سلمی صنم کے افسانے

سلمی صنم کے افسانے

شاہ عمران حسن
نئی دہلی

سلمیٰ صنم کے افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ وہ کہانی کہنے کے ہنر سے نہ صرف اچھی طرح واقف ہیں بلکہ وہ زبان و بیان کے اُتار چڑھاؤ اس خوب صورت پیرائے میں بیان کرتی ہیں کہ قاری ان کی تحریروں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
سلمیٰ صنم کے افسانوں میں علامت بھی ہے اور استعارہ بھی، ان میں اصلاح کا پہلو بھی نظر آتا ہے تو سماجی مسائل کی المناکی کا بیان اور درد بھی دکھائی دیتا ہے۔
گزشتہ برس کے نصف آخر (ستمبر2022) میں سلمیٰ صنم نے اپنا افسانوی مجموعہ ʼقطار میں کھڑے چہرے` ارسال کیا تھا۔ عدیم الفرصتی کے سبب پڑھنے میں تاخیر ہوتی چلی گئی اور جب پڑھا تو حیرت و خوشی کی انتہا نہ رہی ہے کیوں کہ ان کی تحریروں نے میرا وقت برباد نہیں کیا۔
ان کے چند افسانوں پر گفتگو کرنے سے قبل میں یہ عرض کرتا چلوں کہ سلمیٰ صنم گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل اردو ادب کی نثری میدان میں خدمت کر رہی ہیں، اگرچہ وہ سائنس کی معلمہ ہیں مگر انھیں اردو ادب سے دل و جان سے زیادہ لگاؤ ہے، اگر لگاؤ نہ ہوتا تو شاید وہ پڑھنے لائق تحریر قارئین کو نہ دے پاتیں۔
سلمیٰ صنم کا تعلق ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلورو سے ہے۔ ان کااصل نام ʼسیدہ سلمی بانو` ہے تاہم ان کا قلمی نام سلمی صنم ہے۔ ان کی پیدائش ضلع منگلور کے ساحلی علاقے پنمبور میں ہوئی۔
سلمیٰ صنم کے والد کا نام سید اکبر اور والدہ کا نام حلیمہ بی ہے۔ ان کے آبا و اجداد کا تعلق بغداد سے ہے۔ ان کے آبا و اجداد ʼسادات نسل` سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا شمار علما میں ہوتا تھا۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ پندرھویں صدی عیسوی میں وہ ریاست کرناٹک کے عادل شاہی دور حکومت میں بغداد سے ہجرت کرکے بیجاپور میں آباد ہوئے اور شاہی دربار سے وابستہ ہوگئے۔ سلطنت خداداد کا جب قیام عمل میں آیا تو وہ ٹیپو سلطان کی دعوت پر گنج عام ( سری رنگا پٹن، منڈیا) چلے گئے اور ٹیپو سلطان کے دربار سے منسلک ہوکر کام کرنے لگے۔ علم کے شیدائی ہونے کے سبب ان کی ٹیپو سلطان کے دربار میں بڑی قدر و منزلت تھی۔
سلمیٰ صنم کی پرورش و پرداخت ان کے ننھیال (بنگلورو) میں ہوئی؛ جہاں انھوں نے اسلامیہ مدرسہ نسواں گرلز ہائی اسکول سے دسویں جماعت پاس کیا۔ اس کے بعد مہارانی سائنس کالج (Maharani’s Science College for Women,Bangalore) سے بی ایس سی اور بنگلور یونی ورسٹی گیان بھارتی کیمپس سے علم حیوانیات (Zoology) میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔
سلمیٰ صنم کی ادب سے دل چسپی کالج کے دنوں سے ہی شروع ہوگئی تھی۔ انھوں نے باضابطہ لکھنا سنہ 1990 کے پہلے ماہ سے ہی شروع کیا۔ ان کا پہلا افسانہ بہ عنوان ʼروشنی` 5فروری1990ء کو مشہور زمانہ اخبار روزنامہ ʼسالار` میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کا قلم مسلسل رواں دواں ہے !۔
اگرچہ اپنی دیگر مصروفیات کے سبب وہ بہت زیادہ نہیں لکھ سکیں، تاہم اپنے پہلے افسانے کی اشاعت کے تقریباً 14سالوں کے بعد سنہ 2004 سے وہ باضابطہ لکھنے لگیں اور بہت کم وقتوں میں اپنی منفرد ادبی کاوشوں سے قارئین کی سماعتوں پر چھا گئیں۔
ان کے افسانے برصغیر ہند کے مقتدر رسائل و اخبارات میں مسلسل شائع ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ لندن، نیویارک، اسپین، اور نیپال سے نکلنے والے اردو رسائل میں بھی ان کی تخلیقات گاہے بگاہے شائع ہوتی رہتی ہیں۔
سلمیٰ صنم کو دیگر افسانہ نگاروں کے مقابلے میں ایک مزید اعزاز یہ ملا کہ ان کے افسانوں کے انگریزی سمیت پنجابی اور ہندی میں تراجم شائع ہوئے۔
سلمیٰ صنم کی درج ذیل کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں:
طور پر گیا ہوا شخص (افسانوی مجموعہ) ناشر: کرناٹک اردو اکادمی، سال اشاعت: 2007ء
پت جھڑ کے لوگ (افسانوی مجموعہ) ناشر: کرناٹک اردو اکادمی، سال اشاعت: 2012ء
پانچویں سمت (افسانوی مجموعہ)، ناشر: عرشیہ پبلی کیشنز دہلی، سال اشاعت: 2016
قطار میں کھڑے چہرے اور دیگر کہانیاں (افسانوی مجموعہ)، ناشر: عرشیہ پبلی کیشنز دہلی، سال اشاعت: 2018
قطار میں کھڑے چہرے (پاکستانی ایڈیشن)، ناشر: دستاویز مطبوعات لاہور (پاکستان)، سال اشاعت: 2019
مذکورہ شائع شدہ کتب کے علاوہ سلمیٰ صنم کی جو کتب زیر طبع ہیں، وہ کچھ اس طرح ہیں: تڑپتا پتھر ( افسانچوں کا مجموعہ )، سخن ساز ( جدید شعرا اور ادبا کا تعارف) اور ہے یہ کیسا سفر؟ ( سفرنامہ حج) وغیرہ۔
ان کے علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں کئی انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔ ان کی کتابوں اور افسانوں پر کرناٹک اردو اکادمی، اتر پردیش اردو اکادمی، بہار اردو اکادمی وغیرہ کی جانب سے رقم انعامات میں دی گئیں۔ وہیں ان کی خدمت میں خادم ریختہ ایوارڈ برائے ادبی خدمات من جانب عالمی ایوان ادب ( یو ایے ای)، الصدا بنگلور ایوارڈ، ضیاء جعفر ایوارڈ، بشیر شاہ میموریل ایوارڈ (اردو اکادمی کشمیر) وغیرہ ایوارڈ پیش کیے گئے۔
سلمی صنم کے افسانہ ʼآرگن بازار` کا انگریزی ترجمہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس پر انگریزی میں مریم وقار احمد نے مقالہ لکھا ہے۔ اس کی نگراں ڈاکٹر اینی ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
Dr Annie Kuriachan,HOD,Department Of English ,Women’s Christian College(Chennai ,Tamil Nadu)
سلمی صنم کے افسانوی مجموعے ʼپت جھڑ کے لوگ` پر لاہور یونی ورسٹی کی طالبہ حرا عثمان نے ایک تجزیاتی مقالہ ڈاکٹر نورین رزاق، لاہور کالج برائے خواتین لاہور یونی ورسٹی کی نگرانی میں لکھا ہے۔ اس کے علاوہ سلمیٰ صنم پر ایم فل کے لیے تحقیقی مقالہ بہ عنوان ʼشخصیت اور فن: تحقیقی و تنقیدی مطالعہ` لکھا جا رہا ہے۔ یہ کام بھی پاکستان میں ہو رہا ہے۔ اس کی مقالہ نگار صبا مشتاق ہیں اور نگراں ڈاکٹر سید بابر علی زیدی ہیں۔ یونی ورسٹی آف نارووال(پاکستان )۔
ان کی افسانہ نگاری کے بارے میں اہلِ قلم و اہلِ علم نے گراں قدر آرا کا اظہار کیا ہے، مثلاً پروفیسر قمر رئیس (نئی دہلی) نے کہا تھا کہ سلمیٰ صنم کہانی کے آرٹ پر قدرت رکھتی ہیں۔ مجھے لگا کہ آپ نہ صرف تخلیقی جوہر رکھتی ہیں بلکہ انسانی رشتوں اور گرد و پیش کے مسائل پر بھی تھیکی نظر رکھتی ہیں. جب کہ مشہور قلم کار رشید امجد ( پاکستان) نے اپنی ایک تحریر میں ان کی قلمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا کہ سلمیٰ صنم کی کہانیوں میں جو دل چسپی اور تاثر ہے وہ ان کے موضوعات کے تنوع سے ہم آہنگ ہو کر بہ طور کہانی نویس ان کی پہچان کراتا ہے۔ ان کا بے باکانہ لہجہ اس میں انفرادیت کا رنگ بھرتا ہے، تجزیہ اور اشیا کی تہ تک پہنچنے کا رویہ ان کی کہانیوں میں معنوی دبازت پیدا کرتا ہے۔ فنی طور پر انھوں نے جدید افسانے کے معنوی اظہار اور اسلوب کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے نسبتاً سادہ لہجہ اختیار کیا ہے۔ اس حوالے سے وہ جدید اردو افسانے کو اکیسویں صدی میں آگے لے جانے کے سفر کی ایک اہم راہ رو ہیں۔
سلمیٰ صنم بیک وقت معلمہ بھی ہیں اور مصنفہ بھی ہیں، وہ ماں بھی ہیں اور بیوی بھی ہیں، جہاں وہ اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو بہ خوبی نبھا رہی ہیں وہیں وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی پیش پیش ہیں۔ ان سب کے باوجود وہ اردو ادب کی بھی خدمت کر رہی ہیں۔ ان کی زندگی اور شخصیت کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک خاتون ہی ایک ساتھ اتنی ساری ذمہ داریاں ادا کرسکتی ہے، حالاں کہ یہ ایک کٹھن مرحلہ ہے تاہم ان کی زندگی دیگر خواتین کی مثالی حیثیت رکھتی ہے کہ چاہت اور ہمت کے بعد ایک خاتون بہت کچھ کر سکتی ہے۔
میرے پاس ان کا افسانوی مجموعہ ʼقطار میں کھڑے چہرے` ہے۔ اس میں 20 افسانے ہیں۔ اس کی اشاعت سنہ 2018ء میں عمل میں آئی جو کہ 146 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے چند افسانوں نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا۔ کتاب میں موجود افسانہ ʼآرگن بازار` دل دہلا دینے والا ہے۔ اس کو پڑھتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ انسانیت اس حدتک بھی گرسکتی ہے، اسی درد و کرب کو وہ یوں بیان کرتی ہیں کہ ایک دور وہ ہوگا جب آرگن بازار قائم ہوں گے، جہاں انسانی اعضا کی خرید و فروخت ہوگی۔ (صفحہ: 19)
تھکی ہوئی ناری ایک ورکنگ وومن کی کہانی ہے، معاشرے نے ورکنگ وومن کی ذمہ داری دوہری کر رکھی ہے، اسے باہر کی ذمہ داری بھی ادا کرنا ہوتی ہے اور وہ گھر کے اندر بھی اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش نہیں ہوسکتی۔ اس کا برا اثر اس کی اپنی ذات پر بھی پڑتا ہے تاہم اس کہانی کے ذریعہ افسانہ نگار نے بہت ہی خوب صورتی کے ساتھ ورکنگ وومن کی اہمیت و افادیت بتانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ یہ افسانہ معاشرے کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔
یوں تو فسادات پر بہت سے افسانے لکھے گئے ہیں اور اس کا سلسلہ جاری ہے تاہم سلمیٰ صنم کا افسانہ ʼدوسرے مذہب کا آدمی` ایک نئے پیرایے میں لکھا گیا افسانہ ہے، جہاں انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انانیت اور اجنبیت کے اس ماحول میں انسانیت زندہ ہے۔
ان کا ایک افسانہ ʼتتلی` ہے، یہ اگرچہ مختصر افسانہ ہے، جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ موبائل اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہم ایک ایسی مصنوعی دنیا میں پہنچ گئے ہیں جہاں حقیقی زندگی سے ہمارا رابطہ منقطع ہوگیا اور ہم قدرت کے نظاروں سے سرور لینے کے بجائے اپنے خول میں بند ہوتے جا رہے ہیں. حتیٰ کہ ہمارے بچوں پر اس کا بہت برا اثر پڑ رہا ہے. ہم چیزوں کو بھولنے لگے ہیں. مثلاً اس کہانی کی کردار ایک بچی ہے، جس نے اپنی زندگی میں کبھی تتلی نہیں دیکھی تھی۔ جب تتلی دیکھتی ہے تو اپنی ماں سے پوچھ بیٹھی ہے کہ ممی یہ کیا ہے؟
مٹھی میں بند چڑیا عورت کے جنسی استحصال کا درد بیان کرتی ہوئی ایک دردناک کہانی ہے، جس کو پڑھ کر روح کانپ جاتی ہے کہ سماج میں ایسے بھی درندہ صفت لوگ ہیں، جو عورت کو محض جنس کا ذریعہ مانتے اور سمجھتے ہیں۔ جب کہ عورت اس جہاں کی ایک خوب صورت اور محبوب ترین شے ہے، جس کے بغیر یہ کائنات رنگ ہوجائے گی۔ اس لیے علامہ اقبال نے کہا تھا:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
اس کتاب کی ایک عمدہ کہانی سورج کی موت ہے جس میں ʼپدرم سلطان بود` کی نفسیات کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ نیز اس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہمارے دادا بادشاہ تھے کی نفسیات سے اُوپر اُٹھ کر سماج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے. کیوں کہ اب لوگ صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ خود کیا ہیں اور کیا کرسکتے ہیں؟
بہر کیف افسانوی مجموعے کے تمام افسانے قابل مطالعہ ہیں، اس کے لیے سلمیٰ صنم یقینی طور پر مبارک باد کی مستحق ہیں، ہمیں امید کرنی چاہئے کہ وہ اردو ادب کو اور بھی اچھوتے افسانے مستقبل میں دیں گی۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!
مضمون نگار کا پتہ:
Shah Imran Hasan
A-Block, Shah House, Plot No-22,Khasra No.824,
Makki Masjid Colony,
Madanpur Khadar Extension, Part 3,
Nala Road, Sarita Vihar,New Delhi-110076
Mob:9810862382 , Email:sihasan83@gmail.com
***
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش : کتاب: مظفر کے نام (کچھ ادبی خطوط)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے