دلشاد دل سکندر پوری
میں نے کل پاؤں ترے شہر میں کیا رکھا تھا
دل کی ہر موج نے طوفان اٹھا رکھا تھا
لوگ بخشش کی دعا مانگ رہے تھے جس شب
میں نے ہونٹوں پہ ترا نام سجا رکھا تھا
کشتیاں اپنی تھکن آج اتاریں کیسے
آج ساحل نے بھی طوفان چھپا رکھا تھا
کس طرح لٹ گئی بازار میں عصمت تیری
میں نے تو سر پہ ترے طوق حیا رکھا تھا
تو تو دریا ہے میری پیاس سے کیا الجھے گا
ٹھوکروں میں میری کل کرب و بلا رکھا تھا
ڈھلتے سورج سے اندھیروں نے کیا تھا حملہ
آبرو گھر کی چراغوں نے بچا رکھا تھا
میرے فن نے مجھے بخشی ہے ادب میں شہرت
ورنہ دنیا نے میرا نام دبا رکھا تھا
دھوپ نفرت کی جڑیں کاٹ رہی ہیں اس کی
ہم نے جو پیڑ محبّت کا لگا رکھا تھا
دل اندھیروں کا گزر کیسے وہاں ہو جاتا
ہم نے آنگن میں چراغوں کو جلا رکھا تھا
***
صاحب غزل کی گذشتہ غزل :دل کو اس دل سے ملانے کی ضرورت کیا تھی
میں نے کل پاؤں ترے شہر میں کیا رکھا تھا
شیئر کیجیے