کتاب: اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات

کتاب: اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات

ڈاکٹر رفیع الدین ناصر کا منفرد انداز کا کام
تبصرہ و تعارف۔ اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات
کتاب کا نام : اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات
مصنف : ڈاکٹر رفیع الدین ناصر
صدر شعبہ نباتیات، مولانا آزاد کالج، اورنگ آباد (مہاراشٹر)
موبائل نمبر: 9422211634
قیمت : 300روپے
صفحات : 352 (مع رنگین تصاویر)
پبلشر : رومان پبلشنگ ہاؤس، رومان وِلا، 36، سکندر علی وجدؔ روڈ، دلرس کالونی، آصف باغ، گھاٹی، اورنگ آباد۔ 431001
مبصر : احسن امام احسنؔ
CMPDI, RI-VII, پانچویں منزل، سمنت پوری، بھوبنیشور 751013
موبائل : 9556873697

ڈاکٹر رفیع الدین ناصرکا شمار سائنسی ادب کے قلم کاروں میں صفِ اول میں ہوتا ہے۔ موصوف کئی کتابوں کے خالق ہیں۔ موصوف نے اس طرح کے موضوع کا انتحاب کیا جو اردو میں کم ہی لوگ کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ افسانہ، غزل، نظم، مقالہ، مضامین ان سب چیزوں پر کتابیں منظر عام پر لاتے ہیں. ہاں کچھ لوگ ہیں جو اس مختلف طرح کے موضوعات کو چنتے ہیں۔ جن میں محمد سراج الدین، اسلم پرویز، ایم ایم شیخ وغیرہ کا نام ذہن میں ہے. اور بھی کئی لوگ ہیں جو اس طرح کا کام کرتے ہیں. اس وقت ان کا نام ذہن میں نہیں ہے۔ لوگ ہیں مگر کم تعداد میں، اس طرح کے موضوع کو زیادہ تر لوگ ٹچ کرنا نہیں چاہتے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ناصر نے اپنی کتاب ”اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات“ برائے مطالعہ بھیجی ہے۔ ابھی ابھی ان کے استادِ محترم ایم ایم شیخ صاحب پر لکھ کر اٹھا ہوں، اور ناصر صاحب کے لیے قلم تھام لیا۔ آٹھ سال کی تحقیق کے بعد یہ کتاب مکمل کی ہے. آج کل ایک سال میں ایک شاعر کے دو مجموعے آجاتے ہیں. اس آٹھ سال میں سولہ مجموعے آ سکتے ہیں. مگر سائنس جیسے خشک موضوع پر اتنی آسانی سے کتابیں نہیں آتیں. اس میں محنت اور ریاضت کی ضرورت پڑتی ہے۔
ڈاکٹر رفیع الدین ناصر نے اردو میں ایک الگ طرح کا کام کیا ہے، اُن کی ابھی تک اردو اور انگلش زبان میں چالیس سے زیادہ سائنسی کتابیں، 350 سے زائد مضامین، 140 سے زیادہ ریڈیائی اور ٹی وی سائنسی تقاریر منظرعام پر آچکی ہیں۔ 18 ممالک کا انھوں نے سفر کر کے اپنے تحقیقی مقالات پیش کیے۔ اب تک اُن کے 39 تحقیقی مقالات دنیا بھر کے جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ وہ علاقہ کے واحد قومی اعزاز یافتہ معلم ہیں۔ اسی طرح اُن کو فرانس، بھوٹان، نیپال اور ملک میں مختلف اعزازات سے سرفراز کیا جاچکا ہے۔ اس طرح کے کام کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ ہر طرح کے پیڑ پودے کے متعلق جانکاری کے ساتھ اس کا طبی استعمال بھی بتایا ہے. یہ سب انھوں نے یوں ہی نہیں کیا، اس کے لیے تحقیق کے خاردار راستوں سے گزرنا پڑا۔ ڈاکٹر رفیع الدین ناصر لکھتے ہیں۔
”کسی نے بھی یہاں (اورنگ آباد) کے نباتات کے استعمال پر انفرادی طور پر تحقیق نہیں کی۔ راقم الحروف نے اورنگ آباد ضلع کے نباتات کے مختلف استعمال پر تحقیق کی اور زیر نظر کتاب میں ان نباتات کے صرف طبی استعمال کو پیش کیا۔ دورانِ تحقیق یہ بھی معلوم ہوا کہ ان نباتات کا استعمال نہ صرف انسانوں کے لیے بلکہ حیوانات کے علاج کے لیے، مختلف سماجی تقاریب میں، مختلف مذہبی تقاریب میں، اس کے علاوہ زراعتی اوزار بنانے میں، کار پینٹری میں اور تعمیرات میں کیا جاتا ہے۔“
ڈاکٹر رفیع الدین ناصر نے جس طرح نباتات پر جانکاری قاری کے سامنے پیش کی ہے اور اس کے فائدے، استعمال اور اس سے ہونے والے نقصانات کو بیان کیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ ناصر صاحب کی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی کام میں لگ جاتے ہیں تو دل و جان سے اس پر عمدہ کام کرتے ہیں۔ آپ غور کریں ایک پودے سے کئی طرح کے علاج اپنے تحقیقی کام میں بتایا ہے۔ یہ سب چیزیں تو عام قاری یا عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہے. ڈاکٹر رفیع الدین ناصر کی علمی و ادبی شخصیت کا روشن اور شان دار پہلو ان کے تخلیقی کاموں سے جھلکتا ہے۔ ناصر صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں. جتنا اہم کام وہ کر رہے ہیں، جڑی بوٹیوں سے بڑے سماجی مسائل میں سنجیدہ مطالعہ، عام آدمی نہیں کر سکتا یہ باتیں ہنوز توجہ طلب ہیں۔ ناصر صاحب نے پیڑ پودوں کے تئیں اپنے رویے میں جو بدلاؤ لایا ہے، وہ لوگوں کو ان کا گرویدہ بناتا ہے۔ ڈاکٹر محمد اقتدا حسین فاروقی صاحب ناصر صاحب کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"میں ڈاکٹر ناصر کی علمی سرگرمیوں سے خوب واقف ہوں اور ان کی فکری صلاحیتوں کا قائل ہوں۔ وہ نہ صرف مہاراشٹر بلکہ پورے ہندوستان میں اپنی علمی کاوشوں کی بنیاد پر جانے جاتے ہیں۔ دراصل ان کی ایک شخصیت میں کئی کردار پوشیدہ ہیں۔ بزرگوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت، کمزوروں پر رحم اور طلبا کی ترقی کی فکر ان کی طبیعت کا خاصہ ہے۔ وہ سائنسی مزاج، درسی و تدریسی امنگ، تحقیقی لگن و ادبی ذوق رکھتے ہیں۔”
ڈاکٹر رفیع الدین ناصر کا کام جن خوبیوں سے بھرا ہے، اسے اہل علم سمجھیں گے۔ موصوف نے بہت ہی سادہ زبان کا استعمال کر کے اپنی کتاب میں عام قاری کے لیے سب کچھ انڈیل دیا ہے۔ اس کام کے لیے انھیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے ہوں گے یہ تو ان کا دل ہی جانتا ہے۔ ایک اقتباس دیکھیے:
"پودوں کی معلومات کو ابتدا میں مقامی زبان میں حاصل کیا گیا۔ ان کے نام بھی مقامی زبان میں معلوم کئے گئے۔ بعد میں ان پودں کے اردو اور دیگر زبانوں میں رکھے گئے نام کو حاصل کیا گیا جہاں بھی دیگر زبانوں میں نام حاصل نہیں ہوئے انہیں مقامی حاصل کئے گئے نام سے ہی پیش کیا گیا۔ پودوں کے بارے میں جو بھی معلومات حاصل کی گئیں فیلڈ پر جاکر ذاتی طور پر اِن پودوں کو حاصل کیا گیا۔ اِس کی ہربیریم بنائی گئی اور ان تمام ہربیریم کو مولانا آزاد کالج، ڈاکٹر رفیق ذکریا کیمپس، روضہ باغ اورنگ آباد مہاراشٹر کے شعبۂ نباتیات کے ہربیریا میں محفوظ کیا گیا ہے تاکہ وقتِ ضرورت اسے ریفرنس کے طور پر حاصل کیا جا سکے."
اس اقتباس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کام میں کتنی محنت کی ضرورت پڑتی ہے، یوں گھر بیٹھے بیٹھے یہ ممکن نہیں، جنگلوں کی خاک چھاننے کے بعد ناصر صاحب نے عوام کے لیے کتنا قیمتی کام کیا اور اسے کتابی شکل میں پیش کر کے قاری کے لیے بہت بڑا کام کیا۔ عام قاری کے ساتھ مخصوص لوگ جو اس فیلڈ میں کام کرتے ہیں، ان کے لیے اچھا کام ہے۔ موصوف نے سبھی پودوں کا نام درج کیا ہے اور اس کا سائنسی نام بھی اپنی کتاب میں شامل کیا۔ ساتھ ہی ایک ایک پودے کے نام کے ساتھ اس کی دستیابی، ہیت اور طبّی استعمال سب کچھ عمدہ طریقے سے پیش کیا۔ یوں کہیں کہ مختصر میں سب کی جانکاری دے دی ہے۔ ان جڑی بوٹیوں کا استعمال کیسے کرنا ہے اور کب کرنا ہے، اس کے فوائد کیا ہیں، سنگھی بوٹی Abutilon indicum کے متعلق ایک اقتباس دیکھیں:
”اس کے چار سے پانچ پتے چونا اور کتھا لگے پان میں رکھ کر چبا کر پان کی پیک و رس کو ایک چھوٹے سے پلیٹ میں ڈال کر بچے کی پشت اور ریڑھ کی ہڈی پر آہستہ آہستہ سے مالش کرنے سے باریک باریک کیڑے پیٹھ پر نمودار ہوتے ہیں جن کو پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ عمل دو چار دن کرنے سے بچے کے پیٹ سے پورے کیڑے نکل جاتے ہیں۔ بچہ موٹا اور صحت مند ہو جاتا ہے۔ بواسیر کے لیے اس کے بیجوں کو ایک تا دو تولہ دیا جاتا ہے، پتوں کو پیس کر لگانے سے جلد کے مختلف امراض دور ہوتے ہیں۔ پتوں کا جوشاندہ کا غرارہ کرنے سے منہ کے امرض دور ہو جاتے ہیں۔“
ڈاکٹر ناصر نے اتنا کچھ عوام کے لیے کیا ہے تو میری ذاتی رائے ہے کہ اردو والے شعر، غزل، افسانہ کے علاوہ بھی ایسے موضوع پر لکھیں اور ایسے موضوع پر کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں، ایسے لوگوں پر مضمون لکھ کر اردو دنیا سے روشناس کرائیں۔ میں اپنی بات پروفیسر عبد القادر صاحب کی بات پر ختم کرتا ہوں:
"اگر آپ ڈاکٹر رفیع الدین ناصر کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو آپ کو بخوبی یہ اندازہ ہو جائے گا کہ آپ نے سائنس کے ہر مضمون کو اپنے مخصوص ادبی انداز سے سنوارا ہے کیوں کہ انہیں علم و ادب اور شاعروں سے کافی لگاؤ رہا ہے۔ وہ علمی اور ادبی محفلوں میں بڑے مشتاق نظر آتے ہیں اور سائنس سیمینار، ورک شاپ میں بھی بڑے مستعد اور توازن (Energetic) دکھائی دیتے ہیں۔”
***
Ahsan Imam Ahsan
CMPDI, RI-VII, 5th Floor, Samantpuri, Near Gandhi Park,
Po:- RRL, Bhubaneswar – 751013
Mob. 9556873697
***
آپ یہ تبصرہ بھی پڑھ سکتے ہیں :اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات:  ایک اہم تحقیقی کاوش

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے