ٹوٹی ہوئی سیڑھی

ٹوٹی ہوئی سیڑھی

ڈاکٹر انوارالحق

بہت سے لوگ ساتھ تھے میرے
مسکراتے ہوئے، مرا حوصلہ بڑھاتے ہوئے
خوش تھا میں بہت!
ترقی کی پہلی سیڑھی پر قدم جمایا
آگے بڑھا، پھر دوسرا قدم، پھر تیسرا قدم
تھوڑی اونچائی پر جاکر نیچے دیکھا
جو لوگ میری کامیابی کی دعائیں مانگتے تھے
کہیں نظر نہیں آئے
سب خوش چہروں کے رنگ بدل گئے تھے
چیسے جیسے میرے قدم اوپر بڑھتے گئے
نیچے کھڑے حوصلہ بڑھا رہے لوگ کم ہوتے گئے
چہ می گوئیاں ہونے لگیں
کیسے اس شخص کو نیچے لا یا جائے
جو ہمیں خوش دیکھنا چاہتے تھے،
اب نیچے دیکھنے کی تمنا کرنے لگے
میں سیڑھی پر ایک اور قدم اوپر چڑھا
وہ چند لوگ جو ساتھ تھے،
اب ہجوم میں تبدیل ہو چکے تھے
ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا
سب نے بیک وقت سیڑھی پکڑ کر ہلانا شروع کیا
میرے قدم ڈگمگانے لگے
میں نے دیکھا، میری خوشی کبھی جن کی خواہش تھی
میری خواہش جن کی خوشی تھی، وہ بڑے مایوس تھے
ان کی سب سے بڑی فکر تھی، کہ میں آگے بڑھ رہا تھا.
میں ثابت قدم ہوا
میں اکیلا تھا
میں اوپر تھا
نیچے، ہمارے اپنے، دشمن، ہمدرد، قریبی، فریبی سب
اب ان میں کوئی فرق نہیں تھا
ایک عورت کونے میں بیٹھی
اپنے آنچل میں اپنا چہرہ چھپائے
بے بس، دعا میں ہاتھ اٹھائے
ہاتھوں پر آنسو کی بوندیں
خدارا سیڑھیاں مت ہلاؤ!
اس نے تمھارا کیا بگاڑا ہے؟
مگر نیچے کھڑے لوگوں کی بھیڑ بڑھتی گئی
اب اس میں ہمارے پڑوسی بھی تھے
دوست، احباب، رشتے دار بچے، بوڑھے سب
بیک زبان بولے، سیڑھی کو زور سے ہلاؤ
اس کو نیچے لاؤ!
اس عورت نے اپنا کلیجہ پیٹنا شروع کر دیا
خدا را یہ ظلم نہ کرو!
میں ٹھہر گیا، رک گیا
ایک قدم نیچے رکھا
سارے اپنے بیگانے خوش ہوئے
ان کی خوشیوں کی خاطر میں نیچے اتر آیا
اس عورت نے مجھے تھاما
اس کی گود میں، میں نے سر رکھا. بہت سکون ملا
جب سر اٹھایا تو بھیڑ جا چکی تھی، وہاں کوئی نہیں تھا
وہ عورت ٹوٹ چکی تھی، اس کا جسم ٹھنڈا ہو چکا تھا
اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے کچھ قطرے
باہر آکر جم گئے تھے. وہ اب اس دنیا سے باہر قدم رکھ چکی تھی.
اب وہاں کوئی نہیں تھا. نہ ہجوم، نہ وہ عورت!
ہر طرف اندھیرا، ایک ٹوٹی ہوئی سیڑھی اور میں!!!
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :اک نظم جو ماچس نہ بن سکی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے