کتاب: متن کے آس پاس

کتاب: متن کے آس پاس

مسعود بیگ تشنہ
موبائل: 9981377933

‘شعر شور انگیز` کو سوالات کے گھیرے میں کھڑا کرنا نہ صرف بے باکانہ قدم ہے بلکہ مستحسن بھی کہ ان سوالات کی گونج میں نئے نغمے نکلنے کے واضح امکانات نظر آتے ہیں. میں مضمون نگار کی انتقادی منطق سے خود کو ہم آمیز پاتا ہوں. سلمان عبد الصمد کا انتقادی، منطقی، تشریحی و توضیحی ذہن بہت صاف و شفاف ہے. (مسعود بیگ)….. اندرون فلیپ کَوَر پر یہ نوٹ راقم الحروف (مسعود بیگ تشنہ) کا ہی لکھا ہوا ہے. سلمان عبد الصمد کی تحاریر میرے مطالعے میں رہتی ہیں اور میں بلا جھجھک اور برملا اپنے تاثرات کا اظہار کر دیتا ہوں. شمس الرحمن فاروقی کی کتاب ‘شعر شور انگیز` پر سلمان عبد الصمد کا وقیع مضمون ” ‘شعر شور انگیز` سوالات کے گھیرے میں” پر میرے یہ تاثرات اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں جو اب اس کتاب کے اندرون فلیپ کور نوٹ کا حصہ ہیں.
نوجوان فکشن نگار اور ناقد سلمان عبد الصمد کا انتقادی طریقۂ کار خود اعتمادی سے بھرپور اور تازگی بخش ہوتا ہے. نقد وہ میدان ہے جس میں کسی کا حرفِ نقد حرفِ آخر نہیں ہوتا ہے نہ ہو سکتا ہے. خود اعتمادی کے خمار میں دیگر ناقدین اور اہل الرائے کا ذکر شائستگی اور معروضیت کے ساتھ ہو تو اظہارِ نقد کے وقار میں اضافے کا باعث بن جاتا ہے. وہیں دوسری اور دیگر ناقدین کے ذکر کے تعلق سے الفاظ کی تیزابیت خود اپنی ذات اور اپنے سرمایۂ نقد کو جھلس کر رکھ سکتی ہے. امید ہے کہ سلمان عبد الصمد دیگر ناقدین کے سلسلے میں مزید محتاط رویّہ اپنائیں گے.
‘متن کے آس پاس` جیسا کہ نام سے ظاہر ہے متن کی انتقادی قراَت ہے. یہ تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے. کل سترہ تنقیدی مضامین /مقالہ جات اس کتاب میں شامل کیے گئے ہیں جو گذشتہ دس سال میں مصنف کے ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کے دوران اور بعد میں لکھے گئے ہیں. بہ قول مصنف یہ مجموعہ شاعری، فکشن، تنقید اور صحافت کے متعلقات پر ہے.
کتاب کی تمہید و تقریظ میں مصنف سلمان عبد الصمد کی ‘باتیں دل کی` دل سے زیادہ ‘ذہن کی باتیں` لگتی ہیں اور ان کے نفسیاتی و ذہنی تفکّرات و تعرّضات کو سامنے لاتی ہیں. اشتمالات میں پہلا مضمون ‘خسرو کا ہندوی کلام اور اشکالات` مختصر اور تشنہ ہے جب کہ آخری مضمون ‘اظہار و ترسیل` علاقائی تناظر اور صحافت` خاصا دل چسپ اور بھرپور ہے.
‘ اقبال کا تصورِ فرد اور سماج` میں مضمون نگار نے کوئی نیا نظریہ پیش نہیں کیا ہے. یہ ملّی اجتماعی اسلامی شعور کی ہی بانگی دکھائی اور سنائی دیتی ہے. ‘مجالس النساء کی قراءت` بہت وقیع مضمون ہے اور بالکل نئے انداز سے حالی کے ناول مجالس النساء کی قراءت کی گئی ہے. سلمان عبد الصمد کا اسے ناول کہنے پر اصرار معروضیت رکھتا ہے. ‘مکتوباتِ اکبر کا تنقیدی جائزہ` میں مضمون نگار نے مکتوب نگاری کے فن کو پوری طرح سمیٹتے ہوئے اپنے نفسِ مضمون سے انصاف کیا ہے. "ناول ‘دھوپ چھاؤں` کا تجزیہ" میں سہیل عظیم آبادی کے اس ناول کے تعلق سے سلمان عبد الصمد رقم طراز ہیں:
دھوپ چھاؤں کو ہم تاریخی ناول نہیں قرار دے سکتے ہیں. البتہ وہ فکری ارتداد، انحرافی اقدار اور عالمی افکار کے تصادمات کا ایک تخلیقی استعارہ قرار پا سکتا ہے. اسی طرح  ” ‘اماوس میں خواب` کا موضوع اور اسلوب" میں حسین الحق کے ناول کے تعلق  سے رقم طراز ہیں: اسی طرح ‘ناول اماوس میں خواب` میں زبان و اسلوب کا وہی رویّہ موجود ہے جو حسین الحق کا اختصاص ہے. اور یوں بھی رقم طراز ہیں کہ: بنیادی طور پر ‘اماوس میں خواب` میں سادہ اور صاف زبان کو وسیلۂ اظہار بنایا گیا ہے لیکن کئی مقامات پر ایسی بھی زبان ملتی ہے جو اس ناول کا حصہ محسوس نہیں ہوتی. یعنی سلمان عبد الصمد تنقید لکھتے وقت کسی عیب یا حسن کو پِن پوائنٹ کرنے میں یدِطولی رکھتے ہیں. افسانوں میں اور آگے بڑھیں تو مضمون ‘جوگیندر پال کے افسانے` بھی بڑی دقتِ نظر سے لکھا گیا ہے اور ایک اہم افسانہ نگار کے افسانوی سفر کا بہ خوبی احاطہ کیا گیا ہے. وہیں معروف فکشن نگار ممتاز مفتی کے فکشن کے تعلق سے مضمون ” مفتی کا نفسیاتی رویّہ اور ‘ماتھے کا تل` " بھی خوب ہے. سلمان عبد الصمد کو نفسیاتی تنقید کے متعلقات اور مضمرات پر خاص ملکہ حاصل ہے اور یہ ان کی فطری دل چسپی کا سامان بھی ہے لہٰذا ان کا مضمون ‘اردو کی نفسیاتی تنقید ہر ایک نظر` خاصے کی چیز ہو گیا ہے. اپنے مضمون ‘تین اسلوبیاتی نقادوں پر نظر` میں جن تین ناقدین کو ان کے اسلوبیاتی طرزِ تنقید پر جانچا پرکھا ہے وہ ہیں: پروفیسر گوپی چند نارنگ، مسعود حسن خان اور مرزا خلیل احمد بیگ. تین اسلوبیاتی نقادوں پر نظر میں مضمون نگار کی نظر ان تینوں پر ہی کیوں گئی اور ان تینوں کو یکجا کیوں کیا گیا، اس کا بہتر جواب یا تو وہی دے سکتے ہیں یا پھر اس مضمون کی از سرِ نو قرات.
میں نے زیادہ تر مضامین کے تعلق سے تبصرہ کر دیا ہے. 
مضامین کے اشتمالات پر ایک نظر ڈالنے سے مضامین کے تنوع کا اندازہ بہ خوبی ہو جاتا ہے. جو اس کتاب کا حسن بھی ہے اور مصنف کی تنوع پسندی اور بیدار مغزی کو بھی درشاتا ہے. ثبوت کے طور پر مضامین کی فہرست (درج ذیل) پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں:
خسرو کا ہندوی کلام اور اشکالات
ولی دکنی کی لسانی عظمت
‘شعر شور انگیز` پر سوالات
اقبال کا تصور فرد اور سماج
مجالس النساء کی قرات
منٹو اور تضاداتِ ‘نیا قانون`
تین اسلوبیاتی نقادوں پر ایک نظر
غیر مطبوعہ ناول ‘دوست` کا مقدمہ
ناول ‘دھوپ چھاؤں` کا تجزیہ
‘اماوس میں خواب` کا موضوع اور اسلوب
‘تین لڑکیاں ایک کہانی` کا تنقیدی مطالعہ
جوگندر پال کے افسانے
مفتی کا نفسیاتی رویّہ اور ‘ماتھے کا تِل`
مکتوباتِ اکبر کا تنقیدی جائزہ
اردو کی نفسیاتی تنقید پر ایک نظر
نئی پرانی کتابیں : چند باتیں
اظہار و ترسیل، علاقائی تناظر اور صحافت
کتاب کے آخر میں ‘خطۂ نوازشات` کے تحت چند ناقدین و اہل الرائے کے نوازشات شامل کیے گئے ہیں جو نوازشات نہیں بلکہ بجا طور پر انتقادات ہیں اور کتاب اور صاحبِ کتاب کو سمجھنے سمجھانے میں مددگار ہیں.
کتاب کے باہری فلیپ کَوَر پر پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ، پروفیسر عتیق اللہ اور ڈاکٹر جاوید رحمانی کے انتقادی تاثرات متوجہ کرتے ہیں. وہیں اندرونی فلیپ کَوَر پر پروفیسر عبد البرکات، مسعود بیگ (راقم الحروف مسعود بیگ تشنہ)، مشتاق احمد نوری اور عشرت ظہیر کی نگارشات میں بھی انتقادی بصیرت دکھائی دیتی ہے.
ادب کے سنجیدہ قارئین کے لیے متنوع تنقیدی مضامین کی یہ کتاب کسی خوب صورت اور بیش قیمتی تحفے سے کم نہیں. یاد رہے کہ مصنف کا خاص میدان اسلوبیاتی اور نفسیاتی تنقید ہے. مصنف تنقیدی ہی نہیں تخلیقی صلاحیتوں سے بھی لیس ہیں. ان کے ناول ‘لفظوں کا لہو` کی تین دفعہ اشاعت ہو چکی ہے. اس کے علاوہ انھوں نے پانچ سات افسانے بھی لکھے ہیں. ان کا انتقادی و تخلیقی سفر تیزی سے گام زن ہے اور راقم الحروف انھیں ایک تیزی سے ابھرتا ہوا سنجیدہ و ذہین تنقید نگار اور فکشن نگار کے روپ میں دیکھتا ہے. کتاب کے لیے 9810318692 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے.
***
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش:آہ! احمد علی برقی اعظمی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے