اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات:  ایک اہم تحقیقی کاوش

اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات:  ایک اہم تحقیقی کاوش

عظیم انصاری، جگتدل، مغربی بنگال موبائل:9163194776

” اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات" قومی اعزاز یافتہ معلم ڈاکٹر رفیع الدین ناصر کی ایک اہم تحقیقی کاوش ہے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی چونتیسویں تصنیف ہے۔ اس سے قبل ان کی تینتیس کتابیں منصۂ شہود پر آکر سائنسی ادب کے باذوق قارئین سے داد و تحسین حاصل کرچکی ہیں اور اس کے بعد مزید تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کا شمار سائنسی ادب کے صفِ اوّل کے قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ یہ مولانا آزاد کالج’ اورنگ آباد` مہاراشٹر کے شعبۂ نباتیات کے صدر اور ریسرچ گائیڈ ہیں۔ بہت ہی فعال ادیب ہیں۔ ان کے تین سو سے زائد سائنسی مضامین قومی اور بین الاقوامی اخبارات و رسائل کی زینت بن چکے ہیں۔ بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت و تحقیقی مقالات کی پیشکش کے لیے اٹھارہ ممالک کے سفر کرچکے ہیں۔ وہ قاہرہ یونی ورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر اور ریفری بھی ہیں۔ ان کی کتابوں پر مہاراشٹر، بنگال اور اترپردیش اکیڈمیوں سے انعامات بھی مل چکے ہیں۔ اردو ادب کے لیے یہ باعث افتخار ہے کہ انھیں فرانس، بھوٹان اور نیپال جیسے ممالک نے بھی مختلف اعزازات و انعامات سے نوازا۔ سائنس جیسے خشک موضوع پر لکھنے والے ادبا کی تعداد اردو ادب میں بہت ہی کم ہے لیکن مجھے خوشی ہے کہ اردو ادب میں سائنسی مضامین لکھنے والا ڈاکٹر رفیع الدین ناصر جیسا ایک جیالا شخص بھی موجود ہے جس کا تعلق اس خانوادے سے ہے جو سائنسی ادب کے فروغ کے لیے ہمیشہ کوشاں ہے۔
تحقیقی کام آسان نہیں ہوتا ہے۔ اس میں منزل پانے کے لیے خاردار راہوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ تحقیق میں نئے علم کی تلاش ہوتی ہے اور موجودہ علم کے استعمال کو نئے تصورات، طریقِ کار اور تفہیم کے ذریعہ مزید وسعت دی جاتی ہے۔ اس میں ترکیب اور تحقیق کا تجزیہ اس حد تک ہوسکتا ہے کہ اس سے نئے تخلیقی نتائج برآمد ہوں۔ سائنسی تحقیق کچھ زیادہ ہی دشوار ہوا کرتی ہے۔ یہ وہ تحقیق ہے جو ڈیٹا کو حاصل کرنے، تجزیہ کرنے اور تشریح کرنے کے لیے منظم اور تعمیر شدہ سائنسی طریقوں کو استعمال کرکے کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ناصر ان تمام کوائف سے کلی طور سے واقف ہیں۔
زیرِ تبصرہ کتاب ”اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات" ڈاکٹر رفیع الدین ناصر کی ایک شان دار تحقیقی کاوش ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے 234 پودوں کا ذکرِ خاص کیا ہے۔ یہاں اس بات کا بھی ذکر کرتا چلوں کہ ان پودوں کے نام اردو حروفِ تہجی کے مطابق ترتیب دے گئے ہیں۔ کتاب کے آخر میں سائنسی نام کو انگریزی حروف تہجی کے مناسبت سے بھی سجایا گیا ہے۔ ان پودوں کی دستیابی کہاں ہوسکتی ہے؛ اس کی بھی نشان دہی کی گئی ہے۔ ان کے طبی فوائد کے متعلق ضروری معلومات بھی درج ہے۔ الغرض یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے جو گھر بیٹھے کرلیا گیا ہو۔ ملاحظہ فرمائیں ڈاکٹر رفیع الدین ناصر اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں: 
” زیرِ نظر کتاب دراصل اسی طرح کے تحقیقی کام کا نچوڑ ہے جو اورنگ آباد کے جنگلات پر آٹھ سال کی گئی ہیں۔ اس دوران اورنگ آباد ضلع کے تعلقہ جات کے مختلف جنگلات میں ماہرین کی مدد سے پودوں کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی۔ ان پودوں کو جمع کیا گیا۔ تجربہ گاہ میں مختلف ماہرینِ نباتات کی مدد سے ان پودوں کے سائنسی نام اور دیگر نام تلاش کئے گئے۔ (اپنی بات ص۔ XXI)
اس اقتباس سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر رفیع الدین ناصر نے کس تندہی، لگن اور مشقت سے یہ گراں قدر تحقیقی کارنامہ انجام دیا ہے۔ آٹھ برس کی طویل ریاضت کے بعد انھوں نے یہ کتاب ہم تک پہنچائی ہے۔ اس کام کے لیے انھوں نے مختلف دیہاتوں کے وید، حکیم، بھگت اور طبی ماہرین سے معلومات حاصل کی۔ صرف اتنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ جنگلات بھی گئے اور وہاں ان حضرات نے انھیں پودوں سے روشناس کرایا۔ ڈاکٹر موصوف نے پودوں کے نام کے ساتھ ان کی خصوصیات اور باریکیوں کو سمجھا، تجزیہ کیا، تب کہیں جاکر مطمئن ہوئے اور تمام معلومات کو ضبطِ تحریر میں لائے، اور تمام پودوں کو بہترین رنگین تصاویر کے ساتھ پیش کیا۔ اس کام میں محکمۂ جنگلات کے افسران کا تعاون بھی شامل حال رہا۔ ان تمام باتوں کا ذکر میں اس لیے کررہا ہوں کہ آپ ڈاکٹر رفیع الدین ناصر کے کام کرنے کی اسپرٹ کو سمجھ سکیں۔ مشہور فلسفی بقراط نے قیاس اور تجربے کے علاوہ یقینی مشاہدے کو تحقیق کے لیے ضروری بتایا تھا۔ لگتا ہے ڈاکٹر موصوف بھی اسی خیال کے حامی ہیں اور وہ تحقیقی کام کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے ذہنی یکسوئی کے ساتھ، موضوع سے ہم آہنگ ہوکر اپنی طے شدہ منزل تک پہنچنے کا راستہ ہموار کر لیتے ہیں۔ پودوں کے متعلق اس قدر معلومات اکٹھا کرنا اور اس کا تجزیہ کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ پودوں کے متعلق ڈاکٹر عزیز احمد عرسی کا کہنا ہے:
” پودوں کا انسان سے رشتہ نہایت قدیم ہے۔ ہم اس رشتے کو طلوعِ انسانیت سے جوڑ سکتے ہیں جہاں انسان اپنی ضروریات جیسے غذا، ادویات اور رہائش کے لیے پودوں اور درختوں کو استعمال کرنا شروع کیا۔" (مقدمہ۔ بنیادی نباتات)
اس بات سے ڈاکٹر موصوف اچھی طرح واقف ہیں تبھی تو وہ کہتے ہیں:
” اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار وسائل کی دولت سے مالا مال کیا ہے جس میں درخت بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ ہمیں ہر طرح سے فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ہمیں زندہ رہنے کے لیے آسانیاں بہم پہنچاتے ہیں۔ قدرت کے اس لازوال دولت کا اگر ہم تفصیلی مطالعہ کریں تو ہمارا ذہن اس کے اختتام تک نہیں پہنچ سکتا۔"
(اپنی بات۔ اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات)
زیرِ تبصرہ کتاب کا موضوع گرچہ بہت سخت ہے لیکن ڈاکٹر رفیع الدین ناصر کا کمال یہ ہے کہ اس موضوع کو انھوں نے سہل اور رواں دواں زبان میں لکھا ہے کہ عام قاری بھی پودوں اور اس کی افادیت کو آسانی سے سمجھ لے۔ ادبی چاشنی بھی خوب ہے۔ سائنس اور ادب کا یہ حسین امتزاج ان کی فنکاری کی دلیل ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ ان کی تحریر میں بتدریج گہرائی اور پختگی آئی ہے۔ موصوف کی نگارشات میں علمی بصیرت، زبان و بیان کی چاشنی اور محققانہ حسن کاری کے عمدہ نمونے ملتے ہیں۔ وہ ثقیل الفاظ سے اپنی تحریر کو بوجھل نہیں ہونے دیتے۔
مجموعی طور پر ” اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات" نہ صرف تحقیق کا ایک قابلِ ذکر کارنامہ ہے بلکہ متاعِ بیش بہا ہے۔
اس زبردست تحقیقی کاوش کے لیے میں موصوف کو مبارکباد پیش کرتاہوں۔ دعاگو ہوں کہ اردو ادب کا یہ جیالا صحت مند اور توانا رہے تاکہ اس  کی تحقیقی کتابوں سے اردو ادب مالا مال ہوتا رہے۔
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :” دو گھنٹے کی محبت" اور عظیم انصاری بہ حیثیت مترجم

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے