدود ہے۔ فقط مدرسوں یا مسلمانوں میں اردو بولی جاتی ہے، ان کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ یہاں میرے علاوہ شاعر صرف ایک ہے، وہ بھی گمنام۔ ویسے بھی یہاں اردو زبان و ادب کے حوالے سے امکانات بہت روشن ہیں اور یہاں اس کی فضا سازی پر توجہ کی ضرورت ہے۔ مثلاً اسکولوں میں پانچویں تک اردو تعلیم کی سہولت تو ہے لیکن اس کے بعد اردو پڑھانے کا انتظام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں اردو نصاب کی کتابیں بھی مہیا کی جانی چاہئیں۔ ریاستی حکومت کی جانب سے اردو اکادمی کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے۔ اس جانب قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان اور اہلِ اردو اگرتوجہ کریں تو گوا میں اردو کا مستقبل روشن ہوسکتا ہے۔ کاش یہاں اردو کا کوئی پبلشر ہوتا۔یہاں سے اردو کا کوئی اخبار نکلتا اور کوئی رسالہ جاری ہوتا۔
اردو زبان و ادب کے حوالے سے یہ باتیں صرف باتیں ہی نہیں بلکہ میرا دیرینہ خواب بھی ہیں، جنھیں تعبیر عطا کرنے کے لیے میں اپنی بساط بھر کوشش بھی کررہی ہوں۔
***
فوزیہ رباب کی گذشتہ تخلیق : ہمارا ہندوستان

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے