روزگار کے لیے دوسری زبانیں، بہتر زندگی کے لیے صرف اردو: مظفر غزالی

روزگار کے لیے دوسری زبانیں، بہتر زندگی کے لیے صرف اردو: مظفر غزالی

یو۔این۔این۔ کے اعزازی مدیر اور صحافی ڈاکٹر مظفر حسین غزالی سے علیزے نجف کا انٹرویو

مظفر حسین غزالی صحافت کی بساط پہ اپنی ایک نمایاں شناخت رکھتے ہیں. ان کا تعلق اترپردیش میں واقع تاریخی سرزمین سنبھل سے ہے، وہ پچھلی کئی دہائیوں سے اپنے بےباک قلم کے ذریعے سیاسی گتھیوں کو سلجھانے میں مصروف عمل ہیں۔ ان کے قلم کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ اختلاف کرتے ہوئے بہت قرینے سے اپنی بات کہنے کا ہنر رکھتے ہیں، ان کے طرز فکر سے مجھے اور آپ کو ان سے اختلاف بےشک ہو سکتا ہے کیوں کہ کسی کے ذی علم اور ذی شعور ہونے کی شرط یہ قطعی نہیں کہ کسی کو ان کے خیالات سے اختلاف نہ ہو، اختلاف اور اتفاق کی آزادی کسی بھی معاشرے کے تہذیب یافتہ ہونے کی دلیل ہے۔ مظفر حسین غزالی ہر موضوع پہ بڑی روانی کے ساتھ لکھتے ہیں، وہ اپنے کیریئر کے آغاز میں اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونی ورسٹی میں درس و تدریس سے بھی جڑے رہے۔ وہ بدلتے وقت کے تقاضوں کو قبول کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور اس کو اپنے دائرۂ اختیار میں بہ خوبی برتنے کا ہنر بھی رکھتے ہیں۔
اس وقت وہ یونائیٹڈ نیوز نیٹورک (یو این این) کے ساتھ اعزازی مدیر کے طور پر وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ "آپ کی بات لائیو" کے نام سے یوٹیوب چینل چلا رہے ہیں۔ ساتھ ہی یونیسیف انڈیا کے "کرٹیکل اپریژل اسکل" پروگرام میں ٹرینر اور مینٹور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یونیسیف کے پروگراموں سے میڈیا کو جوڑنے میں بھی معاونت کرتے ہیں۔ اس وقت میں ان کے سامنے بہ طور انٹرویو نگار  موجود ہوں. میرے سوالات ان کی ذاتی اور پیشہ وارانہ زندگی کے تحت موزوں انداز میں ترتیب دیے گئے ہیں. اس کے ذریعے ہم یقیناً ان کے بارے میں بہت کچھ جاننے میں کامیاب ہوں گے۔

علیزے نجف: سب سے پہلے میں آپ سے آپ کا تعارف چاہتی ہوں اور یہ بھی جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کا تعلق ہندستان کے کس خطے سے ہے اور اس خطے کی خصوصیت کیا ہے؟
مظفر غزالی: نام مظفر حسین اور قلمی نام مظفر حسین غزالی ہے۔ میرا تعلق سنبھل اترپردیش سے ہے۔ سنبھل پہلے مرادآباد ضلع کی ایک تحصیل تھا. مرادآباد شاہ جہاں کے دور میں بسایا گیا۔ جب کہ سنبھل قدیم زمانہ میں پانچال راجاؤں کی رہائش گاہ تھا۔ یہ بودھ بھکشوؤں کی آماجگاہ رہا۔ پچاس سال پہلے تک یہاں مختلف مقامات پر اشوک کی لاٹیں لگی ہوئی تھیں۔ سنبھل پرتھوی راج چوہان کی حکومت کا حصہ تھا۔ اس وقت یہاں مسلم آبادی موجود تھی۔ سنبھل کے عوام کو پرتھوی راج اور اس کے اہل کاروں کے ظلم سے بچانے کے لیے محمود غزنوی نے اپنے بہنوئی ساہو سالار اور بھانجے مسعود غازی کو فوج کی ایک ٹکڑی کے ساتھ سنبھل بھیجا تھا۔ انھوں نے سنبھل کا قلعہ فتح کیا اور پرتھوی راج چوہان جان بچا کر سنبھل سے بھاگ گیا۔ سلطنت، مغل دور تک سنبھل اودھ، مگدھ اور بنگال کی مین شاہ راہ کا بڑا شہر تھا۔ اس میں چھتیس پورے (محلے) اور باون سرائے (ٹھہرنے کی جگہ) تھیں۔ آج "سرائے" شہر کے محلے ہیں اور زیادہ تر "پورے" گاؤں کی شکل میں موجود ہیں۔
علیزے نجف: آپ کی زندگی کے ابتدائی ایام کس طرح کے ماحول میں گذرے اور اس ماحول کے بنیادی اقدار کیا تھے اور اس وقت اور آج کے ماحول میں کس طرح کا بنیادی فرق محسوس کرتے ہیں؟
مظفر غزالی: ہوش سنبھالا تو والد صاحب، چچا میاں اور تایا ابا سب کو کام کرتے ہوئے دیکھا۔ زمین جائداد، زمین داری قانون کی نذر ہو چکی تھی۔ پرانی حویلی کھنڈر بن چکی تھی۔ ہمارے چار چچا تایا کا خاندان مردان خانہ کے چار کمروں میں رہتا تھا اور باہری کمرہ مہمانوں کے لیے مختص تھا۔ اسے بیٹھک کہتے تھے، شام کو گھر کے بڑے، بچوں کے ساتھ محلے کے کئی لوگ یہاں آتے۔ حقہ کی گٹر گوں کے ساتھ کبھی کوئی قصہ، کہانی، داستان سناتا، کبھی اپنی زندگی کا کوئی واقعہ کبھی شعر، شاعری۔ کبھی کبھی قوالی کی محفل بھی سجتی تھی۔ یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔ جب بچے بڑے ہونے لگے تو یہ مردانہ حویلی چار حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ اس میں چار خاندان رہنے لگے۔
اس وقت مسلمانوں میں پڑھائی لکھائی کا عام ماحول نہیں تھا۔ مال دار کاروباری طبقہ بچوں کو پڑھانے میں وقت برباد کرنے کے بجائے کاروبار میں لگا دیتا تھا۔ گھر چلانے کے لیے غریبوں کے بچوں کو بھی کام کرنا پڑتا تھا۔ لیکن متوسط طبقہ کے بچے پڑھنے جاتے تھے۔
ہندو مسلمانوں کے درمیان کشیدگی یا نفرت نہیں تھی۔ پنڈت جی ہمارے گھر پڑھانے آیا کرتے تھے۔ چھٹی سے آٹھویں جماعت کے دوران میں پنڈت جی کے گھر پڑھنے جایا کرتا تھا۔ وہ پڑھنے میں دل چسپی رکھنے والے بچوں کو پیسوں کے بغیر پڑھاتے تھے۔ دسویں بارہویں کے دوران غیر مسلم اساتذہ ہمارے ساتھ زیادہ محنت کرتے تھے۔ اسکول کے بعد یا چھٹی میں گھر بلا کر پڑھاتے۔ شادی بیاہ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے الگ الگ کھانے کے پنڈال لگتے تھے۔
علیزے نجف: آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے اور اس سفر کا آغاز کہاں سے ہوا؟ اس تعلیمی مرحلے کو آپ نے کن اصولوں کے ساتھ طے کیا؟
مظفر غزالی: ایم اے، ایم فِل، پی ایچ ڈی، ایل ایل بی۔ ابتدا سے بارہویں تک کی تعلیم آبائی شہر میں ہوئی۔ گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن روہیل کھنڈ یونی ورسٹی سے مرادآباد، بریلی میں رہ کر کیا۔ ایم فِل دہلی یونی ورسٹی، پی ایچ ڈی پنجاب یونی ورسٹی چنڈی گڑھ سے اور ایل ایل بی چودھری چرن سنگھ یونی ورسٹی میرٹھ سے کیا۔ والدین ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پڑھ لکھ کر اچھی نوکری ملنی چاہئے۔ مگر ان کے ذہن میں تعلیم کیسی دلائی جائے یہ واضح نہیں تھا۔ پورے محلے سے چچا زاد بھائی اور میرے علاوہ کوئی پڑھنے نہیں جاتا تھا۔ محلہ میں جو سرکاری ملازم تھے یا دو چار پڑھے لکھے لوگ تھے انھیں شاید ہمارا پڑھنا پسند نہیں تھا۔ نتیجہ کے طور پر والد صاحب کے ملنے والے جو کچھ انھیں بتاتے وہ گھر آ کر اس کا ذکر کرتے۔ اسی کی وجہ سے مجھے آئی ٹی آئی بھی کرنی پڑی۔ آئی ٹی آئی کی بنیاد پر مجھے شوگر مل کی ڈسٹلری سے نوکری کی پیش کش ملی۔ وہاں شراب بنتی تھی اس لیے والد صاحب نے وہاں نوکری کرنے سے منع کر دیا۔ پھر گرامین بینک میں فیلڈ آفیسر کی نوکری کا آفر آیا۔ بینک میں سودی لین دین ہوتا ہے اس کے لیے والدین راضی نہیں ہوئے۔ بس یہ کہہ سکتا ہوں کہ گریجویشن تک کی تعلیم بغیر سوچے سمجھے ہوئی۔
علیزے نجف: کسی بھی انسان کی شخصیت سازی میں سب سے اہم کردار تعلیمی نظام کا ہوتا ہے. آپ کے طالب علمی کی زمانے میں تعلیمی نظام کیسا تھا؟ آپ موجودہ وقت کے تعلیمی نظام کو شخصیت سازی کے لیے کس حد تک موافق سمجھتے ہیں اور اس میں کس طرح کی تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے؟
مظفر غزالی: میرے نزدیک انسان کی شخصیت سازی میں تعلیمی نظام سے زیادہ والدین اور اساتذہ کا کردار اہم ہوتا ہے۔ ہمارے زمانہ میں اساتذہ بچوں کی تعلیم میں بہت معاون تھے۔ مگر انھیں صلاحیت کے مطابق بچوں کی رہ نمائی میں کوئی خاص دل چسپی نہیں تھی۔ آج تمام طرح کے علم کا ذخیرہ موجود ہے لیکن تہذیبی اقدار اور بچوں کے آپسی روابط میں کمی آئی ہے۔ موجودہ تعلیمی نظام کا زور انسان کو مشین بنانے پر ہے۔ اس میں ہمدردی، انسانیت اور سماجی اقدار کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
علیزے نجف: زندگی میں اصولوں کا ہونا کس قدر ضروری ہے؟ ایک عام انسان کی زندگی میں کن عوامل سے اصولوں کی تشکیل ہوتی ہے؟ آپ کی زندگی کے بنیادی اصول کیا ہیں؟
مظفر غزالی: اصول اور ضابطہ زندگی کا بنیادی وصف ہے۔ اس کے بغیر زندگی خود رو کھر پتوار کی طرح ہوتی ہے۔ انسان کی زندگی میں سکون اور اطمینان نہیں ہوتا۔ جس کی تلاش میں وہ بھٹکتا رہتا ہے۔ ایسے ہی لوگ غیر سماجی عناصر کا شکار بنتے ہیں۔ بے راہ روی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی زندگی کے تجربات سے سبق لے۔ احتساب اور محاسبہ سے زندگی میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔ میں اپنا کام ایمان داری اور ذمہ داری کے ساتھ پورا کرنے میں یقین رکھتا ہوں۔ ہمدردی سے پیش آتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ میری وجہ سے کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو، نہ کسی کا دل دکھے. ہمیشہ لوگوں کی مدد کرنے کا خواہش مند رہتا ہوں اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتا ہوں. 
علیزے نجف: بنیادی طور پہ آپ ایک صحافی ہیں. اس کے علاوہ آپ نے اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونی ورسٹی میں بہ طور معلم  بھی فرائض انجام دیے ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ آج کے طلبہ میں انفارمل تعلیم کے تئیں کیا رجحانات پائے جاتے ہیں اور تعلیمی اداروں سے ملنے والی فارمل تعلیم کیا آج کے طلبہ کے لیے کافی ہے؟ اپنے تجربے و مشاہدے کی روشنی میں بتائیں. 
مظفر غزالی: آگے آنے والا دور انفارمل تعلیم کا ہے۔ مستقبل قریب میں یونی ورسٹیوں کو اپنے نظام تعلیم میں بنیادی تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ دھیرے دھیرے فاصلاتی ذریعہ تعلیم کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کے اشارے بھی اس کے گواہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ فارمل یا روایتی تعلیم صرف دسویں جماعت تک ہی رہ جائے گی۔ اس میں بھی پیشہ ورانہ عملی تعلیم شامل ہوگی جو بچوں کو جلد ہی کام کرنے کے لائق بنا دے گی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چند سال کے بعد سب سے زیادہ نوجوان صرف بھارت میں ہوں گے۔ دنیا بھر کو کام کے لیے بھارت پر منحصر ہونا ہوگا۔
علیزے نجف: آپ ایک صحافی ہیں. اردو صحافت کی بساط پہ کئی دہائیوں سے سرگرم ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ آپ صحافت کی طرف کیسے مائل ہوئے اور صحافت کا آغاز آپ نے کہاں سے کیا اور فی الوقت آپ کی صحافتی ذمےداریاں کیا ہیں؟
مظفر غزالی: میری صحافتی زندگی کی ابتدا کا ذکر اوپر تفصیل سے آچکا ہے۔ اِس وقت میں یونائیٹڈ نیوز نیٹورک (یو این این) کے ساتھ اعزازی مدیر کے طور پر وابستہ ہوں۔ اس کے علاوہ "آپ کی بات لائیو" کے نام سے یوٹیوب چینل چلاتا ہوں۔ ساتھ ہی یونیسیف انڈیا کے "کرٹیکل اپریژل اسکل" پروگرام میں ٹرینر اور مینٹر کے طور پر کام کرتا ہوں۔ یونیسیف کے پروگراموں سے میڈیا کو جوڑنے میں بھی معاونت کرتا ہوں. 
علیزے نجف: آپ نے صحافت میں ڈاکٹریٹ کیا ہے. آپ کے پی ایچ ڈی کے تھیسس کا موضوع تھا ‘اردو زبان کی تشکیل میں صحافت کا حصہ`. میرا سوال یہ ہے کہ آج کے وقت میں اردو صحافت کی پستی کی وجہ کیا اردو زبان کا انحطاط ہے یا اردو صحافت Brain Drain کا شکار ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے اردو زبان بھی متاثر ہو رہی ہے؟
مظفر غزالی: اُردو اخبارات میں باصلاحیت افراد کی خاصی کمی ہے۔ اخبارات کم پڑھے لکھے نامہ نگاروں یا کمپیوٹر آپریٹروں پر منحصر ہیں۔ پیشہ وارانہ مہارت کی طرف توجہ نہیں ہے۔ مالکان کا پورا دھیان پیسے کمانے پر ہوتا ہے۔ اچھا اسٹاف رکھنا، اخبار کے عملے کو معقول تنخواہ دینا اور اخبار کے معیار پر توجہ دینا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتا۔ اس کے نتیجے میں اردو صحافت انحطاط کا شکار ہوئی ہے۔ دوسری طرف کارپوریٹ کے اخبارات ہیں جو حکومت کی منشا کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے بھی زبان اور صحافت کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایک موبائل لے کر ہر شخص صحافی بن جاتا ہے۔ جب کہ اسے صحافت کی اے بی سی ڈی کا بھی علم نہیں ہوتا۔ ایک خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اب ماس میڈیا کی تعلیم عام ہوئی ہے۔ تقریباً تمام یونی ورسٹیوں میں ماس میڈیا کے کورس موجود ہیں۔ مگر یہاں سے بھی باصلاحیت افراد کم ہی نکلتے ہیں۔ جو باصلاحیت ہوتے ہیں وہ ہندی، انگریزی یا ورناکولر میڈیا میں چلے جاتے ہیں۔ اردو کو یہ بھی میسر نہیں آتے۔ کیوں کہ یہاں تنخواہ بہت کم ملتی ہے یا پھر انھیں اپنی تنخواہ کے لیے پیڈ نیوز یا اشتہار لانے ہوتے ہیں۔
علیزے نجف: صحافت کسی بھی ملک کے مستقبل اور اس کی بقا و ارتقا میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے. اسی لیے اس کو ملک کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے. میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں صحافت کا کیا معیار ہے اور ایک سچے صحافی کی آزادی کی حد کیا ہے اور یہ محدود ہوتی آزادی آنے والے وقت میں ملک میں کس طرح کا ماحول پیدا کر سکتی ہے؟
مظفر غزالی: میڈیا حکومت اور عوام کے درمیان پل کا کام کرتا ہے۔ وہ حکومت کی پالیسیوں سے عوام کو متعارف کرانے اور عوام کے احساسات کو حکومت تک پہنچانے کا کام کرتا ہے۔ میڈیا کا کام اسٹیبلشمنٹ سے سوال پوچھنا ہوتا ہے۔ وہ اس کا دشمن نہیں ہوتا بلکہ سوال پوچھ کر حکومت کو اس کی کمیوں کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے۔ اگر میڈیا کو اس کا کام کرنے سے روکا جائے گا یا پھر وہ حکومت کا ترجمان بن جائے گا تو عوام میں اس سے مایوسی پیدا ہوگی۔ جو کسی بھی جمہوری ملک کے لیے مناسب نہیں ہے۔
علیزے نجف: تبدیلی کائنات کا ایک لازمی حصہ ہے، جو کہ خود کار طریقے سے واقع ہوتی رہتی ہے. یہ تبدیلی مثبت بھی ہو سکتی ہے اور منفی بھی. سیاست کا شعبہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں. میرا سوال یہ ہے کہ پچھلے دس سالوں میں ملک کی سیاست میں کس طرح کی تبدیلی واقع ہوئی ہے؟ کیا ہم اسے وکاس کہہ سکتے ہیں اور اس تبدیلی کا رخ کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
مظفر غزالی: جمہوریت میں حکومت منتخب کرنے کا حق عوام کو دیا گیا ہے۔ نعرے، وعدے اور خواب دکھا کر ان کے ووٹ حاصل کیے جاتے رہے ہیں۔ پانچ سال کے بعد عوام اپنی بھول کو سدھار سکتے ہیں۔ چیک بیلنس کے لیے آئینی ادارے ہوتے ہیں۔ جو جمہوری اقدار کی حفاظت کرتے اور حکومت کو بے لگام ہونے سے روکتے ہیں۔ گذشتہ دس سال سے سیاست کے بدلے ہوئے ماڈل پر کام ہو رہا ہے۔ پہلے عوام کو حکومت سے بدگمان کیا گیا۔ پھر اس کے سامنے ترقی اور خوش حالی کا خواب پروسا گیا۔ مصنوعی راشٹر واد، جھوٹ اور فرضی کہانیوں کے ذریعہ سیکولر ازم کا مذاق اڑایا گیا۔ میڈیا کی مدد سے لوک تنتر کو بھیڑ تنتر میں تبدیل کر سماج میں عصبیت، نفرت، مذہب اور طبقات کی دیواریں کھڑی کی گئیں۔ اکثریت کی بالادستی کے تصور نے آئینی اداروں کو حکومت کا ہم نوا بنا دیا۔ ٹیکس سے حاصل کی گئی رقم عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ ہونے کے بجائے سیاست دانوں کے عیش و عشرت اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے خرچ ہونے لگی۔ اقتدار میں بنے رہنے یا حکومت پر قابض ہونے کے لیے ممبران اسمبلی کو خریدنے، زیادہ آسائش فراہم کرنے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کے لیے قومی اثاثوں کو اونے پونے میں فروخت یا کارپوریٹ کے حوالے کیا گیا۔ سوالوں سے بچنے کے لیے عوام کو ہندو مسلم کے جھگڑے اور روزی روٹی کی فکر میں الجھا دیا گیا ہے۔ حزب اختلاف اور حکومت کی پالیسیوں پر سوال اٹھانے والوں کو ڈرایا جا رہا۔ سرکاری ایجنسیوں سے کاروائی کرائی جا رہی ہے اور انھیں مقدمات میں پھنسایا جارہا ہے۔ وہ بھی کرمنل دفعات کے تحت۔ ملک اس طرح کی صورت حال کا پہلی مرتبہ سامنا کر رہا ہے۔ ان حالات کو عوام تبدیل کر سکتے ہیں۔ مگر عوام ابھی کنفیوژن کا شکار ہیں. جب ان کی عقل اور آنکھوں پر پڑا پردہ ہٹے گا تب تک شاید بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ بھارت جوڑو یاترا حقیقت سے روبرو کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ کتنی کامیاب ہوگی یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
علیزے نجف: اس وقت آپ یونیسیف کے اردو میڈیا انچارج کی حیثیت سے بھی کام کررہے ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ ہندستان میں یونیسیف کی خدمات کی نوعیت اور اس کا معیار کیا ہے؟ کیا اس کی طرف سے ملنے والی سہولیات مستحقین تک بہ آسانی پہنچ جاتی ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ہندستان کی گلوبل ہنگر انڈیکس کی رپورٹ بدتری کی طرف مائل ہے؟ اس میں کمی کہاں سے واقع ہو رہی ہے؟
مظفر غزالی: یونیسیف حکومت کے اشتراک سے دیہی علاقوں اور کمزور طبقات کے درمیان کام کرتا ہے۔ پبلک ہیلتھ، مدر اینڈ چائلڈ کئیر، امیونائزیشن، ایجوکیشن، جینڈر اکیوالٹی، اڈولسنٹ چائلڈ ڈویلپمنٹ اینڈ ایشوز اور عدم غذائیت کو دور کرنا اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔ یونیسیف ان تمام کاموں میں تکنیکی مدد کرتا ہے۔ فیلڈ میں کام کرنے والے کارکنان کی ٹریننگ، میڈیا کے تعاون سے عوام میں بیداری پیدا کرنا اور تمام کاموں کی مانیٹرنگ کرنا اس کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ رہا سوال ہنگر انڈیکس کی ریٹنگ میں گراوٹ کا تو یہ یونیسیف کے دائرہ میں نہیں آتا۔ اس پر دھیان دینا اور پالیسی بنانا حکومت کا کام ہے۔
علیزے نجف: آپ کی اب تک بارہ کتابیں منظر عام پہ آ چکی ہیں، جو کہ ہندی اور اردو زبان میں ہیں. ادب کے موضوع پہ آپ نے اب تک بےشمار آرٹیکلز بھی لکھے ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ اردو اور ہندی ادب کے درمیان بنیادی فرق کیا ہے؟ ہندی ادب کو عالمی سطح پہ کیا حیثیت حاصل ہے؟
مظفر غزالی: حکومت کی پشت پناہی کی وجہ سے ہندی میں معیاری ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ جب کہ اُردو میں تکرار اور اصل کی جگہ نقل کو فروغ مل رہا ہے. سطحی، غیر معیاری تحقیقات سامنے آرہی ہیں. اس کی وجہ کالج اور یونی ورسٹیوں میں نا اہلوں کا تقرر ہے. ہر قابل شخص اپنے سے کم تر کو شعبہ میں لانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کی بالادستی قائم رہے۔ پہلے اہلیت کا مقابلہ ہوتا تھا، اب نا اہلی کا مقابلہ ہے۔ نتیجہ کے طور پر زبان و ادب کا معیار روز بروز گرتا جارہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اُردو اور ہندی غیر ملکی زبان کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ ہندی والے زبان و ادب کی بہتری کے لیے مسلسل کام کر رہے ہیں۔ جب کہ اہل اُردو مشاعرے سے آگے نہیں بڑھ پا رہے ہیں۔ مشاعرہ لوٹنے والے شعرا کے کلام کی عمر بہت مختصر ہوتی۔ اس لحاظ سے عالمی سطح پر ہندی اُردو سے آگے ہے۔ پرانی فلموں کے نغموں، قدیم اور جدید چند شعرا کی وجہ سے اُردو کی تھوڑی عزت بچی ہوئی ہے۔
علیزے نجف: ہر انسان کی اپنی ایک مادری زبان ہوتی ہے، جو اس کے ماحول کی تہذیب و ثقافت کی امین ہوتی ہے. ہماری دوسری مادری زبان اردو ہے. ہمارا تہذیبی ورثہ بھی اس میں موجود ہے. میرا سوال یہ ہے کہ اس وقت اردو زبان کو خود مسلم طبقہ جس طرح سے نظر انداز کر رہا ہے کیا اس کی وجہ سے ان کی تہذیب و ثقافت بھی متاثر ہو رہی ہے؟ اردو زبان اور اس میں محفوظ ورثے کی حفاظت کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟
مظفر غزالی: آپ نے صحیح فرمایا کہ ہر انسان کی اپنی مادری زبان ہوتی ہے، جو اس کی تہذیب و ثقافت کی امین ہوتی ہے. ہماری دوسری مادری زبان اردو ہے۔ ہمارا وسیع علمی، ادبی اور تہذیبی ورثہ اس میں موجود ہے۔ اسے نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہماری تہذیب و ثقافت متاثر ہو رہی ہے. مادری زبان صرف تہذیب و ثقافت سے تعلق کو مضبوط نہیں کرتی بلکہ انسان کی نشوونما، تعلیم و ترقی میں بھی معاون بنتی ہے. بھارت میں قریب ایک ہزار سال مسلمانوں نے اور ڈھائی سو سال انگریزوں نے حکومت کی. اس وقت سرکاری کام کاج کی زبان فارسی پھر انگریزی اور اُردو رہی۔ ملک کے سبھی لوگوں نے نہ صرف ان زبانوں کو سیکھا بلکہ مہارت حاصل کی اور حکومت کے بڑے عہدوں پر کام کیا. کئی غیر مسلم اُردو، فارسی کے ادیب و شاعر کی حیثیت سے مقبول ہوئے۔ اردو، فارسی کے ساتھ بہترین عربی جاننے والے بھی مل جائیں گے۔ اس سب کے باوجود انھوں نے اپنے گھروں میں دیوناگری رسم الخط اور ہندی کو زندہ رکھا۔ اودھی، مگدھی، برج اور علاقائی بولیوں کو ہندی کا ہی حصہ مانا۔ اس کی وجہ سے وہ اپنی روایات اور مذہبی شناخت سے جڑے رہے. جب کہ اس میں اُردو، فارسی جیسا قابل قدر علمی، مذہبی لٹریچر نہیں تھا۔ مسلمان اس مغالطہ یا غلط فہمی کے شکار ہیں کہ اُردو صرف مسلمانوں کی نہیں بلکہ سب کی زبان ہے. اسے پڑھنے سے روزگار میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اُردو میں بڑا علمی، تہذیبی و ثقافتی اور مذہبی سرمایہ صرف مسلمانوں کا موجود ہے، کسی دوسرے کا نہیں۔ اُردو کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہی وہ اپنے ہم وطنوں سے پیچھے ہیں۔ جن علاقوں کے مسلمانوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا ان کی حالت اُردو سے بے اعتنائی برتنے والوں سے بہتر ہے. اپنی تہذیب و ثقافت اور مذہب سے صحیح رشتہ بنانے کے لیے اُردو سے تعلق کو مضبوط بنانا ہوگا۔ روزگار کے لیے دیگر زبانیں یا علوم کا مطالعہ کریں لیکن زندگی کو بہتر بنانے کے لیے صرف اُردو۔
علیزے نجف: آپ ایک مترجم بھی ہیں. آپ نے کئی کتابوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے. میں چاہتی ہوں کہ آپ اپنی ان ترجمہ شدہ کتابوں کے بارے میں بتائیں اور ترجمہ کرنے کے لیے آپ نے انھی کتابوں کا انتخاب کیوں کیا؟
مظفر غزالی: ہر زبان کی  اپنی لفظیات، محاورے، کہاوتیں، مثالیں، آہنگ اور مخصوص اسلوب ہوتا ہے۔ اس کو دوسری زبان میں من وعن اس طرح منتقل کرنا کہ قاری کو اصل زبان کا لطف آئے وہ ترجمہ کہلاتا ہے۔ کئی لفظوں کی منتقلی کو تو کئی متن کا مفہوم پیش کرنے کو ترجمہ کہتے ہیں۔ جب کہ ترجمہ ایک فن ہے، جس نے اس دور میں بہت ترقی کی ہے۔ میں نے تعلیم اور صحت سے متعلق کتب کا ترجمہ کیا ہے۔ جو کتابیں یا رپورتاژ انگریزی سے ترجمہ کی ہیں ان میں سب سے اہم کام ہیلتھ صحافیوں کی تربیت کے لیے آکسفورڈ اور یونیسیف کے اشتراک سے تیار کردہ کورس (کریٹکل اپریژل اسکل) Critical appraisal skill کا ترجمہ یے۔ میرے تراجم ٹیکنکل ہیں، جن میں مخصوص اصطلاحات کا استعمال ہوا ہے۔ کئی ایسی بھی تھیں جن کا اُردو میں کوئی متبادل نہیں تھا۔ اس کے لیے نئی اصطلاحیں وضع کرنی پڑیں۔
علیزے نجف: آج کا دور ٹکنالوجی کا دور ہے. اس میں سب کچھ اسکرین پہ منتقل ہو گیا ہے. اس کی وجہ سے کتابوں کی اشاعت اور مطالعے کے تناسب پہ کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟
مظفر غزالی: ٹیکنالوجی خاص طور پر انٹرنیٹ تک رسائی عام ہونے سے کتابوں کی اشاعت و ترویج متاثر ہوئی ہے۔ کئی اہم رسائل بند ہو گئے۔ وبائی مرض کووڈ-19 کے دوران دنیا نے ترسیل و ابلاغ کے نئے ذرائع کا تجربہ کیا۔ بڑی بڑی قومی، بین الاقوامی سیمینار، مشاعرے اور کانفرنسز آن لائن منعقد ہوئیں۔ اس کے باوجود بھی کتابیں شائع ہو رہی اور پڑھی جا رہی ہیں۔ کئی حضرات نیٹ پر کتاب پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن ابھی ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جنھیں کتاب کی ہارڈ کاپی پڑھنے میں مزہ آتا ہے۔ آنے والا زمانہ ای بک اور ای لائبریری کا ہوگا. مگر کتابیں پھر بھی پڑھی جائیں گی۔ وقت کے لحاظ سے تبدیلی آنا فطری ہے لیکن پڑھنے لکھنے کے ذوق و شوق کو فروغ دینا آج کی ضرورت ہے۔
علیزے نجف: موجودہ وقت میں مسلمانوں کو حاشیہ میں ڈالنے کی کوشش کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں. اس مشکل سے نمٹنے کے لیے کیا مسلمانوں کو سب سے پہلے اپنی قیادت پہ کام کرنا چاہئے یا مین اسٹریم پہ آنے کے لیے اپنی ساری توجہ تعلیمی ارتقا میں لگانے کی ضرورت ہے، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
مظفر غزالی: اسلام نظم و ضبط والا دین ہے۔ مگر بھارت کے مسلمانوں میں اس کا فقدان ہے۔ یہاں کے مسلمان اللہ اور رسول کے دین کے بجائے اپنی پسند یا مولویوں کے بتائے ہوئے دین پر عمل کرتے ہیں. اس لیے وہ تمام خرافات یہاں موجود ہیں جن کی اسلام نفی کرتا ہے. یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرہ نے فطری قائدین کے بجائے تھوپے ہوئے رہ نماؤں پر بھروسا کیا. نتیجہ کے طور پر صحیح وقت پر غلط اور غلط وقت پر صحیح فیصلے لیے گئے۔ جنھوں نے مسلمانوں کو حاشیہ پر دھکیل دیا۔ اب ان رہ نماؤں کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے. اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان کسی جماعت، مولوی، پیر یا سجادہ نشین کے دین کے بجائے اللہ اور اس کے رسول کے دین کی طرف واپس لوٹیں، دین دنیا کی تعلیم کے پینچ میں نہ پھنس کر معیاری تعلیم حاصل کریں اور اپنے اچھے برے کا آنکھیں کھول کر خود فیصلہ لیں. سماج کے بیچ جو فطری قائد ابھرتا ہوا دکھائی دے، جانچ پرکھ کر اس کا ساتھ دیں۔ جذبات میں بہہ کر گمراہ کرنے والوں سے ہوشیار رہیں کیونکہ اسی جذباتیت نے قوم کو اس مقام پر پہنچایا ہے۔
علیزے نجف: آپ صحافت اور لکھنے پڑھنےکے علاوہ اور کن مشاغل میں دل چسپی رکھتے ہیں اور آپ فرصت کے اوقات کو کس طرح گزارنا پسند کرتے ہیں؟
مظفر غزالی: لکھنے پڑھنے، صحافتی ذمہ داری نبھانے اور غور و فکر کرنے کے علاوہ کوئی اور مشغلہ نہیں ہے. انھی ذمہ داریوں کے تحت ملک کے مختلف حصوں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ ہر سفر میں الگ تجربہ ہوتا ہے اور کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ہے۔ ہمارا ملک بڑا ہونے کے ساتھ اتنا متنوع ہے کہ ہر علاقہ آپ کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ اس کی بہتری کے لیے مزید کچھ کیا جائے۔
علیزے نجف: یہ انٹرویو دیتے ہوئے آپ کے احساسات کیا تھے اور اس انٹرویو کے ذریعے نوجوان صحافیوں سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
مظفر غزالی: آپ کو انٹرویو دینا اچھا لگا، اور خوشی ہوئی. اس انٹرویو کے دوران کچھ ایسی باتیں بھی سامنے آ گئیں جو سینے میں دفن تھیں. اس انٹرویو کے ذریعے اس کے نقوش ذہن میں ایک بار پھر تازہ ہو گئے، نوجوان صحافیوں سے میں بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اپنا کام ایمان داری کے ساتھ پوری ذمہ داری سے کریں۔ خیال رکھیں کہ ہر اطلاع خبر نہیں ہوتی۔ کسی بھی واقعے کی خبر لکھنے سے پہلے اس کی تہہ تک جائیں اور کم از کم دو ذرائع سے اس کی تصدیق کریں۔ یاد رکھیں آپ کی خبر کسی کے لیے زندگی موت کا سوال پیدا کر سکتی ہے۔ پریس ریلیز کو بھی جانچ پرکھ کر اخبار میں شائع کریں۔ آکسفورڈ یونی ورسٹی کے اشتراک سے یونیسیف نے صحافیوں کے لیے (CAS) کورس تیار کیا ہے۔ اس سے استفاده کرنا بہتر ہوگا۔
***
علیزے نجف کی یہ گفتگو بھی پڑھیں:زندگی آئیڈیل ازم کا نام نہیں : محمد حسن الیاس

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے